Ayats Found (10)
Surah 2 : Ayat 3
ٱلَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِٱلْغَيْبِ وَيُقِيمُونَ ٱلصَّلَوٲةَ وَمِمَّا رَزَقْنَـٰهُمْ يُنفِقُونَ
جو غیب پر ایمان لاتے ہیں، نماز قائم کرتے ہیں، جو رزق ہم نے اُن کو دیا ہے، اُس میں سے خرچ کرتے ہیں3
3 | یہ قرآن کی رہنمائی سے فائدہ اُٹھانے کے لیے چوتھی شرط ہے کہ آدمی تنگ دل نہ ہو، زر پرست نہ ہو، اس کے مال میں خدا اور بندوں کے جو حقوق مقرر کیے جائیں اُنہیں ادا کرنے کے لیے تیار ہو، جس چیز پر ایمان لایا ہے اس کی خاطر مالی قربانی کرنے میں بھی دریغ نہ کرے |
Surah 2 : Ayat 5
أُوْلَـٰٓئِكَ عَلَىٰ هُدًى مِّن رَّبِّهِمْۖ وَأُوْلَـٰٓئِكَ هُمُ ٱلْمُفْلِحُونَ
ایسے لوگ اپنے رب کی طرف سے راہ راست پر ہیں اور وہی فلاح پانے والے ہیں
Surah 23 : Ayat 1
قَدْ أَفْلَحَ ٱلْمُؤْمِنُونَ
یقیناً فلاح پائی ہے ایمان والوں نے1 جو2:
2 | یہاں سے آیت 9 تک ایمان لانے والوں کی جو صفات بیان کی گئی ہیں وہ گویا دلیلیں ہیں اس دعوے کی کہ انہوں نے ایمان لا کر در حقیقت فلاح پائی ہے۔ بالفاظ دیگر گویا یوں کہا جا رہا ہے کہ ایسے لوگ آخر کیوں کر فلاح یاب نہ ہوں جن کی یہ اور یہ صفات ہیں۔ ان اوصاف کے لوگ ناکام و نامراد کیسے ہو سکتے ہیں۔ کامیابی انہیں نصیب نہ ہو گی تو اور کنھیں ہو گی |
1 | ایمان لانے والوں سے مراد وہ لوگ ہیں جنہوں نے محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی دعوت قبول کر لی آپ کو اپنا ہادی و رہبر مان لیا، اور اس طریق زندگی کی پیروی پر راضی ہو گۓ جسے آپ نے پیش کیا ہے۔ فلاح کے معنی ہیں کامیابی و خوشحالی۔ یہ لفظ خسران کی ضد ہے جو ٹوٹے اور گھاٹے اور نا مرادی کے معنی میں بولا جاتا ہے۔ اَفْلَحَ الرّجل کے معنی ہیں فلاں شخص کامیاب ہوا، اپنی مراد کو پہنچا، آسودہ و خوشحال ہو گیا، اس کی کو شش بار آور ہوئی۔ اس کی حالت اچھی ہو گئی۔ قَدْ اَفْلَحَ ’’یقیناً فلاح پائی ‘‘َ آغاز کلام ان الفاظ سے کرنے کی معنویت اس وقت تک سمجھ میں نہیں آ سکتی جب تک وہ ماحول نگاہ میں نہ رکھا جائے جس میں یہ تقریر کی جا رہی تھی۔ اس وقت ایک طرف دعوت اسلامی کے مخالف سرداران مکہ تھے جن کی تجارتیں چمک رہی تھیں ، جن کے پاس دولت کی ریل پیل تھی ، جن کو دنیوی خوشحالی کے سرے لوازم میسر تھے۔اور دوسری طرف دعوت اسلامی کے پیرو تھے جن میں سے اکثر تو پہلے ہی غریب اور خستہ حال تھے ، اور بعض جو اچھے کھاتے پیتے گھرانوں سے تعلق رکھتے تھے یا اپنے کاروبار میں پہلے کامیاب تھے ، ان کو بھی اب قوم کی مخالفت نے بد حال کر دیا تھا۔ اس صورت حال میں جب تقریر کا آغاز اس فقرے سے کیا گیا کہ ’’یقیناً فلاح پائی ہے ایمان لانے والوں نے ‘‘ تو اس سے خود بخود یہ مطلب نکلا کہ تمہارا معیار فلاح و خسران غلط ہے ، تمہارے اندازے غلط ہیں ، تمہاری نگاہ دور رس نہیں ہے ، تم اپنی جس عارضی و محدود خوشحالی کو فلاح سمجھ رہے ہو وہ فلاح نہیں خسران ہے ، اور محمد صلی اللہ علیہ و سلم کے ماننے والوں کو جو تم ناکام و نامراد سمجھ رہے ہو وہ دراصل کامیاب و با مراد ہیں۔ اس دعوت حق کو مان کر انہوں نے خسارے کا سودا نہیں کیا ہے بلکہ وہ چیز پائی ہے جو دنیا اور آخرت دونوں میں ان کو پائدار خوشحالی سے ہم کنار کرے گی۔ اور اسے رد کر کے در اصل خسارے کا سودا تم نے کیا ہے جس کے بڑے نتائج تم یہاں بھی دیکھو گے اور دنیا سے گزر کر دوسری زندگی میں بھی دیکھتے رہو گے۔ یہی اس سورے کا مرکزی مضمون ہے اور ساری تقریر اول سے آخر تک اسی مدعا کو ذہن نشین کرنے کے لیے کی گئی ہے |
Surah 23 : Ayat 2
ٱلَّذِينَ هُمْ فِى صَلَاتِهِمْ خَـٰشِعُونَ
اپنی نماز میں خشوع 1اختیار کرتے ہیں
1 | خشوع کے اصل معنی ہیں کسی کے آگے جھک جانا ، دب جانا، اظہار عجز و انکسار کرنا۔ اس کیفیت کا تعلق دل سے بھی ہے اور جسم کی ظاہری حالت سے بھی۔ دل کا خشوع یہ ہے کہ آدمی کسی کی ہیبت اور عظمت و جلال سے مرعوب ہو۔ اور جسم کا خشوع یہ ہے کہ جب وہ اس کے سامنے جائے تو سر جھک جائے ، اعضاء ڈھیلے پڑ جائیں ، نگاہ پست ہو جائے ، آواز دب جائے ، اور ہیبت زدگی کے وہ سارے آثار اس پر طاری ہو جائیں جو اس حالت میں فطرتاً طاری ہو جایا کرتے ہیں جب کہ آدمی کسی زبردست با جبروت ہستی کے حضور پیش ہو۔ نماز میں خشوع سے مراد دل اور جسم کی یہی کیفیت ہے اور یہی نماز کی اصل روح ہے۔ حدیث میں آتا ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے ایک شخص کو دیکھا کہ نماز پڑھ رہا ہے اور ساتھ ساتھ ڈاڑھی کے بالوں سے کھیلتا جاتا ہے۔ اس پر آپ نے فرمایا : لو خشع قلبہ خشعت جوارحہ ، ’’اگر اس کے دل میں خشوع ہوتا تو اس کے جسم پر بھی خشوع طاری ہوتا‘‘۔ اگر چہ خشوع کا تعلق حقیقت میں دل سے ہے اور دل کا خشوع آپ سے آپ جسم پر طاری ہوتا ہے ، جیسا کہ مذکورہ بالا حدیث سے ابھی معلوم ہوا۔ لیکن شریعت میں نماز کے کچھ ایسے آداب بھی مقرر کر دیے گۓ ہیں جو ایک طرف قلبی خشوع میں مدد گار ہوتے ہیں اور دوسری طرف خشوع کی گھٹتی بڑھتی کیفیات میں فعل نماز کو کم از کم ظاہری حیثیت سے ایک معیار خاص پر قائم رکھتے ہیں۔ ان آداب میں سے ایک یہ ہے کہ آدمی دائیں بائیں نہ مڑے اور نہ سر اُٹھا کر اوپر کی طرف دیکھے (زیادہ سے زیادہ صرف گوشہ چشم سے ادھر اُدھر دیکھا جا سکتا ہے۔ حنفیہ اور شافعیہ کے نزدیک نگاہ سجدہ گاہ سے متجاوز نہ ہونی چاہیے ، مگر مالکہی اس بات کے قائل ہیں کہ نگاہ سامنے کی طرف رہنی چاہیے )۔ نماز میں ہلنا اور مختلف سمتوں میں جھکنا بھی ممنوع ہے۔ کپڑوں کو بار بار سمیٹنا ، یا ان کو جھاڑنا ، یا ان سے شغل کرنا بھی ممنوع ہے۔ اس بات سے بھی منع کیا گیا ہے کہ سجدے میں جاتے وقت آدمی اپنے بیٹھنے کی جگہ یا سجدے کی جگہ صاف کرنے کی کوشش کرے۔ تن کر کھڑے ہونا بہت بلند آواز سے کڑک کر قرأت کرنا ، یا قرأت میں گانا بھی آداب نماز کے خلاف ہے۔ زور زور سے جماہیاں لینا اور ڈکاریں مارنا بھی نماز میں بے ادبی ہے۔ جلدی جلدی مارا مار نماز پڑھنا بھی سخت نا پسندیدہ ہے۔ حکم یہ ہے کہ نماز کا ہر فعل پوری طرح سکون اور اطمینان سے ادا کیا جائے اور ایک فعل، مثلاً رکوع یا سجود یا قیام یا قعود جب تک مکمل نہ ہو لے دوسرا فعل شروع نہ کیا جائے۔ نماز میں اگر کوئی چیز اذیت دے رہی ہو تو اسے ایک ہاتھ سے دفع کیا جا سکتا ہے ، مگر بار بار ہاتھوں کو حرکت دینا، یا دونوں ہاتھوں کو استعمال کرنا ممنوع ہے۔ ان ظاہر آداب کے ساتھ یہ چیز بھی بڑی اہمیت رکھتی ہے کہ آدمی نماز میں جان بوجھ کر غیر متعلق باتیں سوچنے سے پرہیز کرے۔ بلا ارادہ خیالات ذہن میں آئیں اور آتے رہیں تو یہ نفس انسانی کی ایک فطری کمزوری ہے۔ لیکن آدمی کی پوری کوشش یہ ہونی چاہیے کہ نماز کے وقت اس کا دل خدا کی طرف متوجہ ہو اور جو کچھ وہ زبان سے کہہ رہا ہو وہی دل سے بھی عرض کرے۔اس دوران میں اگر بے اختیار دوسرے خیالات آ جائیں تو جس وقت بھی آدمی کو انکا احساس ہو اسی وقت اسے اپنی توجہ ان سے ہٹا کر نماز کی طرف پھیر لینی چاہیے |
Surah 23 : Ayat 9
وَٱلَّذِينَ هُمْ عَلَىٰ صَلَوَٲتِهِمْ يُحَافِظُونَ
اور اپنی نمازوں کی محافظت کرتے ہیں1
