Ayats Found (5)
Surah 7 : Ayat 29
قُلْ أَمَرَ رَبِّى بِٱلْقِسْطِۖ وَأَقِيمُواْ وُجُوهَكُمْ عِندَ كُلِّ مَسْجِدٍ وَٱدْعُوهُ مُخْلِصِينَ لَهُ ٱلدِّينَۚ كَمَا بَدَأَكُمْ تَعُودُونَ
اے محمدؐ، ان سے کہو، میرے رب نے تو راستی و انصاف کا حکم دیا ہے، اور اس کا حکم تو یہ ہے کہ ہر عبادت میں اپنا رخ ٹھیک رکھو اور اُسی کو پکارو اپنے دین کو اس کے لیے خالص رکھ کر جس طرح اُس نے تمہیں اب پیدا کیا ہے اسی طرح تم پھر پیدا کیے جاؤ گے1
1 | مطلب یہ ہے کہ خدا کے دین کو تمہار ی ان بیہودہ رسموں سے کیا تعلق۔ اُس نے جس دین کی تعلیم دی ہے اس کے بنیادی اصول تو یہ ہیں کہ : (١) انسان اپنی زندگی کو عدل وراستی کی بنیاد پر قائم کرے، (۲) عبادت میں اپنا رُخ ٹھیک رکھے، یعنی خد ا کے سوا کسی اور کی بندگی کا شا ئبہ تک اس کی عبادت میں نہ ہو، معبود حقیقت کے سوا کسی دوسرے کی طر ف اطاعت و غلامی اور عجزونیا ز کارُخ ذرا نہ پھرنے پائے، (۳)رہنمائی اور تائید و نصرت اور نگہبانی و حفاظت کے لیے خدا ہی سے دُعا مانگے، مگر شرط یہ ہے کہ اس چیز کی دُعا مانگنے والا آدمی پہلے اپنے دین کو خدا کے لیے خالص کر چکا ہو۔ یہ نہ ہو کہ زندگی کا سارا نظام تو کفر و شرک اور معصیّت اور بندگیِ اغیار پر چلا یا جا رہا ہو اور مدد خدا سے مانگی جائے کہ اے خدا ، یہ بغاوت جو ہم تجھ سے کر رہے ہیں اس میں ہماری مدد فرما۔ (۴) اور اس بات پر یقین رکھے کہ جس طرح اس دنیا میں وہ پیدا ہوا ہے اسی طرح ایک دوسرے عالم میں بھی اس کو پیدا کیا جائے گا اور اسے اپنے اعمال کا حساب خدا کودینا ہوگا |
Surah 7 : Ayat 194
إِنَّ ٱلَّذِينَ تَدْعُونَ مِن دُونِ ٱللَّهِ عِبَادٌ أَمْثَالُكُمْۖ فَٱدْعُوهُمْ فَلْيَسْتَجِيبُواْ لَكُمْ إِن كُنتُمْ صَـٰدِقِينَ
تم لوگ خدا کو چھوڑ کر جنہیں پکارتے ہو وہ تو محض بندے ہیں جیسے تم بندے ہو ان سے دعائیں مانگ دیکھو، یہ تمہاری دعاؤں کا جواب دیں اگر ان کے بارے میں تمہارے خیالات صحیح ہیں
Surah 25 : Ayat 77
قُلْ مَا يَعْبَؤُاْ بِكُمْ رَبِّى لَوْلَا دُعَآؤُكُمْۖ فَقَدْ كَذَّبْتُمْ فَسَوْفَ يَكُونُ لِزَامَۢا
اے محمدؐ، لوگوں سے کہو 1"میرے رب کو تمہاری کیا حاجت پڑی ہے اگر تم اس کو نہ پکارو اب کہ تم نے جھٹلا دیا ہے، عنقریب وہ سزا پاؤ گے کہ جان چھڑانی محال ہو گی"
1 | یعنی اگر تم اللہ سے دعائیں نہ مانگو ، اور اس کی عبادت نہ کرو، اور اپنی حاجات کے لیے اس کو مدد کے لیے نہ پکارو، تو پھر تمہارا کوئی وزن بھی اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں نہیں ہے جس کی وجہ سے وہ پر کاہ کے برابر بھی تمہاری پروا کرے ۔ محض مخلوق ہونے کی حیثیت سے تم میں اور پتھروں میں کوئی فرق نہیں ۔ تم سے اللہ کی کوئی حاجت اٹکی ہوئی نہیں ہے کہ تم بندگی نہ کرو گے تو اس کا کوئی کام رکا رہ جائے گا۔ اس کی نگاہ التفات کو جو چیز تمہاری طرف مائل کرتی ہے وہ تمہارا اس کی طرف ہاتھ پھیلانا اور اس سے دعائیں مانگنا ہی ہے ۔ یہ کام نہ کرو گے تو کوڑے کرکٹ کی طرح پھینک دیے جاؤ گے |
