Ayats Found (4)
Surah 6 : Ayat 148
سَيَقُولُ ٱلَّذِينَ أَشْرَكُواْ لَوْ شَآءَ ٱللَّهُ مَآ أَشْرَكْنَا وَلَآ ءَابَآؤُنَا وَلَا حَرَّمْنَا مِن شَىْءٍۚ كَذَٲلِكَ كَذَّبَ ٱلَّذِينَ مِن قَبْلِهِمْ حَتَّىٰ ذَاقُواْ بَأْسَنَاۗ قُلْ هَلْ عِندَكُم مِّنْ عِلْمٍ فَتُخْرِجُوهُ لَنَآۖ إِن تَتَّبِعُونَ إِلَّا ٱلظَّنَّ وَإِنْ أَنتُمْ إِلَّا تَخْرُصُونَ
یہ مشرک لوگ (تمہاری ان باتوں کے جواب میں) ضرور کہیں گے کہ 1"اگر اللہ چاہتا تو نہ ہم شرک کرتے اور نہ ہمارے باپ دادا، اور نہ ہم کسی چیز کو حرام ٹھراتے" ایسی ہی باتیں بنا بنا کر اِن سے پہلے کے لوگوں نے بھی جھٹلایا تھا یہاں تک کہ آخر کار ہمارے عذاب کا مزا انہوں نے چکھ لیا ان سے کہو "کیا تمہارے پاس کوئی علم ہے جسے ہمارے سامنے پیش کرسکو؟ تم تو محض گمان پر چل رہے ہو اور نری قیاس آرائیاں کرتے ہو"
1 | یعنی وہ اپنے جرم اور اپنی غلط کاری کے لیے وہی پُرانا عذر پیش کریں گے جو ہمیشہ سے مجرم اور غلط کار لوگ پیش کرتے رہے ہیں۔ وہ کہیں گے کہ ہمارے حق میں اللہ کی مشیّت یہی ہے کہ ہم شرک کریں اور جن چیزوں کو ہم نے حرام ٹھیرا رکھا ہے انھیں حرام ٹھیرائیں۔ ورنہ اگر خدا نہ چاہتا کہ ہم ایسا کریں تو کیوں کر ممکن تھا کہ یہ افعال ہم سے صادر ہوتے ۔ پس چونکہ ہم اللہ کی مشیّت کے مطابق یہ سب کچھ کر رہے ہیں اس لیے درست کر رہے ہیں، اس کا الزام اگر ہے تو ہم پر نہیں ، اللہ پر ہے۔ اور جو کچھ ہم کر رہے ہیں ایسا ہی کرنے پر مجبور ہیں کہ اس کے سوا کچھ اور کرنا ہماری قدرت سے باہر ہے |
Surah 6 : Ayat 150
قُلْ هَلُمَّ شُهَدَآءَكُمُ ٱلَّذِينَ يَشْهَدُونَ أَنَّ ٱللَّهَ حَرَّمَ هَـٰذَاۖ فَإِن شَهِدُواْ فَلَا تَشْهَدْ مَعَهُمْۚ وَلَا تَتَّبِعْ أَهْوَآءَ ٱلَّذِينَ كَذَّبُواْ بِـَٔـايَـٰتِنَا وَٱلَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ بِٱلْأَخِرَةِ وَهُم بِرَبِّهِمْ يَعْدِلُونَ
ان سے کہو کہ 1"لاؤ اپنے وہ گواہ جو اس بات کی شہادت دیں کہ اللہ ہی نے اِن چیزوں کو حرام کیا ہے" پھر اگر وہ شہادت دے دیں تو تم ان کے ساتھ شہادت نہ دینا، اور ہرگز اُن لوگوں کی خواہشات کے پیچھے نہ چلنا جنہوں نے ہماری آیات کو جھٹلایا ہے، اور جو آخرت کے منکر ہیں، اور جو دوسروں کو اپنے رب کا ہمسر بناتے ہیں
1 | یعنی اگر وہ شہادت کی ذمہ داری کو سمجھتے ہیں اور جانتے ہیں کہ شہادت اُسی بات کی دینی چاہیے جس کا آدمی کو علم ہو ، تو وہ کبھی یہ شہادت دینے کی جرأت نہ کریں گے کہ کھانے پینے پر یہ قیُود ، جو ان کے ہاں رسم کے طور پر رائج ہیں ، اور یہ پابندیاں کہ فلاں چیز کو فلاں نہ کھائے اور فلاں چیز کو فلاں کا ہاتھ نہ لگے، یہ سب خدا کی مقرر کر دہ ہیں۔ لیکن اگر یہ لوگ شہادت کی ذمہ داری کو محسُوس کیے بغیر اتنی ڈھٹائی پر اُتر آئیں کہ خدا کا نام لے کر جھُوٹی شہادت دینے میں بھی تامّل نہ کریں، تو ان کے اس جھُوٹ میں تم ان کے ساتھی نہ بنو۔ کیونکہ اُن سے یہ شہادت اس لیے طلب نہیں کی جارہی ہے کہ اگر یہ شہادت دے دیں تو تم ان کی بات مان لوگے، بلکہ اس کی غرض صرف یہ ہے کہ ان میں سے جن لوگوں کے اندر کچھ بھی راست بازی موجود ہے ان سے جب کہا جائے گا کہ کیا واقعی تم سچائی کے ساتھ اس بات کی شہادت دے سکتے ہو کہ یہ ضوابط خدا ہی کے مقرر کیے ہوئے ہیں تو وہ اپنی رسموں کی حقیقت پر غور کریں گے، اور جب ان کے مِن جانب اللہ ہونے کا کوئی ثبوت نہ پائیں گے تو ان فضول رسموں کی پابندی سے باز آجائیں گے |