1 | اوپر خشوع کے ذکر میں ’’نماز‘‘ فرمایا تھا اور یہاں ’’نمازوں ‘‘ بصیغۂ جمع ارشاد فرمایا ہے۔ دونوں میں فرق یہ ہے وہاں جنس نماز مراد تھی اور یہاں ایک ایک وقت کی نماز فرداً فرداً مراد ہے۔ ’’ نمازوں کی محافظت ‘‘ کا مطلب یہ ہے کہ وہ اوقات نماز، آداب نماز ، ارکان و اجزائے نماز، غرض نماز سے معلق رکھنے ولی ہر چیز کی پوری نگہداشت کرتے ہیں۔ جسم اور کپڑے پاک رکھتے ہیں۔ وضو ٹھیک طرح سے کرتے ہیں اور اس بات کا خیال رکھتے ہیں کہ کبھی بے وضو نہ پڑھ بیٹھیں۔ صحیح وقت پر نماز اد کرنے کی فکر کرتے ہیں ، وقت ٹال کر نہیں پڑھتے۔ نماز کے تمام ارکان پوری طرح سکون و اطمینان کے ساتھ ادا کرتے ہیں ، ایک بوجھ کی طرح جلدی سے اتار کر بھاگ نہیں جاتے۔ اور جو کچھ نماز میں پڑھتے ہیں وہ اس طرح پڑھتے ہیں کہ جیسے بندہ اپنے خدا سے کچھ عرض کر رہا ہے ، نہ اس طرح کہ گویا ایک رٹی ہوئی عبارت کو کسی نہ کسی طور پر ہوا میں پھونک دینا ہے |
Surah 23 : Ayat 11
ٱلَّذِينَ يَرِثُونَ ٱلْفِرْدَوْسَ هُمْ فِيهَا خَـٰلِدُونَ
جو میراث میں فردوس1 پائیں گے اور اس میں ہمیشہ رہیں گے2
2 | ان آیات میں چار اہم مضمون ادا ہوئے ہیں : اول یہ کہ جو لوگ بھی قرآن اور محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی بات مان کر یہ اوصاف اپنے اندر پیدا کر لیں گے اور اس رویے کے پابند ہو جائیں گے وہ دنیا اور آخرت میں فلاح پائیں گے ، قطع نظر اس سے کہ کسی قوم ، نسل یا ملک کے ہوں۔ دوم یہ کہ فلاح محض اقرار ایمان، یا محض اخلاق اور عمل کی خوبیوں کا نتیجہ نہیں ہے بلکہ دونوں کے اجتماع کا نتیجہ ہے جب آدمی خدا کی بھیجی ہوئی ہدایت کو مانے ، پھر اس کے مطابق اخلاق اور عمل کی خوبیاں اپنے اندر پیدا کر لے ، تب وہ فلاح سے ہمکنار ہو گا۔ سوم یہ کہ فلاح محض دنیوی اور مادی خوش حالی اور محدود وقتی کامیابیوں کا نام نہیں ہے ، بلکہ وہ ایک وسیع تر حالت خیر کا نام ہے جس کا اطلاق دنیا اور آخرت میں پائدار و مستقل کامیابی و آسودگی پر رہتا ہے۔ یہ چیز ایمان و عمل صالح کے بغیر نصیب نہیں ہوتی۔ اور اس کلیے کو نہ تو گمراہوں کی وقتی خوش حالیاں اور کامیابیاں توڑتی ہیں ، نہ مومنین صالحین کے عارضی مصائب کو اس کی نقیض ٹھیرایا جا سکتا ہے۔ چہارم یہ کہ مومنین کے ان اوصاف کو نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے متن کی صداقت کے لئے دلیل کے طور پر پیش کیا گیا ہے ، اور یہی مضمون آگے کی تقریر سے ان آیات کا ربط قائم کرتا ہے۔ تیسرے رکوع کے خاتمے تک کی پوری تقریر کا سلسلہ استدلال اس طرح پر ہے کہ آغاز میں تجربی دلیل ہے ، یعنی یہ کہ اس نبی کی تعلیم نے خود تمہاری ہی سوسائٹی کے افراد میں یہ سیرت و کردار اور یہ اخلاق و اوصاف پیدا کر کے دکھائے ہیں ، اب تم خود سوچ لو کہ یہ تعلیم حق نہ ہوتی تو ایسے صالح نتائج کس طرح پیدا کر سکتی تھی۔ اس اس کے بعد مشاہداتی دلیل ہے ، یعنی یہ کہ انسان کے اپنے وجود میں اور گرد و پیش کی کائنات میں جو آیات نظر آتی ہیں وہ سب توحید اور آخرت کی اس تعلیم کے بر حق ہونے کی شہادت دے رہی ہیں جسے محمد صلی اللہ علیہ و سلم پیش کرتے ہیں۔ پھر تاریخی دلائل آتے ہیں ، جن میں بتایا گیا ہے کہ نبی اور اس کے منکرین کی کش مکش آج نئی نہیں ہے بلکہ انہی بنیادوں پر قدیم ترین زمانے سے چلی آ رہی ہے اور اس کش مکش کا ہر زمانے میں ایک ہی نتیجہ برآمد ہوتا رہا ہے جس سے صاف طور پر معلوم ہو جاتا ہے کہ فریقین میں سے حق پر کون تھا اور باطل پر کون |
1 | فردوس، جنت کے لیے معروف ترین لفظ ہے جو قریب قریب تمام انسانی زبانوں میں مشرک طور پر پایا جاتا ہے۔ سنسکرت میں پَردِیْشَا ، قدیم کلدانی زبان میں پردیسا، قدیم ایرانی (ژند) میں پیری وائزا ،عبرانی میں پردیس، ارضی میں پردیز ، سُریانی میں فردیسو، یونانی میں پارا دئسوس، لاطینی میں پاراڈائسس، اور عربی میں فردوس۔ یہ لفظ ان سب زبانوں میں ایک ایسے باغ کے یے بولا جاتا ہے جس کے گرد حصار کھنچا ہوا ہو، وسیع ہو، آدمی کی قیام گاہ سے متصل ہو، اور اس میں ہر قسم کے پھل،خصوصاً انگور پائے جاتے ہوں۔ بلکہ بعض زبانوں میں تو منتخب پالتو پرندوں اور جانوروں کا بھی پایا جانا اس کے مفہوم میں شامل ہے۔ قرآن سے پہلے عرب کے کلام جاہلیت میں بھی لفظ فردوس مستعمل تھا۔ اور قرآن میں اس کا اطلاق متعدد باغوں کے مجموعے پر کیا گیا ہے ، جیسا کہ سورہ کہف میں ارشد ہوا : کَانَتْ لَھُمْ جَنّٰتُ الْفِرْدَوْسِ نُزُلاً ، ’’ ان کی میزبانی کے لیے فردوس کے باغ ہیں ‘‘۔ اس سے جو تصور ذہن میں آتا ہے وہ یہ ہے کہ فردوس ایک بڑی جگہ ہے جس میں بکثرت باغ اور چمن اور گلشن پائے جاتے ہیں۔ اہل ایمان کے وارث فردوس ہونے پر سورہ طٰہٰ (حاشیہ 83 ) ، اور سورہ انبیاء (حاشیہ 99 میں کافی روشنی ڈالی جا چکی ہے |
Surah 31 : Ayat 1
الٓمٓ
الم
Surah 31 : Ayat 5
أُوْلَـٰٓئِكَ عَلَىٰ هُدًى مِّن رَّبِّهِمْۖ وَأُوْلَـٰٓئِكَ هُمُ ٱلْمُفْلِحُونَ
یہی لوگ اپنے رب کی طرف سے راہِ راست پر ہیں اور یہی فلاح پانے والے ہیں1
