Ayats Found (7)
Surah 16 : Ayat 57
وَيَجْعَلُونَ لِلَّهِ ٱلْبَنَـٰتِ سُبْحَـٰنَهُۥۙ وَلَهُم مَّا يَشْتَهُونَ
یہ خدا کے لیے بیٹیاں تجویز کرتے ہیں1 سبحان اللہ! اور اِن کے لیے وہ جو یہ خود چاہیں؟2
1 | مشرکینِ عرب کے معبودوں میں دیوتا کم تھے، دیویاں زیادہ تھیں، اور ان دیویوں کے متعلق ان کا عقیدہ یہ تھا کہ یہ خدا کی بیٹیاں ہیں۔اسی طرح فرشتوں کو بھی وہ خدا کی بیٹیاں قرار دیتے تھے۔ |
Surah 16 : Ayat 59
يَتَوَٲرَىٰ مِنَ ٱلْقَوْمِ مِن سُوٓءِ مَا بُشِّرَ بِهِۦٓۚ أَيُمْسِكُهُۥ عَلَىٰ هُونٍ أَمْ يَدُسُّهُۥ فِى ٱلتُّرَابِۗ أَلَا سَآءَ مَا يَحْكُمُونَ
لوگوں سے چھپتا پھرتا ہے کہ اِس بری خبر کے بعد کیا کسی کو منہ دکھائے سوچتا ہے کہ ذلت کے ساتھ بیٹی کو لیے رہے یا مٹی میں دبا دے؟ دیکھو کیسے برے حکم ہیں جو یہ خدا کے بارے میں لگاتے ہیں1
1 | یعنی اپنے لیے جس بیٹی کو یہ لوگ اس قدر موجب ننگ وعار سمجھتے ہیں، اسی کو خدا کے لیے بلا تامُل تجویز کر دیتے ہیں۔ قطع نظراس سے کہ خدا کے لیے اولاد تجویز کرنا بجائے خود ایک شدید جہالت اور گستاخی ہے، مشرکین عرب کی اس حرکت پر یہاں اِس خاص پہلو سے گرفت اس لیے کی گئی ہے کہ اللہ کے متعلق اُن کے تصور کی پستی واضح کی جائے اور یہ بتایا جائے کہ مشرکانہ عقائد نے اللہ کے معاملے میں اب جو جس قدر جری اور گستاخ بنا دیا ہے اور وہ کس قدر بے حس ہو چکے ہیں کہ اس طرح کی باتیں کرتے ہوئے کوئی قباحت تک محسوس نہیں کرتے۔ |
Surah 37 : Ayat 149
فَٱسْتَفْتِهِمْ أَلِرَبِّكَ ٱلْبَنَاتُ وَلَهُمُ ٱلْبَنُونَ
پھر ذرا اِن لوگوں سے پوچھو، کیا1 (اِن کے دل کو یہ بات لگتی ہے کہ) تمہارے رب کے لیے تو ہوں بیٹیاں اور ان کے لیے ہوں بیٹے2!
2 | روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ عرب میں قریش، جُہینہ، بنی سَلِمہ، خزاعہ، بن مُلیح اور بعض دوسرے قبائل کا عقیدہ یہ تھا کہ ملائکہ اللہ تعالٰی کی بیٹیاں ہیں۔ قرآن مجید میں متعدد مقامات پر ان کے اس جاہلانہ عقیدے کا ذکر کیا گیا ہے۔ مثال کے طور پر ملاحظہ ہو النساء، آیت 117 ۔ النحل آیات 57۔58۔بنی اسرائیل، آیت 40۔ الزخرف، آیات 16 تا 19۔ النجم، آیات 21 تا 27۔ |
1 | یہاں سے ایک دوسرا مضمون شروع ہوتا ہے۔ پہلا مضمون آیت نمبر 11 سے شروع ہوا تھا جس میں کفار مکہ کے سامنے یہ سوال رکھا گیا تھا ’’ان سے پوچھو، کیا ان کا پیدا کرنا زیادہ مشکل کام ہے یا ان چیزوں کا جو ہم نے پیدا کر رکھی ہیں‘‘۔ اب انہی کے سامنے یہ دوسرا سوال پیش کیا جا رہا ہے۔ پہلے سوال کا منشا کفار کو ان کی اس گمراہی پر متنبہ کرنا تھا کہ وہ زندگی بعد موت اور جزا و سزا کو غیر ممکن الوقوع سمجھتے تھے اور اس پر نبی صلی اللہ علیہ و سلم کا مذاق اڑاتے تھے۔ اب یہ دوسرا سوال ان کی اس جہالت پر متنبہ کرنے کے لیے پیش کیا جا رہا ہے کہ وہ اللہ تعالٰی کی طرف اولاد منسوب کرتے تھے اور قیاسی گھوڑے دوڑا کر جس کا چاہتے تھے اللہ سے رشتہ جوڑ دیتے تھے۔ |
Surah 37 : Ayat 170
فَكَفَرُواْ بِهِۦۖ فَسَوْفَ يَعْلَمُونَ
