Ayats Found (14)
Surah 5 : Ayat 48
وَأَنزَلْنَآ إِلَيْكَ ٱلْكِتَـٰبَ بِٱلْحَقِّ مُصَدِّقًا لِّمَا بَيْنَ يَدَيْهِ مِنَ ٱلْكِتَـٰبِ وَمُهَيْمِنًا عَلَيْهِۖ فَٱحْكُم بَيْنَهُم بِمَآ أَنزَلَ ٱللَّهُۖ وَلَا تَتَّبِعْ أَهْوَآءَهُمْ عَمَّا جَآءَكَ مِنَ ٱلْحَقِّۚ لِكُلٍّ جَعَلْنَا مِنكُمْ شِرْعَةً وَمِنْهَاجًاۚ وَلَوْ شَآءَ ٱللَّهُ لَجَعَلَكُمْ أُمَّةً وَٲحِدَةً وَلَـٰكِن لِّيَبْلُوَكُمْ فِى مَآ ءَاتَـٰكُمْۖ فَٱسْتَبِقُواْ ٱلْخَيْرَٲتِۚ إِلَى ٱللَّهِ مَرْجِعُكُمْ جَمِيعًا فَيُنَبِّئُكُم بِمَا كُنتُمْ فِيهِ تَخْتَلِفُونَ
پھر اے محمدؐ! ہم نے تمہاری طرف یہ کتاب بھیجی جو حق لے کر آئی ہے اور الکتاب میں سے جو کچھ اس کے آگے موجود ہے اُس کی تصدیق کرنے والی1 اور اس کی محافظ و نگہبان ہے2 لہٰذا تم خدا کے نازل کردہ قانون کے مطابق لوگوں کے معاملات کا فیصلہ کرو اور جو حق تمہارے پاس آیا ہے اُس سے منہ موڑ کر ان کی خواہشات کی پیروی نہ3 کرو ہم نے تم میں سے ہر ایک کے لیے ایک شریعت اور ایک راہ عمل مقرر کی اگرچہ تمہارا خدا چاہتا تو تم سب کو ایک امت بھی بنا سکتا تھا، لیکن اُس نے یہ اِس لیے کیا کہ جو کچھ اُس نے تم لوگوں کو دیا ہے اس میں تمہاری آزمائش کرے لہٰذا بھلائیوں میں ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی کوشش کرو آخر کار تم سب کو خدا کی طرف پلٹ کر جانا ہے، پھر وہ تمہیں اصل حقیقت بتا دے گا جس میں تم اختلاف کرتے رہے ہو4
4 | یہ مذکورہ بالا سوال کا پُورا جواب ہے۔ اس جواب کی تفصیل یہ ہے: (۱) محض اختلاف شرائع کو اس بات کی دلیل قرار دینا غلط ہے کہ یہ شریعتیں مختلف مآخذ سے ماخوذ اور مختلف سر چشموں سے نکلی ہوئی ہے۔ دراصل وہ اللہ تعالیٰ ہی ہے جس نے مختلف قوموں کے لیے مختلف زمانوں اور مختلف حالات میں مختلف ضابطے مقرر فرمائے۔ (۲) بلاشبہ یہ ممکن تھا کہ شروع ہی سے تمام انسانوں کے لیے ایک ضابطہ مقرر کر کے سب کو ایک اُمّت بنا دیا جاتا۔ لیکن وہ فرق جو اللہ تعالیٰ نے مختلف انبیاء کی شریعتوں کے درمیان رکھا اُس کے اندر دُوسری بہت سی مصلحتوں کے ساتھ ایک بڑی مصلحت یہ بھی تھی کہ اللہ تعالیٰ اس طریقہ سے لوگوں کی آزمائش کرنا چاہتا تھا ۔ جو لوگ اصل دین اور اس کی رُوح اور حقیقت کو سمجھتے ہیں، اور دین میں اِن ضوابط کی حقیقی حیثیت کو جانتے ہیں، اور کسی تعصّب میں مُبتلا نہیں ہیں وہ حق کو جس صُورت میں بھی وہ آئے گا پہچان لیں گے اور قبول کر لیں گے۔ اُن کو اللہ کے بھیجے ہوئے سابق احکام کی جگہ بعد کے احکام تسلیم کرنے میں کوئی تامّل نہ ہو گا۔بخلاف اس کے جو لوگ روح دین سے بیگانہ ہیں اور ضوابط اور ان کی تفصیلات ہی کو اصل دین سمجھ بیٹھے ہیں،اور جنہوں نے خدا کی طرف سے آئی ہوئی چیزوں پر خود اپنے حاشیےچڑھا کر ان پر جمود اور تعصب اختیا کر لیا ہے وہ ہر اُس ہدایت کو رد کرتے چلے جائیں گے جو بعد میں خدا کی طرف سے آئے ان دونوں قسم کے آدمیوں کو ممیز کرنے کے لیے یہ آزمائش ضروری تھی، اس لیے اللہ تعالٰی نے شرائع میں اختلاف رکھا۔
