Ayats Found (2)
Surah 16 : Ayat 75
۞ ضَرَبَ ٱللَّهُ مَثَلاً عَبْدًا مَّمْلُوكًا لَّا يَقْدِرُ عَلَىٰ شَىْءٍ وَمَن رَّزَقْنَـٰهُ مِنَّا رِزْقًا حَسَنًا فَهُوَ يُنفِقُ مِنْهُ سِرًّا وَجَهْرًاۖ هَلْ يَسْتَوُۥنَۚ ٱلْحَمْدُ لِلَّهِۚ بَلْ أَكْثَرُهُمْ لَا يَعْلَمُونَ
اللہ ایک مثال دیتا ہے1 ایک تو ہے غلام، جو دوسرے کا مملوک ہے اور خود کوئی اختیار نہیں رکھتا دوسرا شخص ایسا ہے جسے ہم نے اپنی طرف سے اچھا رزق عطا کیا ہے اور وہ اس میں سے کھلے اور چھپے خوب خرچ کرتا ہے بتاؤ، کیا یہ دونوں برابر ہیں؟ الحمدللہ2، مگر اکثر لوگ (اس سیدھی بات کو) نہیں جانتے3
3 | یعنی باوجودیکہ انسانوں کے درمیان وہ صریح طور پر بااختیار اور بے اختیار کے فرق کو محسوس کرتے ہیں،اوراس فرق کو ملحوظ رکھ کر ہی دونوں کے ساتھ الگ الگ طرزِعمل اختیار کرتے ہیں، پھر بھی وہ ایسے جاہل و نادان بنے ہوئے ہیں کہ خالق اور مخلوق کا فرق ان کو سمجھ میں نہیں آتا۔ خالق کی ذات اور صفات اور حقوق اور اختیارات،سب میں وہ مخلوق کو اس کا شریک سمجھ رہے ہیں اور مخلوق کے ساتھ وہ طرزِعمل اختیار کر رہے ہیں جو صرف خالق کے ساتھ ہی اختیار کیاجا سکتا ہے۔عالمِ اسباب میں کوئی چیز مانگنی ہو تو گھر کے مالک سے مانگیں گے نہ کہ گھر کے غلام سے۔ مگر مبدًا فیض سے حاجات طلب کرنی ہوں تو کائنات کے مالک کو چھوڑ کر اس کے بندوں کے آگے ہاتھ پھیلا دیں گے۔ |
2 | سوال اورالحمد للہ کے درمیان ایک لطیف خلا ہے جسے بھرنے کے لیے خود لفظ الحمد للہ ہی میں بلیغ اشارہ موجود ہے۔ ظاہر ہے کہ نبیؐ کی زبان سے یہ سوال سُن کر مشرکین کے لیے اس کا یہ جواب دینا تو کسی طرح ممکن نہ تھا کہ دونوں برابر ہیں۔ لامحالہ اس کے جواب میں کسی نے صاف صاف اقرار کیا ہوگا کہ واقعی دونوں برابر نہیں ہیں،اور کسی نے اس اندیشے سے خاموشی اختیار کر لی ہوگی کہ اقراری جواب دینے کی صورت میں اُس کے منطقی نتیجے کا بھی اقرار کرنا ہو گا اوراس سے خود بخود اُن کے شرک کا ابطال ہو جائے گا۔ لہٰذا نبی نے دونوں کا جواب پا کر فرمایا الحمد للہ۔اقرار کرنے والوں کے اقرار پر بھی الحمد للہ، اور خاموش رہ جانے والوں کی خاموشی پر بھی الحمد للہ۔پہلی صورت میں اس کے معنی یہ ہوئے کہ”خدا کا شکر ہے، اتنی بات تو تمہاری سمجھ میں آئی“۔ دوسری صورت میں اس کا مطلب یہ ہے کہ”خاموش ہوگئے؟ الحمد للہ۔اپنی ساری ہٹ دھرمیوں کے باوجود دونوں کو برابر کہہ دینے کی ہمت تم بھی نہ کر سکے۔‘‘ |
1 | یعنی اگر مثالوں ہی سے بات سمجھنی ہے تواللہ صحیح مثالوں سے تم کو حقیقت سمجھاتا ہے۔ تم جو مثالیں دے رہے ہو وہ غلط ہیں،اس لیے تم ان سے غلط نتیجے نکال بیٹھتے ہو۔ |
Surah 16 : Ayat 76
وَضَرَبَ ٱللَّهُ مَثَلاً رَّجُلَيْنِ أَحَدُهُمَآ أَبْكَمُ لَا يَقْدِرُ عَلَىٰ شَىْءٍ وَهُوَ كَلٌّ عَلَىٰ مَوْلَـٰهُ أَيْنَمَا يُوَجِّههُّ لَا يَأْتِ بِخَيْرٍۖ هَلْ يَسْتَوِى هُوَ وَمَن يَأْمُرُ بِٱلْعَدْلِۙ وَهُوَ عَلَىٰ صِرَٲطٍ مُّسْتَقِيمٍ
اللہ ایک اور مثال دیتا ہے دو آدمی ہیں ایک گونگا بہرا ہے، کوئی کام نہیں کر سکتا، اپنے آقا پر بوجھ بنا ہوا ہے، جدھر بھی وہ اسے بھیجے کوئی بھلا کام اُس سے بن نہ آئے دوسرا شخص ایسا ہے کہ انصاف کا حکم دیتا ہے اور خود راہ راست پر قائم ہے بتاؤ کیا یہ دونوں یکساں ہیں؟1
1 | پہلی مثال میں اللہ اور بناوٹی معبودوں کے فرق کو صرف اختیار اور بے اختیاری کے اعتبار سے نمایاں کیا گیا تھا۔اب اس دوسری مثال میں وہی فرق اور زیادہ کھول کر صفات کے لحاظ سے بیان کیا گیا ہے۔مطلب یہ ہے کہ اللہ اور اِن بناوٹی معبودوں کے درمیان فرق صرف اتنا ہی نہیں ہے کہ ایک با اختیار مالک ہے اور دوسرا بے اختیار غلام۔ بلکہ مزید برآں یہ فرق بھی ہے کہ یہ غلام نہ تمہاری پکار سنتا ہے، نہ اس کا جواب دے سکتا ہے، نہ کوئی کام با ختیار ِخود کر سکتا ہے۔ اس کی اپنی زندگی کا ساراانحصار اُس کے آقا کی ذات پر ہے۔ اور آقا اگر کوئی کام اس پر چھوڑ دے تو وہ کچھ بھی نہیں بنا سکتا۔ بخلاف اس کے آقا کا حال یہ ہے کہ صرف ناطق ہی نہیں ناطق حکیم ہے، دنیا کو عدل کا حکم دیتا ہے۔ اور صرف فاعلِ مختار ہی نہیں، فاعلِ برحق ہے، جو کچھ کرتا ہے راستی اور صحت کے ساتھ کرتا ہے۔ بتاؤ یہ کونسی دانائی ہے کہ تم ایسے آقا اورایسے غلام کو یکساں سمجھ رہے ہو؟ |