Ayats Found (11)
Surah 2 : Ayat 170
وَإِذَا قِيلَ لَهُمُ ٱتَّبِعُواْ مَآ أَنزَلَ ٱللَّهُ قَالُواْ بَلْ نَتَّبِعُ مَآ أَلْفَيْنَا عَلَيْهِ ءَابَآءَنَآۗ أَوَلَوْ كَانَ ءَابَآؤُهُمْ لَا يَعْقِلُونَ شَيْــًٔا وَلَا يَهْتَدُونَ
ان سے جب کہا جاتا ہے کہ اللہ نے جو احکام نازل کیے ہیں اُن کی پیروی کرو تو جواب دیتے ہیں کہ ہم تو اسی طریقے کی پیروی کریں گے جس پر ہم نے اپنے باپ دادا کو پایا ہے1 اچھا اگر ان کے باپ دادا نے عقل سے کچھ بھی کام نہ لیا ہو اور راہ راست نہ پائی ہو تو کیا پھر بھی یہ انہیں کی پیروی کیے چلے جائیں گے؟
1 | یعنی ان پابندیوں کے لیے ان کے پاس کوئی سَنَد اور کوئی حجّت اس کے سوا نہیں ہے کہ باپ دادا سے یُوں ہی ہوتا چلا آیا ہے۔ نادان سمجھتے ہیں کہ کسی طریقے کی پیروی کے لیے یہ حجّت بالکل کافی ہے۔ |
Surah 5 : Ayat 104
وَإِذَا قِيلَ لَهُمْ تَعَالَوْاْ إِلَىٰ مَآ أَنزَلَ ٱللَّهُ وَإِلَى ٱلرَّسُولِ قَالُواْ حَسْبُنَا مَا وَجَدْنَا عَلَيْهِ ءَابَآءَنَآۚ أَوَلَوْ كَانَ ءَابَآؤُهُمْ لَا يَعْلَمُونَ شَيْــًٔا وَلَا يَهْتَدُونَ
اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ آؤ اُس قانون کی طرف جو اللہ نے نازل کیا ہے اور آؤ پیغمبرؐ کی طرف تو وہ جواب دیتے ہیں کہ ہمارے لیے تو بس وہی طریقہ کافی ہے جس پر ہم نے اپنے باپ دادا کو پایا ہے کیا یہ باپ دادا ہی کی تقلید کیے چلے جائیں گے خواہ وہ کچھ نہ جانتے ہوں اور صحیح راستہ کی انہیں خبر ہی نہ ہو؟
Surah 7 : Ayat 28
وَإِذَا فَعَلُواْ فَـٰحِشَةً قَالُواْ وَجَدْنَا عَلَيْهَآ ءَابَآءَنَا وَٱللَّهُ أَمَرَنَا بِهَاۗ قُلْ إِنَّ ٱللَّهَ لَا يَأْمُرُ بِٱلْفَحْشَآءِۖ أَتَقُولُونَ عَلَى ٱللَّهِ مَا لَا تَعْلَمُونَ
یہ لوگ جب کوئی شرمناک کام کرتے ہیں تو کہتے ہیں ہم نے اپنے باپ دادا کو اسی طریقہ پر پایا ہے اور اللہ ہی نے ہمیں ایسا کرنے کا حکم دیا 1ہے اِن سے کہو اللہ بے حیائی کا حکم کبھی نہیں دیا کرتا2 کیا تم اللہ کا نام لے کر وہ باتیں کہتے ہو جن کے متعلق تمہیں علم نہیں ہے (وہ اللہ کی طرف سے ہیں)؟
2 | بظاہر یہ ایک بہت ہی مختصر سا جملہ ہے مگر درحقیقت اس میں قرآن مجید نے ان لوگوں کے جا ہلانہ عقائد کے خلاف ایک بہت بڑی دلیل پیش کی ہے۔ اس طرزِ استدلال کو سمجھنے کے لیے دو باتیں بظور مقدمہ کے پہلے سمجھ لینی چاہییں: ایک یہ کہ اہل عرب اگرچہ اپنی بعض مذہبی رسموں میں برہنگی اختیار کرتے تھےاور اسےایک مقدس مذہبی فعل سمجھتے تھے، لیکن بر ہنگی کا بجائے خود ایک شرمناک فعل ہونا خود ان کے نزدیک بھی مسلَّم تھا، چناچہ کوئی شریف اور ذی عزت عرب اس بات کو پسند نہ کرتا تھا کہ کسی مہذب مجلس میں ، یا بازار میں ، یا اپنے اعزّہ اور اقربا کے درمیان برہنہ ہو۔ دوسرے یہ کہ وہ لوگ برہنگی کو شرمنا ک جاننے کے باوجود ایک مذہبی رسم کی حیثیت سے اپنی عبادت کے موقع پر اختیار کرتے تھے اور چونکہ اپنے مذہب کو خدا کی طرف سے سمجھتے تھے اس لیے کہ ان کا دعویٰ تھا کہ یہ رسم بھی خدا ہی کی طرف سے مقرر کی ہوئی ہے۔ اس پر قرآن مجید یہ استد لال کرتا ہے کہ جو کام فحش ہے اور جسے تم خود بھی جانتے اور مانتے ہو کہ فحش ہے اس کے متعلق تم یہ کیسے باور کر لیتے ہو کہ خدا نے اس کا حکم دیا ہوگا۔ کسی فحش کا م کا حکم خدا کی طرف سے ہر گز نہیں ہو سکتا، اور اگر تمہارے مذہب میں ایسا حکم پایا جاتا ہے تو یہ اس بات کی صریح علامت ہے کہ تمہارا مذہب خدا کی طرف سے نہیں ہے |
1 | اشارہ ہے اہل عرب کے برہنہ طواف کی طرف ، جس کا ہم اوپر ذکر کر چکے ہیں۔ وہ لوگ اس کو ایک مذہبی فعل سمجھ کر کرتے تھے اور ان کا خیال تھا کہ خدا نے یہ حکم دیا ہے |
Surah 10 : Ayat 78
قَالُوٓاْ أَجِئْتَنَا لِتَلْفِتَنَا عَمَّا وَجَدْنَا عَلَيْهِ ءَابَآءَنَا وَتَكُونَ لَكُمَا ٱلْكِبْرِيَآءُ فِى ٱلْأَرْضِ وَمَا نَحْنُ لَكُمَا بِمُؤْمِنِينَ
اُنہوں نے جواب میں کہا “کیا تواس لیے آیا ہے کہ ہمیں اُ س طریقے سے پھیر دے جس پر ہم نے اپنے باپ دادا کو پایا ہے اور زمین میں بڑائی تم دونوں کی قائم ہو جائے؟1 تمہارے بات تو ہم ماننے والے نہیں ہیں"
1 | ظاہر ہے کہ حضرت موسیٰ و ہارون کا اصل مطالبہ رہائی بنی اسرائیل ہوتا تو فرعون اور اس کےدرباریوں کو یہ اندیشہ کرنے کی کوئی ضرورت نہ تھی کہ ان دونوں بزرگوں کی دعوت پھیلنے سے سرزمینِ مصر کا دین بدل جائے گا اور ملک میں ہمارے بجائے ان کی بڑائی قائم ہو جائے گی۔ ان کے اس اندیشے کی وجہ تو یہی تھی کہ حضرت موسیٰؑ اہلِ مصر کو بندگی حق کی طرف دعوت دے رہے تھے اور اس سے وہ مشرکانہ نظام خطرےمیں تھا جس پر فرعون کی بادشاہی اور اس کے سرداروں کی سرداری اور مذہبی پیشواؤں کی پیشوائی قائم تھی۔ (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو الاعراف، حاشیہ نمبر ۶۶۔ المومن، حاشیہ نمبر ۴۳) |
Surah 21 : Ayat 53
قَالُواْ وَجَدْنَآ ءَابَآءَنَا لَهَا عَـٰبِدِينَ
انہوں نے جواب دیا "ہم نے اپنے باپ دادا کو ان کی عبادت کرتے پایا ہے"
Surah 26 : Ayat 74
قَالُواْ بَلْ وَجَدْنَآ ءَابَآءَنَا كَذَٲلِكَ يَفْعَلُونَ
انہوں نے جواب دیا 1"نہیں، بلکہ ہم نے اپنے باپ دادا کو ایسا ہی کرتے پایا ہے"
