Ayats Found (30)
Surah 7 : Ayat 191
أَيُشْرِكُونَ مَا لَا يَخْلُقُ شَيْــًٔا وَهُمْ يُخْلَقُونَ
کیسے نادان ہیں یہ لوگ کہ اُن کو خدا کا شریک ٹھیراتے ہیں جو کسی چیز کو بھی پیدا نہیں کرتے بلکہ خود پیدا کیے جاتے ہیں
Surah 7 : Ayat 198
وَإِن تَدْعُوهُمْ إِلَى ٱلْهُدَىٰ لَا يَسْمَعُواْۖ وَتَرَٮٰهُمْ يَنظُرُونَ إِلَيْكَ وَهُمْ لَا يُبْصِرُونَ
بلکہ اگر تم انہیں سیدھی راہ پر آنے کے لیے کہو تو وہ تمہاری بات سن بھی نہیں سکتے بظاہر تم کو ایسا نظر آتا ہے کہ وہ تمہاری طرف دیکھ رہے ہیں مگر فی الواقع وہ کچھ بھی نہیں دیکھتے"
Surah 10 : Ayat 18
وَيَعْبُدُونَ مِن دُونِ ٱللَّهِ مَا لَا يَضُرُّهُمْ وَلَا يَنفَعُهُمْ وَيَقُولُونَ هَـٰٓؤُلَآءِ شُفَعَـٰٓؤُنَا عِندَ ٱللَّهِۚ قُلْ أَتُنَبِّــُٔونَ ٱللَّهَ بِمَا لَا يَعْلَمُ فِى ٱلسَّمَـٰوَٲتِ وَلَا فِى ٱلْأَرْضِۚ سُبْحَـٰنَهُۥ وَتَعَـٰلَىٰ عَمَّا يُشْرِكُونَ
یہ لوگ اللہ کے سوا اُن کی پرستش کر رہے ہیں جو ان کو نہ نقصان پہنچا سکتے ہیں نہ نفع، اور کہتے یہ ہیں کہ یہ اللہ کے ہاں ہمارے سفارشی ہیں اے محمدؐ، ان سے کہو “کیا تم اللہ کو اُس بات کی خبر دیتے ہو جسے وہ نہ آسمانوں میں جانتا ہے نہ زمین میں؟1" پاک ہے وہ اور بالا و برتر ہے اُس شرک سے جو یہ لوگ کرتے ہیں
1 | کسی چیز کا اللہ کے علم میں نہ ہونا یہ معنی رکھتا ہے کہ وہ سرے سے موجود ہی نہیں، اس لیے کہ سب کچھ جو موجود ہے اللہ کے علم میں ہے۔ پس سفارشیوں کے معدوم ہونے کے لیے یہ ایک نہایت لطیف انداز بیان ہے کہ اللہ تعالٰی تو جانتا نہیں کہ زمین یا آسمان میں کوئی اس کے حضور تمہاری سفارش کرنے والا ہے، پھر یہ تم کن سفارشیوں کی اس کو خبر دے رہے ہو؟ |
Surah 13 : Ayat 14
لَهُۥ دَعْوَةُ ٱلْحَقِّۖ وَٱلَّذِينَ يَدْعُونَ مِن دُونِهِۦ لَا يَسْتَجِيبُونَ لَهُم بِشَىْءٍ إِلَّا كَبَـٰسِطِ كَفَّيْهِ إِلَى ٱلْمَآءِ لِيَبْلُغَ فَاهُ وَمَا هُوَ بِبَـٰلِغِهِۦۚ وَمَا دُعَآءُ ٱلْكَـٰفِرِينَ إِلَّا فِى ضَلَـٰلٍ
اسی کو پکارنا برحق ہے1 رہیں وہ دوسری ہستیاں جنہیں اس کو چھوڑ کر یہ لوگ پکارتے ہیں، وہ اُن کی دعاؤں کا کوئی جواب نہیں دے سکتیں اُنہیں پکارنا تو ایسا ہے جیسے کوئی شخص پانی کی طرف ہاتھ پھیلا کر اُس سے درخواست کرے کہ تو میرے منہ تک پہنچ جا، حالانکہ پانی اُس تک پہنچنے والا نہیں بس اِسی طرح کافروں کی دعائیں بھی کچھ نہیں ہیں مگر ایک تیر بے ہدف!
