Ayats Found (36)
Surah 2 : Ayat 164
إِنَّ فِى خَلْقِ ٱلسَّمَـٰوَٲتِ وَٱلْأَرْضِ وَٱخْتِلَـٰفِ ٱلَّيْلِ وَٱلنَّهَارِ وَٱلْفُلْكِ ٱلَّتِى تَجْرِى فِى ٱلْبَحْرِ بِمَا يَنفَعُ ٱلنَّاسَ وَمَآ أَنزَلَ ٱللَّهُ مِنَ ٱلسَّمَآءِ مِن مَّآءٍ فَأَحْيَا بِهِ ٱلْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِهَا وَبَثَّ فِيهَا مِن كُلِّ دَآبَّةٍ وَتَصْرِيفِ ٱلرِّيَـٰحِ وَٱلسَّحَابِ ٱلْمُسَخَّرِ بَيْنَ ٱلسَّمَآءِ وَٱلْأَرْضِ لَأَيَـٰتٍ لِّقَوْمٍ يَعْقِلُونَ
(اِس حقیقت کو پہچاننے کے لیے اگر کوئی نشانی اور علامت درکا رہے تو) جو لوگ عقل سے کام لیتے ہیں اُن کے لیے آسمانوں اور زمین کی ساخت میں، رات اور دن کے پیہم ایک دوسرے کے بعد آنے میں، اُن کشتیوں میں جوا نسان کے نفع کی چیزیں لیے ہوئے دریاؤں اور سمندروں میں چلتی پھرتی ہیں، بارش کے اُس پانی میں جسے اللہ اوپر سے برساتا ہے پھر اس کے ذریعے سے زمین کو زندگی بخشتا ہے اور اپنے اِسی انتظام کی بدولت زمین میں ہر قسم کی جان دار مخلوق پھیلاتا ہے، ہواؤں کی گردش میں، اور اُن بادلوں میں جو آسمان اور زمین کے درمیان تابع فرمان بنا کر رکھے گئے ہیں، بے شمار نشانیاں ہیں1
1 | یعنی اگر انسان کائنات کے اس کارخانے کو، جو شب و روز اس کی آنکھوں کے سامنے چل رہا ہے ، محض جانوروں کی طرح نہ دیکھے بلکہ عقل سے کام لے کر اس نظام پر غور کرے، اور ضد یا تعصّب سے آزاد ہو کر سوچے، تو یہ آثار جو اس کے مشاہدے میں آرہے ہیں اس نتیجے پر پہنچانے کے لیے بالکل کافی ہیں کہ یہ عظیم الشان نظام ایک ہی قادرِ مطلق حکیم کے زیرِ فرمان ہے، تمام اختیار و اقتدار بالکل اُسی ایک کے ہاتھ میں ہے، کسی دُوسرے کی خود مختارانہ مداخلت یا مشارکت کے لیے اس نظا م میں ذرہ برابر کوئی گنجائش نہیں، لہٰذا فی الحقیقت وہی ایک خدا تمام موجوداتِ عالم کو خدا ہے، اس کے سوا کوئی ہستی کسی قسم کے اختیارات رکھتی ہی نہیں کہ خدائی اور اُلوہیّت میں اس کا کوئی حصّہ ہو |
Surah 2 : Ayat 170
وَإِذَا قِيلَ لَهُمُ ٱتَّبِعُواْ مَآ أَنزَلَ ٱللَّهُ قَالُواْ بَلْ نَتَّبِعُ مَآ أَلْفَيْنَا عَلَيْهِ ءَابَآءَنَآۗ أَوَلَوْ كَانَ ءَابَآؤُهُمْ لَا يَعْقِلُونَ شَيْــًٔا وَلَا يَهْتَدُونَ
ان سے جب کہا جاتا ہے کہ اللہ نے جو احکام نازل کیے ہیں اُن کی پیروی کرو تو جواب دیتے ہیں کہ ہم تو اسی طریقے کی پیروی کریں گے جس پر ہم نے اپنے باپ دادا کو پایا ہے1 اچھا اگر ان کے باپ دادا نے عقل سے کچھ بھی کام نہ لیا ہو اور راہ راست نہ پائی ہو تو کیا پھر بھی یہ انہیں کی پیروی کیے چلے جائیں گے؟