1 | یعنی ہماری اس عبادت کی وجہ یہ نہیں ہے کہ یہ ہماری مناجاتیں اور دعائیں اور فریادیں سنتے ہیں یا ہمیں نفع اور نقصان پہنچاتے ہیں اس لیے ہم نے ان کو پوجنا شروع کر دیا ہے ، بلکہ اصل وجہ اس عبادت کی یہ ہے کہ باپ دادا کے وقتوں سے یوں ہی ہوتا چلا آ رہا ہے۔ اس طرح انہوں نے خود یہ اعتراف کر لیا کہ ان کے مذہب کے لیے باپ دادا کی اندھی تقلید کے سوا کوئی سند نہیں ہے۔ دوسرے الفاظ میں گویا وہ یہ کہہ رہے تھے کہ آخر تم نئی بات ہمیں کیا بتانے چلے ہو؟ کیا ہم خود نہیں دیکھتے کہ یہ لکڑی اور پتھر کی مورتیں ہیں ؟ کیا ہم نہیں جانتے کہ لکڑیاں سنا نہیں کرتیں اور پتھر کسی کا کام بنانے یا بگاڑنے کے لیے نہیں اٹھا کرتے ؟ مگر یہ ہمارے بزرگ جو صدیوں سے نسلاً بعد نسل ان کی پوجا کرتے چلے آ رہے ہیں تو کیا وہ سب تمہارے نزدیک بے وقوف تھے ؟ ضرور کوئی وجہ ہو گی کہ وہ ان نے جان مورتیوں کی پوجا کرتے رہے۔ لہٰذا ہم بھی ان کے اعتماد پر یہ کام کر رہے ہیں |
Surah 31 : Ayat 21
وَإِذَا قِيلَ لَهُمُ ٱتَّبِعُواْ مَآ أَنزَلَ ٱللَّهُ قَالُواْ بَلْ نَتَّبِعُ مَا وَجَدْنَا عَلَيْهِ ءَابَآءَنَآۚ أَوَلَوْ كَانَ ٱلشَّيْطَـٰنُ يَدْعُوهُمْ إِلَىٰ عَذَابِ ٱلسَّعِيرِ
اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ پیروی کرو اُس چیز کی جو اللہ نے نازل کی ہے تو کہتے ہیں کہ ہم تو اُس چیز کی پیروی کریں گے جس پر ہم نے اپنے باپ دادا کو پایا ہے کیا یہ انہی کی پیروی کریں گے خواہ شیطان اُن کو بھڑکتی ہوئی آگ ہی کی طرف کیوں نہ بلاتا رہا ہو؟1
1 | یعنی ہرشخص اور ہر خاندان اور ہر قوم کے باپ داد ا کا حق پر ہونا کچھ ضروری نہیں ہے۔ محض یہ بات کہ یہ طریقہ باپ دادا کے وقتوں سے چلا آ رہا ہے ہرگز اس امر کی دلیل نہیں ہے کہ یہ حق بھی ہے۔ کوئی عقلمند آدمی یہ نادانی کی حرکت نہیں کر سکتا کہ اگر اس کے باپ دادا گمراہ رہے ہوں تو وہ بھی آنکھیں بند کر کے انہی کی راہ پر چلے جائے اور کبھی یہ تحقیق کرنے کی ضرورت نہ محسوس کرے کہ یہ راہ جا کدھر رہی ہے۔ |
Surah 37 : Ayat 69
إِنَّهُمْ أَلْفَوْاْ ءَابَآءَهُمْ ضَآلِّينَ
یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنے باپ دادا کو گمراہ پایا
Surah 37 : Ayat 70
فَهُمْ عَلَىٰٓ ءَاثَـٰرِهِمْ يُهْرَعُونَ
اور انہی کے نقش قدم پر دوڑ چلے1
1 | یعنی انہوں نے خود اپنی عقل سے کام لے کر کبھی نہ سوچا کہ باپ دادا سے جو طریقہ چلا آ رہا ہے وہ درست بھی ہے یا نہیں۔بس آنکھیں بند کر کے اسی ڈگر پر ہولیے جس پر دوسروں کو چلتے دیکھا۔ |
Surah 43 : Ayat 22
بَلْ قَالُوٓاْ إِنَّا وَجَدْنَآ ءَابَآءَنَا عَلَىٰٓ أُمَّةٍ وَإِنَّا عَلَىٰٓ ءَاثَـٰرِهِم مُّهْتَدُونَ
نہیں، بلکہ یہ کہتے ہیں کہ ہم نے اپنے باپ دادا کو ایک طریقے پر پایا ہے اور ہم اُنہی کے نقش قدم پر چل رہے ہیں1
1 | یعنی ان کے پاس کسی کتاب الہیٰ کی کوئی سند نہیں ہے بلکہ سند صرف یہ ہے کہ باپ دادا سے یونہی ہوتا چلا آ رہا ہے ، لہٰذا ہم بھی انہی کی تقلید میں فرشتوں کو دیویاں بناۓ بیٹھے ہیں |