Ayats Found (13)
Surah 2 : Ayat 28
كَيْفَ تَكْفُرُونَ بِٱللَّهِ وَكُنتُمْ أَمْوَٲتًا فَأَحْيَـٰكُمْۖ ثُمَّ يُمِيتُكُمْ ثُمَّ يُحْيِيكُمْ ثُمَّ إِلَيْهِ تُرْجَعُونَ
تم اللہ کے ساتھ کفر کا رویہ کیسے اختیار کرتے ہو حالانکہ تم بے جان تھے، اس نے تم کو زندگی عطا کی، پھر وہی تمھاری جان سلب کرے گا، پھر وہی تمہیں دوبارہ زندگی عطا کرے گا، پھر اسی کی طرف تمہیں پلٹ کر جانا ہے
Surah 6 : Ayat 96
فَالِقُ ٱلْإِصْبَاحِ وَجَعَلَ ٱلَّيْلَ سَكَنًا وَٱلشَّمْسَ وَٱلْقَمَرَ حُسْبَانًاۚ ذَٲلِكَ تَقْدِيرُ ٱلْعَزِيزِ ٱلْعَلِيمِ
پردہ شب کو چاک کر کے وہی صبح نکالتا ہے اُسی نے رات کو سکون کا وقت بنایا ہے اُسی نے چاند اور سورج کے طلوع و غروب کا حساب مقرر کیا ہے یہ سب اُسی زبردست قدرت اور علم رکھنے والے کے ٹھیرائے ہوئے اندازے ہیں
Surah 15 : Ayat 23
وَإِنَّا لَنَحْنُ نُحْىِۦ وَنُمِيتُ وَنَحْنُ ٱلْوَٲرِثُونَ
زندگی اور موت ہم دیتے ہیں، اور ہم ہی سب کے وارث ہونے والے ہیں1
1 | یعنی تمہارے بعد ہم ہی باقی رہنے والے ہیں۔ تمہیں جو کچھ بھی ملا ہوا ہے محض عارضی استعمال کے لیے ملا ہوا ہے۔ آخر کار ہماری دی ہوئی ہر چیز کو یونہی چھوڑ کر تم خالی ہاتھ رخصت ہو جاؤ گے اور یہ سب چیزیں جو ں کی توں ہمارے خزانے میں رہ جائیں گی |
Surah 21 : Ayat 30
أَوَلَمْ يَرَ ٱلَّذِينَ كَفَرُوٓاْ أَنَّ ٱلسَّمَـٰوَٲتِ وَٱلْأَرْضَ كَانَتَا رَتْقًا فَفَتَقْنَـٰهُمَاۖ وَجَعَلْنَا مِنَ ٱلْمَآءِ كُلَّ شَىْءٍ حَىٍّۖ أَفَلَا يُؤْمِنُونَ
کیا وہ لوگ جنہوں نے (نبیؐ کی بات ماننے سے) انکار کر دیا ہے غور نہیں کرتے کہ یہ سب آسمان اور زمین باہم ملے ہوئے تھے، پھر ہم نے اِنہیں جدا کیا1، اور پانی سے ہر زندہ چیز پیدا کی2 کیا وہ (ہماری اس خلّاقی کو) نہیں مانتے؟
2 | اس سے جو مفہوم سمجھ میں آتا ہے وہ یہ ہے کہ پانی کو خد نے سبب زندگی اور اصل حیات بنایا، اسی میں اور اسی سے زندگی کا آغاز کیا۔ دوسری جگہ اس مطلب کو ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے ، : وَاللہُ خَلَقَ کُلَّ دَآبَّۃٍ مِّنْ مَآ ءٍ (النور ۔آیت 45 ) ’’ اور خدا نے ہر جاندار کو پانی سے پیدا کیا |
