Ayats Found (18)
Surah 6 : Ayat 123
وَكَذَٲلِكَ جَعَلْنَا فِى كُلِّ قَرْيَةٍ أَكَـٰبِرَ مُجْرِمِيهَا لِيَمْكُرُواْ فِيهَاۖ وَمَا يَمْكُرُونَ إِلَّا بِأَنفُسِهِمْ وَمَا يَشْعُرُونَ
اور اسی طرح ہم نے ہر بستی میں اس کے بڑے بڑے مجرموں کو لگا دیا ہے کہ وہاں اپنے مکر و فریب کا جال پھیلائیں دراصل وہ اپنے فریب کے جال میں آپ پھنستے ہیں، مگر اُنہیں اس کا شعور نہیں ہے
Surah 7 : Ayat 30
فَرِيقًا هَدَىٰ وَفَرِيقًا حَقَّ عَلَيْهِمُ ٱلضَّلَـٰلَةُۗ إِنَّهُمُ ٱتَّخَذُواْ ٱلشَّيَـٰطِينَ أَوْلِيَآءَ مِن دُونِ ٱللَّهِ وَيَحْسَبُونَ أَنَّهُم مُّهْتَدُونَ
ایک گروہ کوتو اس نے سیدھا راستہ دکھا دیا ہے، مگر دوسرے گروہ پر گمراہی چسپاں ہو کر رہ گئی ہے، کیونکہ انہوں نے خدا کے بجائے شیاطین کو اپنا سر پرست بنا لیا ہے اور وہ سمجھ رہے ہیں کہ ہم سیدھی راہ پر ہیں
Surah 9 : Ayat 37
إِنَّمَا ٱلنَّسِىٓءُ زِيَادَةٌ فِى ٱلْكُفْرِۖ يُضَلُّ بِهِ ٱلَّذِينَ كَفَرُواْ يُحِلُّونَهُۥ عَامًا وَيُحَرِّمُونَهُۥ عَامًا لِّيُوَاطِــُٔواْ عِدَّةَ مَا حَرَّمَ ٱللَّهُ فَيُحِلُّواْ مَا حَرَّمَ ٱللَّهُۚ زُيِّنَ لَهُمْ سُوٓءُ أَعْمَـٰلِهِمْۗ وَٱللَّهُ لَا يَهْدِى ٱلْقَوْمَ ٱلْكَـٰفِرِينَ
نسی تو کفر میں ایک مزید کافرانہ حرکت ہے جس سے یہ کافر لوگ گمراہی میں مبتلا کیے جاتے ہیں کسی سال ایک مہینے کو حلال کر لیتے ہیں اور کسی سال اُس کو حرام کر دیتے ہیں، تاکہ اللہ کے حرام کیے ہوئے مہینوں کی تعداد پوری بھی کر دیں اور اللہ کا حرام کیا ہوا حلال بھی کر لیں1 ان کے برے اعمال ان کے لیے خوشنما بنا دیے گئے ہیں اور اللہ منکرین حق کو ہدایت نہیں دیا کرتا
1 | عرب میں نَسِی دو طرح کی تھی ۔ اس کی ایک صورت تو یہ تھی کہ جنگ و جدل اور غارت گری اور خون کے انتقام لینے کی خاطر کسی حرام مہینے کو حلال قرار دے لیتے تھے اور اس کے بدلے میں کسی حلال مہینے کو حرام کر کے حرام مہینوں کی تعداد پوری کر دیتے تھے۔ دوسری صورت یہ تھی کہ قمری سال کو شمسی سال کے مطابق کرنے کے لیے اُس میں کبِیسہ کا ایک مہینہ بڑھا دیتے تھے ، تاکہ حج ہمیشہ ایک ہی موسم میں آتا رہے اور وہ اُن زحمتوں سے بچ جائیں جو قمری حساب کےمطابق مختلف موسموں میں حج کے گردش کرتے رہنے سے پیش آتی ہیں۔ اس طرح ۳۳ سال تک حج اپنے اصلی وقت کے خلاف دوسری تاریخوں میں ہو تا رہتا تھا اور صرف چونتیسویں سال ایک مرتبہ اصل ذی الحجہ کی ۹ – ۱۰ تاریخ کو ادا ہوتا تھا ۔ یہی وہ بات ہے جو حجۃ الوداع کے موقع پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنےخطبہ میں فرمائی تھی کہ ان الزمان قد استدار کھیئتہ یوم خلق اللہ السمٰوٰت والارض۔ یعنی اِس سال حج کا وقت گردش کرتا ہو اٹھیک اپنی اس تاریخ پر آگیا ہے جو قدرتی حساب سے اس کی اصل تاریخ ہے۔ اس آیت میں نَسی کو حرام اور ممنوع قرار دےکر جہلائے عرب کی ان دونوں اغراض کو باطل کر دیا گیا ہے ۔ پہلی غرض تو ظاہر ہے کہ صریح طور پر ایک گناہ تھی۔ اُس کے تو معنی ہی یہ تھے کہ خداکے حرام کیے ہوئے کو حلا ل بھی کر لیا جائے اور پھر حیلہ بازی کر کے پابندی قانون کی ظاہری شکل بھی بنا کر رکھ دی جائے۔ رہی دوسری غرض تو سرسری نگاہ میں وہ معصوم اور مبنی بر مصلحت نظر آتی ہے ، لیکن درحقیقت وہ بھی خدا کے قانون سے بدترین بغاوت تھی۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے عائد کردہ فرائض کے لیے شمسی حساب کے بجائے قمری حساب جن اہم مصالح کی بنا پر اختیار کیا ہے ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ اس کے بندے زمانے کی تما م گردشوں میں، ہر قسم کے حالات اور کیفیات میں اُس کے احکام کی اطاعت کے خوگر ہوں۔ مثلاً رمضان ہے، تو وہ کبھی گرمی میں اور کبھی برسات میں اور کبھی سردیوں میں آتا ہے، اور اہلِ ایمان اِن سب بدلتے ہوئے حالات میں روزے رکھ کر فرمانبرداری کا ثبوت بھی دیتے ہیں اور بہترین اخلاقی تربیت بھی پاتے ہیں ۔ اسی طرح حج بھی قمری حساب سے مختلف موسموں میں آتا ہے اور ان سب طرح کے اچھے اور بُرے حالات میں خدا کی رضا کے لیے سفر کر کے بندے اپنے خدا کی آزمائش میں پورے بھی اُترتے ہیں اور بندگی میں پختگی بھی حاصل کرتے ہیں۔ اب اگر کوئی گروہ اپنے سفر اور اپنی تجارت اور اپنے میلوں ٹھیلوں کی سہولت کی خاطر حج کو کسی خوشگوار موسم میں ہمیشہ کے لیے قائم کر دے ، تو یہ ایسا ہی ہے جیسے مسلمان کوئی کانفرنس کر کے طے کر لیں کہ آئندہ سے رمضان کا مہینہ دسمبر یا جنوری کے مطابق کر دیا جائے گا۔ اس کے صاف معنی یہ ہیں کہ بندوں نے اپنے خدا سے بغاوت کی اور خودمختار بن بیٹھے۔ اسی چیز کا نام کفر ہے ۔ علاوہ بریں ایک عالمگیر دین جو سب انسانوں کے لیے ہے، آخر کس شمسی مہینے کو روزے اور حج کے لیے مقرر کرے؟ جو مہینہ بھی مقرر کیا جائے گا وہ زمین کے تمام باشندوں کے لیے یکساں سہولت کا موسم نہیں ہو سکتا۔ کہیں وہ گر می کا زمانہ ہو گا اور کہیں سردی کا ۔ کہیں وہ بارشوں کا موسم ہوگا اور کہیں خشکی کا۔ کہیں فصلیں کاٹنے کا زمانہ ہوگا اور کہیں بونے کا۔ یہ بات بھی ملحوظ خاطر رہے کہ نسی کی منسُوخی کا یہ اعلان سن ۹ ھجری کے حج کے موقع پر کیا گیا۔ اور اگلے سال سن ۱۰ ھجری کا حج ٹھیک اُن تاریخوں میں ہُوا جو قمری حساب کے مطابق تھیں۔ اس کے بعد سے آج تک حج اپنی صحیح تاریخوں میں ہورہا ہے |
