Ayats Found (10)
Surah 7 : Ayat 179
وَلَقَدْ ذَرَأْنَا لِجَهَنَّمَ كَثِيرًا مِّنَ ٱلْجِنِّ وَٱلْإِنسِۖ لَهُمْ قُلُوبٌ لَّا يَفْقَهُونَ بِهَا وَلَهُمْ أَعْيُنٌ لَّا يُبْصِرُونَ بِهَا وَلَهُمْ ءَاذَانٌ لَّا يَسْمَعُونَ بِهَآۚ أُوْلَـٰٓئِكَ كَٱلْأَنْعَـٰمِ بَلْ هُمْ أَضَلُّۚ أُوْلَـٰٓئِكَ هُمُ ٱلْغَـٰفِلُونَ
اور یہ حقیقت ہے کہ بہت سے جن اور انسان ایسے ہیں جن کو ہم نے جہنم ہی کے لیے پیدا کیا ہے1 ان کے پاس دل ہیں مگر وہ ان سے سوچتے نہیں ان کے پاس آنکھیں ہیں مگر وہ ان سے دیکھتے نہیں ان کے پاس کان ہیں مگر وہ ان سے سنتے نہیں وہ جانوروں کی طرح ہیں بلکہ ان سے بھی زیادہ گئے گزرے، یہ وہ لوگ ہیں جو غفلت میں کھو ئے گئے ہیں2
2 | اب تقریر اپنے اختتام کو پہنچ رہی ہے اس لیے خاتمہ کلام پر نصیحت اور ملامت کے ملے جلے انداز میں لوگوں کو ان کی چند نمایاں ترین گمراہیوں پر متنبہ کیا جارہا ہے اور ساتھ ہی پیغمبر کی دعوت کے مقابلہ میں انکا ر و استہزا کا جو رویّہ انہوں نے اختیار کر رکھا تھا اُس کی غلطی سمجھاتے ہوئے اس کے بُرے انجام سے اُنہیں خبردار کیا جارہا ہے |
1 | اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ہم نے اُن کو پیدا ہی اس غرض کے لیے کیا تھا کہ وہ جہنم میں جائیں اور ان کو وجود میں لاتے وقت ہی یہ ارادہ کر لیا تھا کہ انہیں دوزخ کا ایندھن بنانا ہے، بلکہ اس کا صھیح مفہوم یہ ہے کہ ہم نے تو ان کو پیدا کیا تھا دل، دماغ، آنکھیں اور کان دے کر ، مگر ظالموں نے ان سے کوئی کام نہ لیا اور اپنی غلط کاریوں کی بدولت آخر کار جہنم کا ایندھن بن کر رہے۔ اس مضمون کو ادا کرنے کے لیے وہ اندازِ بیان اختیار کیا گیا ہے جو انسانی زبان میں انتہائی افسوس اور حسرت کے موقع پر استعمال کیا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر اگر کسی ماں کے متعدد جوان جوان بیٹے لڑائی میں جاکر لقمہ اجل ہوگئے ہوں تو وہ لوگوں سے کہتی ہے کہ میں نے انہیں اس لیے پال پوس کر بڑا کیا تھا کہ لوہے اور آگ کے کھیل میں ختم ہوجائیں۔ اس قول سے اس کا مدعا یہ نہیں ہوتا کہ واقعی اس کے پالنے پوسنے کی غرض یہی تھی، بلکہ اس حسرت بھرے انداز میں دراصل وہ کہنا یہ چاہتی ہے کہ میں تو اتنی محنتوں سے اپنا خونِ جگر پلاپلا کر ان بچوں کو پالا تھا، مگر خدا ان لڑنے والے فسادیوں سے سمجھے کہ میری محنت اور قربانی کے ثمرات یوں خاک میں مل کر رہے |
Surah 7 : Ayat 205
وَٱذْكُر رَّبَّكَ فِى نَفْسِكَ تَضَرُّعًا وَخِيفَةً وَدُونَ ٱلْجَهْرِ مِنَ ٱلْقَوْلِ بِٱلْغُدُوِّ وَٱلْأَصَالِ وَلَا تَكُن مِّنَ ٱلْغَـٰفِلِينَ
