Ayats Found (34)
Surah 2 : Ayat 21
يَـٰٓأَيُّهَا ٱلنَّاسُ ٱعْبُدُواْ رَبَّكُمُ ٱلَّذِى خَلَقَكُمْ وَٱلَّذِينَ مِن قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ
لوگو1! بندگی اختیار کرو اپنے اُس رب کی جو تمہارا اور تم سے پہلے جو لوگ ہو گزرے ہیں اُن سب کا خالق ہے، تمہارے بچنے کی توقع2 اِسی صورت ہوسکتی ہے
2 | یعنی دُنیا میں غلط بینی و غلط کاری سے اور آخرت میں خدا کے عذاب سے بچنے کی توقع |
1 | اگرچہ قرآن کی دعوت تمام انسانوں کے لیے عام ہے ، مگر اس دعوت سے فائدہ اُٹھانا یا نہ اُٹھانا لوگوں کی اپنی آمادگی پر اور اس آمادگی کے مطابق اللہ کی توفیق پر منحصر ہے۔ لہٰذا پہلے انسانوں کے درمیان فرق کر کے واضح کر دیا گیا کہ کس قسم کے لوگ اس کتاب کی رہنمائی سے فائدہ اُٹھاسکتے ہیں اور کس قسم کے نہیں اُٹھا سکتے۔ اِس کے بعد اب تمام نوعِ انسانی کے سامنے وہ اصل بات پیش کی جاتی ہے ، جس کی طرف بُلانے کے لیے قرآن آیا ہے |
Surah 4 : Ayat 36
۞ وَٱعْبُدُواْ ٱللَّهَ وَلَا تُشْرِكُواْ بِهِۦ شَيْــًٔاۖ وَبِٱلْوَٲلِدَيْنِ إِحْسَـٰنًا وَبِذِى ٱلْقُرْبَىٰ وَٱلْيَتَـٰمَىٰ وَٱلْمَسَـٰكِينِ وَٱلْجَارِ ذِى ٱلْقُرْبَىٰ وَٱلْجَارِ ٱلْجُنُبِ وَٱلصَّاحِبِ بِٱلْجَنۢبِ وَٱبْنِ ٱلسَّبِيلِ وَمَا مَلَكَتْ أَيْمَـٰنُكُمْۗ إِنَّ ٱللَّهَ لَا يُحِبُّ مَن كَانَ مُخْتَالاً فَخُورًا
اور تم سب اللہ کی بندگی کرو، اُس کے ساتھ کسی کو شریک نہ بناؤ، ماں باپ کے ساتھ نیک برتاؤ کرو، قرابت داروں اور یتیموں اور مسکینوں کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آؤ، اور پڑوسی رشتہ دار سے، اجنبی ہمسایہ سے، پہلو کے ساتھی1 اور مسافر سے، اور اُن لونڈی غلاموں سے جو تمہارے قبضہ میں ہوں، احسان کا معاملہ رکھو، یقین جانو اللہ کسی ایسے شخص کو پسند نہیں کرتا جو اپنے پندار میں مغرور ہو اور اپنی بڑائی پر فخر کر ے
1 | متن میں”الصا حب بالجنب“ فرمایا گیا ہے جس سے مراد ہم نشین دوست بھی ہےاور ایسا شخص بھی جس سے کہیں کسی وقت آدمی کا ساتھ ہو جائے۔ مثلاً آپ بازار میں جا رہے ہوں اور کوئی شخص آپ کے ساتھ راستہ چل رہا ہو، یا کسی دوکان پر آپ سودا خرید رہے ہوں اور کوئی دوسرا خریدا ر بھی آپ کے پاس بیٹھا ہو ، یاسفر کے دوران میں کوئی شخص آپ کا ہم سفر ہو۔ یہ عارضی ہمسائیگی بھی ہر مہذّب اور شریف انسان پر ایک حق عائد کرتی ہے جس کا تقاضا یہ ہے کہ وہ حتی الامکان اس کے ساتھ نیک برتا ؤ کرے اور اسے تکلیف دینے سے مجتنب رہے |
Surah 6 : Ayat 102
ذَٲلِكُمُ ٱللَّهُ رَبُّكُمْۖ لَآ إِلَـٰهَ إِلَّا هُوَۖ خَـٰلِقُ كُلِّ شَىْءٍ فَٱعْبُدُوهُۚ وَهُوَ عَلَىٰ كُلِّ شَىْءٍ وَكِيلٌ