1 | پکارنے سے مراد اپنی حاجتوں میں مد د کے لیے پکارنا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ حاجت روائی و مشکل کشائی کے سارے اختیارات اسی کے ہاتھ میں ہیں، اس لیے صرف اُسی سے دعائیں مانگنا بر حق ہے |
Surah 13 : Ayat 16
قُلْ مَن رَّبُّ ٱلسَّمَـٰوَٲتِ وَٱلْأَرْضِ قُلِ ٱللَّهُۚ قُلْ أَفَٱتَّخَذْتُم مِّن دُونِهِۦٓ أَوْلِيَآءَ لَا يَمْلِكُونَ لِأَنفُسِهِمْ نَفْعًا وَلَا ضَرًّاۚ قُلْ هَلْ يَسْتَوِى ٱلْأَعْمَىٰ وَٱلْبَصِيرُ أَمْ هَلْ تَسْتَوِى ٱلظُّلُمَـٰتُ وَٱلنُّورُۗ أَمْ جَعَلُواْ لِلَّهِ شُرَكَآءَ خَلَقُواْ كَخَلْقِهِۦ فَتَشَـٰبَهَ ٱلْخَلْقُ عَلَيْهِمْۚ قُلِ ٱللَّهُ خَـٰلِقُ كُلِّ شَىْءٍ وَهُوَ ٱلْوَٲحِدُ ٱلْقَهَّـٰرُ
اِن سے پوچھو، آسمان و زمین کا رب کون ہے؟ کہو، اللہ1 پھر ان سے کہو کہ جب حقیقت یہ ہے تو کیا تم نے اُسے چھوڑ کر ایسے معبودوں کو اپنا کارساز ٹھیرا لیا جو خود اپنے لیے بھی کسی نفع و نقصان کا اختیار نہیں رکھتے؟ کہو، کیا اندھا اور آنکھوں والا برابر ہوا کرتا ہے؟2 کیا روشنی اور تاریکیاں یکساں ہوتی ہیں؟ 3اور اگر ایسا نہیں تو کیا اِن ٹھیرائے ہوئے شریکوں نے بھی اللہ کی طرح کچھ پیدا کیا ہے کہ اُس کی وجہ سے اِن پر تخلیق کا معاملہ مشتبہ ہو گیا؟4 کہو، ہر چیز کا خالق صرف اللہ ہے اور وہ یکتا ہے، سب پر غالب!5
5 | اصل میں لفظ قھّار استعمال ہوا ہے جس کے معنی ہیں”وہ ہستی جو اپنے زور سے سب پر حکم چلائے اور سب کو مغلوب کر کے رکھے“۔ یہ بات کہ” اللہ ہی ہر چیز کا خالق ہے“، مشرکین کی اپنی تسلیم کردہ حقیقت ہے جس سے انہیں کبھی انکار نہ تھا۔ اور یہ بات کہ”وہ یکتا اور قہار ہے“ ا س تسلیم شدہ حقیقت کا لازمی نتیجہ ہے جس سے انکار کرنا ، پہلی حقیقت کو مان لینے کے بعد ، کسی صاحب عقل کے لیے ممکن نہیں ہے۔ اِس لیے کہ جو ہر چیز کا خالق ہے ، وہ لامحالہ یکتا و یگانہ ہے ، کیونکہ دوسری جو چیز بھی ہے وہ اسی کی مخلوق ہے ، پھر بھلا یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ کوئی مخلو ق اپنے خالق کی ذات ، یا صفات ، یا اختیارات، یا حقوق میں اس کی شریک ہو؟ اسی طرح وہ لامحالہ قہّار بھی ہے ، کیونکہ مخلوق کا اپنے خالق سے مغلوب ہو کر رہنا عین تصوّرِ مخلوقیت میں شامل ہے ۔ غلبۂ کامل اگر خالق کو حاصل نہ ہو تو وہ خلق ہی کیسے کر سکتا ہے ۔ پس جو شخص اللہ کو خالق مانتا ہے اس کے لیے ان دو خالص عقلی و منطقی نتیجوں سے انکار کرنا ممکن نہیں رہتا، اور اس کے بعد یہ بات سراسر غیر معقول ٹھہرتی ہے کہ کوئی شخص خالق کو چھوڑ کر مخلوق کی بندگی کرے اور غالب کو چھوڑ کر مغلوب کو مشکل کشائی کے لیے پکارے |
