Ayats Found (17)
Surah 23 : Ayat 9
وَٱلَّذِينَ هُمْ عَلَىٰ صَلَوَٲتِهِمْ يُحَافِظُونَ
اور اپنی نمازوں کی محافظت کرتے ہیں1
1 | اوپر خشوع کے ذکر میں ’’نماز‘‘ فرمایا تھا اور یہاں ’’نمازوں ‘‘ بصیغۂ جمع ارشاد فرمایا ہے۔ دونوں میں فرق یہ ہے وہاں جنس نماز مراد تھی اور یہاں ایک ایک وقت کی نماز فرداً فرداً مراد ہے۔ ’’ نمازوں کی محافظت ‘‘ کا مطلب یہ ہے کہ وہ اوقات نماز، آداب نماز ، ارکان و اجزائے نماز، غرض نماز سے معلق رکھنے ولی ہر چیز کی پوری نگہداشت کرتے ہیں۔ جسم اور کپڑے پاک رکھتے ہیں۔ وضو ٹھیک طرح سے کرتے ہیں اور اس بات کا خیال رکھتے ہیں کہ کبھی بے وضو نہ پڑھ بیٹھیں۔ صحیح وقت پر نماز اد کرنے کی فکر کرتے ہیں ، وقت ٹال کر نہیں پڑھتے۔ نماز کے تمام ارکان پوری طرح سکون و اطمینان کے ساتھ ادا کرتے ہیں ، ایک بوجھ کی طرح جلدی سے اتار کر بھاگ نہیں جاتے۔ اور جو کچھ نماز میں پڑھتے ہیں وہ اس طرح پڑھتے ہیں کہ جیسے بندہ اپنے خدا سے کچھ عرض کر رہا ہے ، نہ اس طرح کہ گویا ایک رٹی ہوئی عبارت کو کسی نہ کسی طور پر ہوا میں پھونک دینا ہے |
Surah 23 : Ayat 11
ٱلَّذِينَ يَرِثُونَ ٱلْفِرْدَوْسَ هُمْ فِيهَا خَـٰلِدُونَ
جو میراث میں فردوس1 پائیں گے اور اس میں ہمیشہ رہیں گے2
2 | ان آیات میں چار اہم مضمون ادا ہوئے ہیں : اول یہ کہ جو لوگ بھی قرآن اور محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی بات مان کر یہ اوصاف اپنے اندر پیدا کر لیں گے اور اس رویے کے پابند ہو جائیں گے وہ دنیا اور آخرت میں فلاح پائیں گے ، قطع نظر اس سے کہ کسی قوم ، نسل یا ملک کے ہوں۔ دوم یہ کہ فلاح محض اقرار ایمان، یا محض اخلاق اور عمل کی خوبیوں کا نتیجہ نہیں ہے بلکہ دونوں کے اجتماع کا نتیجہ ہے جب آدمی خدا کی بھیجی ہوئی ہدایت کو مانے ، پھر اس کے مطابق اخلاق اور عمل کی خوبیاں اپنے اندر پیدا کر لے ، تب وہ فلاح سے ہمکنار ہو گا۔ سوم یہ کہ فلاح محض دنیوی اور مادی خوش حالی اور محدود وقتی کامیابیوں کا نام نہیں ہے ، بلکہ وہ ایک وسیع تر حالت خیر کا نام ہے جس کا اطلاق دنیا اور آخرت میں پائدار و مستقل کامیابی و آسودگی پر رہتا ہے۔ یہ چیز ایمان و عمل صالح کے بغیر نصیب نہیں ہوتی۔ اور اس کلیے کو نہ تو گمراہوں کی وقتی خوش حالیاں اور کامیابیاں توڑتی ہیں ، نہ مومنین صالحین کے عارضی مصائب کو اس کی نقیض ٹھیرایا جا سکتا ہے۔ چہارم یہ کہ مومنین کے ان اوصاف کو نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے متن کی صداقت کے لئے دلیل کے طور پر پیش کیا گیا ہے ، اور یہی مضمون آگے کی تقریر سے ان آیات کا ربط قائم کرتا ہے۔ تیسرے رکوع کے خاتمے تک کی پوری تقریر کا سلسلہ استدلال اس طرح پر ہے کہ آغاز میں تجربی دلیل ہے ، یعنی یہ کہ اس نبی کی تعلیم نے خود تمہاری ہی سوسائٹی کے افراد میں یہ سیرت و کردار اور یہ اخلاق و اوصاف پیدا کر کے دکھائے ہیں ، اب تم خود سوچ لو کہ یہ تعلیم حق نہ ہوتی تو ایسے صالح نتائج کس طرح پیدا کر سکتی تھی۔ اس اس کے بعد مشاہداتی دلیل ہے ، یعنی یہ کہ انسان کے اپنے وجود میں اور گرد و پیش کی کائنات میں جو آیات نظر آتی ہیں وہ سب توحید اور آخرت کی اس تعلیم کے بر حق ہونے کی شہادت دے رہی ہیں جسے محمد صلی اللہ علیہ و سلم پیش کرتے ہیں۔ پھر تاریخی دلائل آتے ہیں ، جن میں بتایا گیا ہے کہ نبی اور اس کے منکرین کی کش مکش آج نئی نہیں ہے بلکہ انہی بنیادوں پر قدیم ترین زمانے سے چلی آ رہی ہے اور اس کش مکش کا ہر زمانے میں ایک ہی نتیجہ برآمد ہوتا رہا ہے جس سے صاف طور پر معلوم ہو جاتا ہے کہ فریقین میں سے حق پر کون تھا اور باطل پر کون |