یہ ہے اللہ تمہارا رب، کوئی خدا اس کے سوا نہیں ہے، ہر چیز کا خالق، لہٰذا تم اسی کی بندگی کرو اور وہ ہر چیز کا کفیل ہے
Surah 7 : Ayat 55
ٱدْعُواْ رَبَّكُمْ تَضَرُّعًا وَخُفْيَةًۚ إِنَّهُۥ لَا يُحِبُّ ٱلْمُعْتَدِينَ
ا پنے رب کو پکارو گڑگڑاتے ہوئے اور چپکے چپکے، یقیناً و ہ حد سے گزرنے والوں کو پسند نہیں کرتا
Surah 10 : Ayat 3
إِنَّ رَبَّكُمُ ٱللَّهُ ٱلَّذِى خَلَقَ ٱلسَّمَـٰوَٲتِ وَٱلْأَرْضَ فِى سِتَّةِ أَيَّامٍ ثُمَّ ٱسْتَوَىٰ عَلَى ٱلْعَرْشِۖ يُدَبِّرُ ٱلْأَمْرَۖ مَا مِن شَفِيعٍ إِلَّا مِنۢ بَعْدِ إِذْنِهِۦۚ ذَٲلِكُمُ ٱللَّهُ رَبُّكُمْ فَٱعْبُدُوهُۚ أَفَلَا تَذَكَّرُونَ
حقیقت یہ ہے کہ تمہارا رب وہی خدا ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو چھ دنوں میں پیدا کیا، پھر تخت حکومت پر جلوہ گر ہوا اور کائنات کا انتظام چلا رہا ہے1 کوئی شفاعت (سفارش) کرنے والا نہیں اِلّا یہ کہ اس کی اجازت کے بعد شفاعت کرے2 یہی اللہ تمہارا رب ہے لہٰذا تم اُسی کی عبادت کرو3 پھر کیا تم ہوش میں نہ آؤ گے؟4
4 | یعنی جب یہ حقیقت تمہارے سامنے کھول دی گئی ہے اور تم کو صاف صاف بتا دیا گیا ہے کہ اس حقیقت کی موجودگی میں تمہارے لیے صحیح طرزِعمل کیا ہے تو کیا اب بھی تمہاری آنکھیں نہ کھلیں گی اور اُنہی غلط فہمیوں میں پڑے رہو گے جن کی بنا پر تمہاری زندگی کا پورا رویہ اب تک حقیقت کے خلاف رہا ہے؟ |
3 | اوپر کےتین فقروں میں حقیقتِ نفس الامری کا بیان تھا کہ فی الواقع خدا ہی تمہارا رب ہے۔ اب یہ بتایا جا رہا ہے کہ اِس امر واقعی کی موجودگی میں تمہارا طرزِعمل کیا ہونا چاہیے۔ جب واقعہ یہ ہے کہ ربوبیت بالکلیہ خدا کی ہے تو اس کا لازمی تقاضا یہ ہے کہ تم صرف اُسی کی عبادت کرو۔ پھر جس طرح ربوبیت کا لفظ تین مفہومات پر مشتمل ہے، یعنی پروردگاری، مالی و آقائی، اور فرماں روائی، اسی طرح اس کے بالمقابل عبادت کا لفظ بھی تین مفہومات پر مشتمل ہے۔ یعنی پرستش، غلامی اور اطاعت۔ خدا کے واحد پروردگار ہونے سے لازم آتا ہے کہ انسان اسی کا شکر گزار ہو، اسی سے دعائیں مانگے اور اسی کے آگے محبت و عقیدت سے سر جھکائے۔ یہ عبادت کا پہلا مفہوم ہے۔ خدا کے واحد مالک و آقا ہونے سے لازم آتا ہے کہ انسان اس کا بندہ و غلام بن کر رہے اور اُس کے مقابلہ میں خود مختارانہ رویّہ نہ اختیار کرے اوراس کے سوا کسی اور کی ذہنی یا عملی غلامی قبول نہ کرے۔ یہ عبادت کا دوسرا مفہوم ہے۔ خدا کے واحد مالک و آقا ہونے سے لازم آتا ہے کہ انسان اس کے حکم کی اطاعت اور اس کے قانون کی پیروی کرے نہ خود اپناحکمران بنے اور نہ اس کے سوا کسی دوسرے کی حاکمیت تسلیم کرے۔ یہ عبادت کا تیسرا مفہوم ہے۔ |
