Ayats Found (20)
Surah 15 : Ayat 3
ذَرْهُمْ يَأْكُلُواْ وَيَتَمَتَّعُواْ وَيُلْهِهِمُ ٱلْأَمَلُۖ فَسَوْفَ يَعْلَمُونَ
چھوڑو اِنہیں کھائیں، پییں، مزے کریں، اور بھلاوے میں ڈالے رکھے اِن کو جھوٹی امید عنقریب اِنہیں معلوم ہو جائے گا
Surah 24 : Ayat 37
رِجَالٌ لَّا تُلْهِيهِمْ تِجَـٰرَةٌ وَلَا بَيْعٌ عَن ذِكْرِ ٱللَّهِ وَإِقَامِ ٱلصَّلَوٲةِ وَإِيتَآءِ ٱلزَّكَوٲةِۙ يَخَافُونَ يَوْمًا تَتَقَلَّبُ فِيهِ ٱلْقُلُوبُ وَٱلْأَبْصَـٰرُ
اُن میں ایسے لوگ صبح و شام اُس کی تسبیح کرتے ہیں جنہیں تجارت اور خرید و فروخت اللہ کی یاد سے اور اقامت نماز و ادائے زکوٰۃ سے غافل نہیں کر دیتی وہ اُس دن سے ڈرتے رہتے ہیں جس میں دل الٹنے اور دیدے پتھرا جانے کی نوبت آ جائے گی
Surah 63 : Ayat 9
يَـٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُواْ لَا تُلْهِكُمْ أَمْوَٲلُكُمْ وَلَآ أَوْلَـٰدُكُمْ عَن ذِكْرِ ٱللَّهِۚ وَمَن يَفْعَلْ ذَٲلِكَ فَأُوْلَـٰٓئِكَ هُمُ ٱلْخَـٰسِرُونَ
اے 1لوگو جو ایمان لائے ہو، تمہارے مال اور تمہاری اولادیں تم کو اللہ کی یاد سے غافل نہ کر دیں2 جو لوگ ایسا کریں وہی خسارے میں رہنے والے ہیں
2 | مال اور اولاد کا ذکر تو خاص طور پر اس لیے کیا گیا ہے کہ انسان زیادہ تر انہی کے مفاد کی خاطر ایمان کے تقاضوں سے منہ موڑ کر منافقت، یا ضعف ایمان، یا فسق و نافرمانی میں مبتلا ہوتا ہے ، ورنہ در حقیقت مراد دنیا کی ہر وہ چیز ہے جو انسان کو اپنے اندر اتا مشغول کر لے کہ وہ خدا کی یاد سے غافل ہو جاۓ۔ یہ یاد خدا سے غفلت ہی ساری خرابیوں کی اصل جڑ ہے۔ اگر انسان کو یہ یاد رہے کہ وہ آزاد نہیں ہے بلکہ ایک خدا کا بندہ ہے ، اور وہ خدا اس کے تمام اعمال سے با خبر ہے ، اور اس کے سامنے جا کر ایک دن اسے اپنے اعمال کی جواب دہی کرنی ہے ، تو وہ کبھی کسی گمراہی و بد عملی میں مبتلا نہ ہو، اور بشری کمزوری سے اس کا قدم اگر کسی وقت پھسل بھی جاۓ تو ہوش آتے ہی وہ فوراً سنبھل جاۓ |
1 | اب تمام ان لوگوں کو جو دائرہ اسلام میں داخل ہوں ، قطع نظر اس سے کہ سچے مومن ہوں یا محض زبانی اقرار ایمان کرنے والے ، عام خطاب کر کے ایک کلمۂ نصیحت ارشاد فرمایا جا رہا ہے۔ یہ بات اس سے پہلے ہم کئی مرتبہ بیان کر چکے ہیں کہ قرآن مجید میں اَلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کے الفاظ سے کبھی تو سچے اہل ایمان کو خطاب کیا جاتا ہے ، اور کبھی اس کے مخاطب منافقین ہوتے ہیں کیونکہ وہ زبانی اقرار ایمان کرنے والے ہوا کرتے ہیں ،اور کبھی ہر طرح کے مسلمان بالعموم اس سے مراد ہوتے ہیں۔ کلام کا موقع و محل یہ بتا دیتا ہے کہ کہاں کونسا گروہ ان الفاظ کی مخاطب ہے |