Surah 10 : Ayat 12
وَإِذَا مَسَّ ٱلْإِنسَـٰنَ ٱلضُّرُّ دَعَانَا لِجَنۢبِهِۦٓ أَوْ قَاعِدًا أَوْ قَآئِمًا فَلَمَّا كَشَفْنَا عَنْهُ ضُرَّهُۥ مَرَّ كَأَن لَّمْ يَدْعُنَآ إِلَىٰ ضُرٍّ مَّسَّهُۥۚ كَذَٲلِكَ زُيِّنَ لِلْمُسْرِفِينَ مَا كَانُواْ يَعْمَلُونَ
انسان کا حال یہ ہے کہ جب اس پر کوئی سخت وقت آتا ہے تو کھڑے اور بیٹھے اور لیٹے ہم کو پکارتا ہے، مگر جب ہم اس کی مصیبت ٹال دیتے ہیں تو ایسا چل نکلتا ہے کہ گویا اس نے کبھی اپنے کسی بُرے وقت پر ہم کو پکارا ہی نہ تھا اس طرح حد سے گزر جانے والوں کے لیے ان کے کرتوت خوشنما بنا دیے گئے ہیں
Surah 13 : Ayat 33
أَفَمَنْ هُوَ قَآئِمٌ عَلَىٰ كُلِّ نَفْسِۭ بِمَا كَسَبَتْۗ وَجَعَلُواْ لِلَّهِ شُرَكَآءَ قُلْ سَمُّوهُمْۚ أَمْ تُنَبِّــُٔونَهُۥ بِمَا لَا يَعْلَمُ فِى ٱلْأَرْضِ أَم بِظَـٰهِرٍ مِّنَ ٱلْقَوْلِۗ بَلْ زُيِّنَ لِلَّذِينَ كَفَرُواْ مَكْرُهُمْ وَصُدُّواْ عَنِ ٱلسَّبِيلِۗ وَمَن يُضْلِلِ ٱللَّهُ فَمَا لَهُۥ مِنْ هَادٍ
پھر کیا وہ جو ایک ایک متنفس کی کمائی پر نظر رکھتا ہے1 (اُس کے مقابلے میں یہ جسارتیں کی جا رہی ہیں2 کہ) لوگوں نے اُس کے کچھ شریک ٹھیرا رکھے ہیں؟ اے نبیؐ، اِن سے کہو (اگر واقعی وہ خدا کے اپنے بنائے ہوئے شریک ہیں تو) ذرا اُن کے نا م لو کہ وہ کون ہیں؟ کیا تم اللہ کو ایک نئی بات کی خبر دے رہے ہو جسے وہ اپنی زمین میں نہیں جانتا؟ یا تم لوگ بس یونہی جو منہ میں آتا ہے کہہ ڈالتے ہو؟3 حقیقت یہ ہے کہ جن لوگوں نے دعوت حق کو ماننے سے انکار کیا ہے ان کے لیے اُن کی مکاریاں4 خوشنما بنا دی گئی ہیں اور وہ راہ راست سے روک دیے گئے ہیں5، پھر جس کو اللہ گمراہی میں پھینک دے اُسے کوئی راہ دکھانے والا نہیں ہے
5 | یہ انسانی فطرت ہے کہ جب انسان ایک چیز کے مقابلےمیں دوسری چیز کو اختیار کرتا ہے تو اپنے نفس کو مطمئن کرنے کے لیے اور لوگوں کو اپنی راست روی کا یقین دلانے کے لیے اپنی اختیار کردہ چیز کو ہر طریقے سے استدلال کر کے صحیح ثابت کر نے کی کوشش کرتا ہے اور اپنی رد کردہ چیز کے خلاف ہر طرح کی باتیں چھانٹنی شروع کر دیتا ہے ۔ اسی بنا پر فرمایا گیا ہے کہ جب انہوں نےدعوتِ حق کو ماننے سے انکار کر دیا تو قانونِ فطرت کے مطابق ان کے لیے اُن کی گمراہی ، اور اُس گمراہی پر قائم رہنے کے لیے اُن کی مکّاری خوشنما بنا دی گئی اور اسی فطری قانون کے مطابق راہِ راست پر آنے سے روک دیے گئے |