1 | فردوس، جنت کے لیے معروف ترین لفظ ہے جو قریب قریب تمام انسانی زبانوں میں مشرک طور پر پایا جاتا ہے۔ سنسکرت میں پَردِیْشَا ، قدیم کلدانی زبان میں پردیسا، قدیم ایرانی (ژند) میں پیری وائزا ،عبرانی میں پردیس، ارضی میں پردیز ، سُریانی میں فردیسو، یونانی میں پارا دئسوس، لاطینی میں پاراڈائسس، اور عربی میں فردوس۔ یہ لفظ ان سب زبانوں میں ایک ایسے باغ کے یے بولا جاتا ہے جس کے گرد حصار کھنچا ہوا ہو، وسیع ہو، آدمی کی قیام گاہ سے متصل ہو، اور اس میں ہر قسم کے پھل،خصوصاً انگور پائے جاتے ہوں۔ بلکہ بعض زبانوں میں تو منتخب پالتو پرندوں اور جانوروں کا بھی پایا جانا اس کے مفہوم میں شامل ہے۔ قرآن سے پہلے عرب کے کلام جاہلیت میں بھی لفظ فردوس مستعمل تھا۔ اور قرآن میں اس کا اطلاق متعدد باغوں کے مجموعے پر کیا گیا ہے ، جیسا کہ سورہ کہف میں ارشد ہوا : کَانَتْ لَھُمْ جَنّٰتُ الْفِرْدَوْسِ نُزُلاً ، ’’ ان کی میزبانی کے لیے فردوس کے باغ ہیں ‘‘۔ اس سے جو تصور ذہن میں آتا ہے وہ یہ ہے کہ فردوس ایک بڑی جگہ ہے جس میں بکثرت باغ اور چمن اور گلشن پائے جاتے ہیں۔ اہل ایمان کے وارث فردوس ہونے پر سورہ طٰہٰ (حاشیہ 83 ) ، اور سورہ انبیاء (حاشیہ 99 میں کافی روشنی ڈالی جا چکی ہے |
Surah 25 : Ayat 63
وَعِبَادُ ٱلرَّحْمَـٰنِ ٱلَّذِينَ يَمْشُونَ عَلَى ٱلْأَرْضِ هَوْنًا وَإِذَا خَاطَبَهُمُ ٱلْجَـٰهِلُونَ قَالُواْ سَلَـٰمًا
رحمان کے (اصلی) بندے1 وہ ہیں جو زمین پر نرم چال چلتے ہیں2 اور جاہل ان کے منہ کو آئیں تو کہہ دیتے ہیں کہ تم کو سلام3
3 | جاہل سے مراد ان پڑھ یا بے علم آدمی نہیں ، بلکہ وہ شخص ہے جو جہالت پر اتر آئے اور کسی شریف آدمی سے بد تمیزی کا برتاؤ کرنے لگے ۔ رحمان کے بندوں کا طریقہ یہ ہے کہ وہ کالی کا جواب گالی کا جواب گالی سے اور بہتان کا جواب بہتان سے اور اسی طرح کی ہر بیہودگی کا جواب ویسی ہی بیہودگی سے نہیں دیتے بلکہ جوان کے ساتھ یہ رویہ اختیار کرتا ہے وہ اس کو سلام کر کے الگ ہو جاتے ہیں ۔ جیسا کہ دوسری جگہ فرمایا: وَاِذَ ا سَمِعُو ا اللَّغْوَ اَعْرَضُوْ اعَنْہُ وَقَالُوْ الَنَا اَعْمَا لُنا وَلَکُمْ اَعْمَالُکُمْ، سَلَامٌ عَلَیْکُمْ لَا نَبْتَغِی الْجَاھِلِیْنَ O (القصص آیت 55) ’’ اور جب وہ کوئی بیہودہ بات سنتے ہیں تو اسے نظر انداز کر دیتے ہیں ، کہتے ہیں بھائی ہمارے اعمال ہمارے لیے ہیں اور تمہارے اعمال تمہارے لیے ، سلام ہے تم کو ، ہم جاہلوں کے منہ نہیں لگتے ‘‘۔ (تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد سوم ، القصص، حواشی 72 ۔ 78 ) |
2 | یعنی تکبر کے ساتھ اکڑتے اور اینٹھتے ہوۓ نہیں چلتے ، جبّاروں اور مفسدوں کی طرح اپنی رفتار سے اپنا زور جتانے کی کوشش نہیں کرتے ، بلکہ ان کی چال ایک شریف اور سلیم الطبع اور نیک مزاج آدمی کی سی چال ہوتی ہے ۔ ’’نرم چال‘‘ سے مراد ضعیفانہ اور مریضانہ چال نہیں ہے ، اور نہ وہ چال ہے جو ایک ریا کار آدمی اپنے انکسار کی نمائش کرنے یا اپنی خدا ترسی کا مظاہرہ کرنے کے لیے تصنع سے اختیار کرتا ہے ۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم خود اس طرح مضبوط قدم رکھتے ہوئے چلتے تھے کہ گویا نشیب کی طرف اتر رہے ہیں ۔ حضرت عمر کے متعلق روایات میں آیا ہے کہ انہوں نے ایک جواب آدمی کو مَریَل چال چلتے دیکھا تو روک کر پوچھا کیا تم بیمار ہو؟ اس نے عرض کیا نہیں ۔ آپ نے درہ اٹھا کر اسے دھمکایا اور بولے ۔ قوت کے ساتھ چلو۔ اس سے معلوم ہوا کہ نرم چال سے مراد ایک بھلے مانس کی سی فطری چال ہے نہ کہ وہ جو بناوٹ سے منکسرانہ بنائی گئی ہو یا جس سے خواہ مخواہ کی مسکنت اور ضعیفی ٹپکتی ہو۔ مگر غور طلب پہلو یہ ہے کہ آدمی کی چال میں آخر وہ کیا اہمیت ہے جس کی وجہ سے اللہ کے نیک بندوں کی خصوصیات گناتے ہوئے سب سے پہلے اس کا ذکر کیا گیا؟ اس سوال کو ذرا تامل کی نگاہ سے دیکھا جاۓ تو معلوم ہوتا ہے کہ آدمی کی چال محض اس سکے انداز رفتار ہی کا نام نہیں ہے بلکہ در حقیقت وہ اس کے ذہن اور اس کی سیرت و کردار کی اولین ترجمان بھی ہوتی ہے ۔ ایک عیار آدمی کی چال، ایک غنڈے بد معاش کی چال، ایک ظالم و جابر کی چال، ایک خود پسند متکبر کی چال، ایک با وقار مہذب آدمی کی چال ، ایک غریب مسکین کی چال، اور اسی طرح مختلف اقسام کے دوسرے انسانوں کی چالیں ایک دوسرے سے اس قدر مختلف ہوتی ہیں کہ ہر ایک کو دیکھ کر بآسانی اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ کس چال کے پیچھے کس طرح کی شخصیت جلوہ گر ہے ۔ پس آیت کا مدعا یہ ہے کہ رحمان کے بندوں کو تو تم عام آدمیوں کے درمیان چلتے پھرتے دیکھ کر ہی بغیر کسی سابقہ تعارف کے الگ پہچان لو گے کہ یہ کس طرز کے لوگ ہیں ۔ اس بندگی نے ان کی ذہنیت اور ان کی سیرت کو جیسا کچھ بنا دیا ہے اس کا اثر ان کی چال تک میں نمایاں ہے ۔ ایک آدمی انہیں دیکھ کر پہلی نظر میں جان سکتا ہے کہ یہ شریف اور حلیم اور ہمدرد لوگ ہیں ، ان سے کسی شر کی توقع نہیں کی جا سکتی۔ (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد دوم، بنی اسرائیل ، حاشیہ 43 ۔ جلد چہارم، لقمان ، حاشیہ 33) |
1 | یعنی جس رحمان کو سجدہ کرنے کے لیے تم سے کہا جا رہا ہے اور تم اس سےانحراف کر رہے ہو اس کے پیدائشی بندے تو سب ہی ہیں ، مگر اس کے محبوب و پسندیدہ بندے وہ ہیں جو شعوری طور پر بندگی اختیار کر کے یہ اور یہ صفات اپنے اندر پیدا کرتے ہیں ۔ نیز یہ کہ وہ سجدہ جس کی تمہیں دعوت دی جا رہی ہے اس کے نتائج یہ ہیں جو اس کی بندگی قبول کرنے والوں کی زندگی میں نظر آتے ہیں ، اور اس سے انکار کے نتائج وہ ہیں جو تم لوگوں کی زندگی میں عیاں ہیں ۔ اس مقام پر اصل مقصود سیرت و اخلاق کے دو نمونوں کا تقابل ہے ۔ ایک وہ نمونہ جو محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی پیروی قبول کرنے والوں میں پیدا ہو رہا تھا، اور دوسرا وہ جو جاہلیت پر جمے ہوئے لوگوں میں ہر طرف پایا جاتا تھا۔ لیکن اس تقابل کے لیے طریقہ یہ اختیار کیا گیا ہے کہ صرف پہلے نمونے کی نمایاں خصوصیات کو سامنے رکھ دیا، اور دوسرے نمونے کو ہر دیکھنے والی آنکھ اور سوچنے والے ذہن پر چھوڑ دیا کہ وہ آپ ہی مقابل کی تصویر کو دیکھے اور آپ ہی دونوں کا موازنہ کر لے ۔ اس کے بیان کی حاجت نہ تھی، کیونکہ ہو گرد و پیش سارے معاشرے میں موجود تھا۔ |
Surah 25 : Ayat 66
إِنَّهَا سَآءَتْ مُسْتَقَرًّا وَمُقَامًا
وہ بڑا ہی برا مستقر اور مقام ہے1"
1 | یعنی یہ عبادت ان میں کوئی غرور پیدا نہیں کرتی۔ انہیں اس بات کا کوئی زعم نہیں ہوتا کہ ہم تو اللہ کے پیارے اوراس کے چہیتے ہیں ، بھلا آگ ہمیں کہاں چھو سکتی ہے ۔ بلکہ اپنی ساری نیکیوں اور عبادتوں کے باوجود وہ اس خوف سے کانپتے رہتے ہیں کہ کہیں ہمارے عمل کی کوتاہیاں ہم کو مبتلائے عذاب نہ کر دیں ۔ وہ اپنے تقویٰ کے زور سے جنت جیت لینے کا پندار نہیں رکھتے ، بلکہ اپنی انسانی کمزوریوں کا اعتراف کرتے ہوئے عذاب سے بچ نکلنے ہی کو غنیمت سمجھتے ہیں ، اور اس کے لیے بھی ان کا اعتماد اپنے عمل پر نہیں بلکہ اللہ کے رحم و کرم پر ہوتا ہے |
