Ayats Found (9)
Surah 2 : Ayat 187
أُحِلَّ لَكُمْ لَيْلَةَ ٱلصِّيَامِ ٱلرَّفَثُ إِلَىٰ نِسَآئِكُمْۚ هُنَّ لِبَاسٌ لَّكُمْ وَأَنتُمْ لِبَاسٌ لَّهُنَّۗ عَلِمَ ٱللَّهُ أَنَّكُمْ كُنتُمْ تَخْتَانُونَ أَنفُسَكُمْ فَتَابَ عَلَيْكُمْ وَعَفَا عَنكُمْۖ فَٱلْـَٔـٰنَ بَـٰشِرُوهُنَّ وَٱبْتَغُواْ مَا كَتَبَ ٱللَّهُ لَكُمْۚ وَكُلُواْ وَٱشْرَبُواْ حَتَّىٰ يَتَبَيَّنَ لَكُمُ ٱلْخَيْطُ ٱلْأَبْيَضُ مِنَ ٱلْخَيْطِ ٱلْأَسْوَدِ مِنَ ٱلْفَجْرِۖ ثُمَّ أَتِمُّواْ ٱلصِّيَامَ إِلَى ٱلَّيْلِۚ وَلَا تُبَـٰشِرُوهُنَّ وَأَنتُمْ عَـٰكِفُونَ فِى ٱلْمَسَـٰجِدِۗ تِلْكَ حُدُودُ ٱللَّهِ فَلَا تَقْرَبُوهَاۗ كَذَٲلِكَ يُبَيِّنُ ٱللَّهُ ءَايَـٰتِهِۦ لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَتَّقُونَ
تمہارے لیے روزوں کے زمانے میں راتوں کو اپنی بیویوں کے پاس جانا حلال کر دیا گیا ہے وہ تمہارے لیے لباس ہیں اور تم اُن کے لیے1 اللہ کو معلوم ہو گیا کہ تم لوگ چپکے چپکے اپنے آپ سے خیانت کر رہے تھے، مگر اُ س نے تمہارا قصور معاف کر دیا اور تم سے درگزر فرمایا اب تم اپنی بیویوں کے ساتھ شب باشی کرو اور جو لطف اللہ نے تمہارے لیے جائز کر دیا ہے، اُسے حاصل کرو2 نیز راتوں کو کھاؤ پیو3 یہاں تک کہ تم کو سیاہی شب کی دھاری سے سپیدۂ صبح کی دھاری نمایاں نظر آ جائے4 تب یہ سب کام چھوڑ کر رات تک اپنا روزہ پورا کرو5 اور جب تم مسجدوں میں معتکف ہو، تو بیویوں سے مباشرت نہ کرو6 یہ اللہ کی باندھی ہوئی حدیں ہیں، ان کے قریب نہ پھٹکنا7 اِس طرح اللہ اپنے احکام لوگوں کے لیے بصراحت بیان کرتا ہے، توقع ہے کہ وہ غلط رویے سے بچیں گے
7 | یہ نہیں فرمایا کہ ان حدوں سے تجاوز نہ کرنا، بلکہ یہ فرمایا کہ ان کے قریب نہ پھٹکنا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جس مقام سے معصیت کی حد شروع ہوتی ہے، عین اسی مقام کے آخری کناروں پر گھومتے رہنا آدمی کے لیے خطرناک ہے۔ سلامتی اس میں ہے کہ آدمی سرحد سے دُور ہی رہے تاکہ بھُولے سے بھی قدم اس کے پار نہ چلا جائے۔ یہی مضمون اُس حدیث میں بیان ہوا ہے ، جس میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ لِکل ملکٍ حِمیٰ و ان حمی اللہ محار مہ، فمن رتع حول الحمی، یوشک ان یقع فیہ۔ عربی زبان میں حِمیٰ اُس چراگاہ کو کہتے ہیں، جسے کوئی رئیس یا بادشاہ پبلک کے لیے ممنوع کر دیتا ہے۔ اس استعارے کو استعمال کرتے ہوئے حضور ؐ فرماتے ہیں کہ”ہر بادشاہ کی ایک حِمیٰ ہوتی ہے اور اللہ کی حِمیٰ اُس کی وہ حدیں ہیں، جن سے اس نے حرام و حلال اور طاعت و معصیت کا فرق قائم کیا ہے۔ جو جانور حِمیٰ کے گِرد ہی چرتا رہے گا، ہو سکتا ہے کہ ایک روز وہ حِمیٰ کے اندر داخل ہو جائے۔“ افسوس ہے کہ بہت سے لوگ جو شریعت کی رُوح سے ناواقف ہیں ، ہمیشہ اجازت کی آخری حدوں تک ہی جانے پر اصرار کرتے ہیں اور بہت سے علما و مشائخ بھی اسی غرض کے لیے سندیں ڈھونڈ کر جواز کی آخری حدیں انھیں بتایا کرتے ہیں، تاکہ وہ اُس باریک خطِ امتیاز ہی پر گھُومتے رہیں، جہاں اطاعت اور معصیت کے درمیان محض بال برابر فاصلہ رہ جاتا ہے۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ بکثرت لوگ معصیت اور معصیت سے بھی بڑھ کر ضلالت میں مبتلا ہو رہے ہیں، کیونکہ ان باریک سرحدی خطوط کی تمیز اور ان کے کنارے پہنچ کر اپنے آپ کو قابو میں رکھنا ہر ایک کے بس کا کام نہیں ہے |
6 | معتکف ہونے کا مطلب یہ ہے کہ آدمی رمضان کے آخری دس دن مسجد میں رہے اور یہ دن اللہ کے ذکر کے لیے مختص کردے۔ اس اعتکاف کی حالت میں آدمی اپنی انسانی حاجات کے لیے مسجد سے باہر جا سکتا ہے ، مگر لازم ہے کہ وہ اپنے آپ کو شہوانی لذتوں سے روکے رکھے |
5 | رات تک روزہ پورا کرنے سے مراد یہ ہے کہ جہاں رات کی سرحد شروع ہوتی ہے، وہیں تمہارے روزے کی سرحد ختم ہو جائے۔ اور ظاہر ہے کہ رات کی سرحد غروبِ آفتاب سے شروع ہوتی ہے۔ لہٰذا غروبِ آفتاب ہی کے ساتھ افطار کر لینا چاہیے۔ سحر اور افطار کی صحیح علامت یہ ہے کہ جب رات کے آخری حصّے میں اُفق کے مشرقی کنارے پر سفیدہٴ صبح کی باریک سی دھاری نمودار ہو کر اُوپر بڑھنے لگے، تو سحری کا وقت ختم ہو جاتا ہے اور جب دن کے آخری حصّے میں مشرق کی جانب سے رات کی سیاہی بلند ہوتی نظر آئے تو افطار کا وقت آجاتا ہے۔ آج کل لوگ سحری اور افطار ، دونوں کے معاملے شدّتِ احتیاط کی بنا پر کچھ بے جا تشدّد برتنے لگے ہیں۔ مگر شریعت نے ان دونوں اوقات کی کوئی ایسی حد بندی نہیں کی ہے جس سے چند سیکنڈ یا چند منٹ اِدھر اُدھر ہو جانے سے آدمی کا رازہ خراب ہو جاتا ہو۔ سحر میں سیاہی شب سے سپیدہٴ سحر کا نمودار ہونا اچھی خاصی گنجائش اپنے اندر رکھتا ہے اور ایک شخص کے لیے یہ بالکل صحیح ہے کہ اگر عین طلوعِ فجر کے وقت اس کی آنکھ کھُلی ہو تو وہ جلدی سے اُٹھ کر کچھ کھا پی لے۔ حدیث میں آتا ہے کہ حضور ؐ نے فرمایا: اگر تم میں سے کوئی شخص سحری کھا رہا ہو اور اذان کی آواز آجائے تو فوراً چھوڑ نہ دے، بلکہ اپنی حاجت بھر کھا پی لے۔ اسی طرح افطار کے وقت میں بھی غروبِ آفتاب کے بعد خواہ مخواہ دن کی روشنی ختم ہونے کا انتظار کرتے رہنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سُورج ڈوبتے ہی بلال ؓ کو آواز دیتے تھے کہ لا ؤ ہمارا شربت۔ بلال ؓ عرض کرتے کہ یا رسُول اللہ: ابھی تو دن چمک رہا ہے۔ آپ ؐ فرماتے کہ جب رات کی سیاہی مشرق سے اُٹھنے لگے ، تو روزے کا وقت ختم ہو جاتا ہے |
4 | اسلام نے اپنی عبادات کے لیے اوقات کا وہ معیار مقرر کیا ہے جس سے دُنیا میں ہر وقت ہر مرتبہء تمدّن کے لو گ ہر جگہ اوقات کی تعیین کر سکیں۔ وہ گھڑیوں کے لحاظ سے وقت مقرر کرنے کے بجائے اُن آثار کے لحاظ سے وقت مقرر کرتا ہے جو آفاق میں نمایاں نظر آتے ہیں۔ مگر نادان لوگ اس طریقِ توقیت پر عموماً یہ اعتراض کرتے ہیں کہ قُطبَین کے قریب، جہاں رات اور دن کئی کئی مہینوں کے ہوتے ہیں، اوقات کی یہ تعیین کیسے چل سکے گی۔ حالانکہ یہ اعتراض دراصل علمِ جغرافیہ کی سرسری واقفیت کا نتیجہ ہے۔ حقیقت میں نہ وہاں چھ مہینوں کی رات اُس معنی میں ہوتی ہے اور نہ چھ مہینوں کا دن ، جس معنی میں ہم خطِ استوا کے آس پاس رہنے والے لوگ دن اور رات کے لفظ بولتے ہیں۔ خواہ رات کا دَور ہو یا دن کا بہرحال صبح و شام کے آثار وہاں پُوری باقاعدگی کے ساتھ اُفق پر نمایاں ہوتے ہیں اور اُنہی کے لحاظ سے وہاں کے لوگ ہماری طرح اپنے سونے جاگنے اور کام کرنے اور تفریح کرنے کے اوقات مقرر کرتے ہیں ۔ جب گھڑیوں کا رواج عام نہ تھا، تب بھی فن لینڈ ، ناروے اور گرین لینڈ وغیرہ ملکوں کے لوگ اپنے اوقات معلوم کرتے ہی تھے اور اس کا ذریعہ یہی اُفق کے آثار تھے۔ لہٰذا جس طرح دُوسرے تمام معاملات میں یہ آثار ان کے لیے تعیینِ اوقات کا کام دیتے ہیں اسی طرح نماز اور سحر و افطار کے معاملے میں بھی دے سکتے ہیں |
3 | اس بارے میں بھی لوگ ابتداءً غلط فہمی میں تھے ۔ کسی کا خیال تھا کہ عشا کی نماز پڑھنے کے بعد سے کھانا پینا حرام ہو جاتا ہے اور کوئی یہ سمجھتا تھا کہ رات کو جب تک آدمی جاگ رہا ہو، کھا پی سکتا ہے۔ جہاں سو گیا، پھر دوبارہ اُٹھ کر وہ کچھ نہیں کھا سکتا۔ یہ احکام لوگوں نے خود اپنے ذہن میں سمجھ رکھے تھے اور اس کی وجہ سے بسا اوقات بڑی تکلیفیں اُٹھاتے تھے۔ اِس آیت میں انہی غلط فہمیوں کو رفع کیا گیا ہے۔ اس میں روزے کی حد طلوع فجر سے لے کر غروبِ آفتاب تک مقرر کر دی گئی اور غروبِ آفتاب سے طلوع فجر تک رات بھر کھانے پینے اور مباشرت کرنے کے لیے آزادی دے دی گئی۔ اس کے ساتھ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سحری کا قاعدہ مقرر فرما دیا تاکہ طلُوعِ فجر سے عین پہلے آدمی اچھی طرح کھا پی لے
|
2 | ابتدا میں اگرچہ اس قسم کا کوئی صاف حکم موجود نہ تھا کہ رمضان کی راتوں میں کوئی شخص اپنی بیوی سے مباشرت نہ کرے، لیکن لوگ اپنی جگہ یہی سمجھتے تھے کہ ایسا کر نا جائز نہیں ہے۔ پھر اس کے ناجائز یا مکروہ ہونے کا خیال دل میں لیے ہوئے بسا اوقات اپنی بیویوں کے پاس چلے جاتے تھے۔ یہ گویا اپنے ضمیر کے ساتھ خیانت کا ارتکاب تھا اور اس سے اندیشہ تھا کہ ایک مجرمانہ اور گناہ گارانہ ذہنیت اُن کے اندر پرورش پاتی رہے گی۔ اس لیے اللہ تعالٰی نے پہلے اس خیانت پر تنبیہ فرمائی اور پھر ارشاد فرمایا کہ یہ فعل تمہارے لیے جائز ہے۔ لہٰذا اب اسے بُرا فعل سمجھتے ہوئے نہ کرو، بلکہ اللہ کی اجازت سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے قلب و ضمیر کی پوری طہارت کے ساتھ کرو |
1 | یعنی جس طرح لباس اور جسم کے درمیان کوئی پردہ نہیں رہ سکتا ، بلکہ دونوں کا باہمی تعلق و اتّصال بالکل غیر منفک ہوتا ہے، اسی طرح تمہارا اور تمہاری بیویوں کا تعلق بھی ہے |
Surah 2 : Ayat 229
ٱلطَّلَـٰقُ مَرَّتَانِۖ فَإِمْسَاكُۢ بِمَعْرُوفٍ أَوْ تَسْرِيحُۢ بِإِحْسَـٰنٍۗ وَلَا يَحِلُّ لَكُمْ أَن تَأْخُذُواْ مِمَّآ ءَاتَيْتُمُوهُنَّ شَيْــًٔا إِلَّآ أَن يَخَافَآ أَلَّا يُقِيمَا حُدُودَ ٱللَّهِۖ فَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا يُقِيمَا حُدُودَ ٱللَّهِ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْهِمَا فِيمَا ٱفْتَدَتْ بِهِۦۗ تِلْكَ حُدُودُ ٱللَّهِ فَلَا تَعْتَدُوهَاۚ وَمَن يَتَعَدَّ حُدُودَ ٱللَّهِ فَأُوْلَـٰٓئِكَ هُمُ ٱلظَّـٰلِمُونَ
طلاق دو بار ہے پھر یا تو سیدھی طرح عورت کو روک لیا جائے یا بھلے طریقے سے اس کو رخصت کر دیا جائے1 اور رخصت کر تے ہوئے ایسا کرنا تمہارے لیے جائز نہیں ہے کہ جو کچھ تم انہیں دے چکے ہو، اُس میں سے کچھ واپس لے لو2 البتہ یہ صورت مستثنیٰ ہے کہ زوجین کو اللہ کے حدود پر قائم نہ رہ سکنے کا اندیشہ ہو ایسی صورت میں اگر تمہیں یہ خوف ہو کہ وہ دونوں حدود الٰہی پر قائم نہ رہیں گے، تو اُن دونوں کے درمیان یہ معاملہ ہو جانے میں مضائقہ نہیں کہ عورت اپنے شوہر کو کچھ معاوضہ دے کر علیحدگی حاصل کر لے3 یہ اللہ کے مقرر کردہ حدود ہیں، اِن سے تجاوز نہ کرو اور جو لوگ حدود الٰہی سے تجاوز کریں، وہی ظالم ہیں
3 | شریعت کی اصطلاح میں اسے” خُلع“ کہتے ہیں، یعنی ایک عورت کا اپنے شوہر کو کچھ دے دلا کر اس سے طلاق حاصل کرنا۔ اس معاملے میں اگر عورت اور مرد کے درمیان گھر کے گھر ہی میں کوئی معاملہ طے ہو جائے، تو جو کچھ طے ہوا ہو، وہی نافذ ہو گا۔ لیکن اگر عدالت میں معاملہ جائے ، تو عدالت صرف اس امر کی تحقیق کرے گی کہ آیا فی الواقع یہ عورت اُس مرد سے اس حد تک متنفر ہو چکی ہے کہ اُس کے ساتھ اس کا نباہ نہیں ہو سکتا۔ اس کی تحقیق ہوجانے پر عدالت کو اختیار ہے کہ حالات کے لحاظ سے جو فدیہ چاہے ، تجویز کرے ، اور اس فدیے کو قبول کر کے شوہر کو اسے طلاق دینا ہو گا۔ بالعمُوم فقہانے اس بات کو پسند نہیں کیا ہے کہ جو مال شوہر نے اس عورت کو دیا ہو، اس کی واپسی سے بڑھ کر کوئی فدیہ اسے دلوایا جائے۔ خُلع کی صُورت میں جو طلاق دی جاتی ہے، وہ رجعی نہیں ہے، بلکہ بائنہ ہے۔ چونکہ عورت نے معاوضہ دے کر اس طلاق کو گویا خرادا ہے، اس لیے شوہر کو یہ حق باقی نہیں رہتا کہ اس طلاق سے رُجوع کر سکے۔ البتہ اگر یہی مرد و عورت پھر ایک دُوسرے سے راضی ہو جائیں اور دوبارہ نکاح کرنا چائیں، تو ایسا کرنا ان کے لیے بالکل جائز ہے۔ جمہور کے نزدیک خُلع کی عدّت وہی ہے جو طلاق کی ہے ۔ مگر ابوداوٗد ، ترمذی اور ابنِ ماجہ وغیرہ میں متعدّد روایات ایسی ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی عدّت ایک ہی حیض قرار دی تھی اور اسی کے مطابق حضرت عثمان ؓ نے ایک مقدمہ کا فیصلہ کیا (ابنِ کثیر، جلد اوّل، ص ۲۷۶) |
2 | یعنی مَہر اور وہ زیور اور کپڑے وغیرہ ، جو شوہر اپنی بیوی کو دے چکا ہو، ان میں سے کوئی چیز بھی واپس مانگنے کا اسے حق نہیں ہے۔ یہ بات ویسے بھی اسلام کے اخلاقی اُصُولوں کی ضد ہے کہ کوئی شخص کسی ایسی چیز کو، جسے وہ دُوسرے شخص کو ہبہ یا ہدیہ و تحفہ کے طور پر دے چکا ہو، واپس مانگے۔ اس ذلیل حرکت کو حدیث میں اُس کتّے کے فعل سے تشبیہ دی گئی ہے، جو اپنی ہی قے کو خود چاٹ لے۔ مگر خصُو صیّت کے ساتھ ایک شوہر کے لیے تو یہ بہت ہی شرمناک ہے کہ وہ طلاق دے کر رُخصت کر تے وقت اپنی بیوی سے وہ سب کچھ رکھوا لینا چاہے جو اس نے کبھی اسے خود دیا تھا۔ اس کے برعکس اسلام نے یہ اخلاق سکھائے ہیں کہ آدمی جس عورت کو طلاق دے ، اُسے رخصت کرتے وقت کچھ نہ کچھ دے کر رُخصت کرے۔ جیسا کہ آگے آیت ۲۴۱ میں ارشاد فرمایا گیا ہے |
