Ayats Found (13)
Surah 6 : Ayat 148
سَيَقُولُ ٱلَّذِينَ أَشْرَكُواْ لَوْ شَآءَ ٱللَّهُ مَآ أَشْرَكْنَا وَلَآ ءَابَآؤُنَا وَلَا حَرَّمْنَا مِن شَىْءٍۚ كَذَٲلِكَ كَذَّبَ ٱلَّذِينَ مِن قَبْلِهِمْ حَتَّىٰ ذَاقُواْ بَأْسَنَاۗ قُلْ هَلْ عِندَكُم مِّنْ عِلْمٍ فَتُخْرِجُوهُ لَنَآۖ إِن تَتَّبِعُونَ إِلَّا ٱلظَّنَّ وَإِنْ أَنتُمْ إِلَّا تَخْرُصُونَ
یہ مشرک لوگ (تمہاری ان باتوں کے جواب میں) ضرور کہیں گے کہ 1"اگر اللہ چاہتا تو نہ ہم شرک کرتے اور نہ ہمارے باپ دادا، اور نہ ہم کسی چیز کو حرام ٹھراتے" ایسی ہی باتیں بنا بنا کر اِن سے پہلے کے لوگوں نے بھی جھٹلایا تھا یہاں تک کہ آخر کار ہمارے عذاب کا مزا انہوں نے چکھ لیا ان سے کہو "کیا تمہارے پاس کوئی علم ہے جسے ہمارے سامنے پیش کرسکو؟ تم تو محض گمان پر چل رہے ہو اور نری قیاس آرائیاں کرتے ہو"
1 | یعنی وہ اپنے جرم اور اپنی غلط کاری کے لیے وہی پُرانا عذر پیش کریں گے جو ہمیشہ سے مجرم اور غلط کار لوگ پیش کرتے رہے ہیں۔ وہ کہیں گے کہ ہمارے حق میں اللہ کی مشیّت یہی ہے کہ ہم شرک کریں اور جن چیزوں کو ہم نے حرام ٹھیرا رکھا ہے انھیں حرام ٹھیرائیں۔ ورنہ اگر خدا نہ چاہتا کہ ہم ایسا کریں تو کیوں کر ممکن تھا کہ یہ افعال ہم سے صادر ہوتے ۔ پس چونکہ ہم اللہ کی مشیّت کے مطابق یہ سب کچھ کر رہے ہیں اس لیے درست کر رہے ہیں، اس کا الزام اگر ہے تو ہم پر نہیں ، اللہ پر ہے۔ اور جو کچھ ہم کر رہے ہیں ایسا ہی کرنے پر مجبور ہیں کہ اس کے سوا کچھ اور کرنا ہماری قدرت سے باہر ہے |
Surah 6 : Ayat 150
قُلْ هَلُمَّ شُهَدَآءَكُمُ ٱلَّذِينَ يَشْهَدُونَ أَنَّ ٱللَّهَ حَرَّمَ هَـٰذَاۖ فَإِن شَهِدُواْ فَلَا تَشْهَدْ مَعَهُمْۚ وَلَا تَتَّبِعْ أَهْوَآءَ ٱلَّذِينَ كَذَّبُواْ بِـَٔـايَـٰتِنَا وَٱلَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ بِٱلْأَخِرَةِ وَهُم بِرَبِّهِمْ يَعْدِلُونَ
ان سے کہو کہ 1"لاؤ اپنے وہ گواہ جو اس بات کی شہادت دیں کہ اللہ ہی نے اِن چیزوں کو حرام کیا ہے" پھر اگر وہ شہادت دے دیں تو تم ان کے ساتھ شہادت نہ دینا، اور ہرگز اُن لوگوں کی خواہشات کے پیچھے نہ چلنا جنہوں نے ہماری آیات کو جھٹلایا ہے، اور جو آخرت کے منکر ہیں، اور جو دوسروں کو اپنے رب کا ہمسر بناتے ہیں
