Ayats Found (11)
Surah 2 : Ayat 40
يَـٰبَنِىٓ إِسْرَٲٓءِيلَ ٱذْكُرُواْ نِعْمَتِىَ ٱلَّتِىٓ أَنْعَمْتُ عَلَيْكُمْ وَأَوْفُواْ بِعَهْدِىٓ أُوفِ بِعَهْدِكُمْ وَإِيَّـٰىَ فَٱرْهَبُونِ
اے بنی اسرائیل1! ذرا خیال کرو میری اس نعمت کا جو میں نے تم کو عطا کی تھی، میرے ساتھ تمھارا جو عہد تھا اُسے تم پورا کرو، تو میرا جو عہد تمہارے ساتھ تھا اُسے میں پورا کروں گا اور مجھ ہی سے تم ڈرو
1 | اسرائیل کے معنی ہیں عبد اللہ یا بندہ ٴ خدا ۔ یہ حضرت یعقوب ؑ کا لقب تھا، جو اُن کو اللہ تعالی ٰ کی طرف سے عطا ہوا تھا۔ وہ حضرت اسحٰا ق ؑ کے بیٹے اور حضرت ابراہیم ؑ کے پوتے تھے۔ انہی کی نسل کو بنی اسرائیل کہتے ہیں۔ پچھلے چار رکوعوں میں تمہیدی تقریر تھی، جس کا خطاب تمام انسانوں کی طرف عام تھا۔ اب یہاں سے چودھویں رکوع تک مسلسل ایک تقریر اِس قوم کو خطاب کرتے ہوئے چلتی ہے جس میں کہیں کہیں عیسائیوں اور مشرکینِ عرب کی طرف بھی کلام کا رُخ پھر گیا ہے اور موقع موقع سے اُن لوگوں کو بھی خطاب کیا گیا ہے جو حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت پر ایمان لائے تھے۔ اس تقریر کو پڑھتے ہوئے حسبِ ذیل باتوں کو خاص طَور پر پیش ِ نظر رکھنا چاہیے: اوّلاً، اِس کا منشا یہ ہے کہ پچھلے پیغمبروں کی اُمت میں جو تھوڑے بہت لوگ ابھی ایسے باقی ہیں جن میں خیر و صلاھ کا عنصر موجود ہے، اُنہیں اُس صداقت پر ایمان لانے اور اُس کام میں شریک ہونے کی دعوت دی جائے جس کے ساتھ محمد ؐ اُٹھائے گئے تھے۔ اس لیے ان کو بتایا جا رہا ہے کہ یہ قرآن اور نہ نبی ؐ وہی پیغام اور وہی کام لے کر آیا ہے جو اس سے پہلے تمہارے انبیا اور تمہارے پاس آنے والے صحیفے لائے تھے۔ پہلے یہ چیز تم کو دی گئی تھی تاکہ تم آپ بھی اس پر چلو اور دُنیا کو بھی اس کی طرف بُلانے اور اس پر چلانے کی کوشش کرو۔ مگر تم دنیا کی رہنمائی تو کیا کرتے، خود بھی اس ہدایت پر قائم نہ رہے اور بگڑتے چلے گئے۔ تمہاری تاریخ اور تمہاری قوم کی موجودہ اخلاقی و دینی حالت خود تمہارے بگاڑ پر گواہ ہے۔ اب اللہ نے وہی چیز دے کر اپنے ایک بندے کو بھیجا ہے اور وہی خدمت اس کے سپرد کی ہے۔ یہ کوئی بیگانہ اور اجنبی چیز نہیں ہے ، تمہاری اپنی چیز ہے۔ لہٰذا جانتے بُوجھتے حق کی مخالفت نہ کرو، بلکہ اسے قبول کر لو۔ جو کام تمہارے کرنے کا تھا، مگر تم نے نہ کیا ، اسے کرنے کے لیے جو دوسرے لوگ اُٹھے ہیں ، ان کا ساتھ دو۔ ثانیاً، اس کا منشا عام یہودیوں پر حُجّت تمام کرنا اور صاف صاف ان کی دینی و اخلاقی حالت کو کھول کر رکھ دینا ہے۔ ان پر ثابت کیا جارہا ہے کہ یہ وہی دین ہے ، جو تمہارے انبیا لے کر آئے تھے۔ اُصولِ دین میں سے کوئی ایک چیز بھی ایسی نہیں ہے، جس میں قرآن کی تعلیم تورات کی تعلیم سے مختلف ہو۔ ان پر ثابت کیا جارہا ہے کہ جو ہدایت تمہیں دی گئی تھی اس کی پیروی کرنے میں ، اور جو رہنمائی کا منصب تمہیں دیا گیا تھا اس کا حق ادا کرنے میں تم بُری طرح ناکام ہوئے ہو۔ اس کے ثبوت میں ایسے واقعات سے اِستِشْہاد کیا گیا ہے جن کی تردید وہ نہ کر سکتے تھے۔ پھر جس طرح حق کو حق جاننے کے باوجود وہ اس کی مخالفت میں سازشوں ، وسوسہ اندازیوں ، کج بحثیوں اور مکّاریوں سے کام لے رہے تھے، اور جن ترکیبوں سے وہ کوشش کر رہے تھے کہ کسی طرح محمد ؐ کا مشن کامیاب نہ ہونے پائے، ان سب کی پردہ دری کی جارہی ہے ، جس سے یہ بات عیاں ہو جاتی ہے کہ ان کی ظاہری مذہبیّت محض ایک ڈھونگ ہے، جس کے نیچے دیانت اور حق پرستی کے بجائے ہٹ دھرمی، جاہلانہ عصبیت اور نفس پرستی کام کر رہی ہے اور حقیقت میں وہ یہ چاہتے ہی نہیں ہیں کہ نیکی کا کوئی کام پھل پُھول سکے۔ اِس طرح اتمامِ حجّت کرنے کا فائدہ یہ ہوا کہ ایک طرف خود اس قوم میں جو صالح عنصر تھا، اُس کی آنکھیں کُھل گئیں، دُوسری طرف مدینے کے عوام پر اور بالعموم مشرکینِ عرب پر ان لوگوں کا جو مذہبی و اخلاقی اثر تھا، وہ ختم ہو گیا ، اور تیسری طرف خود اپنے آپ کو بے نقاب دیکھ کر ان کی ہمتیں اتنی پست ہوگئیں کہ وہ اس جُراٴ ت کے ساتھ کبھی مقابلے میں کھڑے نہ ہو سکے جس کے ساتھ ایک وہ شخص کھڑا ہوتا ہے جسے اپنے حق پر ہونے کا یقین ہو۔ ثالثًا، پچھلے چار رکوعوں میں نوعِ انسانی کو دعوتِ عام دیتے ہوئے جو کچھ کہا گیا تھا ، اسی کے سلسلے میں ایک خاص قوم کی معین مثال لے کر بتایا جا رہا ہے کہ جو قوم خدا کی بھیجی ہوئی ہدایت سے منہ موڑتی ہے ، اس کا انجام کیا ہوتا ہے۔ اس توضیح کے لیے تمام قوموں میں سے بنی اسرائیل کو منتخب کرنے کی وجہ یہ ہے کہ دُنیا میں صرف یہی ایک قوم ہے جو مسلسل چار ہزار برس سے تمام اقوامِ عالم کے سامنے ایک زندہ نمونہ عبرت بنی ہوئی ہے۔ ہدایت الہٰی پر چلنے اور نہ چلنے سے جتنے نشیب و فراز کسی قوم کی زندگی میں رُونما ہو سکتے ہیں اور سب اس قوم کی عبرتناک سرگزشت میں نظر آجاتے ہیں۔ رابعًا، اس سے پیروانِ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو سبق دینا مقصُود ہے کہ وہ اس انحطاط کے گڑھے میں گرنے سے بچیں جس میں پچھلے انبیا کے پیرو گر گئے۔ یہودیوں کی اخلاقی کمزوریوں ، مذہبی غلط فہمیوں اور اعتقادی و عملی گمراہیوں میں سے ایک ایک کی نشان دہی کر کے اس کے بالمقابل دینِ حق کے مقتضیات بیان کیے گئے ہیں تاکہ مسلمان اپنا راستہ صاف دیکھ سکیں اور غلط راہوں سے بچ کر چلیں۔ اس سلسلے میں یہُود و نصاریٰ پر تنقید کرتے ہوئے قرآن جو کچھ کہتا ہے اس کو پڑھتے وقت مسلمانوں کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وہ حدیث یاد رکھنی چاہیے جس میں آپ ؐ نے فرمایا ہے کہ تم بھی آخر کار پچھلی اُمتوں ہی کی روش پر چل رہو گے حتّٰی کہ اگر وہ کسی گوہ کے بِل میں گُھسے ہیں، تو تم بھی اسی میں گُھسو گے۔ صحابہ ؓ نے پُوچھا: یا رسول اللہ ، کیا یہُود و نصاریٰ مراد ہیں؟ آپ ؐ نے فرمایا، اور کون؟ نبی اکرم ؐ کا ارشاد محض ایک تَو بِیخ نہ تھا بلکہ اللہ کی دی ہوئی بصیرت سے آپ یہ جانتے تھے کہ انبیا کی اُمتوں میں بگاڑ کن کن راستوں سے آیا اور کن کن شکلوں میں ظہُور کرتا رہا ہے |
Surah 2 : Ayat 41
وَءَامِنُواْ بِمَآ أَنزَلْتُ مُصَدِّقًا لِّمَا مَعَكُمْ وَلَا تَكُونُوٓاْ أَوَّلَ كَافِرِۭ بِهِۦۖ وَلَا تَشْتَرُواْ بِـَٔـايَـٰتِى ثَمَنًا قَلِيلاً وَإِيَّـٰىَ فَٱتَّقُونِ
اور میں نے جو کتاب بھیجی ہے اس پر ایمان لاؤ یہ اُس کتاب کی تائید میں ہے جو تمہارے پاس پہلے سے موجود تھی، لہٰذا سب سے پہلے تم ہی اس کے منکر نہ بن جاؤ تھوڑی قیمت پر میری آیات کو نہ بیچ ڈالو1 او ر میرے غضب سے بچو
1 | تھوڑی قیمت سے مُراد وہ دُنیوی فائدے ہیں جن کی خاطر یہ لوگ اللہ کے احکام اور اس کی ہدایات کو رد کر رہے تھے۔ حق فروشی کے معاوضے میں خواہ انسان دنیا بھر کی دولت لے لے، بہر حال وہ تھوڑی قیمت ہی ہے، کیونکہ حق یقیناً اس سے گراں تر چیز ہے |
Surah 16 : Ayat 53
وَمَا بِكُم مِّن نِّعْمَةٍ فَمِنَ ٱللَّهِۖ ثُمَّ إِذَا مَسَّكُمُ ٱلضُّرُّ فَإِلَيْهِ تَجْــَٔرُونَ
تم کو جو نعمت بھی حاصل ہے اللہ ہی کی طرف سے ہے پھر جب کوئی سخت وقت تم پر آتا ہے تو تم لوگ خود اپنی فریادیں لے کر اُسی کی طرف دوڑتے ہو1
1 | یعنی یہ توحید کی ایک صریح شہادت تمہارے اپنے نفس میں موجود ہے۔ سخت مصیبت کے وقت جب تمام مَن گھڑت تصورات کا زنگ ہٹ جاتا ہے تو تھوڑی دیر کے لیے تمہاری اصل فطرت اُبھر آتی ہے جو اللہ کے سوا کسی الٰہ، کسی رب، اور کسی مالِک ذی اختیار کو نہیں جانتی۔ (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو سورۂ انعام حواشی نمبر ۲۹ و نمبر ۴۱۔ یونس، حاشیہ نمبر ۳۱) |
Surah 16 : Ayat 55
لِيَكْفُرُواْ بِمَآ ءَاتَيْنَـٰهُمْۚ فَتَمَتَّعُواْۖ فَسَوْفَ تَعْلَمُونَ
تاکہ اللہ کے احسان کی ناشکری کرے اچھا، مزے کر لو، عنقریب تمہیں معلوم ہو جائے گا