1 | یعنی ان پابندیوں کے لیے ان کے پاس کوئی سَنَد اور کوئی حجّت اس کے سوا نہیں ہے کہ باپ دادا سے یُوں ہی ہوتا چلا آیا ہے۔ نادان سمجھتے ہیں کہ کسی طریقے کی پیروی کے لیے یہ حجّت بالکل کافی ہے۔ |
Surah 2 : Ayat 171
وَمَثَلُ ٱلَّذِينَ كَفَرُواْ كَمَثَلِ ٱلَّذِى يَنْعِقُ بِمَا لَا يَسْمَعُ إِلَّا دُعَآءً وَنِدَآءًۚ صُمُّۢ بُكْمٌ عُمْىٌ فَهُمْ لَا يَعْقِلُونَ
یہ لوگ جنہوں نے خدا کے بتائے ہوئے طریقے پر چلنے سے انکار کر دیا ہے اِن کی حالت بالکل ایسی ہے جیسے چرواہا جانوروں کو پکارتا ہے اور وہ ہانک پکار کی صدا کے سوا کچھ نہیں سنتے1 یہ بہرے ہیں، گونگے ہیں، اندھے ہیں، اس لیے کوئی بات ان کی سمجھ میں نہیں آتی
1 | اس تمثیل کے دو پہلو ہیں۔ ایک یہ کہ ان لوگوں کی حالت اُن بے عقل جانوروں کی سی ہے جن کے گلّے اپنے اپنے چرواہوں کے پیچھے چلے جاتے ہیں اور بغیر سمجھے بُوجھے ان کی صدا ؤ ں پر حرکت کرتے ہیں۔ اور دُوسرا پہلو یہ ہے کہ ان کو دعوت و تبلیغ کرتے وقت ایسا محسُوس ہوتا ہے کہ گویا جانوروں کو پکارا جا رہا ہے جو فقط آواز سُنتے ہیں ، مگر کچھ نہیں سمجھتے کہ کہنے والا اُن سے کیا کہتا ہے۔ اللہ تعالٰی نے الفاظ ایسے جامع استعمال فرمائے ہیں کہ یہ دونوں پہلو اِن کے تحت آجاتے ہیں |
Surah 5 : Ayat 58
وَإِذَا نَادَيْتُمْ إِلَى ٱلصَّلَوٲةِ ٱتَّخَذُوهَا هُزُوًا وَلَعِبًاۚ ذَٲلِكَ بِأَنَّهُمْ قَوْمٌ لَّا يَعْقِلُونَ
جب تم نماز کے لیے منادی کرتے ہو تو وہ اس کا مذاق اڑاتے اور اس سے کھیلتے ہیں1 اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ عقل نہیں رکھتے2
2 | یعنی ان کی یہ حرکتیں محض بے عقلی کا نتیجہ ہیں۔ اگر وہ جہالت اور نادانی میں مبتلا نہ ہوتے تو مسلمانوں سے مذہبی اختلاف رکھنے کے باوجود ایسی خفیف حرکات ان سے سرزد نہ ہوتیں۔ آخر کون معقول آدمی یہ پسند کر سکتا ہے کہ جب کوئی گروہ خدا کی عبادت کے لیے منادی کرے تو اس کا مذاق اُڑایا جائے |
1 | یعنی اذان کی آواز سُن کر اُس کی نقلیں اتارتے ہیں ، تمسخر کے لیے اس کے الفاظ بدلتے اور مسخ کرتے ہیں اور اس پر آوازے کستے ہیں |
Surah 5 : Ayat 103
مَا جَعَلَ ٱللَّهُ مِنۢ بَحِيرَةٍ وَلَا سَآئِبَةٍ وَلَا وَصِيلَةٍ وَلَا حَامٍۙ وَلَـٰكِنَّ ٱلَّذِينَ كَفَرُواْ يَفْتَرُونَ عَلَى ٱللَّهِ ٱلْكَذِبَۖ وَأَكْثَرُهُمْ لَا يَعْقِلُونَ
اللہ نے نہ کوئی بَحِیرہ مقرر کیا ہے نہ سائبہ اور نہ وصیلہ اور نہ حام 1مگر یہ کافر اللہ پر جھوٹی تہمت لگاتے ہیں اور ان میں سے اکثر بے عقل ہیں (کہ ایسے وہمیات کو مان رہے ہیں)