Surah 25 : Ayat 74
وَٱلَّذِينَ يَقُولُونَ رَبَّنَا هَبْ لَنَا مِنْ أَزْوَٲجِنَا وَذُرِّيَّـٰتِنَا قُرَّةَ أَعْيُنٍ وَٱجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِينَ إِمَامًا
جو دعائیں مانگا کرتے ہیں کہ 1"اے ہمارے رب، ہمیں اپنی بیویوں اور اپنی اولاد سے آنکھوں کی ٹھنڈک دے اور ہم کو پرہیز گاروں کا امام بنا2"
2 | یعنی ہم تقویٰ اور طاعت میں سب سے بڑھ جائیں ، بھلائی اور نیکی میں سب سے آگے نکل جائیں محض نیک ہی نہ ہوں بلکہ نیکوں کے پیشوا ہوں اور ہماری بدولت دنیا بھر میں نیکی پھیلے ۔ اس چیز کا بھی یہاں در اصل یہ بتانے کے لیے کیا گیا ہے کہ یہ وہ لوگ ہیں جو مال و دولت اور شوکت و حشمت میں نہیں بلکہ نیکی و پرہیز گاری میں ایک دوسرے سے بڑھ جانے کی کوشش کرتے ہیں ۔مگر ہمارے زمانے میں کچھ اللہ کے بندے ایسے ہیں جنہوں نے اس آیت کو بھی امامت کی امیدواری اور ریاست کی طلب کے لیے دلیل جواز کے طور پر استعمال کیا ہے ۔ ان کے نزدیک آیت کا مطلب یہ ہے کہ ’’ یا اللہ متقی لوگوں کو ہماری رعیت اور اہم کو ان کا حکمراں بنا دے ‘‘۔ اس سخن فہمی کی داد ’’امیدواروں ‘‘ کے سوا اور کون دے سکتا ہے |
1 | یعنی ان کو ایمان اور عمل صالح کی توفیق دے اور پاکیزہ اخلاق سے آراستہ کر ، کیونکہ ایک مومن کو بیوی بچوں کے حسن و جمال اور عیش و آرام سے نہیں بلکہ ان کی نیک خصالی سے ٹھنڈک حاصل ہوتی ہے ۔ اس کے لیے اس سے بڑھ کر کوئی چیز تکلیف دہ نہیں ہو سکتی کہ جو دنیا میں اس کو سب سے زیادہ پیارے ہیں انہیں دوزخ کا ایندھن بنے کے لیے تیار ہوتے دیکھے ۔ ایسی صورت میں تو بیوی کا حسن اور بچوں کی جوانی و لیاقت اس کے لیے اور بی زیادہ سوہان روح ہو گی، کیونکہ وہ ہر وقت اس رنج میں مبتلا رہے گا کہ یہ سب اپنی ان خوبیوں کے باوجود اللہ عذاب میں گرفتار ہونے والے ہیں ۔ یہاں خاص طور پر یہ بات نگاہ میں رہنی چاہیے کہ جس وقت یہ آیات نازل ہوئی ہیں وہ وقت وہ تھا جب کہ مکہ کے مسلمانوں میں سے کوئی ایک بھی ایسا نہ تھا جس کے محبوب ترین رشتہ دار کفر و جاہلیت میں مبتلا نہ ہوں ۔ کوئی مرد ایمان لے آیا تھا تو اس کی بیوی ابھی کافر تھی۔ کوئی عورت ایمان لے آئی تھی تو اس کا شوہر ابھی کافر تھا۔ کوئی نوجوان ایمان لے آیا تھا تو اس کے ماں باپ اور بھائی بہن ، سب کے سب کفر میں مبتلا تھے ۔ اور کوئی باپ ایمان لے آیا تھا تو اس کے اپنے جوان جوان بچے کفر پر قائم تھے ۔ اس حالت میں ہر مسلمان ایک شدید روحانی اذیت میں مبتلا تھا اور اس کے دل سے وہ دعا نکلتی تھی جس کی بہترین ترجمانی اس آیت میں کی گئی ہے ۔’’ آنکھوں کی ٹھنڈک‘‘ نے اس کیفیت کی تصویر کھینچ دی ہے کہ اپنے پیاروں کو کفر و جاہلیت میں مبتلا دیکھ کر ایک آدمی کو ایسی اذیت ہو رہی ہے جیسے اس کی آنکھیں آشوب چشم سے ابل آئی ہوں اور کھٹک سے سوئیاں سی چبھ رہی ہوں ۔ اس سلسلہ کلام میں ان کی اس کیفیت کو در اصل یہ بتانے کے لیے بیان کیا گیا ہے کہ وہ جس دین پر ایمان لائے ہیں پورے خلوص کے ساتھ لائے ہیں ۔ ان کی حالت ان لوگوں کی سی نہیں ہے جن کے خاندان کے لوگ مختلف مذہبوں اور پارٹیوں میں شامل رہتے ہیں اور سب مطمئن رہتے ہیں کہ چلو، ہر بینک میں ہمارا کچھ نہ کچھ سرمایہ موجود ہے |