Surah 21 : Ayat 2
مَا يَأْتِيهِم مِّن ذِكْرٍ مِّن رَّبِّهِم مُّحْدَثٍ إِلَّا ٱسْتَمَعُوهُ وَهُمْ يَلْعَبُونَ
ان کے پاس جو تازہ نصیحت بھی ان کے رب کی طرف سے آتی ہے1 اُس کو بہ تکلف سنتے ہیں اور کھیل میں پڑے رہتے ہیں2
2 | وَھُمْ یَلْعَبُوْنَ کے دو مطلب ہو سکتے ہیں ۔ ایک وہ جو اوپر ترجمہ میں اختیار کیا گیا ہ، اور اس میں کھیل سے مراد یہی زندگی ہے جسے خدا اور آخرت سے غافل لوگ کھیل رہے ہیں ۔ دوسرا مطلب یہ ہے کہ وہ اسے سنجیدگی کے ساتھ نہیں سنتے بلکہ کھیل اور مذاق کے طور پر سنتے ہیں |
1 | یعنی قرآن کی ہر نئی سورت جو محمد صلی اللہ علیہ و سلم پر نازل ہوتی ہے اور انہیں سنائی جاتی ہے |
Surah 21 : Ayat 3
لَاهِيَةً قُلُوبُهُمْۗ وَأَسَرُّواْ ٱلنَّجْوَى ٱلَّذِينَ ظَلَمُواْ هَلْ هَـٰذَآ إِلَّا بَشَرٌ مِّثْلُكُمْۖ أَفَتَأْتُونَ ٱلسِّحْرَ وَأَنتُمْ تُبْصِرُونَ
دِل ان کے (دوسری ہی فکروں میں) منہمک ہیں اور ظالم آپس میں سرگوشیاں کرتے ہیں کہ 1"یہ شخص آخر تم جیسا ایک بشر ہی تو ہے، پھر کیا تم آنکھوں دیکھتے جادُو کے پھندے میں پھنس جاؤ گے؟"
1 | پھنسے جاتے ہو‘‘ بھی ترجمہ ہو سکتا ہے ، اور دونوں ہی مطلب صحیح ہیں ۔ سرگوشیاں کفار مکہ کے وہ بڑے بڑے سردار آپ میں بیٹھ بیٹھ کر کیا کرتے تھے جن کو نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی دعوت کا مقابلہ کرنے کی بڑی فکر لاحق تھی وہ کہتے تھےکہ یہ شخص بہر حال نبی تو ہو نہیں سکتا ، کیونکہ ہم ہی جیسا انسان ہے ، کھاتا ہے ، پیتا ہے ، بازاروں میں چلتا پھرتا ہے ،بیوی بچے رکھتا ہے ۔ آخر اس میں وہ نرالی بات کیا ہے جو اس کو ہم سے ممتاز کرتی ہو اور ہماری بہ نسبت اس کو خدا سے ایک غیر معمولی تعلق کا مستحق بناتی ہو ؟ البتہ اس شخص کی باتوں میں اوراس کی شخصیت میں ایک جادو ہے کہ جو اس کی بات کان لگا سنتا ہے اور اس کے قریب جاتا ہے وہ اس کا گرویدہ ہوجاتا ہے اس اگر اپنی خیر چاہتے ہو تو نہ اس کی سنو اور نہ اس سے میل جول رکھو، کیونکہ اس کی باتیں سننا اور اس کے قریب جانا گویا آنکھوں دیکھتے جادو کے پھندے میں پھنسنا ہے ۔ جس چیز کی وجہ سے وہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم پر ’’ سحر ‘‘ کا الزام چسپاں کرتے تھے اس کی چند مثالیں آپ کے قدیم ترین سیرت نگار محمد بن اسحاق (متوفی 152 ھ) نے بیان کی ہیں ۔ وہ لکھتا ہے کہ ایک دفعہ عُتْبَہ بن رَبیعہ (ابو سفیان کے خسر، ہند جگر خور کے باپ) نے سرداران قریش سے کہا، اگر آپ لوگ پسند کریں تو میں جا کر محمدؐ سے ملوں اور اسے سمجھانے کی کوشش کروں ۔ یہ حضرت حمزہؓ کے اسلام لانے کے بعد کا واقعہ ہے جبکہ بنی صلی اللہ علیہ و سلم کے صحابہ کی تعداد روز بروز بڑھتی دیکھ کر اکابر قریش سخت پریشان ہو رہے تھے ۔ لوگوں نے کہا ابو الولید ، تم پر پورا اطمینان ہے ، ضرور جا کر اس سے بات کرو ۔ وہ حضورؐ کے پاس پہنچا اورت کہنے لگا، ’’ بھتیجے ، ہمارے ہاں تم کو جو عزت حاصل تھی، تم خود جانتے ہو، ور نسب میں بھی تم ایک شریف ترین گھرانے کے فرد ہو۔ تم اپنی قوم پر یہ کیا مصیبت لے آئے ہو ؟ تم نے جماعت میں تفرقہ ڈال دیا۔ ساری قوم کو بے وقوف ٹھیرایا ۔ اس کے دین اور اس کے معبودوں کی برائی کی۔ باپ دادا جو مر چکے ہیں ان سب کو تم نے گمراہ اور کافر بنا یا ۔ بھتیجے ، اگر ان باتوں سے تمہارا مقصد دنیا میں اپنی بڑائی قائم کرنا ہے تو آؤ ہم سب مل کر تم کو اتنا روپیہ دے دیتے ہیں کہ تم سب سے زیادہ مال دار ہو جاؤ ۔ سرداری چاہتے ہو تو ہم تمہیں سردار مانے لیتے ہیں ۔ بادشاہی چاہتے ہو تو بادشاہ بنا دیتے ہیں ۔ اور اگر تمہیں کوئی بیماری ہو گئی ہے جس کی وجہ سے تم کو واقعی سوتے یا جاگتے میں کچھ نظر آنے لگا ہے تو ہم سب مل کر بہترین طبیبوں سے تمہارا علاج کراۓ دیتے ہیں ۔‘‘ یہ باتیں وہ کرتا رہا اور نبی صلی اللہ علیہ و سلم خاموش سنتے رہے ۔ جب وہ خوب بول چکا تو آپ نے فرمایا ’’ ابولولید ، جو کچھ آپ کہنا چاہتے تھے کہہ چکے ہیں ، یا اور کچھ کہنا ہے ‘‘۔ اس نے کہا بس مجھے جو کچھ کہنا تھا میں نے کہہ دیا۔ آپ نے فرمایا اچھا اب میری سنو ۔ بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّ حِیْمِ ، حٰمٓ ، تَنْزِیْلٌ مِّنَ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ اس کے بعد کچھ دیر تک مسلسل آپا سورہ حٰم السجدہ کی تلاوت فرماتے رہے اور عتبہ پیچھے زمین پر ہاتھ ٹیکے غور سے سنتا رہا ۔ اڑتیسویں آیت پر پہنچ کر آپ نے سجدہ کیا، اور پھر سر اٹھا کر عتبہ سے فرمایا ، ’’ابو الولید ، جو کچھ مجھے کہنا تھا وہ آپ نے سن لیا ، اب آپ جانیں اور آپ کا کام۔ ‘‘ عتبہ یہاں سے اٹھ کر سرداران قریش کی طرف پلٹا تو لوگوں نے دور سے ہی اس کو آتے دیکھ کر کہا ’’ خدا کی قسم ، ابولولید کا چہرا بدلا ہوا ہے ۔ یہ وہ صورت نہیں ہے جسے لے کر وہ گیا تھا۔‘‘ اس کے پہنچتے ہی لوگوں نے سوال کیا، ’’کہو ابولولید ، کیا کر آئے ہو‘‘؟ اس نے کہا ’’ خدا کی قسم ، آج میں نے ایسا کلام سنا ہے کہ اس سے پہلے کبھی نہ سنا تھا۔ واللہ یہ شعر نہیں ہے ، نہ سحر ہے اور نہ کہانت ۔ اے معشر قریش ، میری بت مانو اور اس شخص کو اس کے حال پر چھوڑ دو۔ اس کی باتیں جو میں نے سنی ہیں رنگ لا کر رہیں گی۔ اگر عرب اس پر غالب آ گئے تو اپنے بھائی کا خون تمہاری گردن پر نہ ہو گا، دوسروں پر ہو گا۔ اور اگر یہ عرب پر غالب آگیا تو اس کی حکومت تمہاری حکومت ہو گی۔ اور اس کی عزت تمہاری عزت ‘‘۔ لوگوں نے کہا ’’ واللہ، ابولولید تم پر بھی اس کا جادو چل گیا۔‘‘ اس نے کہا ’’ یہ میری راۓ ہے ، اب تم جانو اور تمہارا کام‘‘۔ (ابن ہشام، جلد اول ، ص 313 ۔ 314)۔ بیہقی نے اس واقعہ کے متعلق جو روایات جمع کی ہیں ان میں سے ایک روایت میں یہ اضافہ ہے کہ جب حضورؐ سورہ حٰم سجدہ کی تلاوت کرتے ہوۓ اس آیت پر پہنچے کہ : فَاِنْ اَگْرَجُوْ ا فَقُلْاَنْذَرْتُکُمْ صٰعِقَۃً مِّثْلَ صَاعِقَۃ، عَادٍ وَّ ثَمُوْدٍ ، تو عتبہ نے بے اختیار آگے بڑھ کر آپ کے منہ پر ہات رکھ دیا اور کہنے لگا کہ خدا کے لیے اپنی قوم پر رحم کرو۔ دوسرا واقعہ ابن اسحاق نے یہ بیان کیا ہے کہ ایک دفعہ قبیلہ اَرَاش کا ایک شخص کچھ اونٹ لے کر مکہ آیا ۔ ابو جہل نے اس کے اونٹ خرید لیے اور جب اس نے قیمت طلب کی تو ٹال مٹول کرنے لگا۔ اَرَشی نے تنگ آ کر ایک روز حرم کعبہ میں قریش کے سرداروں کو جا پکڑا اور مجمع عام میں فریاد شروع کر دی۔ دوسری طرف حرم کے ایک گوشے میں نبی صلی اللہ علیہ و سلم تشریف فرما تھے ۔ سرداران قریش نے اس شخص سے کہا کہ ’’ ہم کچھ نہیں کر سکتے ، دیکھو، وہ صاحب جو اس کونے میں بیٹھے ہیں ، ان سے جا کر کہو، وہ تم کو تمہارا روپیہ دلوا دیں گے ۔ ‘‘ اَرَشی نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی طرف چلا، اور قریش کے سرداروں نے آپس میں کہا ’’ آج لطف آۓ گا ‘‘ ۔ اراشی نے جا کر حضور سے اپنی شکایت بیان کی ۔ آپ اسی وقت اٹھ کھڑے ہوۓ اور اسے ساتھ لے کر ابو جہل کے مکان کی طرف روانہ ہو گئے ۔ سرداروں نے پیچھے ایک آدمی لگا دیا کہ جو کچھ گزرے اس کی خبر لا کر دے ۔ ۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم سیدھے ابو جہل کے دروازے پر پہنچے اور کنڈی کھٹکھٹائی ۔ اس نے پوچھا ’’ کون‘‘؟ آپ نے جواب دیا ’’محمدؐ‘‘ وہ حیران ہو کر باہر نکل آیا۔ آپ نے اس سے کہا ’’ اس شخص کا حق ادا کر دو۔‘‘ اس نے جواب میں کوئی چوں و چرا نہ کی، اندر گیا اور اس کے اونٹوں کی قیمت لا کر اس کے ہاتھ میں دے دی۔ قریش کا مخبر یہ حال دیکھ کر حرم کی طرف دوڑا اور سرداروں کو سارا ماجرا سنا دیا اور کہنے لگا کہ واللہ آج وہ عجیب معاملہ دیکھا ہے جو کبھی نہ دیکھا تھا، حَکَم بن ہشام (ابو جہل) جب نکلا ہے تو محمدؐ کو دیکھتے ہی اس کا رنگ فق ہو گیا اور جب محمدؐ نے اس سے کہا کہ اس کا حق ادا کر دو تو یہ معلوم ہوتا تھا کہ جیسے حکم بن ہشام کے جسم میں جان نہیں ہے ۔ (ابن ہشام، جلد 2 ، ص 29 ۔30 ) ۔ یہ تھا شخصیت اور سیرت و کردار کا اثر اور وہ تھا کلام کا اثر ، جس کو وہ لوگ جادو قرار دیتے تھے اور ناواقف لوگوں کو یہ کہہ کہہ کر ڈراتے تھے کہ اس شخص کے پاس نہ جانا ورنہ جادو کر دے گا |