2 | یعنی دنیا کی تدبیر وانتظام میں کسی دوسرے کا دخیل ہونا تو درکنار کوئی اتنا اختیار بھی نہیں رکھتا کہ خدا سے سفارش کر کے اس کا کوئی فیصلہ بدلوا دے یا کسی کی قسمت بنوا دے یا بگڑوا دے۔ زیادہ سے زیادہ کوئی جو کچھ کر سکتا ہے وہ بس اتنا ہے کہ خدا سے دعا کرے، مگراس کی دعا کا قبول ہونا یا نہ ہونا بالکل خدا کی مرضی پر منحصر ہے۔ خدا کی خدائی میں اتنا زوردار کوئی نہیں ہے کہ اس کی بات چل کر رہے اور اس کی سفارش ٹل نہ سکے اور وہ عرش کا پایہ پکڑ کر بیٹھ جائے اور اپنی بات منوا کر ہی رہے۔ |
1 | یعنی پیدا کرکے وہ معطل نہیں ہو گیا بلکہ اپنی پیدا کی ہوئی کائنات کے تخت سلطنت پر وہ خود جلوہ فرما ہوا اور اب سارے جہان کا انتظام عملًا اُسی کے ہاتھ میں ہے۔ نادان لوگ سمجھتے ہیں خدا نے کائنات کو پیدا کر کے یونہی چھوڑ دیا ہے کہ خود جس طرح چاہے چلتی رہے، یا دوسروں کے حوالے کر دیا ہے کہ وہ اس میں جیسا چاہیں تصرف کریں۔ قرآن اس کے برعکس یہ حقیقت پیش کرتا ہے کہ اللہ تعالٰی اپنی تخلیق کی اس پوری کار گاہ پرآپ ہی حکمرانی کر رہا ہے، تمام اختیارات اس کے اپنے ہاتھ میں ہیں، ساری زمامِ اقتدار پر وہ خود قابض ہے، کائنات کے گوشے گوشے میں ہر وقت ہر آن جو کچھ ہو رہا ہے براہِ راست اس کے حکم یا اذن سے ہو رہا ہے، اِس جہانِ ہستی کے ساتھ اس کا تعلق صرف اتنا ہی نہیں ہے کہ وہ کبھی اسے وجود میں لایا تھا، بلکہ ہمہ وقت وہی اس کا مدبر و منتظم ہے، اسی کے قائم رکھنے سے یہ قائم ہے اور اسی کے چلانے سے یہ چل رہا ہے۔ (ملاحظہ ہو سورۂ اعراف، حاشیہ نمبر۴۰، ۴۱) |
Surah 11 : Ayat 123
وَلِلَّهِ غَيْبُ ٱلسَّمَـٰوَٲتِ وَٱلْأَرْضِ وَإِلَيْهِ يُرْجَعُ ٱلْأَمْرُ كُلُّهُۥ فَٱعْبُدْهُ وَتَوَكَّلْ عَلَيْهِۚ وَمَا رَبُّكَ بِغَـٰفِلٍ عَمَّا تَعْمَلُونَ
آسمانوں اور زمین میں جو کچھ چھپا ہوا ہے سب اللہ کے قبضہ قدرت میں ہے اور سارا معاملہ اسی کی طرف رجوع کیا جاتا ہے پس اے نبیؐ، تو اس کی بندگی کر اور اسی پر بھروسا رکھ، جو کچھ تم لوگ کر رہے ہو تیرا رب اس سے بے خبر نہیں ہے1
1 | یعنی کفرواسلام کی اس کشمکش کے دونوں فریق جوکچھ کررہے ہیں وہ سب اللہ کی نگاہ میں ہے۔ اللہ کی سلطنت کوئی اندھیری جوپٹ راجہ کی مصداق نہیں ہےکہ اس میں خواہ کچھ ہی ہوتا رہے شہ بےخبر کواس سے کچھ سروکارنہ ہو۔ یہاں حکمت اوربردباری کہ بناپردیر توضرور ہے مگر اندھیرنہیں ہے۔ جولوگ اصلاح کی کوشش کررہے ہیں کہ ان کی محنتیں ضائع نہ ہونگی۔ جنہوں نے اپنا سارازور اس کوشش میںلگا رکھا ہے کہ اصلاح کایہ کام کسی طرح چل نہ سکے، انہیں بھی خبردار رہنا چاہیے کہ ان کے یہ سارے کرتوت اللہ کےعلم میں ہیں اوران کی پاداش انہیں ضرور بھگتنی پڑے گی۔ |
