Ayats Found (5)
Surah 2 : Ayat 186
وَإِذَا سَأَلَكَ عِبَادِى عَنِّى فَإِنِّى قَرِيبٌۖ أُجِيبُ دَعْوَةَ ٱلدَّاعِ إِذَا دَعَانِۖ فَلْيَسْتَجِيبُواْ لِى وَلْيُؤْمِنُواْ بِى لَعَلَّهُمْ يَرْشُدُونَ
اور اے نبیؐ، میرے بندے اگر تم سے میرے متعلق پوچھیں، تو اُنہیں بتا دو کہ میں ان سے قریب ہی ہوں پکارنے والا جب مجھے پکارتا ہے، میں اُس کی پکار سنتا اور جواب دیتا ہوں لہٰذا انہیں چاہیے کہ میری دعوت پر لبیک کہیں اور مجھ پر ایمان لائیں یہ بات تم اُنہیں سنا دو، شاید کہ وہ راہ راست پالیں2
2 | یعنی تمہارے ذریعے سے یہ حقیقتِ حال معلوم کر کے اُن کی آنکھیں کھُل جائیں اور وہ اس صحیح رویّے کی طرف آجائیں ، جس میں ان کی اپنی ہی بھلائی ہے |
Surah 6 : Ayat 41
بَلْ إِيَّاهُ تَدْعُونَ فَيَكْشِفُ مَا تَدْعُونَ إِلَيْهِ إِن شَآءَ وَتَنسَوْنَ مَا تُشْرِكُونَ
ا س وقت تم اللہ ہی کو پکارتے ہو، پھر اگر وہ چاہتا ہے تو اس مصیبت کو تم پر سے ٹال دیتا ہے ایسے موقعوں پر تم اپنے ٹھیرائے ہوئے شریکوں کو بھول جاتے ہو1
1 | گزشتہ آیت میں ارشاد ہوا تھا کہ تم ایک نشانی کا مطالبہ کرتے ہو اور حال یہ ہے کہ تمہارے گرد و پیش ہر طرف نشانیاں ہی نشانیاں پھیلی ہوئی ہیں ۔ اس سلسلہ میں پہلے مثال کے طور پر حیوانات کی زندگی کے مشاہدہ کی طرف توجّہ دلائی گئی۔ اس کے بعد اب ایک دُوسری نشانی کی طرف اشارہ فرمایا جا رہا ہے جو خود منکرینِ حق کے اپنے نفس میں موجود ہے ۔ جب انسان پر کوئی آفت آجاتی ہے ، یا موت اپنی بھیانک صُورت کے ساتھ سامنے آکھڑی ہوتی ہے ، اُس وقت ایک خدا کے دامن کے سوا کوئی دُوسری پناہ گاہ اُسے نظر نہیں آتی۔ بڑے بڑے مشرک ایسے موقع پر اپنے معبُودوں کو بھُول کر خدائے واحد کو پکارنے لگتے ہیں۔ کٹّے سے کٹّا دہریہ تک خدا کے آگے دُعا کے لیے ہاتھ پھیلا دیتا ہے۔ اسی نشانی کو یہاں حق نمائی کے لیے پیش کیا جا رہا ہے، کیونکہ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ خدا پرستی اور توحید کی شہادت ہر انسان کے نفس میں موجود ہے جس پر غفلت و جہالت کے خواہ کتنے ہی پردے ڈال دیے گئے ہوں ، مگر پھر بھی کبھی نہ کبھی وہ اُبھر کر سامنے آجاتی ہے۔ ابُو جہل کے بیٹے عِکْرِمہ کو اسی نشانی کے مشاہدے سے ایمان کی توفیق نصیب ہوئی۔ جب مکۂ معظمہ نبی صلی علیہ وسلم کے ہاتھ پر فتح ہو گیا تو عِکْرِمہ جدّہ کی طرف بھاگے اور ایک کشتی پر سوار ہو کر حبش کی راہ لی۔ راستہ میں سخت طوفان آیا اور کشتی خطرہ میں پڑگئی۔ اوّل اوّل تو دیویوں اور دیوتاؤں کو پکارا جاتا رہا۔ مگر جب طوُفان کی شدّت بڑھی اور مسافروں کو یقین ہو گیا کہ اب کشتی ڈوب جائے گی تو سب کہنے لگے کہ یہ وقت اللہ کے سوا کسی کو پکارنے کا نہیں ہے، وہی چاہے تو ہم بچ سکتے ہیں۔ اُس وقت عِکْرِمہ کی آنکھیں کھُلیں اور ان کے دل نے آواز دی کہ اگر یہاں اللہ کے سوا کوئی مددگار نہیں تو کہیں اور کیوں ہو۔ یہی تو وہ بات ہے جو اللہ کا وہ نیک بندہ ہمیں بِیس برس سے سمجھا رہا ہے اور ہم خواہ مخواہ اس سے لڑ رہے ہیں۔ یہ عِکْرِمہ کی زندگی میں فیصلہ کُن لمحہ تھا۔ انہوں نے اسی وقت خدا سے عہد کیا کہ اگر میں اس طوفان سے بچ گیا تو سیدھا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جاؤں گا اور ان کے ہاتھ میں ہاتھ دے دوں گا۔ چنانچہ انہوں نے اپنے اس عہد کو پُورا کیا اور بعد میں آکر نہ صرف مسلمان ہوئے بلکہ اپنی بقیہ عمر اسلام کے لیے جہاد کرتے گزار دی |
Surah 13 : Ayat 14
لَهُۥ دَعْوَةُ ٱلْحَقِّۖ وَٱلَّذِينَ يَدْعُونَ مِن دُونِهِۦ لَا يَسْتَجِيبُونَ لَهُم بِشَىْءٍ إِلَّا كَبَـٰسِطِ كَفَّيْهِ إِلَى ٱلْمَآءِ لِيَبْلُغَ فَاهُ وَمَا هُوَ بِبَـٰلِغِهِۦۚ وَمَا دُعَآءُ ٱلْكَـٰفِرِينَ إِلَّا فِى ضَلَـٰلٍ
اسی کو پکارنا برحق ہے1 رہیں وہ دوسری ہستیاں جنہیں اس کو چھوڑ کر یہ لوگ پکارتے ہیں، وہ اُن کی دعاؤں کا کوئی جواب نہیں دے سکتیں اُنہیں پکارنا تو ایسا ہے جیسے کوئی شخص پانی کی طرف ہاتھ پھیلا کر اُس سے درخواست کرے کہ تو میرے منہ تک پہنچ جا، حالانکہ پانی اُس تک پہنچنے والا نہیں بس اِسی طرح کافروں کی دعائیں بھی کچھ نہیں ہیں مگر ایک تیر بے ہدف!
1 | پکارنے سے مراد اپنی حاجتوں میں مد د کے لیے پکارنا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ حاجت روائی و مشکل کشائی کے سارے اختیارات اسی کے ہاتھ میں ہیں، اس لیے صرف اُسی سے دعائیں مانگنا بر حق ہے |
Surah 27 : Ayat 62
أَمَّن يُجِيبُ ٱلْمُضْطَرَّ إِذَا دَعَاهُ وَيَكْشِفُ ٱلسُّوٓءَ وَيَجْعَلُكُمْ خُلَفَآءَ ٱلْأَرْضِۗ أَءِلَـٰهٌ مَّعَ ٱللَّهِۚ قَلِيلاً مَّا تَذَكَّرُونَ
کون ہے جو بے قرار کی دعا سنتا ہے جبکہ وہ اُسے پکارے اور کون اس کی تکلیف رفع کرتا ہے؟1 اور (کون ہے جو) تمہیں زمین کا خلیفہ بناتا ہے؟2 کیا اللہ کے ساتھ کوئی اور خدا بھی (یہ کام کرنے والا) ہے؟ تم لوگ کم ہی سوچتے ہو
2 | اس کے دومعنی ہیں۔ ایک یہ کہ ایک نسل کے بعد دوسری نسل اورایک قوم کے بعد دوسری قوم اٹھاتاہے دوسرے یہ کہ تم کوزمین میں تصرف اورفرمانروائی کے اختیارات عطاکرتا ہے۔ |
1 | مشرکین عرب خود اس بات کوجا نتے اور مانتے تھے کہ مصیبت کوٹالنے والا حقیقت میں اللہ ہی ہے چنانچہ قرآن مجید جگہ جگہ انہیں یاد دلاتا ہے کہ جب تم پر کوئی سخت وقت آتا ہے تو تم خداہی سے فریاد کرتے ہو، مگر جب وہ وقت ٹل جاتا ہے تو خدا کے ساتھ دوسروں کوشریک کرنے لگتے ہو(تفصیل کےلیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد اول الانعام ، حواشی۲۹۔۴۱۔ جلد دوم، یونس، آیات ۲۱۔۲۲۔ حاشیہ ۳۱۔ النحل، حاشیہ ۴۶۔ بنی اسرئیل حاشیہ ۸۴۔اورعرب ہی تک محدود نہیں ہے۔ دنیا بھر کے مشرکین کابالعموم یہی حال ہے۔ حتیٰ کہ روس کے منکرین خدا جنہوں نے خدا پرستی کے خلاف ایک باقاعدہ مہم چلارکھی ہے، اُن پر بھی جب گزشتہ جنگ عظیمک میں جرمن فوجوں کا نرغہ سخت ہوگیا تو انہیں خدا کوپکارنے کی ضرورت محسوس ہوگئی تھی۔ |