1 | جس طرح ہمارے ملک میں گائے، بیل اور بکرے خدا کے نام پر یا کسی بُت یا قبر یا دیوتا یا پیر کے نام پر چھوڑ دیے جاتے ہیں ، اور ان سے کوئی خدمت لینا یا انہیں ذبح کرنا یا کسی طور پر ان سے فائدہ اُٹھانا حرام سمجھا جاتا ہے، اسی طرح زمانۂ جاہلیّت میں اہلِ عرب بھی مختلف طریقوں سے جانوروں کو پُن کرکے چھوڑ دیا کرتے تھے اور ان طریقوں سے چھوڑے ہوئے جانوروں کے الگ الگ نام رکھتے تھے۔ بحیرہ: اُس اُونٹنی کو کہتے تھے جو پانچ دفعہ بچّے جَن چکی ہو اور آخری بار اس کے ہاں نر بچّہ ہوا ہو۔ اس کا کان چیر کر اُسے آزاد چھوڑ دیا جاتا تھا۔ پھرنہ کوئی اس پر سوار ہوتا، نہ اُس کا دُودھ پیا جاتا، نہ اُسے ذبح کیا جاتا، نہ اس کا اُون اتارا جاتا۔ اُسے حق تھا کہ جس کھیت اورجس چراگاہ میں چاہے چرے اور جس گھاٹ سے چاہے پانی پیے۔ سائبہ: اُس اُونٹ یا اُونٹنی کو کہتے تھے جسے کسی مَنّت کے پُورا ہو نے یا کسی بیماری سے شفا پانے یا کسی خطرے سے بچ جانے پر بطور شکرانہ کے پُن کر دیا گیا ہو۔ نیز جس اُونٹنی نے دس مرتبہ بچّے دیے ہوں اور ہر بار مادہ ہی جنی ہو اُسے بھی آزاد چھوڑ دیا جاتا تھا۔ وصیلہ: اگر بکری کا پہلا بچّہ نر ہوتا تو وہ خداؤں کے نام پر ذبح کر دیا جاتا، اور اگر وہ پہلی بار مادہ جنتی تو اسے اپنے لیے رکھ لیا جاتا تھا۔ لیکن اگر نر اور مادہ ایک ساتھ پیدا ہوتے تو نر کو ذبح کر نے کے بجائے یونہی خداؤں کے نام پر چھوڑ دیا جاتا تھا اوراس کا نام وصیلہ تھا۔ حام : اگر کسی اُونٹ کا پوتا سواری دینے کے قابل ہو جاتا تو اس بُوڑھے اُونٹ کو آزاد چھوڑ دیا جاتا تھا۔ نیز اگر کسی اُونٹ کے نطفہ سے دس بچّے پیدا ہو جاتے تو اسے بھی آزادی مِل جاتی |
Surah 5 : Ayat 104
وَإِذَا قِيلَ لَهُمْ تَعَالَوْاْ إِلَىٰ مَآ أَنزَلَ ٱللَّهُ وَإِلَى ٱلرَّسُولِ قَالُواْ حَسْبُنَا مَا وَجَدْنَا عَلَيْهِ ءَابَآءَنَآۚ أَوَلَوْ كَانَ ءَابَآؤُهُمْ لَا يَعْلَمُونَ شَيْــًٔا وَلَا يَهْتَدُونَ
اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ آؤ اُس قانون کی طرف جو اللہ نے نازل کیا ہے اور آؤ پیغمبرؐ کی طرف تو وہ جواب دیتے ہیں کہ ہمارے لیے تو بس وہی طریقہ کافی ہے جس پر ہم نے اپنے باپ دادا کو پایا ہے کیا یہ باپ دادا ہی کی تقلید کیے چلے جائیں گے خواہ وہ کچھ نہ جانتے ہوں اور صحیح راستہ کی انہیں خبر ہی نہ ہو؟
Surah 8 : Ayat 22
۞ إِنَّ شَرَّ ٱلدَّوَآبِّ عِندَ ٱللَّهِ ٱلصُّمُّ ٱلْبُكْمُ ٱلَّذِينَ لَا يَعْقِلُونَ
یقیناً خدا کے نزدیک بدترین قسم کے جانور وہ بہرے گونگے لوگ ہیں جو عقل سے کام نہیں لیتے1
1 | یعنی جو حق سنتے ہیں نہ حق بولتے ہیں ۔ جن کے کان اور جن کے منہ حق کے لیے بہرے گونگے ہیں |