Surah 102 : Ayat 1
أَلْهَـٰكُمُ ٱلتَّكَاثُرُ
تم لوگوں کو زیادہ سے زیادہ اور ایک دوسرے سے بڑھ کر دنیا حاصل کرنے کی دھن نے غفلت میں ڈال رکھا ہے1
1 | اصل میں ’’ اَلْھٰکُمُ التَّکَاثُرُ ۔ ‘‘فرمایا گیا ہے جس کے معنی میں اتنی وسعت ہے کہ ایک پوری عبارت میں بمشکل اس کو ادا کیا جا سکتا ہے۔ ’’ اَلْھٰکُمُ ۔ لَہْو ‘‘ سے ہے جس کے اصل معنی غفلت کے ہیں، لیکن عربی زبان میں یہ لفظ ہر اس شغل کے لیے بولالا جاتا ہے جس سے آدمی کو دلچسپی اتنی بڑھ جائے کہ وہ اس میں ’’ مُنہمِک ‘‘ ہو کر دوسری ا ہم ترین چیزوں سے غافل ہو جائے۔ اس مادے سے جب الھاکم کا لفاظ بولا جائے گا تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ کسی لہو نے تم کو اپنے اندر ایسا مشغول کر لیا ہے کہ تمہیں کسی اور چیز کا، جو اس سے اہم تر ہے، ہوش باقی نہیں رہا ہے۔ اسی کی دھن تم پر سوار ہے۔ اسی کی فکر میں تم لگے ہوئے ہو۔ اور اس انہماک نے تم کو بالکل غافل کر دیا ہے۔ ’’ تَکاثُر ‘‘کثرت سے ہے، اور اس کے تین معنی ہیں۔ ایک یہ کہ آدمی زیادہ سے زیادہ کثرت حاصل کرنے کی کوشش کرے۔ دوسرے یہ کہ لوگ کثرت کے حصول میں ایک دوسرے بڑھ جانے کی کوشش کریں۔ تیسرے یہ کہ لوگ ایک دوسرے کے مقابلے میں اس بات پر فخر جتائیں کہ انہیں دوسروں سے زیادہ کثرت حاصل ہے۔ پس ’’ اَلْھٰکُمُ التَّکَاثُرُ ۔ ‘‘کے معنی ہوئے ’’ تکاثُر ‘‘نے تمہیں اپنے اندر ایسا مشغول کر لیا ہے کہ اس کی دھن نے تمہیں اس سے اہم تر چیزوں سے غافل کر دیا ہے۔ اس فقرے میں یہ تصریح نہیں کی گئی ہے کہ تکاثر میں کس چیز کی کثرت اور ’’ اَلْھٰکُمْ ‘‘ میں کس چیز سے غافل ہو جانا مراد ہے، اور ’’ اَلْھٰکُمْ ‘‘ (تم کو غافل کر دیا ہے) کے مخاطب کون لوگ ہیں۔ اس عدم تصریح کی وجہ سے ان الفاظ کا اطلاق اپنے وسیع ترین مفہوم پر ہو جاتا ہے۔ تکاثر کے معنی معدود نہیں رہتے بلکہ دنیا کے تمام فوائد و منافع ، سامان عیش، اسبابِ لذت اور وسائل قوت و اقتدار کو زیادہ سے زیادہ حاصل کرنے کی سعی و جہد کرنا، ان کے حصول میں ایک دوسرے سے بڑھ جانے کی کوشش کرنا، اور ایک دوسرے کے مقابلے میں ان کی کثرت پر فخر جتانا اس کے مفہوم میں شامل ہو جاتا ہے۔ اسی طرح ’’ اَلْھٰکُمْ ‘‘کے مخاطب بھی محدود نہیں رہتے بلکہ ہر زمانے کے لوگ اپنی انفرادی حیثیت سے بھی اور اجتماعی حیثیت سے بھی اس کے مخاطب ہو جاتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہو تا ہے کہ زیادہ سے زیادہ دنیا حاصل کرنے، اور اس میں ایک دوسرے سے بڑھ، اور دوسرے کے مقابلے میں اس پر فخر جتانے کی دھن افراد پر بھی سوار ہے اور ا قوم پر بھی۔ اسی طرح ’’ اَلْھٰکُمُ التَّکَاثُر ‘‘میں چونکہ اس امر کی صراحت نہیں کی گئی کہ تکاثر نے لوگوں کو اپنے اندر منہمک کر کے کس چیز سے غافل کر دیا ہے، اس لیے اس کے مفہوم میں بھی بڑی وسعت پیدا ہو گئی ہے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ لوگ کو اس تکاثر کی دھن نے ہر اس چیز سے غافل کر دیا ہے جو اس کی بہ نسبت اہم تر ہے۔ وہ خدا سے غافل ہو گئے ہیں ۔ عاقبت سے غافل ہو گئے ہیں۔ اخلاقی حدود اور اخلاقی ذمہ داریوں سے غافل ہو گئے ہیں۔ حق داروں کے حقوق اور ان کی ادائیگی کے معاملہ میں اپنے فرائض سے غافل ہو گئے ہیں۔ انہیں معیار زندگی بلند کرنے کی فکر ہے، اس بات کی کوئی فکر نہیں کہ معیار آدمیت کس قدر گر رہا ہے۔ انہیں زیادہ سے زیادہ دولت چاہیے، اس بات کی کوئی پرواہ نہیں کہ وہ کس ذریعہ سے حاصل ہوتی ہے۔ انہیں عیش و عشرت اور جسمانی لذتوں کے سامان زیادہ سے زیادہ مطلوب ہیں، اس ہوس رانی میں غرق ہو کر وہ اس بات سے بالکل غافل ہو گئے ہیں کہ اس روش کا انجام کیا ہے۔ انہیں زیادہ سے زیادہ طاقت ، زیادہ سے زیادہ فوجیں، زیادہ سے زیادہ ہتھیار فراہم کرنے کی فکر ہے اور اس معاملہ میں ان کے درمیان ایک دوسرےسے آگے نکل جانے کی دوڑ جا ری ہے، اس بات کی فکر انہیں نہیں ہے کہ یہ سب کچھ خدا کی زمین کو ظلم سے بھر دینے اور انسانیت کو تباہ و برباد کر دینے کا سرو سامان ہے۔ غرض تکاثر کی بے شمار صورتیں ہیں جنہوں نے اشخاص اور اقوام سب کو اپنے اندر ایسا مشغول کر رکھا ہے کہ انہیں دنیا اور اس کے فائدوں اور لذتوں سے بالاتکر کسی چیز کا ہوش نہیں رہا ہے |
Surah 102 : Ayat 2
حَتَّىٰ زُرْتُمُ ٱلْمَقَابِرَ
یہاں تک کہ (اسی فکر میں) تم لب گور تک پہنچ جاتے ہو1
1 | یعنی تم اپنی ساری عمر اسی کوشش میں کھپا دیتے ہو اور مرتے دم تک یہ فکر تمہارا پیچھا نہیں چھوڑتی |
Surah 6 : Ayat 32
وَمَا ٱلْحَيَوٲةُ ٱلدُّنْيَآ إِلَّا لَعِبٌ وَلَهْوٌۖ وَلَلدَّارُ ٱلْأَخِرَةُ خَيْرٌ لِّلَّذِينَ يَتَّقُونَۗ أَفَلَا تَعْقِلُونَ
دنیا کی زندگی تو ایک کھیل اور ایک تماشا ہے1، حقیقت میں آخرت ہی کا مقام اُن لوگوں کے لیے بہتر ہے جو زیاں کاری سے بچنا چاہتے ہیں، پھر کیا تم لوگ عقل سے کام نہ لو گے؟
