Ayats Found (1)
Surah 11 : Ayat 87
قَالُواْ يَـٰشُعَيْبُ أَصَلَوٲتُكَ تَأْمُرُكَ أَن نَّتْرُكَ مَا يَعْبُدُ ءَابَآؤُنَآ أَوْ أَن نَّفْعَلَ فِىٓ أَمْوَٲلِنَا مَا نَشَـٰٓؤُاْۖ إِنَّكَ لَأَنتَ ٱلْحَلِيمُ ٱلرَّشِيدُ
انہوں نے جواب دیا 1"اے شعیبؑ، کیا تیری نماز تجھے یہ سکھاتی ہے کہ ہم ان سارے معبودوں کو چھوڑ دیں جن کی پر ستش ہمارے باپ دادا کرتے تھے؟ یا یہ کہ ہم کو اپنے مال میں اپنے منشا کے مطابق تصرف کرنے کا اختیار نہ ہو؟2 بس تو ہی تو ایک عالی ظرف اور راستباز آدمی رہ گیا ہے!"
2 | یہ اسلام کے مقابلہ میں جاہلیت کے نظریہ کی پوری ترجمانی ہے اسلام کا نقطہءنظریہ ہے کہ اللہ کی بندگی کے سوا جو طریقہ بھی ہے غلط ہے اور اس کی پیروی نہ کرنی چاہیے کیونکہ دوسرے کسی طریقے کے لیے عقل ،علم اور کتب آسمانی میں کوئی دلیل نہیں ہے اور یہ کہ اللہ کی بندگی صرف ایک محدود مذہبی دائرے ہی میں نہیں ہونی چاہیے بلکہ تمدّن،معاشرت،معیشت،سیاست غرض زندگی کے تمام شعبوں میں ہونی چاہیے اس لیے کہ دنیا میں انسان کے پاس جو کچھ بھی ہے اللہ ہی کا ہے اور انسان کسی چیز پر بھی اللہ کی مرضی سے آزاد ہو کر خود مختار نہ تصرف کرنے کا حق نہیں رکھتا اس کے مقابلہ میں جاہلیت کا نظریہ یہ ہے کہ باپ دادا سے جو طریقہ بھی چلا آرہا ہو انسان کو اسی کی پیروی کرنی چاہیے اور اس کی پیروی کے لیے اس دلیل کے سوا کسی مزید دلیل کی ضرورت نہیں ہے کہ وہ باپ دادا کا طریقہ ہے نیز یہ کہ دین و مذہب کا تعلق صرف پوجا پاٹ سے ہے رہے ہماری زندگی کے عام دنیوی معاملات تو ان میں ہم کو پوری آزادی ہونی چاہیے کہ جس طرح چاہیں کام کریں۔اس سے یہ بھی اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ زندگی کو مذہبی اور دنیوی دائروں میں الگ الگ تقسیم کرنے کا تخیل آج کوئی نیا تخیل نہیں بلکہ آج سے تین ساڑھے تین ہزار برس پہلے حضرت شعیبؑ کی قوم کو بھی اس تقسیم پر ویسا ہی اصرار تھا جیسا آج اہل مغرب اور اُن کے مشرقی شاگردوں کوہے یہ فی الحقیقت کوئی نئی’’روشنی‘‘نہیں ہے جو انسان کو آج’’ذہنی ارتقاء‘‘ کی بدولت نصیب ہو گئی ہو بلکہ یہ وہی پرانی تاریک خیالی ہے جو ہزارہا برس پہلے کی جاہلیت میں بھی اسی شان سے پائی جاتی تھی اور اس کے خلاف اسلام کی کش مکش بھی آج کی نہیں ہے بہت قدیم ہے |
1 | یہ خطاب بظاہر نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ہے مگر دراصل بات اُن لوگوں کو سنانی مقسصود ہے جو آپ کی دعوت میں شک کر رہے تھے۔ اور اہلِ کتاب کا حوالہ اس لیے دیا گیا ہے کہ عرب کے عوام تو آسمانی کتابوں کے علم سے بے بہرہ تھے، ان کے لیے یہ آواز ایک نئی آواز تھی، مگر اہلِ کتاب کے علماء میں جو لوگ متدین اور منصف مزاج تھے و ہ اس امر کی تصدیق کر سکتے تھے کہ جس چیز کی دعوت قرآن دے رہا ہے یہ وہی چیز ہے جس کی دعوت تمام پچھلے انبیا دیتے رہے ہیں |