Ayats Found (14)
Surah 3 : Ayat 28
لَّا يَتَّخِذِ ٱلْمُؤْمِنُونَ ٱلْكَـٰفِرِينَ أَوْلِيَآءَ مِن دُونِ ٱلْمُؤْمِنِينَۖ وَمَن يَفْعَلْ ذَٲلِكَ فَلَيْسَ مِنَ ٱللَّهِ فِى شَىْءٍ إِلَّآ أَن تَتَّقُواْ مِنْهُمْ تُقَـٰةًۗ وَيُحَذِّرُكُمُ ٱللَّهُ نَفْسَهُۥۗ وَإِلَى ٱللَّهِ ٱلْمَصِيرُ
مومنین اہل ایمان کو چھوڑ کر کافروں کو اپنا رفیق اور دوست ہرگز نہ بنائیں جو ایسا کرے گا اس کا اللہ سے کوئی تعلق نہیں ہاں یہ معاف ہے کہ تم ان کے ظلم سے بچنے کے لیے بظاہر ایسا طرز عمل اختیار کر جاؤ مگر اللہ تمہیں اپنے آپ سے ڈراتا ہے اور تمہیں اسی کی طرف پلٹ کر جانا ہے2
2 | یعنی کہیں انسانوں کا خوف تم پر اتنا نہ چھا جائے کہ خدا کا خوف دل سے نِکل جائے۔ انسان حد سے حد تمہاری دنیا بگاڑ سکتے ہیں مگر خدا تمہیں ہمیشگی کا عذاب دے سکتا ہے۔ لہٰذا اپنے بچا ؤ کے لیے اگر بدرجہٴ مجبُوری کبھی کفار کے ساتھ تقیہ کرنا پڑے ، تو وہ بس اس حد تک ہونا چاہیے کہ اسلام کے مشن اور اسلامی جماعت کے مفاد اور کسی مسلمان کی جان و مال کو نقصان پہنچائے بغیر تم اپنی جان و مال کا تحفظ کر لو۔ لیکن خبردار، کفر اور کفار کی کوئی ایس خدمت تمہارے ہاتھوں انجام نہ ہونے پائے جس سے اسلام کے مقابلے میں کفر کو فروغ حاصل ہو نے اور مسلمانوں پر کفار کے غالب آجانے کا امکان ہو۔ خوب سمجھ لو کہ اگر اپنے آپ کو بچانے کے لیے تم نے اللہ کے دین کو یا اہلِ دین کی جماعت کو یا کسی ایک فردِ مومن کو بھی نقصان پہنچایا ، یا خدا کے باغیوں کی کوئی حقیقی خدمت انجام دی ، تو اللہ کے محاسبے سے ہر گز نہ بچ سکو گے۔ جانا تم کو بہرحال اسی کے پاس ہے |
Surah 3 : Ayat 118
يَـٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُواْ لَا تَتَّخِذُواْ بِطَانَةً مِّن دُونِكُمْ لَا يَأْلُونَكُمْ خَبَالاً وَدُّواْ مَا عَنِتُّمْ قَدْ بَدَتِ ٱلْبَغْضَآءُ مِنْ أَفْوَٲهِهِمْ وَمَا تُخْفِى صُدُورُهُمْ أَكْبَرُۚ قَدْ بَيَّنَّا لَكُمُ ٱلْأَيَـٰتِۖ إِن كُنتُمْ تَعْقِلُونَ
اے لوگو جو ایمان لائے ہو، اپنی جماعت کے لوگوں کے سوا دوسروں کو اپنا راز دار نہ بناؤ وہ تمہاری خرابی کے کسی موقع سے فائدہ اٹھانے میں نہیں چوکتے1 تمہیں جس چیز سے نقصان پہنچے وہی ان کو محبوب ہے ان کے دل کا بغض ان کے منہ سے نکلا پڑتا ہے اور جو کچھ وہ اپنے سینوں میں چھپائے ہوئے ہیں وہ اس سے شدید تر ہے ہم نے تمہیں صاف صاف ہدایات دے دی ہیں، اگر تم عقل رکھتے ہو (تو ان سے تعلق رکھنے میں احتیاط برتو گے)
1 | سُوْرَةُ اٰلِ عِمْرٰن حاشیہ نمبر :92 |
Surah 3 : Ayat 120