1 | یعنی اگر وہ شہادت کی ذمہ داری کو سمجھتے ہیں اور جانتے ہیں کہ شہادت اُسی بات کی دینی چاہیے جس کا آدمی کو علم ہو ، تو وہ کبھی یہ شہادت دینے کی جرأت نہ کریں گے کہ کھانے پینے پر یہ قیُود ، جو ان کے ہاں رسم کے طور پر رائج ہیں ، اور یہ پابندیاں کہ فلاں چیز کو فلاں نہ کھائے اور فلاں چیز کو فلاں کا ہاتھ نہ لگے، یہ سب خدا کی مقرر کر دہ ہیں۔ لیکن اگر یہ لوگ شہادت کی ذمہ داری کو محسُوس کیے بغیر اتنی ڈھٹائی پر اُتر آئیں کہ خدا کا نام لے کر جھُوٹی شہادت دینے میں بھی تامّل نہ کریں، تو ان کے اس جھُوٹ میں تم ان کے ساتھی نہ بنو۔ کیونکہ اُن سے یہ شہادت اس لیے طلب نہیں کی جارہی ہے کہ اگر یہ شہادت دے دیں تو تم ان کی بات مان لوگے، بلکہ اس کی غرض صرف یہ ہے کہ ان میں سے جن لوگوں کے اندر کچھ بھی راست بازی موجود ہے ان سے جب کہا جائے گا کہ کیا واقعی تم سچائی کے ساتھ اس بات کی شہادت دے سکتے ہو کہ یہ ضوابط خدا ہی کے مقرر کیے ہوئے ہیں تو وہ اپنی رسموں کی حقیقت پر غور کریں گے، اور جب ان کے مِن جانب اللہ ہونے کا کوئی ثبوت نہ پائیں گے تو ان فضول رسموں کی پابندی سے باز آجائیں گے |
Surah 12 : Ayat 40
مَا تَعْبُدُونَ مِن دُونِهِۦٓ إِلَّآ أَسْمَآءً سَمَّيْتُمُوهَآ أَنتُمْ وَءَابَآؤُكُم مَّآ أَنزَلَ ٱللَّهُ بِهَا مِن سُلْطَـٰنٍۚ إِنِ ٱلْحُكْمُ إِلَّا لِلَّهِۚ أَمَرَ أَلَّا تَعْبُدُوٓاْ إِلَّآ إِيَّاهُۚ ذَٲلِكَ ٱلدِّينُ ٱلْقَيِّمُ وَلَـٰكِنَّ أَكْثَرَ ٱلنَّاسِ لَا يَعْلَمُونَ
اُس کو چھوڑ کر تم جن کی بندگی کر رہے ہو وہ اس کے سوا کچھ نہیں ہیں کہ بس چند نام ہیں جو تم نے اور تمہارے آباؤ اجداد نے رکھ لیے ہیں، اللہ نے ان کے لیے کوئی سند نازل نہیں کی فرماں روائی کا اقتدار اللہ کے سوا کسی کے لیے نہیں ہے اس کا حکم ہے کہ خود اس کے سوا تم کسی کی بندگی نہ کرو یہی ٹھیٹھ سیدھا طریق زندگی ہے، مگر اکثر لوگ جانتے نہیں ہیں
Surah 22 : Ayat 71
وَيَعْبُدُونَ مِن دُونِ ٱللَّهِ مَا لَمْ يُنَزِّلْ بِهِۦ سُلْطَـٰنًا وَمَا لَيْسَ لَهُم بِهِۦ عِلْمٌۗ وَمَا لِلظَّـٰلِمِينَ مِن نَّصِيرٍ
یہ لوگ اللہ کو چھوڑ کر ان کی عبادت کر رہے ہیں جن کے لیے نہ تو اس نے کوئی سند نازل کی ہے اور نہ یہ خود اُن کے بارے میں کوئی علم رکھتے ہیں1 اِن ظالموں کے لیے کوئی مددگار نہیں ہے2
2 | یعنی یہ احمق لوگ سمجھ رہے ہیں کہ یہ معبود دنیا اور آخرت میں ان کے مدد گار ہیں ، حالانکہ حقیقت میں ان کا کوئی بھی مدد گارنہیں ہے۔ نہ یہ معبود، کیونکہ ان کے پاس مدد کی کوئی طاقت نہیں ، اور نہ اللہ، کیونکہ اس سے یہ بگاوت اختیار کر چکے ہیں۔ لہٰذا اپنی اس حماقت سے یہ آپ اپنے ہی اوپر ظلم کر رہے ہیں |
