Ayats Found (3)
Surah 6 : Ayat 136
وَجَعَلُواْ لِلَّهِ مِمَّا ذَرَأَ مِنَ ٱلْحَرْثِ وَٱلْأَنْعَـٰمِ نَصِيبًا فَقَالُواْ هَـٰذَا لِلَّهِ بِزَعْمِهِمْ وَهَـٰذَا لِشُرَكَآئِنَاۖ فَمَا كَانَ لِشُرَكَآئِهِمْ فَلَا يَصِلُ إِلَى ٱللَّهِۖ وَمَا كَانَ لِلَّهِ فَهُوَ يَصِلُ إِلَىٰ شُرَكَآئِهِمْۗ سَآءَ مَا يَحْكُمُونَ
اِن لوگوں 1نے اللہ کے لیے خود اُسی کی پیدا کی ہوئی کھیتیوں اور مویشیوں میں سے ایک حصہ مقرر کیا ہے اور کہتے ہیں یہ اللہ کے لیے ہے، بزعم خود، اور یہ ہمارے ٹھیرائے ہوئے شریکوں کے لیے2 پھر جو حصہ ان کے ٹھیرائے ہوئے شریکوں کے لیے ہے وہ تو اللہ کو نہیں پہنچتا مگر جو اللہ کے لیے ہے وہ ان کے شریکوں کو پہنچ جاتا ہے3 کیسے برے فیصلے کرتے ہیں یہ لوگ!
3 | یہ لطیف طنز ہے اُن کی اس حرکت پر کہ وہ خدا کے نام سے جو حصّہ نکالتے تھے اس میں بھی طرح طرح کی چالبازیاں کر کے کمی کرتے رہتے تھے اور ہر صُورت سے اپنے خود ساختہ شریکوں کا حصّہ بڑھانے کی کوشش کرتے تھے ، جس سے ظاہر ہوتا تھا کہ جو دلچسپی انھیں اپنے ان شریکوں سے ہے وہ خدا سے نہیں ہے ۔ مثلاً جو غلّے یا پھل وغیرہ خدا کے نام پر نکالے جاتے ان میں سے اگر کچھ گِر جاتا تو وہ شریکوں کے حصّہ میں شامل کر دیا جاتا تھا ، اور اگر شریکوں کے حصّہ میں سے گرتا، یا خدا کے حصّے میں مِل جاتا تو اُسے انہی کے حصّہ میں واپس کیا جاتا۔ کھیت کا جو حصّہ شریکوں کی نذر کے لیے مخصُوص کیا جاتا تھا اگر اس میں سے پانی اُس حصّہ کی طرف پُھوٹ بہتا جو خدا کی نذر کے لیے مختص ہوتا تھا تو اس کی ساری پیداوار شریکوں کے حصّہ میں داخل کر دی جاتی تھی ، لیکن اگر اس کے برعکس صُورت پیش آتی تو خدا کے حصّہ میں کوئی اضافہ نہ کیا جاتا۔ اگر کبھی خشک سالی کی وجہ سے نذر و نیاز کا غلّہ خود استعمال کرنے کی ضرورت پیش آجاتی تو خدا کا حصّہ کھالیتے تھے مگر شریکوں کے حصّہ کو ہاتھ لگاتے ہوئے ڈرتے تھے کہ کہیں کوئی بلا نازل نہ ہو جائے۔ اگر کسی وجہ سے شریکوں کے حصّہ میں کچھ کمی آجاتی تو وہ خدا کے حصّہ سے پُوری کی جاتی تھی لیکن خدا کے حصّہ میں کمی ہوتی تو شریکوں کے حصّہ میں سے ایک حبّہ بھی اس میں نہ ڈالا جاتا۔ اس طرزِ عمل پر کوئی نکتہ چینی کرتا تو جواب میں طرح طرح کی دل فریب توجیہیں کی جاتی تھیں ۔ مثلاً کہتے تھے کہ خدا تو غنی ہے، اس کے حصّہ میں سے کچھ کمی بھی ہو جائے تو اُسے کیا پروا ہو سکتی ہے۔ رہے یہ شریک ، تو یہ بندے ہیں ، خدا کی طرح غنی نہیں ہیں، اس لیے ذرا سی کمی بیشی پر بھی ان کے ہاں گرفت ہو جاتی ہے۔ اِن توہّمات کی اصل جڑ کیا تھی، اس کو سمجھنے کے لیے یہ جان لینا بھی ضروری ہے کہ جُہلائے عرب اپنے مال میں سے جو حصّہ خدا کے لیے نکالتے تھے ، وہ فقیروں ، مسکینوں ، مسافروں اور یتیموں وغیرہ کی مدد میں صَرف کیا جاتا تھا، اور جو حصّہ شریکوں کی نذر و نیاز کے لیے نکالتے تھے وہ یا تو براہِ راست مذہبی طبقوں کے پیٹ میں جاتا تھا یا آستانوں پر چڑھاوے کی صُورت میں پیش کیا جاتا اور اس طرح بالواسطہ مجاوروں اور پوجاریوں تک پہنچ جاتا تھا۔ اسی لیے ان خود غرض مذہبی پیشواؤں نے صدیوں کی مسلسل تلقین سے ان جاہلوں کے دل میں یہ بات بٹھائی تھی کہ خدا کے حصّہ میں کمی ہو جائے تو کچھ مضائقہ نہیں ، مگر”خدا کے پیاروں“ کے حصّہ میں کمی نہ ہونی چاہیے بلکہ حتی الامکان کچھ بیشی ہی ہوتی رہے تو بہتر ہے |
2 | اِس بات کے وہ خود قائل تھے کہ زمین اللہ کی ہے اور کھیتیاں وہی اُگاتا ہے۔ نیز اُن جانوروں کا خالق بھی اللہ ہی ہے جن سے وہ اپنی زندگی میں خدمت لیتے ہیں۔ لیکن ان کا تصوّر یہ تھا کہ ان پر اللہ کا یہ فضل اُن دیویوں اور دیوتاؤں اور فرشتوں اور جِنّات ، اور آسمانی ستاروں اور بزرگانِ سلف کی ارواح کے طفیل و برکت سے ہے جو ان پر نظر ِ کرم رکھتے ہیں۔ اس لیے وہ اپنے کھیتوں کی پیداوار اور اپنے جانوروں میں سے دو حصّے نکالتے تھے۔ ایک حِصّہ اللہ کے نام کا، اس شکریہ میں کہ اس نے یہ کھیت اور یہ جانور انھیں بخشے۔ اور دُوسرا حصّہ اپنے قبیلہ اور خاندان کے سرپرست معبُودوں کی نذر و نیاز کا تاکہ اُن کی مہربانیاں ان کے شامِل حال رہیں۔ اللہ تعالیٰ سب سے پہلے ان کے اسی ظلم پر گرفت فرماتا ہے کہ یہ سب مویشی ہمارے پیدا کیے ہوئے اور ہمارے عطا کردہ ہیں، ان میں یہ دُوسروں کی نذر و نیاز کیسی؟ یہ نمک حرامی نہیں تو کیا ہے کہ تم اپنے محسن کے احسان کو، جو اس نے سراسر خود اپنے فضل و کرم سے تم پر کیا ہے ، دُوسروں کی مداخلت اور ان کے توسّط کا نتیجہ قرار دیتے ہو اور شکریہ کے استحقاق میں انھیں اُس کے ساتھ شریک کرتے ہو۔ پھر اشارۃً دُوسری گرفت اس بات پر بھی فرمائی ہے کہ یہ اللہ کا حصّہ جو انھوں نے مقرر کیا ہے یہ بھی بزعمِ خود کر لیا ہے، اپنے شارع خود بن بیٹھے ہیں ، آپ ہی جو حصّہ چاہتے ہیں اللہ کے لیے مقر کر لیتے ہیں اور جو چاہتے ہیں دُوسروں کے لیے طے کر دیتے ہیں۔ حالانکہ اپنی بخشش کا اصل مالک و مختار خود اللہ ہے اور یہ بات اسی کی شریعت کے مطابق طے ہونی چاہیے کہ اس بخشش میں سے کتنا حصّہ اس کے شکریہ کے لیے نکالا جائے اور باقی میں کون کون حق دار ہیں۔ پس درحقیقت اس خودمختارانہ طریقہ سے جو حصّہ یہ لوگ اپنے زعمِ باطل میں خدا کے لیے نکالتے ہیں اور فقراء و مساکین وغیرہ پر خیرات کرتے ہیں وہ بھی کوئی نیکی نہیں ہے۔ خدا کے ہاں اس کے مقبول ہونے کی بھی کوئی وجہ نہیں |