Surah 10 : Ayat 42
وَمِنْهُم مَّن يَسْتَمِعُونَ إِلَيْكَۚ أَفَأَنتَ تُسْمِعُ ٱلصُّمَّ وَلَوْ كَانُواْ لَا يَعْقِلُونَ
ان میں بہت سے لوگ ہیں جو تیری باتیں سنتے ہیں، مگر کیا تو بہروں کو سنائیگا خواہ وہ کچھ نہ سمجھتے ہوں؟1
1 | ایک سننا تو اس طرح کا ہوتا ہے جیسے جانور بھی آواز سن لیتے ہیں۔ دوسرا سننا وہ ہوتا ہے جس میں معنی کی طرف توجہ ہو اور یہ آمادگی پائی جاتی ہو کہ بات اگر معقول ہو گی تو اسے مان لیا جائے گا۔ جو لوگ کسی تعصب میں مبتلا ہوں، اور جنہوں نے پہلے سے فیصلہ کر لیا ہو کہ اپنے موروثی عقیدوں اور طریقوں کے خلاف اور اپنے نفس کی رغبتوں اور دلچسپیوں کے خلاف کوئی بات، خواہ وہ کیسی ہی معقول ہو، مان کر نہ دیں گے، وہ سب کچھ سن کر بھی نہیں سنتے۔ اسی طرح وہ لوگ بھی کچھ سن کر نہیں دیتے جو دنیا میں جانوروں کی طرح غفلت کی زندگی بسر کرتے ہیں اور چَرنے چُگنے کے سوا کسی چیز سے کوئی دلچسپی نہیں رکھتے، یا نفس کی لذتوں اور خواہشوں کے پیچھے ایسے مست ہوتے ہیں کہ انہیں اس بات کی کوئی فکر نہیں ہوتی کہ ہم یہ جو کچھ کر رہے ہیں یہ صحیح بھی ہے یا نہیں۔ ایسے لوگ کانوں کے تو بہرے نہیں ہوتے مگر دل کےبہرے ہوتے ہیں۔ |
Surah 10 : Ayat 100
وَمَا كَانَ لِنَفْسٍ أَن تُؤْمِنَ إِلَّا بِإِذْنِ ٱللَّهِۚ وَيَجْعَلُ ٱلرِّجْسَ عَلَى ٱلَّذِينَ لَا يَعْقِلُونَ
کوئی متنفس اللہ کے اذن کے بغیر ایمان نہیں لا سکتا1، اور اللہ کا طریقہ یہ ہے کہ جو لوگ عقل سے کام نہیں لیتے وہ ان پر گندگی ڈال دیتا ہے2
2 | یہاں صاف بتادیا گیا کہ اللہ کا اذن اوراس کی توفیق کوئی اندھی بانٹ نہیں ہے کہ بغیر کسی حکمت اور بغیر کسی معقول ضابطے کے یوں ہی جس کو چاہا نعمت ایمان پانے کا موقع دیا اور جسے چاہا اس موقع سے محروم کردیا۔بلکہ اس کاایک نہایت حکیمانہ ضابطہ ہے،اور وہ یہ ہے کہ جو شخص حقیقت کی تلاش میں بےلاگ طریقے سے اپنی عقل کو ٹھیک ٹھیک استعمال کرتا ہے اس کے لیے تو اللہ کی طرف سے حقیقت رسی کے اسباب و ذرائع اس کی سعی و طلب کے تناسب سے مہیا کردیے جاتے ہیں،اور اسی کو صحیح علم پانے اور ایمان لانے کی توفیق بخشی جاتی ہے۔رہے وہ لوگ جو طالب حق ہی نہیں ہیں اور جو اپنی عقل کو تعصبات کے پھندوں میں پھانسے رکھتے ہیں،یا سرے سے تلاش حقیقت میں اُسے استعمال ہی نہیں کرتے،تو اُن کے لیے اللہ کے خزانہ قسمت میں جہالت اور گمراہی اور غلط بینی وغلط کاری کی نجاستوں کے سوا اور کچھ نہیں ہے۔وہ اپنے آپ کو انہی نجاستوں کا اہل بناتے ہیں اور یہی ان کے نصیب میں لکھی جاتی ہیں۔ |