Surah 15 : Ayat 99
وَٱعْبُدْ رَبَّكَ حَتَّىٰ يَأْتِيَكَ ٱلْيَقِينُ
اور اُس آخری گھڑی تک اپنے رب کی بندگی کرتے رہو جس کا آنا یقینی ہے1
1 | یعنی تبلیغ ِ حق اور دعوتِ اصلاح کی کوششوں میں جن تکلیفوں اور مصیبتوں سے تم کو سابقہ پیش آتا ہے، ان کے مقابلے کی طاقت اگر تمہیں مل سکتی ہے تو صرف نماز اور بندگی رب پر استقامت سے مل سکتی ہے ۔ یہی چیز تمہیں تسلّی بھی دے گی ، تم میں صبر بھی پیدا کرے گی، تمہارا حوصلہ بھی بڑھائے گی ، اور تم کو اس قابل بھی بناد ے گی کہ دنیا بھر کی گالیوں اور مذمتوں اور مزاحمتوں کے مقابلے میں اُس خدمت پر ڈٹے رہو جس کی انجا م دہی میں تمہارے رب کی رضا ہے |
Surah 16 : Ayat 36
وَلَقَدْ بَعَثْنَا فِى كُلِّ أُمَّةٍ رَّسُولاً أَنِ ٱعْبُدُواْ ٱللَّهَ وَٱجْتَنِبُواْ ٱلطَّـٰغُوتَۖ فَمِنْهُم مَّنْ هَدَى ٱللَّهُ وَمِنْهُم مَّنْ حَقَّتْ عَلَيْهِ ٱلضَّلَـٰلَةُۚ فَسِيرُواْ فِى ٱلْأَرْضِ فَٱنظُرُواْ كَيْفَ كَانَ عَـٰقِبَةُ ٱلْمُكَذِّبِينَ
ہم نے ہر امت میں ایک رسول بھیج دیا، اور اُس کے ذریعہ سے سب کو خبردار کر دیا کہ 1"اللہ کی بندگی کرو اور طاغوت کی بندگی سے بچو" اس کے بعد ان میں سے کسی کو اللہ نے ہدایت بخشی اور کسی پر ضلالت مسلط ہو گئی 2پھر ذرا زمین میں چل پھر کر دیکھ لو کہ جھٹلانے والوں کا کیا انجام ہو چکا ہے3
3 | یعنی تجربے سے بڑھ کر تخلیق کے لیے قابل اعتماد کسوٹی اور کوئی نہیں ہے۔ اب تم خود دیکھ لو کہ تاریخ انسانی کے پے درپے تجربات کیا ثابت کر رہے ہیں۔ عذابِ الہٰی فرعون و آلِ فرعون پر آیا یا موسیٰؑ اور بنی اسرائیل پر؟ صالحؑ کے جھٹلانے والوں پر آیا یا ماننے والوں پر؟ ہودؑ اور نوحؑ اور دوسرے انبیاء کے منکرین پر آیا یا مومنین پر؟ کیا واقعی اِن تاریخی تجربات سے یہی نتیجہ نکلتا ہے کہ جن لوگوں کو ہماری مشیت نے شرک اور شریعت سازی کے ارتکاب کا موقع دیا تھا اُن کو ہماری رضا حاصل تھی؟ اس کے برعکس یہ واقعات تو صریحًا یہ ثابت کررہے ہیں کہ فہمائش اور نصیحت کے باوجود جو لوگ اِن گمراہیوں پر اصرار کرتے ہیں انہیں ہماری مشیت ایک حد تک ارتکاب ِجرائم کا موقع دیتی چلی جاتی ہے اور پھران کا سفینہ خوب بھر جانے کے بعد ڈبو دیا جاتاہے۔ |
2 | یعنی ہر پیغمبر کی آمد کے بعد اُس کی قوم دو حصّوں میں تقسیم ہوئی۔ بعض نے اس کی بات مانی (اور یہ مان لینا اللہ کی توفیق سے تھا) اور بعض اپنی گمراہی پر جمے رہے۔ (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو سورۂ انعام حاشیہ نمبر ۲۸) |