1 | جس زمانہ میں یہ آیات نازل ہوئی ہیں اُس وقت کفّارِ مکّہ یہ سمجھتے تھے اورعلانیہ کہتے بھی تھے کہ محمّد صلی اللہ علیہ و سلم اور اُن کی دعوت کو قبول کرنے والے لوگ اپنی زندگی برباد کر رہے ہیں۔ اِس لئے حصر کے ساتھ اور پورے زور کے ساتھ اور پورے زور کے ساتھ فرمایا گیا کہ’’یہی فلاح پانے والے ہیں‘‘ یعنی یہ برباد ہونے والے نہیں ہیں جیسا کہ تم اپنے خیالِ خام میں سمجھ رہے ہو بلکہ دراصل فلاح یہی لوگ پانے والے ہیں اور اُس سے محروم رہنے والے وہ ہیں جنھوں نے اس راہ کو اختیار کرنے سے اِنکار کیا ہے۔ یہاں قرآن کے حقیقی مفہوم کو سمجھنے میں وہ شخص سخت غلطی کرے گا جو فلاح کو صرف اس دُنیا کی حد تک اور وہ بھی صرف مادّی خوشحالی کے معنی میں لے گا۔ فلاح کا قرآنی تصوّر معلوم کرنے کے لئے حسب ذیل آیات کو تفہیم القرآن کے تشریحی حواشی کے ساتھ بغور دیکھنا چاہیے : البقرہ، آیات ۲ تا ۵۔ آل عمران، آیات ۱۰۲، ۱۳۰، ۲۰۰۔ المائدہ، آیات ۳۵، ۹۰ الانعام، ۲۱۔ الاعراف، آیات ۷، ۸، ۱۵۷۔ التوبہ، ۸۸۔ یونس، ۱۷۔ النحل، ۱۱۶۔ الحج، ۷۷۔ المومنون، ۱۔۱۱۷۔ النور، ۵۱۔ الروم، ۳۸ |
Surah 87 : Ayat 14
قَدْ أَفْلَحَ مَن تَزَكَّىٰ
فلاح پا گیا وہ جس نے پاکیزگی اختیار کی1
1 | پاکیزگی سے مراد ہے کفروشرک چھوڑ کر ایمان لانا، برے اخلاق چھوڑ کر اچھے اخلاق اختیار کرنا، اور برے اعمال چھوڑ کر نیک اعمال کرنا، فلاح سے مراد دینوی خوشحالی نہیں ہے بلکہ حقیقی کامیابی ہے، خواہ دنیا کی خوشحالی اس کے ساتھ میسر ہو یا نہ ہو (تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم ا لقرآن ، جلد دوم، یونس، حاشیہ 32۔ جلد سوم، المومنون ، حواشی1۔11۔50۔ جلد چہارم، لقمان، حاشیہ4) |
Surah 87 : Ayat 15
وَذَكَرَ ٱسْمَ رَبِّهِۦ فَصَلَّىٰ
اور اپنے رب کا نام یاد کیا1 پھر نماز پڑھی2
2 | یعنی صرف یاد کر کے رہ نہیں گیا بلکہ نماز کی پابندی اختیار کر کے اس نے ثابت کر دیا کہ جس خدا کو وہ اپنا خدا مان رہا ہے اس کی اطاعت کے لیے وہ عملاً تیار ہے اور اس کو ہمیشہ یاد کرتے رہنے کا اہتمام کر رہا ہے، اس آیت میں علی الترتیب دو باتوں کا ذکر کیا گیا ہے۔ پہلے اللہ کو یاد کرنا، پھر نماز پڑھنا، اسی کے مطابق یہ طریقہ مقرر کیا گیا ہے کہ اللہ اکبر کہہ کر نماز کی ابتدا کی جائے۔ یہ من جملہ ان شواہد کے ہے جن سے معلوم ہوتا ہے کہ نماز کا جو طریقہ رسول اللہ ﷺ نے بتایا ہے اس کے تمام اجزاء قرآنی اشارات پر مبنی ہیں۔ مگر اللہ کے رسول کے سوا ان ارشادات کو جمع کر کے کوئی شخص بھی نماز کی یہ ہیئت ترتیب نہیں دے سکتا تھا۔ |
1 | یاد سے مراد دل میں بھی اللہ کو یاد کرنا ہے ا ور زبان سے بھی اس کا ذکر کرنا ہے۔ دونوں چیزیں ذکر الہی کی تعریف میں آتی ہیں۔ |