(۳)تمام شرائع سے اصل مقصود نیکیوں اور بھلائیوں کو پانا ہے اور وہ اسی طرح حاصل ہو سکتی ہیں کہ جس وقت جو حکم خدا ہو اس کی پیروی کی جائے۔لہذا جو لوگ اصل مقصد پر نگاہ رکھتے ہیں ان کے لیے شرائع کے اختلافات اور مناہج کے فروق پر جھگڑا کرنے کے بجائے صیح طرز عمل یہ ہے کہ مقصد کی طرف اس راہ سے پیش قدمی کریں جس کو اللہ تعالٰی کی منظوری حاصل ہو۔(۴)جواختلافات انسانوں نے اپنے جمود تعصب،ہٹ دھرمی اور ذہن کی اُپچ سے خود پیدا کر لیے ہیں اُن کا آخری فیصلہ نہ مجلس مناظرہ میں ہو سکتا ہے نہ میدان جنگ میں۔آخری فیصلہ اللہ تعالٰی خود کرے گا جبکہ حقیقت بے نقاب کر دی جائے گی اور لوگوں پر منکشف ہو جائے گا کہ جن جھگڑوں میں وہ عمریں کھپا کر دنیا سے آئے ہیں اُن کی تہ میں’’حق‘‘ کا جو ہر کتنا تھا اور باطل کے حاشیے کس قدر |
3 | یہ ایک جملہ ء معترضہ ہے جس سے مقصُود ایک سوال کی توضیح کرنا ہے جو اُوپر کے سلسلہ ء تقریر کو سُنے ہوئے مخاطب کے ذہن میں اُلجھن پیدا کر سکتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ جب تمام انبیاء اور تمام کتابوں کا دین ایک ہے ، اور یہ سب ایک دُوسرے کی تصدیق و تائید کرتے ہوئے آئے ہیں تو شریعت کی تفصیلات میں ان کے درمیان فرق کیوں ہے؟ کیا بات ہے کہ عبادت کی صُورتوں میں ، حرام و حلال کی قیُود میں اور قوانین ِ تمدّن و معاشرت کے فروع میں مختلف انبیاء اور کُتبِ آسمانی کی شریعتوں کے درمیان تھوڑا بہت اختلاف پایا جاتا ہے |
2 | اصل میں لفظ”مُھَیْمِنْ“ استعمال ہوا ہے۔ عربی میں ھیمن یھمن ھیمنۃ کے معنی محافظت، نگرانی ، شہادت، امانت ، تائد اور حمایت کے ہیں۔ ھیمن الرجل الشئ، یعنی آدمی نے فلاں چیز کی حفاظت و نگہبانی کی۔ ھیمن الطائر علیٰ فراخہ۱، یعنی پرندے نے اپنے چُوزے کو اپنے پروں میں لے کر محفوض کر لیا۔ حضرت عمر ؓ نے ایک مرتبہ لوگوں سے کہا انی داعٍ فھیمنوا یعنی میں دُعا کر تا ہوں تم تائید میں آمین کہو۔ اسی سے لفظ ھمیَان ہے جسے اُردو میں ہمیانی کہتے ہیں، یعنی وہ تھیلی جس میں آدمی اپنا مال رکھ کر محفوظ کرتا ہے۔ پس قرآن کو ”الکتاب“ پر مھیمن کہنے کا مطلب یہ ہے کہ اس نے ان تمام بر حق تعلیمات کو جو پچھلی کُتبِ آسمانی میں دی گئی تھیں، اپنے اندر لے کر محفوظ کر لیا ہے۔ وہ اِن پر نگہبان ہے اس معنی میں کہ اب ان کی تعلیمات بر حق کا کوئی حصہ ضائع نہ ہونے پائے گا۔ وہ ان کا مؤیّد ہے اس معنی میں کہ ان کتابوں کے اندر خدا کا کلام جس حد تک موجود ہے قرآن سے اس کی تصدیق ہوتی ہے۔ وہ ان پر گواہ ہے اس معنی میں کہ ان کتابوں کےاندر خدا کے کلام اور لوگوں کے کلام کی جو آمیزش ہو گئی ہے قرآن کی شہادت سے اس کو پھر چھانٹا جا سکتا ہے، جو کچھ ان میں قرآن کے مطابق ہے وہ خدا کا کلام ہے اور جو قرآن کے خلاف ہے وہ لوگوں کا کلام ہے |
