Ayats Found (8)
Surah 6 : Ayat 22
وَيَوْمَ نَحْشُرُهُمْ جَمِيعًا ثُمَّ نَقُولُ لِلَّذِينَ أَشْرَكُوٓاْ أَيْنَ شُرَكَآؤُكُمُ ٱلَّذِينَ كُنتُمْ تَزْعُمُونَ
جس روز ہم ان سب کو اکٹھا کریں گے اور مشرکوں سے پوچھیں گے کہ اب وہ تمہارے ٹھیرائے ہوئے شریک کہاں ہیں جن کو تم اپنا خدا سمجھتے تھے
Surah 6 : Ayat 23
ثُمَّ لَمْ تَكُن فِتْنَتُهُمْ إِلَّآ أَن قَالُواْ وَٱللَّهِ رَبِّنَا مَا كُنَّا مُشْرِكِينَ
تو وہ اِس کے سوا کوئی فتنہ نہ اٹھا سکیں گے کہ (یہ جھوٹا بیان دیں کہ) اے ہمارے آقا! تیری قسم ہم ہرگز مشر ک نہ تھے
Surah 16 : Ayat 87
وَأَلْقَوْاْ إِلَى ٱللَّهِ يَوْمَئِذٍ ٱلسَّلَمَۖ وَضَلَّ عَنْهُم مَّا كَانُواْ يَفْتَرُونَ
اُس وقت یہ سب اللہ کے آگے جھک جائیں گے اور ان کی وہ ساری افترا پردازیاں رفو چکر ہو جائیں گی جو یہ دنیا میں کرتے رہے تھے1
1 | یعنی وہ سب غلط ثابت ہوں گی۔ جن جن سہاروں پر وہ دنیا میں بھروسا کیے ہوئے تھے وہ سارے کے سارے گم ہو جائیں گے۔ کسی فریاد رس کو وہاں فریاد رسی کے لیے موجود نہ پائیں گے۔ کوئی مشکل کشا ان کی مشکل حل کرنے کے لیے نہیں ملے گا۔ کوئی آگے بڑھ کر یہ کہنے والا نہ ہو گا کہ یہ میرے متوسل تھے، انہیں کچھ نہ کہا جائے۔ |
Surah 30 : Ayat 13
وَلَمْ يَكُن لَّهُم مِّن شُرَكَآئِهِمْ شُفَعَـٰٓؤُاْ وَكَانُواْ بِشُرَكَآئِهِمْ كَـٰفِرِينَ
ان کے ٹھیرائے ہوئے شریکوں میں کوئی ان کا سفارشی نہ ہو گا1 اور وہ اپنے شریکوں کے منکر ہو جائیں گے2
2 | یعنی اُس وقت یہ مشرکین خود اس بات کااقرار کریں گے کہ ہم ان کو خدا کاشریک ٹھیرانے میں غلطی پر تھے۔ان پریہ حقیقت کھل جائے گی کہ فی الواقع ان میں سے کسی کا بھی خدائی میں کوئی حصّہ نہیں ہے،اس لیے جس شرک پرآج وہ دنیا میں اصرار کررہے ہیں،اسی کا وہ آخرت میں انکارکریں گے۔ |
1 | شُرکاء کا اطلاق تین قسم کی ہستیوں پرہوتاہے۔ایک ملائکہ،انبیاء،اولیاء اور شہداء وصالحین جن کو مختلف زمانوں میں مشرکین نے خدائی صفات واختیارات کاحامل قرار دے کران کے آگے مراسِم عبودیت انجام دیےہیں۔وہ قیامت کے روز صاف کہہ دیں گے کہ تم یہ سب کچھ ہماری مرضی کے بغیر،بلکہ ہماری تعلیم و ہدایت کے سراسر خلاف کرتے رہے ہو،اس لیے ہماراتم سے کوئی واسطہ نہیں،ہم سے کوئی اُمید نہ رکھو کہ ہم تمہاری شفاعت کے لیے خدائے بزرگ کے سامنے کچھ عرض معروض کریں گے۔دوسری قسم اُن اشیاء کی ہے جوبے شعور یا بےجان ہیں،جیسے چاند،سورج،سیارے،درخت،پتھراور حیوانات وغیرہ۔مشرکین نےان کو خدابنایا اوران کی پرستش کی اوران سے دعائیں مانگیں،مگروہ بے چارے بے خبرہیں کہ اللہ میاں کے خلیفہ صاحب یہ ساری نیازمندیاں ان کےلیے وقف فرمارہےہیں۔ظاہر ہے کہ ان میں سے بھی کوئی وہاں ان کی شفاعت کے لیے آگے بڑھنے والا نہ ہوگا۔