Ayats Found (11)
Surah 4 : Ayat 103
فَإِذَا قَضَيْتُمُ ٱلصَّلَوٲةَ فَٱذْكُرُواْ ٱللَّهَ قِيَـٰمًا وَقُعُودًا وَعَلَىٰ جُنُوبِكُمْۚ فَإِذَا ٱطْمَأْنَنتُمْ فَأَقِيمُواْ ٱلصَّلَوٲةَۚ إِنَّ ٱلصَّلَوٲةَ كَانَتْ عَلَى ٱلْمُؤْمِنِينَ كِتَـٰبًا مَّوْقُوتًا
پھر جب نماز سے فارغ ہو جاؤ تو کھڑے اور بیٹھے اور لیٹے، ہر حال میں اللہ کو یاد کرتے رہو اور جب اطمینان نصیب ہو جائے تو پوری نماز پڑھو نما ز در حقیقت ایسا فرض ہے جو پابندی وقت کے ساتھ اہل ایمان پر لازم کیا گیا ہے
Surah 11 : Ayat 114
وَأَقِمِ ٱلصَّلَوٲةَ طَرَفَىِ ٱلنَّهَارِ وَزُلَفًا مِّنَ ٱلَّيْلِۚ إِنَّ ٱلْحَسَنَـٰتِ يُذْهِبْنَ ٱلسَّيِّـَٔـاتِۚ ذَٲلِكَ ذِكْرَىٰ لِلذَّٲكِرِينَ
اور دیکھو، نماز قائم کرو دن کے دونوں سروں پر اور کچھ رات گزرنے پر درحقیقت نیکیاں برائیوں کو دور کر دیتی ہیں، یہ ایک یاد دہانی ہے ان لوگوں کے لیے جو خدا کو یاد رکھنے والے ہیں
Surah 17 : Ayat 78
أَقِمِ ٱلصَّلَوٲةَ لِدُلُوكِ ٱلشَّمْسِ إِلَىٰ غَسَقِ ٱلَّيْلِ وَقُرْءَانَ ٱلْفَجْرِۖ إِنَّ قُرْءَانَ ٱلْفَجْرِ كَانَ مَشْهُودًا
نماز قائم کرو1 زوال آفتاب2 سے لے کر اندھیرے3 تک اور فجر کے قرآن کا بھی التزام کرو4 کیونکہ قرآن فجر مشہود ہوتا ہے5
5 | قرآن فجر کے مشہود ہونے کا مطلب یہ ہے کہ خدا کے فرشتے اس کے گواہ بنتے ہیں، جیسا کہ احادیث میں تبصریح بیان ہوا ہے۔ اگرچہ فرشتے ہر نماز اور ہر نیکی کے گواہ ہیں، لیکن جب خاص طور پر نمازِ فجر کی قرأت پر ان کی گواہی کا ذکر کیاگیا ہے تو اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ اسے ایک خاص اہمیت حاصل ہے۔ اسی وجہ سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فجرکی نماز میں طویل قرأت کرنے کا طریقہ اختیار فرمایا اور اسی کی پیروی صحابہ کرام نے کی اور بعد کے ائمہ نے اسے مستحب قرار دیا۔ اس آیت میں مجملاً یہ بتایا گیا ہے کہ پنج وقتہ نماز، جو معراج کے موقع پر فرض کی گئی تھی، اس کے اوقات کی تنظیم کس طرح کی جائے۔ حکم ہوا کہ ایک نماز تو طلوع آفتا ب سے پہلے پڑھ لی جائے، اور باقی چار نمازیں زوال آفتاب کے بعد سے ظلمتِ شب تک پڑھی جائیں۔ پھر اس حکم کی تشریح کے لیے جبریل علیہ السلام بھیجے گئے جنہوں نے نماز کے ٹھیک ٹھیک اوقات کی تعلیم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دی۔ چنانچہ ابو داؤد اور ترمذی میں ابن عباس کی روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جبریل نے دو مرتبہ مجھ کو بیت اللہ کے قریب نماز پڑھائی۔ پہلے دن ظہر کی نماز ایسے وقت پڑھائی جبکہ سورج ابھی ڈھلا ہی تھا اور سایہ ایک جوتی کے تسمے سے زیادہ دراز نہ تھا، پھرعصر کی نماز ایسے وقت پڑھائی جبکہ ہر چیز کا سایہ اس کے اپنے قد کے برابر تھا، پھر مغرب کی نماز ٹھیک اُس وقت پڑھائی جبکہ روزہ دار روزہ افطار کرتا ہے، پھر عشاء کی نماز شفق غائب ہوتے ہی پڑھا دی، اور فجر کی نماز اس وقت پڑھائی جبکہ روزہ دار پر کھانا پیناحرام ہو جاتاہے۔ دوسرے دن اُنہوں نے ظہر کی نماز مجھے اس وقت پڑھائی جبکہ ہر چیز کا سایہ اُس کے قد کے برابر تھا، اور عصر کی نماز اس وقت جبکہ ہر چیز کا سایہ اس کے قد سے دوگنا ہو گیا، اور مغرب کی نماز اس وقت جبکہ روزہ دار روزہ افطار کرتا ہے، اور عشاء کی نماز ایک تہائی رات گزر جانے پر، اور فجر کی نماز اچھی طرح روشنی پھیل جانے پر۔ پھر جبریل ؑ نے پلٹ کر مجھ سے کہا کہ اے محمد ؐ، یہی اوقات انبیاء کے نماز پڑھنے کے ہیں، اور نمازوں کے صحیح اوقات ان دونوں وقتوں کے درمیان ہیں“۔ (یعنی پہلے دن ہر وقت کی ابتداء اور دوسرے دن ہر وقت کی انتہا بتائی گئی ہے۔ ہر وقت کی نماز ان دونوں کے درمیان ادا ہونی چاہیے)۔ قرآن مجید میں خود بھی نما ز کے ان پانچوں اوقات کی طرف مختلف مواقع پر اشارے کیے گئے ہیں۔ چنانچہ سورہ ہود میں فرمایا: اَقِمِ الصَّلوٰةَ طَرَفَیِ النَّھَارِ وَزُلَفًا مِّنَ الَّیْلِ ۔ط (آیت ١١۴) ”نماز قائم کر دن کے دونوں کناروں پر (یعنی فجر اور مغرب) اور کچھ رات گزرنے پر (یعنی عشاء) “ وَ سَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّکَ قَبْلَ طُلُو عِ الشَّمسِ وَقَبْلَ غُرُوْبِھَا وَمِنْ اٰنآئیَ الّیْلِ فَسَبِّحْ وَاَطْرَافَ النَّھَارِ ہ (آیت ١۳۰) ”اور اپنے رب کی حمد کے ساتھ اس کی تسبیح کر طلوع آفتاب سے پہلے (فجر)اور غروب آفتاب سے پہلے (عصر) اور رات کے اوقات میں پھر تسبیح کر (عشاء) اور دن کے سروں پر (یعنی صبح، ظہر اور مغرب)“ پھر سورہ روم میں ارشاد ہوا: فَسُبْحٰنَ اللہِ حِینَ تُمسُونَ وَحِیْنَ تُصْبِحُوْ نَہ وَلَہُ الْحَمدُ فِی السَّمٰوٰتِ وَالْا َرْضِ وَعَشِیًّا وَّ حِیْنَ تُظْھِرُوْنَ ہ (آیات ١۷۔١۸) ”پس اللہ کی تسبیح کرو جبکہ تم شام کرتے ہو(مغرب) اور صبح کرتے ہو(فجر)۔ اسی کے لیے حمد ہے آسمانوں میں اور زمین میں۔ اور اس کی تسبیح کرو دن کے آخری حصے میں (عصر) اور جبکہ تم دوپہر کرتے ہو(ظہر)“ نماز کے اوقات کا یہ نظام مقرر کرنے میں جو مصلحتیں ملحوظ رکھی گئی ہیں ان میں سے ایک اہم مصلحت یہ بھی ہے کہ آفتاب پرستوں کے اوقات ِعبادت سے اجتناب کیا جائے۔ آفتاب ہر زمانے میں مشرکین کا سب سے بڑا، یا بہت بڑا معبود رہا ہے، اور اس کے طلوع و غروب کے اوقات خاص طور پر اُن کے اوقاتِ عبادت رہے ہیں، اس لیے ان اوقات میں تو نماز پڑھنا حرام کر دیا گیا۔ اس کے علاوہ آفتاب کی پرستش زیادہ تر اس کے عروج کے اوقات میں کی جاتی رہی ہے، لہٰذا اسلام میں حکم دیا گیا کہ تم دن کی نمازیں زوال آفتاب کے بعد پڑھنی شروع کرو اور صبح کی نماز طلوع آفتاب سے پہلے پڑھ لیا کرو۔ اس مصلحت کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خود متعدد احادیث میں بیان فرمایا ہے۔ چنانچہ ایک حدیث میں حضرت عمرو بن عَبَسہ روایت کرتے ہیں کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے نماز کے اوقات دریافت کیے تو آپ نے فرمایا: صل صلوة الصبح ثم اقصر عن الصلوة حین تطلع الشمس حتٰی ترتفع فانھا تطلع حین تطلع بین قرنی الشیطن وحینئِذ یسجد لہ الکفار۔ ”صبح کی نماز پڑھو اور جب سورج نکلنے لگے تو نماز سے رُک جاؤ، یہاں تک کہ سورج بلند ہوجائے۔ کیونکہ سورج جب نکلتا ہے تو شیطان کے سینگوں کے درمیان نکلتا ہے اور اس وقت کفار اس کو سجدہ کرتے ہیں“۔ پھر آپ نے عصر کی نماز کا ذکر کرنے کے بعد فرمایا: ثم اقصرعن الصلوة حتی تغرب الشمس فانھا تغرب بین قرنی الشیطن وحینئذ یسجد لھا الکفار (رواہ مسلم) ”غروب ہوتا ہے اور اس وقت کفار اس کو سجدہ کرتے ہیں۔“ اس حدیث میں سورج کا شیطان کے سینگوں کے درمیان طلوع اور غروب ہونا ایک استعارہ ہے یہ تصور دلانے کے لیے کہ شیطان اس کے نکلنے اور ڈوبنے کے اوقات کو لوگوں کے لیے ایک فتنہ عظیم بنا دیتا ہے۔ گویا جب لوگ اس کو نکلتے اور ڈوبتے دیکھ کر سجدہ ریز ہوتے ہیں تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ شیطان اسے اپنے لیے سر پر لیے ہوئے آیا ہے اور سر ہی پر لیے جا رہا ہے۔ اس استعارے کی گرہ حضور ؐ نے خود اپنے اس فقرے میں کھول دی ہےکہ”اس وقت کفار اس کو سجدہ کرتے ہیں۔‘‘ |
