Ayats Found (13)
Surah 3 : Ayat 137
قَدْ خَلَتْ مِن قَبْلِكُمْ سُنَنٌ فَسِيرُواْ فِى ٱلْأَرْضِ فَٱنظُرُواْ كَيْفَ كَانَ عَـٰقِبَةُ ٱلْمُكَذِّبِينَ
تم سے پہلے بہت سے دور گزر چکے ہیں، زمین میں چل پھر کر دیکھ لو کہ اُن لوگوں کا کیا انجام ہوا جنہوں نے (اللہ کے احکام و ہدایات کو) جھٹلایا
Surah 6 : Ayat 11
قُلْ سِيرُواْ فِى ٱلْأَرْضِ ثُمَّ ٱنظُرُواْ كَيْفَ كَانَ عَـٰقِبَةُ ٱلْمُكَذِّبِينَ
اِن سے کہو، ذرا زمین میں چل پھر کر دیکھو جھٹلانے والوں کا کیا انجام ہوا ہے1
1 | یعنی گزری ہوئی قوموں کے آثار قدیمہ اور ان کے تاریخی افسانے شہادت دیں گے کہ صداقت و حقیقت سے مُنہ موڑنے اور باطل پرستی پر اصرار کرنے کی بدولت کس طرح یہ قومیں عبرتناک انجام سے دوچار ہوئیں |
Surah 12 : Ayat 109
وَمَآ أَرْسَلْنَا مِن قَبْلِكَ إِلَّا رِجَالاً نُّوحِىٓ إِلَيْهِم مِّنْ أَهْلِ ٱلْقُرَىٰٓۗ أَفَلَمْ يَسِيرُواْ فِى ٱلْأَرْضِ فَيَنظُرُواْ كَيْفَ كَانَ عَـٰقِبَةُ ٱلَّذِينَ مِن قَبْلِهِمْۗ وَلَدَارُ ٱلْأَخِرَةِ خَيْرٌ لِّلَّذِينَ ٱتَّقَوْاْۗ أَفَلَا تَعْقِلُونَ
اے محمدؐ، تم سے پہلے ہم نے جو پیغمبر بھیجے تھے وہ سب بھی انسان ہی تھے، اور انہی بستیوں کے رہنے والوں میں سے تھے، اور اُنہی کی طرف ہم وحی بھیجتے رہے ہیں پھر کیا یہ لوگ زمین میں چلے پھرے نہیں ہیں کہ اُن قوموں کا انجام انہیں نظر نہ آیا جو ان سے پہلے گزر چکی ہیں؟ یقیناً آخرت کا گھر اُن لوگوں کے لیے اور زیادہ بہتر ہے جنہوں نے (پیغمبروں کی بات مان کر) تقویٰ کی روش اختیار کی کیا اب بھی تم لوگ نہ سمجھو گے؟
Surah 27 : Ayat 36
فَلَمَّا جَآءَ سُلَيْمَـٰنَ قَالَ أَتُمِدُّونَنِ بِمَالٍ فَمَآ ءَاتَـٰنِۦَ ٱللَّهُ خَيْرٌ مِّمَّآ ءَاتَـٰكُم بَلْ أَنتُم بِهَدِيَّتِكُمْ تَفْرَحُونَ
جب وہ (ملکہ کا سفیر) سلیمانؑ کے ہاں پہنچا تو اس نے کہا "کیا تم لوگ مال سے میری مدد کرنا چاہتے ہو؟ جو کچھ خدا نے مجھے دے رکھا ہے وہ اس سے بہت زیادہ ہے جو تمہیں دیا ہے1 تمہارا ہدیہ تمہی کو مبارک رہے
1 | اس جملے سے مقصود اظہار فخروتکبر نہیں ہے۔ اصل مدعایہ ہے کہ مجھے تمہارامال مطلوب نہیں ہے بلکہ تمہارا ایمان مطلوب ہے۔ یا پھر کم سے کم جو چیز میں چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ تم ایک صالح نظام کے تابع ہوجاؤ۔ اگر تم ان دونوں باتوں میں سے کسی کے لیے راضی نہیں ہوتو میرے لیے یہ ممکن نہیں ہے کہ مال ودولت کی رشوت لے کر تمہیں اس شرک اور اس فاسد نظام زندگی کے معاملہ میں آزاد چھوڑ دوں۔ مجھے میرے رب نے جو کچھ دے رکھا ہے وہ اس سے بہت زیادہ ہے کہ میں تمہارے مال کا لالچ کروں۔ |