تیسری قسم اُن اکابرمجرمین کی ہے جنہوں نے خودکوشش کرکے،مکرو فریب سے کام لے کر،جھوٹ کے جال پھیلا کر،یا طاقت استعمال کرکے دنیا میں خداکے بندوں سے اپنی بندگی کرائی،مثلاً شیطان،جھوٹے مذہبی پیشوا،اورظالم وجابر حکمراں وغیرہ۔یہ وہاں خود گرفتارِبلاہوں گے،اپنے ان بندوں کی سفارش کے لیے آگے بڑھناتو درکنار،اُن کی تو اُلٹی کوشش یہ ہوگی کہ اپنے نامہ اعمال کا بوجھ ہلکا کریں اور دادرِمحشر کے حضور یہ ثابت کردیں کہ یہ لوگ اپنے جرائم کے خود ذمہ دار ہیں،ان کی گمراہی کا وبال ہم پرنہیں پڑنا چاہیے۔اس طرح مشرکین کو وہاں کسی طرف سے بھی کوئی شفاعت بہم نہ پہنچے گی۔ |
Surah 40 : Ayat 73
ثُمَّ قِيلَ لَهُمْ أَيْنَ مَا كُنتُمْ تُشْرِكُونَ
پھر اُن سے پوچھا جائے گا کہ اب کہاں ہیں اللہ کے سوا وہ دوسرے خدا جن کو تم شریک کرتے تھے؟1
1 | یعنی اگر وہ واقعی خدایا خدائی میں شریک تھے، اور تم اس امید پر ان کی عبادت کرتے تھے کہ وہ برے وقت پر تمہارے کام آئیں گے تو اب کیوں وہ آ کر تمہیں نہیں چھڑاتے؟ |
Surah 40 : Ayat 74
مِن دُونِ ٱللَّهِۖ قَالُواْ ضَلُّواْ عَنَّا بَل لَّمْ نَكُن نَّدْعُواْ مِن قَبْلُ شَيْــًٔاۚ كَذَٲلِكَ يُضِلُّ ٱللَّهُ ٱلْكَـٰفِرِينَ
وہ جواب دیں گے 1"کھوئے گئے وہ ہم سے، بلکہ ہم اس سے پہلے کسی چیز کو نہ پکارتے تھے" اِس طرح اللہ کافروں کا گمراہ ہونا متحقق کر دے گا
1 | یہ مطلب نہیں ہے کہ ہم دنیا میں شرک نہیں کرتے تھے، بلکہ مطلب یہ ہے کہ اب ہم پر یہ بات کھل گئی ہے کہ ہم جنھیں دنیا میں پکارتے تھے وہ کچھ بھی نہ تھے، ہیچ تھے، لاشے تھے |
Surah 41 : Ayat 47
۞ إِلَيْهِ يُرَدُّ عِلْمُ ٱلسَّاعَةِۚ وَمَا تَخْرُجُ مِن ثَمَرَٲتٍ مِّنْ أَكْمَامِهَا وَمَا تَحْمِلُ مِنْ أُنثَىٰ وَلَا تَضَعُ إِلَّا بِعِلْمِهِۦۚ وَيَوْمَ يُنَادِيهِمْ أَيْنَ شُرَكَآءِى قَالُوٓاْ ءَاذَنَّـٰكَ مَا مِنَّا مِن شَهِيدٍ
اُس ساعت کا1 علم اللہ ہی کی طرف راجع ہوتا ہے2، وہی اُن سارے پھلوں کو جانتا ہے جو اپنے شگوفوں میں سے نکلتے ہیں، اسی کو معلوم ہے کہ کونسی مادہ حاملہ ہوئی ہے اور کس نے بچہ جنا ہے3 پھر جس روز وہ اِن لوگوں کو پکارے گا کہ کہاں ہیں میرے وہ شریک؟ یہ کہیں گے، 4"ہم عرض کر چکے ہیں، آج ہم میں سے کوئی اِس کی گواہی دینے والا نہیں ہے"
4 | یعنی اب ہم پر حقیقت کھل چکی ہے اور ہمیں معلوم ہو چکا ہے کہ جو کچھ ہم سمجھے بیٹھے تھے وہ سراسر غلط تھا۔ اب ہمارے درمیان کوئی ایک شخص بھی اس بات کا قائل نہیں ہے کہ خدائی میں کوئی دوسرا بھی آپ کا شریک ہے۔’’ ہم عرض کر چکے ہیں ‘‘ کے الفاظ اس پر دلالت کرتے ہیں کہ قیامت کے روز بار بار ہر مرحلے میں کفار سے کہا جاۓ گا کہ دنیا میں تم خدا کے رسولوں کا کہا ماننے سے انکار کرتے رہے، اب بولو حق پر وہ تھے یا تم؟ اور ہر موقع پر کفار اس بات کا اعتراف کرتے چلے جائیں گے کہ واقعی حق وہی تھا جو انہوں نے بتایا تھا اور غلطی ہماری تھی کہ اس علم کو چھوڑ کر اپنی جہالتوں پر اصرار کرتے رہے |
