Ayats Found (17)
Surah 2 : Ayat 43
وَأَقِيمُواْ ٱلصَّلَوٲةَ وَءَاتُواْ ٱلزَّكَوٲةَ وَٱرْكَعُواْ مَعَ ٱلرَّٲكِعِينَ
نماز قائم کرو، زکوٰۃ دو1 اور جو لوگ میرے آگے جھک رہے ہیں اُن کے ساتھ تم بھی جھک جاؤ
1 | نماز اور زکوٰۃ ہر زمانے میں دین اسلام کے اہم ترین ارکان رہے ہیں۔ تمام انبیا کی طرح انبیائے بنی اسرائیل نے بھی اس کی سخت تاکید کی تھی۔ مگر یہودی ان سے غافل ہو چکے تھے۔ نماز با جماعت کا نظام ان کے ہاں تقریباً بالکل درہم برہم ہو چکا تھا۔ قوم کی اکثریت انفرادی نماز کی بھی تارک ہو چکی تھی، اور زکوٰۃ دینے کے بجائے یہ لوگ سُود کھانے لگے تھے |
Surah 2 : Ayat 45
وَٱسْتَعِينُواْ بِٱلصَّبْرِ وَٱلصَّلَوٲةِۚ وَإِنَّهَا لَكَبِيرَةٌ إِلَّا عَلَى ٱلْخَـٰشِعِينَ
صبر اور نماز سے مدد لو1، بیشک نماز ایک سخت مشکل کام ہے
1 | یعنی اگر تمہیں نیکی کے راستے پر چلنے میں دُشواری محسُوس ہوتی ہے تو اس دُشواری کا علاج صبر اور نماز ہے، ان دوچیزوں سے تمہیں وہ طاقت ملے گی جس سے یہ راہ آسان ہو جائے گی۔ صَبْر کے لُغوی معنی روکنے اور باندھنے کے ہیں اور اس سے مراد ارادے کی و ہ مضبُوطی ، عَزْم کی وہ پختگی اور خواہشاتِ نفس کا وہ اِنضباط ہے ، جس سے ایک شخص نفسانی ترغیبات اور بیرونی مشکلات کے مقابلے میں اپنے قلب و ضمیر کے پسند کیے ہوئے راستے پر لگاتار بڑھتا چلا جائے۔ ارشاد ِ الہٰی کا مدّ عا یہ ہے کہ اس اخلاقی صِفَت کو اپنے اندر پرورش کرو اور اس کو باہر سے طاقت پہنچانے کے لیے نماز کی پابندی کرو |
Surah 2 : Ayat 110
وَأَقِيمُواْ ٱلصَّلَوٲةَ وَءَاتُواْ ٱلزَّكَوٲةَۚ وَمَا تُقَدِّمُواْ لِأَنفُسِكُم مِّنْ خَيْرٍ تَجِدُوهُ عِندَ ٱللَّهِۗ إِنَّ ٱللَّهَ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرٌ
نماز قائم کرو اور زکوٰۃ دو تم اپنی عاقبت کے لیے جو بھلائی کما کر آگے بھیجو گے، اللہ کے ہاں اسے موجود پاؤ گے جو کچھ تم کرتے ہو، وہ سب اللہ کی نظر میں ہے
Surah 2 : Ayat 153
يَـٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُواْ ٱسْتَعِينُواْ بِٱلصَّبْرِ وَٱلصَّلَوٲةِۚ إِنَّ ٱللَّهَ مَعَ ٱلصَّـٰبِرِينَ
اے لوگو جو ایمان لائے ہو، صبر اور نماز سے مدد لو اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے1
1 | یعنی اِس بھاری خدمت کا بوجھ اُٹھانے کے لیےجس طاقت کی ضرورت ہے ، وہ تمہیں دو چیزوں سے حاصل ہوگی۔ ایک یہ کہ صبر کی صفت اپنے اندر پرورش کرو۔ دُوسرے یہ کہ نماز کے عمل سے اپنے آپ کو مضبُوط کرو۔ آگے چل کر مختلف مقامات پر اس امر کی تشریحات ملیں گی کہ صبر بہت سے اہم ترین اخلاقی اوصاف کے لیے جامع عنوان ہے۔ اور حقیقت میں یہ وہ کلید ِ کامیابی ہے، جس کے بغیر کوئی شخص کسی مقصد میں بھی کامیاب نہیں ہو سکتا۔ اسی طرح آگے چل کر نماز کے متعلق بھی تفصیل سے معلوم ہوگا کہ وہ کِس کِس طرح افرادِ مومنین اور جماعتِ مومنین کو اس کارِ عظیم کے لیے تیار کرتی ہے |