Surah 22 : Ayat 46
أَفَلَمْ يَسِيرُواْ فِى ٱلْأَرْضِ فَتَكُونَ لَهُمْ قُلُوبٌ يَعْقِلُونَ بِهَآ أَوْ ءَاذَانٌ يَسْمَعُونَ بِهَاۖ فَإِنَّهَا لَا تَعْمَى ٱلْأَبْصَـٰرُ وَلَـٰكِن تَعْمَى ٱلْقُلُوبُ ٱلَّتِى فِى ٱلصُّدُورِ
کیا یہ لوگ زمین میں چلے پھرے نہیں ہیں کہ اِن کے دل سمجھنے والے اور اِن کے کان سُننے والے ہوتے؟ حقیقت یہ ہے کہ آنکھیں اندھی نہیں ہوتیں مگر وہ دل اندھے ہو جاتے ہیں جو سینوں میں ہیں1
1 | خیال رہے کہ قرآن سائنس کی زبان میں نہیں بلکہ ادب کی زبان میں کلام کرتا ہے۔ یہاں خواہ مخواہ ذہن اس سوال میں الجھ جائے کہ سینے والا دل کب سوچا کرتا ہے۔ ادبی زبان میں احساسات ، جذبات، خیالات، بلکہ قریب قریب تمام ہی افعال دماغ سینے اور دل ہی کی طرف منسوب کیے جاتے ہیں۔ حتی کہ کسی چیز کے ’’ یاد ہونے ‘‘ کو بھی یوں کہتے ہیں ’’ وہ تو میرے سینے میں محفوظ ہے |
Surah 27 : Ayat 69
قُلْ سِيرُواْ فِى ٱلْأَرْضِ فَٱنظُرُواْ كَيْفَ كَانَ عَـٰقِبَةُ ٱلْمُجْرِمِينَ
کہو ذرا زمین میں چل پھر کر دیکھو کہ مجرموں کا کیا انجام ہو چکا ہے1
1 | اس مختصرسے فقرے میں آخرت کی دوزبردست دلیلیں بھی ہیں اورنصیحت بھی۔ پہلی دلیل یہ ہے کہ دنیا کی جن قوموں نے آخرت کو نظرانداز کیاوہ مجرم بنےبغیر نہیں رہ سکی ہیں۔ وہ غیرذمہ داربن کررہیں۔ انہوں نےظلم و ستم ڈھائے۔ وہ فسق وفجور میں غرق ہوگئیں۔ اوراخلاق کی تباہی نےآخرکاران کوبرباد کرکے چھوڑا۔ یہ تاریخ انسانی کا مسلسل تجربہ، جس پرزمین میں ہرطرف تباہ شدہ قوموں کےآثار شہادت دےرہے ہیں، صاف ظاہر کرتا ہے کہ آخرت کے ماننے اورنہ ماننےکانہایت گہراتعلق انسانی رویے کی صحت اورعدم صحت سے ہے۔اس کو مانا جائے تو رویہ درست رہتا ہے۔ نہ ماناجائے تورویہ غلط ہوجاتا ہے۔ یہ اس امر کی صریح دلیل ہےکہ اس کا ماننا حقیقت کے مطابق ہے اس لیےاس کےماننے سے انسانی زندگی ٹھیک ڈگر پر چلتی ہے۔ اوراس کا نہ ماننا حقیقت کےخلاف ہے، اسی وجہ سے یہ گاڑی پٹڑی سے اترجاتی ہے۔ دوسری دلیل یہ ہے کہ تاریخ کےاس طویل تجربےمیں مجرم بن جانے والی قوموں کا مسلسل تباہ ہونا اس حقیقت پر اندر ایک اٹل قانون مکافات کام کررہاہے۔ جس کی حکومت انسانی قوموں کےساتھ سراسراخلاقی بنیادوں پر معاملہ کررہی ہے۔ جس میں کسی قوم کے بدکرداریوں کی کھلی چھوٹ نہیںدی جاتی کہ ایک دفعہ عروج پاجانے کے بعد وہ ابدالآباد تک داد عیش دیتی رہےاورظلم وستم کےڈنکے بجائے چلی جائے۔ اس حقیقت کوجوسمجھ لے وہ کبھی اس امر میں شک نہیں کرسکتا کہ یہی قانون مکافات اس دنیوی ذندگی کے بعد ایک دوسرے عالم کا تقاضا کرتا ہے جہاں افراد کا اورقوموں کا اوربحثیت مجموعی پوری نوع انسانی کا انصاف چکایا جائے۔ کیونکہ محض ایک ظالم قوم کے تباہ ہوجانے سے توانصاف کے سارے تقاضے پورے نہیں ہوگئے اس سے ان مظلوموں کی تو کوئی دادرسی نہیں ہوئی جن کی لاشوں پرانہوں نے اپنی عظمت کاقصر بنایا تھا۔ اس سےان ظالموں کو تو کوئی سزا نہیںملی جوتباہی کے آنے سے پہلے اڑا کرجاچکے تھے۔ اس سے ان بدکاروں پر بھی کوئی مؤاخزہ نہیں ہو جوپشت درپشت اپنے بعد آنےوالی نسلوں کےلیےگمراہیوں اوربداخلاقیوں کی میراث چھوڑتے چلےگئے تھے۔ دنیا میں عزاب بھیج کر توصرف اُن کی آخری نسل کے مزید ظلم کاسلسلہ توڑدیا گیا۔ ابھی عدالت کا اصل کام توہوہی نہیں کہ ہرظالم کواس کےکیے کابدلہ دیاجائے اورہر مظلوم کے نقصان کی تلافی کی جائے، اوراُن سب لوگوں کو انعام دیاجائے جوبدی کے اس طوفان میں راستی پرقائم اوراصلاح کےلیے کوشاں رہے اورعمربھر اس راہ میں اذیتیں سہتےرہے۔ یہ سب لازماََ کسی وقت ہوناچاہیے، کیونکہ دنیا میںقانون مکانات کی مسلسل کارفرمائی کائنات کی فرمانرواحکومت کا یہ مزاج اورطریقہ کارصاف بتارہی ہے کہ وہ انسانی اعمال کوان کی اخلاقی قدر کےلحاظ سے تولتی اوران کی جزا وسزادیتی ہے۔ان دودلیلوں کےساتھ اس آیت میں نصیحت کاپہلویہ ہے کہ پچھلے مجرموں کاانجام دیکھ کراس سے سبق لوانکار آخرت کےاُسی احمقانہ عقیدے پراصرار نہ کیے چلے جاؤ جس نے اُنہیں مجرم بناکرچھوڑاتھا۔ |
Surah 29 : Ayat 20
قُلْ سِيرُواْ فِى ٱلْأَرْضِ فَٱنظُرُواْ كَيْفَ بَدَأَ ٱلْخَلْقَۚ ثُمَّ ٱللَّهُ يُنشِئُ ٱلنَّشْأَةَ ٱلْأَخِرَةَۚ إِنَّ ٱللَّهَ عَلَىٰ كُلِّ شَىْءٍ قَدِيرٌ
ان سے کہو کہ زمین میں چلو پھرو اور دیکھو کہ اُس نے کس طرح خلق کی ابتدا کی ہے، پھر اللہ بار دیگر بھی زندگی بخشے گا یقیناً اللہ ہر چیز پر قادر ہے1
1 | یعنی جب خدا کی کاریگری سے بار اول کی تخلیق کا تم خود مشاہدہ کر رہے ہو تو تمہیں سمجھنا چاہیے کہ اسی خدا کی کاریگری سے بارد دیگر بھی تخلیق ہوگی۔ ایسا کرنا اس کی قدرت سے باہر نہیں ہے اور نہ ہو سکتا ہے |
Surah 30 : Ayat 9
أَوَلَمْ يَسِيرُواْ فِى ٱلْأَرْضِ فَيَنظُرُواْ كَيْفَ كَانَ عَـٰقِبَةُ ٱلَّذِينَ مِن قَبْلِهِمْۚ كَانُوٓاْ أَشَدَّ مِنْهُمْ قُوَّةً وَأَثَارُواْ ٱلْأَرْضَ وَعَمَرُوهَآ أَكْثَرَ مِمَّا عَمَرُوهَا وَجَآءَتْهُمْ رُسُلُهُم بِٱلْبَيِّنَـٰتِۖ فَمَا كَانَ ٱللَّهُ لِيَظْلِمَهُمْ وَلَـٰكِن كَانُوٓاْ أَنفُسَهُمْ يَظْلِمُونَ
اور کیا یہ لوگ کبھی زمین میں چلے پھرے نہیں ہیں کہ اِنہیں اُن لوگوں کا انجام نظر آتا جو اِن سے پہلے گزر چکے ہیں؟1 وہ اِن سے زیادہ طاقت رکھتے تھے، اُنہوں نے زمین کو خوب ادھیڑا تھا2 اور اُسے اتنا آباد کیا تھا جتنا اِنہوں نے نہیں کیا ہے3 اُن کے پاس ان کے رسول روشن نشانیاں لے کر آئے4 پھر اللہ ان پر ظلم کرنے والا نہ تھا، مگر وہ خود ہی اپنے اوپر ظلم کر رہے تھے5