إِن تَمْسَسْكُمْ حَسَنَةٌ تَسُؤْهُمْ وَإِن تُصِبْكُمْ سَيِّئَةٌ يَفْرَحُواْ بِهَاۖ وَإِن تَصْبِرُواْ وَتَتَّقُواْ لَا يَضُرُّكُمْ كَيْدُهُمْ شَيْــًٔاۗ إِنَّ ٱللَّهَ بِمَا يَعْمَلُونَ مُحِيطٌ
تمہارا بھلا ہوتا ہے تو ان کو برا معلوم ہوتا ہے، اور تم پر کوئی مصیبت آتی ہے تو یہ خوش ہوتے ہیں مگر ان کی کوئی تدبیر تمہارے خلاف کارگر نہیں ہوسکتی بشرطیکہ تم صبر سے کام لو اور اللہ سے ڈر کر کام کرتے رہو جو کچھ یہ کر رہے ہیں اللہ اُس پر حاوی ہے1
1 | یہاں سے چوتھا خطبہ شروع ہوتا ہے۔ یہ جنگِ اُحُد کے بعد نازل ہوا ہے اور اس میں جنگِ اُحُد پر تبصرہ کیا گیا ہے۔ اُوپر کے خطبہ کو ختم کرتے ہوئے آخر میں ارشاد ہوا تھا کہ”ان کی کوئی تدبیر تمہارے خلاف کارگر نہیں ہو سکتی بشرطیکہ تم صبر سے کام لو اور اللہ سے ڈر کر کام کرتے رہو۔“ اب چونکہ اُحُد کے میدان میں مسلمانوں کی شکست کا سبب ہی یہ ہوا کہ ان کے اندر صبر کی بھی کمی تھی اور ان کے افراد سے بعض ایسی غلطیاں بھی سرزد ہوئی تھیں جو خدا ترسی کے خلاف تھیں، اس لیے یہ خطبہ جس میں اُنھیں اِن کمزوریوں پر متنبہ کیا گیا ہے ، مندرجہٴ بالا فقرے کے بعد ہی متصلاً درج کیا گیا۔ اس خطبے کا انداز بیان یہ ہے کہ جنگِ اُحُد کے سلسلہ میں جتنے اہم واقعات پیش آئے تھے ان میں سے ایک ایک کو لے کر اس پر چند جچے تُلے فقروں میں نہایت سبق آموز تبصرہ کیا گیا ہے۔ اس کو سمجھنے کے لیے اس کے واقعاتی پس منظر کو نگاہ میں رکھنا ضروری ہے۔ شوال سن ۳ ہجری کی ابتدا میں کفارِ قریش تقریباً ۳ ہزار کا لشکر لے کر مدینہ پر حملہ آور ہوئے ۔ تعداد کی کثرت کے علاوہ ان کے پاس ساز و سامان بھی مسلمانوں کی بہ نسبت بہت زیادہ تھا، اور پھر وہ جنگِ بدر کے انتقام کی شدید جوش بھی رکھتے تھے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور تجربہ کار صحابہ کی رائے یہ تھی کہ مدینہ میں محصور ہو کر مدافعت کی جائے۔ مگر چند نوجوانوں نے، جو شہادتت کے شوق سے بے تاب تھے اور جنھیں بدر کی جنگ میں شریک ہونے کا موقعہ نہ ملا تھا ، باہر نکل کر لڑنے پر اصرار کیا۔ آخر کار اُن کے اصرار سے مجبُور ہو کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے باہر نکلنے ہی کا فیصلہ فرما لیا۔ ایک ہزار آدمی آپ ؐ کے ساتھ نکلے، مگر مقامِ شَوط پر پہنچ کر عبداللہ ابنِ ابَیّ اپنے تین سو ساتھیوں کو لے کر الگ ہو گیا۔ عین وقت پر اُس کی اس حرکت سے مسلمانوں کے لشکر میں اچھا خاصہ اضطراب پھیل گیا ، حتٰی کہ بنو سلمہ اور بنو حارِثہ کے لوگ تو ایسے دل شکستہ ہوئے کہ انہوں نے بھی پلٹ جانے کا ارادہ کر لیا تھا، مگر پھر اُولو العزم صحابہ کی کوششوں سے یہ اضطراب رفع ہو گیا۔ اِن باقی ماندہ سات سو آدمیوں کے ساتھ نبی صلی اللہ علیہ وسلم آگے بڑھے اور اُحُد کی پہاڑی کے دامن میں (مدینہ سے تقریباً چار میل کے فاصلہ پر) اپنی فوج کو اس طرح صف آرا کیا کہ پہاڑ پشت پر تھا اور قریش کا لشکر سامنے ۔ پہلو میں صرف ایک درہ ایسا تھا جس سے اچانک حملہ کا خطرہ ہو سکتا تھا ۔ وہاں آپ نے عبداللہ بن جُبَیر کے زیرِ قیادت پچاس تیر انداز بٹھا دیے اور ان کو تاکید کر دی کہ ”کسی کو ہمارے قریب نہ پھٹکنے دینا، کسی حال میں یہاں سے نہ ہٹنا، اگر تم دیکھو کہ ہماری بوٹیاں پرندے نوچے لیے جاتے ہیں تب بھی تم اس جگہ سے نہ ٹلنا ۔ “ اس کے بعد جنگ شروع ہوئی۔ ابتدا ءً مسلمانوں کا پلہ بھاری رہا یہاں تک کہ مقابل کی فوج میں ابتری پھیل گئی۔ لیکن اس ابتدائی کامیابی کو کامل فتح کی حد تک پہنچانے کے بجائے مسلمان مالِ غنیمت کی طمع سے مغلوب ہوگئے اور انہوں نے دشمن کے لشکر کو لُوٹنا شروع کر دیا۔ اُدھر جن تیر اندازوں کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عقب کی حفاظت کے لیے بٹھایا تھا، انہوں نے جو دیکھا کہ دشمن بھاگ نکلا ہے اور غنیمت لُٹ رہی ہے ، تو وہ بھی اپنی جگہ چھوڑ کر غنیمت کی طرف لپکے۔ حضرت عبداللہ بن جبیر نے ان کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا تاکید حکم یاد دلا کر بہتیرا روکا مگر چند آدمیوں کے سوا کوئی نہ ٹھیرا۔ اس موقع سے خالد بن ولید نے جو اس وقت لشکرِ کفار کے رسالہ کی کمان کر رہے تھے ، بر وقت فائدہ اُٹھایا اور پہاڑی کا چکر کاٹ کر پہلو کے درہ سے حملہ کر دیا۔ عبداللہ بن جبیر نے جن کے ساتھ صرف چند آدمی رہ گئے تھے ، اس حملہ کو روکنا چاہا مگر مدافعت نہ کرسکے اور یہ سیلاب یکایک مسلمانوں پر ٹوٹ پڑا ۔ دوسری طرف جو دشمن بھاگ گئے تھے وہ بھی پلٹ کر حملہ آور ہو گئے ۔ اس طرح لڑائی کا پانسہ ایک دم پلٹ گیا اور مسلمان اس غیر متوقع صورتِ حال سے اس قدر سراسیمہ ہوئے کہ ان کا ایک بڑا حِصّہ پراگندہ ہو کر بھاگ نکلا۔ تاہم چند بہادر سپاہی ابھی تک میدان میں ڈٹے ہوئے تھے۔ اتنے میں کہیں سے یہ افواہ اُڑ گئی کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم شہید ہو گئے۔ اس خبر نے صحابہ کے رہے سہے ہوش و حواس بھی گم کر دیے اور باقی ماندہ لوگ بھی ہمّت ہار کر بیٹھ گئے۔ اس وقت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے گردوپیش صرف دس بارہ جاں نثار رہ گئے تھے اور آپ ؐ خود زخمی ہو چکے تھے۔ شکست کی تکمیل میں کوئی کسر باقی نہ رہی تھی۔ لیکن عین وقت پر صحابہ کو معلوم ہو گیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم زندہ ہیں، چنانچہ وہ ہر طرف سے سمٹ کر پھر آپ ؐ کے گرد جمع ہو گئے اور آپ ؐ کو بسلامت پہاڑی کی طرف لے گئے۔ اس موقع پر یہ ایک معمّا ہے جو حل نہیں ہو سکا کہ وہ کیا چیز تھی جس نے کفار ِ مکّہ کو خود بخود واپس پھیر دیا ۔ مسلمان اس قدر پراگندہ ہو چکے تھے کہ ان کا پھر مجتمع ہو کر باقاعدہ جنگ کرنا مشکل تھا۔ اگر کفار اپنی فتح کو کمال تک پہنچانے پر اصرار کرتے تو ان کی کامیابی بعید نہ تھی۔ مگر نہ معلوم کس طرح وہ آپ ہی آپ میدان چھوڑ کر واپس چلے گئے |
