Ayats Found (1)
Surah 39 : Ayat 7
إِن تَكْفُرُواْ فَإِنَّ ٱللَّهَ غَنِىٌّ عَنكُمْۖ وَلَا يَرْضَىٰ لِعِبَادِهِ ٱلْكُفْرَۖ وَإِن تَشْكُرُواْ يَرْضَهُ لَكُمْۗ وَلَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرَىٰۗ ثُمَّ إِلَىٰ رَبِّكُم مَّرْجِعُكُمْ فَيُنَبِّئُكُم بِمَا كُنتُمْ تَعْمَلُونَۚ إِنَّهُۥ عَلِيمُۢ بِذَاتِ ٱلصُّدُورِ
اگر تم کفر کرو تو اللہ تم سے بے نیاز ہے1، لیکن وہ اپنے بندوں کے لیے کفر کو پسند نہیں کرتا2، اور اگر تم شکر کر و تو اسے وہ تمہارے لیے پسند کرتا ہے3 کوئی بوجھ اٹھانے والا کسی دوسرے کا بوجھ نہ اٹھائے گا4 آخرکار تم سب کو اپنے رب کی طرف پلٹنا ہے، پھر وہ تمہیں بتا دے گا کہ تم کیا کرتے رہے ہو، وہ تو دلوں کا حال تک جانتا ہے
4 | مطلب یہ ہے کہ تم میں سے ہر شخص اپنے اعمال کا خود ذمہ دار ہے۔ کوئی شخص اگر دوسروں کو راضی رکھنے کے لیے یا ان کی ناراضی سے بچنے کی خاطر کفت اختیار کرے گا تو وہ دوسرے لوگ اس کے کفر کا وبال اپنے اوپر نہیں اٹھا لیں گے بلکہ اسے آپ ہی اپنا وبال بھگتنے کے لیے چھوڑ دیں گے۔ لہٰذا جس پر بھی کفر کا غلط اور ایمان کا صحیح ہونا واضح ہو جائے اس کو چاہیے کہ غلط رویہ چھوڑ کر صحیح رویہ اختیار کر لے اور اپنے خاندان یا برادری یا قوم کے ساتھ لگ کر اپنے آپ کو خدا کے عذاب کا مستحق نہ بنائے |
3 | کفر کے مقابلے میں یہاں ایمان کے بجائے شکر کا لفظ استعمال کیا گیا ہے۔ اس سے خود بخود یہ بات مترشح ہوتی ہے کہ کفر در حقیقت احسان فراموشی و نمک حرامی ہے، اور ایمان جی الحقیقت شکر گزاری کا لازمی تقاضا ہے۔ جس شخص میں اللہ جلّ شانہ کے احسانات کا کچھ بھی احساس ہو وہ ایمان کے سوا کوئی دوسری راہ اختیار نہیں کر سکتا۔ اس لیے شکر اور ایمان ایسے لازم و ملزوم ہیں کہ جہاں شکر ہو گا وہاں ایمان ضرور ہو گا۔ اور اس کے برعکس جہاں کفر ہو گا وہاں شکر کا سرے سے کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، کیونکہ کفر کے ساتھ شکر کے معنی نہیں ہیں۔ |
2 | یعنی وہ اپنے کسی مفاد کی خاطر نہیں بلکہ خود بندوں کے مفاد کی خاطر یہ پسند نہیں کرتا کہ وہ کفر کریں، کیونکہ کفر خود انہی کے لیے نقصان دہ ہے۔ یہاں یہ بات ملحوظ رکھنی چاہیے کہ اللہ تعالٰی کی مشیت اور چیز ہے اور رضا دوسری چیز۔ دنیا میں کوئی کام بھی اللہ کی مشیت کے خلاف نہیں ہو سکتا، مگر اس کی رضا کے خلاف بہت سے کام ہو سکتے ہیں اور رات دن ہوتے رہتے ہیں۔مثلاً دنیا میں جباروں اور ظالموں کا حکمراں ہونا، چوروں اور ڈاکوؤں کا پایا جانا، قاتلوں اور زانیوں کا موجود ہونا اسی لیے ممکن ہے کہ اللہ تعالٰی نے اپنے بنائے ہوئے نظام قدرت میں ان برائیوں کے ظہور اور ان اشرار کے وجود کی گنجائش رکھی ہے۔ پھر ان کو بدی کے ارتکاب کے مواقع بھی دیتا ہے اور اسی طرح دیتا ہے جس طرح نیکوں کو نیکی کے موقع دیتا ہے۔ اگر وہ سرے سے ان کاموں کی گنجائش ہی نہ رکھتا اور ان کے کرنے والوں کو مواقع ہی نہ دیتا تو دنیا میں کبھی کوئی برائی ظاہر نہ ہوتی۔ یہ سب کچھ بر بنائے مشیت ہے۔ لیکن مشیت کے تحت کسی فعل کا صدور یہ معنی نہیں رکھتا کہ اللہ کی رضا بھی اس کو حاصل ہے۔مثال کے طور پر اس بات کو یوں سمجھیے کہ ایک شخص اگر حرام خوری ہی کے ذریعہ سے اپنا رزق حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے تو اللہ اسی ذریعہ سے اس کو رزق دے دیتا ہے۔ یہ ہے اس کی مشیت۔ مگر مشیت کے تحت چور یا ڈاکو یا رشوت خوار کو رزق دینے کا یہ مطلب نہیں ہے کہ چوری، ڈاکے اور رشوت کو اللہ پسند بھی کرتا ہے۔ یہی بات اللہ تعالٰی یہاں فرما رہا ہے کہ تم کفر کرنا چاہو تو کرو،ہم تمہیں زبردستی اس سے روک کر مومن نہیں بنائیں گے۔ مگر ہمیں یہ پسند نہیں ہے کہ تم بندے ہو کر اپنے خالق و پروردگار سے کفر کرو، کیونکہ یہ تمہارے ہی لیے نقصان دہ ہے، ہماری خدائی کا اس سے کچھ بھی نہیں بگڑتا۔ |
1 | یعنی تمہارے کفر سے اس کی خدائی میں ذرہ برابر بھی کمی نہیں آسکتی۔ تم مانو گے تب بھی وہ خدا ہے، اور نہ مانو گے تب بھی وہ خدا ہے اور رہے گا۔ اس کی فرمانروائی اپنے زور پر چل رہی ہے، تمہارے ماننے یا نہ ماننے سے اس میں کوئی فرق نہیں پڑ سکتا۔ حدیث میں نبی صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد ہے کہ اللہ تعالٰی فرماتا ہے یا عبادی لو ان اول کم و اٰخر کم و انسکم و جنکم کا نو اعلیٰ افجر قلب رجل منکم ما نقص من ملکی شیئاً۔ اے میرے بندو، اگر تم سب کے سب اگلے اور پچھلے انسان اور جِن اپنے میں سے کسی فاجر سے فاجر شخص کے دل کی طرح ہو جاؤ تب بھی میری بادشاہی میں کچھ بھی کمی نہ ہو گی۔‘‘ (مسلم) |