Surah 23 : Ayat 14
ثُمَّ خَلَقْنَا ٱلنُّطْفَةَ عَلَقَةً فَخَلَقْنَا ٱلْعَلَقَةَ مُضْغَةً فَخَلَقْنَا ٱلْمُضْغَةَ عِظَـٰمًا فَكَسَوْنَا ٱلْعِظَـٰمَ لَحْمًا ثُمَّ أَنشَأْنَـٰهُ خَلْقًا ءَاخَرَۚ فَتَبَارَكَ ٱللَّهُ أَحْسَنُ ٱلْخَـٰلِقِينَ
پھر اس بوند کو لوتھڑے کی شکل دی، پھر لوتھڑے کو بوٹی بنا دیا، پھر بوٹی کی ہڈیاں بنائیں، پھر ہڈیوں پر گوشت چڑھایا1، پھر اسے ایک دوسری ہی مخلوق بنا کھڑا کیا2
2 | یعنی کوئی خالی الذہن آدمی بچے کو ماں کے رحم میں پرورش پاتے تدیکھ کر یہ تصور بھی نہیں کر سکتا کہ یہاں وہ انسان تیار ہو رہا ہے جو باہر جا کر عقل اور دانائی اور صنعت کے یہ کچھ کمالات دکھاۓ گا اور ایسی ایسی حیرت انگیز قوتیں اور صلاحیتیں اس سے ظاہر ہوں گی۔ وہاں وہ ہڈیوں اور گوشت پوت کا ایک پلندا سا ہوتا ہے جس میں وضع حمل کے آغاز تک زندگی کی ابتدائی خصوصیات کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔ نہ سماعت، نہ بصارت ، نہ گویائی، نہ عقل و خرد، نہ اور کوئی خوبی۔ مگر باہر آ کر وہ چیز ہی کچھ اور بن جاتا ہے جس کو پیٹ والے جنین سے کوئی مناسبت نہیں ہوتی۔ اب وہ ایک سمیع و بصیر اور ناطق وجود ہوتا ہے۔ اب وہ تجربے اور مشاہدے سے علم حاصل کرتا ہے۔ اب اس کے اندر ایک ایسی خودی ابھرنی شروع ہوتی ہے جو بیداری کے پہلے ہی لمحہ سے اپنی دسترس کی ہر چیز پر تحکم جتاتی اور اپنا زور منوانے کی کوشش کرتی ہے۔ پھر وہ جوں جوں بڑھتا جاتا ہے ، اس کی ذات میں یہ ’’چیزے دیگر ‘‘ ہونے کی کیفیت نمایاں تر اور افزوں تر ہوتی چلی جاتی ہے۔ جوان ہوتا ہے تو بچپن کی بہ نسبت کچھ اور ہوتا ہے۔ ادھیڑ ہوتا ہے تو جوانی کے مقابلے میں کوئی اور چیز ثابت ہوتا ہے۔ بڑھاپے کو پہنچتا ہے تو نئی نسلوں کے لیے یہ اندازہ کرنا بھی مشکل ہو جاتا ہے کہ اس کا بچپن کیا تھا اور جوانی کیسی تھی۔ اتنا بڑا تغیر کم از کم اس دنیا کی کسی دوسری مخلوق میں واقع نہیں ہوتا۔ کوئی شخص ایک طرف کسی پختہ عمر کے انسان کی طاقتیں اور قابلیتیں اور کام دیکھے ، اور دوسری طرف یہ تصور کرے کہ پچاس ساٹھ برس پہلے ایک روز جو بوند ٹپک کر رحم مادر میں گری تھی اس کے اندر یہ کچھ بھرا ہوا تھا، تو بے اختیار اس کی زبان سے وہی بات نکلے گی جو آگے کے فقرے میں آ رہی ہے |
1 | تشریح کے لیے ملاحظہ ہوں سورہ حج کے حواشی 5۔ 6۔9 |
Surah 23 : Ayat 65
لَا تَجْــَٔرُواْ ٱلْيَوْمَۖ إِنَّكُم مِّنَّا لَا تُنصَرُونَ
اب بند کرو اپنی فریاد و فغاں، ہماری طرف سے اب کوئی مدد تمہیں نہیں ملنی