اے نبیؐ، اپنے رب کو صبح و شام یاد کیا کرو دل ہی دل میں زاری اور خوف کے ساتھ اور زبان سے بھی ہلکی آواز کے ساتھ تم ان لوگوں میں سے نہ ہو جاؤ جو غفلت میں پڑے ہوئے ہیں1
1 | یاد کرنے سے مراد نماز بھی ہے اور دوسری قسم کی یاد بھی،خواہ وہ زبان سے ہو یا خیا ل سے۔ صبح و شام سے مراد یہی دونوں وقت بھی ہیں اور ان اوقات میں اللہ کی یاد سے مقصود نماز ہے،اور صبح و شام کا لفظ”دائماً“ کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے اور اس سے مقصود ہمیشہ خدا کی یاد میں مشغول رہنا ہے۔ یہ آخری نصیحت ہے جو خطبہ کو ختم کرتے ہوئے ارشاد فرمائی گئی ہے اور اس کی غرض یہ بیان کی گئی ہے کہ تمہارا حال کہیں غافلوں کا سا نہ ہو جائے۔ دنیا میں جو کچھ گمراہی پھیلی ہے اور انسان کے اخلاق و اعمال میں جو فساد بھی رونما ہوا ہے اس کا سبب صرف یہ ہے کہ انسان اس بات کو بھول جاتا ہے کہ خدا اُس کا رب ہے اور وہ خدا کا بندہ ہے اور دنیا میں اُس کو آزمائش کے لیے بھیجا گیا ہے اور دنیا کی زندگی ختم ہونے کے بعد اسے اپنے رب کو حساب دینا ہوگا۔ پس جو شخص راہ راست پر چلنا اور دنیا کو اُس پر چلانا چاہتا ہو اُس کو سخت اہتمام کرنا چاہیے کہ یہ بھول کہیں خود اُس کو لاحق نہ ہو جائے۔ اسی لیے نماز اور ذکر الہٰی اور دائمی توجہ الی اللہ کی بار بار تاکید کی گئی ہے |
Surah 10 : Ayat 7
إِنَّ ٱلَّذِينَ لَا يَرْجُونَ لِقَآءَنَا وَرَضُواْ بِٱلْحَيَوٲةِ ٱلدُّنْيَا وَٱطْمَأَنُّواْ بِهَا وَٱلَّذِينَ هُمْ عَنْ ءَايَـٰتِنَا غَـٰفِلُونَ
حقیقت یہ ہے کہ جو لوگ ہم سے ملنے کی توقع نہیں رکھتے اور دنیا کی زندگی ہی پر راضی اور مطمئن ہو گئے ہیں، اور جو لوگ ہماری نشانیوں سے غافل ہیں
Surah 10 : Ayat 8
أُوْلَـٰٓئِكَ مَأْوَٮٰهُمُ ٱلنَّارُ بِمَا كَانُواْ يَكْسِبُونَ
اُن کا آخری ٹھکانہ جہنم ہو گا اُن برائیوں کی پاداش میں جن کا اکتساب وہ (اپنے اس غلط عقیدے اور غلط طرز عمل کی وجہ سے) کرتے رہے1
1 | یہاں سے پھر دعوے کے ساتھ ساتھ اس کی دلیل بھی اشارۃً بیان کر دی گئی ہے۔ دعویٰ یہ ہے کہ عقیدۂ آخرت کے انکار کا لازمی اورقطعی نتیجہ جہنم ہے، اور دلیل ہے کہ اس عقیدے سے منکر یا خالی الذہن ہو کر انسان اُن برائیوں کا اکتساب کرتا ہے جن کی سزا جہنم کے سوا اور کچھ نہیں ہو سکتی۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ اور ہزارہا سال کے انسانی رویّے کا تجربہ اس پر شاہد ہے۔ جو لوگ خدا کے سامنے اپنےآپ کو ذمہ دار اور جواب دہ نہیں سمجھتے، جو اس بات کا کوئی اندیشہ نہیں رکھتے کہ انہیں آخرکار خدا کو اپنے پورے کارنامۂ حیات کا حساب دینا ہے، جو اس مفروضے پر کام کرتے ہیں کہ زندگی بس یہی دنیا کی زندگی ہے، جن کے نزدیک کامیابی و ناکامی کا معیار صرف یہ ہے کہ اس دنیا میںّ آدمی نے کس قدر خوشحالی، آسائش، شہرت اور طاقت حاصل کی، اور جو اپنے انہی مادّہ پرستانہ تخیلات کی بنا پر آیات الہٰی کو ناقابل توجہ سمجھتے ہیں، ان کی پوری زندگی غلط ہو کر رہ جاتی ہے۔ وہ دنیا میں شتر بے مہار بن کر رہتے ہیں، نہات برے اخلاق و اوصاف کا اکتساب کرنے میں، خدا کی زمین کو ظلم و فساد اور فسق و فجور سے بھر دیتے ہیں، اور اس بنا پر جہنم کے مستحق بن جاتے ہیں۔ یہ عقیدہ ٔآخرت پر ایک اور نوعیت کی دلیل ہے۔ پہلی تین دلیلیں عقلی استدلال کے قبیل سے تھیں، اور یہ تجربی استدلال کے قبیل سے ہے۔ یہاں اسے صرف اشارۃ بیان کیا گیا ہے، مگر قرآن میں مختلف مواقع پر ہمیں اس کی تفصیل ملتی ہے۔ اس استدلال کا خلاصہ یہ ہے کہ انسان کا انفرادی رویّہ اور انسانی گروہوں کا اجتماعی رویّہ کبھی اس وقت تک درست نہیں ہوتا جب تک یہ شعور اور یہ یقین انسانی سیرت کی بنیاد میں پیوست نہ ہو کہ ہم کو خدا کے سامنے اپنے اعمال کا جواب دینا ہے۔ اب غور طلب یہ ہے کہ آخر ایسا کیوں ہے؟ کیا وجہ ہے کہ اس شعور و یقین کے غائب یا کمزور ہوتے ہی انسانی سیرت و کردار کی گاڑی برائی کی راہ پر چل پڑتی ہے۔ اگر عقیدۂ آخرت حقیقتِ نفس الامری کے مطابق نہ ہوا اور اُس کا انکار حقیقت کے خلاف نہ ہوتا تو ممکن نہ تھا کہ اس اقرار و انکار کے نتائج ایک لزومی شان کے ساتھ مسلسل ہمارے تجربے میں آتے۔ ایک ہی چیز سے پیہم صحیح نتائج کا برآمد ہونا اور اس کے عدم سے نتائج کا ہمیشہ غلط ہو جانا اس بات کا قطعی ثبوت ہے کہ وہ چیز بجائے خود صحیح ہے۔ اس کے جواب میں بسا اوقات یہ دلیل پیش کی جاتی ہے کہ بہت سے منکرین ِآخرت ایسے ہیں جن کا فلسفہ ٔاخلاق اور دستورِعمل سراسر دہریت و مادّہ پرستی پر مبنی ہے پھر بھی وہ اچھی خاصی پاک سیرت رکھتے ہیں اور ان سے ظلم و فساد اور فسق و فجور کا ظہور نہیں ہوتا۔ بلکہ وہ اپنے معاملات میں نیک اور خلق خدا کے خدمت گزار ہوتے ہیں۔ لیکن اس استدلال کی کمزوری بادنیٰ تامل واضح ہو جاتی ہے۔ تمام مادّہ پرستانہ لادینی فلسفوں اور نظامات فکر کی جانچ پڑتال کر کے دیکھ لیا جائے۔ کہیں اُن اخلاقی خوبیوں اورعملی نیکیوں کے لیے کوئی بنیاد نہ ملے گی جن کا خراج تحسین اِن”نیکوکار“ دہریوں کو دیا جاتا ہے۔ کسی منطق سے یہ ثابت نہیں کیا جا سکتا کہ ان لادینی فلسفوں میں راست بازی، امانت، دیانت، وفائے عہد، عدل، رہم، فیاضی، ایثار، ہمدردی، ضبط نفس، عفت، حق شناسی، اور ادائے حقوق کے لیے محرکات موجود ہیں۔ خدا اور آخرت کو نظرانداز کر دینے کے بعد اخلاق کے لیے اگر کوئی قابل عمل نظام بن سکتا ہے تو وہ صرف افادیت(Utilitarianism) کی بنیادوں پر بن سکتا ہے۔ باقی تمام اخلاقی فلسفے محض فرضی اور کتابی ہیں نہ کہ عملی۔ اور افادیت جو اخلاق پیدا کرتی ہے اسے خواہ کتنی ہی وسعت دی جائے، بہرحال وہ اس سے آگے نہیں جاتا کہ آدمی وہ کام کرے جس کا کوئی فائدہ اِس دنیا میں اُس کی ذات کی طرف، یا اُس معاشرے کی طرف جس سے وہ تعلق رکھتا ہے، پلٹ کر آنے کی توقع ہو۔ یہ وہ چیز ہے جو فائدے کی امید اور نقصان کے اندیشے کی بنا پر انسان سے سچ اور جھوٹ، امانت اور خیانت، ایمانداری اور بے ایمانی، وفا اورغدر، انصاف اور ظلم، غرض ہر نیکی اور اس کی ضد کا حسبِ موقع ارتکاب کرا سکتی ہے۔ اِن اخلاقیات کا بہترین نمونہ موجودہ زمانہ کی انگریز قوم ہے جس کواکثر اس امر کی مثال میں پیش کیا جاتا ہے کہ مادّہ پرستانہ نظریۂ حیات رکھنے اور آخرت کے بہترین تصور سے خالی ہونے کے باوجود اس قوم کے افراد بالعموم دوسروں سےزیادہ سچے، کھرے، دیانت دار، عہد کے پابند، انصاف پسنداور معاملات میں قابل اعتماد ہیں۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ افادی اخلاقیات کی ناپائیداری کا سب سے زیادہ نمایاں عملی ثبوت ہم کو اسی قوم کے کردار میں ملتا ہے۔ اگر فی الواقع انگریزوں کی سچائی، انصاف پسندی، راستبازی اور عہد کی پابندی اس یقین و اذعان پر مبنی ہوتی کہ یہ صفات بجائے خود مستقل اخلاقی خوبیاں ہیں تو آخر یہ کس طرح ممکن تھا کہ ایک ایک انگریز تو اپنے شخصی کردار میں ان کا حامل ہوتا مگر ساری قوم مل کر جن لوگوں کو اپنا نمائندہ اور اپنے اجتماعی امور کا سربراہ کار بناتی ہے وہ بڑے پیمانے پر اس کی سلطنت اور اس کے بین الاقوامی معاملات کے چلانے میں علانیہ جھوٹ، بدعہدی، ظلم، بے انصافی اور بددیانتی سے کام لیتے اور پوری قوم کا اعتماد ان کو حاصل رہتا؟ کیا یہ اس بات کا صریح ثبوت نہیں ہے کہ یہ لوگ مستقل اخلاقی قدروں کے قائل نہیں ہیں بلکہ دنیوی فائدے اور نقصان کے لحاظ سے بیک وقت دو متجاد اخلاقی رویّے اختیار کرتے ہیں اور کر سکتے ہیں؟ تاہم اگر کوئی منکر خدا و آخرت فی الواقع دنیا میں ایسا موجود ہے جو مستقل طور پر بعض نیکیوں کا پابند اور بعض بدیوں سے مجتنب ہے تو درحقیقت اس کی یہ نیکی اور پرہیزگاری اس کے مادّہ پرستانہ نظریۂ حیات کا نتیجہ نہیں ہے بلکہ اُن مذہبی اثرات کا نتیجہ ہے جو غیر شعوری طور پر اس کے نفس میں متمکن ہیں۔ اس کا اخلاقی سرمایۂ مذہب سے چُرایا ہوا ہے اور اس کو وہ ناروا طریقے سے لامذہبی میں استعمال کر رہا ہے۔ کیونکہ وہ اپنی لامذہبی و مادّہ پرستی کے خزانے میں اِس سرمائے کے ماخذ کی نشان دہی ہرگز نہیں کر سکتا۔ |
Surah 19 : Ayat 39
وَأَنذِرْهُمْ يَوْمَ ٱلْحَسْرَةِ إِذْ قُضِىَ ٱلْأَمْرُ وَهُمْ فِى غَفْلَةٍ وَهُمْ لَا يُؤْمِنُونَ