4 | اس شرک کو مکّاری کہنے کی ایک وجہ یہ ہے کہ دراصل جن اجرامِ فلکی یا فرشتوں یا ارواح یا بزرگ انسانوں کو خدائی صفات و اختیارات کا حامل قرار دیا گیا ہے ، اور جن کو خدا کے مخصوص حقوق میں شریک بنا لیا گیا ہے ، ان میں سے کسی نے بھی کبھی نہ اِن صفا ت و اختیارات کا دعویٰ کیا ، نہ اِن حقوق کا مطالبہ کیا، اور نہ لوگوں کو یہ تعلیم دی کہ تم ہمارےآگے پرستش کے مراسم ادا کرو ہم تمہارے کام بنایا کریں گے۔ یہ تو چالاک انسانوں کا کام ہے کہ انہوں نے عوام پر اپنی خدائی کا سکّہ جمانے کے لیے اور ان کی کمائیوں میں حصہ بٹانے کے لیے کچھ بناوٹی خدا تصنیف کیے، لوگوں کو اُن کو معتقد بنایا اور اپنے آپ کو کسی نہ کسی طور پر اُن کا نمائندہ ٹھہرا کر اپنا اُلّو سیدھا کرنا شروع کر دیا۔ دوسری وجہ شریک کو مکر سے تعبیر کرنے کی یہ ہے کہ دراصل یہ ایک فریب ِ نفس ہے اور ایک چور دروازہ ہے جس کے ذریعے سے انسان دنیا پرستی کے لیے، اخلاقی بندشوں سے بچنے کے لیے اور غیر ذمہ دارانہ زندگی بسر کرنے کے لیے راہِ فرار نکالتا ہے۔ تیسری وجہ جس کی بنا پر مشرکین کے طرزِ عمل کو مکر سے تعبیر کیا گیا ہے آگے آتی ہے |
3 | یعنی اس کے شریک جو تم نے تجویز کر رکھے ہیں اُن کے معاملے میں تین ہی صورتیں ممکن ہیں: ایک یہ کہ تمہارے پا س کوئی مستند اطلاع آئی ہو کہ اللہ نے فلاں فلاں ہستیوں کو اپنی صفات ، یا اختیارات ، یا حقوق میں شریک قرار دیا ہے۔ اگر یہ صورت ہے تو ذرا براہِ کرم ہمیں بھی بتاؤ کہ وہ کون کو ن اصحاب ہیں اور اُن کو شریک ِ خدا مقرر کیے جانے کی اطلاع آپ حضرات کو کس ذریعہ سے پہنچی ہے۔ دوسری ممکن صورت یہ ہے کہ اللہ کو خود خبر نہیں ہے کہ زمین میں کچھ حضرات اُس کے شریک بن گئے ہیں اور اب آپ اس کو یہ اطلاع دینے چلے ہیں ۔ اگر یہ بات ہے تو صفائی کے ساتھ اپنی اس پوزیشن کا اقرار کر و۔ پھر ہم بھی دیکھ لیں گے کہ دنیا میں کتنے ایسے احمق نکلتے ہیں جو تمہارے اس سراسر لغو مسلک کی پیروی پر قائم رہتے ہیں۔ لیکن اگر یہ دونوں باتیں نہیں ہیں تو پھرتیسری ہی صورت باقی رہ جاتی ہے ، اور وہ یہ ہے کہ تم بغیر کسی سند اور بغیر کسی دلیل کے یونہی جس کو چاہتے ہو خدا کا رشتہ دار ٹھہرا لیتے ہو ، جس کو چاہتے ہو داتا اور فریاد رس کہہ دیتے ہو، اور جس کے متعلق چاہتے ہو دعویٰ کر دیتے ہو کہ فلاں علاقے کے سلطان فلاں صاحب ہیں اور فلاں کام حضرت کی تائید و امداد سے بر آتے ہیں |
2 | جسارتیں یہ کہ اس کے ہمسر اور مدِّ مقابل تجویز کیے جا رہے ہیں، اس کی ذات اور صفات اور حقوق میں اس کی مخلوق کو شریک کیا جا رہا ہے ، اور اس کی خدائی میں رہ کر لوگ یہ سمجھ رہے ہیں کہ ہم جو کچھ چاہیں کریں ہم سے کوئی باز پرس کر نے والا نہیں |
1 | یعنی جو ایک ایک شخص کے حال سے فردًا فردًا واقف ہے اور جس کی نگاہ سے نہ کسی نیک آدمی کی نیکی چھپی ہوئی ہے نہ کسی بد کی بدی |
Surah 18 : Ayat 103
قُلْ هَلْ نُنَبِّئُكُم بِٱلْأَخْسَرِينَ أَعْمَـٰلاً
اے محمدؐ، ان سے کہو، کیا ہم تمہیں بتائیں کہ اپنے اعمال میں سب سے زیادہ ناکام و نامراد لوگ کون ہیں؟
Surah 18 : Ayat 104
ٱلَّذِينَ ضَلَّ سَعْيُهُمْ فِى ٱلْحَيَوٲةِ ٱلدُّنْيَا وَهُمْ يَحْسَبُونَ أَنَّهُمْ يُحْسِنُونَ صُنْعًا
وہ کہ دنیا کی زندگی میں جن کی ساری سعی و جہد راہِ راست سے بھٹکی رہی1 اور وہ سمجھتے رہے کہ وہ سب کچھ ٹھیک کر رہے ہیں
1 | اس آیت کے دو مطلب ہو سکتے ہیں۔ ایک وہ جو ہم نے ترجمے میں اختیار کیا ہے۔ اور دوسرا یہ کہ ’’جن کی ساری سعی و جہد دنیا کی زندگی ہی میں گم ہو کر رہ گئی‘‘۔ یعنی انہوں نے جو کچھ بھی کیا خدا سے بے نیاز اور اور آخرت سے بے فکر ہو کر صرف دنیا کے لیے کیا۔ دنیوی زندگی ہی کو اصل زندگی سمجھا۔ دنیا کی کامیابیوں اور خوشحالیوں ہی کو اپنا مقصود بنایا۔ خدا کی ہستی کے اگر قائل ہوۓ بھی تو اس بات کی کبھی فکر نہ کی کہ اس کی رضا کیا ہے اور ہمیں کبھی اس کے حضور جا کر اپنے اعمال کا حساب بھی دینا ہے۔ اپنے آپ کو محض ایک خود مختار و غیر ذمہ دار حیوان عاقل سمجھتے رہے جس کے لیے دنیا کی اس چراگاہ سے تمتع کے سوا اور کوئی کام نہیں ہے۔ |
Surah 23 : Ayat 53
فَتَقَطَّعُوٓاْ أَمْرَهُم بَيْنَهُمْ زُبُرًاۖ كُلُّ حِزْبِۭ بِمَا لَدَيْهِمْ فَرِحُونَ
مگر بعد میں لوگوں نے اپنے دین کو آپس میں ٹکڑے ٹکڑے کر لیا ہر گروہ کے پاس جو کچھ ہے اُسی میں وہ مگن ہے1
1 | یہ محض بیان واقعہ ہی نہیں ہے بلکہ اس استدلال کی ایک کڑی بھی ہے جو آغاز سورہ سے چلا آ رہا ہے۔ دلیل کا خلاصہ یہ ہے کہ جب نوح علیہ السلام سے لے کر حضرت عیسیٰ تک تمام انبیاء یہی توحید اور عقیدہ آخرت کی تعلیم دیتے رہے ہیں ،تو لا محالہ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ نوع انسانی کا اصل دین یہی اسلام ہے ، اور دوسرے تمام مذاہب جو آج پائے جاتے ہیں وہ اسی کی بگڑی ہوئی صورتیں ہیں جو اس کی بعض صداقتوں کو مسخ کر کے اور اس کے اندر بعض من گھڑت باتوں کا اضافہ کر کے بنا لی گئی ہیں۔ اب اگر غلطی پر ہیں تو وہ لوگ ہیں جو ان مذاہب کے گرویدہ ہو رہے ہیں ، نہ کہ وہ جو ان کو چھوڑ کر اصل دین کی طرف بلا رہا ہے |