4 | فجر کے لغوی معنی ہیں”پوپھٹنا“۔ یعنی وہ وقت جب اول اول سپیدہ صبح رات کی تاریکی کو پھاڑ کر نمودار ہوتا ہے۔ فجر کے قرآن سے مراد فجر کی نماز ہے۔ قرآن مجید میں نماز کے لیے کہیں تو صلوٰة کا لفظ استعمال ہوا ہے اورکہیں اس کے مختلف اجزاء میں سے کسی جُز کا نام لے کر پوری نماز مراد لی گئی ہے، مثلاً تسبیح، حمد،ذکر، قیام، رکوع، سجود وغیرہ۔ اسی طرح یہاں فجر کےوقت قرآن پڑھنے کا مطلب محض قرآن پڑھنا نہیں، بلکہ نماز میں قرآن پڑھنا ہے۔ اس طریقہ سے قرآن مجید نے ضمناً یہ اشارہ کر دیا ہے کہ نماز کن اجزاء سے مرکب ہونی چاہیے۔اور انہی اشارات کی رہنمائی میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز کی وہ ہئیت مقرر فرمائی جو مسلمانوں میں رائج ہے۔ |
3 | غسق اللیل بعض کے نزدیک”رات کا پور ی طرح تاریک ہو جانا“ہے، اور بعض اس سے نصف شب مراد لیتے ہیں۔اگر پہلا قول تسلیم کیا جائے تو اس سے عشاء کا اول وقت مراد ہوگا،اور اگر دوسرا قول صحیح مانا جائے تو پھر یہ اشارہ عشا کے آخر وقت کی طرف ہے۔ |
2 | ”زوال آفتاب“ہم نے دلوک الشمس کا ترجمہ کیا ہے۔اگرچہ بعض صحابہ وتابعین نے دلوک سے مراد غروب بھی لیا ہے،لیکن اکثریت کی رائے یہی ہے کہ اس سے مراد آفتاب کا نصف النہار سے ڈھل جانا ہے۔حضرت عمر، ابن عمر، اَنَس بن مالک، ابو بَرزة الاسلمی، حسن بصری۔شعبی، عطاء۔مجاہد، اور ایک روایت کی رو سے ابن عباس بھی اسی کے قائل ہیں۔امام محمد باقر اور امام جعفر صادق سے بھی یہی قول مروی ہے۔بلکہ بعض احادیث میں خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی دلوکِ شمس کی یہی تشریح منقول ہے،اگرچہ ان کی سند کچھ زیادہ قوی نہں ہے۔ |
1 | مشکلات و مصائب کے اس طوفان کا ذکر کرنے کے بعد فوراً ہی نماز قائم کرنے کا حکم دے کر اللہ تعالٰی نے یہ لطیف اشارہ فرمایا ہے کہ وہ ثابت قدمی جو ان حالات میں ایک مومن کو درکار ہے اقامتِ صلوٰة سے حاصل ہوتی ہے |
Surah 20 : Ayat 130
فَٱصْبِرْ عَلَىٰ مَا يَقُولُونَ وَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ قَبْلَ طُلُوعِ ٱلشَّمْسِ وَقَبْلَ غُرُوبِهَاۖ وَمِنْ ءَانَآىِٕ ٱلَّيْلِ فَسَبِّحْ وَأَطْرَافَ ٱلنَّهَارِ لَعَلَّكَ تَرْضَىٰ
پس اے محمدؐ، جو باتیں یہ لوگ بناتے ہیں اُن پر صبر کرو، اور اپنے رب کی حمد و ثنا کے ساتھ اُس کی تسبیح کرو سورج نکلنے سے پہلے اور غروب ہونے سے پہلے، اور رات کے اوقات میں بھی تسبیح کرو اور دن کے کناروں پر بھی1، شاید کہ تم راضی ہو جاؤ2
2 | اس کے دو مطلب ہو سکتے ہیں اور غالباً دونوں ہی مراد بھی ہیں۔ ایک یہ کہ تم اپنی موجودہ حالت پر راضی ہو جاؤ جس میں اپنے مشن کی خاطر تمہیں طرح طرح کی ناگوار باتیں سہنی پڑ رہی ہیں، اور اللہ کے اس فیصلے پر راضی ہو جاؤ کہ تم پر ناحق ظلم اور زیادتیاں کرنے والوں کو بھی سزا نہیں دی جاۓ گی، وہ داعی حق کو ستاتے بھی رہیں گے اور زمین میں دندناتے بھی پھریں گے۔ دوسرا مطلب یہ ہے کہ تم ذرا یہ کام کر کے تو دیکھو، اس کا نتیجہ وہ کچھ سامنے آۓ گا جس سے تمہارا دل خوش ہو جاۓ گا۔ یہ دوسرا مطلب قرآن میں متعدد مقامات پر مختلف طریقوں سے ادا کیا گیا ہے۔ مثلاً سورہ بنی اسرائیل میں نماز کا حکم دینے کے بعد فرمایا : عَیٰیٓ اَنْ یَّبْعَثَکَ رَبُّکَ مَقَاماً مَّحْموْداً، ’’توقع ہے کہ تمہارا رب تمہیں مقام محمود پر پہنچا دے گا‘‘ آیت 79۔ اور سورہ ضحٰی میں فرمایا : وَلَلْاٰ خِرَۃُ خَیْرٌ لَّکَ مِنَالْاُوْلیٰ ہ وَ لَسَوْفَ یُعْطِیْکَ رَبُّکَ فَتَرْضٰی، ’’تمہارے لیے بعد کا دور یقیناً پہلے دور سے بہتر ہے، اور عنقریب تمہارا رب تمہیں اتنا کچھ دے گا کہ تم خوش ہو جاؤ گے۔ |
