Ayats Found (9)
Surah 2 : Ayat 40
يَـٰبَنِىٓ إِسْرَٲٓءِيلَ ٱذْكُرُواْ نِعْمَتِىَ ٱلَّتِىٓ أَنْعَمْتُ عَلَيْكُمْ وَأَوْفُواْ بِعَهْدِىٓ أُوفِ بِعَهْدِكُمْ وَإِيَّـٰىَ فَٱرْهَبُونِ
اے بنی اسرائیل1! ذرا خیال کرو میری اس نعمت کا جو میں نے تم کو عطا کی تھی، میرے ساتھ تمھارا جو عہد تھا اُسے تم پورا کرو، تو میرا جو عہد تمہارے ساتھ تھا اُسے میں پورا کروں گا اور مجھ ہی سے تم ڈرو
1 | اسرائیل کے معنی ہیں عبد اللہ یا بندہ ٴ خدا ۔ یہ حضرت یعقوب ؑ کا لقب تھا، جو اُن کو اللہ تعالی ٰ کی طرف سے عطا ہوا تھا۔ وہ حضرت اسحٰا ق ؑ کے بیٹے اور حضرت ابراہیم ؑ کے پوتے تھے۔ انہی کی نسل کو بنی اسرائیل کہتے ہیں۔ پچھلے چار رکوعوں میں تمہیدی تقریر تھی، جس کا خطاب تمام انسانوں کی طرف عام تھا۔ اب یہاں سے چودھویں رکوع تک مسلسل ایک تقریر اِس قوم کو خطاب کرتے ہوئے چلتی ہے جس میں کہیں کہیں عیسائیوں اور مشرکینِ عرب کی طرف بھی کلام کا رُخ پھر گیا ہے اور موقع موقع سے اُن لوگوں کو بھی خطاب کیا گیا ہے جو حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت پر ایمان لائے تھے۔ اس تقریر کو پڑھتے ہوئے حسبِ ذیل باتوں کو خاص طَور پر پیش ِ نظر رکھنا چاہیے: اوّلاً، اِس کا منشا یہ ہے کہ پچھلے پیغمبروں کی اُمت میں جو تھوڑے بہت لوگ ابھی ایسے باقی ہیں جن میں خیر و صلاھ کا عنصر موجود ہے، اُنہیں اُس صداقت پر ایمان لانے اور اُس کام میں شریک ہونے کی دعوت دی جائے جس کے ساتھ محمد ؐ اُٹھائے گئے تھے۔ اس لیے ان کو بتایا جا رہا ہے کہ یہ قرآن اور نہ نبی ؐ وہی پیغام اور وہی کام لے کر آیا ہے جو اس سے پہلے تمہارے انبیا اور تمہارے پاس آنے والے صحیفے لائے تھے۔ پہلے یہ چیز تم کو دی گئی تھی تاکہ تم آپ بھی اس پر چلو اور دُنیا کو بھی اس کی طرف بُلانے اور اس پر چلانے کی کوشش کرو۔ مگر تم دنیا کی رہنمائی تو کیا کرتے، خود بھی اس ہدایت پر قائم نہ رہے اور بگڑتے چلے گئے۔ تمہاری تاریخ اور تمہاری قوم کی موجودہ اخلاقی و دینی حالت خود تمہارے بگاڑ پر گواہ ہے۔ اب اللہ نے وہی چیز دے کر اپنے ایک بندے کو بھیجا ہے اور وہی خدمت اس کے سپرد کی ہے۔ یہ کوئی بیگانہ اور اجنبی چیز نہیں ہے ، تمہاری اپنی چیز ہے۔ لہٰذا جانتے بُوجھتے حق کی مخالفت نہ کرو، بلکہ اسے قبول کر لو۔ جو کام تمہارے کرنے کا تھا، مگر تم نے نہ کیا ، اسے کرنے کے لیے جو دوسرے لوگ اُٹھے ہیں ، ان کا ساتھ دو۔ ثانیاً، اس کا منشا عام یہودیوں پر حُجّت تمام کرنا اور صاف صاف ان کی دینی و اخلاقی حالت کو کھول کر رکھ دینا ہے۔ ان پر ثابت کیا جارہا ہے کہ یہ وہی دین ہے ، جو تمہارے انبیا لے کر آئے تھے۔ اُصولِ دین میں سے کوئی ایک چیز بھی ایسی نہیں ہے، جس میں قرآن کی تعلیم تورات کی تعلیم سے مختلف ہو۔ ان پر ثابت کیا جارہا ہے کہ جو ہدایت تمہیں دی گئی تھی اس کی پیروی کرنے میں ، اور جو رہنمائی کا منصب تمہیں دیا گیا تھا اس کا حق ادا کرنے میں تم بُری طرح ناکام ہوئے ہو۔ اس کے ثبوت میں ایسے واقعات سے اِستِشْہاد کیا گیا ہے جن کی تردید وہ نہ کر سکتے تھے۔ پھر جس طرح حق کو حق جاننے کے باوجود وہ اس کی مخالفت میں سازشوں ، وسوسہ اندازیوں ، کج بحثیوں اور مکّاریوں سے کام لے رہے تھے، اور جن ترکیبوں سے وہ کوشش کر رہے تھے کہ کسی طرح محمد ؐ کا مشن کامیاب نہ ہونے پائے، ان سب کی پردہ دری کی جارہی ہے ، جس سے یہ بات عیاں ہو جاتی ہے کہ ان کی ظاہری مذہبیّت محض ایک ڈھونگ ہے، جس کے نیچے دیانت اور حق پرستی کے بجائے ہٹ دھرمی، جاہلانہ عصبیت اور نفس پرستی کام کر رہی ہے اور حقیقت میں وہ یہ چاہتے ہی نہیں ہیں کہ نیکی کا کوئی کام پھل پُھول سکے۔ اِس طرح اتمامِ حجّت کرنے کا فائدہ یہ ہوا کہ ایک طرف خود اس قوم میں جو صالح عنصر تھا، اُس کی آنکھیں کُھل گئیں، دُوسری طرف مدینے کے عوام پر اور بالعموم مشرکینِ عرب پر ان لوگوں کا جو مذہبی و اخلاقی اثر تھا، وہ ختم ہو گیا ، اور تیسری طرف خود اپنے آپ کو بے نقاب دیکھ کر ان کی ہمتیں اتنی پست ہوگئیں کہ وہ اس جُراٴ ت کے ساتھ کبھی مقابلے میں کھڑے نہ ہو سکے جس کے ساتھ ایک وہ شخص کھڑا ہوتا ہے جسے اپنے حق پر ہونے کا یقین ہو۔ ثالثًا، پچھلے چار رکوعوں میں نوعِ انسانی کو دعوتِ عام دیتے ہوئے جو کچھ کہا گیا تھا ، اسی کے سلسلے میں ایک خاص قوم کی معین مثال لے کر بتایا جا رہا ہے کہ جو قوم خدا کی بھیجی ہوئی ہدایت سے منہ موڑتی ہے ، اس کا انجام کیا ہوتا ہے۔ اس توضیح کے لیے تمام قوموں میں سے بنی اسرائیل کو منتخب کرنے کی وجہ یہ ہے کہ دُنیا میں صرف یہی ایک قوم ہے جو مسلسل چار ہزار برس سے تمام اقوامِ عالم کے سامنے ایک زندہ نمونہ عبرت بنی ہوئی ہے۔ ہدایت الہٰی پر چلنے اور نہ چلنے سے جتنے نشیب و فراز کسی قوم کی زندگی میں رُونما ہو سکتے ہیں اور سب اس قوم کی عبرتناک سرگزشت میں نظر آجاتے ہیں۔ رابعًا، اس سے پیروانِ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو سبق دینا مقصُود ہے کہ وہ اس انحطاط کے گڑھے میں گرنے سے بچیں جس میں پچھلے انبیا کے پیرو گر گئے۔ یہودیوں کی اخلاقی کمزوریوں ، مذہبی غلط فہمیوں اور اعتقادی و عملی گمراہیوں میں سے ایک ایک کی نشان دہی کر کے اس کے بالمقابل دینِ حق کے مقتضیات بیان کیے گئے ہیں تاکہ مسلمان اپنا راستہ صاف دیکھ سکیں اور غلط راہوں سے بچ کر چلیں۔ اس سلسلے میں یہُود و نصاریٰ پر تنقید کرتے ہوئے قرآن جو کچھ کہتا ہے اس کو پڑھتے وقت مسلمانوں کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وہ حدیث یاد رکھنی چاہیے جس میں آپ ؐ نے فرمایا ہے کہ تم بھی آخر کار پچھلی اُمتوں ہی کی روش پر چل رہو گے حتّٰی کہ اگر وہ کسی گوہ کے بِل میں گُھسے ہیں، تو تم بھی اسی میں گُھسو گے۔ صحابہ ؓ نے پُوچھا: یا رسول اللہ ، کیا یہُود و نصاریٰ مراد ہیں؟ آپ ؐ نے فرمایا، اور کون؟ نبی اکرم ؐ کا ارشاد محض ایک تَو بِیخ نہ تھا بلکہ اللہ کی دی ہوئی بصیرت سے آپ یہ جانتے تھے کہ انبیا کی اُمتوں میں بگاڑ کن کن راستوں سے آیا اور کن کن شکلوں میں ظہُور کرتا رہا ہے |
Surah 5 : Ayat 1
يَـٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُوٓاْ أَوْفُواْ بِٱلْعُقُودِۚ أُحِلَّتْ لَكُم بَهِيمَةُ ٱلْأَنْعَـٰمِ إِلَّا مَا يُتْلَىٰ عَلَيْكُمْ غَيْرَ مُحِلِّى ٱلصَّيْدِ وَأَنتُمْ حُرُمٌۗ إِنَّ ٱللَّهَ يَحْكُمُ مَا يُرِيدُ
اے لوگو جو ایمان لائے ہو، بندشوں کی پوری پابندی کرو1 تمہارے لیے مویشی کی قسم کے سب جانور حلال کیے گئے2، سوائے اُن کے جو آگے چل کر تم کو بتائے جائیں گے لیکن احرام کی حالت میں شکار کو اپنے لیے حلال نہ کر لو3، بے شک اللہ جو چاہتا ہے حکم دیتا ہے4
4 | یعنی اللہ حاکمِ مطلق ہے ، اسے پُورا اختیار ہے کہ جو چاہے حکم دے۔ بندوں کو اُس کے احکام میں چون و چرا کرنے کا کوئی حق نہیں۔ اگرچہ اس کے تمام احکام حکمت و مصلحت پر مبنی ہیں ، لیکن بندۂ مسلم اس کے حکم کی اطاعت اس حیثیت سے نہیں کرتا کہ وہ اسے مناسب پاتا ہے یا مبنی بر مصلحت سمجھتا ہے، بلکہ صرف اس بنا پر کرتا ہے کہ یہ مالک کا حکم ہے۔ جو چیز اس نے حرام کر دی ہے وہ صرف اس لیے حرام ہے کہ اس نے حرام کی ہے، اور اسی طرح جو اس نے حلال کر دی ہے وہ بھی کسی دُوسری بنیاد پر نہیں بلکہ صر ف اس بُنیاد پر حلال ہے کہ جو خدا ان ساری چیزوں کا مالک ہے، وہ اپنے غلاموں کو اس چیز کے استعمال کی اجازت دیتا ہے۔ لہٰذا قرآن پُورے زور کے ساتھ یہ اُصُول قائم کرتا ہے کہ اشیاء کی حُرمت و حِلّت کے لیے مالک کی اجازت و عدم اجازت کے سوا کسی اور بُنیاد کی قطعاً ضرورت نہیں ، اور اسی طرح بندے کے لیے کسی کام کے جائز ہونے یا نہ ہونے کا مدار بھی اس کے سوا اَور کچھ نہیں کہ خدا جس کو جائز رکھے وہ جائز ہے اور جسے ناجائز قرار دے وہ ناجائز |
3 | احرام“ اُس فقیرانہ لباس کو کہتے ہیں جو زیارت کعبہ کے لیے پہنا جاتا ہے ۔ کعبہ کے گرد کئی کئی منزل کے فاصلہ پر ایک حد مقرر کر دی گئی ہے جس سے آگے بڑھنے کی کسی زائر کو اجازت نہیں جب تک کہ وہ اپنا معمُولی لباس اُتار کر احرام کا لباس نہ پہن لے۔ اس لباس میں صرف ایک تَہمت ہوتا ہے اور ایک چادر جو اُوپر سے اوڑھی جاتی ہے۔ اسے احرام اس لیے کہتے ہیں کہ اسے باندھنے کے بعد آدمی پر بہت سی وہ چیزیں حرام ہو جاتی ہیں جو معمُولی حالات میں حلال ہیں، مثلاً حجامت، خوشبوکا استعمال، ہر قسم کی زینت و آرائش اور قضا ء شہوت وغیرہ۔ انہی پابندیوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ کسی جاندار کو ہلاک نہ کیا جائے، نہ شکار کیا جائے اور نہ کسی کو شکار کا پتہ دیا جائے |
2 | اَنعام“ (مویشی) کا لفظ عربی زبان میں اُونٹ ، گائے ، بھیڑ اور بکری پر بولا جاتا ہے۔ اور ”بہیمہ“ کا اطلاق ہر چَرنے والے چوپائے پر ہوتا ہے۔ اگر اللہ تعالٰی نے یہ فرمایا ہوتا کہ انعام تمہارے لیے حلال کیے گئے ، تو اس سے صرف وہی چار جانور حلال ہوتے جنہیں عربی میں”انعام “ کہتے ہیں۔ لیکن حکم اِن الفاظ میں دیا گیا ہے کہ”مویشی کی قسم کے چرند ہ چوپائے تم پر حلال کیے گئے “۔ اس سے حکم وسیع ہو جاتا ہے اور وہ سب چرندہ جانور اس کےدائرے میں آجاتے ہیں جو مویشی کی توعیّت کے ہوں۔ یعنی جو کچلیاں نہ رکھتے ہوں، حیوانی غذا کے بجائے نباتی غذا کھاتے ہوں، اور دُوسری حیوانی خصُوصیات میں اَنعامِ عرب سے مماثلت رکھتے ہوں۔ نیز اس سے اشارۃً یہ بات بھی مترشح ہو تی ہے کہ وہ چوپائے جو مویشیوں کے بر عکس کچلیاں رکھتے ہوں اور دُوسرے جانوروں کو مار کر کھاتے ہوں، حلال نہیں ہیں۔ اسی اشارے کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے واضح کر کے حدیث میں صاف حکم دے دیا کہ درندے حرام ہیں۔ اسی طرح حضور نے اُن پرندوں کو بھی حرام قرار دیا ہے جن کے پنجے ہوتے ہیں اور جو دوسرے جانوروں کا شکار کرکے کھاتے ہیں یا مُردار خور ہوتے ہیں۔ ابن عباس کی روایت ہے کہ نھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عن کل ذی ناب من ا لسباع و کل ذی مخلب من الطیر۔ دُوسرے متعدّد صحابہ سے بھی اس کی تائید میں روایات منقول ہیں |
1 | یعنی اُن حُدُود اور قیُود کی پابندی کرو جو اس سُورۃ میں تم پر عائد کی جا رہی ہیں، اور جو بالعمُوم خدا کی شریعت میں تم پر عائد کی گئی ہیں۔ اس مختصر سے تمہیدی جملہ کے بعد ہی اُس بندشوں کا بیان شروع ہو جاتا ہے جن کی پابندی کا حکم دیا گیا ہے |
Surah 6 : Ayat 152
وَلَا تَقْرَبُواْ مَالَ ٱلْيَتِيمِ إِلَّا بِٱلَّتِى هِىَ أَحْسَنُ حَتَّىٰ يَبْلُغَ أَشُدَّهُۥۖ وَأَوْفُواْ ٱلْكَيْلَ وَٱلْمِيزَانَ بِٱلْقِسْطِۖ لَا نُكَلِّفُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَاۖ وَإِذَا قُلْتُمْ فَٱعْدِلُواْ وَلَوْ كَانَ ذَا قُرْبَىٰۖ وَبِعَهْدِ ٱللَّهِ أَوْفُواْۚ ذَٲلِكُمْ وَصَّـٰكُم بِهِۦ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ
اور یہ کہ یتیم کے مال کے قریب نہ جاؤ مگر ایسے طریقہ سے جو بہترین ہو1، یہاں تک کہ وہ اپنے سن رشد کو پہنچ جائے اور ناپ تول میں پورا انصاف کرو، ہم ہر شخص پر ذمہ داری کا اتنا ہی بار رکھتے ہیں جتنا اس کے امکان میں ہے2، اور جب بات کہو انصاف کی کہو خواہ معاملہ اپنے رشتہ دار ہی کا کیوں نہ ہو، اور اللہ کے عہد کو پورا کرو3 ان باتوں کی ہدایت اللہ نے تمہیں کی ہے شاید کہ تم نصیحت قبول کرو
3 | اللہ کے عہد سے مراد وہ عہد بھی ہے جو انسان اپنے خدا سے کرے، اور وہ بھی جو خدا کا نام لے کر بندوں سے کرے، اور وہ بھی جو انسان اور خدا، اور انسان اور انسان کے درمیان اُسی وقت آپ سے آپ بندھ جاتا ہے جس وقت ایک شخص خدا کی زمین میں ایک انسانی سوسائیٹی کے اندر پیدا ہوتا ہے
پہلے دونوں عہد شعوری وارادی ہیں، اور یہ تیسرا عہد اہک فطری عہد (Natural Contract) ہے جس کے باندھنے میں اگرچہ انسان مکے ارادے کا کوئی دخل نہیں ہے، لیکن واجب الاحترم ہونے میں یہ پہلے دونوں عہدوں سے کسی طرح کم نہیں ہے۔ کسی شخص کا خدا کے بخشے ہوئے وجود سے، اس کی عطا کی ہوئی جسمانی و نفسانی قوتوں سے، اس کے دیے ہوئے جسمانی آلات سے، اور اس کی پیدا کی ہوئی زمین اور رزق اور ذرائع سے فائدہ اُٹھانا، اور اُن مواقع زندگی سے متمتع ہونا قوانین قدرت کی بدولت فراہم ہوتے ہیں، خود بخود فطرۃ خدا کے کچھ حقوق اس پر عائد کر دیتا ہے۔ اور اسی طرح آدمی کا ایک ماں کے پیٹ میں اس کے خون سے پرورش پانا، ایک باپ کی مختوں سے بسے ہوئے گھر میں پیدا ہونا، اور ایک اجتماعی زندگی کے بے شمار اداروں سے مختلف صُورتوں میں متمتع ہونا علی قدر مراتب اس کے ذمہ بہ سے افراد اور اجتماعی اداروں کے حقوق بھی عائد کر دیتا ہے۔ انسان کا خدا سے اور انسان کا سوسائیٹی سے یہ عہد کسی کاغذ پر نہیں لکھا گیا، مگر اس کے رونگٹے رونگٹے پرثبت ہے۔ انسان نے اسے شعُورو ارادہ کے ساتھ نہیں باندھا، مگر اس کا پورا وجود اسی عہد کا رہین منت ہے۔ اسی عہد کی سُورہ بقرہ آیت ۲۷ میں اشارہ کیا گیا ہے کہ فاسق وہ ہیں جو، اللہ کے عہد کو اس کی استواری کے بعد توڑتے ہیں، اور جسے اللہ نے جوڑنے کا حکم دیا ہے اسے کاٹتے ہیں اور زمین میں فساد پھیلاتے ہیں۔ اور اسی کا ذکر آگے چل کر سُورہ اعراف ۱۷۲ میں آتا ہے کہ اللہ نے ازل میں آدم کی پیٹھوں سے ان کی ذریت کو نکال کر ان سے شہادت کو نکال کر ان سے شہادت طلب کی تھی کہ کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں؟ اورانہوں نے اقرار کیا تھا کہ ہاں ہم گواہ ہیں۔ |
2 | یہ اگرچہ شریعتِ الہٰی کا ایک مستقل اُصُول ہے ، لیکن یہاں اس کے بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ جو شخص اپنی حد تک تاپ تول اور لین دین کے معاملات میں راستی و انصاف سے کام لینے کی کوشش کرے وہ اپنی ذمہ داری سے سبکدوش ہو جائے گا۔ بھُول چوک یا نادانستہ کمی وہ بیشی ہو جانے پر اس سے باز پُرس نہ ہوگی |
1 | یعنی ایسا طریقہ جو زیادہ سے زیادہ بے غرضی، نیک نیتی اور یتیم کی خیر خواہی پر مبنی ہو، اور جس پر خدا اور خلق کسی کی طرف سے بھی تم اعتراض کے مستحق نہ ہو |
Surah 7 : Ayat 172
وَإِذْ أَخَذَ رَبُّكَ مِنۢ بَنِىٓ ءَادَمَ مِن ظُهُورِهِمْ ذُرِّيَّتَهُمْ وَأَشْهَدَهُمْ عَلَىٰٓ أَنفُسِهِمْ أَلَسْتُ بِرَبِّكُمْۖ قَالُواْ بَلَىٰۛ شَهِدْنَآۛ أَن تَقُولُواْ يَوْمَ ٱلْقِيَـٰمَةِ إِنَّا كُنَّا عَنْ هَـٰذَا غَـٰفِلِينَ
اور اے نبی، لوگوں کو یاد دلاؤ وہ وقت جبکہ تمہارے رب نے بنی آدم کی پشتوں سے ان کی نسل کو نکالا تھا اور انہیں خود ان کے اوپر گواہ بناتے ہوئے پوچھا تھا 1"کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں؟" انہوں نے کہا 2"ضرور آپ ہی ہمارے رب ہیں، ہم اس پر گواہی دیتے ہیں" یہ ہم نے اس لیے کیا کہ کہیں تم قیامت کے روز یہ نہ کہہ دو کہ "ہم تو اس بات سے بے خبر تھے،"
2 | جیسا کہ متعدد احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ معاملہ تخلیق آدم کےموقع پر پیش آیا تھا ۔ اس وقت جس طرح فرشتوں کو جمع کر کے انسان اول کو سجدہ کرایا گیا تھا اور زمین پر انسان کی خلافت کا اعلان کیا گیا تھا، اُسی طرح پوری نسلِ آدم کو بھی، جو قیامت تک پیدا ہونے والی تھی، اللہ تعالیٰ نے بیک وقت وجود اور شعور بخش کر اپنے سامنے حاضر کیا تھا اور ان سے اپنی ربوبیت کی شہادت لی تھی۔ اس آیت کی تفسیر میں حضرت اُبَیّ بن کَعب نے غالباً نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے استفادہ کر کے جو کچھ بیان کیا ہے وہ اس مضمون کی بہترین شرح ہے ۔ وہ فرماتے ہیں:۔ ”اللہ تعالیٰ نے سب کو جمع کیا اور (ایک ایک قسم یا ایک ایک دور کے)لوگوں کو الگ الگ گروہوں کی شکل میں مرتب کر کے انہیں انسانی صورت اور گویائی کی طاقت عطا کی، پھر ان سے عہد و میثاق لیا اور انہیں آپ اپنے اوپر گواہ بناتے ہوئے پو چھا کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں؟ انہوں نے عرض کیا ضرور آپ ہمارے رب ہیں۔ تب اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ میں تم پر زمین و آسمان سب کو اور خود تمہارے باپ آدم کو گواہ ٹھیراتا ہوں تا کہ تم قیامت کے روز یہ نہ کہہ سکو کہ ہم کو اس کا علم نہ تھا۔ خوب جان لو کہ میرے سوا کوئی مستحقِ عبادت نہیں ہے اور میرے سوا کوئی رب نہیں ہے۔ تم میرے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھیرانا۔ میں تمہارے پاس اپنے پیغمبر بھیجوں گا جو تم کو یہ عہد و میثاق جو تم میرے ساتھ باندھ رہے ہو، یاد دلائیں گے اور تم پر اپنی کتابیں بھی نازل کروں گا ۔ اس پر سب انسانوں نے کہا کہ ہم گواہ ہوئے، آپ ہی ہمارے رب اور آپ ہی ہمارے معبود ہیں، آپ کے سوا نہ کوئی ہمارا رب ہے نہ کوئی معبود“۔ اس معاملہ کو بعض لو گ محض تمثیلی انداز ِ بیان پر محمُول کرتے ہیں۔ ان کا خیال یہ ہے کہ دراصل یہاں قرآن مجید صرف یہ بات ذہن نشین کرنا چاہتا ہے کہ اللہ کی ربوبیت کا اقرار انسانی فطرت میں پیوست ہے، اور اس بات کو یہاں ایسے انداز سے بیان کیا گیا ہے کہ گویا یہ ایک واقعہ تھا جو عالمِ خارجی میں پیش آیا ۔ لیکن ہم اس تاویل کو صحیح نہیں سمجھتے ۔ قرآن اور حدیث دونوں میں اسے بالکل ایک واقعہ کے طور پر بیان گیا گیا ہے اور صرف بیانِ واقعہ پر ہی اکتفا نہیں کیا گیا بلکہ یہ بھی ارشاد ہوا ہے کہ قیامت کے روز بنی آدم پر حجت قائم کرتے ہوئے اس ازلی عہد و اقرار کو سند میں میں پیش کیا جائے گا۔ لہٰذا کوئی وجہ نہیں کہ ہم اُسے محض ایک تمثیلی بیان قرار دیں۔ہمارے نزدیک یہ واقعہ بالکلہ اسی طرح پیش آیا تھا جس طرح عالمِ خارجی میں واقعات پیش آیا کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے فی الواقع اُن تمام انسانوں کو جنہیں وہ قیامت تک پیدا کرنے کا ارادہ رکھتا تھا، بیک وقت زندگی اور شعور اور گویائی عطا کر کے اپنے سامنے حاضر کیا تھا، اور فی الواقع انہیں اس حقیقت سے پوری طرح آگاہ کر دیا تھا کہ ان کا کوئی رب اور کوئی الٰہ اُس کی ذاتِ اقدس و اعلیٰ کے سوا نہیں ہے، اور ان کے لیے کوئی صحیح طریق زندگی اُس کی بندگی و فرماں برداری (اسلام) کے سوا نہیں ہے۔ اس اجتماع کو اگر کوئی شخص بعدی از امکان سمجھتا ہے تو یہ محض اس کے دائرہ فکر کی تنگی کا نتیجہ ہے، ورنہ حقیقت میں تو نسلِ انسانی کی موجودہ تدریجی پیدائش جتنی قریب ازامکان ہے ، اتنا ہی ازل میں ان کا مجموعی ظہور، ابد میں ان کا مجموعی حشر و نشر بھی قریب از امکان ہے۔ پھر یہ بات نہایت معقول معلوم ہوتی ہے کہ انسان جیسی صاحبِ عقل و شعور اور صاحب ِ تصرف و اختیارات مخلوق کو زمین پر بحیثیت خلیفہ مامور کرتے وقت اللہ تعالیٰ اسے حقیقت سے آگاہی بخشے اور اس سے اپنی وفاداری کا اقرار (Oath of allegiance ) لے۔ اس معاملہ کا پیش آنا قابلِ تعجب نہیں ، البتہ اگر یہ پیش نہ آتا تو ضرور قابلِ تعجب ہوتا |
1 | جیسا کہ متعدد احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ معاملہ تخلیق آدم کےموقع پر پیش آیا تھا ۔ اس وقت جس طرح فرشتوں کو جمع کر کے انسان اول کو سجدہ کریا گیا تھا اور زمین پر انسان کی خلافت کا اعلان کیا گیا تھا، اُسی طرح پوری نسلِ آدم کو بھی، جو قیامت تک پیدا ہونے والی تھی، اللہ تعالیٰ نے بیک وقت وجود اور شعور بخش کر اپنے سامنے حاضر کیا تھا اور ان سے اپنی ربوبیت کی شہادت لی تھی۔ اس آیت کی تفسیر میں حضرت اُبَیّ بن کَعب نے غالباً نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے استفادہ کر کے جو کچھ بیان کیا ہے وہ اس مضمون کی بہترین شرح ہے ۔ وہ فرماتے ہیں:۔ ”اللہ تعالیٰ نے سب کو جمع کیا اور (ایک ایک قسم یا ایک ایک دور کے)لوگوں کو الگ الگ گروہوں کی شکل میں مرتب کر کے انہیں انسانی صورت اور گویائی کی طاقت عطا کی، پھر ان سے عہد و میثاق لیا اور انہیں آپ اپنے اوپر گواہ بناتے ہوئے پو چھا کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں؟ انہوں نے عرض کیا ضرور آپ ہمارے رب ہیں۔ تب اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ میں تم پر زمین و آسمان سب کو اور خود تمہارے باپ آدم کو گواہ ٹھیراتا ہوں تا کہ تم قیامت کے روز یہ نہ کہہ سکو کہ ہم کو اس کا علم نہ تھا۔ خوب جان لو کہ میرے سوا کوئی مستحقِ عبادت نہیں ہے اور میرے سوا کوئی رب نہیں ہے۔ تم میرے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھیرانا۔ میں تمہارے پاس اپنے پیغمبر بھیجوں گا جو تم کو یہ عہد و میثاق جو تم میرے ساتھ باندھ رہے ہو، یاد دلائیں گے اور تم پر اپنی کتابیں بھی نازل کروں گا ۔ اس پر سب انسانوں نے کہا کہ ہم گواہ ہوئے، آپ ہی ہمارے رب اور آپ ہی ہمارے معبود ہیں، آپ کے سوا نہ کوئی ہمارا رب ہے نہ کوئی معبود“۔ اس معاملہ کو بعض لو گ محض تمثیلی انداز ِ بیان پر محمُول کرتے ہیں۔ ان کا خیال یہ ہے کہ دراصل یہاں قرآن مجید صرف یہ بات ذہن نشین کرنا چاہتا ہے کہ اللہ کی ربوبیت کا اقرار انسانی فطرت میں پیوست ہے، اور اس بات کو یہاں ایسے انداز سے بیان کیا گیا ہے کہ گویا یہ ایک واقعہ تھا جو عالمِ خارجی میں پیش آیا ۔ لیکن ہم اس تاویل کو صحیح نہیں سمجھتے ۔ قرآن اور حدیث دونوں میں اسے بالکل ایک واقعہ کے طور پر بیان گیا گیا ہے اور صرف بیانِ واقعہ پر ہی اکتفا نہیں کیا گیا بلکہ یہ بھی ارشاد ہوا ہے کہ قیامت کے روز بنی آدم پر حجت قائم کرتے ہوئے اس ازلی عہد و اقرار کو سند میں میں پیش کیا جائے گا۔ لہٰذا کوئی وجہ نہیں کہ ہم اُسے محض ایک تمثیلی بیان قرار دیں۔ہمارے نزدیک یہ واقعہ بالکلہ اسی طرح پیش آیا تھا جس طرح عالمِ خارجی میں واقعات پیش آیا کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے فی الواقع اُن تمام انسانوں کو جنہیں وہ قیامت تک پیدا کرنے کا ارادہ رکھتا تھا، بیک وقت زندگی اور شعور اور گویائی عطا کر کے اپنے سامنے حاضر کیا تھا، اور فی الواقع انہیں اس حقیقت سے پوری طرح آگاہ کر دیا تھا کہ ان کا کوئی رب اور کوئی الٰہ اُس کی ذاتِ اقدس و اعلیٰ کے سوا نہیں ہے، اور ان کے لیے کوئی صحیح طریق زندگی اُس کی بندگی و فرماں برداری (اسلام) کے سوا نہیں ہے۔ اس اجتماع کو اگر کوئی شخص بعدی از امکان سمجھتا ہے تو یہ محض اس کے دائرہ فکر کی تنگی کا نتیجہ ہے، ورنہ حقیقت میں تو نسلِ انسانی کی موجودہ تدریجی پیدائش جتنی قریب ازامکان ہے ، اتنا ہی ازل میں ان کا مجموعی ظہور، ابد میں ان کا مجموعی حشر و نشر بھی قریب از امکان ہے۔ پھر یہ بات نہایت معقول معلوم ہوتی ہے کہ انسان جیسی صاحبِ عقل و شعور اور صاحب ِ تصرف و اختیارات مخلوق کو زمین پر بحیثیت خلیفہ مامور کرتے وقت اللہ تعالیٰ اسے حقیقت سے آگاہی بخشے اور اس سے اپنی وفاداری کا اقرار (Oath of allegiance ) لے۔ اس معاملہ کا پیش آنا قابلِ تعجب نہیں ، البتہ اگر یہ پیش نہ آتا تو ضرور قابلِ تعجب ہوتا |
Surah 7 : Ayat 173
أَوْ تَقُولُوٓاْ إِنَّمَآ أَشْرَكَ ءَابَآؤُنَا مِن قَبْلُ وَكُنَّا ذُرِّيَّةً مِّنۢ بَعْدِهِمْۖ أَفَتُهْلِكُنَا بِمَا فَعَلَ ٱلْمُبْطِلُونَ
یا یہ نہ کہنے لگو کہ 1"شرک کی ابتدا تو ہمارے باپ دادا نے ہم سے پہلے کی تھی اور ہم بعد کو ان کی نسل سے پیدا ہوئے، پھر کیا آپ ہمیں اُس قصور میں پکڑتے ہیں جو غلط کار لوگوں نے کیا تھا"
1 | اس آیات میں وہ غرض بیان کی گئی ہے جس کے لیے ازل میں پوری نسلِ آدم سے اقرار لیا گیا تھا۔ اور وہ یہ ہے کہ انسانوں میں سے جو لوگ اپنے خدا سے بغاوت اختیار کریں وہ اپنے اِس جرم کے پوری طرح ذمہ دار قرار پائیں ۔ اُنہیں اپنی صفائی میں نہ تو لاعلمی کا عذر پیش کرنے کا موقع ملے اور نہ وہ سابق نسلوں پر اپنی گمراہی کی ذمہ داری ڈال کر خود بری الذمہ ہو سکیں گویا بالفاظ دیگر اللہ تعالیٰ اس ازلی عہد و میثاق کو اس بات پر دلیل قرار دیتا ہے کہ نوعِ انسانی میں سے ہر شخص انفرادی طور پر اللہ کے الٰہِ واحد اور ربِّ واحد ہونے کی شہادت اپنے اندر لیے ہوئے ہے اور اس بنا پر یہ کہنا غلط ہے کہ کوئی شخص کامل بے خبری کے سبب سے، یا ایک گمراہ ماحول میں پر ورش پانے کے سبب سے اپنی گمراہی کی ذمہ داری سے بالکل یہ بری ہو سکتا ہے۔ اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر یہ ازلی میثاق فی الواقع عمل میں آیا بھی تھا تو کیا اس کی یاد ہمارے شعور اور حافظہ میں محفوظ ہے؟ کیا ہم میں سے کوئی شخص بھی یہ جانتا ہے کہ آغازِ آفرنیش میں وہ اپنے خدا کے سامنے پیش کیا گیا تھا اور اس سے اَلَسْتُ بِرَبِّکُمْ کا سوال ہوا تھا اور اس نے بلیٰ کہا تھا؟ اگر نہیں تو پھر اُس اقرار کو جس کی یاد ہمارے شعور و حافظہ سے محو ہو چکی ہے ہمارے خلاف حجت کیسے قرار دیا جا سکتا ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اگر اُس میثاق کا نقش انسان کے شعور اور حافظہ میں تازہ رہنے دیا جاتا تو انسان کا دنیا کی موجودہ امتحان گاہ میں بھیجا جانا سرے سے فضول ہو جاتا کیونکہ اس کے بعد تو اس آزمائشِ و امتحان کے کوئی معنی ہی باقی نہ رہ جاتے۔ لہٰذا اس نقش کو شعور و حافظہ میں تو تازہ نہیں رکھا گیا، لیکن وہ تحت الشعور(Sub-conscious mind ) اور وِجدان(Intuition ) میں یقیناً محفوظ ہے۔ اس کا حال وہی ہے جو ہمارے تمام دوسرے تحت الشعوری اور وجدانی علوم کا حال ہے۔ تہذیب و تمدّن اور اخلاق و معلاملات کے تمام شعبوں میں انسان سے آج تک جو کچھ بھی ظہور میں آیا ہے وہ سب درحقیقت انسان کے اندر بالقوة(Potentially ) موجود تھا۔ خارجی محرکات اور داخلی تحریکات نے مل جل کر اگر کچھ کیا ہے تو صرف اتنا کہ جو کچھ بالقوة تھا اُسے بالفعل کر دیا ۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ کوئی تعلیم، کوئی تربیت ، کوئی ماحول تا ثیر اور کوئی داخلی تحریک انسان کے اندر کوئی چیز بھی، جو اُس کے اندر بالقوة موجود نہ ہو، ہر گز پیدا نہیں کر سکتی۔ اور اسی طرح یہ سب موثرات اگر اپنا تمام زور بھی صرف کردیں تو ان میں یہ طاقت نہیں ہے کہ اُن چیزوں میں سے ، جو انسان کے اندر بالقوة موجود ہیں، کسی چیز کو قطعی محو کر دیں۔ زیادہ سے زیادہ جو کچھ وہ کر سکتے ہیں وہ صرف یہ ہے کہ اسے اصل فطرت سے منحرف(Pervert ) کر دیں ۔ لیکن وہ چیز تمام تحریفات و تمسیخات کے باوجود اندر موجود رہے گی، ظہور میں آنے کے لیے زور لگاتی رہے گی، اور خارجی اپیل کا جواب دینے کے لیے مستعد رہے گی۔ یہ معاملہ جیسا کہ ہم نے ابھی بیان کیا، ہمارے تمام تحت الشعوری اور وجدانی علوم کے ساتھ عام ہے: وہ سب ہمارے اندر بالقوة موجود ہیں، اور ان کے موجود ہونے کا یقینی ثبوت اُن چیزوں سے ہمیں ملتا ہےجو بالفعل ہم سے ظاہر ہوتی ہیں۔ ان سب کے ظہو رمیں آنے کے لیے خارجی تذکیر (یاد دہانی)، تعلیم، تربیت اور تشکیل کی ضرورت ہوتی ہے ، اور جو کچھ ہم سے ظاہر ہوتا ہے وہ گویا درحقیقت خارجی اپیل کا وہ جواب ہے جو ہمارے اندر کی بالقوة موجودات کی طرف سے ملتا ہے۔ ان سب کو اندر کی غلط خواہشات اور باہر کی غلط تا ثیرات دبا کر، پردہ ڈال کر ، منحرف اور مسخ کر کے کالعدم کر سکتی ہیں مگر بالکل معدوم نہیں کر سکتیں، اور اسی لیے اندرونی احساس اور بیرونی سعی دونوں سے اصلاح اور تبدیلی(Conversion ) ممکن ہوتی ہے۔ ٹھیک ٹھیک یہی کیفیت اُس وجدانی علم کی بھی ہے جو ہمیں کائنات میں اپنی حقیقی حیثیت، اور خالقِ کائنات کے ساتھ اپنے تعلق کے بارے میں حاصل ہے: اس موجود ہونے کا ثبوت یہ ہے کہ وہ انسانی زندگی کے ہر دور میں، زمین کے ہر خطہ میں، ہر بستی، ہر پشت اور ہر نسل میں اُبھرتا رہا ہے اور کبھی دنیا کی کوئی طاقت اسے محو کر دینے میں کامیاب نہیں ہو سکی ہے۔ اس کے مطابقِ حقیقت ہونے کا ثبوت یہ ہے کہ جب کبھی وہ اُبھر کر بالفعل ہماری زندگی میں آ کر فرما ہوا ہے اس نے صالح ار مفید نتائج ہی پیدا کیے ہیں۔ اس کو اُبھر نے اور ظہور میں آنے اور عملی صورت اختیار کرنے کے لیے ایک خارجی اپیل کی ہمیشہ ضروت رہی ہے ، چنانچہ انبیاء علیہم السلام اور کتبِ آسمانی اور ان کی پیروی کرنے والے داعیانِ حق سب کے سب یہی خدمت انجام دیتے رہے ہیں۔ اسی لیے اُن کو قرآن میں مذکِّر(یاد دلانے والے)ذِکر (یاد)تذکرہ(یادداشت) اور اب ان کے کام کوتذکیر(یاد دہانی)کے الفاظ سے تعبیر گیا گیا ہے جس کے معنی یہ ہیں کہ انبیاء اور کتابیں اور داعیانِ حق انسان کے اندر کوئی نئی چیز پیدا نہیں کرتے بلکہ اُسی چیز کو اُبھارتے اور تازہ کرتے ہیں جو ان کے اندر پہلے سے موجود تھی۔ نفسِ انسانی کی طرف سے ہر زمانہ میں اِس تذکیر کا جواب بصورتِ لبیک ملنا اس بات کا مزید ایک ثبوت ہے کہ اندر فی الواقع کوئی علم چھپا ہوا تھا جو اپنے پکارنے والے کی آواز پہچان کر جواب دینے کے لیے اُبھر آیا۔ پھر اسے جہالت اور جاہلیت اور خواہشات نفس اور تعصبات اور شیا طینِ جن و انس کی گمراہ کن تعلیمات و ترغیبات نے ہمیشہ دبانے اور چھپانے اور منحرف اور مسخ کرنے کی کوشش کی ہے جس کے نتیجے میں شرک، وہریت، الحاد ، زندقہ اور اخلاقی و عملی فساد رونما ہوتا رہا ہے۔ لیکن ضلالت کی ان ساری طاقتوں کے متحدہ عمل کے باوجود اس علم کا پیدائشی نقش انسان کی لوح دل پر کسی نہ کسی حد تک موجود رہا ہے اور اسی لیے تذکیر و تجدید کی کوششیں اُسے اُبھارنے میں کامیاب ہوتی رہی ہیں۔ بلاشبہ دنیا کی موجودہ زندگی میں حق اور حقیقت کے انکار پر مصر ہیں وہ اپنی حجت بازیوں سے اس پیدائیشی نقش کے وجود کا انکار کر سکتے ہیں یا کم از کم اسے مشتبہ ثابت کر سکتے ہیں۔ لیکن جس روز یوم الحساب برپا ہو گا اس روز ان کا خالق ان کے شعور وحافظہ میں روزِ ازل کے اُس اجتماع کی یاد تازہ کر دے گا جبکہ انہوں نے اس کو اپنا واحد معبود اور واحد رب تسلیم کیا تھا۔ پھر وہ اس بات کا ثبوت بھی ان کے اپنے نفس ہی سے فراہم کر دے گا کہ اس میثاق کا نقش ان کے نفس میں برابر موجود رہا اور یہ بھی وہ ان کی اپنی زندگی ہی کے ریکارڈ سے علیٰ رؤس الا شہاد دکھاوے گا کہ انہوں نے کس کس طرح اس نقش کو دبایا، کب کب اور کن کن مواقع پر ان کے قلب سے تصدیق کی آوازیں اُٹھیں، اپنی اور اپنے گردوبیش کی گمراہیوں پر ان کے وجدان نے کہاں کہاں اور کس کس وقت صدائے انکار بلند کی، داعیانِ حق کی دعوت کا جواب دینے کے لیے ان کے اندر کا چھپا ہوا علم کتنی کتنی مرتبہ اور کس کس جگہ اُبھرنے پر آمادہ ہوا، اور پھر وہ اپنے تعصبات اور اپنی خواہشات نفس کی بنا پر کیسے کیسے حیلوں اور بہانوں سے اس کو فریب دیتے اور خاموش کر دیتے رہے۔ وہ وقت جبکہ یہ سارے راز فاش ہوں گے، حجت بازیوں کا نہ ہوگا بلکہ صاف صاف اقرار جرم کا ہوگا۔ اسی لیے قرآن مجید کہتا ہے کہ اس وقت مجرمین یہ نہیں کہیں گے کہ ہم جاہل تھے یا غافل تھے، بلکہ یہ کہنے پر مجبور ہوں گے کہ ہم کافر تھے۔ یعنی ہم نے جان بوجھ کر حق کا انکار کیا۔ وَ شَھِدُوْا عَلٓیٰ اَنْفُسِہِمْ اَنَّھُمْ کَانُوْ ا کَا فِرِیْنَ (الاَنعام، ١۳۰) |
Surah 9 : Ayat 4
إِلَّا ٱلَّذِينَ عَـٰهَدتُّم مِّنَ ٱلْمُشْرِكِينَ ثُمَّ لَمْ يَنقُصُوكُمْ شَيْــًٔا وَلَمْ يُظَـٰهِرُواْ عَلَيْكُمْ أَحَدًا فَأَتِمُّوٓاْ إِلَيْهِمْ عَهْدَهُمْ إِلَىٰ مُدَّتِهِمْۚ إِنَّ ٱللَّهَ يُحِبُّ ٱلْمُتَّقِينَ
بجز اُن مشرکین کے جن سے تم نے معاہد ے کیے پھر انہوں نے اپنے عہد کو پورا کرنے میں تمہارے ساتھ کوئی کمی نہیں کی اور نہ تمہارے خلاف کسی کی مدد کی، تو ایسے لوگوں کے ساتھ تم بھی مدت معاہدہ تک وفا کرو کیونکہ اللہ متقیوں ہی کو پسند کرتا ہے1
1 | یعنی یہ بات تقویٰ کے خلاف ہوگی کہ جنھوں نے تم سے کوئی عہد شکنی نہیں کی ہے ان سے تم عہد شکنی کرو۔ اللہ کے نزدیک پسندیدہ صرف وہی لوگ ہیں جو ہرحال میں تقویٰ پر قائم رہیں |
Surah 9 : Ayat 7
كَيْفَ يَكُونُ لِلْمُشْرِكِينَ عَهْدٌ عِندَ ٱللَّهِ وَعِندَ رَسُولِهِۦٓ إِلَّا ٱلَّذِينَ عَـٰهَدتُّمْ عِندَ ٱلْمَسْجِدِ ٱلْحَرَامِۖ فَمَا ٱسْتَقَـٰمُواْ لَكُمْ فَٱسْتَقِيمُواْ لَهُمْۚ إِنَّ ٱللَّهَ يُحِبُّ ٱلْمُتَّقِينَ
اِن مشرکین کے لیے اللہ اور اس کے رسول کے نزدیک کوئی عہد آخر کیسے ہوسکتا ہے؟ بجز اُن لوگوں کے جن سے تم نے مسجد حرام کے پاس معاہدہ کیا تھا1، تو جب تک وہ تمہارے ساتھ سیدھے رہیں تم بھی ان کے ساتھ سیدھے رہو کیونکہ اللہ متقیوں کو پسند کرتا ہے
1 | یعنی بنی کِنانہ اور بنی خُزاعہ اور بنی ضَمرہ۔ |
Surah 16 : Ayat 91
وَأَوْفُواْ بِعَهْدِ ٱللَّهِ إِذَا عَـٰهَدتُّمْ وَلَا تَنقُضُواْ ٱلْأَيْمَـٰنَ بَعْدَ تَوْكِيدِهَا وَقَدْ جَعَلْتُمُ ٱللَّهَ عَلَيْكُمْ كَفِيلاًۚ إِنَّ ٱللَّهَ يَعْلَمُ مَا تَفْعَلُونَ
اللہ کے عہد کو پورا کرو جبکہ تم نے اس سے کوئی عہد باندھا ہو، اور اپنی قسمیں پختہ کرنے کے بعد توڑ نہ ڈالو جبکہ تم اللہ کو اپنے اوپر گواہ بنا چکے ہو اللہ تمہارے سب افعال سے باخبر ہے
Surah 17 : Ayat 34
وَلَا تَقْرَبُواْ مَالَ ٱلْيَتِيمِ إِلَّا بِٱلَّتِى هِىَ أَحْسَنُ حَتَّىٰ يَبْلُغَ أَشُدَّهُۥۚ وَأَوْفُواْ بِٱلْعَهْدِۖ إِنَّ ٱلْعَهْدَ كَانَ مَسْــُٔولاً
ما ل یتیم کے پاس نہ پھٹکو مگر احسن طریقے سے، یہاں تک کہ وہ اپنے شباب کو پہنچ جائے1 عہد کی پابندی کرو، بے شک عہد کے بارے میں تم کو جواب دہی کرنی ہوگی2
2 | یہ بھی صرف انفرادی اخلاقیات ہی کی ایک دفعہ نہ تھی بلکہ جب اسلامی حکومت قائم ہوئی تو اسی کو پوری قوم کی داخلی اور خارجی سیاست کا سنگِ بنیاد ٹھیرایا گیا۔ |
1 | یہ بھی محض ایک اخلاقی ہدایت نہ تھی بلکہ آگے چل کر جب اسلامی حکومت قائم ہوئی تو یتامیٰ کے حقوق کی حفاظت کے لیے انتظامی اور قانونی، دونوں کی طرح کی تدابیر اختیار کی گئیں جن کی تفصیل ہم کو حدیث اور فقہ کی کتابوں میں ملتی ہے۔ پھر اسی سے یہ وسیع اصول اخذ کیا گیا کہ اسلامی ریاست اپنے اُن تمام شہریوں کے مفاد کی محافظ ہے جو اپنے مفاد کی خود حفاظت کرنے کے قابل نہ ہوں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا اشاد اَنَاوَ لِیُّ مَنْ لَّا وَلِیَّ لَہُ(میں ہراس شخص کا سرپرست ہوں جس کا کوئی سرپرست نہ ہو)اسی طرف اشارہ کرتا ہے، اور یہ اسلامی قانون کے ایک وسیع باب کی بنیاد ہے۔ |