Ayats Found (1)
Surah 4 : Ayat 102
وَإِذَا كُنتَ فِيهِمْ فَأَقَمْتَ لَهُمُ ٱلصَّلَوٲةَ فَلْتَقُمْ طَآئِفَةٌ مِّنْهُم مَّعَكَ وَلْيَأْخُذُوٓاْ أَسْلِحَتَهُمْ فَإِذَا سَجَدُواْ فَلْيَكُونُواْ مِن وَرَآئِكُمْ وَلْتَأْتِ طَآئِفَةٌ أُخْرَىٰ لَمْ يُصَلُّواْ فَلْيُصَلُّواْ مَعَكَ وَلْيَأْخُذُواْ حِذْرَهُمْ وَأَسْلِحَتَهُمْۗ وَدَّ ٱلَّذِينَ كَفَرُواْ لَوْ تَغْفُلُونَ عَنْ أَسْلِحَتِكُمْ وَأَمْتِعَتِكُمْ فَيَمِيلُونَ عَلَيْكُم مَّيْلَةً وَٲحِدَةًۚ وَلَا جُنَاحَ عَلَيْكُمْ إِن كَانَ بِكُمْ أَذًى مِّن مَّطَرٍ أَوْ كُنتُم مَّرْضَىٰٓ أَن تَضَعُوٓاْ أَسْلِحَتَكُمْۖ وَخُذُواْ حِذْرَكُمْۗ إِنَّ ٱللَّهَ أَعَدَّ لِلْكَـٰفِرِينَ عَذَابًا مُّهِينًا
اور اے نبیؐ! جب تم مسلمانوں کے درمیان ہو اور (حالت جنگ میں) انہیں نماز پڑھانے کھڑے ہو1 تو چاہیے کہ ان میں2 سے ایک گروہ تمہارے ساتھ کھڑا ہو اور اسلحہ لیے رہے، پھر جب وہ سجدہ کر لے تو پیچھے چلا جائے اور دوسرا گروہ جس نے ابھی نماز نہیں پڑھی ہے آکر تمہارے ساتھ پڑھے اور وہ بھی چوکنا رہے اور اپنے اسلحہ لیے رہے3، کیوں کہ کفار اِس تاک میں ہیں کہ تم اپنے ہتھیاروں اور اپنے سامان کی طرف سے ذرا غافل ہو تو وہ تم پر یکبارگی ٹوٹ پڑیں البتہ اگر تم بارش کی وجہ سے تکلیف محسوس کرو یا بیمار ہو تو اسلحہ رکھ دینے میں کوئی مضائقہ نہیں، مگر پھر بھی چوکنے رہو یقین رکھو کہ اللہ نے کافروں کے لیے رسوا کن عذاب مہیا کر رکھا ہے4
4 | یعنی یہ احتیاط جس کا حکم تمہیں دیا جا رہا ہے ، محض دُنیوی تدابیر کے لحاظ سے ہے، ورنہ دراصل فتح و شکست کا مدار تمہاری تدابیر پر نہیں بلکہ اللہ کے فیصلہ پر ہے۔ اس لیے ان احتیاطی تدبیروں پر عمل کرتے ہوئے تمہیں اس امر کا یقین رکھنا چاہیے کہ جو لوگ اللہ کے نور کو اپنی پھونکوں سے بُجھانے کی کوشش کررہے ہیں ، اللہ انہیں رسوا کرے گا |
3 | صلوٰۃِ خوف کی ترکیب کا انحصار بڑی حد تک جنگی حالات پر ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مختلف حالات میں مختلف طریقوں سے نماز پڑھائی ہے اور امامِ وقت مجاز ہے کہ ان طریقوں میں سے جس طریقہ کی اجازت جنگی صورتِ حال دے اسی کو اختیار کرے۔ ایک طریقہ یہ ہے کہ فوج کا ایک حصّہ امام کے ساتھ نماز پڑھے اور دُوسرا حصّہ دشمن کے مقابلہ پر رہے۔ پھر جب ایک رکعت پوری ہو جائے تو پہلا حصّہ سلام پھیر کر چلا جائے اور دُوسرا حصّہ آکر دُوسری رکعت امام کے ساتھ پوری کرے۔ اس طرح امام کی دو رکعتیں ہوں گی اور فوج کی ایک ایک رکعت۔ دُوسرا طریقہ یہ ہے کہ ایک حصہ امام کے ساتھ ایک رکعت پڑھ کر چلا جائے ، پھر دُوسرا حصہ آکر ایک رکعت امام کے پیچھے پڑھے ، پھر دونوں حصے باری باری سے آکر اپنی چھوٹی ہوئی ایک ایک رکعت بطورِ خود ادا کر لیں۔ اس طرح دونوں حصوں کی ایک ایک رکعت امام کے پیچھے ادا ہو گی، اور ایک رکعت انفرادی طور پر۔ تیسرا طریقہ یہ ہے کہ امام کے پیچھے فوج کا ایک حصہ دو رکعتیں ادا کرے اور تشہد کے بعد سلام پھیر کر چلا جائے۔ پھر دُوسرا حصہ تیسری رکعت میں آکر شریک ہو اور امام کے ساتھ سلام پھیرے۔ اِس طرح امام کی چار اور فوج کی دو دو رکعتیں ہوں گی۔ چوتھا طریقہ یہ ہے کہ فوج کا ایک حصہ امام کے ساتھ ایک رکعت پڑھے اور جب امام دُوسری رکعت کے لیے کھڑا ہو تو مقتدی بطورِ خود ایک رکعت مع تشہد پڑھ کر سلام پھیر دیں۔ پھر دُوسرا حصہ آکر اس حال میں امام کے پیچھے کھڑا ہو کہ ابھی امام دُوسری ہی رکعت میں ہو اور یہ لوگ بقیہ نماز امام کے ساتھ ادا کرنے کے بعد ایک رکعت خود اُٹھ کر پڑھ لیں ۔ اس صورت میں اما م کو دُوسری رکعت میں طویل قیام کرنا ہو گا۔ پہلی صورت کو ابنِ عباس، جابر بن عبداللہ اور مجاھد نے روایت کیا ہے۔ دُوسرے طریقہ کو عبداللہ بن مسعود ؓ نے روایت کیا ہے اور حنفیہ اسی کو ترجیح دیتے ہیں۔ تیسرے طریقہ کو حسن بصری نے ابوبکرہ سے روایت کیا ہے۔ اور چوتھے طریقہ کو امام شافعی اور مالک نے تھوڑے اختلاف کے ساتھ ترجیح دی ہے اور اس کا ماخذ سہل بن ابی حَثْمَہ کی روایت ہے۔ اِن کے علاوہ صلوٰۃِ خوف کے اور بھی طریقے ہیں جن کی تفصیل مبسُوطات میں مِل سکتی ہے |
2 | صلوٰۃ ِ خوف کا یہ حکم اس صورت کے لیے ہے جب کہ دشمن کے حملہ کا خطرہ تو ہو مگر عملاً معرکۂ قتال گرم نہ ہو۔ رہی یہ صورت کہ عملاً جنگ ہو رہی ہو تو اس صورت میں حنفیہ کے نزدیک نماز مؤخر کر دی جائے گی۔ امام مالک ؒ اور امام ثَوری کے نزدیک اگر رکوع و سجود ممکن نہ ہو تو اشاروں سے پڑھ لی جائے۔ امام شافعی کے نزدیک نماز ہی کی حالت میں تھوڑی سی زد و خورد بھی کی جا سکتی ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے فعل سے ثابت ہے کہ آپ نے غزوۂ خندق کے موقع پر چار نمازیں نہیں پڑھیں اور پھر موقع پا کر علی الترتیب انہیں ادا کیا ، حالانکہ غزوۂ خندق سے پہلے صلوٰۃ ِ خوف کا حکم آچکا تھا |
1 | امام ابو یوسف اور حسن بن زیاد نے ان الفاظ سے یہ گمان کیا ہے کہ صلوٰۃِ خوف صرف نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ کے لیے مخصُوص تھی۔ لیکن قرآن میں اس کی مثالیں بکثرت موجود ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کر کے ایک حکم دیا گیا ہے اور وہی حکم آپ کے بعد آپ کے جانشینوں کے لیے بھی ہے۔ اس لیے صلوٰۃِ خوف کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مخصُوص کرنے کی کوئی وجہ نہیں۔ پھر بکثرت جلیل القدر صحابہ سے ثابت ہے کہ انہوں نے حضُور ؐ کے بعد بھی صلوٰۃ خوف پڑھی ہے اور اس باب میں کسی صحابی کا اختلاف مروی نہیں ہے |