1 | یہاں ایک اہم حقیقت کی طرف اشارہ فرمایا گیا ہے۔ اگرچہ اس مضمون کو یوں بھی ادا کیا جا سکتا تھا کہ ”پچھلی کتابوں“ میں سے جو کچھ اپنی اصلی اور صحیح صورت پر باقی ہے، قرآن اس کی تصدیق کرتا ہے، لیکن اللہ تعالیٰ نے ”پچھلی کتابوں“ کے بجائے”الکتاب“ کا لفظ استعمال فرمایا۔ اس سے یہ راز منکشف ہوتا ہے کہ قرآن اور تمام وہ کتابیں جو مختلف زمانوں اور مختلف زبانوں میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل ہوئیں، سب فی الاصل ایک ہی کتاب ہیں۔ ایک ہی ان کا مصنّف ہے ، ایک ہی ان کا مدّعا اور مقصد ہے ، ایک ہی ان کی تعلیم ہے ، اور ایک ہی علم ہے جو ان کے ذریعہ سے نوع انسانی کو عطا کیا گیا۔ فرق اگر ہے تو عبارات کا ہے جو ایک ہی مقصد کے لیے مختلف مخاطبوں کے لحاظ سے مختلف طریقوں سے اختیار کی گئیں۔ پس حقیقت صرف اتنی ہی نہیں ہے کہ یہ کتابیں ایک دوسرے کی مخالف نہیں، مؤ یّد ہیں، تردید کرنے والی نہیں، تصدیق کرنے والی ہیں۔ بلکہ اصل حقیقت اس سے کچھ بڑھ کر ہے اور وہ یہ ہے کہ یہ سب ایک ہی ”الکتاب“ کے مختلف ایڈیشن ہیں |
Surah 5 : Ayat 49
وَأَنِ ٱحْكُم بَيْنَهُم بِمَآ أَنزَلَ ٱللَّهُ وَلَا تَتَّبِعْ أَهْوَآءَهُمْ وَٱحْذَرْهُمْ أَن يَفْتِنُوكَ عَنۢ بَعْضِ مَآ أَنزَلَ ٱللَّهُ إِلَيْكَۖ فَإِن تَوَلَّوْاْ فَٱعْلَمْ أَنَّمَا يُرِيدُ ٱللَّهُ أَن يُصِيبَهُم بِبَعْضِ ذُنُوبِهِمْۗ وَإِنَّ كَثِيرًا مِّنَ ٱلنَّاسِ لَفَـٰسِقُونَ
پس اے محمدؐ! تم اللہ کے نازل کردہ قانون کے مطابق اِن لوگوں کے معاملات کا فیصلہ کرو اور ان کی خواہشات کی پیروی نہ کرو ہوشیار رہو کہ یہ لوگ تم کو فتنہ میں ڈال کر اُس ہدایت سے ذرہ برابر منحرف نہ کرنے پائیں جو خدا نے تمہاری طرف نازل کی ہے پھر اگر یہ اس سے منہ موڑیں تو جان لو کہ اللہ نے اِن کے بعض گناہوں کی پاداش میں ان کو مبتلائے مصیبت کرنے کا ارادہ ہی کر لیا ہے، اور یہ حقیقت ہے کہ اِن لوگوں میں سے اکثر فاسق ہیں
Surah 6 : Ayat 150
قُلْ هَلُمَّ شُهَدَآءَكُمُ ٱلَّذِينَ يَشْهَدُونَ أَنَّ ٱللَّهَ حَرَّمَ هَـٰذَاۖ فَإِن شَهِدُواْ فَلَا تَشْهَدْ مَعَهُمْۚ وَلَا تَتَّبِعْ أَهْوَآءَ ٱلَّذِينَ كَذَّبُواْ بِـَٔـايَـٰتِنَا وَٱلَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ بِٱلْأَخِرَةِ وَهُم بِرَبِّهِمْ يَعْدِلُونَ
ان سے کہو کہ 1"لاؤ اپنے وہ گواہ جو اس بات کی شہادت دیں کہ اللہ ہی نے اِن چیزوں کو حرام کیا ہے" پھر اگر وہ شہادت دے دیں تو تم ان کے ساتھ شہادت نہ دینا، اور ہرگز اُن لوگوں کی خواہشات کے پیچھے نہ چلنا جنہوں نے ہماری آیات کو جھٹلایا ہے، اور جو آخرت کے منکر ہیں، اور جو دوسروں کو اپنے رب کا ہمسر بناتے ہیں