1 | یعنی چونکہ اللہ تعالٰی ان کو ابھی ہلاک نہیں کرنا چاہتا، اور ان کے لیے مہلت کی ایک مدت مقرر کر چکا ہے، اس لیے اس کی دی ہوئی اس مہلت کے دوران میں یہ جو کچھ بھی تمہارے ساتھ کریں اس کو تمہیں برداشت کرنا ہو گا اور صبر کے ساتھ ان کی تمام تلخ و ترش باتیں سنتے ہوۓ اپنا فریضۂ تبلیغ و تذکیر انجام دینا پڑے گا۔ اس تحمل و برداشت اور اس صبر کی طاقت تمہیں نماز سے ملے گی جس کو تمہیں ان اوقات میں پابندی کے ساتھ ادا کرنا چاہیے۔ ’’رب کی حمد و ثنا کے ساتھ اس کی تسبیح‘‘ کرنے سے مراد نماز ہے، جیسا کہ آگے چل کر خود فرما دیا : وَأ مُرْ اَھْلَکَ بَالصَّلوٰۃِ وَاصْطَبِرْ عَلَیْھَا ،’’اپنے اہل و عیال کو نماز کی تلقین کرو اور خود بھی اس کے پابند رہو۔‘‘ نماز کے اوقات کی طرف یہاں بھی صاف اشارہ کر دیا گیا ہے۔ سورج نکلنے سے پہلے فجر کی نماز۔ سورج غروب ہونے سے پہلے عصر کی نماز۔ اور رات کے اوقات میں عشا اور تہجد کی نماز۔ رہے دن کے کنارے، تو وہ تین ہی ہو سکتے ہیں۔ ایک کنارہ صبح ہے، دوسرا کنارہ زوال آفتاب، اور تیسرا کنارہ شام۔لہٰذا دن کے کناروں سے مراد فجر، ظہر اور مغرب کی نماز ہی ہو سکتی ہے۔ مزید تفصیلات کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد دوم۔ ہود، حاشیہ 113۔ بنی اسرائیل، حاشیہ 91 تا 97، جلد سوم، الروم حاشیہ 24۔ جلد چہارم، المومن۔ حاشیہ 74۔ |
Surah 30 : Ayat 17
فَسُبْحَـٰنَ ٱللَّهِ حِينَ تُمْسُونَ وَحِينَ تُصْبِحُونَ
پس1 تسبیح کرو اللہ کی2 جبکہ تم شام کرتے ہو اور جب صبح کرتے ہو
2 | اللہ کی تسبیح کرنے سے مراد اُن تمام عیوب اورنقائص اورکمزوریوں سے،جو مشرکین اپنے شرک اورانکارِآخرت سے اللہ کی طرف منسُوب کرتے ہیں،اُس ذاتِ بےہمتا کے پاک اورمنزہ ہونے کااعلان واظہارکرنا ہے۔اِس اعلان واظہار کی بہترین صورت نماز ہے۔اِسی بنا پرابن عباس،مجاہد،قتادہ،ابن زید اوردوسرے مفسّرین کہتے ہیں کہ یہاں تسبیح کرنے سے مراد نماز پڑھناہے۔اس تفسیر کے حق میں یہ صریح قرینہ خود اس آیت میں موجود ہے کہ اللہ کی پاکی بیان کرنے کے لیے اِس میں چندخاص اوقات مقرر کیے گیےہیں۔ظاہربات ہے کہ اگرمحض یہ عقیدہ رکھنا مقصود ہو کہ اللہ تمام عیوب و نقائص سے منزّہ ہے،تواس کے لیے صبح و شام اور ظہروعصرکے اوقات کی پابندی کاکوئی سوال پیدا نہیں ہوتا،کیونکہ یہ عقیدہ تو مسلمان کو ہروقت رکھنا چاہیے۔اسی طرح اگرمحض زبان سے اللہ کی پاکی کااظہارمقصود ہو،تب بھی اِن اوقات کی تخصیص کےکوئی معنی نہیں،کیونکہ یہ اظہارتومسلمان کوہرموقع پرکرنا چاہیے۔اس لیے اوقات کی پابندی کے ساتھ تسبیح کرنے کاحکم لامحالہ اُس کی ایک خاص عملی صورت ہی کی طرف اشارہ کرتاہے۔اوریہ عملی صورت نماز کے سوااورکوئی نہیں ہے۔ |
1 | یہ’’پس‘‘اس معنی میں ہے کہ جب تمہیں یہ معلوم ہوگیا کہ ایمان و عمل صالح کا انجام وہ کچھ،اور کفروتکذیب کا انجام یہ کچھ ہے تو تمہیں یہ طرزِعمل اختیارکرناچاہیے۔نیزیہ’’پس‘‘اس معنی میں بھی ہے کہ مشرکین وکفار حیاتِ اُخروی کوناممکن قراردے کراللہ تعالٰی کو دراصل عاجزودرماندہ قراردے رہے ہیں۔لہٰذا تم اس کے مقابلہ میں اللہ کی تسبیح کرو اوراس کمزوری سے اُس کے پاک ہونے کااعلان کرو۔اس ارشاد کے مخاطب نبی صلی اللہ علیہ وسلم اورآپ کے واسطے سے تمام اہلِ ایمان ہیں۔ |
Surah 30 : Ayat 18
وَلَهُ ٱلْحَمْدُ فِى ٱلسَّمَـٰوَٲتِ وَٱلْأَرْضِ وَعَشِيًّا وَحِينَ تُظْهِرُونَ