5 | یعنی اس کے بعد جو تباہی ان قوموں پرآئی وہ ان پرخدا کا ظلم نہ تھا بلکہ وہ ان کااپنا ظلم تھاجو انہوں نے اپنے اوپرکیا۔جو شخص یاگروہ نہ خود صحیح سوچے اور نہ کسی سمجھانے والے کے سمجھانے سے صحیح رویہ اختیار کرےاس پراگر تباہی آتی ہے تو وہ آپ ہی اپنے برے انجام کا ذمہ دار ہے۔خدا پراس کاالزام عائد نہیں کیاجا سکتا۔خدانے تو اپنی کتابوں اور اپنے انبیاءکے ذریعہ سے انسان کو حقیقت کا علم دینے کا انتظام بھی کیا ہے،اور وہ علمی و عقلی وسائل بھی عطا کیے ہیں جن سے کام لے کر وہ ہروقت انبیاءاورکتب آسمانی کے دیے ہوئے علم کی صحت جانچ سکتا ہے۔اِس رہنمائی اوران ذرائع سے اگرخدا نے انسان کو محروم رکھا ہوتا اوراس حالت میں انسان کو غلط روی کے نتائج سے دو چار ہونا پڑتا تب بلاشبہ خدا پرظلم کے الزام کی گنجائش نکل سکتی تھی۔ |
4 | یعنی ایسی نشانیاں لے کرآئے جوان کے نبی صادق ہونے کا یقین دلانے کے لیے کافی تھیں۔اس سیاق و سباق میں انبیاء کی آمد کے ذکر کا مطلب یہ ہے کہ ایک طرف انسان کے اپنے وجود میں،اوراس سے باہر ساری کائنات کے نظام میں،اورانسانی تاریخ کے مسلسل تجربے میں آخرت کی شہادتیں موجود تھیں،اور دوسری طرف پے در پے ایسے انبیاءبھی آئے جن کے ساتھ ان کی نبوت کے برحق ہونے کی کھلی کھلی علامتیں پائی جاتی تھیں،اورانہوں نے انسانوں کو خبردار کیاکہ فی الواقع آخرت آنے والی ہے۔ |
3 | اس میں اُن لوگوں کے استدلال کا جواب موجود ہے جو محض مادی ترقی کو کسی قوم کے صالح ہونے کی علامت سمجھتے ہیں۔وہ کہتے ہیں کہ جن لوگوں نے زمین کے ذرائع کو اتنے بڑے پیمانے پراستعمال(Exploit)کیا ہے،جنہوں نے دنیا میں عظیم الشان تعمیری کام کیے ہیں اور ایک شاندار تمدن کو جنم دیا ہے،بھلا یہ کیسے ممکن ہے کہ اللہ تعالٰی ان کو جہنم کا ایندھن بنادے۔قرآن اس کا جواب یہ دیتا ہے کہ’’تعمیری کام‘‘پہلے بھی بہت سی قوموں نے بڑے پیمانے پرکیے ہیں،پھرکیاتمہاری آنکھوں نے نہیں دیکھا کہ وہ قومیں اپنی تہذیب اور اپنے تمدن سمیت پیوند خاک ہو گئیں اوران کی ’’تعمیر‘‘کا قصرِفلک بوس زمین پرآرہا!جس خدا کے قانون نے یہاں عقیدہ حق اوراخلاقِ صالحہ کے بغیر محض مادی تعمیرکی یہ قدرکی ہے،آخرکیا وجہ ہے کہ اسی خدا کا قانون دوسرے جہان میں انہیں واصل جہنم نہ کرے؟ |
2 | اصل میں لفظ اَثَارُواالارضَ استعمال ہوا ہے۔اس کا اطلاق زراعت کے لیے ہل چلانے پربھی ہوسکتا ہےاور زمین کھود کر زیرزمین پانی،نہریں،کاریزیں اور معدنیات وغیرہ نکالنے پربھی۔ |