1 | اس مختصر سی آیت میں ایک بہت بڑی معاشرتی خرابی کی، جو عربِ جاہلیّت میں رائج تھی ، اِصلاح کی گئی ہے۔ عرب میں قاعدہ یہ تھا کہ ایک شخص اپنی بیوی کو بے حدّو حساب طلاق دینے کا مجاز تھا۔ جس عورت سے اس کا شوہر بگڑ جاتا اُس کو وہ بار بار طلاق دے کر رجوع کرتا رہتا تھا، تاکہ نہ تو وہ غریب اس کے ساتھ بس ہی سکے اور نہ اس سے آزاد ہو کر کسی اَور سے نکاح ہی کر سکے۔ قرآن مجید کی یہ آیت اسی ظلم کا دروازہ بند کرتی ہے۔ اس آیت کی رُوسے ایک مرد ایک رشتہ ء نکاح میں اپنی بیوی پر حد سے حد دو ہی مرتبہ طلاقِ رجعی کا حق استعمال کر سکتا ہے۔ جو شخص اپنی منکوحہ کو دو مرتبہ طلاق دے کر اس سے رُجوع کر چکا ہو، وہ اپنی عمر میں جب کبھی اس کو تیسری بار طلاق دے گا، عورت اس سے مستقل طور پر جدا ہو جائے گی۔ طلاق کا صحیح طریقہ، جو قرآن و حدیث سے معلوم ہوتا ہے ، یہ ہے کہ عورت کو حالتِ طُہر میں ایک مرتبہ طلاق دی جائے۔ اگر جھگڑا ایسے زمانے میں ہوا ہو، جبکہ عورت ایّامِ ماہواری میں ہو تو اسی وقت طلاق دے بیٹھنا درست نہیں ہے، بلکہ ایّام سے اس کے فارغ ہونے کا انتظار کرنا چاہیے۔ پھر ایک طلاق دینے کے بعد اگر چاہے، تو دُوسرے طُہر میں دوبارہ ایک طلاق اور دیدے، ورنہ بہتر یہی ہے کہ پہلی ہی طلاق پر اکتفا کرے۔ اِس صُورت میں شوہر کو حق حاصل رہتا ہے کہ عدّت گزرنے سے پہلے پہلے جب چاہے رُجوع کر لے، اور عدّت گزر بھی جائے ، تو دونوں کے لیے موقع باقی رہتا ہے کہ پھر باہمی رضامندی سے دوبارہ نکاح کر لیں۔ لیکن تیسرے طُہر میں تیسری بار طلاق دینے کے بعد نہ تو شوہر کو رجوع کا حق باقی رہتا ہے اور نہ اِس کا ہی کوئی موقع رہتا ہے کہ دونوں کا پھر نکاح ہو سکے۔ رہی یہ صُورت کہ ایک ہی وقت میں تین طلاقیں دے ڈالی جائیں، جیسا کہ آج کل جُہلا کا عام طریقہ ہے ، تو یہ شریعت کی رُو سے سخت گناہ ہے۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی بڑی مذمت فرمائی ہے اور حضرت عمر ؓ سے یہاں تک ثابت ہے کہ جو شخص بیک وقت اپنی بیوی کو تین طلاقیں دیتا تھا، آپ اس کو دُرّے لگاتے تھے۔ تاہم گناہ ہونے کے باوجود ، ائمہء اربعہ کے نزدیک تینوں طلاقیں واقع ہوجاتی ہیں اور طلاق مغلظ ہو جاتی ہے |
Surah 2 : Ayat 230
فَإِن طَلَّقَهَا فَلَا تَحِلُّ لَهُۥ مِنۢ بَعْدُ حَتَّىٰ تَنكِحَ زَوْجًا غَيْرَهُۥۗ فَإِن طَلَّقَهَا فَلَا جُنَاحَ عَلَيْهِمَآ أَن يَتَرَاجَعَآ إِن ظَنَّآ أَن يُقِيمَا حُدُودَ ٱللَّهِۗ وَتِلْكَ حُدُودُ ٱللَّهِ يُبَيِّنُهَا لِقَوْمٍ يَعْلَمُونَ
پھر اگر (دو بارہ طلاق دینے کے بعد شوہر نے عورت کو تیسری بار) طلاق دے دی تو وہ عورت پھر اس کے لیے حلال نہ ہوگی، الّا یہ کہ اس کا نکاح کسی دوسرے شخص سے ہو اور وہ اسے طلاق دیدے1 تب اگر پہلا شوہر اور یہ عورت دونوں یہ خیال کریں کہ حدود الٰہی پر قائم رہیں گے، تو ان کے لیے ایک دوسرے کی طرف رجو ع کر لینے میں کوئی مضائقہ نہیں یہ اللہ کی مقرر کردہ حدیں ہیں، جنہیں وہ اُن لوگوں کی ہدایت کے لیے واضح کر رہا ہے، جو (اس کی حدود کو توڑنے کا انجام) جانتے ہیں
1 | احادیثِ صحیحہ سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر کوئی شخص محض اپنی مطلقہ بیوی کو اپنے لیے حلال کرنے کے خاطر کسی سے سازش کے طور پر اُس کا نکاح کرائے اور پہلے سے یہ طے کرے کہ وہ نکاح کے بعد اسے طلاق دے دے گا، تو یہ سراسر ناجائز فِعل ہے۔ ایسا نکاح ، نکاح نہ ہوگا، بلکہ محض ایک بدکاری ہوگی اور ایسے سازشی نکاح و طلاق سے عورت ہرگز اپنے سابق شوہر کے لیے حلال نہ ہوگی۔ حضرت علی ؓ اور ابنِ مسعُود اور ابو ہریرہ ؓ اور عُقّبہ بن عامر ؓ کی مُتّفقَہ روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس طریقہ سے حلالہ کرنے اور حلالہ کرانے والے پر لعنت فرمائی ہے |
Surah 4 : Ayat 13
تِلْكَ حُدُودُ ٱللَّهِۚ وَمَن يُطِعِ ٱللَّهَ وَرَسُولَهُۥ يُدْخِلْهُ جَنَّـٰتٍ تَجْرِى مِن تَحْتِهَا ٱلْأَنْهَـٰرُ خَـٰلِدِينَ فِيهَاۚ وَذَٲلِكَ ٱلْفَوْزُ ٱلْعَظِيمُ
یہ اللہ کی مقرر کی ہوئی حدیں ہیں جو اللہ اور اُس کے رسول کی اطاعت کرے گا اُسے اللہ ایسے باغوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی اور ان باغوں میں وہ ہمیشہ رہے گا اور یہی بڑی کامیابی ہے
Surah 4 : Ayat 14
وَمَن يَعْصِ ٱللَّهَ وَرَسُولَهُۥ وَيَتَعَدَّ حُدُودَهُۥ يُدْخِلْهُ نَارًا خَـٰلِدًا فِيهَا وَلَهُۥ عَذَابٌ مُّهِينٌ
اور جو اللہ اور اُس کے رسول کی نافرمانی کرے گا اور اس کی مقرر کی ہوئی حدوں سے تجاوز کر جائے گا اُسے اللہ آگ میں ڈالے گا جس میں وہ ہمیشہ رہے گا اور اس کے لیے رسوا کن سزا ہے
Surah 9 : Ayat 97
ٱلْأَعْرَابُ أَشَدُّ كُفْرًا وَنِفَاقًا وَأَجْدَرُ أَلَّا يَعْلَمُواْ حُدُودَ مَآ أَنزَلَ ٱللَّهُ عَلَىٰ رَسُولِهِۦۗ وَٱللَّهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌ
یہ بدوی عرب کفر و نفاق میں زیادہ سخت ہیں اور ان کے معاملہ میں اس امر کے امکانات زیادہ ہیں کہ اس دین کے حدود سے نا واقف رہیں جو اللہ نے اپنے رسول پر نازل کیا ہے1 اللہ سب کچھ جانتا ہے اور حکیم و دانا ہے
1 | “جیسا کہ ہم پہلے بیان کر چکے ہیں یہاں بدوی عربوں سے مراد وہ دیہاتی و صحرائی عرب ہیں جو مدینہ کے اطراف میں آباد تھے۔ یہ لوگ مدینہ میں ایک مضبوط اور منظم طاقت کو اُٹھتے دیکھ کہ پہلے تو مرعوب ہوئے۔ پھر اسلام اور کفر کی آویزشوں کے دوران میں ایک مدت تک موقع شناسی و ابن الوقتی کی روش پر چلتے رہے۔ پھر جب اسلامی حکومت کا اقتدار حجاز و نجد کے ایک بڑے حصّے پر چھا گیا اور مخالف قبیلوں کا زور اس کے مقابلہ میں ٹوٹنے لگا تو ان لوگوں نے مصلحتِ وقت اسی میں دیکھی کہ دائرۂ اسلام میں داخل ہو جائیں۔ لیکن ان میں کم لوگ ایسے تھے جو اِس دین کو دینِ حق سمجھ کر سچے دل سے ایمان لائے ہوں اور مخلصانہ طریقہ سے اس کے تقاضوں کو پورا کرنے پر آمادہ ہوں۔ بیشتر بدویوں کے لیے قبول ِ اسلام کی حیثیت ایمان و اعتقاد کی نہیں بلکہ محض مصلحت اور پالیسی کی تھی۔ ان کی خواہش یہ تھی کہ ان کے حصہ میں صرف وہ فوائد آجائیں جو برسر اقتدار جماعت کی رکنیت اختیار کرنے سے حاصل ہوا کرتے ہیں۔ مگر وہ اخلاقی بندشیں جو اسلام ان پر عائد کرتا تھا ، وہ نماز روزے کی پابندیاں جو اس دین کو قبول کرتے ہی ان پر لگ جاتی تھیں، وہ زکوٰۃ جو باقاعدہ تحصیل داروں کے ذریعہ سے ان کے نخلستانوں اور ان کے گلّوں سے وصول کی جاتی تھی، وہ ضبط و نظم جس کے شکنجے میں وہ اپنی تاریخ میں پہلی مرتبہ کسے گئے تھے، وہ جان و مال کی قربانیاں جو لوٹ مار کی لڑائیوں میں نہیں بلکہ خالص راہِ خدا کے جہاد میں آئے دن ان سے طلب کی جارہی تھیں، یہ ساری چیزیں ان کو شدت کے ساتھ ناگوار تھیں اور وہ ان سے پیچھا چھڑانے کے لیے ہر طرح کی چالبازیاں اور بہانہ سازیاں کرتے رہتے تھے۔ ان کو اس سے کچھ بحث نہ تھی کہ حق کیا ہے اور ان کی اور تمام انسانوں کی حقیقی فلاح کس چیز میں ہے۔ انہیں جو کچھ بھی دلچسپی تھی وہ اپنے معاشی مفاد، اپنی آسائش، اپنی زمینوں ، اپنے اونٹوں اور بکریوں اور اپنے خیمے کے آس پاس کی محدود دنیا سے تھی۔ اس سے بالاتر کسی چیز کے ساتھ وہ اُس طرح کی عقیدت تو رکھ سکتے تھے جیسی پیروں اور فقیروں سےرکھی جاتی ہے کہ یہ ان کے آگے نذر و نیاز پیش کریں اور وہ اس کے عوض ترقی روزگار اور آفات سے تحفظ اور ایسی ہی دوسری اغراض کے لیے ان کو تعویذ گنڈے دیں اور ان کے لیے دعائیں کریں۔ لیکن ایسے ایمان و اعتقاد کے لیے وہ تیار نہ تھے جو ان کی پوری تمدنی، معاشی اور معاشرتی زندگی کو اخلاق اور قانون کے ضابطہ میں کس دے اور مزید برآں ایک عالمگیر اصلاحی مشن کے لیے اُن سے جان و مال کی قربانیوں کا بھی مطالبہ کرے۔ ان کی اسی حالت کو یہاں اس طرح بیان کیا گیا ہے کہ شہریوں کی بہ نسبت یہ دیہاتی و صحرائی لوگ زیادہ منافقانہ رویہ رکھتے تھے اور حق سے انکار کی کیفیت ان کے اندر زیادہ پائی جاتی ہے ۔ پھر اس کی وجہ بھی بتا دی گئی ہے کہ شہری لوگ تو اہلِ علم اور اہلِ حق کی صحبیت سے مستفید ہو کر کچھ دین کو اور اس کی حدود کو جان بھی لیتے ہیں مگر یہ بدوی چونکہ ساری ساری عمر بالکل ایک معاشی حیوان کی طرح شب و روز رزق کے پھیر ہی میں پڑے رہتے ہیں اور حیوانی زندگی کی ضروریات سے بلند تر کسی چیز کی طرف توجہ کرنے کا انہیں موقع ہی نہیں ملتا۔ اس لیے دین اور اس کے حدود سے ان کے ناواقف رہنے کے امکانات زیادہ ہیں۔ یہاں اس حقیقت کی طرف بھی اشارہ کر دینا غیر موزوں نہ ہوگا کہ ان آیات کے نزول سے تقریبًا دو سال بعد حضرت ابوبکر ؓ کی خلافت کے ابتدائی عہد میں ارتداد اور منعِ زکوٰۃ کا جو طوفان برپا ہوا تھا اس کے اسباب میں ایک بڑا سبب یہی تھا جس کا ذکر ان آیات میں کیا گیا ہے |
Surah 9 : Ayat 112
ٱلتَّـٰٓئِبُونَ ٱلْعَـٰبِدُونَ ٱلْحَـٰمِدُونَ ٱلسَّـٰٓئِحُونَ ٱلرَّٲكِعُونَ ٱلسَّـٰجِدُونَ ٱلْأَمِرُونَ بِٱلْمَعْرُوفِ وَٱلنَّاهُونَ عَنِ ٱلْمُنكَرِ وَٱلْحَـٰفِظُونَ لِحُدُودِ ٱللَّهِۗ وَبَشِّرِ ٱلْمُؤْمِنِينَ
اللہ کی طرف بار بار پلٹنے والے1، اُس کے بندگی بجا لانے والے، اُس کی تعریف کے گن گانے والے، اُس کی خاطر زمین میں گردش کرنے والے2، اُس کے آگے رکوع اور سجدے کرنے والے، نیکی کا حکم دینے والے، بدی سے روکنے والے، اور اللہ کے حدود کی حفاظت کرنے والے3، (اس شان کے ہوتے ہیں وہ مومن جو اللہ سے خرید و فروخت کا یہ معاملہ طے کرتے ہیں) اور اے نبیؐ ان مومنوں کو خوش خبری دے دو
3 | یعنی اللہ تعالیٰ نے عقائد ، عبادات، اخلاق، معاشرت ، تمدّن، معیشت ، سیاست، عدالت اور صلح و جنگ کے معاملات میں جو حدیں مقرر کر دی ہیں وہ ان کو پوری پابندی کے ساتھ ملحوظ رکھتے ہیں ، اپنے انفرادی و اجتماعی عمل کو انہی حدود کے اندر محدود رکھتے ہیں، اور کبھی ان سے تجاوز کر کے نہ تو من مانی کا روائیاں کرنے لگتے ہیں اور نہ خدائی قوانین کے بجائے خود ساختہ قوانین یا انسانی ساخت کے دوسرے قوانین کو اپنی زندگی کا ضابطہ بناتے ہیں۔ اس کے علاوہ خدا کے حدود کی حفاظت میں یہ مفہوم بھی شامل ہے کہ ان حدود کو قائم کیا جائے اور انہیں ٹوٹنے نہ دیا جائے۔ لہٰذا سچے اہلِ ایمان کی تعریف صرف اتنی ہی نہیں ہے کہ وہ خود حدود اللہ کی پابندی کرتےہیں، بلکہ مزید برآں ان کی یہ صفت بھی ہے کہ وہ دنیا میں اللہ کی مقرر کردہ حدود کو قائم کرنے کی کوشش کرتے ہیں، ان کی نگہبانی کرتے ہیں اور اپنا پورا زور اس سعی میں لگا دیتے ہیں کہ یہ حدیں ٹوٹنے نہ پائیں |
2 | متن میں لفظ السَّا ئِحُونَ استعمال ہوا ہے جس کی تفسیر بعض مفسرین نے الصَّآ ئِمُونَ (روزہ رکھنے والے) سے کی ہے۔ لیکن سیاحت کے معنی روزہ، مجازی معنی ہیں۔ اصل لغت میں اس کے یہ معنی نہیں ہیں۔ اور جس حدیث میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خود اس لفظ کے یہ معنی ارشاد فرمائے ہیں ، اس کی نسبت حضورؐ کی طرف درست نہیں ہے۔ اس لیے ہم اس کو اصل لغوی معنی ہی میں لینا زیادہ صحیح سمجھتے ہیں۔ پھر جس طرح قرآن میں بکثرت مواقع پر مطلقًا انفاق کا لفظ استعمال ہوا ہے جس کےمعنی خرچ کرنے کے ہیں اور مراد اُس سے راہ ِ خدا میں خرچ کرنا ہے ، اُسی طرح یہاں بھی سیاحت سے مراد محض گھومنا پھرنا نہیں ہے بلکہ ایسے مقاصد کے لیے زمین میں نقل و حرکت کرنا ہے جو پاک اور بلند ہو ں اور جن میں اللہ کی رضا مطلوب ہو۔ مثلًا اقامت دین کے لیے جہاد، کفر زدہ علاقوں سے ہجرت، دعوتِ دین، اصلاحِ خلق، طلبِ علمِ صالح، مشاہدۂ آثارِ الہٰی اور تلاشِ رزق ِ حلال۔ اس صفت کو یہاں مومنین کی صفات میں خاص طور پر اس لیے بیان کیا گیا ہے کہ جو لوگ ایمان کا دعوٰی کرنے کے باوجود جہاد کی پکار پر گھروں سے نہیں نکلتے تھےان کو یہ بتایا جائے کہ حقیقی مومن ایمان کا دعویٰ کر کے اپنی جگہ چین سے بیٹھا نہیں رہ جاتا بلکہ وہ خدا کے دین کو قبول کر نے کے بعد اس کا بول بالا کرنے کے لیے اُٹھ کھڑا ہوتا ہے اور اس کے تقاضے پورے کرنے کے لیے دنیا میں دوڑ دھوپ اور سعی و جہد کرتا پھرتا ہے |
1 | متن میں لفظ التّآ ئِبُون استعمال ہوا ہے جس کا لفظی ترجمہ”توبہ کرنے والے“ ہے۔ لیکن جس اندازِ کلام میں یہ لفظ استعمال کیا گیا ہے اس سے صاف ظاہر ہے کہ توبہ کرنا اہلِ ایمان کی مستقل صفا ت میں سے ہے ، اس لیے اس کا صحیح مفہوم یہ ہے کہ وہ ایک ہی مرتبہ توبہ نہیں کرتے بلکہ ہمیشہ توبہ کرتے رہتے ہیں۔ اور توبہ کے اصل معنی رجوع کرنے یا پلٹنے کے ہیں، لہٰذا اس لفظ کی حقیقی روح ظاہر کرنے کے لیے ہم نے اس کا تشریحی ترجمہ یوں کیا ہے کہ ” وہ اللہ کی طرف بار بار پلٹتے ہیں“۔ مومن اگر چہ اپنے پورے شعور و ارادہ کے ساتھ اللہ تعالیٰ سے اپنے نفس و مال کی بیع کا معاملہ طے کرتا ہے، لیکن چونکہ ظاہر حال کے لحاظ سے محسوس یہی ہوتا ہےکہ نفس اس کا اپنا ہے اور مال اُس کا اپنا ہے، اور یہ بات کہ اِس نفس و مال کا اصل مالک اللہ تعالیٰ ہے ایک امر محسوس نہیں بلکہ محض ایک امر معقول ہے ، اس لیے مومن کی زندگی میں بارہا ایسے مواقع پیش آتے رہتے ہیں جبکہ وہ عارضی طور پر خدا کے ساتح اپنے معاملۂ بیع کو بھول جاتا ہے اور اس سے غافل ہو کر کوئی خودمختارانہ طرزِ عمل اختیار کربیٹھتا ہے۔ مگر ایک حقیقی مومن کی صفت یہ ہے کہ جب بھی اس کی یہ عارضی بھول دور ہوتی ہے اور وہ اپنی غفلت سے چونکتا ہے اور اس کو یہ محسوس ہو جاتا ہے کہ غیر شعوری طور پر وہ اپنے عہد کی خلاف ورزی کر گزرا ہے تو اسے ندامت لاحق ہوتی ہے ، شرمندگی کے ساتھ وہ اپنے خدا کی طرف پلٹتا ہے، معافی مانگتا ہے اور اپنے عہد کو پھر سے تازہ کر لیتا ہے۔ یہی بار بار کی توبہ اور یہی رہ رہ کر خدا کی طرف پلٹنا اور ہر لغزش کے بعد وفاداری کی راہ پر واپس آنا ہی ایمان کے دوام و ثبات کا ضامن ہے ۔ ورنہ انسان جن بشری کمزوریوں کے ساتھ پیدا کیا گیا ہے ان کی موجودگی میں تو یہ بات اس کے بس میں نہیں ہے کہ خدا کے ہاتھ ایک دفعہ نفس و مال بیچ دینے کے بعد ہمیشہ کامل شعورت حالت میں وہ اس بیع کے تقاضوں کو پورا کرتا رہے اور کسی وقت بھی غفلت و نسیان اس پر طاری نہ ہونے پائے۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ مومن کی تعریف میں یہ نہیں فرماتا کہ وہ بندگی کی راہ پر آکر کبھی اس سے پھسلتا ہی نہیں ہے، بلکہ اس کی قابلِ تعریف صفت یہ قرار دیتا ہے کہ وہ پھسل پھسل کر بار بار اُسی راہ کی طرف آتا ہے ، اور یہی وہ بڑی سے بڑی خوبی ہے جس پر انسان قادر ہے۔ پھر اس موقع پر مومنین کی صفات میں سب سے پہلے توبہ کا ذکر کرنے کی ایک اور مصلحت بھی ہے ۔ اوپر سے جو سلسلۂ کلام چلا آرہا ہے اس میں روئے سخن اُن لوگوں کی طرف ہے جن سے ایمان کے منافی افعال کا ظہور ہوا تھا۔ لہٰذا ان کو ایمان کی حقیقت اور اس کا بنیادی مقتضٰی بتانے کے بعد اب یہ تلقین کی جارہی ہے کہ ایمان لانے والوں میں لازمی طور پر جو صفات ہونی چاہییں ان میں سے اوّلین صفت یہ ہے کہ جب بھی ان کا قدم راہِ بندگی سے پھسل جائے وہ فورًا اس کی طرف پلٹ آئیں ، نہ یہ کہ اپنے انحراف پر جمے رہیں اور زیادہ دُور نکلتے چلے جائیں |