Surah 23 : Ayat 60
وَٱلَّذِينَ يُؤْتُونَ مَآ ءَاتَواْ وَّقُلُوبُهُمْ وَجِلَةٌ أَنَّهُمْ إِلَىٰ رَبِّهِمْ رَٲجِعُونَ
اور جن کا حال یہ ہے کہ دیتے ہیں جو کچھ بھی دیتے ہیں اور دل اُن کے اس خیال سے کانپتے رہتے ہیں کہ ہمیں اپنے رب کی طرف پلٹنا ہے1
1 | عربی زبان میں ’’ دینے ‘‘ (یتاء) کا لفظ صرف مال یا کوئی مادی چیز دینے ہی کے معنی میں استعمال نہیں ہوتا بلکہ معنوی چیزیں دینے کے معنی میں بھی بولا جاتا ہے ، مثلاً کسی شخص کی اطاعت قبول کر لینے کے لیے کہتے ہیں کہ اٰتیتہٗ من نفسی القبول کسی شخص کی اطاعت سے انکار کر دینے کے لیے کہتے ہیں اٰتیتہ من نفسی الابائۃ۔ پس اس دینے کا مطلب صرف یہی نہیں ہے کہ وہ راہ خدا میں مال دیتے ہیں ، بلکہ اس کا مطلب اللہ کے حضور طاعت و بندگی پیش کرنے پر بھی حاوی ہے۔ اس معنی کے لحاظ سے آیت کا پورا مفہوم یہ ہوا کہ وہ اللہ کی فرمانبرداری میں جو کچھ بھی نیکیاں کرتے ہیں ،جو کچھ بھی خدمات انجام دیتے ہیں ، جو کچھ بھی قربانیاں کرتے ہیں ، ان پر وہ پھولتے نہیں ہیں ، غرور تقویٰ اور پندار خدا رسیدگی میں مبتلا نہیں ہوتے ، بلکہ اپنے مقدور بھر سب کچھ کر کے بھی ڈرتے رہتے ہیں کہ خدا جانے یہ قبول ہو یا نہ ہو، ہماری گناہوں کے مقابلے میں وزنی ثابت ہو یا نہ ہو ، ہمارے رب کے ہاں ہماری مغفرت کے لیے کافی ہو یا نہ ہو، یہی مطلب ہے جس پر وہ حدیث روشنی ڈالتی ہے جو احمد ، ترمذی، ابن ماجہ ، حاکم اور ابن جریر نے نقل کی ہے کہ حضرت عائشہؓ نے نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے دریافت کیا ’’یا رسول اللہ ! کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ ایک شخص چوری اور زنا اور شراب نوشی کرتے ہوئے اللہ سے ڈرے ‘‘؟ اس سوال سے معلوم ہوا کہ حضرت عائشہ اسے : یَأ تُوْنَ مَا اَتَوْا کے معنی میں لے رہی تھیں ، یعنی ’’ کرتے ہیں جو کچھ بھی کرتے ہیں ‘‘۔ جواب میں نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا : لا یابنت الصدیق و لٰکنہ الذی یصلی و یصوم و یتصدق وھو یخاف اللہ عزو جلّ، ’’ نہیں ، اے صدیق کی بیٹی اس سے مراد وہ شخص ہے جو نماز پڑھتا ہے ، روزے رکھتا ہے ، زکوٰۃ دیتا ہے اور پھر اللہ عزوجل سے ڈرتا رہتا ہے ‘‘۔ اس جواب سے پتہ چلا کہ آیت کی صحیح قرأت : یَأتُوْ نَ نہیں بلکہ یُؤْ تُوْنَ ہے ، اور یہ یُؤْتُوْنَ صرف مال دینے کے محدود معنی میں نہیں ہے بلکہ طاعت بجالانے کے وسیع معنی میں ہے۔ یہ آیت بتاتی ہے کہ ایک مومن کس قلبی کیفیت کے ساتھ اللہ کی بندگی کرتا ہے۔ اس کی مکمل تصویر حضرت عمرؓ کی وہ حالت ہے کہ عمر بھر کی بے نظیر خدمات کے بعد جب دنیا سے رخصت ہونے لگتے ہیں تو خدا کے محاسبے سے ڈرتے ہوئے جاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اگر آخرت میں برابر سرابر بھی چھوٹ جاؤں تو غنیمت ہے۔ حضرت حسن بصریؒ نے خوب کہا ہے کہ مومن طاعت کرتا ہے پھر بھی ڈرتا رہتا ہ، اور منافق معصیت کرتا ہے پر بھی بے خوف رہتا ہے |