Ayats Found (1)
Surah 13 : Ayat 22
وَٱلَّذِينَ صَبَرُواْ ٱبْتِغَآءَ وَجْهِ رَبِّهِمْ وَأَقَامُواْ ٱلصَّلَوٲةَ وَأَنفَقُواْ مِمَّا رَزَقْنَـٰهُمْ سِرًّا وَعَلَانِيَةً وَيَدْرَءُونَ بِٱلْحَسَنَةِ ٱلسَّيِّئَةَ أُوْلَـٰٓئِكَ لَهُمْ عُقْبَى ٱلدَّارِ
اُن کا حال یہ ہوتا ہے کہ اپنے رب کی رضا کے لیے صبر سے کام لیتے ہیں1، نماز قائم کرتے ہیں، ہمارے دیے ہوئے رزق میں سے علانیہ اور پوشیدہ خرچ کرتے ہیں، اور برائی کو بھلائی سے دفع کرتے ہیں2 آخرت کا گھر انہی لوگوں کے لیے ہے
2 | یعنی وہ بدی کے مقابلے میں بدی نہیں بلکہ نیکی کرتے ہیں۔ وہ شر کا مقابلہ شر سے نہیں بلکہ خیر ہی سے کرتے ہیں۔ کو ئی اُن پر خوا ہ کتنا ہی ظلم کرے، وہ جواب میں ظلم نہیں بلکہ انصاف ہی کرتے ہیں۔ کوئی ان کے خلاف کتنا ہی جھوٹ بولے ، وہ جواب میں سچ ہی بولتے ہیں۔ کوئی اُُن سے خواہ کتنی ہی خیانت کرے ، وہ جواب میں دیانت ہی سے کام لیتے ہیں۔ اسی معنی میں ہے وہ حدیث جس میں حضور ؐ نے فرمایا ہے: لا تکونو ا امعۃ تقولون اِن احسن الناس احسنا و اِن ظلمونا ظلمنا ۔ و لٰکن وطّنوا انفسکم ، ان احسن الناس ان تحسنو ا و ان اساؤا فلا تظلموا۔ ”تم اپنے طرز ِ عمل کو لوگوں کے طرزِ عمل کا تابع بنا کر نہ رکھو۔ یہ کہنا غلط ہے کہ اگر لوگ بھلائی کریں گے تو ہم بھلائی کریں گے اور لوگ ظلم کریں گے تو ہم بھی ظلم کریں گے۔ تم اپنے نفس کو ایک قاعدے کا پابند بناؤ۔ اگر لوگ نیکی کریں تو نیکی کرو۔ اور اگر لوگ تم سے بدسلوکی کریں تو تم ظلم نہ کرو۔“ اس معنی میں ہے وہ حدیث جس میں حضورؐ نے فرمایا کہ میرے ربّ نے مجھے نو باتوں کا حکم دیا ہے ۔ اور ان میں سے چار باتیں آپؐ نے یہ فرمائیں کہ میں خواہ کسی سے خوش ہوں یا ناراض ہر حالت میں انصاف کی بات کہوں، جو میرا حق مارے میں اس کا حق ادا کروں، جو مجھے محروم کرے میں اس کو عطا کروں ، اور جو مجھ پر ظلم کرے میں اس کو معاف کر دوں۔ اور اس معنی میں ہے وہ حدیث جس میں حضور ؐ نے فرمایا کہ لا تخن من خانک ” جو تجھ سے خیانت کرے تو اس سے خیانت نہ کر“۔ اور اسی معنی میں ہے حضرت عمرؓ کا یہ قول کہ”جو شخص تیرے ساتھ معاملہ کرنے میں خدا سے نہیں ڈرتا اُس کی سزا دینے کی بہترین صورت یہ ہے کہ تُو اس کے ساتھ خدا سے ڈرتے ہوئے معاملہ کر |
1 | یعنی اپنی خواہشات کو قابو میں رکھتے ہیں، اپنے جذبات اور میلانات کو حدود کا پابند بناتے ہیں، خدا کی نافرمانی میں جن جن فائدوں اور لذتوں کا لالچ نظر آتا ہے انہیں دیکھ کر پھسل نہیں جاتے ، اور خدا کی فرمانبرداری میں جن جن نقصانات اور تکلیفوں کا اندیشہ ہوتا ہے انہیں برداشت کرے جاتے ہیں۔ اس لحاظ سے مومن کی پوری زندگی در حقیقت صبر کی زندگی ہے، کیونکہ وہ رضائے الہٰی کی اُمید پر اور آخر ت کے پائدار نتائج کی توقع پر اس دنیا میں ضبطِ نفس سے کام لیتا ہے اور گناہ کی جانب نفس کے ہر میلان کا صبر کے ساتھ مقابلہ کرتا ہے |