Surah 58 : Ayat 4
فَمَن لَّمْ يَجِدْ فَصِيَامُ شَهْرَيْنِ مُتَتَابِعَيْنِ مِن قَبْلِ أَن يَتَمَآسَّاۖ فَمَن لَّمْ يَسْتَطِعْ فَإِطْعَامُ سِتِّينَ مِسْكِينًاۚ ذَٲلِكَ لِتُؤْمِنُواْ بِٱللَّهِ وَرَسُولِهِۦۚ وَتِلْكَ حُدُودُ ٱللَّهِۗ وَلِلْكَـٰفِرِينَ عَذَابٌ أَلِيمٌ
اور جو شخص غلام نہ پائے وہ دو مہینے کے پے در پے روزے رکھے قبل اس کے کہ دونوں ایک دوسرے کو ہاتھ لگائیں اور جو اس پر بھی قادر نہ ہو وہ ۶۰ مسکینوں کو کھانا کھلائے1 یہ حکم اس لیے دیا جا رہا ہے کہ تم اللہ اور اُس کے رسول پر ایمان لاؤ2 یہ اللہ کی مقرر کی ہوئی حدیں ہیں، اور کافروں کے لیے دردناک سزا3 ہے
3 | یہاں کفر سے مراد منکر خدا و رسالت نہیں ہے، بلکہ وہ شخص ہے جو خدا و رسول کو ماننے کا اقرار و اظہار کرنے کے بعد بھی ہو طرز عمل اختیار کرے جو ایک کافر کے کرنے کا ہے۔ دوسرے الفاظ میں اس ارشاد کا مطلب یہ ہے کہ یہ دراصل کافروں کا کام ہے اللہ اور اس کے رسول کا حکم سننے کے بعد بھی اپنی مرضی چلاتے رہیں، یا جاہلیت کے طریقوں ہی کی پیروی کرتے رہیں۔ ورنہ سچے دل سے ایمان لانے والا تو کبھی یہ رویہ اختیار نہیں کر سکتا۔ یہی بات سورہ آل عمران میں بھی حج کی فرضیت کا حکم دینے کے بعد فرمائی گئی ہے کہ سَمَنْ کَفَرَفَاِنَّ اللہَ غَنِیٌّ عَنِ العٰلَمِیْنَ، ’’ اور جو کفر کرے (یعنی اس حکم کی اطاعت نہ کرے ) تواللہ دنیا والوں سے بے نیاز ہے ‘‘۔ ان دونوں مقامات پر ’’کفر‘‘ کا لفظ اس معنی میں نہیں ہے کہ جو شخص بھی ظہار کرنے کے بعد کفارہ ادا کیے بغیر بیوی سے تعلق رکھے، یا یہ سمجھے کہ ظہار ہی سے بیوی کو طلاق ہو گئی ہے، یا استطاعت کے باوجود حج نہ کرے، اسے قاضی شرع کا فرد مرتد ٹھیرا دے اور سب مسلمان اسے خارج از اسلام قرار دے دیں۔ بلکہ یہ اس معنی میں ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ہاں ایسے لوگوں کا شمار مومنین میں نہیں ہے جو اس کے احکام کو قول یا عمل سے رد کر دیں اور اس امر کی کوئی پروا نہ کریں کہ ان کے رب نے ان کے لیے کیا حدود مقرر کی ہیں، کن چیزوں کو فرض کیا ہے، کن چیزوں کو حلال کیا ہے اور کیا چیزیں حرام کر دی ہیں |
2 | یہاں ’’ ایمان لانے ‘‘ سے مراد سچے اور مخلص مومن کا سا رویہ اختیار کرنا ہے۔ ظاہر ہے کہ آیت کے مخاطب کفار و مشرکین نہیں ہیں، بلکہ مسلمان ہیں جو پہلے ہی ایمان لاۓ ہوۓ تھے ان کو شریعت کا ایک حکم سنانے کے بعد یہ فرمانا کہ ’’ یہ حکم تم کو اس لیے دیا جارہا ہے کہ تم اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ ‘‘ صاف طور پر یہ معنی رکھتا ہے کہ جو شخص خدا کے اس حکم کو سننے کے بعد بھی جاہلیت کے پرانے رواجی قانون کی پیروی کرتا رہے اس کا یہ طرز عمل ایمان کے منافی ہو گا۔ ایک مومن کا یہ کام نہیں ہے کہ اللہ اور اس رسول جب زندگی کے کسی معاملہ میں اس کے لیے ایک قانون مقرر کر دے تو وہ اس کو چھوڑ کر دنیا کے کسی دوسرے قانون کی پیروی کرے، یا پانے جنس کی خواہشات پر عمل کر تا رہے |
1 | یہ ہے ظہار کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا حکم۔ فقہاۓ اسلام نے اس آیت کے الفاظ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے فیصلوں، اور اسلام کے اصولِ عامہّ سے اس مسئلے میں جو قانون اخذ کیا ہے اس کی تفصیلات یہ ہیں : (1) ظہار کا یہ قانون عرب جاہلیت کے اس رواج کو منسوخ کرتا ہے جس کی رو سے یہ فعل نکاح کے رشتے کو توڑ دیتا تھا اور عورت شوہر کے لیے ابداً حرام ہو جاتی تھی۔ اسی طرح یہ قانون ان تمام قوانین اور رواجوں کو بھی منسوخ کرتا ہے جو ظہار کو بے معنی اور بے اثر سمجھتے ہوں اور آدمی کے لیے اس بات کو جائز رکھتے ہوں کہ وہ اپنی بیوی کا ماں یا محرمات سے تشبیہ دے کر بھی اس کے ساتھ حسب سابق زن و شَوہر کا تعلق جاری رکھے، کیونکہ اسلام کی نگاہ میں ماں اور دوسری محرمات کی حرمت ایسی معمولی چیز نہیں ہے کہ انسان ان کے اور بیوی کے درمیان مشابہت کا خیال بھی کرے، کجا کہ اس کے زبان پر لاۓ۔ ان دونوں انتہاؤں کے درمیان اسلامی قانون نے اس معاملہ میں جو موقف اختیار کیا ہے وہ تین بنیادوں پر قائم ہے۔ ایک یہ کہ ظہار سے نکاح نہیں ٹوٹتا بلکہ عورت بدستور شوہر کی بیوی رہتی ہے۔ دوسرے یہ کہ ظہار سے عورت وقتی طور پر شوہر کے لیے حرام ہو جاتی ہے۔ تیسرے یہ حرمت اس وقت تک باقی رہتی ہے جب تک شوہر کفارہ ادا نہ کر دے، اور یہ کہ صرف کفارہ ہی اس حرمت کو رفع کر سکتا ہے۔ (2) ظہار کرنے والے شخص کے بارے میں یہ امر متفق علیہ ہے کہ اس شوہر کا ظہار معتبر ہے جو عاقل و بالغ ہو اور بحالت ہوش و حواس ظہار کے الفاظ زبان سے ادا کرے۔ بچے اور مجنون کا ظہار معتبر نہیں ہے۔ نیز ایسے شخص کا ظہار بھی معتبر نہیں جو ان الفاظ کو ادا کرتے وقت اپنے ہوش و حواس میں نہ ہو، مثلاً سوتے میں بڑبڑاۓ، یا کسی نوعیت کی بیہوشی میں مبتلا ہو گیا ہو۔ اس کے بعد حسب ذیل امور میں فقہاء کے درمیان اختلاف ہے : الف۔ نشے کی حالت میں ظہار کرنے والے کے متعلق ائمہ اربعہ سمیت فقہاء کی عظیم اکثریت کہ کہتی ہے کہ اگر کسی شخص نے کوئی نشہ آور چیز جان بوجھ کر استعمال کی ہو تو اس کا ظہار اس کی طلاق کی طرح قانوناً صحیح مانا جاۓ گا، کیونکہ اس نے یہ حالت اپنے اوپر خود طاری کی ہے۔ البتہ اگر مرض کی وجہ سے اس نے کوئی دوا پی ہو اور اس سے نشہ لاحق ہو گیا ہو، یا پیاس کی شدت میں وہ جان بچانے کے لیے شراب پینے پر مجبور ہوا ہو تو اس طرح کے نشے کی حالت میں اس کے ظہار و طلاق کو نافذ نہیں کیا جاۓ گا۔ احناف اور شوافع اور حنابلہ کی راۓ یہی ہے اور صحابہ کا عام مسلک بھی یہی تھا۔ بخلاف اس کے حضرت عثمانؓ کا قول یہ ہے کہ نشے کی حالت میں طلاق و ظہار معتبر نہیں ہے۔احناف میں سے امام طحاویؒ اور کَرْخیؒ اس قول کو ترجیح دیتے رہیں اور امام شافعیؒ کا بھی ایک قول اس کی تائید میں ہے۔ مالکیہ کے نزدیک ایسے نشے کی حالت میں ظہار معتبر ہو گا جس میں آدمی بالکل بہک نہ گیا ہو، بلکہ وہ مربوط اور مرتب کلام کر رہا ہو اور اسے یہ احساس ہو کہ وہ کیا کہہ رہا ہے۔ امام ابو حنیفہؒ اور امام مالکؒ کے نزدیک ظہار صرف اس شوہرکا معتبر ہے جو مسلمان ہو۔ذمیوں پر ان احکام کا اطلاق نہیں ہوتا، کیونکہ قرآن مجید میں اَلَّذِیْنَ یُظَاھِرُوْنَ مِنْکُمْ کے الفاظ ارشاد ہوۓ ہیں جن کا خطاب مسلمانوں سے ہے، اور تین قسم کے کفاروں میں سے ایک کفارہ قرآن میں روزہ بھی تجویز کیا گیا ہے جو ظاہر ہے کہ ذمیوں کے لیے نہیں ہو سکتا۔ امام شافعی اور امام احمد کے نزدیک یہ احکام ذِمی اور مسلمان، دونوں کے ظہار پر نافذ ہوں گے، البتہ ذمی کے لیے روزہ نہیں ہے۔ وہ یا غلام آزاد کرے یا 60 مسکینوں کو کھانا کھلاۓ۔ ج۔ کیا مرد کی طرح عورت بھی ظہار کر سکتی ہے؟ مثلاً اگر وہ شوہر سے کہے کہ تو میرے لیے میرے باپ کی طرح ہے، یا میں تیرے لیے تیری ماں کی طرح ہوں، تو کیا یہ بھی ہو گا؟ ائمہ اربعہ کہتے ہیں کہ یہ ظہار نہیں ہے اور اس پر ظہار ے قانونی احکام کا سرے سے اطلاق نہیں ہوتا۔ کیونکہ قرآن مجید نے صریح الفاظ میں یہ احکام صرف اس صورت کے لیے بیان کیے ہیں جبکہ شوہر بیویوں سے ظہار کریں (اَلَّذِیْنَ یُظَاھِرُوْنَ مِنْ نِّسَآءِ ھِمْ) اور ظہار کرنے کے اختیارات اسی کو حاصل ہو سکتے ہیں جسے طلاق دینے کا اختیار ہے۔ عورت کو شریعت نے جس طرح یہ اختیار نہیں دیا کہ شوہر کو طلاق دیدے اسی طرح اسے یہ اختیار بھینہیں دیا کہ اپنے آپ کو شوہر کے لیے حرام کر لے۔ یہی راۓ سفیان ثوری، اسحٰق بن رائبویہ، ابو ثور اور لَیث بن سعد کی ہے کہ عورت کا ایس قول بالکل بے معنی اور بے اثر ہے۔ امام ابو یوسف کہتے ہیں کہ یہ ظہار تو نہیں ہے۔ مگر اس سے عورت پر قسم کا کفارہ لازم آۓ گا، کیونکہ عورت کا سیے الفاظ کہنا یہ معنی رکھتا ہے کہ اس نے اپنے شوہر سے تعلق نہ رکھنے کی قسم کھائی ہے۔ امام احمد بن حنبل کا مسلک بھی ابن قدامہ نے یہی نقل کیا ہے۔ امام اوزاعی کہتے ہیں کہ اگر شادی سے پہلے عورت نے یہبات کہی ہو کہ میں اس شخص سے شادی کروں تو وہ میرے لیے ایسا ہے جیسے میرا باپ، تو یہ ظہار ہو گا، اور اگر شادی کے بعد کہے تو یہ قَسم کے معنی میں ہو گا جس سے کفارۂ یمین لازم آۓ گا۔ بخلاف اس کے حسن بصری، زہری، ابراہیم نخعی، اور حسن بن زیاد لُؤْلُئِ کہتے ہیں کہ یہ ظہار ہے اور ایسا کہ سے عورت پر کفارہ ظہار لازم آۓ گا، البتہ عورت کو یہ حق نہ ہو گا کہ کفارہ دینے سے پہلے شوہر کو اپنے پاس آنے سے روک دے۔ ابراہیم نخعی اسکی تائید میں یہ واقعہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت طلحہؓ کی صاحبزادی عائشہ سے حضرت زبیر کے صاحبزادے مصعب نے بناح کا پیغام دیا۔ انہوں نے اسے رد کرتے ہوۓ یہ الفاظ کہہ دیے کہ اگر میں ان سے نکاح کروں تو ھُوَ عَلَیَّ کَظَھْرِ اَبِیْ۔ (وہ میرے اوپر ایسے ہوں جیسے میرے باپ کی پیٹھ)۔ کچھ مدت بعد وہ ان سے شادی کرنے پر راضی ہو گئیں۔ مدینہ کے علماء سے اس کے متعلق فتویٰ لیا گیا تو بہت سے فقہاء نے جن میں متعدد صحابہ بھی شامل تھے، یہ فتویٰ دیا کہ عائشہ پر کفارہ ظہار لازم ہے۔ اس واقعہ کو نقل کرنے کے بعد ابراہیم نخعی اپنی یہ راۓ بیان کرتے ہیں کہ اگر عائشہ یہ بات شادی کے بعد کہتیں تو کفارہ لازم نہ آتا، مگر انہوں نے شادی سے پہلے یہ کہا تھا جب انہیں نکاح کرنے یا نہ کرنے کا اختیار حاصل تھا اس لیے کفارہ ان پر واجب ہو گیا۔ (3) جو عاقل و بالغ آدمی ظہار کے صریح الفاظ بحالت ہوش و حواس زبان سے ادا کرے اس کا یہ عذر قابل قبول نہیں ہو سکتا کہ اس نے غصے میں، یا مذاق مذاق میں، یا پیار سے ایسا کہا، یا یہ کہ اس کی نیت ظہار کی نہ تھی۔ البتہ جو الفاظ اس معاملہ میں صریح نہیں ہیں، اور جن میں مختلف معنوں کا احتمال ہے، ان کا حکم الفاظ کی نوعیت پر منحصر ہے۔ آگے چل کر ہم بتائیں گے کہ ظہار کے صریح الفاظ کون سے ہیں اور غیر صریح کون سے۔ (4)۔ یہ امر متفق علیہ ہے کہ ظہار اس عورت سے کیا جا سکتا ہے جو آدمی کے نکاح میں ہو۔ البتہ اس امر میں اختلاف ہے کہ کیا غیر عورت سے بھی ظہار ہو سکتا ہے۔ اس معاملہ میں مختلف مسالک یہ ہیں : حنفیہ کہتے ہیں کہ غیر عورت سے اگر آدمی یہ کہے کہ ’’ میں تجھ سے نکاح کروں تو میرے اوپر تو ایسی ہے جیسے میری ماں کی پیٹھ‘‘، تو جب بھی وہ اس سے نکاح کرے گا کفارہ ادا کیے بغیر اسے ہاتھ نہ لگا سکے گا۔ یہی حضرت عمرؓ کا فتویٰ ہے۔ ان کے زمانہ میں ایک شخص نے ایک عورت سے یہ بات کہی اور بعد میں اس سے نکاح کر لیا۔حضرت عمرؓنے فرمایا اسے کفارہ ظہار دینا ہو گا۔ مالکیہ اور حنابلہ بھی یہی بات کہتے ہیں، اور وہ اس پر یہ اضافہ کرتے ہیں کہ اگر عورت کی تخصیص نہ کی گئی ہو بلکہ کہنے والے نے یوں کہا ہو کہ تمام عورتیں میرے اوپر ایسی ہیں، تو جس سے بھی وہ نکاح کرے گا اسے ہاتھ لگانے سے پہلے کفارہ دینا ہو گا۔ یہی راۓ سعید بن المسیب، عروہ بن زبیر، عطاء بن ابی رباح، حسن نصری اور اسحاق بن راہویہ کی ہے۔ شافعیہ کہتے ہیں کہ نکاح سے پہلے ظہار بالکل بے معنی ہے۔ ابن عباس اور قتادہ کی بھی ہیہ راۓ ہے۔ (5)۔ کیا ظہار ایک خاص وقت تک کے لیے ہو سکتا ہے؟ حنفی اور شافعی کہتے ہیں کہ اگر آدمی نے کسی خاص وقت کی تعیین کر کے ظہار کیا ہو تو جب تک و وقت باقی ہے، بیوی کو ہاتھ لگانے سے کفارہ لازم آۓ گا، اور اس وقت کے گزر جانے پر ظہار غیر مؤثر ہو جاۓ گا۔ اس کی دلیل سلمہ بن صخر بیاضی کا واقعہ ہے جس میں انہوں نے اپنی بیوی سے رمضان کے لیے ظہار کیا تھا اور نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے ان سے یہ نہیں فرمایا تھا کہ وقت کی تعیین بے معنی ہے۔ بخلاف اس کے امام مالک اور ابن ابی لیلیٰ کہتے ہیں کہ ظہار جب بھی کیا جاۓ گا، ہمیشہ کے لیے ہو گا اور وقت کی تخصیص غیر مؤثر ہو گی، کیونکہ جو حرمت واقع ہو چکی ہے و ہ وقت گزر جانے پر آپ سے آپ ختم نہیں ہو سکتی۔ (6)۔ مشروط ظہار کیا گیا ہو تو جس وقت بھی شرط کی خلاف ورزی ہو گی، کفارہ لازم آ جاۓ گا۔ مثلاً آدمی بیوی سے یہ کہتا ہے کہ ’’ اگر میں گھر میں آؤں تو میرے اوپر تو ایسی ہے جیسے میری ماں کی بیٹھ‘‘۔ اس صورت میں وہ جب بھی گھر میں داخل ہو گا۔ کفارہ ادا کیے بغیر بیوی کو ہاتھ نہ لگا سکے گا۔ (7)۔ ایک بیوی سے کئی مرتبہ ظہار کے الفاظ کہے گۓ ہوں تو حنفی اور شافعی کہتے ہیں کہ خواہ ایک ہی نشست میں ایسا کیا گیا ہو یا متعدد نشستوں میں، بہر حال جتنی مرتبہ یہ الفاظ کہے گۓ ہوں اتنے ہی کفارے لازم آئیں گے، الا یہ کہ کہنے والے نے ایک دفعہ کہنے کے بعد اس قول کی تکرار محض اپنے پہلے قول کی تاکید کے لیے کی ہو۔ بخلاف اس کے امام مالک اور امام احمد بن حنبل کہتے ہیں کہ خواہ کتنی ہی مرتبہ اس قول کی تکرار کی گئی ہو، قطع نظر اس سے کہ اعادہ کی نیت ہو یا تاکید کی، کفارہ ایک ہی لازم ہو گا۔ یہی قول شعبی، طاؤس، عطاء بن ابی رباح، حسن بصری، اور اوزاعی رحمہم اللہ کا ہے حضرت علی کا فتویٰ یہ ہے کہ اگر تکرار ایک نشست میں کی گئی ہو تو ایک ہی کفارہ ہو گا، اور مختلف نشستوں میں ہو تو جتنی نشستوں میں کی گئی ہو اتنے ہی کفارے دینے ہوں گے۔ قتادہ اور عمرو بن دینار کی راۓ بھی یہی ہے۔ (8) دو یا زائد بیویوں سے بیک وقت اور بیک لفظ ظہار کیا جاۓ، مثلاً ان کو مخاطب کر کے شوہر کہے کہ تم میرے اوپر ایسی ہو جیسے میری ماں کی پیٹھ، تو حنفیہ اور شافعیہ کہتے ہیں کہ ہر ایک کو حلال مرنے کے لیے الگ الگ کفارے دینے ہونگے۔ یہی راۓ حضرت عمرؓ، حضرت علیؓ، عروہ بن زبیر، طاؤس، عطاء، حسن بصری، ابراہیم نخعی، سفیان ثوری، اور ابن شہاب زہری کی ہے۔ امام مالکؒ اور امام احمدؒ کہتے ہیں کہ اس صورت میں سب سے کے لیے ایک ہی کفارہ لازم ہو گا۔ ربیعہ، اوزاعی، اسحاق بن راہویہ اور ابوٹور کی بھی یہی راۓ ہے۔ (9) ایک ظہار کا کفارہ دینے کے بعد اگر آدمی پھر ظہار کر بیٹھے تو یہ امر متفق علیہ ہے کہ پھر کفارہ دیے بغیر بیوی اس کے لیے حلال نہ ہو گی۔ (10)۔ کفارہ ادا کرنے سے پہلے اگر بیوی سے تعلق زن و شو قائم کر بیٹھا ہو تو ائمہ اربعہ کے نزدیک اگر چہ یہ گناہ ہے، اور آدمی کو اس پر استغفار کرنا چاہیے، اور پھر اس کا اعادہ نہ کرنا چاہیے، مگر کفارہ اسے ایک ہی دینا ہو گا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے زمانہ میں جن لوگوں نے ایسا کیا تھا ان سے آپ نے نہیں دیا تھا کہ کفارہ ظہار کے علاوہ اس پر انہیں کوئی اور کفارہ بھی دینا ہو گا۔ حضرت عمرو بن عاص، قبیصہبن ذؤَیب سعید بن جبیر، زہری اور قتادہ کہتے ہیں کہ اس پر دو کفارے لازم ہوں گے۔ اور حسن بصری اور ابراہیم نخعی کی راۓ یہ ہے کہ تین کفارے دینے ہوں گے۔ غالباً ان حضرات کو وہ احادیث نہ پہنچی ہوں گی جن میں اس مسئلہ پر حضورؐ کا فیصلہ بیان ہوا ہے۔ (11)۔ بیوی کس کس سے تشبیہ دینا ظہار ہے؟ اس مسئلے میں فقہاء کے درمیان اختلاف ہے : عامر شعبی کہتے ہیں کہ صرف ماں سے تشبیہ ظہار ہے، باقی اور کسی بات پر اس حکم کا اطلاق نہیں ہوتا۔ مگ فقہاء امت میں سے کسی گروہ بے بھی ان سے اس معاملہ میں اتفاق نہیں کیا ہے، کیونکہ قرآن نے ماں سے تشبیہ کو گناہ قرار دینے کی وجہ یہ بیان کی ہے کہ یہ نہایت بیہودہ اور جھوٹی بات ہے۔ اب یہ ظاہر ہے کہ جن عورتوں کی حرمت ماں جیسی ہے ان کے ساتھ بیوی کو تشبیہ دینا بیہودگی اور جھوٹ میں اس سے کچھ مختلف نہیں ہے، اس لیے کوئی وجہ نہیں کہ اس کا حکم وہی نہ ہو جو ماں سے تشبیہ کا حکم ہے۔ حنفیہ کہتے ہیں کہ اس حکم میں تمام وہ عورتیں داخل ہیں جو نسب یا رضاعت، یا ازدواجی رشتہ کی بنا پر آدمی کے لیے ابداً حرام ہیں مگر وقتی طور پر جو عورتیں حرام ہوں اور کسی وقت حلال ہو سکتی ہوں وہ اس میں داخل نہیں ہیں۔ جیسے بیوی کی بہن، اس کی خالہ، اس کی پھوپھی، یا غیر عورت جو آدمی کے نکاح میں نہ ہو۔ ابدی محرمات میں سے کسی عورت کے کسی ایسے عضو کے ساتھ تشبیہ دینا جس پر نظر ڈالنا آدمی کے لیے حلال نہ ہو، ظہار ہو گا۔ البتہ بیوی کے ہاتھ، پاؤں، سر، بال، دانت وغیرہ کو ابداً حرام عورت کی پیٹھ سے، یا بیوی کو اس کے سر، ہاتھ، پاؤں جیسے اجزاۓ جسم سے تشبیہ دینا ظہار نہ ہو گا کیونکہ ماں بہن کے ان اعضاء پر نگاہ ڈالنا حرام نہیں ہے۔ اسی طرح یہ کہنا کہ تیرا ہاتھ میری ماں کے ہاتھ جیسا ہے، یا تیرا پاؤں میری ماں کے پاؤں جیسا ہے، ظہار نہیں ہے۔ شافعیہ کہتے ہیں کہ اس حکم میں صرف وہی عورتیں داخل ہیں جوق ہمیشہ حرام تھیں اور ہمیشہ حرام رہیں، یعنی ماں، بہن، بیٹی وغیرہ مگر وہ عورتیں اس میں داخل نہیں ہیں جو کبھی حلال رہ چکی ہوں، جیسے رضاعی ماں، بہن، ساس اور بہو، یا کسی وقت حلال ہو سکتی ہوں،جیسے سالی۔ ان عارضی یا وقتی حرام عورتوں کے ماسوا ابدی حرمت رکھنے والی عورتوں میں سے کسی کے ان اعضا کے ساتھ بیوی کو تشبیہ دینا ظہار ہو گا جن کا ذکر بغرض اظہار اکرام و توقیر عادۃً نہیں کیا جاتا۔ رہے وہ اعضاء جن کا اظہار اکرام و توقیر کے کیا جاتا ہے تو ان تشبیہ صرف اس صورت میں ظہار ہو گی جبکہ یہ بات ظہار کی نیت سے کہی جاۓ۔ مثلاً بیوی سے یہ کہنا کہ تو میرے لیے میری ماں کی آنکھ یا جان کی طرح ہے، یا ماں کے ہاتھ، پاؤں یا پیٹ کی طرح ہے، یا ماں کے پیٹ یا سینے سے بیوی کے پیٹ یا سینے کو تشبیہ دینا، یا بیوی کے سر، پیٹھ یا ہاتھ کو اپنے لیے ماں کی پیٹھ جیسا قرار دینا، یا بیوی کو یہ کہنا کہ تو میرے لیے میری ماں جیسی ہے، ظہار کی نیت سے ہو تو ظہار ہے اور عزت کی نیت سے ہو تو عزت ہے۔ مالکیہ کہتے ہیں کہ ہر عورت جو آدمی کے لیے حرام ہو، اس سے بیوی کو تشبیہ دینا ظہار ہے، حتی کہ بیوی سے یہ کہنا بھی ظہار کی تعریف میں آتا ہے ہ تو میرے اوپر فلاں غیر عورت کی بیٹھ جیسی ہے، نیز وہ کہتے ہیں کہ ماں اور ابدی محرمات کے کسی عضو سے بیوی کو یا بیوی کے کسی عضو کو تشبیہ دینا ظہار ہے، اور اس میں یہ شرط نہیں ہے کہ وہ اعضاء ایسے ہوں جن پر نظر ڈالنا حلال نہ ہو، کیونکہ مان کے کسی عضو پر بھی اس طرح کی نظر ڈالنا جیسی بیوی پر ڈالی جاتی ہے، حلال نہیں ہے۔ حنابلہ اس حکم میں تمام ان عورتوں کو داخل سمجھتے ہیں جو ابداً حرام ہوں، خواہ وہ پہلے کبھی حلال رہ چکی ہوں، مثلاً ساس، یا دودھ پلانے والی ماں رہیں وہ عورتیں جو بعد میں کسی وقت حلال ہو سکتی ہوں، (مثلاً سالی)، تو ان کے معاملہ میں امام احمد کا ایک قول یہ ہے کہ ان سے تشبیہ بھی ظہار ہے اور دوسرا قول یہ ہے کہ ان سے تشبیہ دینا ظہار کی تعریف میں آ جاتا ہے۔ البتہ بال، ناخن، دانت جیسے غیر مستقل اجزاء جسم اس حکم سے خارج ہیں۔ (12)۔ اس امر میں تمام فقہاء کا اتفاق ہے کہ بیوی سے یہ کہنا کہ ’’ تو میرے اوپر میری ماں کی بیٹھ جیسی ہے ‘‘ صریح ظہار ہے کیونکہ اہل عرب میں یہی ظہار کا طریقہ تھا اور قرآن مجید کا حکم اسی کے بارے میں نازل ہوا ہے۔ البتہ اس امر میں فقہاء کے درمیان اختلاف ہے کہ دوسرے الفاظ میں سے کون سے ایسے ہیں جو صریح ظہار کے حکم میں ہیں، اور کون سے ایسے ہیں جن کے ظہار ہونے یا نہ ہونے کا فیصلہ قائل کی نیت پر کیا جاۓ گا۔ حنفیہ کے نزدیک ظہار کے صریح الفاظ وہ ہیں جن میں صاف طور پر حلال عورت(بیوی) کو حرام عورت (یعنی محرمات ابدیہ میں سے کسی عورت) سے تشبیہ دی گئی ہو، یا تشبیہ ایسے عضو سے دی گئی ہو جس پر نظر ڈالنا حلال نہیں ہے، جیسے یہ کہنا کہ تو میرے اوپر ماں یا فلاں حرام عورت کے پیٹ یا ران جیسی ہے۔ ان کے سوا دوسرے الفاظ میں اختلاف کی گنجائش ہے۔ اگر کہے کہ ’’تو میرے اوپر حرام ہے جیسے میری ماں کی پیٹھ‘‘ تو امام ابو حنیفہ کے نزدیک یہ صریح ظہار ہے، لیکن امام ابو یوسف اور امام محمد کے نزدیک ظہار کی نیت ہو تو ظہار ہے اور طلاق کی نیت ہو تو طلاق۔ اگر کہے کہ ’’ تو میری ماں جیسی ہے یا میری ماں کی طرح ہے ‘‘ تو حنیفہ کا عام فتویٰ یہ ہے کہ یہ ظہار کی نیت سے ظہار ہے، طلاق کی نیت سے طلاق بائن، اور اگر کوئی نیت نہ ہو تو بے معنی ہے۔ لیکن امام محمد کے نزدیک یہ قطعی ہے۔ اگر بیوی کو ماں یا بہن یا بیٹی کہہ کر پکارے تو یہ سخت بیہودہ بات ہے جس پر نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے غصے کا اظہار فرمایا تھا، مگر اسے ظہار نہیں قرار دیا۔ اگر کہے کہ ’’ تو میرے اوپر ماں کی طرح حرام ہے ‘‘ تو یہ ظہار کی نیت سے ظہار ہے، طلاق کی نیت سے طلاق، اور کوئی نیت نہ ہو تو ظہار ہے۔ اگر کہے کہ ’’ تو میرے لیے ماں کی طرح یا ماں جیسی ہے ‘‘ تو نیت پوچھی جاۓ گی۔ عزت اور توقیر کی نیت سے کہا ہو تو عزت اور توقیر ہے۔ ظہار کی نیت سے کہا ہو تو ظہار ہے۔ طلاق کی نیت سے کہا ہو تو طلاق ہے۔ کوئی نیت نہ ہو اور یونہی یہ بات کہہ دی ہو تو امام ابو حنیفہؒ کے نزدیک بے معنی ہے، امام ابو یوسف کے نزدیک اس پر ظہار کا تو نہیں مگر قسم کا کفارہ لازم آۓ گا، اور امام محمد کے نزدیک یہ ظہار ہے۔ شافعیہ کے نزدیک ظہار کے صریح الفاظ یہ ہیں کہ کوئی شخص اپنی بیوی سے کہے کہ تو میرے نزدیک، یا میرے ساتھ، یا میرے لیے ایسی ہے جیسی میری ماں کی پیٹھ۔ یا تو میری ماں کی پیٹھ کی طرح ہے۔ یا تیرا جسم، یا تیرا بدن، یا تیرا نفس میرے لیے میری ماں کے جسم یا بدن یا جنس کی طرح ہے۔ ان کے سوا باقی تمام الفاظ میں قائل کی نیت پر فیصلہ ہو گا۔ حنابلہ کے نزدیک ہر وہ لفظ جس سے کسی شخص نے بیوی کو یا اس کے مستقل اعضاء میں سے کسی عضو کو کسی ایسی عورت سے جو اس کے لیے حرام ہے، یا اس کے مستقل اعضاء میں سے کسی عضو سے صاف صاف تشبیہ دی ہو، ظہار کے معاملہ میں صریح مانا جاۓ گا۔ مالکیہ کا مسلک بھی قریب قریب یہی ہے، البتہ تفصیلات میں ان کے فتوے الگ الگ ہیں۔ مثلاً کسی شخص کی بیوی سے یہ کہنا کہ ’’ میرے لیے میری ماں جیسی ہے، یا میری ماں کی طرح ہے ‘‘ مالکیوں کے نزدیک ظہار کی نیت سے ہو تو ظہار ہے، طلاق کی نیت سے ہو تو طلاق اور کوئی نیت نہ ہو تو ظہار ہے۔ حنبلیوں کے نزدیک یہ بشرط نیت صرف ظہار قرار دیا جا سکتا ہے۔ اگر کوئی شخص بیوی سے کہے کہ ’’ تو میری ماں ہے ‘‘ تو مالکیہ کہتے ہیں کہ یہ ظہار ہے اور حنابلہ کہتے ہیں کہ یہ بات اگر جھگڑے اور غصے کی حالت میں کہی گئی ہو تو ظہار ہے، اور پیار محبت کی بات چیت میں کہی گئی ہو تو کو یہ بہت ہی بری بات ہے لیکن ظہار نہیں ہے۔ اگر کوئی شخص کہے ’’ تجھے طلاق ہے تو میری ماں کی طرح ہے ‘‘ تو حنابلہ کے نزدیک یہ طلاق ہے نہ کہ ظہار، اور اگر کہے ’’ تو میری ماں کی طرح ہے تجھے طلاق ہے ‘‘ تو ظہار اور طلاق دونوں واقع ہو جائیں گے۔ یہ کہنا کہ ’’ تو میرے اوپر ایسی حرام ہے جیسی میر ی ماں کی بیٹھ‘‘ مالکیہ اور حنابلہ دونوں کے نزدیک ظہار ہے خواہ طلاق ہی کی نیت سے یہ لفاظ کہے گۓ ہوں، یا نیت کچھ بھی نہ ہو۔ الفاظ ظہار کی اس بحث میں یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ فقہاء نے اس باب میں جتنی بحثیں کی ہیں وہ سب عربی زبان کی الفاظ اور محاورات سے تعلق رکھتی ہیں، اور ظاہر ہے کہ دنیا کی دوسری زبانیں بولنے والے نہ عربی زبان میں ظہار کریں گے، نہ ظہار کرتے وقت عربی الفاظ اور فقروں کا ٹھیک ٹھیک ترجمہ زبان سے ادا کریں گے۔ اس لیے کسی لفظ یا فقرے کے متعلق اگر یہ فیصلہ کرنا ہو کہ وہ ظہار کی تعریف میں آتا ہے یا نہیں، تو اسے اس لحاظ سے نہیں جانچنا چاہیے کہ وہ فقہاء کے بیان کردہ الفاظ میں سے کس کا صحیح ترجمہ ہے، بلکہ صرف یہ دیکھنا چاہیے کہ آیا قائل نے بیوی کو جنسی(Sexual) تعلق کے لحاظ سے محرمات میں سے کسی کے ساتھ صاف صاف تشبیہ دی ہے، یا اس کے الفاظ میں دوسرے مفہومات کا بھی احتمال ہے؟ اس کی نمایاں ترین مثال خود وہ فقرہ ہے جس کے متعلق تمام فقہاء اور مفسرین کا اتفاق ہے کہ عرب میں ظہار کے لیے وہی بولا جاتا تھا اور قرآن مجید کا حکم اسی کے بارے میں نازل ہوا ہے، یعنی اَنْتِ عَلَیَّ کَظَھْرِ اُمِّیْ (تو میرے اوپر میری ماں کی پیٹھ جیسی ہے )۔ غالباً دنیا کی کسی زبان میں، اور کم از کم اردو کی حد تک تو ہم یقین کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ اس زبان میں کوئی ظہار کرنے والا ایسے الفاظ استعمال نہیں کر سکتا جو اس عربی فقرے کا لفظی ترجمہ ہوں۔ البتہ وہ اپنی زبان کے ایسے الفاظ ضرور استعمال کر سکتا ہے جن کا مفہوم ٹھیک وہی ہو جسے ادا کرنے کے لیے ایک عرب یہ فقرہ بولا کرتا تھا۔ اس کا مفہوم یہ تھا کہ ’’تجھ سے مباشرت میرے لیے ایسی ہے جیسے اپنی ماں سے مباشرت ‘‘، یا جیسے بعض جہلا بیوی سے کہہ بیٹھتے ہیں کہ ’’تیرے پاس آؤں تو اپنی ماں کے پاس جاؤں تو اپنی ماں کے پاس جاؤں ‘‘۔ (13) قرآن مجید میں جس چیز کو کفارہ لازم آنے کا سبب قرار دیا گیا ہے وہ محض ظہار نہیں ہے بلکہ ظہار کے بعد ’’غور‘‘ ہے۔ یعنی اگر آدمی صرف ظہار کر کے رہ جاۓ اور عَود نہ کرے تو اس پر کفارہ لازم نہیں آتا۔ اب سوال یہ ہے کہ وہ عَود کیا ہے جو کفارہ کا موجب ہے؟ اس بارے میں فقہاء کے مالک یہ ہیں : حنفیہ کہتے ہیں کہ عَود سے مراد مباشرت کا ارادہ ہے۔ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ محض ارادے اور خواہش پر کفارہ لازم آ جاۓ، حتیٰ کیہ اگر آدمی ارادہ کر کے رہ جاۓ اور عملی اقدام نہ کرے تب بھی اسے کفارہ دینا پڑے۔ بلکہ اس کا صحیح مطلب یہ ہے کہ جو شخص اس حرمت کو رفع کرنا چاہے جو اس نے ظہار کر کے بیوی کے ساتھ تعلق زن و شو کے معاملہ میں اپنے اوپر عائد کر لی تھی وہ پہلے کفارہ دے، کیونکہ یہ حرمت کفارہ کے بغیر رفع نہیں ہو سکتی۔ امام مالکؒ کے اس معاملہ میں تین قول ہیں، مگر مالکیہ کے ہاں ان کا مشہور ترین اور صحیح ترین قول اس مسلک کے مطابق ہے جو اوپر حنفیہ کا بیان ہوا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ظہار سے جس چیز کو اس نے اپنے اوپر حرام کر لیا تھا۔ وہ بیوی کے ساتھ مباشرت کا تعلق تھا۔ اس کے بعد عَودیہ ہے کہ وہ اس کے ساتھ یہی تعلق رکھنے کے لیے پلٹے۔ امام احمد بن حنبلؒ کا مسلک بھی ابن قدامہ نے قریب قریب وہی نقل کیا ہے جو اوپر دونوں اماموں کا بیانکیا گیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ظہار کے بعد مباشرت کے حلال ہونے کے لیے کفارہ شرط ہے۔ ظہار کرنے والا جو شخص اسے حلال کرنا چاہے وہ گویا تحریم سے پلٹنا چاہتا ہے۔ اس لیے اسے حکم دیا گیا کہ اسے حلال کرنے سے پہلے کفارہ دے، ٹھیک اسی طرح جیسے کوئی شخص ایک غیر عورت کو اپنے لیے حلال کرنا چاہے تو اس سے کہا جاۓ گا کہ اسے حلال کرنے سے پہلے نکاح کرے۔ امام شافعؒی کا مسلک ان تینوں سے مختلف ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ آدمی کا اپنی بیوی سے ظہار کرنے کے بعد اسے حسب سابق بیوی بناۓ رکھنا، یا بالفاظ دیگر اسے بیوی کی حیثیت سے روکے رکھنا عَود ہے۔ کیونکہ جس وقت اس نے ظہار کیا اسی وقت گویا اس نے اپنے لیے یہ بات حرام کر لی کہ اسے بیوی بنا کر رکھے۔ لہٰذا اگر اس نے ظہار کرتے ہی فوراً اسے طلاق نہ دی اور اتنی دیر تک اسے روکے رکھا جس میں وہ طلاق کے الفاظ زبان سے نکال سکتا تھا، تو اس نے عَود کر لیا اور اس پر کفارہ واجب ہو گیا۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ ایک سانس میں ظہار کرنے کے بعد اگر آدمی دوسرے ہی سانس میں طلاق نہ دے دے تو کفارہ لازم آ جاۓ گا، خواہ بعد میں اس کا فیصلہ یہی ہو کہ اس عورت کو بیوی بنا کر نہیں رکھنا ہے،اور اس کا کوئی ارادہ اس کے ساتھ تعلق زن و شو رکھنے کا نہ ہو۔ حتیٰ کہ چند منٹ غور کر کے وہ بیوی کو طلاق بھی دے ڈالے تو امام شافعیؒ کے مسلک کی رو سے کفارہ اس کے ذمہ لازم رہے گا۔ (14)قرآن کا حکم ہے کہ ظہار کرنے والا کفارہ دے قبل اس کے کہ زوجین ایک دوسرے کو ’’مَس‘‘ کریں۔ ائمہ اربعہ کا اس بات پر اتفاق ہے کہ اس آیت میں مس سے مراد چھونا ہے، اس لیے کفارہ سے پہلے صرف مباشرت ہی حرام نہیں ہے بلکہ شوہر کسی طرح بھی بیوی کو چھو نہیں سکتا۔ شافعیہ شہوت کے ساتھ چھونے کو حرام کہتے ہیں، حنابلہ ہر طرح کے تلذذ کو حرام قرار دیتے ہیں، اور مالکہ لذت کے لیے بیوی کے جسم پر بھی نظر ڈالنے کو ناجائز ٹھیراتے ہیں اور ان کے نزدیک صرف چہرے اور ہاتھوں پر نظر ڈالنا اس سے مستثنیٰ ہے۔ (15) ظہار کے بعد اگر آدمی بیوی کو طلاق دے دے تو رجعی طلاق ہونے کی صورت میں رجوع کر کے بھی وہ کفارہ دیے بغیر اس کو ہاتھ نہیں لگا سکتا۔ بائن ہونے کی صورت میں اگر اس سے دوبارہ نکاح کرے تب بھی اسے ہاتھ لگانے سے پہلے کفارہ دینا ہو گا۔ حتیٰ کہ اگر تین طلاق دے چکا ہو، اور عورت دوسرے آدمی نکاح کرنے کے بعد بیوہ یا مطلقہ ہو چکی ہو، اور اس کے بعد ظہار کرنے والا شوہر اس سے از سر نو نکاح کر لے، پھر بھی کفارے کے بغیر وہ اس کے لیے حلال نہ ہو گی۔ کیونکہ وہ اسے ماں یا محرمات سے تشبیہ دے کر اپنے اوپر ایک دفعہ حرام کر چکا ہے، اور یہ حرمت کفارے کے بغیر رفع نہیں ہو سکتی۔ اس پر ائمہ اربعہ کا اتفاق ہے۔ (16) عورت کے لیے لازم ہے کہ جس شوہر نے اس کے ساتھ ظہار کیا ہے اسے ہاتھ نہ لگانے دے جب تک وہ کفارہ ادا نہ کرے۔ اور چونکہ تعلق زن و شو عورت کا حق ہے جس سے ظہار کر کے شوہر نے اسے محروم کیا ہے، اس لیے اگر وہ کفارہ نہ عے تو بیوی عدالت سے رجوع کر سکتی ہے۔ عدالت اس کے شوہر کو مجبور کرے گی کہ وہ کفارہ دے کر حرمت وہ دیوار ہٹاۓ جو اس نے اپنے اور اس کے درمیان حائل کر لی ہے۔ اور اگر وہ نہ مانے تو عدالت اسے ضرب یا قید یا دونوں طرح کی سزائیں دے سکتی ہے۔ یہ بات بھی چاروں مذاہب فقہ میں متفق علیہ ہے۔ البتہ فرق یہ ہے کہ مذہب حنفی میں عورت کے لیے صرف یہی ایک چارہ کار ہے، ورنہ ظہار پر خواہ کتنی ہی مدت گزر جاۓ، عورت کو اگر عدالت اس مشکل سے نہ نکالے تو وہ تمام عمر معلق رہے گی، کیونکہ ظہار سے نکاح ختم نہیں ہوتا، صرف شوہر کا حق تمتّع سلب ہوتا ہے۔ ملکی مذہب میں اگر شورہ عورت کو ستانے کے لیے ظہار کر کے معلق چھوڑ دے تو اس پر ایلاء کے احکام جاری ہوں گے، یعنی وہ چار مہینے سے زیادہ عورت کو روک کر نہیں رکھ سکتا (احکام اِیلاء کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد اول، البقرہ، حواشی 245 تا 247 )۔ شافعیہ کے نزدیک اگر چہ ظہار میں احکام ایلاء تو صرف اس وقت جاری ہو سکتے ہیں جبکہ شوہر نے ایک مدت خاص کے لیے ظہار کیا ہو اور وہ مدت چار مہینے سے زیادہ ہو، لیکن چونکہ مذہب شافعی کی رو سے شوہر پر اسی وقت کفارہ واجب ہو جاتا ہے جب وہ عورت کو بیوی بنا کر رکھے رہے، اس لیے یہ ممکن نہیں رہتا کہ وہ کسی طویل مدت تک اس کو معلق رکھے۔ (17) قرآن اور سنت میں تصریح ہے کہ ظہار کا پہلا کفارہ غلام آزاد کرنا ہے۔ اس سے آدمی عاجز ہو تب دو مہینے کے روزوں کی شکل میں کفارہ دے سکتا ہے۔ اور اس سے بھی عاجز ہو تب 60 مسکینوں کو کھانا کھال سکتا ہے۔ لیکن اگر تینوں کفاروں سے کوئی شخص عاجز ہو تو چونکہ شریعت میں کفارے کی کوئی اور شکل نہیں رکھی گئی ہے اس لیے اسے اس وقت تک انتظار کرنا ہو گا جب تک وہ ان میں سے کسی ایک پر قادر نہ ہو جاۓ۔ البتہ سبت سے یہ ثابت ہے کہ ایسے شخص کی مدد کی جانی چاہیے تاکہ وہ تیسرا کفارہ ادا کر سکے۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے بیت المال سے ایسے لوگوں کی مدد فرمائی ہے جو اپنی غلطی سے اس مشکل میں پھنس گۓ تھے اور تینوں کفاروں سے عاجز تھے۔ (18) قرآن مجید کفارہ میں رَقَبہ آزاد کرنے کا حکم دیتا ہے جس کا اطلاق لونڈی اور غلام دونوں پر ہوتا ہے اور اس میں عمر کی کوئی قید نہیں ہے۔ شیر خوار بچہ بھی اگر غلامی کی حالت میں ہو تو اسے آزاد کیے جا سکتے ہیں یا صرف مومن غلام ہی آزاد کرنا ہو گا۔ حنفیہ اور ظاہریہ کہتے ہیں غلام خواہ مومن ہو یا کافر، اس کا آزاد کر دینا کفارہ ظہار کے لیے کافی ہے، کیونکہ قرآن میں مطلق رَقَبہ کا ذکر ہے، یہ نہیں کہا گیا ہے کہ وہ مومن ہی ہونا چاہیے۔ بخلاف اس کے شافعیہ، مالکیہ اور حنابلہ اس کے لیے مومن کی شرط لگاتے ہیں، اور انہوں نے اس حکم کو ان دوسرے کفاروں پر قیاس کیا ہے جن میں رقبہ کے ساتھ قرآن مجید میں مومن کی قید لگائی گئی ہے۔ (19) غلام نہ پانے کی صورت میں قرآن کا حکم ہے کہ ظہار کرنے والا مسلسل دو مہینے کے روزے رکھے قبل اس کے کہ زوجین ایک دوسرے کو ہاتھ لگائیں۔ اس فرمان الٰہی پر عمل کرنے کی تفصیلات مختلف فقہی مذاہب میں حسب ذیل ہیں : الف۔ اس امر پر اتفاق ہے کہ مہینوں سے مراد ہلالی مہینے ہیں۔ اگر طلوع بلال سے روزوں کا آغاز کیا جاۓ تو دو مہینے پورے کرنے ہوں گے۔ اگر بیچ میں کسی تاریخ سے شروع کیا جاۓ تو حنفیہ اور حنابلہ کہتے ہیں کہ 60 روزے رکھنے چاہئیں۔ اور شافعیہ کہتے ہیں کہ پہلے اور تیسرے مہینے میں مجموعی طور پر 30 روزے رکھ اور بیچ کا ہلالی مہینہ خواہ 29 کا ہو یا 30 کا، اس کے روزے رکھ لینے کافی ہیں۔ ب۔ حنفیہ اور شافعیہ کہتے ہیں کہ روزے ایسے وقت شروع کرنے چاہییں جب کہ بیچ میں نہ رمضان آۓ نہ عیدین نہ یوم النحر اور ایام تشریق، کیونکہ کفارہ کے روزے رکھنے کے دوران میں رمضان کے روزے رکھنے اور عیدین اور یوم الجحر اور ایام تشریق کے روزے چھڑنے سے دو مہینے کا تسلسل ٹوٹ جاۓ گا اور نۓ سرے سے روزے چھڑنے سے دو مہینے کا تسلسل ٹوٹ جاۓ گا اور نۓ سرے سے روزے پڑیں گے۔ حنابلہ کہتے ہیں کہ بیچ میں رمضان کے روزے رکھنے اور حرام دنوں کے روزے نہ رکھنے سے تسلسل نہیں ٹوٹتا۔ ج۔ دو مہینوں کے دوران میں خواہ آدمی کسی عذر کی بنا پر روزہ چھوڑے یا بلا عذر، دونوں صورتوں میں حنفیہ اور شافعیہ کے نزدیک تسلسل ٹوٹ جاۓ گا اور نۓ سرے سے روزے رکھنے ہوں گے۔ یہی راۓ امام محمد باقر، ابراہیم نخعی، سعید بن جبیر اور سفیان ثوری کی ہے۔ امام مالک اور امام احمد کے نزدیک مرض یا سفر کے عذر سے بیچ میں روزہ چھوڑا جا سکتا ہے اور اس سے تسلسل نہیں ٹوٹتا، البتہ بلا عذر روزہ چھوڑ دینے سے ٹوٹ جاتا ہے۔ ان کا استدلال یہ ہے کہ کفارہ کے روزے رمضان کے فرض روزوں زیادہ موکد نہیں ہیں۔ جب ان کو عذر کی بنا پر چھوڑا جا سکتا ہے تو کوئی وجہ نہیں یکہ ان کو نہ چھوڑا جا سکے۔ یہی قول حضرت عبداللہ بن عباس، حسن بصری، عطاء بن ابی رَبَاح، سعید بن المسیب،عمرو بن دینار، شعبی طاؤس،مجاہر، اسحاق بن راہویہ، ابر عبید اور ابو ثور ہے۔ د۔ دومہینوں کے دوران میں اگر آدمی اس بیوی سے مباشرت کر بیٹھے جس سے اس نے ظہار کیا ہو، تو تمام ائمہ کے نزدیک اس کا تسلسل ٹوٹ جاۓ گا اور نۓ سرے سے روزے رکھنے ہوں گے کیونکہ ہاتھ لگانے سے پہلے دو مہینے کے مسلسل روزے رکھنے کا حکم دیا گیا ہے۔ (20) قرآن اور سنت کی رو سے تیسرا کفارہ (یعنی 60 مسکینوں کا کھانا ) وہ شخص دے سکتا ہے جو دوسرے کرنے (دو مہینے کے مسلسل روزوں ) کی قدرت نہ رکھتا ہو۔ اس حکم پر عمل درآمد کرنے کے لیے فقہاء نے جو تفصیلی احکام مرتب کیے ہیں وہ حسب ذیل ہیں : الف۔ ائمہ اربعہ کے نزدیک روزوں پر قادر نہ ہونے کے معنی یہ ہیں کہ آدمی یا تو بڑھاپے کی وجہ سے قادر نہ ہو، یا مرض کے سبب سے، یا اس سبب سے کہ وہ مسلسل دو مہینے تک مباشرت سے پرہیز نہ کر سکتا ہو اور اسے اندیشہ ہو کہ اس دوران میں کہیں بے صبری نہ کر بیٹھے۔ ان تینوں عذرات کا صحیح ہونا اس احادیث سے ثابت ہے جو اَوْس بن صامت انصاری اور سلمہ بن صخر بیاضی کے معاملہ میں وارد ہوئی ہیں۔ البتہ مرض کے معاملہ میں فقہاء کے درمیان تھوڑا سا اختلاف ہے۔ حنفیہ کہتے ہیں کہ مرض کا عذر اس صورت میں صحیح ہو گا جب کہ یا تو اس کے زائل ہونے کی امید نہ ہو، یا روزوں سے مرض کے بڑھ جانے کا اندیشہ ہو۔ شافعیہ کہتے ہیں کہ اگر روزوں سے ایسی شدید مشقت لاحق ہوتی ہو جس سے آدمی کو یہ خطرہ ہو کہ دو مہینے کے دوران میں کہیں سلسلہ منقطع نہ کرنا پڑے، تو یہ عذر بھی صحیح ہو سکتا ہے۔ مالکیہ کہتے ہیں کہ اگر آدمی کا گمان غالب یہ ہو کہ وہ مستقبل میں روزہ رکھنے کے قابل ہو سکے گا تو انتظار کر لے، اور اگر گمان غالب اس قابل نہ ہو سکنے کاہو تو مسکینوں کو کھانا کھلا دے۔ حنابلہ کہتے ہیں کہ روزے سے مرض بڑھ جانے کا اندیشہ بالکل کافی عذر ہے۔ ب۔ کھانا صرف ان مساکین کو دیا جا سکتا ہے جن کا نفقہ آدمی کے ذمہ واجب نہ ہوتا ہو۔ ج۔ حنفیہ کہتے ہیں کہ کھانا مسلمان اور ذمی، دونوں قسم کے مساکین کو دیا جا سکتا ہے، البتہ حربی اور مستامن کفار کو نہیں دیا جا سکتا۔ مالکیہ، شافعیہ اور حنابلہ کی راۓ یہ ہے کہ صرف مسلمان مساکین ہی کو دیا جا سکتا ہے۔ د۔ یہ امر متفق علیہ ہے کہ کھانا دینے سے مراد دو وقت کا پیٹ بھر کھانا دینا ہے۔ البتہ کھانا دینے کے مفہوم میں اختلاف ہے۔ حنفیہ کہتے ہیں کہ دو وقت کی شکم سیری کے قابل غلہ دے دینا، یا کھانا پکا کر دو وقت کھلا دینا، دونوں یکساں صحیح ہیں، کیونکہ قرآن مجید میں اِطعام کا لفظ استعمال ہوا ہے جس کے معنی خوراک دینے کے بھی ہیں اور کھلانے کے بھی۔ مگر مالکیہ، شافعیہ اور حنابلہ پکا کر کھلا نے کو صحیح نہیں سمجھتے بلکہ غلہ دے دینا ہی ضروری قرار دیتے ہیں غلہ دینے کی صورت میں یہ امر متفق علیہ ہے کہ وہ غلہ دینا چاہیے جو اس شہر یا علاقے کے لوگوں کی عام غذا ہو۔ اور سب مسکینوں کو برابر دینا چاہیے۔ ھ۔ حنفیہ کے نزدیک اگر ایک ہی مسکین کو 60 دن تک کھانا دیا جاۓ تو یہ بھی صحیح ہے، البتہ یہ صحیح نہیں ہے کہ ایک ہی دن اسے 60 دنوں کی خوراک دے دی جاۓ۔ لیکن باقی تینوں مذاہب ایک مسکین کو دینا صحیح نہیں سمجھتے۔ ان کے نزدیک 60 ہی مساکین کو دینا ضروری ہے۔ اور یہ بات چاروں مذاہب میں جائز نہیں ہے کہ 60 آدمیوں کو ایک وقت کی خوراک اور دوسرے 60 آدمیوں کو دوسرے وقت کی خوراک دی جاۓ۔ و۔ یہ بات چاروں مذاہب میں سے کسی میں جائز نہیں ہے کہ آدمی 30 دن کے روزے رکھے اور 30 مسکینوں کو کھانا دے۔ دو کفارے جمع نہیں کیے جا سکتے۔ روزے رکھنے ہوں تو پورے دو مہینوں کے مسلسل رکھنے چاہییں۔ کھانا کھلانا ہو تو 60 مسکینوں کو کھلایا جاۓ۔ ز۔ اگر چہ قرآن مجید میں کفارہ طعام کے متعلق یہ الفاظ استعمال نہیں کیے گۓ ہیں کہ یہ کفارہ بھی زوجین کے ایک دوسرے کو چھونے سے پہلے ادا ہونا چاہیے، لیکن فحواۓ کلام اس کا مقتضی ہے کہ اس تیسرے کفارے پر بھی اس قید کا اطلاق ہو گا۔ اسی لیے ائمہ اربعہ نے اس کو جائز نہیں رکھا ہے کہ کفارہ طعام کے دوران میں آدمی بیوی کے پاس جاۓ۔ البتہ فرق یہ ہے کہ جو شخص ایسا کر بیٹھے اس کے متعلق حنابلہ یہ حکم دیتے ہیں کہ اسے از سر جو کھانا دینا ہو گا۔ اور حنفیہ اس معاملہ میں رعایت کرتے ہیں، کیونکہ اس تیسرے کفارے کے معاملے میں مِنْ قَبْلِ اَنْ یَّتَمَا سَّا کی صراحت نہیں ہے اور یہ چیز رعایت کی گنجائش دیتی ہے۔ یہ احکام نقہ کی حسب ذیل کتابوں سے اخذ کیے گۓ ہیں : فقہ حنفی: ہدایہ۔ فتح اقدیر۔ بدایع الصنائع۔ احکام القرآن للجصاص۔ فقہ شافعی: المنہاج للنوَوِی مع شرح مغنی المحتاج۔ تفسیر کبیر۔ فقہ مالکی: حادیۃ الد سَوقی علی اشرح الکبری۔ ہدایۃ المجتہد۔ احکام القرآن ابن عربی۔ فقہ حنبلی: المغنی لابن قدامہ۔ فقہ ظاہری: المحلّیٰ لا بن حزُم |
Surah 65 : Ayat 1
يَـٰٓأَيُّهَا ٱلنَّبِىُّ إِذَا طَلَّقْتُمُ ٱلنِّسَآءَ فَطَلِّقُوهُنَّ لِعِدَّتِهِنَّ وَأَحْصُواْ ٱلْعِدَّةَۖ وَٱتَّقُواْ ٱللَّهَ رَبَّكُمْۖ لَا تُخْرِجُوهُنَّ مِنۢ بُيُوتِهِنَّ وَلَا يَخْرُجْنَ إِلَّآ أَن يَأْتِينَ بِفَـٰحِشَةٍ مُّبَيِّنَةٍۚ وَتِلْكَ حُدُودُ ٱللَّهِۚ وَمَن يَتَعَدَّ حُدُودَ ٱللَّهِ فَقَدْ ظَلَمَ نَفْسَهُۥۚ لَا تَدْرِى لَعَلَّ ٱللَّهَ يُحْدِثُ بَعْدَ ذَٲلِكَ أَمْرًا
