Ayats Found (3)
Surah 16 : Ayat 59
يَتَوَٲرَىٰ مِنَ ٱلْقَوْمِ مِن سُوٓءِ مَا بُشِّرَ بِهِۦٓۚ أَيُمْسِكُهُۥ عَلَىٰ هُونٍ أَمْ يَدُسُّهُۥ فِى ٱلتُّرَابِۗ أَلَا سَآءَ مَا يَحْكُمُونَ
لوگوں سے چھپتا پھرتا ہے کہ اِس بری خبر کے بعد کیا کسی کو منہ دکھائے سوچتا ہے کہ ذلت کے ساتھ بیٹی کو لیے رہے یا مٹی میں دبا دے؟ دیکھو کیسے برے حکم ہیں جو یہ خدا کے بارے میں لگاتے ہیں1
1 | یعنی اپنے لیے جس بیٹی کو یہ لوگ اس قدر موجب ننگ وعار سمجھتے ہیں، اسی کو خدا کے لیے بلا تامُل تجویز کر دیتے ہیں۔ قطع نظراس سے کہ خدا کے لیے اولاد تجویز کرنا بجائے خود ایک شدید جہالت اور گستاخی ہے، مشرکین عرب کی اس حرکت پر یہاں اِس خاص پہلو سے گرفت اس لیے کی گئی ہے کہ اللہ کے متعلق اُن کے تصور کی پستی واضح کی جائے اور یہ بتایا جائے کہ مشرکانہ عقائد نے اللہ کے معاملے میں اب جو جس قدر جری اور گستاخ بنا دیا ہے اور وہ کس قدر بے حس ہو چکے ہیں کہ اس طرح کی باتیں کرتے ہوئے کوئی قباحت تک محسوس نہیں کرتے۔ |
Surah 43 : Ayat 17
وَإِذَا بُشِّرَ أَحَدُهُم بِمَا ضَرَبَ لِلرَّحْمَـٰنِ مَثَلاً ظَلَّ وَجْهُهُۥ مُسْوَدًّا وَهُوَ كَظِيمٌ
اور حال یہ ہے کہ جس اولاد کو یہ لوگ اُس خدائے رحمان کی طرف منسوب کرتے ہیں اُس کی ولادت کا مژدہ جب خود اِن میں سے کسی کو دیا جاتا ہے تو اُس کے منہ پر سیاہی چھا جاتی ہے اور وہ غم سے بھر جاتا ہے1
1 | یہاں مشرکین عرب کی نا معقولیت کو پوری طرح بے نقاب کر کے رکھ دیا گیا ہے ۔ وہ کہتے تھے کہ فرشتے اللہ تعالیٰ کی بیٹیاں ہیں۔ ان کے بت انہوں نے عورتوں کی شکل کے بنا رکھے تھے ، اور یہی ان کی وہ دیویاں تھیں جن کی پرستش کی جاتے تھی ۔ اس پر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اول تو تم نے یہ جاننے اور ماننے کے باوجود کہ زمین و آسمان کا خالق اللہ ہے اور ان زمین کو اسی نے تمہارے لیے گواہ بنایا ہے ، اور وہی آسمان سے پانی برساتا ہے ، اور اسی نے یہ جانور تمہاری خدمت کے لیے پیدا کیے ہیں، اس کے ساتھ دوسروں کو معبود بنایا ۔ حالانکہ جنہیں تم معبود بنا رہے ہو وہ خدا نہیں بلکہ بندے ہیں۔ پھر مزید غضب یہ کیا کہ بعض بندوں کو صفات ہی میں نہیں بلکہ اللہ کی ذات میں بھی اس کا شریک بنا ڈالا اور یہ عقیدہ ایجاد کیا کہ وہ اللہ کی اولاد ہیں۔ اس پر بھی تم نے بس نہ کیا اور اللہ کے لیے وہ اولاد تجویز کی جسے تم خود اپنے لیے ننگ و عار سمجھتے ہو۔ بیٹی گھر میں پیدا ہو جاۓ تو تمہارا منہ کالا ہو جاتا ہے ، خون کا سا گھونٹ پیکر رہ جاتے ہو، بلکہ بعض اوقات زندہ بچی کو دفن کر دیتے ہو۔ یہ اولاد تو آئی اللہ کے حصے میں۔ اور بیٹے ، جو تمہارے نزدیک فخر کے قابل اولاد ہیں، مخصوص ہو گۓ تمہارے لیے ؟ اس پر تمہارا دعویٰ یہ ہے کہ ہم اللہ کے ماننے والے ہیں |
Surah 43 : Ayat 18
أَوَمَن يُنَشَّؤُاْ فِى ٱلْحِلْيَةِ وَهُوَ فِى ٱلْخِصَامِ غَيْرُ مُبِينٍ
کیا اللہ کے حصے میں وہ اولاد آئی جو زیوروں میں پالی جاتی ہے اور بحث و حجت میں اپنا مدعا پوری طرح واضح بھی نہیں کر سکتی؟1