1 | (اس کا یہ مطلب نہیں کہ دنیا کی زندگی میں کوئی سنجیدگی نہیں ہے ارو یہ محض کھیل اور تماشے کے طور پر بنائی گئی ہے۔ دراصل اس کا مطلب یہ ہے کہ آخرت کی حقیقی اور پائیدار زندگی کی مقابلہ میں یہ زندگی ایسی ہے جیسے کوئی شخص کچھ دیر کھیل اور تفریح میں دل بہلائے اور پھر اصل سنجیدہ کاروبار کی طرف واپس ہو جائے۔ نیز اسے کھیل اور تماشے سے تشبیہ اس لیے بھی دی گئی ہے کہ یہاں حقیقت کے مخفی ہونے کی وجہ سے بے بصیرت اور ظاہر پرست انسانوں کے لیے غلط فہمیوں میں مبتلا ہونے کے بہت سے اسباب موجود ہیں اور ان غلط فہمیوں میں پھنس کر لوگ حقیقت نفس الامری کے خلاف ایسے ایسے عجیب طرزِ عمل اختیار کرتے ہیں جن کی بدولت ان کی زندگی محض ایک کھیل اور تماشا بن کر رہ جاتی ہے۔ مثلاً جو شخص یہاں بادشاہ بن کر بیٹھتا ہے اس کی حیثیت حقیقت میں تھیئٹر کے اس مصنوعی بادشاہ سے مختلف نہیں ہوتی جو تاج پہن کر جلوہ افروز ہوتا ہے اور اس طرح حکم چلاتا ہے گویا کہ وہ واقعی بادشا ہے۔ حالانکہ حقیقی بادشاہی کی اس کو ہوا تک نہیں لگی ہوتی۔ ڈائرکٹر کے ایک اشارے پر وہ معزول ہوجاتا ہے ، قید کیا جاتا ہے اور اس کےقتل تک کا فیصلہ صادر ہو جاتا ہے۔ ایسے ہی تماشے اس دُنیا میں ہر طرف ہو رہے ہیں۔ کہیں کسی ولی یا دیوی کے دربار سے حاجت روائیاں ہو رہی ہیں، حالاں کہ وہاں حاجت روائی کی طاقت کا نام و نشان تک موجود نہیں۔ کہیں کوئی غیب دانی کے کمالات کا مظاہرہ کر رہا ہے، حالاں کہ غیب کے عِلم کا وہاں شائبہ تک نہیں۔ کہیں کوئی لوگوں کا رزاق بنا ہوا ہے ، حالاں کہ بیچارہ خود اپنے رزق کے لیے کسی اَور کا محتاج ہے۔ کہیں کوئی اپنے آپ کو عزّت اور ذلّت دینے والا ، نفع اور نقصان پہنچانے والا سمجھے بیٹھا ہے اور یوں اپنی کبریائی کے ڈنکے بجا رہا ہے گویا کہ وہی گردو پیش کی ساری مخلوق کا خدا ہے، حالاں کہ بندگی کی ذلت کا داغ اس کی پیشانی پر لگا ہوا ہے اور قسمت کا ایک ذرا سا جھٹکا اسے کبریائی کے مقام سے گر ا کر انہی لوگوں کے قدموں میں پامال کرا سکتا ہے جن پر وہ کل تک خدائی کر رہا تھا۔ یہ سب کھیل جو دینا کی چند روزہ زندگی میں کھیلے جارہے ہیں ، موت کی ساعت آتے ہی یکلخت ختم ہو جائیں گے اور اس سرحد سے پار ہوتے ہی انسان اُس عالَم میں پہنچ جائے گا جہاں سب کچھ عین مطابقِ حقیقت ہو گا اور جہاں دُنیوی زندگی کی ساری غلط فہمیوں کے چھلکے اتار کر ہر انسان کو دکھا دیا جائے گا کہ وہ صداقت کا کتنا جوہر اپنے ساتھ لایا ہے جو میزانِ حق میں کسی وزن اور کسی قدر و قیمت کا حامل ہو سکتا ہو |
Surah 29 : Ayat 64
وَمَا هَـٰذِهِ ٱلْحَيَوٲةُ ٱلدُّنْيَآ إِلَّا لَهْوٌ وَلَعِبٌۚ وَإِنَّ ٱلدَّارَ ٱلْأَخِرَةَ لَهِىَ ٱلْحَيَوَانُۚ لَوْ كَانُواْ يَعْلَمُونَ