اے نبیؐ، جب تم لوگ عورتوں کو طلاق دو تو اُنہیں اُن کی عدت کے لیے طلاق دیا کرو1 اور عدت کے زمانے کا ٹھیک ٹھیک شمار کرو2، اور اللہ سے ڈرو جو تمہارا رب ہے (زمانہ عدت میں) نہ تم اُنہیں اُن کے گھروں سے نکالو اور نہ وہ خود نکلیں3، الا یہ کہ وہ کسی صریح برائی کی مرتکب ہوں 4یہ اللہ کی مقرر کردہ حدیں ہیں، اور جو کوئی اللہ کی حدوں سے تجاوز کرے گا وہ اپنے اوپر خود ظلم کرے گا تم نہیں جانتے، شاید اس کے بعد اللہ (موافقت کی) کوئی صورت پیدا کر دے5
5 | یہ دونوں فقرے ان لوگوں کے خیال کی بھی تردید کرتے ہیں جو اس بات کے قائل ہیں کہ حیض کی حالت میں طلاق دینے یا بیک وقت تین طلاق دے دینے سے کوئی طلاق سرے سے واقع ہی نہیں ہوتی، اور ان لوگوں کی راۓ کو بھی غلط ثابت کر دیتے ہیں جن کا خیال یہ ہے کہ بیک وقت تین طلاق ایک ہی طلاق کے حکم میں ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اگر بدعی طلاق واقع ہی نہیں ہوتی یا تین طلاق ایک ہی طلاق رجعی کے حکم میں ہیں، تو یہ کہنے کی آخر ضرورت ہی کیا رہ جاتی ہے کہ جو اللہ کی حدود، یعنی سنت کے بتاۓ ہوۓ طریقے کی خلاف ورزی کرے گا وہ اپنے نفس پر ظلم کرے گا، اور تم نہیں جانتے شاید اس کے بعد اللہ موافقت کی کوئی صورت پیدا کر دے؟ یہ دونوں باتیں تو اسی صورت میں با معنی ہو سکتی ہیں جبکہ سنت کے خلاف طلاق دینے سے واقعی کوئی نقصان ہوتا ہو جس پر آدمی کو پچھتانا پڑے، اور تین طلاق بیک وقت دے بیٹھنے سے رجوع کا کوئی امکان باقی نہ رہتا ہو۔ ورنہ ظاہر ہے کہ جو طلاق واقع ہی نہ ہو اس سے حدود اللہ پر کوئی تعدی نہیں ہوتی جو اپنے نفس پر ظلم قرار پاۓ، اور جو طلاق بہر حال رجعی ہی ہو اس کے بعد تو لازماً موافقت کی صورت باقی رہتی ہے، پھر یہ کہنے کی کوئی حاجت نہیں ہے کہ شاید اس کے بعد اللہ موافقت کی کوئی صورت پیدا کر دے۔ اس مقام پر ایک مرتبہ پھر سورہ بقرہ کی آیات 228 تا 230 اور سورہ طلاق کی زیر بحث آیات کے باہمی تعلق کو اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے۔ سورہ بقرہ میں طلاق کا نصاب تین کا نصاب تین بتایا گیا ہے، جن میں سے دو کے بعد رجوع کا حق، اور عدت گزر جانے کے بعد بلا تحلیل دوبارہ نکاح کر لینے کا حق باقی رہتا ہے، اور تیسری طلاق دے دینے سے یہ دونوں حق ساقط ہو جاتے ہیں۔ سور طلاق کی یہ آیات اس حکم میں کسی ترمیم و تنسیخ کے لیے نازل نہیں ہوئی ہیں، بلکہ یہ بتانے کے لیے نازل ہوئی ہیں کہ بیویوں کو طلاق دینے کے جو اختیارات مردوں کو دیے گۓ ہیں ان کو استعمال کرنے کی دانشمندانہ صورت کیا ہے جس کی پیروی اگر کی جاۓ تو گھر بگڑنے سے بچ سکتے ہیں، طلاق دے کر پچھتانے کی نوبت پیش نہیں آسکتی، موافقت پیدا ہونے کے زیادہ سے زیادہ مواقع باقی رہتے ہیں، اور اگر بالآخر علیٰحدگی ہو بھی جاۓ تو یہ آخری چارہ کار کھلا رہتا ہے کہ پھر مل جانا چاہیں تو دوبارہ نکاح کر لیں۔ لیکن اگر کوئی شخص نادانی کے ساتھ اپنے ان اختیارات کو غلط طریقے سے استعمال کر بیٹھے تو وہ اپنے اوپر خود ظلم کرے گا اور تلافی کے تمام مواقع کھو بیٹھے گا۔ یہ بالکل ایسا ہی ہے جیسے ایک باپ اپنے بیٹے کو تین سو روپے دے اور کہے کہ یہ تمہاری ملکیت ہیں، ان کو تم اپنی مرضی سے خرچ کرنے کے مختار ہو۔ پھر وہ اسے نصیحت کرے کہ اپنے اس مال کو جو میں نے تمہیں دے دیا ہے، اس طرح احتیاط کے ساتھ بر محل اور بتدریج استعمال کرنا تاکہ تم اس سے صحیح فائدہ اٹھا سکو، ورنہ میری نصیحت کے خلاف تم بے احتیاطی کے ساتھ اسے بے موقع خرچ کرو گے یا ساری رقم بیک وقت خرچ کر بیٹھو گے تو نقصان اٹھاؤ گے اور پھر مزید کوئی رقم میں تمہیں برباد کرنے کے لیے نہیں دوں گا۔ یہ ساری نصیحت ایسی صورت میں بے معنی ہو جاتی ہے جب کہ باپ نے پوری رقم سرے سے اس کے ہاتھ میں چھوڑی ہی نہ ہو، وہ بے موقع خرچ کرنا چاہے تو رقم اس کی جیب سے نکلے ہی نہیں، یا پورے تین سو خرچ کر ڈالنے پر بھی ایک سو ہی اس کے ہاتھ سے نکلیں اور دو سو بہر حال اس کی جیب میں پڑے رہیں۔ صورت معاملہ اگر یہی ہو تو اس نصیحت کی آخر حاجت کیا ہے |
4 | اس کے متعدد مطلب مختلف فقہاء نے بیان کیے ہیں۔ حضرت حسن بصری، عامر شعبی، زید بن اسلم، ضحاک، مجاہد، عکرمہ، ابن زید، حما د اور لیث کہتے ہیں کہ اس سے مراد بد کاری ہے۔ ابن عباس کہتے ہیں کہ اس سے مراد بد زبانی ہے، یعنی یہ کہ طلاق کے بعد بھی عورت کا مزاج درستی پر نہ آۓ، بلکہ وہ عدت کے زمانے میں شوہر اور اس کے خاندان والوں سے جھگڑتی اور بد زبانی کرتی رہے۔ قتادہ کہتے ہیں کہ اس سے مراد نشوز ہے، یعنی عورت کو نشوز کی بنا پر طلاق دی گئی ہو اور عدت کے زمانے میں بھی وہ شوہر کے مقابلے پر سرکشی کرنے سے باز نہ آۓ۔ عبد اللہؓ بن عم، سدی، ابن السائب، اور ابراہیم نخعی کہتے ہیں کہ اس سے مراد عورت کا گھر سے نکل جانا ہے ، یعنی ان کی راۓ میں طلاق کے بعد عدت کے زمانہ میں عورت کا گھر چھوڑ کر نکل جانا بجاۓ خود فاحشۃ مبینۃ(صریح برائی کا ارتکاب)ہے، اور یہ ارشاد کہ ’’ وہ نہ خود نکلیں الّا یہ کہ صریح برائی کی مرتکب ہوں‘‘ کچھ اس طرح کا کلام ہے جیسے کوئی کہے کہ ’’ تم کسی کو گالی نہ دو الّا یہ کہ بد تمیز بنو‘‘ ان چار اقوال میں سے پہلے تین قولوں کے مطابق ’’ الّا یہ‘‘ کا تعلق ’’ان کو گھروں سے نہ نکالو‘‘ کے ساتھ ہے اور اس فقرے کا مطلب یہ ہے کہ اگر وہ بد چلنی یا بد زبانی یا نشوز کی مرتکب ہوں تو انہیں نکال دینا جائز ہو گا۔ اور چوتھے قول کی رو سے اس کا تعلق’’ اور نہ وہ خود نکلیں‘‘ کے ساتھ ہے اور مطلب یہ ہے کہ اگر وہ نکلیں گی تو صریح برائی کی مرتکب ہوں گی |
3 | یعنی نہ مرد غصے میں آ کر عورت کو گھر سے نکال دے، اور نہ عورت خود ہی بگڑ کر گھر چھوڑ دے ۔ عدت تک گھر اس کا ہے۔ اسی گھر میں دونوں کو رہنا چاہیے، تاکہ باہم موافقت کی کوئی صورت اگر نکل سکتی ہو تو اس ے فائدہ اٹھایا جا سکے۔ طلاق اگر رجعی ہو تو کسی وقت بھی شوہر کی طبیعت بیوی کی طرف مائل ہو سکتی ہے، اور بیوی بھی اختلاف کے اسباب کو دور کر کے شوہر کو راضی کرنے کی کوشش کر سکتی ہے۔ دونوں ایک گھر میں موجود رہیں گے تو تین مہینے تک، یا تین حیض آنے تک، یا حمل کی صورت میں وضع حمل تک اس کے مواقع بارہا پیش آ سکتے ہیں۔ لیکن اگر مرد جلد بازی کر کے اسے نکال دے، یا عورت نا سمجھی سے کام لے کر میکے جا بیٹھے تو اس صورت میں رجوع کے امکانات بہت کم رہ جاتے ہیں اور بالعموم طلاق کا انجام آخر کار مستقل علیٰحدگی ہو کر رہتا ہے ۔ اسی لیے فقہاء نے یہاں تک کہا ہے کہ طلاق رجعی کی صورت میں جو عورت عدت گزار رہی ہو اسے بناؤ سنگھار کرنا چاہیے تاکہ شوہر اس کی طرف مائل ہو (ہدایہ۔ الانصاف)۔ فقہاء کے درمیان اس امر میں اتفاق ہے کہ مطلقہ رجعیہ کو عدت کے زمانے میں سکونت اور نفقہ کا حق ہے، اور عورت کے لیے یہ جائز نہیں ہے کہ شوہر کی اجازت کے بغیر گھر سے جاۓ، اور مرد کے لیے بھی یہ جائز نہیں ہے کہ اسے گھر سے نکالے۔ اگر مرد اسے نکالے گا تو گناہ گار ہو گا، اور عورت اگر خود نکلے گی تو گناہ گار بھی ہو گی اور نفقہ و سکونت کے حق سے بھی محروم ہو جاۓ گی |
2 | اس حکم کا خطاب مروں سے بھی ہے اور عورتوں سے بھی اور ان کے خاندان والوں سے بھی۔ مطلب یہ ہے کہ طلاق کو کھیل نہ سمجھ بیٹھو کہ طلاق کا اہم معاملہ پیش آنے کے بعد یہ بھی یاد نہ رکھا جاۓ کہ کب طلاق دی گئی ہے، کب عدت شروع ہوئی اور کب اس کو ختم ہونا ہے۔ طلاق ایک نہایت نازک معاملہ ہے جس سے عورت اور مرد اور ان کی اولاد اور ان کے خاندان کے لیے بہت سے قانونی مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ اس لیے جب طلاق دی جاۓ تو اس کے وقت اور تاریخ کو یاد رکھا جاۓ، اور یہ بھی یاد رکھا جاۓ کہ کس حالت میں عورت کو طلاق دی گئی ہے، اور حساب لگا کر دیکھا جاۓ کہ عدت کا آغاز کب ہوا ہے، کب تک وہ باقی ہے ، اور کب وہ ختم ہو گئی۔ اسی حساب پر ان امور کا فیصلہ موقوف ہے کہ شوہر کوکب تک رجوع کا حق ہے۔ کب تک اسے عورت کو گھر میں رکھنا ہے، کب تک اس کا نفقہ دینا ہے، کب تک وہ عورت کا وارث ہو گا اور عورت اس کی وارث ہو گی، کب عورت اس سے جدا ہو جاۓ گی اور اسے دوسرا نکاح کر لینے کا حق حاصل ہو جاۓ گا۔ اور اگر یہ معاملہ کسی مقدمہ کی صورت اختیار کر جاۓ تو عدالت کو بھی صحیح فیصلہ کرنے کے لیے طلاق کی صحیح تاریخ اور وقت اور عورت کی حالت معلوم ہونے کی ضرورت ہو گی، کیونکہ اس کے بغیر وہ مدخولہ اور غیر مدخولہ، حاملہ اور غیر حاملہ، بے حیض اور با حیض، رجعیہ اور غیر رجعیہ عورتوں کے معاملہ میں طلاق سے پیدا شدہ مسائل کا صحیح فیصلہ نہیں کر سکتی |
1 | یعنی تم لوگ طلاق دینے کے معاملہ میں یہ جلد بازی نہ کیا کرو کہ جونہی میاں بیوی میں کوئی جھگڑا ہوا، فوراً ہی غصّے میں آکر طلاق دے ڈالی، اور نکاح کا جھٹکا اس طرح کیا کہ رجوع کی گنجائش بھی نہ چھوڑی۔ بلکہ جب تمہیں بیویوں کو طلاق دینا ہو تو ان کی عدت کے لیے دیا کرو۔ عدت کے لیے طلاق دینے کے دو مطلب ہیں اور دونوں ہی یہاں مراد بھی ہیں: ایک مطلب اس کا یہ ہے کہ عدت کا آغاز کرنے کے لیے طلاق دو، یا بالفاظ دیگر اس وقت طلاق دو جس سے دن کی عدت شروع ہوتی ہو۔ یہ بات سورہ بقرہ آیت 228 میں بتائی جا چکی ہے کہ جس مدخولہ عورت کو حیض آتا ہو اس کی عدت طلاق کے بعد تین مرتبہ حیض آنا ہے۔ اس حکم کو نگاہ میں رکھ کر دیکھا جاۓ تو عدت کا آغاز کرنے کے لیے طلاق دینے کی صورت لازماً یہی ہو سکتی ہے کہ عورت کو حالت حیض میں طلاق نہ دی جاۓ ، کیوں کہ اس کی عدت اس حیض سسے شروع نہیں ہو سکتی جس میں اسے طلاق دی گئی ہو، اور اس حالت میں طلاق دینے کے معنی یہ ہو جاتے ہیں کہ اللہ کے حکم کے خلاف عورت کی عدت تین حیض کے بجاۓ چار حیض بن جاۓ ۔ مزید براں اس حکم کا تقاضا یہ بھی ہے کہ عورت کو اس طُہر میں طلاق نہ دی جاۓ جس میں شوہر اس سے مباشرت کر چکا ہو، کیونکہ اس صورت میں طلاق دیتے وقت شوہر اور بیوی دونوں میں سے کسی کو بھی یہ معلوم نہیں ہو سکتا کہ آیا مباشرت کے نتیجے میں کوئی حمل قرار پا گیا ہے یا نہیں، اس وجہ سے عدت کا آغاز نہ اس مفروضے پر کیا جا سکتا ہے کہ یہ عدت آئندہ حیضوں کے اعتبار سے ہو گی اور نہ اسی مفروضے پر کیا جا سکتا ہے کہ یہ حاملہ عورت کی عدت ہو گی۔ پس یہ حکم بیک وقت دو باتوں کا مقتضی ہے ۔ ایک یہ کہ حیض کی حالت میں طلاق نہ دی جاۓ ۔ دوسرے یہ کہ طلاق یا تو اس طُہر میں دی جاۓ جس میں مباشرت نہ کی گئی ہو، یا پھر اس حالت میں دی جاۓ جبکہ عورت کا حاملہ ہونا معلوم ہو۔ غور کیا جاۓ تو محسوس ہو گا کہ طلاق پر یہ قیدیں لگانے میں بہت بڑی مصلحتیں ہیں۔ حیض کی حالت میں طلاق نہ دینے کی مصلحت یہ ہے کہ یہ وہ حالت ہوتی ہے جس میں عورت اور مرد کے درمیان مباشرت ممنوع ہونے کی وجہ سے ایک طرح کا بُعد پیدا ہو جاتا ہے، اور طبی حیثیت سے بھی یہ بات ثابت ہے کہ اس حالت میں عورت کا مزاج معمول پر نہیں رہتا۔ اس لیے اگر اس وقت دونوں کے درمیان کوئی جھگڑا ہو جاۓ تو عورت اور مرد دونوں اسے رفع کرنے کے معاملہ میں ایک حد تک بے بس ہوتے ہیں، اور جھگڑے سے طلاق تک نوبت پہنچانے کے بجاۓ اگر عورت کے حیض سے فارغ ہونے تک انتظار کر لیا جاۓ تو اس امر کا کافی امکان ہوتا ہے کہ عورت کا مزاج بھی معمول پر آ جاۓ اور دونوں کے درمیان فطرت نے جو طبعی کشش رکھی ہے وہ بھی اپنا کام کر کے دونوں کو پھر سے جوڑ دے ۔ اسی طرح جس طہر میں مباشرت کی جا چکی ہو اس میں طلاق کے ممنوع ہونے کی مصلحت یہ ہے کہ اس زمانے میں اگر حمل قرار پا جاۓ تو مرد اور عورت، دونوں میں سے کسی کو بھی اس کا علم نہیں ہو سکتا۔ اس لیے وہ وقت طلاق دینے کے لیے موزوں نہیں ہے۔ حمل کا علم ہو جانے کی صورت میں تو مرد بھی دس مرتبہ سوچے گا کہ جس عورت کے پیٹ میں اس کا بچہ پرورش پا رہا ہے اسے طلاق دے یا نہ دے، اور عورت بھی اپنے اور اپنے بچے کے مستقبل کا خیال کر کے شوہر کی ناراضگی کے اسباب دور کرنے کی پوری کوشش کرے گی۔ لیکن اندھیرے میں بے سوچے سمجھے تیر چلا بیٹھنے کے بعد اگر معلوم ہو کہ حمل قرار پا چکا تھا، تو دونوں کو پچھتانا پڑے گا۔ یہ تو ہے ’’ عدت کے لیے ‘‘ طلاق دینے پہلا مطلب، جس کا اطلاق صرف ان مدخولہ عورتوں پر ہوتا ہے جن کو حیض ٓآتا ہو اور جن کے حاملہ ہونے کا امکان ہو۔ اب رہا اس کا دوسرا مطلب، تو وہ یہ ہے کہ طلاق دینا ہو تو عدت تک کے لیے طلاق دو، یعنی بیک وقت تین طلاق دے کر ہمیشہ کی علیٰحدگی کے لیے طلاق نہ دے بیٹھو، بلکہ ایک، یا حد سے حد دو طلاقیں دے کر عدت تک انتظار کرو تا کہ اس مدت میں ہر وقت تمہارے لیے رجوع کی گنجائش باقی رہے۔ اس مطلب کے لحاظ سے یہ حکم ان مدخولہ عورتوں کے معاملہ میں بھی مفید ہے جن کو حیض آتا ہو اور ان کے معاملہ میں بھی مفید ہے جن کو حیض آنا بند ہو گیا ہو، یا جنہیں ابھی حیض آنا شروع نہ ہوا ہو، یا جن کا طلاق کے وقت حاملہ ہونا معلوم ہو، اس فرمان الہٰی کی پیروی کی جاۓ تو کسی شخص کو بھی طلاق دے کر پچھتانا نہ پڑے ، کیونکہ اس طرح طلاق دینے سے عدت کے اندر رجوع بھی ہو سکتا ہے، اور عدت گزر جانے کے بعد بھی یہ ممکن رہتا ہے کہ سابق میاں بیوی پھر باہم رشتہ جوڑنا چاہیں تو از سر نو نکاح کر لیں۔ طَلِّقُوْ ھُنَّ لِعِدَّ تِھِنَّ کے یہی معنی اکابر مفسرین نے بیان کیے ہیں۔ ابن عباسؓ اس کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ ’’ طلاق حیض کی حالت میں نہ دے، اور نہ اس طہر میں دے جس کے اندر شوہر مباشرت کر چکا ہو، بلکہ اسے چھوڑے رکھے یہاں تک کہ حیض سے فارغ ہو کر وہ طاہر ہو جاۓ ۔ پھر اسے ایک طلاق دے دے ۔ اس صورت میں اگر وہ رجوع نہ بھی کرے اور عدت گزر جاۓ تو وہ صرف ایک ہی طلاق سے جدا ہو گی‘‘(ابن جریر)۔ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ فرماتے ہیں ’’ عدت کے لیے طلاق یہ ہے کہ طہر کی حالت میں مباشرت کیے بغیر طلاق دی جاۓ ‘‘۔ یہی تفسیر حضرت عبداللہ بن عمر، مجاہد، میمون بن مہران، مقاتِل بن حَیان، اور ضحاک رحمہم اللہ سے مروی ہے (ابن کثیر) عکرمہ اس کا مطلب بیان کرتے ہیں ’’ طلاق اس حالت میں دے کہ عورت کا حاملہ ہونا معلوم ہو، اور اس حالت میں نہ دے کہ وہ اس سے مباشرت کر چکا ہو اور کچھ پتہ نہ ہو کہ وہ حاملہ ہو گئی ہے یا نہیں ‘‘ (ابن کثیر)۔ حضرت حسن بصری اور ابن سیرین، دونوں کہتے ہیں ’’ طہر کی حالت میں مباشرت کیے بغیر طلاق دی جاۓ، یا پھر اس حالت میں دی جاۓ جبکہ حمل ظاہر ہو چکا ہو‘‘ (ابن جریر)۔ اس آیت کے منشا کو بہترین طریقہ سے خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس موقع پر واضح فرمایا تھا جب حضرت عبداللہ بن عمر نے اپنی بیوی کو حیض کی حالت میں طلاق دے دی تھی۔ اس واقعہ کی تفصیلات قریب قریب حدیث کی تمام کتابوں میں نقل ہوئی ہیں، اور وہی در حقیقت اس معاملہ میں قانون کی ماخذ ہیں۔ قصہ اس کا یہ ہے کہ جب حضرت عبداللہ نے اپنی بیوی کو حیض کی حالت میں طلاق دی تو حضرت عمرؓ نے جا کر حضورؐ سے اس کا ذکر کیا۔ آپ سن کر سخت ناراض ہوۓ اور فرمایا کہ ’’ اس کو حکم دو کہ بیوی سے رجوع کر لے اور اسے اپنی زوجیت میں روکے رکھے یہاں تک کہ وہ طاہر ہو، پھر اسے حیض آۓ اور اس سے بھی فارغ ہو کر وہ پاک ہو جاۓ ، اس کے بعد اگر وہ اسے طلاق دینا چاہے تو طہر کی حالت میں مباشرت کیے بغیر طلاق دے ۔ یہی وہ عدت ہے جس کے لیے طلاق دینے کا اللہ عزو جل نے حکم دیا ہے ‘‘۔ ایک روایت کے الفاظ یہ ہیں کہ ’’ یا تو طہر کی حالت میں مباشرت کیے بغیر طلاق دے ، یا پھر ایسی حالت میں دے جبکہ اس کا حمل ظاہر ہو چکا ہو‘‘ اس آیت کے منشا پر مزید روشنی چند اور احادیث بھی ڈالتی ہیں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اور اکابر صحابہ سے منقول ہیں۔ نسائی میں روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو اطلاع دی گئی کہ ایک شخص نے اپنی بیوی کو بیک وقت تین طلاقیں دے ڈالی ہیں۔ حضورؐ یہ سن کر غصے میں کھڑے ہوگۓ اور فرمایا’’ اَیُلْعَبُ بکتابِ اللہِ وَانَا بَیْنَ اظہر کم؟‘‘ کیا اللہ کی کتاب کے ساتھ کھیل کیا جا رہا ہے حالانکہ میں تمہارے درمیان موجود ہوں؟‘‘ اس حرکت پر حضورؐ کے غصے کی کیفیت دیکھ کر ایک شخص نے پوچھا کیا میں اسے قتل نہ کر دوں؟ عبدالرزاق نے حضرت عبادہ بن الصامت کے متعلق روایت نقل کی ہے کہ ان کے والد نے اپنی بیوی کو ہزار طلاقیں دے ڈالیں۔ انہوں نے جا کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے مسئلہ پوچھا۔ آپ نے فرمایا : بانت منہ بثالث فی معصیۃ اللہ تعالیٰ، و بقی تسع مأ ۃ و سبع و تسعون ظُلْماً و عُدْو اناً، ان شاء اللہ عذَّبہ، وان شاء غفر لہٗ ’’ تین طلاقوں کے ذریعہ سے تو اللہ کی نافرمانی کے ساتھ وہ عورت اس سے جدا ہو گئی، اور 997 ظلم اور عُدوان کے طور پر باقی رہ گۓ جن پر اللہ چاہے تو اسے عذاب دے اور چاہے تو معاف کر دے ‘‘۔ حضرت عبداللہ بن عمر کے قصے کی جو تفصیل وار قطنی اور ابن ابی شیبہ میں روایت ہوئی ہے اس میں ایک بات یہ بھی ہے کہ حضورؐ نے جب حضرت عبداللہ بن عمر کو بیوی سے رجوع کرنے کا حکم دیا تو انہوں نے پوچھا اگر میں اس کو تین طلاق دے دیتا تو کیا پھر بھی میں رجوع کر سکتا تھا؟ حضورؐ نے جواب دیا : لا، کانت تبین منک و کانت معصیۃً ’’ نہیں، وہ تجھ سے جدا ہو جاتی اور یہ فعل معصیت ہوتا ‘‘۔ ایک روایت میں آپ کے الفاظ یہ ہیں کہ : اذاً قد عصیت ربک و بانت منک امر أتک۔’’ اگر تم ایسا کرتے تو اپنے رب کی نافرمانی کرتے اور تمہاری بیوی تم سے جدا ہو جاتی‘‘۔ صحابہ کرام سے اس بارے میں جو فتاویٰ منقول ہیں وہ بھی حضورؐ کے انہی ارشادات سے مطابقت رکھتے ہیں۔ مُؤطّا میں ہے کہا ایک شخص نے آ کر حضرت عبداللہ بن مسعودؓ سے کہا میں نے اپنی بیوی کو آٹھ طلاقیں دے ڈالی ہیں۔ ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے پوچھا ’’ پھر اس پر تمہیں کیا فتویٰ دیا گیا؟‘‘ اس نے عرض کیا’’ مجھ سے کہا گیا ہے کہ عورت مجھ سے جدا ہو گئی‘‘۔ آپ نے فرمایا صد قوا، ھو مثل ما یقولون،’’ لوگوں نے سچ کہا، مسئلہ یہی ہے جو وہ بیان کرتے ہیں ‘‘۔ عبدالرزاق نے عَلْقَمہ سے روایت نقل کی ہے کہ ایک شخص نے ابن مسعودؓ سے کہا میں نے اپنی بیوی کو 99 طلاقیں دے ڈالی ہیں۔ انہوں نے فرمایا ثلاث بینھا و سائرھن عدوان۔ ’’تین طلاقیں اسے جدا کرتی ہیں، باقی سب زیادتیاں ہیں‘‘۔ وَکیع بن الجراح نے اپنی سنن میں حضرت عثمانؓ اور حضرت علیؓ، دونوں کا یہی مسلک نقل کیا ہے ۔ حضرت عثمانؓ سے ایک شخص نے آ کر عرض کیا کہ میں اپنی بیوی کو ہزار طلاقیں دے بیٹھا ہوں۔ انہوں نے فرمایا بانت منک بثلاث ‘‘۔ وہ تین طلاقوں سے تجھ سے جدا ہو گئی‘‘۔ ایسا ہی واقعہ حضرت علیؓ کے سامنے پیش ہوا تو انہوں نے جواب دیا : بانت منک بثلاث و ا قسم سائرھن علی نسائک۔’’ تین طلاقوں سے تو وہ تجھ سے جدا ہو گئی، باقی طلاقوں کو اپنی دوسری عورتوں پر تقسیم کرتا پھر‘‘۔ ابو داؤد اور ابن جریر نے تھوڑے لفظی فرق کے ساتھ مجاہد کی روایت نقل کی ہے کہ وہ ابن عباسؓ کے پاس بیٹھے تھے ۔ اتنے میں ایک شخص آیا اور اس نے کہا کہ میں اپنی بیوی کو تین طلاقیں دے بیٹھا ہوں۔ ابن عباس سن کر خاموش رہے ، حتی کہ میں نے خیال کیا شاید یہ اس کی بیوی کو اس کی طرف پلٹا دینے والے ہیں۔ پھر انہوں نے فرمایا’’ تم میں سے ایک شخص پہلے طلاق دینے میں حماقت کا ارتکاب کر گزرتا ہے، اس کے بعد آ کر کہتا ہے یا ابن عباس، یا ابن عباس۔ حالانکہ اللہ تعالٰی نے فرمایا ہے کہ جو کوئی اللہ سے ڈرتے ہوۓ کام کرے گا اللہ اس کے لیے مشکلات سے نکلنے کا راستہ پیدا کر دے گا، اور تو نے اللہ سے تقویٰ نہیں کیا۔ اب میں تیرے لیے کوئی راستہ نہیں پاتا۔ تو نے اپنے رب کی نافرمانی کی اور تیری بیوی تجھ سے جدا ہو گئی‘‘۔ ایک اور روایت جسے مؤطاء اور تفسیر ابن جریر میں کچھ لفظی فرق کے ساتھ مجاہد ہی سے نقل کیا گیا ہے ،اس میں یہ ذکر ہے کہ ایک شخص نے اپنی بیوی کو سو طلاقیں دے دیں، پھر ابن عباس سے مسئلہ پوچھا۔ انہوں نے جواب دیا ’’ تین طلاقوں سے تو وہ تجھ سے جدا ہو گئی، باقی 97 سے تُو نے اپنے رب کی نافرمانی کی اور تیری بیوی تجھ سے جدا ہو گئی اور تُو نے اللہ کا خوف نہیں کیا کہ وہ تیرے لیے اس مشکل سے نکلنے کا کوئی راستہ پیدا کرتا ‘‘ امام طحاوِی نے روایت نقل کی ہے کہ ایک شخص ابن عباس کے پاس آیا اور اس نے کہا میرے چچا نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں دے ڈالی ہیں۔ انہوں نے جواب دیا : اِنَّ عمک عصی اللہ فَاَثِم و اطاع الشیطان فلم یجعل لہ مخرجاً۔ ’’ تیرے چچا نے اللہ کی نا فرمانی کی اور گناہ کا ارتکاب کیا اور شیطان کی پیروی کی۔ اللہ نے اس کے لیے اس مشکل سے نکلنے کا کوئی راستہ نہیں رکھا ہے ۔‘‘ ابو داؤد اور مؤطاء میں ہے کہ ایک شخص نے اپنی بیوی کو خلوت سے پہلے تین طلاقیں دے دیں، پھر اس سے دوبارہ نکاح کرنا چاہا اور فتویٰ پوچھنے نکلا۔ حدیث کے راوی محمد بن بکیر کہتے ہیں کہ میں اس کے ساتھ ابن عباس اور ابو ہریرہؓ کے پاس گیا دونوں کا جواب یہ تھا انک ارسلت من یدک ماکان من فضل۔ ’’ تیرے لیے جو گنجائش تھی تو نے اسے اپنے ہاتھ وے چھوڑ دیا‘‘۔ زمْخشری نے کشاف میں بیان کیا ہے کہ حضرت عمرؓ کے پاس جو شخص بھی ایسا آتا جس نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں دے دی ہوں اسے وہ مارتے تھے اور اس کی طلاقوں کو نافذ کر دیتے تھے ۔ سعید بن منصور نے یہی بات صحیح سند کے ساتھ حضرت انس کی روایت سے نقل کی ہے ۔ اس معاملہ میں صحابہ کرام کی عام راۓ، جسے ابن ابی شیبہ اور امام محمد نے ابراہیم نخعیؒ سے نقل کیا ہے، یہ تھی کہ ان الصحابۃ رضی اللہ عنہم کانو یستحبون ان یطلقھا واحد ۃ ثم یتر کھا حتی تحیض ثلاثۃ حیض۔ ’’ صحابہ رجی اللہ عنہیم اسبات کو پسند کرتے تھے کہ آدمی بیوی کو صرف ایک طلاق دے اور اس کو چھوڑے رکھے یہاں تک کہ اسے تین حیض آ جائیں‘‘۔ یہ ابن ابی شیبہ کے الفاظ ہیں۔ اور امام محمد کے الفاظ یہ ہیں: کانو ایستحبون ان لا تزید و افی الطلاق علی واحدۃ حتی تنقضی العدّۃ۔ ’’ ان کو پسند یہ طریقہ تھا کہ طلاق کے معاملہ میں ایک سے زیادہ نہ بڑھیں یہاں تک کہ عدت پوری ہو جاۓ ‘‘ ان احادیث و آثار کی مدد سے قرآن مجید کی مذکورہ بالا آیات کا منشا سمجھ کر فقہاۓ اسلام نے جو مفصل قانون مرتب کیا ہے اسے ہم صل میں نقل کرتے ہیں۔ 1)۔ حنفیہ طلاق کی تین قسمیں قرار دیتے ہیں: احسن،ح۔صَن اور بِدْعی۔ احسن طلاق یہ ہے کہ آدمی اپنی بیوی کو ایسے طہر میں جس کے اندر اس نے مجامعت نہ کی ہو، صرف ایک طلاق دے کر عدت گزر جانے دے ۔ حَسَن یہ ہے کہ ہر طہر میں ایک ایک طلاق دے ۔ اس صورت میں تین طہروں میں تین طلاق دینا بھی سنت کے خلاف نہیں ہے ،۔ اگر چہ بہتر یہی ہے کہ ایک ہی طلاق دے کر عدت گزر جانے دی جاۓ۔ اور طلاق بدعت یہ ہے کہ آدمی بیک وقت تین طلاق دے دے، یا ایک ہی طہر کے اندر الگ الگ اوقات میں تین طلاق دے، یا حیض کی حالت میں طلاق دے، یا ایسے طہر میں طلاق دے جس میں وہ مباشرت کر چکا ہو۔ ان میں سے جو فعل بھی وہ کرے گا گنہگار ہو گا۔ یہ تو ہے حکم ایسی مدخولہ عورت کا جسے حیض آتا ہو۔ رہی غیر مدخولہ عورت تو اسے سنت کے مطابق طہر اور حیض دونوں حالتوں میں طلاق دی جا سکتی ہے۔ اور اگر عورت ایسی مدخولہ ہو جسے حیض آنا بند ہو گیا ہو، یا ابھی آنا شروع ہی نہ ہوا ہو، تو اسے مباشرت کے بعد بھی طلاق دی جا سکتی ہے، کیونکہ اس کے حاملہ ہونے کا امکان نہیں ہے ۔ اور عورت حاملہ ہو تو مباشرت کے بعد اسے بھی طلاق دی جا سکتی ہے، کیونکہ اس کا حاملہ ہونا پہلے ہی معلوم ہے۔ لیکن ان تینوں قسم کی عورتوں کو سنت کے مطابق طلاق دینے کا طریقہ یہ ہے کہ ایک ایک مہینہ بعد طلاق دی جاۓ، اور احسن یہ ہے کہ صرف ایک طلاق دے کر عدت گزر جانے دی جاۓ ۔ (ہدایہ، فتح القدیر، احکام القرآن للجصاص، عمدۃ القاری)۔ امام مالکؒ کے نزدیک بھی طلاق کی تین قسمیں ہیں۔ سُنی، بدعی مکروہ، اور بدعی حرام۔ سنت کے مطابق طلاق یہ ہے کہ مدخولہ عورت کو جسے حیض آتا ہو، طہر کی حالت میں مباشرت کیے بغیر ایک طلاق دے کر عدت گزر جانے دی جاۓ ۔ بِدعی مکروہ یہ ہے کہ ایسے طہر کی حالت میں طلاق دی جاۓ جس میں آدمی مباشرت کر چکا ہو، یا مباشرت کیے بغیر ایک طہر میں ایک سے زیادہ طلاقیں دی جائیں، یا عدت کے اندر الگ الگ طہروں میں تین طلاقیں دی جائیں،یا بیک وقت تین طلاقیں دے ڈالی جائیں۔ اور بِد عی حرام یہ ہے کہ حیض کی حالت میں طلاق دی جاۓ ۔ (حاشیہ الدسوقی علیٰ الشرح الکبیر۔ احکام القرآن لابن العربی)۔ امام احمد بن حنبلؒ کا معتبر مذہب یہ ہے جس پر جمہور حنابلہ کا اتفاق ہے : مدخولہ عورت جس کو حیض آتا ہو اسے سنت کے مطابق طلاق دینے کا طریقہ یہ ہے کہ طہر کی حالت میں مباشرت کیے بغیر اسے طلاق دی جاۓ، پھر اسے چھوڑ دیا جاۓ یہاں تک کہ عدت گزر جاۓ ۔ لیکن اگر اسے تین طہروں میں تین الگ الگ طلاقیں دی جائیں، یا ایک ہی طہر میں تین طلاقیں دے دی جائیں، یا بیک وقت تین طلاقیں دے ڈالی جائیں، یا حیض کی حالت میں طلاق دی جاۓ، یا ایسے طہر میں طلاق دی جاۓ جس میں مباشرت کی گئی ہو اور عورت کا حاملہ ہونا ظاہر نہ ہو، تو یہ سب طلاق بدعت اور حرام ہیں۔ لیکن اگر عورت غیر مدخولہ ہو، یا ایسی مدخولہ ہو جسے حیض آنا بند ہو گیا ہو، یا ابھی حیض آنا شروع ہی نہ ہوا ہو، یا حاملہ ہو، تو اس کے معاملہ میں نہ وقت کے لحاظ سے سنت و بدعت کا کوئی فرق ہے نہ تعداد کے لحاظ سے ۔ (الانصاف فی معرفۃ الراجح من الخلاف علیٰ مذہب احمد بن حنبلؒ)۔ امام شافعیؒ کے نزدیک طلاق کے معاملہ میں سنت اور بدعت کا فرق کے لحاظ سے ہے نہ کہ تعداد سے َ یعنی مد خو ل عورت جس کو حیض آتا ہو‘ سے حیض کی حالت میں طلا ق دینا‘ یا جو حاملہ ہو سکتی ہو اسے ا یسے طُہر میں طلا ق دینا جس میں مباشرت کی جا چکی ہو اور عورت کا حاملہ ہونا ظا ہر نہ ہو‘ بدعت اور حرام ہے ۔ رہی طلا قو ں کی تعداد، تو خواہ بیک وقت تین طلاقیں دی جائیں، یا ایک ہی طْہر میں دی جائے، یا الگ الگ طُہروں میں دی جائیں، بہر حال یہ سنّت کے خلاف نہیں ہے۔ اور غیر مدخولہ عورت جسے حیض آنا بند ہو گیا ہو، یا حیض آیا ہی نہ ہو، یا جس کا حاملہ ہونا ظاہر ہو،اس کے معاملہ میں سنّت اور بدعت کا کوئی فرق نہیں ہے ۔ (مغنی المحتاج)۔ (2)کسی طلاق کے بدعت، مکروہ، حرام، یا گناہ ہونے کا مطلب ائمۂ اربعہ کے نزدیک یہ نہیں ہے کہ وہ واقع ہی نہ ہو۔ چاروں مذاہب میں طلاق، خواہ حیض کی حالت میں دی گئی ہو، یا بیک وقت تین طلاقیں دے دی گئی، یا ایسے طہر میں طلاق دی گئی ہو جس میں مباشرت کی جاچکی ہو اور عورت کا حاملہ ہونا ظاہر نہ ہوا ہو، یا کسی اور ایسے طریقے سے دی گئی ہو جسے کسی امام نے بدعت قرار دیا ہے، بہر حال واقع ہو جاتی ہے، اگر چہ آدمی گناہ گار ہوتا ہے ۔ لیکن بعض دوسرے مجتہدین نے اس مسئلے میں ائمۂ اربعہ سے اختلاف کیا ہے ۔ سعید بن المستیب اور بعض دوسرے تابعین کہتے ہیں کہ جو شخص سنت کے خلاف حیض کی حالت میں طلاق دے دے اس کی طلاق سرے سے واقع ہی نہیں ہوتی۔ یہی راۓ امامیہ کی ہے ۔ اور اس راۓ کی بنیاد یہ ہے کہ ایسا کرنا چونکہ ممنوع اور بدعت محرمہ ہے اس لیۓ یہ غیر مؤثر ہے ۔ حالانکہ اپر جو احادیث ہم نقل کر آۓ ہیں ان میں یہ بیان ہوا کہ حضرت عبداللہ بن عمر نے جب بیوی کو حالت حیض میں طلاق دی تو حضور نے انہیں رجوع کا حکم دیا۔ اگر یہ طلاق واقع ہی نہیں ہوئی تھی تو رجوع کا حکم دینے کے کیا معنی؟ اور یہ بھی بکثرت احادیث سے ثابت ہے کہ حضور ﷺ نے اور اکابر صحابہ ؓ نے ایک سے زیادہ طلاق دینے والے کو اگر چہ گناہ گار قرار دیا ہے، مگر اس کی طالق کو غیر مؤثر قرار نہیں دیا۔ طاؤس اور عکرمہ کہتے ہیں کہ بیک وقت تین طلاقیں دی جائیں تو صرف ایک طالق واقع ہوتی ہے ، اور اسی راۓ کو امام ابن تیمیہ ؒ نے اختیار کیا ہے۔ ان کی اس راۓ کا ماخذ یہ روایت ہے کہ ابو الصہباء نے ابن عباس سے پوچھا ‘ کیا آپ کو معلوم نہیں ہے کہ رسول ﷺ اور حضرت ابوبکر ؓ کے عہد میں اور حضرت عمر ؓ کے ابتدائی دور میں تین طاقوں کو ایک قرار دیا جاتا تھا ‘؟ انہوں نے جواب دیا ہاں (بخاری و مسلم ) اور مسلم، ابو داؤد اور مسند احمد میں ابن عباس کا یہ قول نقل کیا گیا ہے کہ ‘ رسول ﷺ اور حضرت ابوبکر ؓ کے عہد، اور حضرت عمر ؓ کی خلافت کے ابتدائی دو سوالوں میں تین طلاق کو ایک قرار دیا جاتا تھا۔ پھر حضرت عمر ؓ نے کہا کہ لوگ ایک ایسے معاملہ میں جلد بازی کرنے لگے ہیں جس میں ان کے لیۓ سوچ سمجھ کر کام کرنے کی گنجائش رکھی گئی تھی۔ اب کیوں نہ ہم ان کے اس فعل کر نافذ کر دیں؟ چنانچہ انہوں نے اسے نافذ کر دیا ‘ لیکن یہ رائے کئی و جوہ سے قابل قبول نہیں ہے ۔ اول تو متعدد روایات کے مطابق ابن عباس کا اپنا فتوی اس کے خلاف تھا جیسا کہ ہم اوپر نقل کر چکے ہیں۔ دوسرے یہ بات ان احادیث کے بھی خلاف پڑتی ہے جو نبی ﷺ اور اکابر صحابہ ؓ سے منقول ہوئی ہیں، جن میں بیک وقت تین طلاق دینے والے کے متعلق یہ فتوی دیا گیا ہے کہ اس کی تینوں طلاقیں نافذ ہو جاتی ہیں۔ یہ احادیث بھی ہم نے اوپر نقل کر دی ہیں۔ تیسرے ، خود ابن عباس ؓ کی روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عمر ؓ نے صحابہ ؓ کے مجمع میں تین طاقوں کو نافذ کرنے کا اعلان فرمایا تھا، لیکن نہ اس وقت، نہ اس کے بعد کبھی صحابہ میں سے کسی نے اس سے اختلاف کا اظہار کیا۔ اب کیا یہ تصور کیا جا سکتا ہے کہ حضرت عمر ؓ سنت کے خلاف کسی کام کا فیصلہ کر سکتے تھے؟ اور سارے صحابہ ؓ اس سکوت بھی پر اختیار کر سکتے تھے؟ مزید براں رکا نہ بن عبید یز ید کے قصے میں ابو داؤد، ترمذی، ابن ماجہ، امام شافعی ؒ دارمی اور حاکم نے یہ روایت نقل کی ہے کہ رکا نہ نے جب ایک ہی مجلس میں اپنی بیوی کو تین طلاقیں دیں تو رسول ﷺ نے ان کو حلف دے کر پوچھا کہ ان کی نیت ایک ہی طلاق دینے کی تھی؟ (یعنی باقی دو طلاقیں پہلی طلاق پر زور دینے کے لیۓ ان کی زبان سے نکلی تھیں، تین طلاق دے کر ہمیشہ کے لیۓ جدا کر دینا مقصود نہ تھا ) اور جب انہوں نے یہ حلفیہ بیان دیا تو آپ نے ان کو رجوع کا حق دے دیا۔ اس سے اس معاملہ کی اصل حقیقت معلوم ہو جاتی ہے کہ ابتدائی دور میں کسی قسم کی طلاقوں کو ایک کے حکم میں رکھا جاتا تھا۔ اسی بنا پر شارحین حدیث نے ابن عباس کی روایت کا یہ مطلب لیا ہے کہ ابتدائی دور میں چونکہ لوگوں کے اندر دینی معاملات میں خیانت قریب مفقود تھی، اس لیۓ تین طلاقیں محض پہلی طلاق پر زور دینے کے لیۓ اس کی زبان سے نکلی تھیں۔ لیکن حضرت عمر ؓ نے جب دیکھا کہ لوگ پہلے جلد بازی کر کے تین تین طلاقیں دے ڈالتے ہیں اور پھر تاکید کا بہانہ کرتے ہیں تو انہوں نے اس بہانے کو قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ امام نودی اور امام سیکی نے اسے ابن عباس والی روایت کی بہترین تاویل قرار دیا ہے ۔ آخری بات یہ ہے کہ خود ابو الصباء کی ان روایات میں اضطراب پا یا جاتا ہے جو ابن عباس کے قول کے بارے میں ان سے مروی ہیں۔ مسلم اور ابو داؤد اور نسائی نے انہی ابو الصباء سے ایک روایت یہ نقل کی ہے کہ ان کے دریافت کرنے پر ان عباس نے فرمایا ‘ ایک شخص جب خلوت سے پہلے بیوی کو تین طلاقیں دیتا تھا تو رسول ﷺ اور حضرت ابوبکر ؓ کے عہد اور حضرت عمر ؓ کے ابتدائی دور میں اس کو ایک طلاق قرار دیا جا تا تھا ‘ اس طرح ایک ہی راوی نے ابن عباس سے دو مختلف مضمونوں کی روایتیں نقل کی ہیں اور یہ اختلاف دونوں روایتوں کو کمزور کر دیتا ہے ۔ (3) حیض کی حالت میں طلاق دینے والے کو چونکہ رسول ﷺ نے رجوع کا حکم دیا تھا،اس لیۓ فقہا ء کے درمیان یہ سوال پیدا ہوا ہے کہ یہ حکم کس معنی ہے۔ امام ابو حنیفہ، امام شافعی، امام احمد، امام اوزاعی، ابن ابی لیلی، اسحاق بن راہویہ اور ابو ثور کہتے ہیں کہ ایسے شخص کو رجوع کا حکم تو دیا جاۓ گا مگر رجوع پر مجبور نہ کیا جاۓ گا (عمدۃ القاری)۔ ہدایہ ہیں حنفیہ کا مذہب یہ بیان کیا گیا ہے کہ اس صورت میں رجوع کرنا نہ صرف مستحب بلکہ واجب ہے ۔ مغنی المحتاج میں شافعیہ کا مسلک یہ بیان ہوا ہے کہ جس نے حیض میں طلاق دی ہو اور تین نہ دے ڈالی ہوں اس کے لیۓ مسنون یہ ہے کہ وہ رجوع کرے، اور اس کے بعد والے طہر میں طلاق نہ دے بلکہ اس کے گزر نے کے بعد جب دوسری مرتبہ عورت حیض سے فارغ ہو تب طلاق دینا چاہے تو دے، تاکہ حیض میں دی ہوئی طلاق سے رجوع محض کھیل کے طور پر نہ ہو۔ الانصاف میں حنابلہ کا مسلک یہ بیان ہوا ہے کہ اس حالت میں طلاق دینے والے کے لیۓ رجوع کرنا مستحب ہے ۔ لیکن امام مالک ؒ اور ان کے اصحاب کہتے ہیں کہ حیض کی حالت میں طلاق دینا جرم قابل دست اندازیِ پولیس ہے ۔ عورت خواہ مطالبہ کرے یا نہ کرے ، بہر حال حاکم کا یہ فرض ہے کہ جب کسی شخص کا یہ فعل اس کے علم میں آۓ تو وہ اسے رجوع پر مجبور کر ے اور عدت کے آخری وقت تک اس پر دباؤ ڈلتا رہے ۔ اگر وہ انکار کرے تو اسے قید کر دے۔ پھر بھی انکار کرے تو اسے مارے ۔ اس پر نہ مانے تو حاکم خود فیصلہ کر دے کہ ‘میں نے تیری بیوی تجھ پر واپس کر دی ‘ اور حاکم کا یہ فیصلہ رجوع ہو گا جس کے بعد مرد کے لیۓ اس عورت سے مباشرت کرنا جائز ہو گا، خواہ اس کی نیت رجوع کی ہو یا نہ ہو، کیونکہ حاکم کی نیت کی قائم مقام ہے (حاشیہ الدسوتی) مالکیہ یہ بھی کہتے ہیں کہ جس شخص نے طوعاً و کرہاً حیض میں دی ہوئی رجوع کر لیا ہو وہ اگر طلاق ہی دینا چاہے تو اس کے لیۓ مستحب طریقہ یہ ہے کہ جس حیض میں اس نے طلاق دی ہے اس کے بعد والے طہر میں سے طلاق نہ دے بلکہ جب دوبارہ حیض آنے کے بعد وہ طاہر ہو اس وقت طلاق دے۔ طلاق سے متصل والے طہر میں طلاق نہ دے نے کا حکم دراصل اس لیۓ دیا گیا ہے کہ حیض کی حالت میں طلاق دینے والے کا رجوع صرف ز بانی کلامی نہ ہو بلکہ اسے طہر کے زمانے میں عورت سے مباشرت کرنی چاہیے پھر جس طہر میں مباشرت کی جاچکی ہو اس میں طلاق دینا چونکہ ممنوع ہے ، لہذا طلاق دینے کا صحیح وقت اس کے والا طہر ہی ہے (حاشیہ الدسوتی)۔ (4) رجوعی طلاق دینے والے کے لیۓ رجوع کا موقع کسی وقت تک ہے؟ اس میں بھی فقہاء کے درمیان سے مراد تین حیض ہیں یا تین طہر؟ امام شافعی ؒ اور امام مالک ؒ کے نزدیک قرء سے مراد حیض ہے اور امام احمد بن حنبل کا معتبر مذہب بھی یہی ہے۔ یہ راۓ چاروں خلفاء راشدین، عبداللہ بن مسعود ؓ عبد اللہ بن عباس ؓ ابی بن کعب، معاز بن جبل، ابو الدردا، عبادہ بن صامت اور ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہم سے منقول ہے۔ امام محمد نے مؤطا میں شعبی کا قول نقل کیا ہے کہ وہ رسول ﷺ کے 13 صحابیوں سے ملے ہیں، اور ان سب کی راۓ یہی تھی۔ اور یہی بکثرت تابعین نے بھی اختیار کی ہے ۔ اس اختلاف کی بنا شافعیہ اور مالکیہ کے نزدیک تیسرے حیض میں داخل ہوتے ہی عورت کی عدت ختم ہو جاتی ہے ، اور مرد کا حق رجوع ساقط ہو جاتا ہے۔ اور اگر طلاق حیض کی حالت میں دی گئی ہو، اس حیض کا شمار عدت میں نہ ہوگا، بلکہ چو تھے حیض میں داخل ہونے پر عدت ختم ہوگی (مضنی المحتاج أ حاشیہ الدستی) حنفیہ کا مذہب یہ ہے کہ اگر تیسرے حیض میں دس دن گزر نے پر خون بند ہو تو عورت کی عدت ختم نہ ہوگی جب تک عورت غسل نہ کرے، یا ایک نماز کا پورا وقت نہ گزر جاۓ۔ پانی نہ ہونے کی صورت میں امام ابو حنیفہ ؒ اور امام ابو یوسف ؒ کے نزدیک جب عورت تیمم کر کے نماز پڑ ھ لے اس وقت مرد کا حق رجوع ختم ہو گا، اور امام محمد کے نزدیک تیمم کرتے ہی حق رجوع ختم ہو جاۓ گا (ہدایہ ) امام احمد کا معتبر مذہب جس پر جمہور حنابلہ کا اتفاق ہے ، یہ ہے کہ جب تک عورت تیسرے حیض سے فارغ ہو کر غسل نہ کر لے مرد کا حق رجوع باقی رہے گا (لانصاف ) (5) رجوع کس طرح ہوتا ہے اور کس طرح نہیں ہوتا؟ اس مسئلے میں فقہاء کے درمیان یہ امر متفق علیہ ہے کہ جس شخص نے اپنی بیوی کو رجعی طلاق دی ہو وہ عدت ختم ہونے پہلے چاہے رجوع کر سکتا ہے، خواہ عورت راضی ہو یا نہ ہو۔ کیونکہ قرآن مجید (سورہ بقرہ، آیت 228) میں فرما یا گیا ہے وَبُعُلَتُھُنَّ اَحَقُّ بِرَدِّھِنَّ فِیْ ذٰلِکَ ان کے شوہر اس مدت کے اندر انہیں واپس لے لینے کے پوری طرح حق دار ہیں ‘ اس سے خود بخود یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ عدت گزر نے سے پہلے تک ان کی زوجیت بر قرار رہتی ہے اور وہ انہیں قطعی طور پر چھوڑ دینے سے پہلے واپس لے سکتے ہیں۔ با لفاظ دیگر رجوع کوئی تجدید نکاح نہیں ہے کہ اس کے لیۓ عورت کی رضا ضروری ہو۔ شافعیہ کے نزدیک رجوع صرف قول ہی سے ہو سکتا ہے، عمل سے نہیں ہو سکتا۔ اگر آدمی زبان سے یہ نہ کہے کہ میں نے رجوع کیا تو مباشرت یا اختلاط کا کوئی فعل خواہ رجوع کی نیت ہی سے کیا گیا ہو، رجوع قرار نہیں دیا جا ۓ گا، بلکہ اس صورت میں عورت سے ہر قسم سے کا اتمتاع حرام ہے چاہے وہ بلا شہوت ہی ہو۔ لیکن مطلقہ رجعیہ سے مباشرت کرنے پر حد نہیں ہے ، کیونکہ علماء کا اس کے حرام ہونے پر اتفاق نہیں ہے۔ البتہ جو اس کے حرام ہونے کا اعتقاد رکھتا ہوا سے تعزیز دی جاۓ گی۔ مزید براں آدمی رجوع بالقول کرے یا نہ کرے (مغنی المحتاج)۔ مالکیہ کہتے ہیں کہ رجوع قول اور فعل، دونوں سے ہو سکتا ہے۔ اگر رجوع بالقول میں آدمی صریح الفاظ استعمال کرے تو خواہ اس کی نیت رجوع کی ہو یا نہ ہو، رجوع ہو جاۓ گا، بلکہ اگر وہ مذاق کے طور پر بھی رجوع قرار دیے جائیں گے جبکہ وہ رجوع کی نیت سے کہے گۓ ہوں۔ رہا رجوع بالفعل تو کوئی فعل خواہ وہ اختلاط ہو، یا مباشرت، اس وقت تک رجوع قرار نہیں دیا جاسکتا جب تک کہ وہ رجوع کی نیت سے نہ کیا گیا ہو (حاشیتہ الدسوتی۔ احکام القرآن لابن العربی ) حنیفہ اور حنابلہ کا مسلک رجوع بالقول کے معاملہ میں وہی جو مالکیہ کا ہے ۔ ربا رجوع بالفعل، تو مالکیہ کے بر عکس ان دونوں مذاہب کا فتوی یہ ہے کہ شوہر اگر عدت کے اندر مطلقہ رجعیہ سے مباشرت کر لے تو وہ آپ سے آپ رجوع ہے، خواہ وہ مباشرت سے کم کسی درجے کا ہو، اور حنابلہ محض اختلاط کو رجوع نہیں مانتے ( ہدایہ، فتح القدیر، عمدۃ القاری، الانصاف ) (6)طلاق سنت اور طلاق بدعت کے نتائج کا فرق یہ ہے کہ ایک طلاق یا دو طلاق دینے کی صورت میں اگر عدت گزر بھی جاۓ تو مطلّقہ عورت اور اس کے سابق شوہر کے درمیان باہمی رضامندی سے پھر نکاح ہو سکتا ہے ۔لیکن اگر آدمی تین طلاق دے چکا ہو تو نہ عدّت کے اندر ر جوع ممکن ہے اور نہ عدّت گزر جانے کے بعد دو بارہ نکاح کیا جا سکتا ہے۔ الّا یہ کہ اُس عورت کا نکاح کسی اور شخص سے ہو، وہ نکاح صحیح نوعیت کاہو، دوسرا شوہر اُس عورت سے مباشرت بھہی کر چکا ہو،پہر یا تو وہ اسے طلاق دے دے یا مر جاۓ ۔اس کے بعد اگر عورت اور اس کا سابق شوہر رضامندی کے ساتھ از سرِ نو نکاح کرنا چاہیں توکر سکتے ہیں۔احادیث کی اکثر کتابوں میں صحیح سند کے ساتھ یہ روایت آئی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے پوچھا گیا کہ ایک شخص نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں دے دیں، پھر اس عورت نے دوسرے شخص سے نکاح کر لیا، اور اس دوسرے شوہر کے ساتھ اس کی خلوت بھی ہوئی مگر مباشرت نہیں ہوئی، پھر اس نے اسے طلاق دے دی، اب کیا اس عورت کا اپنے ساق شوہر سے دوبارہ نکاح ہو سکتا ہے؟ حضورؐ نے جواب دیا: لا، حتّٰی یزوق الاٰخر من عسَیْلتھا ما ذاق الاول۔’’ نہیں، جب تک کہ دوسرا شوہر اس سے اسی طرح لطف اندوز نہ ہو چکا ہو جس طرح پہلا شوہر ہوا تھا’’۔ رہ سازشی نکاح، جس میں پہلے سے یہ طے شدہ ہو کہ عورت کو سابق شوہر کے لیے حلال کرنے کی خاطر ایک آدمی اس سے نکاح کرے گا اور مباشرت کرنے کے بعد اسے طلاق دیدے گا، تو امام ابو یوسفؒ کے نزدیک یہ نکاح فاسد ہے ، اور امام ابو حنفیہؒ کے نزدیک اس سے تحلیل تو ہو جاۓ گی، مگر یہ فعل مگر وہ تحریمی ہے ۔ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا لعن اللہ المحلل و المحلل لہ،’’اللہ نے تحلیل کرنے والے اور تحلیل کرانے والے ، دونوں پر لعنت فرمائی ہے ‘‘(ترمذی، نسائی)۔ حضرت عقبہ بن عامر کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے صحابہ سے پوچھا الا اخبر کم بالتیس المستعار؟ ’’ کیا میں تمہیں نہ بتاؤں کہ کراۓ کا سانڈ کون ہوتا ہے ؟ ’’ صحابہؓ نے عرض کیا ضرور ارشاد فرمائیں۔ فرمایا حوالمحلل، لعن اللہ المحلل و المحلل لہ۔’’ وہ تحلیل کرنے والا ہے ۔ خدا کی لعنت ہے تحلیل کرنے والے پر بھی اور اس شخص پر بھی جس کے لیے تحلیل کی جاۓ ‘‘(ابن ماجہ۔ دارقطنی) |