اے نبیؐ، اِس حالت میں جبکہ یہ لوگ غافل ہیں اور ایمان نہیں لا رہے ہیں، اِنہیں اس دن سے ڈرا دو جبکہ فیصلہ کر دیا جائے گا اور پچھتاوے کے سوا کوئی چارہ کار نہ ہوگا
Surah 21 : Ayat 1
ٱقْتَرَبَ لِلنَّاسِ حِسَابُهُمْ وَهُمْ فِى غَفْلَةٍ مُّعْرِضُونَ
قریب آ گیا ہے لوگوں کے حساب کا وقت1، اور وہ ہیں کہ غفلت میں منہ موڑے ہوئے ہیں2
2 | یعنی کسی تنبیہ کی طرف توجہ نہیں کرتے ۔ نہ خود سوچتے ہیں کہ ہمارا انجام کیا ہوا ہے اور نہ اس پیغمبر کی بات سنتے ہیں جو انہیں خبردار کرنے کی کوشش کر رہا ہے |
1 | مراد ہے قرب قیامت ۔ یعنی اب وہ وقت دور نہیں ہے جب لوگوں کو اپنا حساب دینے کے لیے اپنے رب کے آگے حاضر ہونا پڑے گا۔ محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی بعثت اس بات کی علامت ہے کہ نوع انسانی کی تاریخ اب اپنے آخری دور میں داخل ہو رہی ہے ۔ اب وہ اپنے آغاز کی بہ نسبت اپنے انجام سے قریب تر ہے ۔ آغاز اور وسط کے مرحلے گزر چکے ہیں اور آخری مرحلہ شروع ہو چکا ہے ۔ یہی مضمون ہے جس کو نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے ایک حدیث میں بیان فرمایا ہے ۔ آپ نے اپنی دو انگلیاں کھڑی کر کے فرمایا : بُعِثتُ انا وَالسَّاعَۃُ کَھَ تینِ ، ’’ میں ایسے وقت پر مبعوث کیا گیا ہوں کہ میں اورقیامت ان دوانگلیوں کی طرح ہیں ۔ ‘‘ یعنی میرے بعد بس قیامت ہی ہے ۔ کسی اور نبی کی دعوت بیچ میں حائل نہیں ہے ۔ سنبھلنا ہے تو میری دعوت پر سنبھل جاؤ۔ کوئی اور ہادی اور بشیر نذیر آنے والا نہیں ہے |
Surah 21 : Ayat 97
وَٱقْتَرَبَ ٱلْوَعْدُ ٱلْحَقُّ فَإِذَا هِىَ شَـٰخِصَةٌ أَبْصَـٰرُ ٱلَّذِينَ كَفَرُواْ يَـٰوَيْلَنَا قَدْ كُنَّا فِى غَفْلَةٍ مِّنْ هَـٰذَا بَلْ كُنَّا ظَـٰلِمِينَ
اور وعدہ برحق کے پورا ہونے کا وقت قریب آ لگے گا1 تو یکا یک اُن لوگوں کے دیدے پھٹے کے پھٹے رہ جائیں گے جنہوں نے کفر کیا تھا کہیں گے 2"ہائے ہماری کم بختی، ہم اِس چیز کی طرف سے غفلت میں پڑے ہوئے تھے، بلکہ ہم خطا کار تھے"
2 | غفلت‘‘ میں پھر ایک طرح کی معذرت پائی جاتی ہے ، اس لیے وہ اپنی غفلت کا ذکر کرنے کے بعد پھر خود ہی صاف صاف اعتراف کریں گے کہ ہم کو انبیاء نے آ کر اس دن سے خبر دار کیا تھا، لہٰذا در حقیقت ہم غافل و بے خبر نہ تھے بلکہ خطا کار تھے |
1 | یاجوج و ماجوج کی تشریح سورہ کہف حاشیہ 62 ، 69 میں کی جاچکی ہے ۔ ان کے کھول دیے جانے کا مطلب یہ ہے کہ وہ دنیا پر اس طرح ٹوٹ پڑیں گے کہ جیسے کوئی شکاری درندہ یکایک پنجرے یا بندھن سے چھوڑ دیا گیا ہو۔ ’’ وعدہ حق پورا ہونے کا وقت قریب آ لگے گا‘‘ کا اشارہ صاف طور پر اس طرف ہے کہ یاجوج و ماجوج کی یہ عالمگیر یورش آخری زمانہ میں ہو گی اور اس کے بعد جلدی ہی قیامت آ جائے گی۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کا وہ ارشاد اس معنی کو اور زیادہ کھول دیتا ہے جو مسلم نے حذیفہ بن اَسید الغِفاری کی روایت سے نقل کیا ہے کہ ’’ قیامت قائم نہ ہو گی جب تک تم اس سے پہلے دس علامتیں نہ دیکھ لو : دھواں ، دجال ، دابۃ الارض ، مغرب سے سورج کا طلوع ، عیسیٰ ابن مریم کا نزول ، یاجوج و ماجوج کی یورش ، اور تین بڑے خسوف (زمین کا دھنسنا یاLandslide ) ایک مشرق میں ، دوسرا مغرب میں ، اور تیسرا جزیرۃ العرب میں ، پھر سب سے آخر میں یمن سے ایک سخت آگ اٹھے گی جو لوگوں کو محشر کی طرف ہانکے گی (یعنی بس اس کے بعد قیامت آ جاۓ گی) ۔ ایک اور حدیث میں یاجوج و ماجوج کی یورش کا ذکر کر کے حضور نے فرمایا اس وقت قیامت اس قدر قریب ہو گی جیسے پورے پیشوں کی حاملہ کہ نہیں کہہ سکتے کب وہ بچہ جن دے ، رات کو یا دن کو(کالحامل المتم لا یدری اھلھا متی تفجؤ ھم بولدھا لیلا او نھاراً ) لیکن قرآن مجید اور حدیث میں یا جوج ماجوج کے متعلق جو کچھ بیان کیا گیا ہے اس سے یہ مترشح نہیں ہوتا کہیہ دونوں متحد ہوں گے اور مل کر دنیا پر ٹوٹ پڑیں گے ۔ ہو سکتا ہے کہ قیامت کے قریب زمانے میں یہ دونوں آپس ہی میں لڑ جائیں اور پھر ان کی لڑائی ایک عالمگیر فساد کی موجب بن جائے |
Surah 50 : Ayat 22
لَّقَدْ كُنتَ فِى غَفْلَةٍ مِّنْ هَـٰذَا فَكَشَفْنَا عَنكَ غِطَآءَكَ فَبَصَرُكَ ٱلْيَوْمَ حَدِيدٌ
اِس چیز کی طرف سے تو غفلت میں تھا، ہم نے وہ پردہ ہٹا دیا جو تیرے آگے پڑا ہوا تھا اور آج تیری نگاہ خوب تیز ہے1
1 | یعنی اب تو تجھے خوب نظر آ رہا ہے کہ وہ سب کچھ یہاں موجود ہے جس کی خبر خدا کے نبی تجھے دیتے تھے |
Surah 16 : Ayat 108
أُوْلَـٰٓئِكَ ٱلَّذِينَ طَبَعَ ٱللَّهُ عَلَىٰ قُلُوبِهِمْ وَسَمْعِهِمْ وَأَبْصَـٰرِهِمْۖ وَأُوْلَـٰٓئِكَ هُمُ ٱلْغَـٰفِلُونَ
یہ وہ لوگ ہیں جن کے دلوں اور کانوں اور آنکھوں پر اللہ نے مہر لگا دی ہے یہ غفلت میں ڈوب چکے ہیں
Surah 30 : Ayat 7
يَعْلَمُونَ ظَـٰهِرًا مِّنَ ٱلْحَيَوٲةِ ٱلدُّنْيَا وَهُمْ عَنِ ٱلْأَخِرَةِ هُمْ غَـٰفِلُونَ
لوگ دُنیا کی زندگی کا بس ظاہری پہلو جانتے ہیں اور آخرت سے وہ خود ہی غافل ہیں1
1 | یعنی اگرچہ آخرت پردلالت کرنے والے آثاروشواہد کثرت سے موجود ہیں اور اس سے غفلت کی کوئی معقول وجہ نہیں ہے،لیکن یہ لوگ اس سے خود ہی غفلت برت رہے ہیں۔دوسرے الفاظ میں،یہ ان کی اپنی کوتاہی ہے کہ دنیوی زندگی کے اس ظاہری پردے پرنگاہ جما کر بیٹھ گئے ہیں اور اس کے پیچھے جو کچھ آنے والا ہے اس سے بالکل بے خبر ہیں،اورنہ خدا کی طرف سے ان کو خبردار کرنے میں کوئی کوتاہی نہیں ہوئی ہے۔ |