Surah 6 : Ayat 72
وَأَنْ أَقِيمُواْ ٱلصَّلَوٲةَ وَٱتَّقُوهُۚ وَهُوَ ٱلَّذِىٓ إِلَيْهِ تُحْشَرُونَ
نماز قائم کرو اور اس کی نافرمانی سے بچو، اسی کی طرف تم سمیٹے جاؤ گے
Surah 14 : Ayat 31
قُل لِّعِبَادِىَ ٱلَّذِينَ ءَامَنُواْ يُقِيمُواْ ٱلصَّلَوٲةَ وَيُنفِقُواْ مِمَّا رَزَقْنَـٰهُمْ سِرًّا وَعَلَانِيَةً مِّن قَبْلِ أَن يَأْتِىَ يَوْمٌ لَّا بَيْعٌ فِيهِ وَلَا خِلَـٰلٌ
اے نبیؐ، میرے جو بندے ایمان لائے ہیں اُن سے کہہ دو کہ نماز قائم کریں اور جو کچھ ہم نے اُن کو دیا ہے، اُس میں سے کھلے اور چھپے (راہ خیر میں) خرچ کریں1 قبل اِس کے کہ وہ دن آئے جس میں نہ خرید و فروخت ہوگی اور نہ دوست نوازی ہوسکے گی2
2 | یعنی نہ تو وہاں کچھ دے دلا کر ہی نجات خریدی جا سکے گی اور نہ کسی کی دوستی کام آئے گی کہ وہ تمہیں خدا کی پکڑ سے بچالے |
1 | مطلب یہ ہے کہ اہلِ ایمان کی روش کفار کی روش سے مختلف ہونی چاہیے۔ وہ تو کافر ِ نعمت ہیں۔ انہیں شکر گزار ہونا چاہیے اور اس شکر گزاری کی عملی صورت یہ ہے کہ نماز قائم کریں اور خدا کی راہ میں اپنے مال خرچ کریں |
Surah 15 : Ayat 98
فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ وَكُن مِّنَ ٱلسَّـٰجِدِينَ
اس کا علاج یہ ہے کہ اپنے رب کی حمد کے ساتھ اس کی تسبیح کرو، اس کی جناب میں سجدہ بجا لاؤ
Surah 20 : Ayat 132
وَأْمُرْ أَهْلَكَ بِٱلصَّلَوٲةِ وَٱصْطَبِرْ عَلَيْهَاۖ لَا نَسْــَٔلُكَ رِزْقًاۖ نَّحْنُ نَرْزُقُكَۗ وَٱلْعَـٰقِبَةُ لِلتَّقْوَىٰ
اپنے اہل و عیال کو نماز کی تلقین کرو1 اور خود بھی اس کے پابند رہو ہم تم سے کوئی رزق نہیں چاہتے، رزق تو ہم ہی تمہیں دے رہے ہیں اور انجام کی بھلائی تقویٰ ہی کے لیے ہے2
2 | یعنی ہم نماز پڑھنے کے لیے تم سے اس لیے نہیں کہتے ہیں کہ اس سے ہمارا کوئی فائدہ ہے۔ فائدہ تمہارا اپنا ہی ہے، اور وہ یہ ہے کہ تم میں تقویٰ پیدا ہو گا جو دنیا اور آخرت دونوں ہیں میں آخری اور مستقل کامیابی کا وسیلہ ہے۔ |
1 | یعنی تمہارے بال بچے بھی اپنی تنگ دستی و خستہ حالی کے مقابلہ میں ان حرام خوروں کے عیش و عشرت کو دیکھ کر دل شکستہ نہ ہوں۔ ان کو تلقین کرو کہ نماز پڑھیں۔ یہ چیز ان کے زاویۂ نظر کو بدل دے گی۔ ان کے معیار قدر کو بدل دے گی۔ ان کی تو جہالت کا مرکز بدل دے گی۔ وہ پاک رزق پر صابر و قانع ہو جائیں گے اور اس بھلائی کو جو ایمان و تقویٰ سے حاصل ہوتی ہے اس عیش پر ترجیح دینے لگیں گے جو فسق و فجور اور دنیا پرستی سے حاصل ہوتا ہے |
Surah 22 : Ayat 77
يَـٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُواْ ٱرْكَعُواْ وَٱسْجُدُواْ وَٱعْبُدُواْ رَبَّكُمْ وَٱفْعَلُواْ ٱلْخَيْرَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ ۩
