Ayats Found (2)
Surah 9 : Ayat 5
فَإِذَا ٱنسَلَخَ ٱلْأَشْهُرُ ٱلْحُرُمُ فَٱقْتُلُواْ ٱلْمُشْرِكِينَ حَيْثُ وَجَدتُّمُوهُمْ وَخُذُوهُمْ وَٱحْصُرُوهُمْ وَٱقْعُدُواْ لَهُمْ كُلَّ مَرْصَدٍۚ فَإِن تَابُواْ وَأَقَامُواْ ٱلصَّلَوٲةَ وَءَاتَوُاْ ٱلزَّكَوٲةَ فَخَلُّواْ سَبِيلَهُمْۚ إِنَّ ٱللَّهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ
پس جب حرام مہینے گزر جائیں1 تو مشرکین کو قتل کرو جہاں پاؤ اور انہیں پکڑو اور گھیرو اور ہر گھات میں اُن کی خبر لینے کے لیے بیٹھو پھر اگر وہ توبہ کر لیں اور نماز قائم کریں اور زکوٰۃ دیں تو انہیں چھوڑ دو2 اللہ درگزر کرنے والا اور رحم فرمانے والا ہے
2 | یعنی کفرو شرک سے محض توبہ کر لینے پر معاملہ ختم نہ ہوگا بلکہ انہیں عملًا نماز قائم کرنی اور زکوٰۃ دینی ہو گی۔ اس کے بغیر یہ نہیں مانا جائے گا کہ انہوں نے کفر چھوڑ کر اسلام اختیار کر لیا ہے۔ اسی آیت سے حضرت ابوبکر ؓ نے فتنۂ ارتداد کے زمانہ میں استدلال کیا تھا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد جن لوگوں نے فتنہ برپا کیا تھا ان میں سے ایک گروہ کہتا تھا کہ ہم اسلام کے منکر نہیں ہیں، نماز بھی پڑھنے کے لیے تیار ہیں ، مگر زکوٰۃ نہیں دیں گے۔ صحابۂ کرام کو بالعموم یہ پریشانی لاحق تھی کہ آکر ایسے لوگوں کے خلاف تلوار کیسے اٹھائی جا سکتی ہے؟ مگر حضرت ابوبکرؓ نے اسی آیت کا حوالہ دے کر فرمایا کہ ہمیں تو اِن لوگوں کو چھوڑ دینے کا حکم صرف اُس صورت میں دیا گیا تھا جبکہ یہ شرک سے توبہ کریں ، نماز قائم کریں اور زکوٰۃ دیں، مگر جب یہ تین شرطوں میں سے ایک شرط اُڑائے دیتے ہیں تو پھر انہیں ہم کیسے چھوڑ دیں |
1 | یہاں حرام مہینوں سے اصطلاحی اشہُر حرُم مڑاد نہیں ہیں جو حج اور عُمرے کے لیے حرام قرار دیے گئے ہیں۔ بلکہ اس جگہ وہ چار مہینے مراد ہیں جن کی مشرکین کو مہلت دی گئی تھی۔ چونکہ اس مہلت کے زمانہ میں مسلمانوں کے لیے جائز نہ تھا کہ مشرکین پر حملہ آور ہوجاتے اس لیے اِنہیں حرام مہینے فرمایا گیا ہے |
Surah 9 : Ayat 11
فَإِن تَابُواْ وَأَقَامُواْ ٱلصَّلَوٲةَ وَءَاتَوُاْ ٱلزَّكَوٲةَ فَإِخْوَٲنُكُمْ فِى ٱلدِّينِۗ وَنُفَصِّلُ ٱلْأَيَـٰتِ لِقَوْمٍ يَعْلَمُونَ
پس اگر یہ توبہ کر لیں اور نماز قائم کریں اور زکوٰۃ دیں تو تمہارے دینی بھائی ہیں اور جاننے والوں کے لیے ہم اپنے احکام واضح کیے دیتے ہیں1
1 | یہاں پھر یہ تصریح کی گئی ہے کہ نماز اور زکوٰۃ کے بغیر محض توبہ کر لینے سے وہ تمہارے دینی بھائی نہیں بن جائیں گے۔ اور یہ جو فرمایا گیا کہ اگر ایسا کریں تو وہ تمہارے دینی بھائی ہیں ، تو اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ شرائط پوری کرنے کا نتیجہ صرف یہی نہیں ہوگا کہ تمہارے لیے ان پر ہاتھ اٹھانا اور ان کے جان و مال سے تعرض کرنا حرام ہو جائے گا۔ بلکہ مزید برآں اس کا فائدہ یہ بھی ہو گا کہ اسلامی سوسائیٹی میں ان کو برابر کے حقوق حاصل ہو جائیں گے۔ معاشرتی ، تمدنی اور قانونی حیثیت سے وہ تمام دوسرے مسلمانوں کی طرح ہوں گے ۔ کوئی فرق و امتیاز ان کی ترقی کی راہ میں حائل نہ ہوگا |