1 | اُوپر کا سلسلہ ٔ تقریر اس بات پر تمام ہوا تھا کہ اگر یہ لوگ نصیحت قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں اور اپنی جاہلیّت پر اصرار کیے جاتے ہیں تو ان سے کہہ دو کہ اچھا ، تم اپنے طریقہ پر عمل کرتے رہو اور میں اپنے طریقہ پر عمل کروں گا، قیامت ایک دن ضرور آنی ہے ، اس وقت تمھیں معلوم ہو جائے گا کہ اس روش کا کیا انجام ہوتا ہے، بہر حال یہ خوب سمجھ لو کہ وہاں ظالموں کو فلاح نصیب نہ ہوگی۔ اس کے بعد اب اُس جاہلیّت کی کچھ تشریح کی جاتی ہے جس پر وہ لوگ اصرار کر رہے تھے اور جسے چھوڑنے پر کسی طرح آمادہ نہ ہوتے تھے۔ انھیں بتا یا جارہا ہے کہ تمہارا وہ ”ظلم “ کیا ہے جس پر قائم رہتے ہوئے تم کسی فلاح کی اُمید نہیں کر سکتے |
Surah 6 : Ayat 140
قَدْ خَسِرَ ٱلَّذِينَ قَتَلُوٓاْ أَوْلَـٰدَهُمْ سَفَهَۢا بِغَيْرِ عِلْمٍ وَحَرَّمُواْ مَا رَزَقَهُمُ ٱللَّهُ ٱفْتِرَآءً عَلَى ٱللَّهِۚ قَدْ ضَلُّواْ وَمَا كَانُواْ مُهْتَدِينَ
یقیناً خسارے میں پڑ گئے وہ لوگ جنہوں نے اپنی اولاد کو جہالت و نادانی کی بنا پر قتل کیا اور اللہ کے دیے ہوئے رزق کو اللہ پر افترا پردازی کر کے حرام ٹھیرا لیا یقیناً وہ بھٹک گئے اور ہرگز وہ راہ راست پانے والوں میں سے نہ تھے1
1 | یعنی اگرچہ وہ لوگ جنھوں نے یہ رسم و رواج گھڑے تھے تمہارے باپ دادا تھے، تمہارے مذہبی بزرگ تھے، تمہارے پیشوا اور سردار تھے، لیکن حقیقت بہرحال حقیقت ہے ، ان کے ایجاد کیے ہوئے غلط طریقے صرف اس لیے صحیح اور مقدس نہیں ہو سکتے کہ وہ تمہارے اسلاف اور بزرگ تھے ۔ جن ظالموں نے قتلِ اولاد جیسے وحشیانہ فعل کو رسم بنایا ہو، جنہوں نے خدا کے دیے ہوئے رزق کو خواہ مخواہ خدا کے بندوں پر حرام کیا ہو ، جنھوں نے دین میں اپنی طرف سے نئی نئی باتیں شامل کر کے خدا کی طرف منسُوب کی ہوں، وہ آخر فلاح یاب اور راست رَو کیسے ہو سکتے ہیں۔ چاہے وہ تمہارے اسلاف اور بزرگ ہی کیوں نہ ہوں، بہر حال تھے وہ گمراہ اور اپنی اسی اس گمراہی کا بُرا انجام بھی وہ دیکھ کر رہیں گے |
Surah 16 : Ayat 52
وَلَهُۥ مَا فِى ٱلسَّمَـٰوَٲتِ وَٱلْأَرْضِ وَلَهُ ٱلدِّينُ وَاصِبًاۚ أَفَغَيْرَ ٱللَّهِ تَتَّقُونَ
اُسی کا ہے وہ سب کچھ جو آسمانوں میں ہے اور جو زمین میں ہے، اور خالصاً اُسی کا دین (ساری کائنات میں) چل رہا ہے1 پھر کیا اللہ کو چھوڑ کر تم کسی اور سے تقویٰ کرو گے؟2
2 | بالفاظِ دیگر کیا اللہ کے بجائے کسی اور کا خوف اور کسی اور کی ناراضی سے بچنے کا جذبہ تمہارے نظامِ زندگی کی بنیا د بنے گا؟ |
1 | دوسرے الفاظ میں اسی کی اطاعت پر اِس پورے کارخانۂ ہستی کا نظام قائم ہے |