1 | یعنی اگر وہ شہادت کی ذمہ داری کو سمجھتے ہیں اور جانتے ہیں کہ شہادت اُسی بات کی دینی چاہیے جس کا آدمی کو علم ہو ، تو وہ کبھی یہ شہادت دینے کی جرأت نہ کریں گے کہ کھانے پینے پر یہ قیُود ، جو ان کے ہاں رسم کے طور پر رائج ہیں ، اور یہ پابندیاں کہ فلاں چیز کو فلاں نہ کھائے اور فلاں چیز کو فلاں کا ہاتھ نہ لگے، یہ سب خدا کی مقرر کر دہ ہیں۔ لیکن اگر یہ لوگ شہادت کی ذمہ داری کو محسُوس کیے بغیر اتنی ڈھٹائی پر اُتر آئیں کہ خدا کا نام لے کر جھُوٹی شہادت دینے میں بھی تامّل نہ کریں، تو ان کے اس جھُوٹ میں تم ان کے ساتھی نہ بنو۔ کیونکہ اُن سے یہ شہادت اس لیے طلب نہیں کی جارہی ہے کہ اگر یہ شہادت دے دیں تو تم ان کی بات مان لوگے، بلکہ اس کی غرض صرف یہ ہے کہ ان میں سے جن لوگوں کے اندر کچھ بھی راست بازی موجود ہے ان سے جب کہا جائے گا کہ کیا واقعی تم سچائی کے ساتھ اس بات کی شہادت دے سکتے ہو کہ یہ ضوابط خدا ہی کے مقرر کیے ہوئے ہیں تو وہ اپنی رسموں کی حقیقت پر غور کریں گے، اور جب ان کے مِن جانب اللہ ہونے کا کوئی ثبوت نہ پائیں گے تو ان فضول رسموں کی پابندی سے باز آجائیں گے |
Surah 18 : Ayat 28
وَٱصْبِرْ نَفْسَكَ مَعَ ٱلَّذِينَ يَدْعُونَ رَبَّهُم بِٱلْغَدَوٲةِ وَٱلْعَشِىِّ يُرِيدُونَ وَجْهَهُۥۖ وَلَا تَعْدُ عَيْنَاكَ عَنْهُمْ تُرِيدُ زِينَةَ ٱلْحَيَوٲةِ ٱلدُّنْيَاۖ وَلَا تُطِعْ مَنْ أَغْفَلْنَا قَلْبَهُۥ عَن ذِكْرِنَا وَٱتَّبَعَ هَوَٮٰهُ وَكَانَ أَمْرُهُۥ فُرُطًا
اور اپنے دل کو اُن لوگوں کی معیت پر مطمئن کرو جو اپنے رب کی رضا کے طلب گار بن کر صبح و شام اُسے پکارتے ہیں، اور اُن سے ہرگز نگاہ نہ پھیرو کیا تم دنیا کی زینت پسند کرتے ہو؟1 کسی ایسے شخص کی اطاعت نہ کرو2 جس کے دل کو ہم نے اپنی یاد سے غافل کر دیا ہے اور جس نے اپنی خواہش نفس کی پیروی اختیار کر لی ہے اور جس کا طریق کار افراط و تفریط پر مبنی ہے3
3 | کَانَ امْرُہٗ فُرُطاً کا ایک مطلب تو وہ ہے جو ہم نے ترجمے میں اختیار کیا ہے۔ اور دوسرا مطلب یہ ہے کہ ’’جو حق کو پیچھے چھوڑ کر اور اخلاقی حدود کو توڑ کر بَگ ٹُٹ چلنے والا ہے۔‘‘ دونوں صورتوں میں حاصل ایک ہی ہے۔ جو شخص خدا کو بھول کر اپنے نفس کا بندہ بن جاتا ہے اس کے ہر کام میں بے اعتدالی پیدا ہو جاتی ہے اور وہ حدود نا آشنا ہو کر رہ جاتا ہے۔ ایسے آدمی کی اطاعت کرنے کے معنی یہ ہیں کہ اطاعت کرنے والا خود بھی حدود نا آشنا ہو جائے اور جس جس وادی میں مُطاع بھٹکے اسی میں مُطیع بھی بھٹکتا چلا جائے۔ |
2 | یعنی اس کی بات نہ مانو، اس کے آگے نہ جھکو، اس کا منشا پورا نہ کرو اور اس کے کہے پر نہ چلو۔ یہاں ’’اطاعت‘‘ کا لفظ اپنے وسیع مفہوم میں استعمال ہوا ہے۔ |