1 | اصل میں لفظ ’’ رتق‘‘ اور ’’فتق‘‘ کے الفاظ استعمال کیے گئے ہیں ۔ رتق کے معنی ہیں یکجا ہونا ، اکٹھا ہونا، ایک دوسرے سے جڑا ہوا ہونا ، متصل اور متلاصق ہونا ۔ اور فتق کے معنی پھاڑنے اور جدا کرنے کے ہیں ۔ بظاہر ان الفاظ سے جو بات سمجھ میں آتی ہے وہ یہ ہے کہ کائنات کی ابتدائی شکل ایک تودے (Mass) کی سی تھی، بعد میں اس کو الگ الگ حصوں میں تقسیم کر کے زمین اور دوسرے اجرام فلکی جدا جدا دنیاؤں کی شکل میں بناۓ گئے ۔ (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد چہارم حٰمٓ السجدہ، حاشیہ 13 ۔14۔15) |
Surah 22 : Ayat 66
وَهُوَ ٱلَّذِىٓ أَحْيَاكُمْ ثُمَّ يُمِيتُكُمْ ثُمَّ يُحْيِيكُمْۗ إِنَّ ٱلْإِنسَـٰنَ لَكَفُورٌ
وہی ہے جس نے تمہیں زندگی بخشی ہے، وہی تم کو موت دیتا ہے اور وہی پھر تم کو زندہ کرے گا سچ یہ ہے کہ انسان بڑا ہی منکرِ حق ہے1
1 | یعنی یہ سب کچھ دیکھتے ہوۓ بھی اس حقیقت کا انکار کیے جاتا ہے جسے انبیاء علیہم السلام نے پیش کیا ہے |
Surah 23 : Ayat 80
وَهُوَ ٱلَّذِى يُحْىِۦ وَيُمِيتُ وَلَهُ ٱخْتِلَـٰفُ ٱلَّيْلِ وَٱلنَّهَارِۚ أَفَلَا تَعْقِلُونَ
وہی زندگی بخشتا ہے اور وہی موت دیتا ہے گردش لیل و نہار اسی کے قبضہ قدرت میں ہے 1کیا تمہاری سمجھ میں یہ بات نہیں آتی؟2
2 | واضح رہے کہ یہاں توحید اور حیات بعد الموت، دونوں پر ایک ساتھ استدلال کیا جا رہا ہے ، اور آگے تک جن نشانیوں کی طرف توجہ دلائی گئی ہے ان سے شرک کے ابطال اور انکار آخرت کے ابطال دونوں پر دلیل لائی جا رہی ہے |
1 | علم کے ذرائع (حواس اور قوت فکر ) اور ان کے مصرف صحیح سے انسان کی غفلت پر متنبہ کرنے کے بعد اب ان نشانیوں کی طرف توجہ دلائی گئی ہے جن کا مشاہدہ اگر کھلی آنکھوں سے کیا جائے اور جن کی نشان دہی سے اگر صحیح طور پر استدلال کیا جائے ، یا کھلے کانوں سے کسی معقول استدلال کو سنا جائے ، تو آدمی حق تک پہنچ سکت ہے۔ یہ بھی معلوم کر سکتا ہے کہ یہ کار خانہ ہستی بے خدا ، یا بہت سے خداؤں کا ساختہ و پرداختہ نہیں ہے ،بلکہ توحید کی اساس پر قائم ہے۔ اور یہ بھی جان سکتا ہے کہ یہ بے مقصد نہیں ہے ، نرا کھیل اور محض ایک بے معنی طلسم نہیں ہے ، بلکہ ایک مبنی بر حکمت نظام ہے جس میں انسان جیسی ذی اختیار مخلوق کا غیر جوابدہ ہونا اور بس یونہی مر کر مٹی ہو جانا ممکن نہیں ہے |
Surah 30 : Ayat 19
يُخْرِجُ ٱلْحَىَّ مِنَ ٱلْمَيِّتِ وَيُخْرِجُ ٱلْمَيِّتَ مِنَ ٱلْحَىِّ وَيُحْىِ ٱلْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِهَاۚ وَكَذَٲلِكَ تُخْرَجُونَ
وہ زندہ میں سے مُردے کو نکالتا ہے اور مُردے میں سے زندہ کو نکالتا ہے اور زمین کو اس کی موت کے بعد زندگی بخشتا ہے1 اسی طرح تم لوگ بھی (حالت موت سے) نکال لیے جاؤ گے