1 | یعنی جس طرح تمام نعمتیں تنہا اللہ کے اختیار میں ہیں اور کوئی شخص کسی نعمت کو بھی اللہ کے اذن کے بغیر نہ خود حاصل کر سکتا ہے نہ کسی دوسرے شخص کو بخش سکتا ہے،اسی طرح یہ نعمت بھی کہ کوئی شخص صاحبِ ایمان ہو اور راہِ راست کی طرف ہدایت پائے اللہ کے اذن پرمنحصر ہے۔کوئی شخص نہ اس نعمت کو اذن الٰہی کے بغیر خود پاسکتا ہے،اور نہ کسی انسان کے اختیار میں یہ ہےکہ جس کو چاہے یہ نعمت عطا کردے۔پس نبی اگر سچے دل سے یہ چاہے بھی کہ لوگوں کو مومن بنا دے تونہیں بنا سکتا۔اس کے لیے اللہ کااذن اور اس کی توفیق درکار ہے۔ |
Surah 13 : Ayat 2
ٱللَّهُ ٱلَّذِى رَفَعَ ٱلسَّمَـٰوَٲتِ بِغَيْرِ عَمَدٍ تَرَوْنَهَاۖ ثُمَّ ٱسْتَوَىٰ عَلَى ٱلْعَرْشِۖ وَسَخَّرَ ٱلشَّمْسَ وَٱلْقَمَرَۖ كُلٌّ يَجْرِى لِأَجَلٍ مُّسَمًّىۚ يُدَبِّرُ ٱلْأَمْرَ يُفَصِّلُ ٱلْأَيَـٰتِ لَعَلَّكُم بِلِقَآءِ رَبِّكُمْ تُوقِنُونَ
وہ اللہ ہی ہے جس نے آسمانوں کو ایسے سہاروں کے بغیر قائم کیا جو تم کو نظر آتے ہو1 ں، پھر وہ اپنے تخت سلطنت پر جلوہ فرما ہوا2، اور اُس نے آفتاب و ماہتاب کو ایک قانون کا پابند بنایا3 اِس سارے نظام کی ہر چیز ایک وقت مقرر تک کے لیے چل رہی ہے4 اور اللہ ہی اِس سارے کام کی تدبیر فرما رہا ہے وہ نشانیاں کھول کھول کر بیان کرتا ہے5، شاید کہ تم اپنے رب کی ملاقات کا یقین کرو6
6 | اوپر جن آثارِ کائنات کو گواہی میں پیش کیا گیا ہے ان کی یہ شہادت تو بالکل ظاہر و باہر ہے کہ اس عالم کا خالق و مدبر ایک ہی ہے، لیکن یہ بات کہ موت کے بعد دوسری زندگی، اور عدالت الہٰی میں انسان کی حاضری، اور جزا و سزا کے متعلق رسول اللہ نے جو خبریں دی ہیں ان کے برحق ہونے پر بھی یہی آثار شہادت دیتے ہیں، ذرا مخفی ہے اور زیادہ غور کرنے سے سمجھ میں آتی ہے۔ اس لیے پہلی حقیقت پر متنبہ کرنے کی ضرورت نہ سمجھی گئی ، کیونکہ سننے والا محض دلائل کو سُن کر ہی سمجھ سکتا ہے کہ ان سے کیا ثابت ہوتا ہے۔ البتہ دوسری حقیقت پر خصوصیت کے ساتھ متنبہ کیاگیا ہے کہ اپنے رب کی ملاقات کا یقین بھی تم کو اِنہی نشانیوں پر غور کرنے سے حاصل ہو سکتاہے۔ مذکورۂ بالا نشانیوں سے آخرت کا ثبوت دو طرح سے ملتا ہے: ایک یہ کہ جب ہم آسمانوں کی ساخت اور شمس و قمر کی تسخیر پر غور کرتے ہیں تو ہمارا دل یہ شہادت دیتا ہے کہ جس خدا نے یہ عظیم الشان اجرامِ فلکی پیدا کیے ہیں ، اور جس کی قدرت اتنے بڑے بڑے کُروں کو فضا میں گردش دے رہی ہے ، اُس کے لیے نوعِ انسانی کو موت کے بعد دوبارہ پید ا کردینا کچھ بھی مشکل نہیں ہے۔ دوسرے یہ کہ اِسی نظامِ فلکی سے ہم کو یہ شہادت بھی ملتی ہے کہ اِس کا پیدا کرنے والا کما ل درجے کا حکیم ہے ، اور اُس کی حکمت سے یہ بات بہت بعید معلوم ہوتی ہے کہ وہ نوع انسانی کو ایک ذی عقل و شعو ر صاحب ِ اختیار و ارادہ مخلوق بنانے کے بعد ،اور اپنی زمین کی بے شمار چیزوں پر تصرف کی قدرت عطا کر نے کے بعد، اس کے کارنامۂ زندگی کا حساب نہ لے، اُس کے ظالموں سے باز پرس اور اُس کے مظلوموں کی داد رسی نہ کرے ، اُ س کے نیکوکار وں کو جزا اور اُس کے بدکاروں کو سزا نہ دے، اور اُس سے کبھی یہ پوچھے ہی نہیں کہ جو بیش قیمت امانتیں میں نے تیرے سپرد کی تھیں ان کے ساتھ تونے کیا معاملہ کیا۔ ایک اندھا راجہ تو بے شک اپنی سلطنت کے معاملات اپنے کار پردازوں کے حوالے کر کے خوابِ غفلت میں سرشار ہو سکتا ہے، لیکن ایک حکیم و دانا سے اس غلط بخشی و تغافل کیشی کی توقع نہیں کی جا سکتی۔ اس طرح آسمانوں کا مشاہدہ ہم کو نہ صرف آخرت کے امکان کا قائل کرتا ہے، بلکہ اس کے وقوع کا یقین بھی دلا تا ہے |
5 | یعنی اِس امر کی نشانیاں کہ رسولِ خدا جن حقیقتوں کی خبر دے رہے ہیں وہ فی الواقع سچی حقیقتیں ہیں۔ کائنات میں ہر طرف اُن پر گواہی دینے والے آثار موجود ہیں۔ اگر لوگ آنکھیں کھول کر دیکھیں تو انہیں نظر آجائے کہ قرآن میں جن جن باتوں پر ایمان لانے کی دعوت دی گئی ہے زمین و آسمان میں پھیلے ہوئے بے شمار نشانات اُن کی تصدیق کر رہے ہیں |
4 | یعنی یہ نظام صرف اِسی امر کی شہادت نہیں دے رہا ہے کہ ایک ہمہ گیر اقتدار اس پر فرمانروا ہے اور ایک زبردست حکمت اس میں کام کر رہی ہے ، بلکہ اس کے تمام اجزا ء اور اُن میں کام کرنے والی ساری قوتیں اِس بات پر بھی گواہ ہیں کہ اس نظام کی کوئی چیز غیر فانی نہیں ہے۔ ہر چیز کے لیے ایک وقت مقرر ہے جس کے اختتام تک وہ چلتی ہے اور جب اُس کا وقت آن پورا ہوتا ہے تو مِٹ جاتی ہے ۔ یہ حقیقت جس طرح اِس نظام کے ایک ایک جُزء کے معاملے میں صحیح ہے اسی طرح اِس پورے نظام کے بارے میں بھی صحیح ہے۔ اس عالم ِ طبیعی کی مجموعی ساخت یہ بتا رہی ہے کہ یہ ابدی و سرمدی نہیں ہے، اس کے لیے بھی کوئی وقت ضرور مقرر ہے جب یہ ختم ہو جائے گا اور اس کی جگہ کوئی دوسرا عالم برپا ہوگا۔ لہٰذا قیامت ، جس کے آنے کی خبر دی گئی ہے ، اس کا آنا مُستبَعد نہیں بلکہ نہ آنا مُستبَعد ہے |