1 | ابن عباس کی روایت کے مطابق، قریش کے سردار نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے کہتے تھے کہ یہ بلالؓ اور صہیبؓ اور عَمَّارؓ اور خَبّابؓ اور ابن مسعودؓ جیسے غریب لوگ، جو تمہاری صحبت میں بیٹھا کرتے ہیں، ان کے ساتھ ہم نہیں بیٹھ سکتے۔ انہیں ہٹاؤ تو ہم تمہاری مجلس میں آ سکتے ہیں اور معلوم کر سکتے ہیں کہ تم کیا کہنا چاہتے ہو۔ اس پر اللہ تعالٰی نے نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے فرمایا کہ جو لوگ رضائے الٰہی کی خاطر تمہارے گرد جمع ہوئے ہیں اور شب و روز اپنے رب کو یاد کرتے ہیں، ان کی معیت پر اپنے دل کو مطمئن کرو اور ان سے ہرگز نگاہ نہ پھیرو۔ کیا تم ان مخلص لوگوں کو چھوڑ کر یہ چاہتے ہو کہ دنیوی ٹھاٹھ باٹھ رکھنے والے لوگ تمہارے پاس بیٹھیں؟ اس فقرے میں بھی بظاہر خطاب نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے ہے، مگر سنانا دراصل سرداران قریش کو مقصود ہے کہ تمہاری یہ دکھاوے کی شان و شوکت، جس پر تم پھول رہے ہو، اللہ اور اس کے رسول کی نگاہ میں کچھ قدر و قیمت نہیں رکھتی۔ تم سے وہ غریب لوگ زیادہ قیمتی ہیں جن کے دل میں اخلاص ہے اور جو اپنے رب کی یاد سے کبھی غافل نہیں رہتے۔ ٹھیک یہی معاملہ حضرت نوح اور ان کی قوم کے سرداروں کے درمیان بھی پیش آیا تھا۔ وہ حضرت نوحؑ سے کہتے تھے وَمَا نَرٰ کَ اتَّبَعَکَ اِ لَّا الَّذِیْنَ ھُمْ اَرَاذِلُنَا بَادِیَ الرَّأیِ۔ ’’ہم تو یہ دیکھتے ہیں کہ تم میں سے جو رذیل لوگ ہیں وہ بے سوچے سمجھے تمہارے پیچھے لگ گئے ہیں‘‘ اور حضرت نوحؑ کا جواب یہ تھا کہ مَآ اَنَا بِطَارِدِ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْ ا، ’’میں ایمان لانے والوں کو دھتکار نہیں سکتا‘‘، اور وَلَآ اَقُوْلُ لِلَّذِیْنَ تَزْ دَرِیٔٓ اَعْیُنُکُمْ لَنْ یُّؤْ تِیَہُمُ اللہُ خَیْراً، ’’ جن لوگوں کو تم حقارت کی نگاہ سے دیکھتے ہو، میں ان کے بارے میں یہ نہیں کہہ سکتا کہ اللہ نے انہیں کوئی بھلائی عطا نہیں کی ہے۔‘‘ (ہود آیات ۲۷۔۹۲۔۳۱۔ نیز سورہ اَنعام، آیت ۵۲۔ اور سورہ الحجر، آیت ۸۸) |
Surah 25 : Ayat 52
فَلَا تُطِعِ ٱلْكَـٰفِرِينَ وَجَـٰهِدْهُم بِهِۦ جِهَادًا كَبِيرًا
پس اے نبیؐ، کافروں کی بات ہرگز نہ مانو اور اس قرآن کو لے کر ان کے ساتھ جہاد کبیر1 کرو
1 | جہاد کبیر کے تین معنی ہیں ۔ ایک ، انتہائی کوشش جس میں آدمی سعی و جاں فشانی کا کوئی دقیقہ اٹھا نہ رکھے ۔ دوسرے ، بڑے پیمانے پر جد و جہد جس میں آدمی اپنے تمام ذرائع لاکر ڈال دے ۔ تیسرے ، جامع جدوجہد جس میں آدمی کوشش کا کوئی پہلو اور مقابلے کا کوئی محاذ نہ چھوڑے ، جس جس محاذ پر غنیم کی طاقتیں کام کر رہی ہوں اس پر اپنی طاقت بھی لگا دے ، اور جس جس پہلو سے بھی حق کی سر بلندی کے لیے کام کرنے کی ضرورت ہو کرے ۔ اس میں زبان و قلم کا جہاد بھی شامل ہے اور جان و مال کا بھی اور توپ و تفنگ کا بھی |