Surah 25 : Ayat 76
خَـٰلِدِينَ فِيهَاۚ حَسُنَتْ مُسْتَقَرًّا وَمُقَامًا
وہ ہمیشہ ہمیشہ وہاں رہیں گے کیا ہی اچھا ہے وہ مستقر اور وہ مقام
Surah 32 : Ayat 15
إِنَّمَا يُؤْمِنُ بِـَٔـايَـٰتِنَا ٱلَّذِينَ إِذَا ذُكِّرُواْ بِهَا خَرُّواْ سُجَّدًا وَسَبَّحُواْ بِحَمْدِ رَبِّهِمْ وَهُمْ لَا يَسْتَكْبِرُونَ ۩
ہماری آیات پر تو وہ لوگ ایمان لاتے ہیں جنہیں یہ آیات سنا کر جب نصیحت کی جاتی ہے تو سجدے میں گر پڑتے ہیں اور اپنے رب کی حمد کے ساتھ اس کی تسبیح کرتے ہیں اور تکبر نہیں کرتے1
1 | بالفاظ دیگر وہ اپنے غلط خیالات کو چھوڑ کراللہ کی بات مان لینے اوراللہ کی بندگی اختیار کرکے اس کی عبادت کو چھوڑ کراللہ کی بات مان لینے اوراللہ کی بندگی اختیار کر کے اس کی عبادت بجا لانے اپنی شان سے گری ہوئی بات نہیں سمجھتے نفس کی کبریائی انہیں قبولِ حق اوراطاعت رب سے مانع نہیں ہوتی۔ |
Surah 32 : Ayat 16
تَتَجَافَىٰ جُنُوبُهُمْ عَنِ ٱلْمَضَاجِعِ يَدْعُونَ رَبَّهُمْ خَوْفًا وَطَمَعًا وَمِمَّا رَزَقْنَـٰهُمْ يُنفِقُونَ
اُن کی پیٹھیں بستروں سے الگ رہتی ہیں، اپنے رب کو خوف اور طمع کے ساتھ پکارتے ہیں1، اور جو کچھ رزق ہم نے اُنہیں دیا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں2
2 | رزق سے مُراد ہے رزق حلال۔ مال حرام کواللہ تعالٰی اپنے دیے ہوئے رزق سے تعبیر نہیں فرماتا۔ لہٰذا اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ جو تھوڑا یا بہت پاک رزق ہم نے اُنہیں دیا ہے اسی میں سے خرچ کرتے ہیں۔ اِس سے تجاوز کر کے اپنے اخراجات پورے کرنے کے لیے حرام مال پر ہاتھ نہیں مارتے۔ |
1 | یعنی راتوں کو داد عیش دیتے پھرنے کے بجائے وہ اپنے رب کی عبادت کرتے ہیں۔ اُن کا حال اُن دُنیا پرستوں کا سا نہیں ہے جنہیں دِن کی محنتوں کی کلفت دُور کرنے کے لیے راتوں کو ناچ گانے اورشراب نوشی اورکھیل تماشوں کی تفریحات درکار ہوتی ہیں۔ اس کے بجائے ان کا حال یہ ہوتا ہے کہ دِن بھراپنے فرائض انجام دے کر جب وہ فارغ ہوتے ہیں تو اپنے رب کے حضور کھڑے ہو جاتے ہیں۔ اس کی یاد میں راتیں گزارتے ہیں۔ اس کے خوف سے کانپتے ہیں اوراسی سے اپنی ساری اُمیدیں وابستہ کرتے ہیں۔ بستروں سے پیٹھیں الگ رہنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ راتوں کو سوتے ہی نہیں ہیں، بلکہ اس سے مُراد یہ ہے کہ وہ راتوں کا ایک حصّہ خدا کی عبادت میں صرف کرتے ہیں۔ |
Surah 32 : Ayat 17
فَلَا تَعْلَمُ نَفْسٌ مَّآ أُخْفِىَ لَهُم مِّن قُرَّةِ أَعْيُنٍ جَزَآءَۢ بِمَا كَانُواْ يَعْمَلُونَ
پھر جیسا کچھ آنکھوں کی ٹھنڈک کا سامان ان کے اعمال کی جزا میں ان کے لیے چھپا رکھا گیا ہے اس کی کسی متنفس کو خبر نہیں ہے1
1 | بخاری، مسلم، ترمذی اور مسند احمد میں متعدد طریقوں سے حضرت ابوہریرہ ؓ کی یہ روایت نقل کی گئی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: قال اللہ تعالٰی اعددت بعبادی الصالحین ما لا اذن سمعت ولا خطرعلٰی قلب بشرٍ۔ اللہ تعالٰی فرماتا ہے کہ میں نے اپنے نیک بندوں کے لیے وہ کچھ فراہم کر رکھا ہے جسے نہ کبھی کسی آنکھ نے دیکھا، نہ کبھی کسی کان نے سُنا، نہ کوئی انسان کبھی اس کا تصوّر کر سکا ہے‘‘۔ یہی مضمون تھوڑے سے لفظی فرق کے ساتھ حضرت ابو سعید خُدری، حضرت مُغیرو بن شُعْبہ اور حضرت سہَل بن سَعد ساعِدی نے بھی حضورؐ سے روایت کیا ہے جسے مسلم، احمد ، ابن جریر اور ترمذی نے صحیح سند وں کے ساتھ نقل کیا ہے۔ |