1 | یعنی نہ تو خدا کی کسی کتاب میں یہ کہا گیا ہے کہ ہم نے فلاں فلاں کو اپنے ساتھ خدائی شریک کیا ہے لہٰذا ہمارے ساتھ تم ان کی بھی عبادت کیا کرو، اور نہ ان کو کسی علمی ذریعہ سے یہ معلوم ہوا ہے کہ یہ لوگ واقعی الوہیت میں حصہ دار ہیں اور اس بنا پر ان کو عبادت کا حق پہنچتا ہے۔ اب یہ جو طرح طرح کے معبود گھڑے گۓ ہیں ، اور ان کی صفات اور اختیارات کے متعلق قسم قسم کے عقائد تصنیف کر لیے گۓ ہیں ، اور ان کے آستانوں پر جبہ سائیاں ہو رہی ہیں ، دعائیں مانگی جا رہی ہیں ، چڑھاوے چڑھ رہے ہیں ، نیازیں دی جا رہی ہیں ، طواف کیے جا رہے اور اعتکاف ہو رہے ہیں ، یہ سب جاہلانہ گمان کی پیروی کے سوا آخرا ور کیا ہے |
Surah 30 : Ayat 35
أَمْ أَنزَلْنَا عَلَيْهِمْ سُلْطَـٰنًا فَهُوَ يَتَكَلَّمُ بِمَا كَانُواْ بِهِۦ يُشْرِكُونَ
کیا ہم نے کوئی سند اور دلیل ان پر نازل کی ہے جو شہادت دیتی ہو اس شرک کی صداقت پر جو یہ کر رہے ہیں؟1
1 | یعنی آخرکس دلیل سےان لوگوں کویہ معلوم ہُواکہ بلا میں خدانہیں ٹالتابلکہ حضرت ٹالا کرتے ہیں؟کیاعقل اس کی شہادت دیتی ہے؟یاکوئی کتابِ الٰہی ایسی ہےجس میں اللہ تعالٰی نے یہ فرمایاہوکہ میں اپنے خدائی کےاختیارات فلاں فلاں حضرتوں کودے چکاہوں اوراب وہ تم لوگوں کےکام بنایاکریں گے؟ |
Surah 35 : Ayat 40
قُلْ أَرَءَيْتُمْ شُرَكَآءَكُمُ ٱلَّذِينَ تَدْعُونَ مِن دُونِ ٱللَّهِ أَرُونِى مَاذَا خَلَقُواْ مِنَ ٱلْأَرْضِ أَمْ لَهُمْ شِرْكٌ فِى ٱلسَّمَـٰوَٲتِ أَمْ ءَاتَيْنَـٰهُمْ كِتَـٰبًا فَهُمْ عَلَىٰ بَيِّنَتٍ مِّنْهُۚ بَلْ إِن يَعِدُ ٱلظَّـٰلِمُونَ بَعْضُهُم بَعْضًا إِلَّا غُرُورًا
(اے نبیؐ) ان سے کہو، 1"کبھی تم نے دیکھا بھی ہے اپنے اُن شریکوں کو جنہیں تم خدا کو چھوڑ کر پکارا کرتے ہو؟ مجھے بتاؤ، انہوں نے زمین میں کیا پیدا کیا ہے؟ یا آسمانوں میں ان کی کیا شرکت ہے 2"؟ (اگر یہ نہیں بتا سکتے تو ان سے پوچھو) کیا ہم نے انہیں کوئی تحریر لکھ کر دی ہے جس کی بنا پر یہ (اپنے اس شرک کے لیے) کوئی صاف سند رکھتے ہوں؟ نہیں، بلکہ یہ ظالم ایک دوسرے کو محض فریب کے جھانسے دیے جا رہے ہیں3
3 | یعنی یہ پیشوا اور پیر، یہ پنڈت اور پروہت، یہ کاہن اور واعظ، یہ مجاور اور ان کے ایجنٹ محض اپنی دوکان چمکانے کے لیے عوام کو اُلّو بنا رہے ہیں اور طرح طرح کے قصے گھڑ گھڑ کر لوگوں کو یہ جھوٹے بھروسے دلا رہے ہیں کہ خدا کو چھوڑ کر فلاں فلاں ہستیوں کے دامن تھام لو گے تو دنیا میں تمہارے سارے کام بن جائیں گے اور آخرت میں تم چاہے کتنے ہی گناہ سمیٹ کر لے جاؤ، وہ اللہ سے تمہیں بخشوا لیں گے |