Surah 33 : Ayat 1
يَـٰٓأَيُّهَا ٱلنَّبِىُّ ٱتَّقِ ٱللَّهَ وَلَا تُطِعِ ٱلْكَـٰفِرِينَ وَٱلْمُنَـٰفِقِينَۗ إِنَّ ٱللَّهَ كَانَ عَلِيمًا حَكِيمًا
اے نبیؐ1! اللہ سے ڈرو اور کفار و منافقین کی اطاعت نہ کرو، حقیقت میں علیم اور حکیم تو اللہ ہی ہے2
2 | تقریر کا آغاز کرتے ہوئے پہلے ہی فقرے میں اللہ تعالٰی نے حضورؐ کے اِن اندیشوں کو رفع فرما دیا۔ ارشاد کا منشا یہ ہے کہ ہمارے دین کی مصلحت کس چیز میں ہے اور کس چیز میں نہیں ہے، اس کو ہم زیادہ جانتے ہیں۔ ہم کو معلوم ہے کہ کس وقت کیا کام کرنا چاہیے اور کونسا کام خلافِ مصلحت ہے۔ لہٰذا تم وہ طرز عمل اختیار نہ کرو جو کفار و منافقین کی مرضی کے مطابق ہو۔ ڈرنے کے لائق ہم ہیں نہ کہ کفار و منافقین۔ |
1 | جیسا کہ ہم اس سورہ کے دیپاچے میں بیان کرچکے ہیں‘یہ آیات اس وقت نازل ہوئی تھیں جب حضرت زیدؓ حضرت زینبؓ کو طلاق دے چکے تھے اُس وقت نبی صلی اللہ علیہ وسلم خود بھی یہ محسوس فرماتےتھے اوراللہ تعالٰی کا اشارہ بھی یہی تھا مُنہ بولے رشتوں کے معاملہ میں جاہلّیت کے رسوم واَوہام پرضرب لگانے کا یہ ٹھیک موقع ہے‘اب آپ کو خود آگے بڑھ کراپنے مُنہ بولے بیٹے (زیدؓ)کی مطّلقہ سے نکاح کرلینا چاہیے تاکہ یہ رسم قطعی طور پرٹوٹ جائے۔لیکن جس وجہ سے حضورؐ اس معاملہ میں قدم اُٹھاتے ہوئےجھجک رہے تھے وہ یہ خوف تھاکہ اس سے کفارو منافقین کو‘جو پہلے ہی آپؐ کی پے در پے کامیابیوں سے جلے بھیٹے تھے‘آپ کےخلاف پروپگینڈا کرنے کے لیے ایک زبردست ہتھیارمل جائے گا۔یہ خوف کچھ اپنی بدنامی کے اندیشے سے نہ تھا‘بلکہ اس بنا پرتھاکہ اس سے اسلام کوزک پہنچے گی‘دشمنوں کے پروپگینڈے سے متاثر ہوکربہت سے لوگ جواسلام کی طرف میلان رکھتے ہیںبدگمان ہوجائیں گے‘بہت سے جانبدارلوگ دشمنوں میں شامل ہوجائیں گے‘اورخود مسلمانوں میں سے کمزور عقل وذہن کے لوگ شکوک و شبات میں پڑجائیں گے اس لیے حضورؐ یہ خیال کرتے تھے کہ جاہلیّت کی ایک رسم کو توڑنے کی خاطرایسا قدم اُٹھانا خلاف مصلحت ہے جس سے اسلام کے عظیم ترمقاصد کو نقصان پہنچ جائے۔ |
Surah 33 : Ayat 48
وَلَا تُطِعِ ٱلْكَـٰفِرِينَ وَٱلْمُنَـٰفِقِينَ وَدَعْ أَذَٮٰهُمْ وَتَوَكَّلْ عَلَى ٱللَّهِۚ وَكَفَىٰ بِٱللَّهِ وَكِيلاً
اور ہرگز نہ دبو کفار و منافقین سے، کوئی پرواہ نہ کرو ان کی اذیت رسانی کی اور بھروسہ کر لو اللہ پر، اللہ ہی اس کے لیے کافی ہے کہ آدمی اپنے معاملات اُس کے سپرد کر دے
Surah 42 : Ayat 15
فَلِذَٲلِكَ فَٱدْعُۖ وَٱسْتَقِمْ كَمَآ أُمِرْتَۖ وَلَا تَتَّبِعْ أَهْوَآءَهُمْۖ وَقُلْ ءَامَنتُ بِمَآ أَنزَلَ ٱللَّهُ مِن كِتَـٰبٍۖ وَأُمِرْتُ لِأَعْدِلَ بَيْنَكُمُۖ ٱللَّهُ رَبُّنَا وَرَبُّكُمْۖ لَنَآ أَعْمَـٰلُنَا وَلَكُمْ أَعْمَـٰلُكُمْۖ لَا حُجَّةَ بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمُۖ ٱللَّهُ يَجْمَعُ بَيْنَنَاۖ وَإِلَيْهِ ٱلْمَصِيرُ