1 | بالفاظ دیگر جو نرم و نازک اور ضعیف و کمزور اولاد ہے وہ تم نے اللہ کے حصے میں ڈالی، اور خم ٹھونک کر میدان میں اترنے والی اولاد خود لے اڑے ۔ اس آیت سے عورتوں کے زیور کے جواز کا پہلو نکلتا ہے ، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اس کے لیے زیور کو ایک فطری چیز قرار دیا ہے ۔ یہی بات احادیث سے بھی ثابت ہے ۔ امام احمد، ابو داؤد اور نسائی حضرت علیؓ سے روایت کرتے ہیں کہ بنی صلی اللہ علیہ و سلم نے ایک ہاتھ میں ریشم اور دوسرے ہاتھ میں سونا لے کر فرمایا یہ دونوں چیزیں لباس میں استعمال کرنا میری امت کے مردوں پر حرام ہے ۔ ترمذی اور نسائی نے حضرت ابو موسیٰ اشعری کی روایت نقل کی ہے کہ حضور نے فرمایا کہ ریشم اور سونا میری امت کی عورتوں کے لیے حلال اور مردوں پر حرام کیا گیا ۔ علامہ ابو بکر جصاص نے احکام القرآن میں اس مسئلے پر بحث کرتے ہوۓ حسب ذیل روایات نقل کی ہیں : حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت زید بن حارثہ کے صاحبزادے اسامہ بن زید کو چوٹ لگ گئی اور خون بہنے لگا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو ان سے اپنی اولاد جیسی محبت تھی ۔آپ ان کا خون چوس کر تھوکتے جاتے اور ان کو یہ کہہ کہہ کر بہلاتے جاتے کہ اسامہ اگر بیٹی ہوتا تو ہم اسے زیور پہنا تے ، اسامہ اگر بیٹی ہوتا تو ہم اسے اچھے اچھے کپڑے پہناتے ۔ حضرت ابو موسیٰ اشعری کی روایت ہے کہ حضور نے فرمایا :لبس الحریر والذھب حرام علی ذکور امتی و حلال لا نا ثھا، ’’ ریشمی کپڑے اور سونے کے زیور پہننا میری امت کے مردوں پر حرام اور عورتوں کے لیے حلال ہے ۔‘‘حضرت عمرو بن عاص کی روایت ہے کہ ایک مرتبہ دو عورتیں حضور کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور وہ سونے کے کنگن پہنے ہوۓ تھیں۔ آپ نے فرمایا کیا تم پسند کرتی ہو کہ اللہ تمہیں ان کے بدلے آگ کے کنگن پہناۓ ؟ انہوں نے عرض کیا نہیں۔ آپ نے فرمایا تو ان کا حق ادا کرو، یعنی ان کی زکوٰۃ نکالو۔ حضرت عائشہ کا قول ہے کہ زیور پہنے میں مضائقہ نہیں بشرطیکہ اس کی زکوٰۃ ادا کی جاۓ۔ حضرت عمرؓ نے حضرت ابو موسیٰ اشعری کو لکھا کہ تمہاری عملداری میں جو مسلمان عورتیں رہتی ہیں ان کو حکم دو کہ اپنے زیوروں کی زکوٰۃ نکالیں۔ امام ابو حنیفہ نے عمرو بن دینار کے حوالہ سے یہ روایات نقل کی ہیں کہ حضرت عائشہ نے اپنی بہنوں کو اور حضرت عبداللہ بن عمرؓ نے اپنی بیٹیوں کو سونے کے زیور پہناۓ تھے ۔ ان تمام روایات کو نقل کرنے کے بعد علامہ جصاص لکھتے ہیں کہ ’’ نبی صلی اللہ علیہ و سلم اور صحابہ سے جو روایات عورتوں کے لیے سونے اور ریشم کے حلال ہونے کے متعلق وارد ہوئی ہیں وہ عدم جواز کی روایات سے زیادہ مشہور اور نمایاں ہیں۔ اور آیت مذکورہ بالا بھی اس کے جواز پر دلالت کر رہی ہے ۔ پھر امت کا عمل بھی نبی صلی اللہ علیہ و سلم اور صحابہ کے زمانے سے ہمارے زمانے (یعنی چوتھی صدی کے آخری دور) تک یہی رہا ہے ، بغیر اس کے کہ کسی نے اس پر اعتراض کیا ہو۔ اس طرح کے مسائل میں اخبار آحاد کی بنا پر کوئی اعتراض تسلیم نہیں کیا جا سکتا |