1 | یعنی جو خداہرآن تمہاری آنکھوں کے سامنے یہ کام کررہا ہے وہ آخرانسان کومرنے کے بعد دوبارہ زندگی بخشنے سے عاجزکیسے ہوسکتاہے۔وہ ہروقت زندہ انسانوں اورحیوانات میں سےفضلات(Waste Matter)خارج کررہاہے جن کے اندرزندگی کا شائبہ تک نہیں ہوتا۔وہ ہرلمحہ بے جان مادے(Dead Matter)کے اندرزندگی کی روح پھونک کربےشمارجیتے جاگتےحیوانات،نباتات اورانسان وجود میں لارہاہے،حالاں کہ بجائے خوداُن مادّوں میں،جن سے ان زندہ ہستیوں کے جسم مرکتب ہوتے ہیں،قطعًاکوئی زندگی نہیں ہوتی۔وہ ہرآن یہ منظرتمہیں دکھارہاہےکہ بنجرپڑی ہوئی زمین کو جہاں پانی میسرآیااوریکایک وہ حیوانی اورنباتی زندگی کے خزانے اُگلناشروع کردیتی ہے۔یہ سب کچھ دیکھ کربھی اگرکوئی شخص یہ سمجھتاہے کہ اس کارخانہ ہستی کوچلانے والاخداانسان کے مرجانے کےبعد اسے دوبارہ زندہ کرنے سے عاجز ہےتوحقیقت میں وہ عقل کااندھاہے۔اس کے سرکی آنکھیں جن ظاہری مناظرکودیکھتی ہیں،اس کی عقل کی آنکھیں ان کے اندرنظرآنےوالےروشن حقائق کونہیں دیکھتیں۔ |
Surah 56 : Ayat 81
أَفَبِهَـٰذَا ٱلْحَدِيثِ أَنتُم مُّدْهِنُونَ
پھر کیا اس کلام کے ساتھ تم بے اعتنائی برتتے1 ہو
1 | اصل الفاظ ہیں اَنْتُمْ مُّدْ ھِنُون۔ اِدْھَان کے معنی ہیں کسی چیز سے مداہنت برتنا۔ اس کو اہمیت نہ دینا۔ اس کو سنجیدہ توجہ کے قابل نہ سمجھنا۔ انگریزی میں (To take lightly) کے الفاظ اس مفہوم سے قریب تر ہیں |
Surah 56 : Ayat 87
تَرْجِعُونَهَآ إِن كُنتُمْ صَـٰدِقِينَ
اُس وقت اُس کی نکلتی ہوئی جان کو واپس کیوں نہیں لے آتے؟
Surah 56 : Ayat 60
نَحْنُ قَدَّرْنَا بَيْنَكُمُ ٱلْمَوْتَ وَمَا نَحْنُ بِمَسْبُوقِينَ
ہم نے تمہارے درمیان موت کو تقسیم کیا ہے1، اور ہم اِس سے عاجز نہیں ہیں
1 | یعنی تمہاری پیدائش کی طرح تمہاری موت بھی ہمارے اختیار میں ہے۔ ہم یہ طے کرتے ہیں کہ کس کو ماں کے پیٹ ہی میں مر جانا ہے، اور کسے پیدا ہوتے ہی مر جانا ہے، اور کسے کس عمر تک پہنچ کر مرنا ہے۔ جس کی موت کا جو وقت ہم نے مقرر کر دیا ہے اس سے پہلے دنیا کی کوئی طاقت اسے مار نہیں سکتی، اور اس کے بعد ایک لمحہ کے لیے بھی زندہ نہیں رکھ سکتی۔ مرنے والے بڑے بڑے ہسپتالوں میں بڑے سے بڑے ڈاکٹروں کی آنکھوں کے سامنے مرتے ہیں، بلکہ ڈاکٹر خود بھی اپنے وقت پر مر جاتے ہیں۔ کبھی کوئی نہ موت کے وقت کو جان سکا ہے، نہ آتی ہوئی موت کو روک سکا ہے، نہ یہ معلوم کر سکا ہے کہ کس کی موت کس ذریعہ سے، کہاں، کس طرح واقع ہونے والی ہے |