اے لوگو جو ایمان لائے ہو، رکوع اور سجدہ کرو، اپنے رب کی بندگی کرو، اور نیک کام کرو، شاید کہ تم کو فلاح نصیب ہو1
1 | یعنی فلاح کی توقع اگر کی جا سکتی ہے تو یہ روش اختیار کرنے سے کی جا سکتی ہے۔ لیکن جوشخص بھی یہ روش اختیار کرے اسے اپنے عمل پر گھمنڈ نہ ہونا چاہیے کہمیں جب ایسا عبادت گزر اور نیکو کار ہوں تو ضرور فلاح پاؤں گا، بلکہ اسے اللہ کے فضل کا امیدوار رہنا چاہیے اور اسی کی رحمت سے توقعات وابستہ کرنی چاہییں۔ وہ فلاح دے تب ہی کوئی ژخص فلاح پا سکتا ہے۔ خود فلاح حاصل کر لینا کسی کے بس کی بات نہیں ہے۔ ’’ شاید کہ تم کو فلاح نصیب ہو۔ ‘‘ یہ فقرہ ارشاد فرمانے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اس طرح فلاح نصیب ہونا مشکوک ہے۔ بلکہ در اصل یہ شاہانہ انداز بیان ہے۔ بادشاہ اگر اپنے کسی ملازم سے یہ کہے کہ فلاں کام کرو، شاید کہ تمہیں فلاں منصب مل جائے، تو ملازم کے گھر شادیانے بج جاتے ہیں کیونکہ یہ اشارۃً ایک وعدہ ہے اور ایک مہر بان آقا سے یہ توقع نہیں کی جاسکتی کہ کسی خدمت پر ایک صلے کی امید وہ خود دلائے اور پھر اپنے وفا در خادم کو مایوس کرے۔ امام شافعی، امام احمد ، عبداللہ بن مبارک اور اسحاق بن راھَوَیہ کے نزدیک سورہ حج کی یہ آیت بھی آیت سجدہ ہے۔ مگر امام ابو حنیفہ ، امام مالک، حسن بصری ، سعید بن المسیب، سعید بن جبیر، ابرہیم نخعی اور سفیان ثوری اس جگہ سجدہ تلاوت کے قائل نہیں ہیں۔ دونوں طرف کے دلائل ہم مختصراً یہاں نقل کر دیتے ہیں۔ پلے گروہ کا اولین استدلال ظاہر آیت سے ہے کہ اس میں سجدے کا حکم ہے۔ دوسری دلیل عقبہ بن عامر کی وہ روایت ہے جسے احمد، ابو داؤد ، ترمذی ، ابن کردویہ اور بیہقی نے نقل کیا ہے کہ : قلت یا رسول اللہ افضلت سورۃ الحج علیٰ سائر القراٰن بسجدتین؟ قال نعم فمن لم یسجد ھما فلا یقرأ ھما۔ ’’ میں نے عرض کیا یا روسل اللہ، کیا سورہ حج کو سارے قرآن پر یہ فضیلت حاصل ہے کہ اس میں دو سجدے ہیں ؟ آپ نے فرمایا ہاں ، پس جو ان پر سجدہ نہ کرے وہ انہیں نہ پڑھے ‘‘۔ تیسری دلیل ابو داؤد اور ابن ماجہ کی وہ روایت ہے جس میں عمرؓ ، علیؓ، عثمانؓ، ابن عمرؓ، ابن عباسؓ ، ابو الدرداءؓ ، ابو موسیٰؓ اشعری اور عماؓر بن یاسر سے یہ بات منقول ہے کہ سورہ حج میں دو سجدے ہیں۔ دوسرے گروہ کا استدلال یہ ہے کہ آیت میں محض سجدے کا حکم نہیں ہے بلکہ رکوع اور سجدے کا ایک ساتھ ہے اور قرآن میں رکوع و سجود ملا کر جب بولا جاتا ہے تو اس سے مراد نماز ہی ہوتی ہے۔ نیز رکوع و سجود کا اجتماع نماز ہی کے ساتھ مخصوص ہے۔ عقبہ بن عامر کی روایت کے متعلق وہ کہتے ہیں کہ اس کی سند ضعیف ہے۔ اس کو ابن لیعہ ابو المصعب بصری سے روایت کرتا ہے اور یہ دونوں ضعیف راوی ہیں۔ خاص کر ابو امصعب تو وہ شخص ہے جو حجاج بن یوسف کے ساتھ کعبے پر منجنیق سے پتھر برسانے والوں میں شامل تھا۔ عمرو بن عاص والی روایت کو بھی وہ پایہ اعتبار سے ساقط قرار دیتے ہیں کیونکہ اس کو سعید العتقی عبداللہ بن منین الکلابی سے روایت کرتا ہے اور دونوں مجہول ہیں ، کچھ پتہ نہیں کہ کون تھے اور کس پایہ کے آدمی تھے۔ اقوال صحابہ کے سلسلے میں وہ کہتے ہیں کہ ابن عباس نے سورہ حج میں دو سجدے ہونے کا یہ مطلب صاف بتایا ہے کہ : الا ولیٰ عزمۃ ا الاخرۃ تعلیم، یعنی پہلا سجدہ لازمی ہے ، اور دوسرا سجدہ تعلیمی |
Surah 22 : Ayat 78
وَجَـٰهِدُواْ فِى ٱللَّهِ حَقَّ جِهَادِهِۦۚ هُوَ ٱجْتَبَـٰكُمْ وَمَا جَعَلَ عَلَيْكُمْ فِى ٱلدِّينِ مِنْ حَرَجٍۚ مِّلَّةَ أَبِيكُمْ إِبْرَٲهِيمَۚ هُوَ سَمَّـٰكُمُ ٱلْمُسْلِمِينَ مِن قَبْلُ وَفِى هَـٰذَا لِيَكُونَ ٱلرَّسُولُ شَهِيدًا عَلَيْكُمْ وَتَكُونُواْ شُهَدَآءَ عَلَى ٱلنَّاسِۚ فَأَقِيمُواْ ٱلصَّلَوٲةَ وَءَاتُواْ ٱلزَّكَوٲةَ وَٱعْتَصِمُواْ بِٱللَّهِ هُوَ مَوْلَـٰكُمْۖ فَنِعْمَ ٱلْمَوْلَىٰ وَنِعْمَ ٱلنَّصِيرُ
اللہ کی راہ میں جہاد کرو جیسا کہ جہاد کرنے کا حق ہے1 اُس نے تمہیں اپنے کام کے لیے چن لیا ہے2 اور دین میں تم پر کوئی تنگی نہیں رکھی3 قائم ہو جاؤ اپنے باپ ابراہیمؑ کی ملت پر4 اللہ نے پہلے بھی تمہارا نام 5"مسلم" رکھا تھا اور اِس (قرآن) میں بھی (تمہارا یہی نام ہے) تاکہ رسول تم پر گواہ ہو اور تم لوگوں پر گواہ6 پس نماز قائم کرو، زکوٰۃ دو اور اللہ سے وابستہ ہو جاؤ7 وہ ہے تمہارا مولیٰ، بہت ہی اچھا ہے وہ مولیٰ اور بہت ہی اچھا ہے وہ مددگار
7 | یا دوسرے الفاظ میں اللہ کا دامن مضبوطی کے ساتھ تھام لو۔ ہدایت اور قانون زندگی بھی اسی سے لو، اطاعت بھی اسی کی کرو ، خوف بھی اسی کا رکھو، امیدیں بھی اسی سے وابستہ کرو، مدد کے لیے بھی اسی کے آگے ہاتھ پھیلاؤ، اور اپنے توکل و اعتماد کا سہارا بھی اسی کی ذات کو بناؤ |
6 | تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد اول ، البقرہ ، حاشیہ 144۔ اس سے زیادہ شرح و بسط کے ساتھ اس مضمون پر ہم نے اپنے رسالہ ’’ شہادت حق‘‘ میں روشنی ڈالی ہے |
5 | ’’تمہارا‘‘ کا خطاب مخصوص طور پر صرف ان ہی اہل یمان کی طرف نہیں ہے جوق اس آیت کے نزول کے وقت موجود تھے ، یا اس کے بعد اہل ایمان کی صف میں داخل ہوئے، بلکہ اس کے مخاطب تمام وہ لوگ ہیں جو آغاز تاریخ انسانی سے توحید، آخرت ، رسالت اور کتب الہٰی کے ماننے والے رہے ہیں۔ مدعا یہ ہے کہ اس ملت حق کے ماننے والے پہلے بھی ’’ نوحی‘‘، ’’ ابراہیمی‘‘ ،‘‘موسوی‘‘،’’مسیحی‘‘ وغیرہ نہیں کہلاتے تھے بلکہ انکا نام ’’ مسلم‘‘ (اللہ کے تابع فرمان ) تھا ، اور آج بھی وہ ’’محمدی‘‘ نہیں بلکہ ’’ مسلم‘‘ ہیں۔ اس بات کو نہ سمجھنے کی وجہ سے لوگوں کے لیے یہ سوال معما بن گیا کہ محمد صلی اللہ علیہ و سلم کے پیروؤں کا نام قرآن سے پہلے کس کتاب میں مسلم رکھا گیا تھا |