Surah 29 : Ayat 65
فَإِذَا رَكِبُواْ فِى ٱلْفُلْكِ دَعَوُاْ ٱللَّهَ مُخْلِصِينَ لَهُ ٱلدِّينَ فَلَمَّا نَجَّـٰهُمْ إِلَى ٱلْبَرِّ إِذَا هُمْ يُشْرِكُونَ
جب یہ لوگ کشتی پر سوار ہوتے ہیں تو اپنے دین کو اللہ کے لیے خالص کر کے اُس سے دُعا مانگتے ہیں، پھر جب وہ اِنہیں بچا کر خشکی پر لے آتا ہے تو یکایک یہ شرک کرنے لگتے ہیں
Surah 29 : Ayat 66
لِيَكْفُرُواْ بِمَآ ءَاتَيْنَـٰهُمْ وَلِيَتَمَتَّعُواْۖ فَسَوْفَ يَعْلَمُونَ
تاکہ اللہ کی دی ہوئی نجات پر اس کا کفران نعمت کریں اور (حیات دنیا کے) مزے لوٹیں1 اچھا، عنقریب اِنہیں معلوم ہو جائے گا
1 | تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن سورہ انعام حاشیہ ۴۱: ۲۹ سورہ یونس حاشیہ ۲۹: ۳۱ سورہ بنی اسرائیل حاشیہ ۸۴۔ |
Surah 30 : Ayat 33
وَإِذَا مَسَّ ٱلنَّاسَ ضُرٌّ دَعَوْاْ رَبَّهُم مُّنِيبِينَ إِلَيْهِ ثُمَّ إِذَآ أَذَاقَهُم مِّنْهُ رَحْمَةً إِذَا فَرِيقٌ مِّنْهُم بِرَبِّهِمْ يُشْرِكُونَ
لوگوں کا حال یہ ہے کہ جب انہیں کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو اپنے رب کی طرف رجوع کر کے اُسے پکارتے ہیں1، پھر جب وہ کچھ اپنی رحمت کا ذائقہ انہیں چکھا دیتا ہے تو یکایک ان میں سے کچھ لوگ شرک کرنے لگتے ہیں2
2 | یعنی پھردوسرے معبودوں کی نذریں اورنیازیں چڑھنی شروع ہوجاتی ہیں اورکہا جانےلگتا ہےکہ یہ مصیبت فلاں حضرت کے طفیل اورفلاں آستانےکےصدقےمیں ٹلی ہے۔ |
1 | یہ اس بات کی کھلی دلیل ہےکہ ان کے دل کی گہرائیوں میں توحید کی شہادت موجود ہے۔اُمیدوں کے سہارے جب بھی ٹوٹنے لگتے ہیں،ان کادل خود ہی اندرسےپکارنے لگتا ہےکہ اصل فرمانروائی کائنات کے مالک ہی کی ہےاوراسی کی مدد ان کی بگڑی بنا سکتی ہے۔ |
Surah 30 : Ayat 34
لِيَكْفُرُواْ بِمَآ ءَاتَيْنَـٰهُمْۚ فَتَمَتَّعُواْ فَسَوْفَ تَعْلَمُونَ
تاکہ ہمارے کیے ہوئے احسان کی ناشکری کریں اچھا، مزے کر لو، عنقریب تمہیں معلوم ہو جائے گا
Surah 31 : Ayat 32
وَإِذَا غَشِيَهُم مَّوْجٌ كَٱلظُّلَلِ دَعَوُاْ ٱللَّهَ مُخْلِصِينَ لَهُ ٱلدِّينَ فَلَمَّا نَجَّـٰهُمْ إِلَى ٱلْبَرِّ فَمِنْهُم مُّقْتَصِدٌۚ وَمَا يَجْحَدُ بِـَٔـايَـٰتِنَآ إِلَّا كُلُّ خَتَّارٍ كَفُورٍ
اور جب (سمندر میں) اِن لوگوں پر ایک موج سائبانوں کی طرح چھا جاتی ہے تو یہ اللہ کو پکارتے ہیں اپنے دین کو بالکل اسی کے لیے خالص کر کے، پھر جب وہ بچا کر انہیں خشکی تک پہنچا دیتا ہے تو ان میں سے کوئی اقتصاد برتتا ہے1، اور ہماری نشانیوں کا انکار نہیں کرتا مگر ہر وہ شخص جو غدّار اور ناشکرا ہے2