آسمانوں اور زمین میں اُسی کے لیے حمد ہے اور (تسبیح کرو اس کی) تیسرے پہر اور جبکہ تم پر ظہر کا وقت آتا ہے1
1 | اس آیت میں نماز کے چاراوقات کی طرف صاف اشارہ ہے: فجر،مغرب،عصراورظہر۔اس کے علاوہ مزید اشارات جو قرآن مجید میں اوقات نماز کی طرف کیے گئے ہیں،حسبِ ذیل ہیں: اَقِمِہ الصَّلٰوۃَ لِدُلُوقِ الشَّمْسِ اِلٰی غَسَقِ الَّیْلِ وَقُرانَ الفَجرِ(بنی اسرائیل،آیت ۷۸) نماز قائم کرو آفتاب ڈھلنے کے بعد سے رات کی تاریکی تک،اور فجرکے وقت قرآن پڑھنے کااہتمام کرو۔وَاَقِمہِ الصَّلٰوۃَ طَرَفَیِ النَّھَارِوَزُلَفًا مِّنَ الَّیْلِ۔(ہود۔آیت ۱۱۴) اور نماز قائم کرو دن کے دونوں سروں پراورکچھ رات گزرنے پر۔وَسَبِح بِحَمدِ رَبِقَ قَبلَ طُلُوعِ الشَّمسِ وَقَبلَ غُرُوبِھَاوَمِن ٰانَای الَّیلِ فَسَّبِح وَاَطرَافَ النَھَارِ۔(ٰطٰہ۔آیت۔۱۳) اوراپنے رب کی حمد کے ساتھ اس کی تسبیح کروسورج نکنے سےپہلےاوراس کے غروب ہونے سے پہلے،اوررات کی کچھ گھڑیوں میں پھرتسبیح کرو،اوردن کے کناروںپر۔ان میں سے پہلی آیت بتاتی ہے کہ نماز کے اوقات زوالِ آفتاب کے بعد سے عشاتک ہیں،اور اس کےبعد پھرفجرکا وقت ہے۔دوسری آیت میں دن کے دونوں سروں سے مراد صبح اور مغرب کے اوقات ہیں اور کچھ رات گزرنے پرسےمراد عشا کاوقت۔تیسری آیت میں قبلِ طلوعِ آفتاب سے مراد فجراورقبلِ غروب سے مراد عصر۔رات کی گھڑیوں میں مغرب اور عشاءدونوں شامل ہیں۔اوردن کے کنارے سے تین ہیں،ایکؔ صب،دوسرؔے زوالِ آفتاب،تیسرؔے مغرب۔اس طرح قرآن مجید مختلف مقامات پرنماز کےاُن پانچوں اوقات کی طرف اشارہ کرتاہے جن پرآج دنیا بھرکے مسلمان نماز پڑھتےہیں۔لیکن ظاہرہےکہ محض ان آیات کوپڑھ کرکوئی شخص بھی اوقات نماز متعین نہ کرسکتا تھاجب تک کہ اللہ کے مقررکیے ہوئے معلمِ قرآن،محمد صلی اللہ علیہ وسلم خود اپنے قول اورعمل سے ان کی طرف رہنمائی نہ فرماتے۔یہاں ذراتھوڑی دیرٹھیرکرمنکرینِ حدیث کی اِس جسارت پرغورکیجیے کہ وہ’’نمازپڑھنے‘‘ کامذاق اڑاتے ہیں اورکہتے ہیں کہ یہ نماز جو آج مسلمان پڑھ رہے ہیں یہ سرے سے وہ چیز ہی نہیں ہے جس کاقرآن میں حکم دیا گیا ہے۔اُن کااشارہ ہے کہ قرآن تواقامتِ صلٰوۃ کوحکم دیتا ہے،اوراس سے مراد نماز پڑھنا نہیں بلکہ’’نظامِ ربوبیت‘‘قائم کرنا ہے۔اب ذراان سے پوچھیے کہ وہ کونسا نرالہ نظامِ ربوبیت ہے جسے یاتو طلوعِ آفتاب سے پہلے قائم کیا جاسکتاہے یا پھرزوالِ آفتاب کے بعد سے کچھ رات گزرنے تک؟اور وہ کونسا نظامِ ربوبیت ہےجو خاص جمعہ کے دن قائم کیا جانامطلوب ہے؟(اذا نودی للصلوۃ من یوم الجمعتہ فاسعواالی ذکراللہ)۔اور نظام ربوبیت کی آخر وہ کونسی خاص قسم ہے کہ اسے قائم کرنے کے لیےجب آدمی کھڑا ہوتوپہلے منہ اورکہنیوں تک ہاتھ اور ٹخنوں تک پاؤں دھو لےاورسرپرمسح کرلےورنہ دہ اسے قائم نہیں کرسکتا؟(اِذَاقُمتُم اِلَی الصَّلٰوۃِ فَاغسِلُواوُجُوھَکُمہ وَاَیدِیَکُمہ اِلیَ المَرَافِقِ)۔اور نظامِ ربوبیت کے اندرآخریہ کیا خصوصیت ہے کہ اگرآدمی حالتِ جَنابت میں ہوتو جب تک وہ غسل نہ کرلےاسےقائم نہیں کرسکتا؟(لَا تَقرَبُواالصَّلٰوۃَ وَلَا جُنُبًااِلَّا عَابِرِی سَبِیلٍ حَتّٰی تَغتَسِلُوا)اور یہ کیا معاملہ ہے کہ اگرآدمی عورت کو چھوبیٹھاہواورپانی نہ ملے تواس عجیب وغریب نظامِ ربوبیت کو قائم کرنے کے لیے اسےپاک مٹی پرہاتھ مارکراپنے چہرےاورمنہ پرملنا ہوگا؟(اَولٰمَستُمُ النّسَاءَ فَلَم تَجِدُوامَاءً فَتَیَمَّمُواصَعِیدًا طَیبًا فَامسَحُوابِوُجُوھِکُم وَاَیدِیَکُم مِّنہُ)۔اور یہ کیسا عجیب نظامِ ربوبیت ہے کہ اگر سفرپیش آجائے توآدمی اسے پوراقائم کرنے کے بجائے آدھا ہی قائم کرلے؟