Surah 16 : Ayat 35
وَقَالَ ٱلَّذِينَ أَشْرَكُواْ لَوْ شَآءَ ٱللَّهُ مَا عَبَدْنَا مِن دُونِهِۦ مِن شَىْءٍ نَّحْنُ وَلَآ ءَابَآؤُنَا وَلَا حَرَّمْنَا مِن دُونِهِۦ مِن شَىْءٍۚ كَذَٲلِكَ فَعَلَ ٱلَّذِينَ مِن قَبْلِهِمْۚ فَهَلْ عَلَى ٱلرُّسُلِ إِلَّا ٱلْبَلَـٰغُ ٱلْمُبِينُ
یہ مشرکین کہتے ہیں 1"اگر اللہ چاہتا تو نہ ہم اور نہ ہمارے باپ دادا اُس کے سوا کسی اور کی عبادت کرتے اور نہ اُس کے حکم کے بغیر کسی چیز کو حرام ٹھیراتے" ایسے ہی بہانے اِن سے پہلے کے لوگ بھی بناتے رہے ہیں2 تو کیا رسولوں پر صاف صاف بات پہنچا دینے کے سوا اور بھی کوئی ذمہ داری ہے؟
2 | یعنی یہ کوئی نئی بات نہیں ہے کہ آج تم لوگ اللہ کی مشیت کو اپنی گمراہی اور بد اعمالی کے لیے حجت بنا رہے ہو۔ یہ تو بڑی پرانی دلیل ہے جسے ہمیشہ سے بگڑے ہوئے لوگ اپنے ضمیر کو دھوکا دینے اور ناصحوں کا منہ بند کرنے کے لیے استعمال کرتے رہے ہیں۔ یہ مشرکین کی حجت کا پہلا جواب ہے۔ اس جواب کا پورا لطف اُٹھانے کے لیے یہ بات ذہن میں رہنی ضروری ہے کہ ابھی چند سطریں پہلے مشرکین کے اس پروپیگنڈا کا ذکر کر چکا ہے جو وہ قرآن کے خلا ف یہ کہہ کہہ کر کیا کرتے تھےکہ ”اجی! وہ تو پرانے وقتوں کی فرسودہ کہانیاں ہیں“۔ گویا ان کو نبی پراعتراض یہ تھا کہ یہ صاحب نئی بات کونسی لائے ہیں، وہی پرانی باتیں دہرا رہے ہیں جو طوفانِ نوح کے وقت سے لے کر آج تک ہزاروں مرتبہ کہی جا چکی ہیں۔اس کے جواب میں ان کے دلیل (جسے وہ بڑے زور کی دلیل سمجھتے ہوئے پیش کرتے تھے) کا ذکر کرنے کے بعد یہ لطیف اشارہ کیا گیا ہے کہ حضرات، آپ ہی کونسے ماڈرن ہیں، یہ مایہ ٔناز دلیل جو آپ لائے ہیں اس میں قطعی کوئی اُپچ موجود نہیں ہے، وہی دقیا نوسی بات ہے جو ہزاروں برس سے لوگ کہتے چلے آرہے ہیں، آپ نے بھی اُسی کو دہرا دیا ہے۔ |
1 | مشرکین کی اس حجت کو سورۂ انعام آیات نمبر ۱۴۸ – ۱۴۹ میں بھی نقل کر کے اس کا جواب دیا گیا ہے۔وہ مقام اوراس کے حواشی اگر نگاہ میں رہیں تو سمجھنے میں زیادہ سہولت ہو گی۔ (ملاحظہ وہ سورۂ انعام، حواشی نمبر ۱۲۴ تا نمبر ۱۲۶) |
Surah 43 : Ayat 20
وَقَالُواْ لَوْ شَآءَ ٱلرَّحْمَـٰنُ مَا عَبَدْنَـٰهُمۗ مَّا لَهُم بِذَٲلِكَ مِنْ عِلْمٍۖ إِنْ هُمْ إِلَّا يَخْرُصُونَ
یہ کہتے ہیں 1"اگر خدائے رحمٰن چاہتا (کہ ہم اُن کی عبادت نہ کریں) تو ہم کبھی اُن کو نہ پوجتے" یہ اس معاملے کی حقیقت کو قطعی نہیں جانتے، محض تیر تکے لڑاتے ہیں
1 | یہ اپنی گمراہی پر تقدیر سے ان کا استدلال تھا جو ہمیشہ سے غلط کار لوگوں کا شیوہ رہا ہے ۔ ان کا کہنا یہ تھا کہ ہمارا فرشتوں کی عبادت کرنا اسی لیے تو ممکن ہوا کہ اللہ نے ہمیں یہ کام کرنے دیا ۔ اگر وہ نہ چاہتا کہ ہم یہ فعل کریں تو ہم کسے کر سکتے تھے پھر مدت ہاۓ دراز سے ہمارے ہاں یہ کام ہو رہا ہے اور اللہ کی طرف سے اس پر کوئی عذاب نازل نہ ہوا۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ اللہ کو ہمارا یہ کام نا پسند نہیں ہے |