1 | یہ آخرت کے حق میں تاریخی استدلال ہے۔مطلب یہ ہے کہ آخرت کاانکاردنیا میں دوچار آدمیوں ہی نے تو نہیں کیا ہے۔انسانی تاریخ کے دوران میں کثیرالتعداد انسان اس مرض میں مبتلا ہوتے رہے ہیں۔بلکہ پوری پوری قومیں ایسی گزری ہیں جنہوں نے یا تو اس کاانکارکیا ہے،یااس سے غافل ہوکررہی ہیں،یا حیات بعد الموت کے متعلق ایسے غلط عقیدے ایجاد کرلیے ہیں جن سے آخرت کا عقیدہ بے معنی ہوکررہ جاتاہے۔پھر تاریخ کا مسلسل تجربہ یہ بتاتا ہے کہ انکار آخرت جس صورت میں بھی کیاگیا ہےاس کا لازمی نتیجہ یہ ہوا کہ لوگوں کے اخلاق بگڑے،وہ اپنے آپ کو غیرذمہ دار سمجھ کرشتربےمہاربن گئے،انہوں نے ظلم و فساد اورفسق و فجور کی حد کردی،اوراسی چیز کی بدولت قوموں پرقومیں تباہ ہوتی چلی گئیں۔کیا ہزاروں سال کی تاریخ کا یہ تجربہ،جو پے در پےانسانی نسلوں کو پیش آتا رہاہے،یہ ثابت نہیں کرتاکہ آخرت ایک حقیقت ہے جس کا انکارانسان کے لیے تباہ کن ہے؟ انسان کششِ ثقل کااسی لیے تو قائل ہوا ہےکہ تجربے اورمشاہدے سے اس نے مادی اشیاکوہیمشہ زمین کی طرف گرتے دیکھا ہے۔انسان نے زہرکو زہراسی لیے مانا ہے کہ جس نے بھی زہرکھایا وہ ہلاک ہوا۔اسی طرح جب آخرت کا انکار ہیمشہ انسان کے لیے اخلاقی بگاڑ کاموجب ثابت ہوا ہے تو کیا یہ تجربہ یہ سبق دینے کے لیے کافی نہیں ہے کہ آخرت ایک حقیقت ہے اوراس کو نظرانداز کرکے دنیامیں زندگی بسر کرنا غلط ہے؟ |
Surah 30 : Ayat 42
قُلْ سِيرُواْ فِى ٱلْأَرْضِ فَٱنظُرُواْ كَيْفَ كَانَ عَـٰقِبَةُ ٱلَّذِينَ مِن قَبْلُۚ كَانَ أَكْثَرُهُم مُّشْرِكِينَ
(اے نبیؐ) اِن سے کہو کہ زمین میں چل پھر کر دیکھو پہلے گزرے ہوئے لوگوں کا کیا انجام ہو چکا ہے، ان میں سے اکثر مشرک ہی تھے1
1 | یعنی روم وایران کی تباہ کن جنگ آج کوئی نیا حادثہ نہیں ہے۔پچھلی تاریخ بڑی بڑی قوموں کی تباہی وبربادی کےریکارڈ سےبھری ہوئی ہے۔اوران سب قوموں کوجن خرابیوں نے برباد کیااُن سب کی جڑیہی شرک تھاجس سےبازآنے کےلیےآج تم سےکہاجا رہا ہے۔ |
Surah 35 : Ayat 44
أَوَلَمْ يَسِيرُواْ فِى ٱلْأَرْضِ فَيَنظُرُواْ كَيْفَ كَانَ عَـٰقِبَةُ ٱلَّذِينَ مِن قَبْلِهِمْ وَكَانُوٓاْ أَشَدَّ مِنْهُمْ قُوَّۚةً وَمَا كَانَ ٱللَّهُ لِيُعْجِزَهُۥ مِن شَىْءٍ فِى ٱلسَّمَـٰوَٲتِ وَلَا فِى ٱلْأَرْضِۚ إِنَّهُۥ كَانَ عَلِيمًا قَدِيرًا
کیا یہ لوگ زمین میں کبھی چلے پھرے نہیں ہیں کہ انہیں اُن لوگوں کا انجام نظر آتا جو اِن سے پہلے گزر چکے ہیں اور ان سے بہت زیادہ طاقت ور تھے؟ اللہ کو کوئی چیز عاجز کرنے والی نہیں ہے، نہ آسمانوں میں اور نہ زمین میں وہ سب کچھ جانتا ہے اور ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے