Ayats Found (10)
Surah 6 : Ayat 56
قُلْ إِنِّى نُهِيتُ أَنْ أَعْبُدَ ٱلَّذِينَ تَدْعُونَ مِن دُونِ ٱللَّهِۚ قُل لَّآ أَتَّبِعُ أَهْوَآءَكُمْۙ قَدْ ضَلَلْتُ إِذًا وَمَآ أَنَا۟ مِنَ ٱلْمُهْتَدِينَ
اے محمدؐ! اِن سے کہو کہ تم لوگ اللہ کے سوا جن دوسروں کو پکارتے ہو اُن کی بندگی کرنے سے مجھے منع کیا گیا ہے کہو، میں تمہاری خواہشات کی پیروی نہیں کروں گا، اگر میں نے ایسا کیا تو گمراہ ہو گیا، راہ راست پانے والوں میں سے نہ رہا
Surah 11 : Ayat 2
أَلَّا تَعْبُدُوٓاْ إِلَّا ٱللَّهَۚ إِنَّنِى لَكُم مِّنْهُ نَذِيرٌ وَبَشِيرٌ
کہ تم بندگی نہ کرو مگر صرف اللہ کی میں اُس کی طرف سے تم کو خبردار کرنے والا بھی ہوں اور بشارت دینے والا بھی
Surah 12 : Ayat 40
مَا تَعْبُدُونَ مِن دُونِهِۦٓ إِلَّآ أَسْمَآءً سَمَّيْتُمُوهَآ أَنتُمْ وَءَابَآؤُكُم مَّآ أَنزَلَ ٱللَّهُ بِهَا مِن سُلْطَـٰنٍۚ إِنِ ٱلْحُكْمُ إِلَّا لِلَّهِۚ أَمَرَ أَلَّا تَعْبُدُوٓاْ إِلَّآ إِيَّاهُۚ ذَٲلِكَ ٱلدِّينُ ٱلْقَيِّمُ وَلَـٰكِنَّ أَكْثَرَ ٱلنَّاسِ لَا يَعْلَمُونَ
اُس کو چھوڑ کر تم جن کی بندگی کر رہے ہو وہ اس کے سوا کچھ نہیں ہیں کہ بس چند نام ہیں جو تم نے اور تمہارے آباؤ اجداد نے رکھ لیے ہیں، اللہ نے ان کے لیے کوئی سند نازل نہیں کی فرماں روائی کا اقتدار اللہ کے سوا کسی کے لیے نہیں ہے اس کا حکم ہے کہ خود اس کے سوا تم کسی کی بندگی نہ کرو یہی ٹھیٹھ سیدھا طریق زندگی ہے، مگر اکثر لوگ جانتے نہیں ہیں
Surah 36 : Ayat 60
۞ أَلَمْ أَعْهَدْ إِلَيْكُمْ يَـٰبَنِىٓ ءَادَمَ أَن لَّا تَعْبُدُواْ ٱلشَّيْطَـٰنَۖ إِنَّهُۥ لَكُمْ عَدُوٌّ مُّبِينٌ
آدمؑ کے بچو، کیا میں نے تم کو ہدایت نہ کی تھی کہ شیطان کی بندگی نہ کرو، وہ تمہارا کھلا دشمن ہے
Surah 39 : Ayat 64
قُلْ أَفَغَيْرَ ٱللَّهِ تَأْمُرُوٓنِّىٓ أَعْبُدُ أَيُّهَا ٱلْجَـٰهِلُونَ
(اے نبیؐ) اِن سے کہو "پھر کیا اے جاہلو، تم اللہ کے سوا کسی اور کی بندگی کرنے کے لیے مجھ سے کہتے ہو؟"
Surah 40 : Ayat 43
لَا جَرَمَ أَنَّمَا تَدْعُونَنِىٓ إِلَيْهِ لَيْسَ لَهُۥ دَعْوَةٌ فِى ٱلدُّنْيَا وَلَا فِى ٱلْأَخِرَةِ وَأَنَّ مَرَدَّنَآ إِلَى ٱللَّهِ وَأَنَّ ٱلْمُسْرِفِينَ هُمْ أَصْحَـٰبُ ٱلنَّارِ
نہیں، حق یہ ہے اور اِس کے خلاف نہیں ہو سکتا کہ جن کی طرف تم مجھے بلا رہے ہو اُن کے لیے نہ دنیا میں کوئی دعوت ہے نہ آخرت میں1، اور ہم سب کو پلٹنا اللہ ہی کی طرف ہے، اور حد سے گزرنے والے آگ میں جانے والے ہیں2
2 | ’’حد سے گزر جانے‘‘ کا مطلب حق سے تجاوز کرنا ہے۔ ہر وہ شخص جو اللہ کے سوا دوسروں کی خدائی مانتا ہے یا خود خدا بن بیٹھتا ہے، یا خدا سے باغی ہو کر دنیا میں خود مختاری کا رویہ اختیار کرتا ہے، اور پھر اپنی ذات پر، خلق خدا پر اور دنیا کی ہر اس چیز پر جس سے اس کو سابقہ پیش آۓ، طرح طرح کی زیادتیاں کرتا ہے، وہ حقیقت میں عقل اور انصاف کی تمام حدوں کو پھاند جانے والا انسان ہے۔ |
1 | اس فقرے کے کئی معنی ہو سکتے ہیں۔ ایک یہ کہ ان کو نہ دنیا میں یہ حق پہنچتا ہے اور نہ آخرت میں کہ ان کی خدائی تسلیم کرنے کے لیے خلق خدا کو دعوت دی جاۓ۔ دوسرے یہ کہ انہیں تو لوگوں نے زبردستی خدا بنایا ہے ورنہ وہ خود نہ اس دنیا میں خدائی کے مدعی ہیں، نہ آخرت میں یہ دعویٰ لے کر اٹھیں گے کہ ہم بھی تو خدا تھے، تم نے ہمیں کیوں نہ مانا۔ تیسرے یہ کہ ان کو پکارنے کا کوئی فائدہ نہ اس دنیا میں ہے نہ آخرت میں، کیونکہ وہ بالکل بے اختیار ہیں اور انہیں پکارنا قطعی لا حاصل ہے |
Surah 40 : Ayat 66
۞ قُلْ إِنِّى نُهِيتُ أَنْ أَعْبُدَ ٱلَّذِينَ تَدْعُونَ مِن دُونِ ٱللَّهِ لَمَّا جَآءَنِىَ ٱلْبَيِّنَـٰتُ مِن رَّبِّى وَأُمِرْتُ أَنْ أُسْلِمَ لِرَبِّ ٱلْعَـٰلَمِينَ
اے نبیؐ، اِن لوگوں سے کہہ دو کہ مجھے تو اُن ہستیوں کی عبادت سے منع کر دیا گیا ہے جنہیں تم اللہ کو چھوڑ کر پکارتے ہو1 (میں یہ کام کیسے کر سکتا ہوں) جبکہ میرے پاس میرے رب کی طرف سے بینات آ چکی ہیں مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں رب العالمین کے آگے سرِ تسلیم خم کر دوں
1 | یہاں پھر عبادت اور دعا کو ہم معنی استعمال کیا گیا ہے |
Surah 41 : Ayat 37
وَمِنْ ءَايَـٰتِهِ ٱلَّيْلُ وَٱلنَّهَارُ وَٱلشَّمْسُ وَٱلْقَمَرُۚ لَا تَسْجُدُواْ لِلشَّمْسِ وَلَا لِلْقَمَرِ وَٱسْجُدُواْ لِلَّهِ ٱلَّذِى خَلَقَهُنَّ إِن كُنتُمْ إِيَّاهُ تَعْبُدُونَ
اللہ کی نشانیوں میں سے ہیں یہ رات اور دن اور سورج اور چاند1 سورج اور چاند کو سجدہ نہ کرو بلکہ اُس خدا کو سجدہ کرو جس نے انہیں پیدا کیا ہے اگر فی الواقع تم اُسی کی عبادت کرنے والے ہو2
2 | یہ جواب ہے اس فلسفے کا جو شرک کو معقول ثابت کرنے کے لیے کچھ زیادہ ذہین قسم کے مشرکین عموماً بگھارا کرتے ہیں ۔ وہ کہتے ہیں کہ ہم ان چیزوں کو سجدہ نہیں کرتے بلکہ ان کے واسطے سے اللہ ہی کو سجدہ کرتے ہیں ۔ اس کا جواب یہ دیا گیا ہے کہ اگر تم واقعی اللہ ہی کے عبادت گزار ہو تو ان واسطوں کی کیا ضرورت ہے، براہ خود اسی کو سجدہ کیوں نہیں کرتے |
1 | یعنی یہ اللہ کے مظاہر نہیں ہیں کہ تم یہ سمجھتے ہوۓ ان کی عبادت کرنے لگو کہ اللہ ان کی شکل میں خود اپنے آپ کو ظاہر کر رہا ہے، بلکہ یہ اللہ کی نشانیاں ہیں جن پر غور کرنے سے تم کائنات کی او اس کے نظام کی حقیقت سمجھ سکتے ہو اور یہ جان سکتے ہو کہ انبیاء علیہم السلام جس توحید خداوندی کی تعلیم دے رہے ہیں وہی امر واقعی ہے۔ سورج اور چاند سے پہلے رات اور دن کا ذکر اس امر پر متنبہ کرنے کے لیے کیا گیا ہے کہ رات کو سورج کا چھپنا اور چاند کا نکل آنا، اور دن کو چاند کا چھپنا اور سورج کا نمودار ہو جانا صاف طور پر یہ دلالت کر رہا ہے کہ ان دونوں میں سے کوئی بھی خدا یا خدا کا مظہر نہیں ہے، بلکہ دونوں ہی مجبور و لاچار بندے ہیں جو خدا کے قانون میں بندھے ہوۓ گردش کر رہے ہیں |