1 | یعنی تم اپنے شرک اور اپنی خود مختارانہ تحلیل و تحریم کے حق میں ہماری مشیت کو کیسے سند جواز بنا سکتے ہو، جبکہ ہم نے ہرامت میں اپنے رسول بھیجے اوران کے ذریعہ سے لوگوں کو صاف صاف بتا دیا کہ تمہارا کام صرف ہماری بندگی کرنا ہے، طاغوت کی بندگی کے لیے تم پیدا نہیں کیے گئے ہو۔ اس طرح جبکہ ہم پہلے ہی معقول ذرائع سے تم کو بتا چکے ہیں کہ تمہاری ان گمراہیوں کو ہماری رضا حاصل نہیں ہے تو اس کے بعد ہماری مشیت کی آڑ لے کر تمہارا اپنی گمراہیوں کو جائز ٹھیرانا صاف طور پر یہ معنی رکھتا ہے کہ تم چاہتے تھے کہ ہم سمجھانے والے رسول بھیجنے کے بجائے ایسے رسول بھیجتے جو ہاتھ پکڑ کر تم کو غلط راستوں سے کھینچ لیتے اور زبردستی تمہیں راست رو بناتے۔ (مشیت اور رضا کے فرق کو سمجھنے کے لیے ملاحظہ ہو سورۂ انعام حاشیہ نمبر ۸۰۔ سورۂ زمر حاشیہ نمبر ۲۰) |
Surah 17 : Ayat 23
۞ وَقَضَىٰ رَبُّكَ أَلَّا تَعْبُدُوٓاْ إِلَّآ إِيَّاهُ وَبِٱلْوَٲلِدَيْنِ إِحْسَـٰنًاۚ إِمَّا يَبْلُغَنَّ عِندَكَ ٱلْكِبَرَ أَحَدُهُمَآ أَوْ كِلَاهُمَا فَلَا تَقُل لَّهُمَآ أُفٍّ وَلَا تَنْهَرْهُمَا وَقُل لَّهُمَا قَوْلاً كَرِيمًا
تیرے رب نے فیصلہ کر دیا ہے1 کہ: تم لوگ کسی کی عبادت نہ کرو، مگر صرف اُس کی 2والدین کے ساتھ نیک سلوک کرو اگر تمہارے پاس اُن میں سے کوئی ایک، یا دونوں، بوڑھے ہو کر رہیں تو انہیں اف تک نہ کہو، نہ انہیں جھڑک کر جواب دو، بلکہ ان سے احترام کے ساتھ بات کرو
2 | اس کا مطلب صرف اتنا ہی نہیں ہے کہ اللہ کے سوا کسی کی پرستش اور پوجا نہ کرو، بلکہ یہ بھی ہے کہ بندگی اور غلامی اور بے چون و چرا اطاعت بھی صرف اسی کی کرو، اسی کے حکم کو حکم اور اسی کے قانون کو قانون مانو اور اس کے سوا کسی کا اقتدار اعلیٰ تسلیم نہ کرو۔ یہ صرف ایک مذہبی عقیدہ، اور صرف انفرادی طرز عمل کے لیے ایک ہدایت ہی نہیں ہے بلکہ اُس پورے نظام اخلاق و تمدن و سیاست کا سنگِ بنیاد بھی ہے جو مدینہ طیبہ پہنچ کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عملاً قائم کیا۔ اس کی عمارت اسی نظریے پر اٹھائی گئی تھی کہ اللہ جل شانہ ہی ملک کا مالک اور بادشاہ ہے، اور اسی کی شریعت ملک کا قانون ہے۔ |
1 | یہاں وہ بڑے بڑے بنیادی اصول پیش کیے جا رہے ہیں جن پر اسلام پوری انسانی زندگی کے نظام کی عمارت قائم کرنا چاہتا ہے۔ یہ گویا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت کا منشور ہے جسے مکی دور کے خاتمے اور آنے والے مدنی دور کے نقطہ آغاز پر پیش کیا گیا، تاکہ دنیا بھر کو معلوم ہو جائے کہ اس نئے اسلامی معاشرے اور ریاست کی بنیاد کن فکری، اخلاقی، تمدنی، معاشی اور قانونی اصولوں پر رکھی جائے گی۔ اس موقع پر سورہ انعام کے رکوع ١۹ اور اس کے حواشی پر بھی ایک نگاہ ڈال لینا مفید ہوگا۔ |