2 | یہ دو صفات اُن دو صفتوں کے مقابلے میں ہیں جن کا ذکر اس سے پہلی کی آیت میں کیا گیا تھا۔ غدار وہ شخص ہے جو سخت بے وفا ہو اور اپنے عہد و پیماں کا کوئی پاس نہ رکھے۔ اور ناشکرا وہ ہے جس پر خواہ کتنی ہی نعمتوں کی بارش کر دی جائے وہ احسان مان کر نہ دے اور اپنے مُحسن کے مقابلے میں سرکشی سے پیش آئے یہ صفات جن لوگوں میں پائی جاتی ہیں وہ خطرے کا وقت ٹل جانے کے بعد بے تکلف اپنے کفر،اپنی دہریّت اور اپنے شرک کی طرف پلٹ جاتے ہیں۔ وہ یہ نہیں مانتے کہ انہوں نے طوفان کی حالت میں خدا کے ہونے اور ایک ہی خدا کے ہونے کی کچھ نشانیاں خارج میں بھی اور خود اپنے نفس میں بھی پائی تھیں اور ان کا خدا کو پکارنا اسی وجدانِ حقیقت کا نتیجہ تھا۔ ان میں سے جو دہریے ہیں وہ اپنے اس فعل کی یہ توجیہ کرتے ہیں کہ وہ تو ایک کمزوری تھی جو بحالتِ اضطراب ہم سے سرزد ہو گئی، ورنہ درحقیقت خدا وُدا کوئی نہ تھا جس نے ہمیں طوفان سے بچایا ہو، ہم تو فلاں فلاں اسباب و ذرائع سے بچ نکلنے میں کامیاب ہو گئی۔ رہے مشرکین، تو وہ بالعموم یہ کہتے ہیں کہ فلاں بزرگوں، یا دیوی دیوتاؤں کا سایہ ہمارے سر پر تھا جس کے طفیل ہم بچ گئے، چنانچہ ساحل پر پہنچتے ہی وہ اپنے معبودانِ باطل کے شکریے ادا کرنے شروع کر دیتے ہیں اورانہی کے آستانوں پر چڑھاوے چڑھانے لگتے ہیں۔ یہ خیال تک انھیں نہیں آتا کہ جب ساری اُمیدوں کے سہارے ٹوٹ گئے تھے اُس وقت اللہ وحدہٗ لاشریک کے سوا کوئی نہ تھا جس کا دامن انہوں نے تھاما ہو۔ |
1 | اس کے کئی مطلب ہو سکتے ہیں۔ اقتصاد کو اگرراست روی کے معنی میں لیا جائے تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ اُن میں سے کم ہی ایسے نکلتے ہیں جو وہ وقت گزر جانے کے بعد بھی اُس توحید پر ثابت قدم رہتے ہیں جس کا اقرار انہوں نے طوفان میں گھر کرکیا تھا اور یہ سبق ہمیشہ کے لیے ان کو راست رو بنا د یتا ہے۔ اور اگراقتصاد بمعنی توسُّط واعتدال لیا جائے تواس کا ایک مطلب یہ ہو گا کہ ان میں سے بعض لوگ اپنے شر ودہریّت کے عقیدے میں اُس شدّت پر قائم نہیں رہتے جس پراس تجربے سے پہلے تھے، اور دوسرا مطلب یہ ہو گا کہ وہ وقت گزر جانے کے بعد ان میں سے بعض لوگوں کے اندر اخلاص کی وہ کیفیت ٹھنڈی پڑ جاتی ہے جواس وقت پیدا ہوئی تھی۔ اغلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے یہاں یہ ذو معنی فقرہ بیک وقت ان تینوں کیفیتوں کی طرف اشارہ کرنے کے لیےاستعمال فرمایا ہو۔ مدّعا غالباً یہ بتانا ہے کہ بحری طوفان کے وقت تو سب کا دماغ درستی پرآجاتا ہے اورشرک و دہریّت کو چھوڑ کر سب کے سب خدائے واحد کو مدد کے لیے پُکارنا شروع کردیتے ہیں۔ لیکن خیریت سے ساحل پر پہنچ جانے کے بعد ایک قلیل تعداد ہی ایسی نکلتی ہے جس نےاس تجربے سے کوئی پائدار سبق حاصل کیا ہو۔ پھر یہ قلیل تعداد بھی تین قسم کے گروہوں میں بٹ جاتی ہے۔ ایک وہ جو ہمیشہ کے لیے سیدھا ہو گیا۔ دوسرا وہ جس کا کفر کچھ اعتدال پر آگیا۔ تیسری وہ جس کے اندر حس ہنگامی اخلا ص میں سے کچھ نہ کچھ باقی رہ گیا۔ |
Surah 39 : Ayat 8
۞ وَإِذَا مَسَّ ٱلْإِنسَـٰنَ ضُرٌّ دَعَا رَبَّهُۥ مُنِيبًا إِلَيْهِ ثُمَّ إِذَا خَوَّلَهُۥ نِعْمَةً مِّنْهُ نَسِىَ مَا كَانَ يَدْعُوٓاْ إِلَيْهِ مِن قَبْلُ وَجَعَلَ لِلَّهِ أَندَادًا لِّيُضِلَّ عَن سَبِيلِهِۦۚ قُلْ تَمَتَّعْ بِكُفْرِكَ قَلِيلاًۖ إِنَّكَ مِنْ أَصْحَـٰبِ ٱلنَّارِ
انسان پر جب کوئی آفت آتی ہے1 تو وہ اپنے رب کی طرف رجوع کر کے اُسے پکارتا ہے2 پھر جب اس کا رب اسے اپنی نعمت سے نواز دیتا ہے تو وہ اُس مصیبت کو بھول جاتا ہے جس پر وہ پہلے پکار رہا تھا 3اور دوسروں کو اللہ کا ہمسر ٹھیراتا ہے4 تاکہ اُس کی راہ سے گمراہ کرے5 (اے نبیؐ) اُس سے کہو کہ تھوڑے دن اپنے کفر سے لطف اٹھا لے، یقیناً تو دوزخ میں جانے والا ہے
5 | یعنی خود گمراہ ہونے پر اکتفا نہیں کرتا بلکہ دوسروں کو بھی یہ کہہ کہہ کر گمراہ کرتا ہے کہ جو آفت مجھ پر آئی تھی وہ فلاں حضرت یا فلاں دیوی یا دیوتا کے صدقے میں ٹل گئی۔ اس سے دوسرے بہت سے لوگ بھی ان معبود ان غیراللہ کے معتقد بن جاتے ہیں اور ہر جاہل اپنے اسی طرح کے تجربات بیان کر کر کے عوام کی اس گمراہی کو بڑھاتا چلا جاتا ہے۔ |
4 | یعنی پھر دوسروں کی بندگی کرنے لگتا ہے۔ انہی کی اطاعت کرتا ہے، انہی سے دعائیں مانگتا ہے، اور انہی کے آگے نذر و نیاز پیش کرنا شروع کر دیتا ہے۔ |
3 | یعنی وہ بُرا وقت پھر اسے یاد نہیں رہتا جس میں وہ تمام دوسرے معبودوں کو چھوڑ کر صرف اللہ وحدہٗ لاشریک سے دعائیں مانگ رہا تھا |
2 | یعنی اس وقت اسے وہ دوسرے معبود یاد نہیں آتے جنہیں وہ اپنے اچھے حال میں پکارا کرتا تھا، بلکہ ان سب سے مایوس ہو کر وہ صرف اللہ ربّ العالمین کی طرف رجوع کرتا ہے۔ یہ گویا اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ اپنے دل کی گہرائیوں میں دوسرے معبودوں کے بے اختیار ہونے کا احساس رکھتا ہے اور اس حقیقت کا شعور بھی اس کے ذہن میں کہیں نہ کہیں دبا چھپا موجود ہے کہ اصل اختیارات کا مالک اللہ ہی ہے |
1 | انسان سے مراد یہاں وہ کافر انسان ہے جس نے ناشکری کی روش اختیار کر رکھی ہو |