Ayats Found (2)
Surah 4 : Ayat 43
يَـٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُواْ لَا تَقْرَبُواْ ٱلصَّلَوٲةَ وَأَنتُمْ سُكَـٰرَىٰ حَتَّىٰ تَعْلَمُواْ مَا تَقُولُونَ وَلَا جُنُبًا إِلَّا عَابِرِى سَبِيلٍ حَتَّىٰ تَغْتَسِلُواْۚ وَإِن كُنتُم مَّرْضَىٰٓ أَوْ عَلَىٰ سَفَرٍ أَوْ جَآءَ أَحَدٌ مِّنكُم مِّنَ ٱلْغَآئِطِ أَوْ لَـٰمَسْتُمُ ٱلنِّسَآءَ فَلَمْ تَجِدُواْ مَآءً فَتَيَمَّمُواْ صَعِيدًا طَيِّبًا فَٱمْسَحُواْ بِوُجُوهِكُمْ وَأَيْدِيكُمْۗ إِنَّ ٱللَّهَ كَانَ عَفُوًّا غَفُورًا
اے لوگو جو ایمان لائے ہو، جب تم نشے کی حالت میں ہو تو نماز کے قریب نہ جاؤ1 نماز اُس وقت پڑھنی چاہیے، جب تم جانو کہ کیا کہہ رہے ہو2 اور اسی طرح جنابت کی حالت3 میں بھی نماز کے قریب نہ جاؤ جب تک کہ غسل نہ کر لو، الا یہ کہ راستہ سے گزرتے ہو4 اور اگر کبھی ایسا ہو کہ تم بیمار ہو، یا سفر میں ہو، یا تم میں سے کوئی شخص رفع حاجت کر کے آئے، یا تم نے عورتوں سے لمس کیا ہو5، اور پھر پانی نہ ملے تو پاک مٹی سے کام لو اور اس سے اپنے چہروں اور ہاتھوں پر مسح کر لو6، بے شک اللہ نرمی سے کام لینے والا اور بخشش فرمانے والا ہے
6 | حکم کی تفصیلی صُورت یہ ہے کہ اگر آدمی بے وضو ہے یا اُسے غسل کی حاجت ہے اور پانی نہیں ملتا تو تیمم کر کے نماز پڑھ سکتا ہے۔ اگر مریض ہے اور غسل یا وضو کرنے سے اس کو نقصان کا اندیشہ ہے تو پانی موجود ہونے کے باوجود تیمم کی اجازت سے فائدہ اُٹھا سکتا ہے۔ تیمم کے معنی قصد کرنے کے ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ جب پانی نہ ملے یا پانی ہو اور اس کا استعمال ممکن نہ ہو تو پاک مٹی کا قصد کرو۔ تیمم کے طریقے میں فقہا کے درمیان اختلاف ہے ۔ ایک گروہ کے نزدیک ا س کا طریقہ یہ ہے کہ ایک دفعہ مٹی پر ہاتھ مار کر مُنہ پر پھیر لیا جائے، پھر دُوسری دفعہ ہاتھ مار کر کُہنیوں تک ہاتھوں پر پھیر لیا جائے۔ امام ابو حنیفہ ، امام شافعی ، امام مالک اور اکثر فقہا ء کا یہی مذہب ہے ، اور صحابہ و تابعین میں سے حضرت علی، عبداللہ بن عمر، حَسَن بصری، شَعبِی اور سالم بن عبداللہ وغیرہم اس کے قائل تھے۔ دوسرے گروہ کے نزدیک صرف ایک دفعہ ہی ہاتھ مارنا کافی ہے۔ وہی ہاتھ منہ پر بھی پھیر لیا جائے اور اسی کو کلائی تک ہاتھوں پر بھی پھیر لیا جائے۔ کہنیوں تک مسح کرنے کی ضرورت نہیں۔ یہ عطاء اور مکحول اور اَوزاعی اور احمد ابن حنبل رحمہم اللہ کا مذہب ہے اور عموماً حضراتِ اہلِ حدیث اسی کے قائل ہیں۔ تیمم کے لیے ضروری نہیں کہ زمین ہی پر ہاتھ مار ا جائے۔ اس غرض کے لیے ہر گرد آلود چیز اور ہر وہ چیز جو خُشک اجزاء ارضی پر مشتمل ہو کافی ہے۔ بعض لوگ اعتراض کرتے ہیں کہ اس طرح مٹی پر ہاتھ مار کر مُنہ اور ہاتھوں پر پھیر لینے سے آخر طہارت کس طرح حاصل ہو سکتی ہے۔ لیکن درحقیقت یہ آدمی میں طہارت کی حِس اور نماز کا احترام قائم رکھنے کے لیے ایک اہم نفسیاتی تدبیر ہے۔ اس سے فائدہ یہ ہے کہ آدمی خواہ کتنی ہی مدّت تک پانی استعمال کرنے پر قادر نہ ہو، بہر حال اس کے اندر طہارت کا احساس برقرار رہے گا، پاکیزگی کے جو قوانین شریعت میں مقرر کر دیے گئے ہیں ان کی پابندی وہ برابر کرتا رہے گا، اور اس کے ذہن سے قابلِ نماز ہونے کی حالت اور قابلِ نماز نہ ہونے کی حالت کا فرق و امتیاز کبھی محو نہ ہو سکے گا |
5 | اس امر میں اختلاف ہے کہ لَمس یعنی چھُونے سے کیا مراد ہے۔ حضرت علی، ابن عباس ، ابو موسیٰ اشعری، اُبَی ابنِ کعب، سعید بن جُبَیر، حَسَن بصری اور متعدد ائمہ کی رائے ہے کہ اس سے مراد مباشرت ہے اور اسی رائے کو امام ابو حنیفہ اور ان کے اصحاب اور امام سُفیان ثوری نے اختیار کیا ہے۔ بخلاف اس کے حضرت عبداللہ بن مسعود اور عبداللہ ابن ِ عمر کی رائے ہے اور بعضی روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عمر ابنِ خطاب کی بھی یہی رائے ہے کہ اس سے مراد چھونا یا ہاتھ لگانا ہے اور اسی رائے کو امام شافعی ؒ نے اختیار کیا ہے۔ بعض آئمہ نے بیچ کا مسلک بھی اختیار کیا ہے ۔ مثلاً اما م مالک ؒ کی رائے ہے کہ اگر عورت یا مرد ایک دُوسرے کو جذبات شہوانی کے ساتھ ہاتھ لگائیں تو ان کا وضو ساقط ہو جائے گا اور نماز کے لیے انہیں نیا وضو کرنا ہوگا، لیکن اگر جذبات شہوانی کے بغیر ایک کا جسم دُوسرے سے مَس ہو جائے تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں |
4 | فقہاء اور مفسّرین میں سے ایک گروہ نے اس آیت کا مفہوم یہ سمجھا ہے کہ جنابت کی حالت میں مسجد میں نہ جانا چاہیے اِلّا یہ کہ کسی کام کے لیے مسجد میں سے گزرنا ہو۔ اسی رائے کو عبداللہ بن مسعود، انس بن مالک، حسن بصری اور ابراہیم نَخعَی وغیرہ حضرات نے اختیار کیا ہے۔ دُوسرا گروہ اس سے سفر مراد لیتا ہے۔ یعنی اگر آدمی حالتِ سفر میں ہو اور جنابت لاحق ہوجائے تو تیمم کیا جا سکتا ہے۔ رہا مسجد کا معاملہ ، تو اس گروہ کی رائے میں جُنُبی کے لیے وضو کر کے مسجدمیں بیٹھنا جائز ہے ۔ یہ رائے حضرت علی ؓ ، ابن عباس ؓ ، سعید بن جُبَیر اور بعض دوسرے حضرات نے اختیار فرمائی ہے۔ اگرچہ اس امر میں قریب قریب سب کا اتفاق ہے کہ اگر آدمی حالتِ سفر میں ہو اور جنابت لاحق ہو جائے اور نہانا ممکن نہ ہو تو تیمم کرکے نماز پڑھ سکتا ہے ۔ لیکن پہلا گروہ اِس مسئلہ کو حدیث سے اخذ کرتا ہے اور دُوسرا گروہ اس روایت کی بنیاد قرآن کی مندرجہٴ بالا آیت پر رکھتا ہے |