Surah 3 : Ayat 51
إِنَّ ٱللَّهَ رَبِّى وَرَبُّكُمْ فَٱعْبُدُوهُۗ هَـٰذَا صِرَٲطٌ مُّسْتَقِيمٌ
اللہ میرا رب بھی ہے او ر تمہارا رب بھی، لہٰذا تم اُسی کی بندگی اختیار کرو، یہی سیدھا راستہ ہے1"
1 | اس سے معلوم ہوا کہ تمام انبیا علیہم السّلام کی طرح حضرت عیسیٰ علیہ السّلام کی دعوت کے بھی بنیادی نکات یہی تین تھے: ایک یہ کہ اقتدار ِ اعلیٰ ، جس کے مقابلہ میں بندگی کا رویّہ اختیار کیا جاتا ہے اور جس کی اطاعت پر اخلاق و تمدّن کا پورا نظام قائم ہوتا ہے ، صرف اللہ کے لیے مختص تسلیم کیا جائے۔ دوسرے یہ کہ اُس مقتدرِ اعلیٰ کے نمائندے کی حیثیت سے نبی کے حکم کی اطاعت کی جائے۔ تیسرے کہ کہ انسانی زندگی کو حِلّت و حُرمت اور جواز و عدم جواز کی پابندیوں سے جکڑنے والا قانون و ضابطہ صرف اللہ کا ہو، دُوسروں کے عائد کردہ قوانین منسُوخ کر دیے جائیں۔ پس در حقیقت حضرت عیسی ٰ ؑ اور حضرت موسیٰ ؑ اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور دُوسرے انبیا کے مِشن میں یک سرِ مُو فرق نہیں ہے۔ جن لوگوں نے مختلف پیغمبروں کے مختلف مِشن قرار دیے ہیں اور ان کے درمیان مقصد و نوعیّت کے اعتبار سے فرق کیا ہے اُنہوں نے سخت غلطی کی ہے ۔ مالک الملک کی طرف سے اُس کی رعیت کی طرف جو شخص بھی مامور ہو کر آئے گا اس کے آنے کا مقصد اس کے سوا اور کچھ ہو سکتا ہی نہیں کہ وہ رعایا کو نافرمانی اور خود مختاری سے روکے، اور شرک سے (یعنی اس بات سے کہ وہ اقتدارِ اعلیٰ میں کسی حیثیت سے دُوسروں کو مالک الملک کے ساتھ شریک ٹھیرائیں اور اپنی وفاداریوں اور عبادت گزاریوں کو ان میں منقسم کریں) منع کرے، اور اصل مالک کی خالص بندگی و اطاعت اور پرستاری و وفاداری کی طرف دعوت دے۔ افسوس ہے کہ موجودہ اناجیل میں مسیح علیہ السّلام کے مِشن کو اس وضاحت کے ساتھ بیان نہیں کیا گیا جس طرح اُوپر قرآن میں پیش کیا گیا ہے ۔ تاہم منتشر طور پر اشارات کی شکل میں وہ تینوں بُنیادی نکات ہمیں ان کے اندر ملتے ہیں جو اُوپر بیان ہوئے ہیں۔ مثلاً یہ بات کہ مسیح صرف اللہ کی بندگی کے قائل تھے ان کے اِس ارشاد سے صاف ظاہر ہوتی ہے: ” تُو خداوند اپنے خدا کو سجدہ کر اور صرف اسی کی عبادت کر“(متی۴ : ١۰) اور صرف یہی نہیں کہ وہ اس کے قائل تھے بلکہ ان کی ساری کوششوں کا مقصُود یہ تھا کہ زمین پر خدا کے امرِ شرعی کی اُسی طرح اطاعت ہو جس طرح آسمان پر اس کے امرِ تکوینی کی اطاعت ہو رہی ہے: ”تیری بادشاہی آئے۔ تیری مرضی جیسی آسمان پر پوری ہوتی ہے زمین پر بھی ہو“ (متی ٦ :١۰ ) پھر یہ بات کہ مسیح علیہ السّلام اپنے آپ کو نبی اور آسمانی بادشاہت کے نمائندے کی حیثیت سے پیش کرتے تھے، اور اسی حیثیت سے لوگوں کو اپنی اطاعت کی طرف دعوت دیتے تھے، ان کے متعدّد اقوال سے معلوم ہوتی ہے ۔ انہوں نے جب اپنے وطن ناصرہ سے اپنی دعوت کا آغاز کیا تو ان کے اپنے ہی بھائی بند اور اہلِ شہر ان کی مخالفت کے لیے کھڑے ہوگئے۔ اس پر متی، مرقس اور لوقا تینوں کی متفقہ روایت ہے کہ انہوں نے فرمایا” نبی اپنے وطن میں مقبول نہیں ہوتا“۔ اور جب یروشلم میں ان کے قتل کی سازشیں ہونے لگیں اور لوگوں نے ان کو مشورہ دیا کہ آپ کہیں اور چلے جائیں تو انہوں نے جواب دیا ” ممکن نہیں کہ نبی یروشلم سے باہر ہلاک ہو“(لوقا ١۳:۲۳ )۔ آخری مرتبہ جب وہ یروشلم میں داخل ہو رہے تھے تو ان کے شاگردوں نے بلند آواز سے کہنا شروع کیا ”مبارک ہے وہ بادشاہ جو خدا وند کے نام سے آتا ہے“۔ اس پر یہودی علما ناراض ہوئے اور انہوں نے حضرت مسیح ؑ سے کہا کہ آپ اپنے شاگردوں کو چُپ کرائیں۔ اس پر آپ نے فرمایا”اگر یہ چُپ رہیں گے تو پتھر پکار اُٹھیں گے“(لوقا ١۹: ۳۸ ۔۴۰)ایک اور موقع پرآپ نے فرمایا: ”اے محنت اُٹھانے والو اور بوجھ سے دبے ہوئے لوگو، سب میرے پاس آ ؤ ، میں تم کو آرام دونگا۔ میرا جو ا اپنے اُوپر اُٹھالو ۔۔۔۔ میرا جوا ملائم ہے اور میرا بوجھ ہلکا“۔(متی ١١: ۲۸۔۳۰) پھر یہ بات کہ مسیح علیہ السّلام انسانی ساخت کے قوانین کے بجائے خدائی قانون کی اطاعت کرانا چاہتے تھے متی اور مرقس کی اُس روایت سے صاف طور پر مترشح ہوتی ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ یہودی علما نے اعتراض کیا کہ آپ کے شاگرد بزرگوں کی روایات کے خلاف ہاتھ دھوئے بغیر کھانا کیوں کھا لیتے ہیں؟ اس پر حضرت مسیح ؑ نے فرمایا تم ریاکاروں کی حالت وہی ہے جس پر یسعیاہ نبی کی زبان سے یہ طعنہ دیا گیا ہے کہ ”یہ اُمّت زبان سے تو میری تعظیم کرتی ہے مگر ان کے دل مُجھ سے دُور ہیں، کیونکہ یہ انسانی احکام کی تعلیم دیتے ہیں“۔ تم لوگ خدا کے حکم کو تو باطل کرتے ہو اور اپنے گھڑے ہوئے قوانین کو برقرار رکھتے ہو۔ خدا نے تورات میں حکم دیا تھا کہ ماں باپ کی عزّت کرو اور جوکوئی ماں باپ کو بُرا کہے وہ جان سے مارا جائے۔ مگر تم کہتے ہو کہ جو شخص اپنی ماں یا باپ سے یہ کہہ دے کہ میری جو خدمات تمہارے کام آسکتی تھیں اُنہیں میں خدا کی نذر کر چکا ہوں، اس کے لیے بالکل جائز ہے کہ پھر ماں باپ کی کوئی خدمت نہ کرے۔ (متِی١۵:۳۔۹ ۔ مرقس۷: ۵۔١۳) |