Surah 23 : Ayat 55
أَيَحْسَبُونَ أَنَّمَا نُمِدُّهُم بِهِۦ مِن مَّالٍ وَبَنِينَ
کیا یہ سمجھتے ہیں کہ ہم جو انہیں مال و اولاد سے مدد دیے جا رہے ہیں
Surah 23 : Ayat 54
فَذَرْهُمْ فِى غَمْرَتِهِمْ حَتَّىٰ حِينٍ
اچھا، تو چھوڑو انہیں، ڈوبے رہیں اپنی غفلت میں ایک وقت خاص تک1
1 | پہلے فقرے اور دوسرے فقرے کے درمیان ایک خلا ہے جسے بھرنے کے بجائے سامع کے تخیل پر چھوڑ دیا گیا ہے ، کیونکہ اس کو تقریر کا پس منظر خود بھر رہا ہے۔ پس منظر یہ ہے کہ خدا کا ایک بندہ پانچ چھ سل سے لوگوں کو اصل دین کی طرف بلا رہا ہے ، دلائل سے بات سمجھا رہا ہے ، تاریخ سے نظیر پیش کر رہا ہے ، اس کی دعوت کے اثرات و نتائج عملاً نگاہوں کے سامنے آ رہے ہیں ، اور پھر اس کا ذاتی کردار بھی اس امر کی ضمانت دے رہا ہے کہ وہ ایک قابل اعتماد آدمی ہے۔ مگر اس کے باوجود لوگ صرف یہی نہیں کہ اس باطل میں مگن ہیں جو ان کو باپ دادا سے ورثے میں ملا تھا، اور صرف اس حد تک بھی نہیں کہ وہ اس حق کو مان کر نہیں دیتے جو روشن دلائل کے ساتھ پیش کیا جا رہا ہے ،بلکہ وہ ہاتھ دھو کر اس داعی حق کے پیچھے پڑ جاتے ہیں اور ہٹ دھرمی، طعن، ملامت، ظلم ، جھوٹ ، غرض کوئی بری سے بُری تدبیر بھی اس کی دعوت کو نیچا دکھانے کے لیے استعمال کر نے سے نہیں چوکتے۔ اس صورت حال میں اصل دین حق کی وحدت، اور بعد کے ایجاد کردہ مذاہب کی حقیقت بیان کرنے کے بعد یہ کہنا کہ ’’ چھوڑو انہیں ، ڈوبے رہیں اپنی غفلت میں ، ’’ خود بخود اس معنی پر دلالت کرتا ہے کہ ’’ اچھا، اگر یہ لوگ نہیں مانتے اور اپنی گمراہیوں ہی میں مگن رہنا چاہتے ہیں تو چھوڑو انہیں۔‘‘ اس ’’ چھوڑو ‘‘ کو بالکل لفظی معنوں میں لے کر یہ سمجھ بیٹھنا کہ ’’ اب تبلیغ ہی نہ کر‘‘، کلام کے تیوروں سے نا آشنائی کا ثبوت ہو گا۔ ایسے مواقع پر یہ بات تبلیغ و تلقین سے روکنے کے لیے انہیں بلکہ غافلوں کو جھنجھوڑنے کے لیے کہ جا یا کرتی ہے۔ پھر ’’ ایک وقت خاص تک‘‘ کے الفاظ میں ایک بڑی گہری تنبیہ ہے جو یہ بتا رہی ہے کہ غفلت کا یہ استغراق زیادہ دیر تک نہیں رہ سکے گا، ایک وقت آنے والا ہے جب یہ چونک پڑیں گے اور انہیں پتہ چل جائے گا کہ بلانے والا جس چیز کی طرف بلا رہا تھا وہ کیا تھی اور یہ جس چیز میں مگن تھے وہ کیسی تھی |