مگر (جب وہ آ گیا) تو انہوں نے اس کا انکار کر دیا اب عنقریب اِنہیں (اِس روش کا نتیجہ) معلوم ہو جائے گا
Surah 43 : Ayat 15
وَجَعَلُواْ لَهُۥ مِنْ عِبَادِهِۦ جُزْءًاۚ إِنَّ ٱلْإِنسَـٰنَ لَكَفُورٌ مُّبِينٌ
(یہ سب کچھ جانتے اور مانتے ہوئے بھی) اِن لوگوں نے اُس کے بندوں میں سے بعض کو اس کا جز بنا ڈالا1، حقیقت یہ ہے کہ انسان کھلا احسان فراموش ہے
1 | جُزء بنا دینے سے مراد یہ ہے کہ اللہ کے کسی بندے کو اس کی اولاد قرار دیا جاۓ، کیونکہ اولاد و لامحالہ باپ کی ہم جنس اور اس کے وجود کا یک جزء ہوتی ہے ، اور کسی شخص کو اللہ کا بیٹا یا بیٹی کہنے کے معنی ہی یہ ہیں کہ اسے اللہ کی ذات میں شریک کیا جا رہا ہے ۔ اس کے علاوہ کسی مخلوق کو اللہ کا جزء بنانے کی ایک شکل یہ بھی ہے کہ اسے ان صفات اور اختیارات کا حامل قرار دیا جاۓ جو اللہ ہی کے ساتھ مخصوص ہیں ، اور اسی تصور کے تحت اس سے دعائیں مانگ جائیں، یا اس کے آگے عبودیت کے مراسم ادا کیے جائیں ، یا اس کی تحریم و تحلیل کو شریعت واجب الاتباع ٹھیرا لیا جاۓ ۔ کیونکہ اس صورت میں آدمی اُلوہیت و ربوبیت کا اللہ اور اس کے بندوں کے درمیان بانٹتا ہے اور اس کا ایک جز بندوں کے حوالے کر دیتا ہے |
Surah 43 : Ayat 19
وَجَعَلُواْ ٱلْمَلَـٰٓئِكَةَ ٱلَّذِينَ هُمْ عِبَـٰدُ ٱلرَّحْمَـٰنِ إِنَـٰثًاۚ أَشَهِدُواْ خَلْقَهُمْۚ سَتُكْتَبُ شَهَـٰدَتُهُمْ وَيُسْــَٔلُونَ
انہوں نے فرشتوں کو، جو خدائے رحمان کے خاص بندے ہیں1، عورتیں قرار دے لیا کیا اُن کے جسم کی ساخت اِنہوں نے دیکھی ہے؟2 اِن کی گواہی لکھ لی جائے گی اور انہیں اس کی جوابدہی کرنی ہو گی
2 | دوسرا ترجمہ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ’’ کیا نا کی پیدائش کے وقت یہ موجود تھے |
1 | یعنی مذکر یا مونث ہونے سے مبرا ہیں۔ یہ مفہوم فحواۓ کلام سے خود بخود مترشح ہو رہا ہے |
Surah 52 : Ayat 39
أَمْ لَهُ ٱلْبَنَـٰتُ وَلَكُمُ ٱلْبَنُونَ
کیا اللہ کے لیے تو ہیں بیٹیاں اور تم لوگوں کے لیے ہیں بیٹے؟1
1 | ان مختصر فقروں میں ایک بڑے مفصل استدلال کو سمو دیا گیا ہے ۔ تفصیل اس کی یہ ہے کہ اگر تمہیں رسول کی بات ماننے سے انکار ہے تو تمہارے پاس خود حقیقت کو جاننے کا آخر ذریعہ کیا ہے ؟ کیا تم میں سے کوئی شخص عالم بالا میں پہنچا ہے اور اللہ تعالیٰ،یا اس کے فرشتوں سے اس نے براہ راست یہ معلوم کر لیا ہے کہ وہ عقائد بالکل حقیقت کے مطابق ہیں جن پر تم لوگ اپنے دین کی بنا رکھے ہوۓ ہو؟ یہ دعویٰ اگر کسی کو ہے تو وہ سامنے آۓ اور بتاۓ کہ اسے کب اور کیسے عالم بالا تک رسائی حاصل ہوئی ہے اور کیا علم وہ وہاں سے لے کر آیا ہے ۔ اور اگر یہ دعویٰ تم نہیں رکھتے تو پھر خود ہی غور کرو کہ اس سے زیادہ مضحکہ انگیز عقیدہ اور کیا ہو سکتا ہے کہ تم اللہ رب العالمین کے لیے اولاد تجویز کرتے ہو، اور اولاد بھی لڑکیاں ، جنہیں تم خود اپنے لیے باعث ننگ و عار سمجھتے ہو؟ علم کے بغیر اس قِسم کی صریح جہالتوں کے اندھیرے میں بھٹک رہے ہو، اور خدا کی طرف سے جو شخص علم کی روشنی تمہارے سامنے پیش کرتا ہے اس کی جان کے دشمن ہوۓ جاتے ہو |