(وَاِذَا ضَرَبتُم فِی الاَرضِ فَلَیسَ عَلَیکُم جُنَاحٌ اَن تَقصُروامِنَ الصَّلٰوۃِ)۔پھریہ کیالطیفہ ہے کہ اگرجبگ کی حالت ہوتوفوج کےآدھے سپاہی ہتھیارلیے ہوئے امام کے پیچھے’’نظامِ ربوبیت‘‘قائم کرتے رہیں اورآدھے دشمن کے مقابلے میں ڈٹے رہیں،اس کے بعد جب پہلاگروہ امام کے پیچھے’’نظامِ ربوبیت قائم‘‘کرتے ہوئے ایک سجدہ کرلے تووہ اُٹھ کردشمن کامقابلہ کرنے کےلیے چلا جائے،اوردوسراگروہ اس کی جگہ آکرامام کے پیچھےاس’’نظامِ ربوبیت‘‘کوقائم کرناشروع کردے(واذا کنت فیھم فاقمت لھم الصلوۃ فلتقم طافتہ منھم معک ولیاخذوا اسلحتہم فاذا سجدوا فلیکونوا من وراکم ولتات طافۃ اخری لم یصلوافلیصلومعک)۔قرآن مجید کی یہ ساری آیات صاف بتارہی ہیں کہ اقامتِ صلٰوۃ سے مراد وہی نمازقائم کرناہے جو مسلمان دنیا بھرمیں پڑھ رہے ہیں،لیکن منکرین حدیث ہیں کہ خود بدلنے کے بجائے قرآن کوبدلنے پراصرار کیے چلے جاتےہیں۔حقیقت یہ ہے کہ جب تک کوئی شخص اللہ تعالٰی کے مقابلے میں بالکل ہی بے باک نہ ہو جائےوہ اس کے کلام کے ساتھ یہ مذاق نہیں کرسکتاجویہ حضرات کررہے ہیں۔یا پھرقرآن کے ساتھ یہ کھیل وہ شخص کھیل سکتا ہے جواپنےدل میں اسے اللہ کلام نہ سمجھتاہواورمحض دھوکادینے کےلیے قرآن قرآن پکارکرمسلمانوں کوگمراہ کرنا چاہتاہو۔(اس سلسلہ میں آگے حاشیہ ۵۰ بھی ملاحظہ ہو)۔ |
Surah 50 : Ayat 39
فَٱصْبِرْ عَلَىٰ مَا يَقُولُونَ وَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ قَبْلَ طُلُوعِ ٱلشَّمْسِ وَقَبْلَ ٱلْغُرُوبِ
پس اے نبیؐ، جو باتیں یہ لوگ بناتے ہیں ان پر صبر کرو1، اور اپنے رب کی حمد کے ساتھ اس کی تسبیح کرتے رہو، طلوع آفتاب اور غروب آفتاب سے پہلے
1 | یعنی امر واقعہ یہ ہے کہ یہ پوری کائنات ہم نے چھ دن میں بنا ڈالی ہے اس کو بنا کر تھی نہیں گۓ ہیں کہ اس کی تعمیر تو کرنا ہمارے بس میں نہ رہا ہو۔ اب اگر یہ نادان لوگ تم سے زندگی بعد موت کی خبر سن کو تمہارا مذاق اڑاتے ہیں اور تمہیں دیوانہ قرار دیتے ہیں تو اس پر صبر کرو۔ ٹھنڈے دل سے ان کی ہر بیہودہ بات کو سنو اور جس حقیقت کے بیان کرنے پر تم مامور کیے گۓ ہو اسے بیان کرتے چلے جاؤ۔ اس آیت میں ضمناً ایک لطیف طنز یہود و نصاریٰ پر بھی ہے جن کی بائبل میں یہ افسانہ گھڑا گیا ہے کہ خدا نے چھ دنوں میں زمین و آسمان کو بنایا اور ساتویں دن آرام کیا کو ’’فارغ ہوا‘‘ سے بدل دیا ہے۔ مگر کنگ جیمز کی مستند انگریزی بائیبل میں (And He rested on the seventh day) کے الفاظ صاف موجود ہیں۔ اور یہی الفاظ اس ترجمے میں بھی پاۓ جاتے ہیں جو 1954 ء میں یہودیوں نے فلیڈلفیا سے شائع کیا ہے۔ عربی ترجمہ میں بھی فاستراح فی الیوم السَّا بع کے الفاظ ہیں |
Surah 50 : Ayat 40
وَمِنَ ٱلَّيْلِ فَسَبِّحْهُ وَأَدْبَـٰرَ ٱلسُّجُودِ
اور رات کے وقت پھر اُس کی تسبیح کرو اور سجدہ ریزیوں سے فارغ ہونے کے بعد بھی1
1 | یہ ہے وہ ذریعہ جس سے آدمی کو یہ طاقت حاصل ہوتی ہے کہ دعوت حق کی راہ میں اسے خواہ کیسے ہی دل شکن اور روح فرسا حالات سے سابقہ پیش آۓ، اور اس کی کوششوں کا خواہ کوئی ثمرہ بھی حاصل ہوتا نظر نہ آۓ، پھر بھی وہ پورے عزم کے ساتھ زندگی بھر کلمۂ حق بلند کرنے ور دنیا کو خیر کی طرف بلانے کی سعی جاری رکھے۔ رب کی حمد اور اس کی تسبیح سے مراد یہاں نماز ہے اور جس مقام پر بھی قرآن میں حمد و تسبیح کو خاص اوقات کے ساتھ مخصوص کیا گیا ہے وہاں اس سے مراد نماز ہی ہوتی ہے۔ ’’ طلوع آفتاب سے پہلے۔‘‘ فجر کی نماز ہے ‘‘غروب آفتاب سے پہلے ‘’ دو نمازیں ہیں، ایک ظہر، دوسری عصر ‘‘۔ رات کے وقت۔ مغرب اور عشاء کی نمازیں ہیں اور تیسری تہجد بھی رات کی تسبیح میں شامل ہے۔ (تشریح کے لیے ملاحظہ ہو جلد دوم، بنی اسرائیل، حواشی 91 تا 97۔ جلد سوم، طہٰ، حاشیہ 111۔ الروم، حواشی 23۔24)۔ رہی وہ تسبیح جو ’’سجدے فارغ ہونے کے بعد ‘‘ کرنے کی ہدایت فرمائی گئی ہے، تو اس سے مراد ذکر بعد الصلوٰۃ بھی ہو سکتا ہے اور فرض کے بعد نفل ادا کرنا بھی۔ حضرت عمر، حضرت علی، حضرت حسن بن علی، حضرات ابوہریرہ، ان عباس، شُیبی، مجاہد، عکرمہ، حسن بصری، قتادہ، ابراہیم نخَعی اور اَوزاعی اس سے مراد نماز مغرب کے بعد کی دو رکعتیں لیے ہیں۔ حضرت عبداللہ ن عَمرو بن العاص اور ایک روایت کے بموجب حضرت عبداللہ بن عباس کا بھی یہ خیال ہے کہ اس سے مراد ذکر بعد الصلوٰۃ ہے۔ اور ابن زید کہتے ہیں کہ اس ارشاد کا مقصود یہ ہے کہ فرائض کے بعد بھی نوافل ادا کے جائیں۔ صحیحین میں حضرت ابوہریرہؓ کی روایت ہے کہ ایک مرتبہ غریب مہاجرین نے حاضر ہو کر عرض کیا یا رسول اللہ مالدار لوگ تو بڑے درجے لوٹ لے گۓ۔ حضورؐ نے فرمایا ’’ کیا ہوا‘‘؟۔ انہوں نے عرض کیا وہ بھی نمازیں پڑھتے ہیں جیسے ہم پڑھتے ہیں اور روزے رکھتے ہیں جیسے ہم رکھتے ہیں، مگر وہ صدقہ کرتے ہیں اور ہم نہیں کر سکتے، وہ غلام آزاد کرتے ہیں اور ہم نہیں کر سکتے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا’’ کیا میں تمہیں ایسی چیز بتاؤں جسے اگر تم کرو تو تم دوسرے لوگوں سے بازی لے جاؤ گے بجز ان کے جو وہی عمل کریں جو تم کرو گے؟ وہ عمل یہ ہے کہ تم ہر نماز کے بعد 33۔33 مرتبہ سبحان اللہ، الحمد لِلہ، اللہ اکبر کہا کرو‘‘۔ کچھ مدت کے بعد ان لوگوں نے عرض کیا کہ ہمارے مال دار بھائیوں نے بھی یہ بات سن لی ہے اور وہ بھی یہی عمل کرنے لگے ہیں۔ اس پر آپؐ نے فرمایا ذٰلک فضل اللہ یؤنیہ من یشآء۔ ایک روایت میں ان کلمات کی تعداد 33۔ 33 کے بجاۓ دس دس بھی منقول ہوئی ہے۔ حضرت زید بن ثابت کی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ہم کو ہدایت فرمائی تھی کہ ہم ہر نماز کے بعد 33۔ 33 مرتبہ سبحان اللہ اور الحمد لِلہ کہا کریں اور 34 مرتبہ اللہ اکبر کہیں۔ بعد میں ایک انصاری نے عرض کیا میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ کوئی کہتا ہے اگر تم 25۔25 مرتبہ یہ تین کلمے کہو اور پھر 25 مرتبہ لا اِلٰہ الا اللہ کہو تو یہ زیادہ بہتر ہوگا۔ حضورؐ نے فرمایا اچھا اسی طرح کیا کرو۔(احمد۔نسائی۔ دارمی)۔ حضرت ابو سعید خدری کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نماز سے فارغ ہو کر جب پلٹتے تھے تو میں نے آپ کو یہ الفاظ کہتے سنا ہے :سُبْحَا نَ رَبِّکَ رَبِّ الْعِزِّۃِ عَمَّایَصِفُوْنَ o وَسَلَامٌ عَلَالْمُرْسَلِیْنَ o وَالْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ o(احکام القرآن للجصاص)۔ اس کے علاوہ بھی ذکر بعد الصلوٰۃ کی متعدد صورتیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے منقول ہوئی ہیں۔ جو حضرات قرآن مجید کی اس ہدایت پر عمل کرنا چاہیں وہ مشکوٰۃ، باب الذکر بعد الصلوٰۃ میں سے کوئی ذکر جو ان کے دل کو سب سے زیادہ لگے، چھانٹ کر یاد کر لیں اور اس کا التزام کریں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے اپنے بتاۓ ہوۓ ذکر سے بہتر اور کونسا ذکر ہو سکتا ہے۔ مگر یہ خیال رکھیں کہ ذکر سے اصل مقصود چند مخصوص الفاظ کو زبان سے گزار دینا نہیں ہے بلکہ ان معافی کو ذہن میں تازہ اور مستحکم کرنا ہے جو ان الفاظ میں بیان کیے گۓ ہیں۔ اس لیے جو ذکر بھی کیا جاۓ اس کے معنی اچھی طرح سمجھ لینے چاہییں اور پھر معنی کے استحضار کے ساتھ ذکر کرنا چاہیے |