4 | اس سوال کا مطلب یہ ہے کہ اگر دنیا میں کچھ چیزیں اللہ تعالیٰ نے پید ا کی ہوتیں اور کچھ دوسروں نے، اور یہ معلوم کرنا مشکل ہوتا کہ خدا کا تخلیقی کام کونسا ہے اور دوسروں کا کونسا، تب تو واقعی شرک کے لیے کوئی معقول بنیاد ہو سکتی تھی۔ لیکن جب یہ مشرکین خود مانتے ہیں کہ ان کے معبودوں میں سے کسی نے ایک تنکا اور ایک بال تک پیدا نہیں کیا ہے، اور جب انہیں خود تسلیم ہے کہ خلق میں ان جعلی خداؤں کا ذرہ برابر بھی کوئی حصہ نہیں ہے ، تو پھر یہ جعلی معبود خالق کے اختیارات اور اس کے حقوق میں آخر کس بنا پر شریک ٹھیرا لیے گئے؟ |
3 | روشنی سے مراد علمِ حق کی وہ روشنی ہے جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپؐ کے متبعین کو حاصل تھی۔ اور تاریکیوں سے مراد جہالت کی وہ تاریکیاں ہیں جن میں منکرین بھٹک رہے تھے۔ سوال کا مطلب یہ ہے کہ جس کو روشنی مل چکی ہے وہ کس طرح اپنی شمع بجھا کر اندھیروں میں ٹھوکریں کھانا قبول کر سکتا ہے؟ تم اگر نُور کے قدر شناس نہیں ہو تو نہ سہی۔ لیکن جس نے اُسے پالیا ہے ، جو نُور و ظلمت کے فرق کو جان چکا ہے، جو دن کے اجالے میں سیدھا راستہ صاف دیکھ رہا ہے، وہ روشنی کو چھوڑ کر تاریکیوں میں بھٹکتے پھرنے کے لیے کیسے آمادہ ہو سکتا ہے؟ |
2 | اندھے سے مراد وہ شخص ہے جس کے آگے کائنات میں ہر طرف اللہ کی وحدانیت کے آثار و شواہد پھیلے ہوئے ہیں مگر وہ اُن میں سے کسی چیز کو بھی نہیں دیکھ رہا ہے ۔ اور آنکھوں والے سے مراد وہ ہے جس کے لیے کائنات کے ذرّے ذرّے اور پتّے پتّے میں معرفتِ کردگار کے دفتر کھلے ہوئے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ کے اِس سوال کا مطلب یہ ہے کہ عقل کے اندھو ! اگر تمہیں کچھ نہیں سوجھتا تو آخر چشم بینا رکھنے والا اپنی آنکھیں کیسے پھوڑے؟ جو شخص حقیقت کو آشکار دیکھ رہا ہے اس کے لیے کس طرح ممکن ہے کہ وہ تم بے بصیرت لوگوں کی طرح ٹھوکریں کھاتا پھرے؟ |
1 | واضح رہے کہ وہ لوگ خود اس بات کے قائل تھے کہ زمین و آسمان کا رب اللہ ہے ۔ وہ اس سوال کا جواب انکار کی صورت میں نہیں دے سکتے تھے ، کیونکہ یہ انکار خود اُن کے اپنے عقیدے کے خلا ف تھا۔ لیکن نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پوچھنے پر وہ اقرار کی صورت میں بھی اس جواب دینے سے کتراتے تھے، کیونکہ اقرار کے بعد توحید کا ماننا لازم آجاتا تھا اور شرک کے لیے کوئی معقول بنیاد با قی نہیں رہتی تھی۔ اس لیے اپنے موقف کی کمزوری محسوس کر کے وہ اس سوال کے جواب میں چپ سادھ جاتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن میں جگہ جگہ اللہ تعالیٰ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے فرماتا ہے کہ ان سے پوچھو زمین و آسمان کا خالق کون ہے؟ کائنات کا ربّ کون ہے؟ تم کو رزق دینے والا کون ہے؟ پھر حکم دیتا ہے کہ تم خود کہو کہ اللہ ، اور اِس کے بعد یوں استدلال کرتا ہے کہ جب یہ سارے کام اللہ کے ہیں تو آخر یہ دوسرے کون ہیں جن کی تم بندگی کیے جا رہے ہو؟ |
Surah 16 : Ayat 20
وَٱلَّذِينَ يَدْعُونَ مِن دُونِ ٱللَّهِ لَا يَخْلُقُونَ شَيْــًٔا وَهُمْ يُخْلَقُونَ
اور وہ دوسری ہستیاں جنہیں اللہ کو چھوڑ کر لوگ پکارتے ہیں، وہ کسی چیز کی بھی خالق نہیں ہیں بلکہ خود مخلوق ہیں
Surah 16 : Ayat 21
أَمْوَٲتٌ غَيْرُ أَحْيَآءٍۖ وَمَا يَشْعُرُونَ أَيَّانَ يُبْعَثُونَ
مردہ ہیں نہ کہ زندہ اور ان کو کچھ معلوم نہیں ہے کہ انہیں کب (دوبارہ زندہ کر کے) اٹھایا جائے گا1
1 | یہ الفاظ صاف بتا رہے ہیں کہ یہاں خاص طور پر جن بناوٹی معبودوں کی تردید کی جا رہی ہے وہ فرشتے، یا جنّ، یا شیاطین، یا لکڑی پتھر کی مورتیاں نہیں ہیں، بلکہ اصحابِ قبور ہیں۔ اس لیے کہ فرشتے اور شیاطین تو زندہ ہیں، ان پر اَمْواتٌ غَیْرُ اَحْیَآءٍ کے الفاظ کا اطلاق نہیں ہو سکتا۔ اور لکڑی پتھر کی مورتیوں کے معاملہ میں بعث بعد الموت علماؤں کا کوئی سوال نہیں ہے، اس لیے مَا یَشْعُرُوْنَ اَیَّانَ یُبْعَثُوْنَ کے الفاظ انہیں بھی خارج از بحث کر دیتے ہیں۔ اب لا محالہ اس آیت میں اَلَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللہِ سے مراد وہ انبیاء، اولیاء، شہداء، صالحین اور دوسرے غیر معمولی انسان ہی ہیں جن کو غالی معتقدین داتا، مشکل کشا، فریادرس، غریب نواز، گنج بخش، اور نامعلوم کیا کیا قرار دے کر اپنی حاجت روائی کے لیے پکارنا شروع کر دیتے ہیں۔ اس کے جواب میں اگر کوئی یہ کہے کہ عرب میں اس نوعیت کے معبود نہیں پائے جاتے تھے تو ہم عرض کریں گے کہ یہ جاہلیتِ عرب کی تعریف سے اس کی ناواقفیت کا ثبوت ہے۔ کون پڑھا لکھا نہیں جانتا ہے کہ عرب کے متعدد قبائل، ربیعہ،کلب، تغلِب، قُضَاعَہ، کِنانہ، حَرث، کعب، کِندَہ وغیرہ میں کثرت سے عیسائی اور یہودی پائے جاتے تھے، اور یہ دونوں مذاہب بُری طرح انبیاء اولیاء اور شہداء کی پرستش سے آلودہ تھے۔ پھر مشرکین عرب کے اکثر نہیں تو بہت سے معبود وہ گزرے ہوئے انسان ہی تھے جنہیں بعد کی نسلوں نے خدا بنا لیا تھا۔ بخاری میں ابن عباسؓ کی روایت ہے کہ ودّ، سُواع، یغوث، یعُوق، نسر، یہ سب صالحین کے نام ہیں جنہیں بعد کے لوگ بُت بنا بیٹھے۔ حضرت عائشہ ؓ کی روایت ہے کہ اِساف اور نائلہ دونوں انسان تھے۔ اسی طرح کی روایات لات اور مُناۃ اور عُزّیٰ کے بارے میں موجود ہیں۔ اور مشرکین کا یہ عقیدہ بھی روایات میں آیا ہے کہ لات اور عزّیٰ اللہ کے ایسے پیارے تھے کہ اللہ میاں جاڑا لات کے ہاں اور گرمی عزّیٰ کے ہاں بسر کرتے تھے۔ سُبْحٰنَہٗ وَ تَعَالیٰ عَمَّا یَصِفُوْنَ۔ |
Surah 16 : Ayat 73
وَيَعْبُدُونَ مِن دُونِ ٱللَّهِ مَا لَا يَمْلِكُ لَهُمْ رِزْقًا مِّنَ ٱلسَّمَـٰوَٲتِ وَٱلْأَرْضِ شَيْــًٔا وَلَا يَسْتَطِيعُونَ
اور اللہ کو چھوڑ کر اُن کو پوجتے ہیں جن کے ہاتھ میں نہ آسمانوں سے انہیں کچھ بھی رزق دینا ہے نہ زمین سے اور نہ یہ کام وہ کر ہی سکتے ہیں؟
Surah 16 : Ayat 74
فَلَا تَضْرِبُواْ لِلَّهِ ٱلْأَمْثَالَۚ إِنَّ ٱللَّهَ يَعْلَمُ وَأَنتُمْ لَا تَعْلَمُونَ
پس اللہ کے لیے مثالیں نہ گھڑو1، اللہ جانتا ہے، تم نہیں جانتے
1 | ’’اللہ کے لیے مثالیں نہ گھڑو“، یعنی اللہ کو دنیوی بادشاہوں اور راجوں اور مہاراجوں پر قیاس نہ کرو کہ جس طرح کوئی ان کے مصاحبوں اور مُقرب بارگاہ ملازموں کے توسّط کے بغیر اُن تک اپنی عرض معروض نہیں پہنچا سکتا اسی طرح اللہ کے متعلق بھی تم یہ گمان کرنے لگو کہ وہ اپنے قصر شاہی میں ملائکہ اور اولیاء اور دوسرے مقربین کے درمیان گھِرا بیٹھا ہے اور کسی کاکوئی کام اِن واسطوں کے بغیر اس کے ہاں سے نہیں بن سکتا۔ |
Surah 17 : Ayat 56
قُلِ ٱدْعُواْ ٱلَّذِينَ زَعَمْتُم مِّن دُونِهِۦ فَلَا يَمْلِكُونَ كَشْفَ ٱلضُّرِّ عَنكُمْ وَلَا تَحْوِيلاً
اِن سے کہو، پکار دیکھو اُن معبودوں کو جن کو تم خدا کے سوا (اپنا کارساز) سمجھتے ہو، وہ کسی تکلیف کو تم سے نہ ہٹا سکتے ہیں نہ بدل سکتے ہیں1
1 | اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ غیر اللہ کو سجدہ کرنا ہی شرک نہیں ہے، بلکہ خدا کے سوا کسی دوسری ہستی سے دعا مانگنا، یا اس کو مدد کے لیے پکارنا بھی شرک ہے۔ دعا اور استمدادو استعانت، اپنی حقیقت کے اعتبار سے عبادت ہی ہیں اور غیر اللہ سے مناجات کرنے والا ویسا ہی مجرم ہے جیسا ایک بت پرست مجرم ہے۔ نیز اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اللہ کے سوا کسی کو بھی کچھ اختیارات حاصل نہیں ہیں۔نہ کوئی دوسرا کسی مصیبت کو ٹال سکتا ہے نہ کسی بُری حالت کو اچھی حالت سے بدل سکتا ہے۔ اس طرح کا اعتقاد خدا کے سوا جس ہستی کے بارے میں بھی رکھا جائے، بہرحال ایک مشرکانہ اعتقاد ہے۔ |