اور یہ دنیا کی زندگی کچھ نہیں ہے مگر ایک کھیل اور دل کا بہلاوا 1اصل زندگی کا گھر تو دار آخرت ہے، کاش یہ لوگ جانتے2
2 | یعنی اگر یہ لوگ اس حقیقت کو جانتے کہ دنیا کی جوجود زندگی صرف ایک مہلت امتحان ہے اور انسان کے لیے اصل زندگی جو ہمیشہ ہمیشہ باقی رہنے والی ہے، آخرت کی زندگی ہے، تو وہ یہاں امتحان کی مدت کو اس لہوو لعب میں ضائع کرنے کی بجائے اس کا ایک ایک لمحہ اُن کاموں میں استعمال کرتے جو اُس ابدی زندگی میں بہتر نتائج پیدا کرنے والے ہوں۔ |
1 | یعنی اس کی حقیقت بس اتنی ہی ہے جیسے بچے تھوڑی دیر کے لیے کھیل کود لیں اور پھر اپنے اپنے گھر کو سدھاریں، یہاں جو بادشاہ بن گیا ہے وہ حقیقت میں بادشاہ نہیں بن گیا ہے بلکہ صرف بادشاہی کا ڈراما کر رہا ہے ایک وقت آتا ہے جب اس کا یہ کھیل ختم ہو جاتا ہے اور اسی بے سروسامانی کے ساتھ وہ تخت شاہی سے رخصت ہوتا ہے جس کے ساتھ وہ اس دنتا میں آیا تھا۔ اسی طرح زندگی کی کوئی شکل بھی یہاں مستقل اور پائیدار نہیں ہے جو جس حال میں بھی ہے عارضی طور پر ایک محدود مدت کے لیے ہے، اس چند روزہ زندگی کی کامرانیوں پر جو لوگ مرے مٹتے ہیں اور انہی کے لیے ضمیر وایمان کی بازی لگا کر کچھ عیش و عشرت کا سامان اور کچھ شوکت و حشمت کے ٹھاٹھ فراہم کر لیتے ہیں ان کی یہ ساری حرکتیں دل کے بہلاوے سے زیادہ کچھ نہیں ہیں، ان کھلونوں سے اگر وہ دس بیس یا ساٹھ ستر سال دل بہلالیں اور پھر موت کے دروازے سے خالی ہاتھ گزر کر اُس عالم میں پہنچیں جہاں کی دائمی و ابدی زندگی میں ان کا یہی کھیل بلائے بے درماں ثابت ہو تو آخراس طفل تسلی کا فائدہ کیا ہے؟ |
Surah 47 : Ayat 36
إِنَّمَا ٱلْحَيَوٲةُ ٱلدُّنْيَا لَعِبٌ وَلَهْوٌۚ وَإِن تُؤْمِنُواْ وَتَتَّقُواْ يُؤْتِكُمْ أُجُورَكُمْ وَلَا يَسْــَٔلْكُمْ أَمْوَٲلَكُمْ
یہ دنیا کی زندگی تو ایک کھیل اور تماشا ہے 1اگر تم ایمان رکھو اور تقویٰ کی روش پر چلتے رہو تو اللہ تمہارے اجر تم کو دے گا اور وہ تمہارے مال تم سے نہ مانگے گا2
2 | یعنی وہ غنی ہے، اسے اپنی ذات کے لیے تم سے لینے کی کچھ ضرورت نہیں ہے۔ اگر وہ اپنی راہ میں تم سے کچھ خرچ کرنے کے لیے کہتا ہے تو وہ اپنے لیے نہیں بلکہ تمہاری ہی بھلائی کے لیے کہتا ہے |
1 | یعنی آخرت کے مقابلے میں اس دنیا کی حیثیت اس سے زیادہ کچھ نہیں ہے کہ چند روز کا دل بہلاوا ہے۔ یہاں کی کامرانی و ناکامی کوئی حقیقی اور پائیدار چیز نہیں ہے جسے کوئی اہمیت حاصل ہو۔ اصل زندگی آخرت کی ہے جس کی کامیابی کے لیے انسان کو فکر کرنی چاہیے۔ (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد سوم، تفسیر سورہ عنکبوت، حاشیہ 102) |