4 | اگرچہ سلام کو ملت نوح ، موسیٰ ، ملت عیسیٰ بھی اسی طرح کہا جا سکتا ہے جس طرح ملت ابراہیم۔ لیکن قرآن مجید میں اس کو بار بار ملت ابراہیم کہہ کر اس کے اتباع کی دعوت تین وجوہ سے دی گئی ہے۔ ایک یہ کہ قرآن کے اولین مخاطب اہل عرب تھے اور وہ حضرت ابراہیم سے جس طرح مانوس تھے کسی اور سے نہ تھے۔ ان کی تاریخ، روایات اور معتقدات میں جس شخصیت کا رسوخ و اثر رچا ہوا تھا وہ حضرت ابراہیم ہی کی شخصیت تھی۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ حضرت ابراہیم ہی وہ شخص تھے جن کی بزرگی پر یہودی، عیسائی، مسلمان ، مشرکین عرب ، اور شرق اوسط کے صابئ، سب متفق تھے۔ انبیاء میں کوئی دوسرا ایسا نہ تھا اور نہ ہے جس پر سب کا اتفاق ہو۔ تیسری وجہ یہ ہے کہ حضرت ابراہیم ان سب ملتوں کی پیدائش سے پہلے گزرے ہیں۔ یہودیت ، عیسائیت اور صائبیت کے متعلق تو معلوم ہی ہے کہ سب بعد کی پیداوار ہیں۔ رہے مشرکین عرب ، تو وہ بھی یہ مانتے تھے کہ ان کے ہاں بت پرستی کا رواج عمر و بن لُحَیّ سے شروع ہوا جو بنی خزاعہ کا سردار تھا اور مَآب (موآب) کے علاقہ سے ہُبل نامی بت لے آیا تھا۔ اس کا زمانہ زیادہ سے زیادہ پانچ چھ سو سال قبل مسیح کا ہے۔ لہٰذا یہ ملت بھی حضرت ابراہیم کے صدیوں بعد پیدا ہوئی۔ اس صورت حال میں قرآن جب کہتا ہے کہ ان ملتوں کے بجائے ملت ابراہیمؑ کو اختیار کرو، تو وہ در اصل اس حقیقت پر متنبہ کرتا ہے کہ اگر حضرت ابراہیم بر حق اور بر سر ہدایت تھے ، اور ان ملتوں میں سے کسی کے پیرو نہ تھے ، تو لامحالہ پھر وہی ملت اصل ملت حق ہے نہ کہ یہ بعد کی ملتیں ، اور محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی دعوت اسی ملت کی طرف ہے۔ مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد اول، البقرہ ، حواشی 134۔ 135۔ آل عمران، حواشی 58۔ 79۔ جلد دوم، النحل، حاشیہ 120 |
3 | یعنی تمہاری زندگی کو ان تمام بے جا قیود سے آزاد کر دی گیا ہے جو پچھلی امتوں کے فقیہوں اور فریسیوں اور پاپاؤں نے عائد کر دی تھیں۔ نہ یہاں فکر و خیال پر وہ پابندیاں ہیں جو علمی ترقی میں مانع ہوں اور نہ عملی زندگی پر وہ پابندیاں ہیں جو تمدن اور معاشرے کی ترقی میں رکاوٹ بنیں۔ ایک سادہ اور سہل عقیدہ و قانون تم کو دیا گیا ہے جس کو لے کر تم جتنا آگے چاہو بڑھ سکتے ہو۔ یہاں جس مضمون کو ثبوتی و ایجابی انداز میں بیان کیا گیا ہے وہی ایک دوسری جگہ سلبی انداز میں ارشاد ہوا ہے کہ : یَأ مُرُھُمْ بِالْمَعْرُ وْفِ وَیَنْھٰھُمْ عَنِالْمُنْکَرِوَیْحِلَّ لَہُمْ الطَّیِّبٰتِ وَیُحَرِّمُ عَلَیْھِمُ الْخَبٰئِثَ وَیَضَعُ عَنْ ھُمْ اِصْرَھُمْ وَالْاَغْ لٰلَ الَّتِیْ کَانَتْ عَلَیْھِمْ، ’’ یہ رسول ان کو جانی پہچانی نیکیوں کو حکم دیتا ہے ، اور ان برائیوں سے روکتا ہے جن سے فطرت انسانی انکار کرتی ہے ، اور وہ چیزیں حلال کرتا ہے جو پاکیزہ ہیں اور وہ چیزیں حرام کرتا ہے جو گندی ہیں اور ان پر سے وہ بھاری بوجھ اتارتا ہے جو ان پر لدے ہوئے تھے اور وہ زنجیریں کھولتا ہے جن میں وہ جکڑے ہوئے تھے ‘‘ (اعراف۔آیت 157) |