3 | یہاں یہ امر ملحوظ ِ خاطر رہنا چاہیے کہ مخاطب وہ قوم ہے جو اللہ کی ہستی کی منکر نہ تھی، نہ اس کے خالق ہونے کی منکر تھی ، اور نہ یہ گمان رکھتی تھی کہ یہ سارے کام جو یہاں بیان کیے جارہے ہیں ، اللہ کے سوا کسی ا ورکے ہیں۔ اس لیے بجائے خود اس بات پر دلیل لانے کی ضرورت نہ سمجھی گئی کہ واقعی اللہ ہی نے آسمانوں کو قائم کیا ہے اور اسی نے سورج اور چاند کو ایک ضابطے کا پابند بنایا ہے ۔ بلکہ ان واقعات کو ، جنہیں مخاطب خود ہی مانتے تھے، ایک دوسری بات پر دلیل قرار دیا گیا ہے، اور وہ یہ ہے کہ اللہ کے سوا کوئی دوسرا اس نظامِ کائنات میں صاحبِ اقتدار نہیں ہے جو معبود قرار دیے جانےکا مستحق ہو۔ رہا یہ سوال کہ جو شخص سرے سے اللہ کی ہستی کا اور اس کے خالق و مدبر ہونے ہی کا قائل نہ ہو اسکے مقابلے میں یہ استدلال کیسے مفید ہوسکتا ہے ؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ مشرکین کے مقابلے میں توحید کو ثابت کرنے کے لیے جو دلائل دیتا ہے وہی دلائل ملاحدہ کے مقابلے میں وجود ِ باری کے اثبات کے لیے بھی کافی ہیں۔ توحید کا سارا استدلال اس بنیاد پر قائم ہے کہ زمین سے لے کر آسمانوں تک ساری کائنات ایک مکمل نظام ہے اور یہ پورا نظام ایک زبردست قانون کے تحت چل رہا ہے جس میں ہر طرف ایک ہمہ گیر اقتدار ، ایک بے عیب حکمت، اور بے خطا علم کے آثار نظر آتے ہیں۔ یہ آثار جس طرح اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ اس نظام کے بہت سے فرمانروا نہیں ہیں، اسی طرح اس بات پر بھی دلالت کرتے ہیں کہ اس نظام کا ایک فرمانروا ہے۔ نظم کا تصور ایک ناظم کے بغیر ، قانون کا تصور ایک حکمران کے بغیر ، حکمت کا تصور ایک حکیم کے بغیر، علم کا تصور ایک عالم کے بغیر، اور سب سے بڑھ کر یہ کہ خلق کا تصور ایک خالق کے بغیر صرف وہی شخص کر سکتا ہے جو ہٹ دھرم ہو، یا پھر وہ جس کی عقل ماری گئی ہو |
2 | اِس کی تشریح کے لیے ملاحظہ ہو سورۂ اعراف حاشیہ نمبر ۴۱ ۔ مختصرًا یہاں اتنا اشارہ کافی ہے کہ عرش (یعنی سلطنتِ کائنات کے مرکز) پر اللہ تعالیٰ کی جلوہ فرمائی کو جگہ جگہ قرآن میں جس غرض کے بیان کیا گیا ہے وہ یہ ہے کہ اللہ نے اس کائنات کو صرف پیدا ہی نہیں کر دیا ہے بلکہ وہ آپ ہی اس سلطنت پر فرمانروائی کر رہا ہے۔ یہ جہان ہست و بود کوئی خود بخود چلنے والا کارخانہ نہیں ہے، جیسا کہ بہت سے جاہل خیال کرتے ہیں ، اور نہ مختلف خداؤں کی آماج گاہ ہے، جیسا کہ بہت سے دوسرے جاہل سمجھے بیٹھے ہیں ، بلکہ یہ ایک باقاعدہ نظام ہے جسے اس کا پیدا کر ناے والا خود چلا رہاہے |
1 | بالفاظ دیگر آسمانوں کو غیر محسوس اور غیر مرئی سہاروں پر قائم کیا۔ بظاہر کوئی چیز فضائے بسیط میں ایسی نہیں ہے جو ان بے حد و حساب اجرام فلکی کو تھامے ہوئے ہو۔ مگر ایک غیر محسوس طاقت ایسی ہے جو ہر ایک کو اس کے مقام و مدار پر روکے ہوئے اور ان عظیم الشان اجسام کو زمین پر یا ایک دوسرے پر گرنے نہیں دیتی |