3 | اس ارشاد سے سامعین کو دو باتوں کا احساس دلایا گیا ہے، ایک یہ کہ صرف ایک قیامت ہی نہیں بلکہ تمام مور غیب کا علم اللہ ہی کے لیے مخصوص ہے، کوئی دوسرا عالم الغیب نہیں ہے۔ دوسرے یہ کہ جو خدا جزئیات کا اتنا تفصیلی علم رکھتا ہے اس کی نگاہ سے کسی شخص کے اعمال و افعال کا چوک جانا ممکن نہیں ہے، لہٰذا کسی کو بھی اس کی خدائی میں بے خوف ہو کر من مانی نہیں کرنی چاہیے۔ اسی دوسرے معنی کے لحاظ سے اس فقرے کا تعلق بعد کے فقروں سے جڑتا ہے۔ اس رشاد کے معاً بعد جو کچھ فرمایا گیا ہے اس پر غور کیجیے تو ترتیب کلام سے خود بخود یہ مضمون مترشح ہوتا نظر آۓ گا کہ قیامت کے آنے کی تاریخ معلوم کرنے کی فکر میں کہا ں پڑے ہو، فکر اس بات کی کرو کہ جب وہ آۓ گی تو اپنی ان گمراہیوں کا تمہیں کیا خمیازہ بھگتنا پڑے گا۔ یہی بات ہے جو ایک موقع پر نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے قیامت کی تاریخ پوچھنے والے ایک شخص سے فرمائی بھی۔ صحاح اور سنن اور مسانید میں حد تواتر کو پہنچی ہوئی روایت ہے کہ ایک مرتبہ حضورؐ سفر میں کہیں تشریف لے جا رہے تھے۔ راستہ میں ایک شخص نے دور سے پکارا یا محمدؐ۔ آپؐ نے فرمایا بولو کیا کہنا ہے۔ اس نے کہا قیامت کب آۓ گی؟ آپ ﷺ نے جواب دیا : ویحک انھا کائنۃ لا محالۃ فھا اعد دت لھا؟ ’’بندۂ خدا، وہ تو بہر حال آنی ہی ہے۔ تو نے اس کے لیے کیا تیاری کی |
2 | یعنی اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا کہ وہ گھڑی کب آۓ گی۔ یہ جواب ہے کفار کے اس سوال کا کہ ہم پر بدی کا وبال پڑنے کی جو دھمکی دی جا رہی ہے وہ آخر کب پوری ہو گی۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے سوال کو نقل کیے بغیر اس کا جواب دیا ہے |
1 | اس ساعت سے مراد قیامت ہے،یعنی وہ گھڑی جب ندی کرنے والوں کو ان کی بدی کا بدلہ دیا جائیگا اور ان نیک انسانوں کی داد رسی کی جاۓ گی جن کے ساتھ بدی کی گئی ہے |
Surah 41 : Ayat 48
وَضَلَّ عَنْهُم مَّا كَانُواْ يَدْعُونَ مِن قَبْلُۖ وَظَنُّواْ مَا لَهُم مِّن مَّحِيصٍ
اُس وقت وہ سارے معبود اِن سے گم ہو جائیں گے جنہیں یہ اس سے پہلے پکارتے تھے1، اور یہ لوگ سمجھ لیں گے کہ اِن کے لیے اب کوئی جائے پناہ نہیں ہے
1 | یعنی مایوسی کے عالم میں یہ لوگ ہر طرف نظر دوڑائیں گے کہ عمر بھر جن کی سیوا کرتے رہے، شاید ان میں سے کوئی مدد کو آۓ اور ہمیں خدا کے عذاب سے چھڑا لے، یا کم از کم ہماری سزا ہی کم کرا دے، مگر کسی طرف سے کوئی مددگار بھی ان کو نظر نہ آۓ گا |