2 | یعنی تمام نوع انسانی میں سے تم لوگ اس خدمت کے لیے منتخب کر لیے گۓ ہو جس کا اوپر ذکر کیا گیا ہے۔ اس مضمون کو قرآن مجید میں مختلف مقامات پر مختلف طریقوں سے بیان فرمایا گیا ہے۔مثلاً سورہ بقرہ میں فرمایا : جَعَلْنٰکُمْ اُمَّۃً وَّ سَطاً (آیت 143)۔ اور سورہ آل عمران میں فرمایا :کُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّۃٍ اخْرِجَتْ لِنَّاسِ (آیت 110)۔ یہاں اس امر پر بھی متنبہ کر دینا مناسب معلوم ہوتا ہے کہ یہ آیت منجملہ ان آیات کے ہے جو صحابہ کرام کی فضیلت پر دلالت کرتی ہیں اور ان لوگوں کی غلطی ثابت کرتی ہیں جو صحابہ پر زبان طعن دراز کرتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ اس آیت کے براہ راست مخاطب صحابہ ہی ہیں۔ دوسرے لوگوں کو اس کا خطاب بالتبع پہنچتا ہے |
1 | جہاد سے مراد محض’’قتال‘‘(جنگ) نہیں ہے ، بلکہ یہ لفظ جد و جہد اور کشمکش اور انتہائی سعی و کوشش کے معنی میں استعمال ہوتا ہے۔ پھر جہاد اور مجاہد میں یہ مفہوم بھی شامل ہے کہ مزاحمت کرنے والی کچھ طاقتیں ہیں جن کے مقابلے میں یہ جدو جہد مطلوب ہے۔ اور اس کے ساتھ فی اللہ کی قید یہ متعین کر دیتی ہے کہ مزاحمت کرنے والی طاقتیں وہ ہیں جو اللہ کی بندگی اور اس کی رضا جوئی میں ، اور اس کی راہ پر چلنے میں مانع ہیں ، اور جدو جہد کا مقصود یہ ہے کہ ان کی مزاحمت کو شکست دے کر آدمی خود بھی اللہ کی ٹھیک ٹھیک بندگی کرے اور دنیا میں بھی اس کا کلمہ بلند اور کفر و الحاد کے کلمے پست کر دینے کے لیے جان لڑا دے۔ اس مجاہدے کا اولین ہدف آدمی کا اپنا نفس امّارہ ہے جو ہر وقت خدا سے بغاوت کرنے کے لیے زور لگاتا رہتا ہے اور آدمی کو ایمان و طاعت کی راہ سے ہٹانے کی کوشش کرتا ہے۔ جب تک اس کو مسخر نہ کر لیا جائے، باہر کسی مجادہے کا امکان نہیں ہے۔ اسی لیے ایک جنگ سے واپس آنے والے غازیوں سے نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا : قد متم خیر مقدم من الجھاد الصغر الی الجھاد الاکبر۔ ’’ تم چھوٹے جہاد سے بڑے جہاد کی طرف واپس آگۓہو‘‘۔ عرض کیا گیا وہ بڑا جہاد کیا ہے َ فرمایا مجاھدۃ العبد ھواہ۔ ’’ آدمی کی خود اپنی خواہش نفس کے خلاف جد و جہد ‘‘۔ اس کے بعد جہاد کا وسیع تر میدان پوری دنیا ہے جس میں کام کرنے والی تمام بغاوت کیش اور بغاوت آموز اور بغاوت انگیز طاقتوں کے خلاف دل اور دماغ اور جسم اور مال کی ساری قوتوں کے ساتھ سعی و جہد کرنا وہ حق جہاد ہے جسے ادا کرنے کا یہاں مطالبہ کیا جا رہا ہے |