Surah 52 : Ayat 48
وَٱصْبِرْ لِحُكْمِ رَبِّكَ فَإِنَّكَ بِأَعْيُنِنَاۖ وَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ حِينَ تَقُومُ
اے نبیؐ، اپنے رب کا فیصلہ آنے تک صبر کرو1، تم ہماری نگاہ میں ہو2 تم جب اٹھو تو اپنے رب کی حمد کے ساتھ اس کی تسبیح کرو3
3 | اس ارشاد کے کئی مفہوم ہو سکتے ہیں ، اور بعید نہیں کہ وہ سب ہی مراد ہوں ایک مفہوم یہ ہے کہ جب بھی تم کسی مجلس سے اٹھو تو اللہ کی حمد و تسبیح کر کے اٹھو۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم خود بھی اس پر عمل فرماتے تھے ، اور آپ نے مسلمانوں کو بھی یہ ہدایت فرمائی تھی کہ کسی مجلس سے اٹھتے وقت اللہ کی حمد و تسبیح کر لیا کریں ، اس سے ان تمام باتوں کا کفارہ ادا ہو جاتا ہے جو اس مجلس میں ہوئی ہوں ۔ ابوداؤد، ترمذی نسائی اور حاکم نے حضرت ابوہریرہؓ کے واسطے سے حضورؐ کا یہ ارشاد نقل کیا ہے کہ جو شخص کسی مجلس میں بیٹھا ہو اور اس میں خوب قیلو قال ہوئی ہو، وہ اگر اٹھنے سے پہلے یہ الفاظ کہے تو اللہ ان باتوں کو معاف کر دیتا ہے جو وہاں ہوں : سبحانک اللہم و بحمدک، اشھد ان لا اِلٰہ الا انت، استغفرک و اتوب الیک۔‘‘ خداوندا، میں تیری حمد کے ساتھ تیری تسبیح کرتا ہوں ، میں گواہی دیتا ہوں کہ تیرے سوا کوئی معبود نہیں ہے ۔ میں تجھ سے مغفرت چاہتا ہوں اور تیرے حضور توبہ کرتا ہوں ۔‘‘ دوسرا مفہوم اس کا یہ ہے کہ جب تم نیند سے بیدار ہو کر اپنے بستی سے اٹھو تو اپنےرب کی تسبیح کے ساتھ اس کی حمد کرو۔ اس پر بھی نبی صلی اللہ علیہ و سلم خود عمل فرماتے تھے اور اپنے اصحاب کو آپ نے یہ تعلیم دی تھی کہ نیند سے جب بیدار ہوں تو یہ الفاظ کہا کریں : لاالہ الااللہ وحدہ لا شریک لہٗ لہٗ الملک ولہ الحمد وھو علیٰ کل شیءٍ قدیر۔ سبحان اللہ والحمد لِلہ ولا اِلہ الااللہ، واللہ اکبر، ولاحول ولا قوۃ الا باللہ۔ (مسند احمد، بخاری بروایت عبادہ بن الصامت) تیسرا مفہوم اس کا یہ ہے کہ جب تم نماز کے لیے کھڑے ہو تو اللہ کی حمد و تسبیح سے اس کا آغاز کرو۔اسی حکم کی تعمیل میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ ہدایت فرمائی کہ نماز کی ابتدا تکبیر تحریمہ کے بعد ان الفاظ سے کی جاۓ سبحانک اللہم و بحمدک و تبارک اسمک و تعالیٰ جدک ولا الٰہ غیرک۔ چوتھا مفہوم اس کا یہ ہے کہ جب تم اللہ کی طرف دعوت دینے کے لیے اٹھو تو اللہ کی حمد و تسبیح سے اس کا آغاز کرو۔ یہ بھی نبی صلی اللہ علیہ و سلم کا مستقل معمول تھا کہ آپ ہمیشہ اپنے خطبوں کا آغاز حمد و ثنا سے فرمایا کرتے تھے ۔ مفسر ابن ضریر نے اس کا یاک اور مفہوم یہ بیان کیا ہے کہ جب تم دوپہر کو قیلولہ کر کے اٹھو تو نماز پڑھو، اور اس سے مراد نماز ظہر ہے |
2 | یعنی ہم تمہاری نگہبانی کر رہے ہیں ۔ تمہیں تمہارے حال پر چھوڑ نہیں دیا ہے |
1 | دوسرا مفہوم یہ بھی ہو سکتا ہے کہ صبر و استقامت کے ساتھ اپنے رب کے حکم کی تعمیل پر ڈٹے رہو |
Surah 52 : Ayat 49
وَمِنَ ٱلَّيْلِ فَسَبِّحْهُ وَإِدْبَـٰرَ ٱلنُّجُومِ
رات کو بھی اس کی تسبیح کیا کرو1 اور ستارے جب پلٹتے ہیں اُس وقت بھی2
2 | ستاروں کے پلٹنے سے مراد رات کے آخری حصہ میں ان کا غروب ہونا اور سپیدہ صبح کے نمودار ہونے پر ان کی روشنی کا ماند پڑ جانا ہے ۔ یہ نماز فجر کا وقت ہے ۔ |
1 | اس سے مراد مغرب و عشا اور تہجد کی نمازیں بھی ہیں ، اور تلاوت قرآن بھی، اور اللہ کا ذکر بھی |