چونکہ یہ حالت پیدا ہو چکی ہے اس لیے اے محمدؐ، اب تم اُسی دین کی طرف دعوت دو، اور جس طرح تمہیں حکم دیا گیا ہے اُس پر مضبوطی کے ساتھ قائم ہو جاؤ، اور اِن لوگو ں کی خواہشات کا اتباع نہ کرو1، اور اِن سے کہہ دو کہ: 2"اللہ نے جو کتاب بھی نازل کی ہے میں اُس پر ایمان لایا مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں تمہارے درمیان انصاف کروں3 اللہ ہی ہمارا رب بھی ہے اور تمہارا رب بھی ہمارے اعمال ہمارے لیے ہیں اور تمہارے اعمال تمہارے لیے4 ہمارے اور تمہارے درمیان کوئی جھگڑا نہیں5 اللہ ایک روز ہم سب کو جمع کرے گا اور اُسی کی طرف سب کو جانا ہے"
5 | یعنی معقول دلائل سے بات سمجھانے کا جو حق تھا وہ ہم نے ادا کر دیا اب خواہ مخواہ تو تو میں میں کرنے سے کیا حاصل۔ تم اگر جھگڑا کرو بھی تو ہم تم سے جھگڑنے کے لیے تیار نہیں ہیں |
4 | یعنی ہم میں سے ہر ایک اپنے اپنے عمل کا خود ذمہ دار و جوابدہ ہے۔ تم اگر نیکی کرو گے تو اس کا پھل ہمیں نہیں پہنچ جاۓ گا، بلکہ تم ہی اس سے متمتّع ہو گے۔ اور ہم اگر برائی کریں گے تو اس کی پاداش میں تم نہیں پکڑے جاؤ گے ، بلکہ ہمیں خود ہی اس کا خمیازہ بھگتنا پڑے گا۔ یہی بات سورہ بقرہ ، آیت 139، سورہ یونس، آیت 41 ، سورہ ہود، آیت 35، اور سورہ قصص ، آیت 55 میں اس سے پہلے ارشاد ہو چکی ہے (ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد اول ، ص 117، جلد دوم یونس حاشیہ ۴۹ ہود حاشیہ ۱۳۹ القصص حاشیہ ۷۷ |
3 | اس جامع فقرے کے کئی مطلب ہیں : ایک مطلب یہ ہے کہ میں ان ساری گروہ بندیوں سے الگ رہ کر بے لاگ انصاف پسندی اختیار کرنے پر مامور ہوں۔ میرا کام یہ نہیں ہے کہ کسی گروہ کے حق میں اور کسی کے خلاف تعصب بروں۔ میرا سب انسانوں سے یکساں تعلق ہے ، اور وہ ہے سراسر عدل و انصاف کا تعلق۔ جس کی جو بات حق ہے میں اس کا ساتھی ہوں ، خواہ وہ غیروں کا غیر ہی کیوں نہ ہو۔ اور جس کی جو بات حق کے خلاف ہے میں اس کا مخالف ہوں ، خواہ وہ میرا قریب ترین رشتہ دار ہی کیوں نہ ہو۔ دوسرا مطلب یہ ہے کہ میں جس حق کو تمہارے سامنے پیش کرنے پر مامور ہوں اس میں کسی کے لیے بھی کوئی امتیاز نہیں ہے ، بلکہ وہ سب کے لیے یکساں ہے۔ اس میں اپنے اور غیر ، بڑے اور چھوٹے ، غریب اور امیر ، شریف اور کمین کے لیے الگ الگ حقوق نہیں ہیں ، بلکہ جو کچھ ہے وہ سب کے لیے حق ہے ، جو گناہ ہے وہ سب کے لیے گناہ ہے ، جو حرام ہے وہ سب کے لیے حرام ہے ، اور جو جرم ہے وہ سب کے لیے جرم ہے۔ اس بے لاگ ضابطے میں میری اپنی ذات کے لیے بھی کوئی استثناء نہیں۔ تیسرا مطلب یہ ہے کہ میں دنیا میں عدل قائم کرنے پر مامور ہوں۔ میرے سپرد یہ کام کیا گیا ہے کہ میں لوگوں کے درمیان انصاف کروں ، اور ان نے اعتدالیوں اور بے انصافیوں کا خاتمہ کر دوں جو تمہاری زندگیوں میں اور تمہارے معاشرے میں پائی جاتی ہیں۔ ان تین مطالب کے علاوہ اس فقرے کا ایک چوتھا مطلب بھی ہے جو مکہ معظمہ میں نہ کھلا تھا مگر ہجرت کے بعد کھل گیا ، اور وہ یہ ہے کہ میں خدا کا مقرر کیا ہوا قاضی اور جج ہوں ،تمہارے درمیان انصاف کرنا میری ذمہ داری ہے |
2 | بالفاظ دیگر، میں ان تفرقہ پرواز لوگوں کی طرح نہیں ہوں جو خدا کی بھیجی ہوئی بعض کتابوں کو مانتے ہیں اور بعض کو نہیں مانتے۔ میں ہر اس کتاب کو مانتا ہوں جسے خدا نے بھیجا ہے |
1 | یعنی انکو راضی کرنے کے لیے اس دین کے اندر کوئی رد و بدل اور کمی بیشی نہ کرو۔ کچھ لو اور کچھ دو کے اصول پر ان گمراہ لوگوں سے کوئی مصالحت نہ کرو۔ ان کے اوہام اور تعصبات اور جاہلانہ طور طریقوں کے لیے دین میں کوئی گنجائش محض اس لالچ میں آ کر نہ نکالو کہ کسی نہ کسی طرح یہ دائرہ اسلام میں آ جائیں۔ جس کو ماننا ہے خدا کے اصلی اور خالص دین کو جیسا کہ اس نے بھیجا ہے سیدھی طرح مان لے ورنہ جس جہنم میں جا کر گرنا چاہے گر جاۓ۔ خدا کا دین لوگوں کی خاطر نہیں بدلا جا سکتا۔ لوگ اگر اپنی فلاح چاہتے ہیں تو خود اپنے آپ کو بدل کر اس کے مطابق بنائیں |
Surah 45 : Ayat 18
ثُمَّ جَعَلْنَـٰكَ عَلَىٰ شَرِيعَةٍ مِّنَ ٱلْأَمْرِ فَٱتَّبِعْهَا وَلَا تَتَّبِعْ أَهْوَآءَ ٱلَّذِينَ لَا يَعْلَمُونَ
اس کے بعد اب اے نبیؐ، ہم نے تم کو دین کے معاملہ میں ایک صاف شاہراہ (شریعت) پر قائم کیا ہے1 لہٰذا تم اسی پر چلو اور اُن لوگوں کی خواہشات کا اتباع نہ کرو جو علم نہیں رکھتے
1 | مطلب یہ ہے کہ جو کام پہلے بنی اسرائیل کے سپرد کیا گیا تھا وہ اب تمہارے سپرد کیا گیا ہے۔ انہوں نے علم پا نے کے باوجود اپنی نفسا نفسی سے دین میں ایسے اختلافات بر پا کیے، اور آپس میں ایسی گروہ بندیاں کر ڈالیں جن سے وہ اس قابل نہ رہے کہ دنیا کو خدا کے راستے پر بلا سکیں۔ اب اسی دین کی صاف شاہراہ پر تمہیں کھڑا کیا گیا ہے تا کہ تم وہ خدمت انجام دو جسے بنی اسرائیل چھوڑ بھی چکے ہیں اور ادا کرنے کے اہل بھی نہیں رہے ہیں۔ (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو جلد چہارم، الشوریٰ، آیات 13 تا 15 مع حواشی 20 تا 26 ) |
Surah 45 : Ayat 19
إِنَّهُمْ لَن يُغْنُواْ عَنكَ مِنَ ٱللَّهِ شَيْــًٔاۚ وَإِنَّ ٱلظَّـٰلِمِينَ بَعْضُهُمْ أَوْلِيَآءُ بَعْضٍۖ وَٱللَّهُ وَلِىُّ ٱلْمُتَّقِينَ
اللہ کے مقابلے میں وہ تمہارے کچھ بھی کام نہیں آ سکتے1 ظالم لوگ ایک دوسرے کے ساتھی ہیں، اور متقیوں کا ساتھی اللہ ہے
1 | یعنی اگر تم انہیں راضی کرنے کے لیے اللہ کے دین میں کسی قسم کا رد و بدل کرو گے تو اللہ کے مواخذہ سے وہ تمہیں نہ بچا سکیں گے |