Surah 42 : Ayat 38
وَٱلَّذِينَ ٱسْتَجَابُواْ لِرَبِّهِمْ وَأَقَامُواْ ٱلصَّلَوٲةَ وَأَمْرُهُمْ شُورَىٰ بَيْنَهُمْ وَمِمَّا رَزَقْنَـٰهُمْ يُنفِقُونَ
جو اپنے رب کا حکم مانتے ہیں1، نماز قائم کرتے ہیں، اپنے معاملات آپس کے مشورے سے چلاتے ہیں2، ہم نے جو کچھ بھی رزق انہیں دیا ہے اُس میں سے خرچ کرتے ہیں3
3 | اس کے تین مطلب ہیں : ایک یہ کہ جو رزق حلال ہم نے انہیں دیا ہے اسی میں سے خرچ کرتے ہیں ، اپنے اخراجات پورے کرنے کے لیے مال حرام پر ہاتھ ہیں مارتے۔ دوسرے یہ کہ ہمارے دیے ہوۓ رزق کو سَینت کر نہیں رکھتے بلکہ اسے خرچ کرتے ہیں۔ تیسرے یہ کہ جو رزق انہیں دیا گیا ہے اس میں سے راہ خدا میں بھی خرچ کرتے ہیں ، سب کچھ اپنی ہی ذات کے لیے وقف نہیں کر دیتے۔ پہلے مطلب کی بنیاد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ صرف رزق حلال و طیب ہی کو ’’ اپنے دیے ہوۓ رزق ‘‘ سے تعبیر فرماتا ہے۔ نا پاک اور حرام طریقوں سے کماۓ ہوۓ رزق کو وہ اپنا رزق نہیں کہتا۔ دوسرے مطلب کی بنیاد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ جو رزق انسان کو دیتا ہے وہ خرچ کرنے کے لیے دیتا ہے ، سینت سَینت کر رکھنے اور اس پر مار زر بن کر بیٹھ جانے کے لیے نہیں دیتا۔ اور تیسرے مطلب کی بنیاد یہ ہے کہ خرچ کرنے سے مراد قرآن مجید میں محض اپنی ذاب پر اور اپنی ضروریات پر ہی خرچ کر دینا نہیں ہے ، بلکہ اس کے مفہوم میں انفاق فی سبیل اللہ بھی شامل ہے۔ انہی تین وجوہ سے اللہ تعالیٰ خرچ کرنے کو یہاں اہل ایمان کی ان بہترین صفات میں شمار فرما رہا ہے جن کی بنا پر آخرت کی بھلائیاں انہی کے لیے مختص کی گئی ہیں |
2 | اس چیز کو یہاں اہل ایمان کی بہترین صفات میں شمار کیا گیا ہے ، اور سورہ آل عمران (آیت 159) میں اس کا حکم دیا گیا ہے۔ اس بنا پر مشاورت اسلامی طرز زندگی کا ایک اہم ستون ہے ، اور مشورے کے بغیر اجتماعی کام چلانا نہ صرف جاہلیت کا طریقہ ہے بلکہ اللہ کے مقرر کیے ہوۓ ضابطے کی صریح خلاف ورزی ہے۔ مشاورت کو اسلام میں یہ اہمیت کیوں دی گئی ہے؟ اس کے وجوہ پر اگر غور کیا جاۓ تو تین باتیں واضح طور پر ہمارے سامنے آتی ہیں۔ ایک یہ کہ جس معاملے کا تعلق دو یا زائد آدمیوں کے مفاد سے ہو، اس میں کسی ایک شخص کا اپنی راۓ سے فیصلہ کر ڈالنا اور دوسرے متعلق اشخاص کو نظر انداز کرینا زیادتی ہے۔ مشترک معاملات میں کسی کو اپنی من مانی چلانے کا حق نہیں ہے۔ انصاف کا تقاضا یہ ہے کہ ایک معاملہ جتنے لوگوں کے مفاد سے تعلق رکھتا ہو اس میں ان سب کی راۓ لی جاۓ، اور اگر وہ کسی بہت بڑی تعداد سے متعلق ہو تو ان کے معتمد علیہ نمائندوں کو شریک مشورہ کیا جاۓ۔ دوسرے یہ کہ انسان مشترک معاملات میں اپنی من مانی چلانے کی کوشش یا تو اس وجہ سے کرتا ہے کہ وہ اپنی ذاتی اغراض کے لیے دوسروں کا حق مارنا چاہتا ہے ، یا پھر اس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ وہ اپنے آپ کو بڑی چیز اور دوسروں کی حقیر سمجھتا ہے۔ اخلاقی حیثیت سے یہ دونوں صفات یکساں قبیح ہیں ، اور مومن کے اندر ان میں سے کسی صفت کا شائبہ بھی نہیں پایا جا سکتا۔ مومن نہ خود غرض ہوتا ہے کہ دوسروں کے حقوق پر دست درازی کر کے خود ناجائز فائدہ اٹھانا چاہے ، اور نہ وہ متکبر اور خود پسند ہوتا ہے کہ اپنے آپ ہی عقل کل اور علیم و خبیر سمجھے۔ تیسرے یہ کہ جن معاملات کا تعلق دوسروں کے حقوق اور مفاد سے ہو ان میں فیصلہ کرنا ایک بہت بڑی ذمہ داری ہے۔ کوئی شخص جو خدا سے ڈرتا ہو اور یہ جانتا ہو کہ اس کی کتنی سخت دہی اسے اپنے رب کے سامنے کرنی پڑے گی، کبھی اس بھاری بوجھ کو تنہا اپنے سر لینے کی جرأت نہیں کر سکتا۔ اس طرح کو جرأتیں صرف وہی لوگ کرتے ہیں جو خدا سے بے خوف اور آخرت سے بے فکر ہوتے ہیں۔ خدا ترس اور آخرت کی باز پرس کا احساس رکھنے والا آدمی تو لازماً یہ کوشش کرے گا کہ ایک مشترک معاملہ جن جن سے بھی متعلق ہو ان سب کو، یا نا کے بھروسے کے نمائندوں کو اس کا فیصلہ کرنے میں شریک مشورہ کرے ، تاکہ زیادہ سے زیادہ صحیح اور بے لاگ اور مبنی بر انصاف فیصلہ کیا جا سکے ، اور اگر نا دانستہ کوئی غلطی ہو بھی جاۓ تو تنہا کسی ایک ہی شخص پر اس کی ذمہ داری نہ آ پڑے۔ یہ تین وجوہ ایسے ہیں جن پر اگر آدمی غور کرے تو اس کی سمجھ میں یہ بات اچھی طرح آ سکتی ہے کہ اسلام جس اخلاق کی انسان کو تعلیم دیتا ہے ، مشورہ اس کا لازمی تقاضا ہے اور اس سے انحراف ایک بہت بڑی بد اخلاقی ہے جس کی اسلام کبھی اجازت نہیں دے سکتا۔ اسلامی طرز زندگی یہ چاہتا ہے کہ مشاورت کا اصول ہر چھوٹے بڑے اجتماعی معاملے میں برتا جاۓ۔ گھر کے معاملات ہوں تو ان میں میاں اور بیوی باہم مشورے سے کام کریں اور بچے جب جوان ہو جائیں تو انہیں بھی شریک مشورہ کیا جاۓ۔ خاندان کے معاملات ہوں تو ان میں کنبے کے سب عاقل و بالغ افراد کی راۓ لی جاۓ۔ ایک قبیلے یا برادری یا بستی کے معاملات ہوں اور سب لوگوں کا شریک مشورہ ہونا ممکن نہ ہو، ان کا فیصلہ کوئی ایسی پنچایت یا مجلس کرے جس میں کسی متفق علیہ طریقے کے مطابق تمام متعلق لوگوں کے معتمد علیہ نمائندے شریک ہوں۔ ایک پوری قوم کے معاملات ہوں تو ان کے چلانے کے لیے قوم کا سربراہ سب کی مرضی سے مقرر کیا جاۓ، اور وہ قومی معاملات کو ایسے صاحب راۓ لوگوں کے مشورے سے چلاۓ جن کو قوم قابل اعتماد سمجھتی ہو، اور وہ اسی وقت تک سربراہ رہے جب تک قوم خود اسے اپنا سربراہ بناۓ رکھنا چاہے۔ کوئی ایماندار آدمی زبردستی قسم کا سربراہ بننے اور بنے رہنے کی خواہش یا کوشش نہیں کر سکتا، نہ یہ فریب کاری کر سکتا ہے کہ پہلے بزور قوم کے سر پر مسلط ہو جاۓ اور پھر جبر کے تحت لوگوں کی رضامندی طلب کرے ، اور نہ اس طرح کی چالیں چل سکتا ہے کہ اس کو مشورہ دینے کے لیے لوگ اپنی آزاد مرضی سے اپنی پسند کے نمائندے نہیں بلکہ وہ نمائندے منتخب کریں جو اس کی مرضی کے مطابق راۓ دینے والے ہوں۔ ایسی ہر خواہش صرف اس نفس میں پیدا ہوتی ہے جو نیت کی خرابی سے لوث ہو، اور اس خواہش کے ساتھ : اَمْرھُمْ شُوْریٰ بَینَھُمْ کی ظاہری شکل بنانے اور اس کی حقیقت غائب کر دینے کی کوششیں صرف وہی شخص کر سکتا ہے جسے خدا اور خلق دونوں کو دھوکا دینے میں کوئی باک نہ ہو، حالانکہ نہ خدا دھوکا کھا سکتا ہے ، اور نہ خلق ہی اتنی اندھی ہو سکتی ہے کہ کوئی شخص دن کی روشنی میں علانیہ ڈاکہ مار رہا ہو اور وہ سچے دل سے یہ سمجھتی رہے کہ وہ ڈاکہ نہیں مار رہا ہے بلکہ لوگوں کی خدمت کر رہا ہے۔ اَمْرھُمْ شُوْریٰ بَیْنَھُمْ کا قاعدہ خود اپنی نوعیت اور فطرت کے لحاظ سے پانچ باتوں کا تقاضا کرتا ہے : اول یہ کہ اجتماعی معاملات جن لوگوں کے حقوق اور مفاد سے تعلق رکھتے ہیں انہیں اظہار راۓ کی پوری آزادی حاصل ہو، اور وہ اس بات سے پوری طرح باخبر رکھے جائیں کہ انکے معاملات فی الواقع کس طرح چلا ۓ جا رہے ہیں ، اور انہیں اس امر کا بھی پورا ح حاصل ہو کہ اگر وہ اپنے معاملات کی سربراہی میں کوئی غلطی یا خامی یا کوتاہی دیکھیں تو اس پر ٹوک سکیں ، احتجاج کر سکیں ، اور اصلاح ہوتی نہ دیکھیں تو سربراہ کاروں کو بدل سکیں۔ لوگوں کا منہ بند کر کے اور ان کے ہاتھ پاؤں کس کر اور ان کو بے خبر رکھ کر ان کے اجتماعی معاملات چلانا صریح بد دیانتی ہے جسے کوئی شخص بھی : اَمْرھُمْ شُوریٰ بَینَھُمْ کے اصول کی پیروی نہیں مان سکتا۔ دوم یہ کہ اجتماعی معاملات کو چلانے کی ذمہ داری جس شخص پر بھی ڈالنی ہو اسے لوگوں کی رضامندی سے مقرر کیا جاۓ ، اور یہ رضامندی ان کی آزادانہ رضامندی ہو۔ جبر اور تخویف سے حاصل کی ہوئی، یا تحریص و اطماع سے خریدی ہوئی، یا دھوکے اور فریب اور مکاریوں سے کھسوٹی ہوئی رضامندی در حقیقت رضامندی نہیں ہے۔ ایک قوم کا صحیح سربراہ وہ نہیں ہوتا جو ہر ممکن طریقہ سے کوشش کر کے اس کا سربراہ بنے ، بلکہ وہ ہوتا ہے جس کو لوگ اپنی خوشی اور پسند سے اپنا سربراہ بنائیں۔ سوم یہ کہ سربراہ کار کو مشورہ دینے کے لیے بھی وہ لوگ مقرر کیے جائیں جن کو قوم کا اعتماد حاصل ہو، اور ظاہر بات ہے کہ ایسے لوگ کبھی صحیح معنوں میں حقیقی اعتماد کے حامل قرار نہیں دیے جاسکتے جو دباؤ ڈال کر، یا مال سے خرید کر، یا جھوٹ اور مکر سے کام لے کر ، یا لوگوں کو گمراہ کر کے نمائندگی کا مقام حاصل کریں۔ چہارم یہ کو مشورہ دینے والے اپنے علم اور ایمان و ضمیر کے مطابق راۓ دیں ، اور اس طرح کے اظہار راۓ کی انہیں پوری آزادی حاصل ہو۔ یہ بات جہاں نہ ہو، جہاں مشورہ دینے والے کسی لالچ یا خوف کی بنا پر، یا کسی جتھہ بندی میں کسے ہوۓ ہونے کی وجہ سے خود اپنے علم اور ضمیر کے خلاف راۓ دیں ، وہاں در حقیقت خیانت اور غداری ہو گی نہ کہ : اَمْرَھُمْ شُوْریٰ بَیْنَھُمْ کی پیروی۔ پنجم یہ کہ جو مشورہ اہل شوریٰ کے اجماع (اتفاق راۓ) سے دیا جاۓ، یا جسے ان کے جمہور(اکثریت ) کی تائید حاصل ہو، اسے تسلیم کیا جاۓ۔ کیونکہ اگر ایک شخص یا ایک ٹولہ سب کی سننے کے بعد اپنی من مانی کرنے کا مختار ہو تو مشاورت بالکل بے معنی ہو جاتی ہے ، اللہ تعالیٰ یہ نہیں فرما رہا ہے کہ ’’ ان کے معاملات میں ان سے مشورہ لیا جاتا ہے ‘‘ بلکہ یہ فرما رہا ہے کہ ’’ ان کے معاملات آپس کے مشورے سے چلتے ہیں۔‘‘ اس ارشاد کی تعمیل محض مشورہ لے لینے سے نہیں ہوجاتی، بلکہ اس کے لیے ضروری ہے مہ مشاورت میں اجماع یا اکثریت کے ساتھ جو بات طے ہو اسی کے مطابق معاملات چلیں۔ اسلام کے اصول شوریٰ کی اس توضیح کے ساتھ یہ بنیادی بات بھی نگاہ میں رہنی چاہیے کہ یہ شوریٰ مسلمانوں کے معاملات چلانے میں مطلق العنان اور مختار کل نہیں ہے بلکہ لازماً اس دین کے حدود ہے جو اللہ تعالیٰ نے خود اپنی تشریع سے مقرر فرمایا ہے ، اور اس اصل الاصول کی پابند ہے کہ ’’ تمہارے درمیان جس معاملہ میں بھی اختلاف ہو اس کا فیصلہ کرنا اللہ کا کام ہے ‘‘ ، اور ’’تمہارے درمیان جو نزاع بھی ہو اس میں اللہ اور رسول کی طرف رجوع کرو‘‘۔ اس قاعدہ کلیہ کے لحاظ سے مسلمان شرعی معاملات میں اس امر پر تو مشورہ کر سکتے ہیں کہ کسی نص کا صحیح مفہوم کیا ہے ، اور اس پر عمل در آمد کس طریقہ سے کیا جاۓ تاکہ اس کا منشا ٹھیک طور سے پورا ہو، لیکن اس غرض سے کوئی مشورہ نہیں کر سکتے کہ جس معاملہ کا فیصلہ اللہ اور اس کے رسول نے کر دیا ہو اس میں وہ خود کوئی آزادانہ فیصلہ کریں |
1 | لفظی ترجمہ ہو گا ’’ اپنے رب کی پکار پر لبیک کہتے ہیں ‘‘ یعنی جس کام کے لیے بھی اللہ بلاتا ہے اس کے لیے دوڑ پڑتے ہیں ، اور جس چیز کی بھی اللہ دعوت دیتا ہے اسے قبول کرتے ہیں |