3 | جَنابت کے اصل معنی دُوری اور بیگانگی کے ہیں۔ اسی سے لفظ اجنبی نکلا ہے ۔ اصطلاحِ شرع میں جنابت سے مراد وہ نجاست ہے جو قضاء شہوت سے یا خواب میں ماٴدّہ خارج ہونے سے لاحق ہوتی ہے ، کیونکہ اس کی وجہ سے آدمی طہارت سے بیگانہ ہو جاتا ہے |
2 | اسی بنا پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہدایت فرمائی ہے کہ جب کسی شخص پر نیند کا غلبہ ہو رہا ہو اور وہ نماز پڑھنے میں بار بار اُونگھ جاتا ہو تو اُسے نماز چھوڑ کر سو جانا چاہیے۔ بعض لوگ اس آیت سے یہ استدلال کرتے ہیں کہ جو شخص نماز کی عربی عبارات کا مطلب نہیں سمجھتا اس کی نماز نہیں ہوتی۔ لیکن علاوہ اس کے کہ یہ ایک بے جا تشدّد ہے ، خود قرآن کے الفاط بھی اس کا ساتھ نہیں دیتے ۔ قرآن میں حتٰی تفقھو ا یا حتٰی تفھمُو ا ما تقولون بلکہ حتٰی تعلمو ا ماتقولون فرمایا ہے۔ یعنی نماز میں آدمی کو اتنا ہوش رہنا چاہیے کہ وہ یہ جانے کہ وہ کیا چیز اپنی زبان سے ادا کر رہا ہے۔ ایسا نہ ہو کہ وہ کھڑا تو ہو نماز پڑھنے اور شروع کر دے کوئی غسِل |
1 | یہ شراب کے متعلق دُوسرا حکم ہے۔ پہلا حکم وہ تھا جو سُورہٴ بقرہ (آیت ۲١۹) میں گزرا۔ اُس میں صرف یہ ظاہر کر کے چھوڑ دیا گیا تھا کہ شراب بُری چیز ہے ، اللہ کو پسند نہیں۔ چنانچہ مسلمانوں میں سے ایک گروہ اس کے بعد ہی شراب سے پرہیز کر نے لگا تھا۔ مگر بہت سے لوگ اسے بدستور استعمال کرتے رہے تھے حتّٰی کہ بسااوقات نشے کی حالت ہی میں نماز پڑھنے کھڑے ہو جاتے تھے اور کچھ کا کچھ پڑھ جاتے تھے۔ غالباً ۴ہجری کی ابتدا میں یہ دُوسرا حکم آیا اور نشے میں نماز پڑھنے کی ممانعت کر دی گئی۔ اس کا اثر یہ ہوا کہ لوگوں نے اپنے شراب پینے کے اوقات بدل دیے اور ایسے اوقات میں شراب پینی چھوڑ دی جن میں یہ اندیشہ ہوتا کہ کہیں نشہ ہی کی حالت میں نماز کا وقت نہ آجائے۔ اس کے کچھ مدّت بعد شراب کی قطعی حُرمت کا وہ حکم آیا جو سُورہٴ مائدہ آیت ۹۰۔۹١ میں ہے۔ یہاں یہ بات بھی ذہن نشین کر لینی چاہیے کہ آیت میں سُکر یعنی نشہ کا لفظ ہے۔ اس لیے یہ حکم صرف شراب کے لیے خاص نہ تھا بلکہ ہر نشہ آور چیز کے لیے عام تھا۔ اور اب بھی اس کا حکم باقی ہے۔ اگرچہ نشہ آور اشیاء کا استعمال بجائے خود حرام ہے ، لیکن نشہ کی حالت میں نماز پڑھنا دوہرا عظیم تر گناہ ہے |
Surah 5 : Ayat 6
يَـٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُوٓاْ إِذَا قُمْتُمْ إِلَى ٱلصَّلَوٲةِ فَٱغْسِلُواْ وُجُوهَكُمْ وَأَيْدِيَكُمْ إِلَى ٱلْمَرَافِقِ وَٱمْسَحُواْ بِرُءُوسِكُمْ وَأَرْجُلَكُمْ إِلَى ٱلْكَعْبَيْنِۚ وَإِن كُنتُمْ جُنُبًا فَٱطَّهَّرُواْۚ وَإِن كُنتُم مَّرْضَىٰٓ أَوْ عَلَىٰ سَفَرٍ أَوْ جَآءَ أَحَدٌ مِّنكُم مِّنَ ٱلْغَآئِطِ أَوْ لَـٰمَسْتُمُ ٱلنِّسَآءَ فَلَمْ تَجِدُواْ مَآءً فَتَيَمَّمُواْ صَعِيدًا طَيِّبًا فَٱمْسَحُواْ بِوُجُوهِكُمْ وَأَيْدِيكُم مِّنْهُۚ مَا يُرِيدُ ٱللَّهُ لِيَجْعَلَ عَلَيْكُم مِّنْ حَرَجٍ وَلَـٰكِن يُرِيدُ لِيُطَهِّرَكُمْ وَلِيُتِمَّ نِعْمَتَهُۥ عَلَيْكُمْ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ
اے لوگو جو ایمان لائے ہو، جب تم نماز کے لیے اٹھو تو چاہیے کہ اپنے منہ اور ہاتھ کہنیوں تک دھو لو، سروں پر ہاتھ پھیر لو اور پاؤں ٹخنوں تک دھو لیا کرو1 اگر جنابت کی حالت میں ہو تو نہا کر پاک ہو جاؤ2 اگر بیمار ہو یا سفر کی حالت میں ہو یا تم میں سے کوئی شخص رفع حاجت کر کے آئے یا تم نے عورتوں کو ہاتھ لگایا ہو، اور پانی نہ ملے، تو پاک مٹی سے کام لو، بس اُس پر ہاتھ مار کر اپنے منہ اور ہاتھوں پر پھیر لیا کرو3 اللہ تم پر زندگی کو تنگ نہیں کرنا چاہتا، مگر وہ چاہتا ہے کہ تمہیں پاک کرے اور اپنی نعمت تم پر تمام کر دے4، شاید کہ تم شکر گزار بنو
4 | جس طرح پاکیزگی ِ نفس ایک نعمت ہے اسی طرح پاکیزگیِ جسم بھی ایک نعمت ہے ۔ انسان پر اللہ کی نعمت اسی وقت مکمل ہو سکتی ہے جبکہ نفس و جسم دونوں کی طہارت و پاکیزگی کے لے پُوری ہدایت اسے مِل جائے |
3 | تشریح کے لیے ملاحظہ ہو سُورہ ٔ نساء حاشیہ نمبر ۶۹ و ۷۰ |
2 | جَنابت خواہ مباشرت سے لاحق ہوئی ہو یا خواب میں مأدّہ منویہ خارج ہونے کی وجہ سے ، دونوں صُورتوں میں غُسل واجب ہے۔ اس حالت میں غُسل کے بغیر نماز پڑھنا یا قرآن کو ہاتھ لگانا جائز نہیں۔(مزید تفصیلات کے لیےملاحظہ ہو سُورۂ نساء ، حواشی نمبر ۶۷، ۶۸ و ۶۹) |
1 | نبی صلی اللہ علیہ وسلم اِس حکم کی جو تشریح فرمائی ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ مُنہ دھونے میں کُلّی کرنا اور ناک صاف کرنا بھی شامل ہے، بغیر اس کے مُنہ کے غسل کی تکمیل نہیں ہوتی۔ اور کان چونکہ سر کا ایک حصّہ ہیں اس لیے سر کے مسح میں کانوں کے اندرونی و بیرونی حصّوں کا مسح بھی شامل ہے۔ نیز وضو شروع کرنے سے پہلے ہاتھ دھو لینے چاہیییں تاکہ جن ہاتھوں سے آدمی وُضو کر رہا ہو وہ خود پہلے پاک ہو جائیں |