Surah 51 : Ayat 51
وَلَا تَجْعَلُواْ مَعَ ٱللَّهِ إِلَـٰهًا ءَاخَرَۖ إِنِّى لَكُم مِّنْهُ نَذِيرٌ مُّبِينٌ
اور نہ بناؤ اللہ کے ساتھ کوئی دوسرا معبود، میں تمہارے لیے اُس کی طرف سے صاف صاف خبردار کرنے والا ہوں1
1 | یہ فقرے اگرچہ اللہ ہی کا کلام ہیں مگر ان میں متکلم اللہ تعالیٰ نہیں بلکہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم ہیں۔ گویا بات در اصل یوں ہے کہ اللہ اپنے نبی کی زبان سے کہلوا رہا ہے کہ دوڑو اللہ کی طرف، میں تمہیں اس کی طرف سے خبردار کرتا ہوں۔ اس طرز کلام کی مثال قرآن کی اولین سورۃ، یعنی سورہ فاتحہ میں موجود جس میں کلام تو اللہ تعالیٰ ہی کا ہے مگر متکلم کی حیثیت سے بندے عرض کرتے ہیں: اِیَّا کَ نَعْبُدُ وَ اِیَّا کَ نَسْتَعِیْنُ، اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ جس طرح وہاں یہ بات نہیں کہی گئی ہے کہ ’’ اے اہل ایمان تم اپنے رب سے یوں دعا مانگو‘‘، مگر فَحواۓ کلام سے خود بخود یہ بات مترشح ہوتی ہے کہ یہ ایک دعا ہے جو اللہ اپنے بندوں کو سکھا رہا ہے، اسی طرح یہاں بھی یہ نہیں فرمایا گیا ہے کہ ’’ اے نبی تم ان لوگوں سے کہو‘‘، مگر فحواۓ کلام خود بتا رہا ہے کہ یہ توحید کی ایک دعوت ہے جو اللہ تعالیٰ کی ہدایت کے مطابق نبی صلی اللہ علیہ و سلم پیش کر رہے ہیں۔ سورہ فاتحہ کے علاوہ اس طرز کلام کی اور بھی متعدد نظیریں قرآن مجید میں موجود ہیں جن میں کلام تو اللہ ہی کا ہوتا ہے مگر متکلم کہیں فرشتے ہوتے ہیں اور کہیں نبی صلی اللہ علیہ و سلم،اور اس امر کی تصریح کے بغیر کہ یہاں متکلم کون ہے، سیاق عبارت سے خود بخود یہ بات ظاہر ہو جاتی ہے کہ اللہ اپنا یہ کلام کس کی زبان سے ادا کر رہا ہے۔ مثال کے طور پر ملاحظہ ہو سورہ مریم 64۔ 65۔ الصافات 159 تا 167۔ الشوریٰ 10 |
Surah 72 : Ayat 18
وَأَنَّ ٱلْمَسَـٰجِدَ لِلَّهِ فَلَا تَدْعُواْ مَعَ ٱللَّهِ أَحَدًا
اور یہ کہ مسجدیں اللہ کے لئے ہیں، لہٰذا اُن میں اللہ کے ساتھ کسی اور کو نہ پکارو1
1 | مفسرین نے بالعموم ’’مساجد‘‘ کو عبادت گاہوں کے معنی میں لیا ہے اور اس معنی کے لحاظ سے آیت کا مطلب یہ ہے کہ عبادت گاہوں میں اللہ کے ساتھ کسی اور کی عبادت نہ کی جائے۔ حضرت حسن بصری کہتے ہیں کہ زمین پوری کی پوری عبادت گاہ ہے ا ور آیت کا منشا یہ ہے کہ خدا کی زمین پر کہیں بھی شرک نہ کیا جائے۔ ان کا استدلال نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے اس ارشاد سے ہے کہ جعلت لی الارض مسجد و طھورا۔ ’’میرے لیے پوری زمین عبادت کی جگہ اور طہارت حاصل کرنے کا ذریعہ بنائی گئی ہے‘‘۔ حضرت سعید بن جبیر نے مساجد سے مراد وہ اعضاء لیے ہیں جن پر آدمی سجدہ کرتا ہے، یعنی ہاتھ ، گھٹنے ، قدم اور پیشانی۔ اس تفسیر کی رو سے آیت کا مطلب یہ ہے کہ یہ اعضاء اللہ کے بنائے ہوئے ہیں۔ ان پر ا للہ کے سوا کسی اور کے لیے سجدہ نہ کیا جائے |