Surah 4 : Ayat 89
وَدُّواْ لَوْ تَكْفُرُونَ كَمَا كَفَرُواْ فَتَكُونُونَ سَوَآءًۖ فَلَا تَتَّخِذُواْ مِنْهُمْ أَوْلِيَآءَ حَتَّىٰ يُهَاجِرُواْ فِى سَبِيلِ ٱللَّهِۚ فَإِن تَوَلَّوْاْ فَخُذُوهُمْ وَٱقْتُلُوهُمْ حَيْثُ وَجَدتُّمُوهُمْۖ وَلَا تَتَّخِذُواْ مِنْهُمْ وَلِيًّا وَلَا نَصِيرًا
وہ تو یہ چاہتے ہیں کہ جس طرح وہ خود کافر ہیں اسی طرح تم بھی کافر ہو جاؤ تاکہ تم اور وہ سب یکساں ہو جائیں لہٰذا ان میں سے کسی کو اپنا دوست نہ بناؤ جب تک کہ وہ اللہ کی راہ میں ہجرت کر کے نہ آ جائیں، اور اگر وہ ہجرت سے باز رہیں تو جہاں پاؤ انہیں پکڑو اور قتل کرو1 اور ان میں سے کسی کو اپنا دوست اور مددگار نہ بناؤ
1 | یہ حکم اُن منافق مسلمانوں کا ہے جو برسرِ جنگ کا فر قوم سے تعلق رکھتے ہوں اور اسلامی حکومت کے خلاف معاندانہ کارروائیوں میں عملاً حصہ لیں |
Surah 4 : Ayat 144
يَـٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُواْ لَا تَتَّخِذُواْ ٱلْكَـٰفِرِينَ أَوْلِيَآءَ مِن دُونِ ٱلْمُؤْمِنِينَۚ أَتُرِيدُونَ أَن تَجْعَلُواْ لِلَّهِ عَلَيْكُمْ سُلْطَـٰنًا مُّبِينًا
اے لوگو جو ایمان لائے ہو، مومنوں کو چھوڑ کر کافروں کو اپنا رفیق نہ بناؤ کیا تم چاہتے ہو کہ اللہ کو اپنے خلاف صریح حجت دے دو؟
Surah 5 : Ayat 51
۞ يَـٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُواْ لَا تَتَّخِذُواْ ٱلْيَهُودَ وَٱلنَّصَـٰرَىٰٓ أَوْلِيَآءَۘ بَعْضُهُمْ أَوْلِيَآءُ بَعْضٍۚ وَمَن يَتَوَلَّهُم مِّنكُمْ فَإِنَّهُۥ مِنْهُمْۗ إِنَّ ٱللَّهَ لَا يَهْدِى ٱلْقَوْمَ ٱلظَّـٰلِمِينَ
اے لوگو جو ایمان لائے ہو! یہودیوں اور عیسائیوں کو اپنا رفیق نہ بناؤ، یہ آپس ہی میں ایک دوسرے کے رفیق ہیں اور اگر تم میں سے کوئی ان کو اپنا رفیق بناتا ہے تو اس کا شمار بھی پھر انہی میں ہے، یقیناً اللہ ظالموں کو اپنی رہنمائی سے محروم کر دیتا ہے
Surah 5 : Ayat 57
يَـٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُواْ لَا تَتَّخِذُواْ ٱلَّذِينَ ٱتَّخَذُواْ دِينَكُمْ هُزُوًا وَلَعِبًا مِّنَ ٱلَّذِينَ أُوتُواْ ٱلْكِتَـٰبَ مِن قَبْلِكُمْ وَٱلْكُفَّارَ أَوْلِيَآءَۚ وَٱتَّقُواْ ٱللَّهَ إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ
ا ے لوگو جو ایمان لائے ہو، تمہارے پیش رو اہل کتاب میں سے جن لوگوں نے تمہارے دین کو مذاق اور تفریح کا سامان بنا لیا ہے، اُنہیں اور دوسرے کافروں کو اپنا دوست اور رفیق نہ بناؤ اللہ سے ڈرو اگر تم مومن ہو
Surah 5 : Ayat 58
وَإِذَا نَادَيْتُمْ إِلَى ٱلصَّلَوٲةِ ٱتَّخَذُوهَا هُزُوًا وَلَعِبًاۚ ذَٲلِكَ بِأَنَّهُمْ قَوْمٌ لَّا يَعْقِلُونَ
جب تم نماز کے لیے منادی کرتے ہو تو وہ اس کا مذاق اڑاتے اور اس سے کھیلتے ہیں1 اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ عقل نہیں رکھتے2
2 | یعنی ان کی یہ حرکتیں محض بے عقلی کا نتیجہ ہیں۔ اگر وہ جہالت اور نادانی میں مبتلا نہ ہوتے تو مسلمانوں سے مذہبی اختلاف رکھنے کے باوجود ایسی خفیف حرکات ان سے سرزد نہ ہوتیں۔ آخر کون معقول آدمی یہ پسند کر سکتا ہے کہ جب کوئی گروہ خدا کی عبادت کے لیے منادی کرے تو اس کا مذاق اُڑایا جائے |
1 | یعنی اذان کی آواز سُن کر اُس کی نقلیں اتارتے ہیں ، تمسخر کے لیے اس کے الفاظ بدلتے اور مسخ کرتے ہیں اور اس پر آوازے کستے ہیں |
Surah 9 : Ayat 23
يَـٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُواْ لَا تَتَّخِذُوٓاْ ءَابَآءَكُمْ وَإِخْوَٲنَكُمْ أَوْلِيَآءَ إِنِ ٱسْتَحَبُّواْ ٱلْكُفْرَ عَلَى ٱلْإِيمَـٰنِۚ وَمَن يَتَوَلَّهُم مِّنكُمْ فَأُوْلَـٰٓئِكَ هُمُ ٱلظَّـٰلِمُونَ
اے لوگو جو ایمان لائے ہو، اپنے باپوں اور بھائیوں کو بھی اپنا رفیق نہ بناؤ اگر وہ ایمان پر کفر کو ترجیح دیں تم میں سے جو ان کو رفیق بنائیں گے وہی ظالم ہوں گے
Surah 9 : Ayat 24
قُلْ إِن كَانَ ءَابَآؤُكُمْ وَأَبْنَآؤُكُمْ وَإِخْوَٲنُكُمْ وَأَزْوَٲجُكُمْ وَعَشِيرَتُكُمْ وَأَمْوَٲلٌ ٱقْتَرَفْتُمُوهَا وَتِجَـٰرَةٌ تَخْشَوْنَ كَسَادَهَا وَمَسَـٰكِنُ تَرْضَوْنَهَآ أَحَبَّ إِلَيْكُم مِّنَ ٱللَّهِ وَرَسُولِهِۦ وَجِهَادٍ فِى سَبِيلِهِۦ فَتَرَبَّصُواْ حَتَّىٰ يَأْتِىَ ٱللَّهُ بِأَمْرِهِۦۗ وَٱللَّهُ لَا يَهْدِى ٱلْقَوْمَ ٱلْفَـٰسِقِينَ
اے نبیؐ، کہہ دو کہ اگر تمہارے باپ اور تمہارے بیٹے، اور تمہارے بھائی، اور تمہاری بیویاں اور تمہارے عزیز و اقارب اور تمہارے وہ مال جو تم نے کما ئے ہیں، اور تمہارے وہ کاروبار جن کے ماند پڑ جانے کا تم کو خوف ہے اور تمہارے وہ گھر جو تم کو پسند ہیں، تم کو اللہ اور اس کے رسول اور اس کی راہ میں جہاد سے عزیز تر ہیں تو انتظار کرو یہاں تک کہ اللہ اپنا فیصلہ تمہارے سامنے لے آئے1، اور اللہ فاسق لوگوں کی رہنمائی نہیں کیا کرتا
1 | یعنی تمہیں ہٹا کر سچی دینداری کی نعمت اور اُس کی علمبرداری کا شرف اور رشد و ہدایت کی پیشوائی کا منصب کسی اور گروہ کو عطا کر دے |