2 | یعنی کیا ہمارا لکھا ہوا کوئی پروانہ ان کے پاس ایسا ہے جس میں ہم نے یہ تحریر کیا ہو کہ فلاں فلاں اشخاص کو ہم نے بیماروں کو تندرست کرنے، یا بے روزگاروں کو روزگار دلوانے، یا حاجت مندوں کی حاجتیں پوری کرنے کے اختیارات دیے ہیں، یا فلاں فلاں ہستیوں کو ہم نے اپنی زمین کے فلاں حصوں کا مختارِ کار بنا دیا ہے اور ان علاقوں کے لوگوں کی قسمتیں بنانا اور بگاڑنا اب ان کے ہاتھ میں ہے، لہٰذا ہمارے بندوں کو اب انہی سے دعائیں مانگنی چاہییں اور انہی کے حضور نذریں اور نیازیں چڑھانی چاہییں اور جو نعمتیں بھی ملیں ان پرا نہی’’چھوٹے خداؤں‘‘ کا شکر بجا لانا چاہیے۔ ایسی کوئی سند اگر تمہارے پاس ہے تو لاؤ اسے پیش کرو۔ اور اگر نہیں ہے تو خود ہی سوچو کہ یہ مشرکانہ عقائد اور اعمال آخر تم نے کس بنیاد پر ایجاد کر لیے ہیں۔ تم سے پوچھا جاتا ہے کہ زمین اور آسمان میں کہیں تمہارے ان بناوٹی معبودوں کے شریک خدا ہونے کی کوئی علامت پائی جاتی ہے؟ تم اس کے جواب میں کسی علامت کی نشان دہی نہیں کر سکتے۔ تم سے پوچھا جاتا ہے کہ خدا نے اپنی کسی کتاب میں ہی فرمایا ہے، یا تمہارے پاس یا ان بناوٹی معبودوں کے پاس خدا کا دیا ہوا کوئی پروانہ ایسا موجود ہے جو اس امر کی شہادت دیتا ہو کہ خدا نے خود انہیں وہ اختیارات عطا فرمائے ہیں جو تم ان کی طرف منسوب کر رہے ہو؟ تم وہ بھی پیش نہیں کر سکتی۔ اب آخر وہ چیز کیا ہے جس کی بنا پر تم اپنے یہ عقیدے بنائے بیٹھے ہو؟ کیا تم خدائی کے مالک ہو کہ خدا کے اختیارات جس جس کو چاہو بانٹ دو؟ |
1 | ’’اپنے شریک‘‘ کا لفظ اس لیے استعمال فرمایا گیا ہے کہ در حقیقت وہ خدا کے شریک تو ہیں نہیں، مشرکین نے ان کو اپنی طور پر اس کا شریک بنا رکھا ہے۔ |
Surah 37 : Ayat 156
أَمْ لَكُمْ سُلْطَـٰنٌ مُّبِينٌ
یا پھر تمہارے پاس اپنی ان باتوں کے لیے کوئی صاف سند ہے
Surah 37 : Ayat 157
فَأْتُواْ بِكِتَـٰبِكُمْ إِن كُنتُمْ صَـٰدِقِينَ
تو لاؤ اپنی وہ کتاب اگر تم سچے ہو1
1 | یعنی ملائکہ کو اللہ تعالٰی کی بیٹیاں قرار دینے کے لیے دو ہی بنیادیں ہو سکتی ہیں۔ یا تو ایسی بات مشاہدے کی بنا پر کہی جا سکتی ہے، یا پھر اس طرح کا دعویٰ کرنے والے کے پاس کوئی کتاب الٰہی ہونی چاہیے جس میں اللہ تعالٰی نے خود یہ فرمایا ہو کہ ملائکہ میری بیٹیاں ہیں۔ اب اگر اس عقیدے کے قائلین نہ مشاہدے کا دعویٰ کر سکتے ہیں، اور نہ کوئی کتابِ الہٰی ایسی رکھتے ہیں جس میں یہ بات کہی گئی ہو، تو اس سے بڑی جہالت و حماقت اور کیا ہو سکتی ہے کہ محض ہوائی باتوں پر ایک دینی عقیدہ قائم کر لیا جائے اور خداوند عالم کی طرف ایسی باتیں منسوب کی جائیں جو صریحاً مضحکہ انگیز ہیں۔ |
Surah 42 : Ayat 21
أَمْ لَهُمْ شُرَكَـٰٓؤُاْ شَرَعُواْ لَهُم مِّنَ ٱلدِّينِ مَا لَمْ يَأْذَنۢ بِهِ ٱللَّهُۚ وَلَوْلَا كَلِمَةُ ٱلْفَصْلِ لَقُضِىَ بَيْنَهُمْۗ وَإِنَّ ٱلظَّـٰلِمِينَ لَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ
کیا یہ لوگ کچھ ایسے شریک خدا رکھتے ہیں جنہوں نے اِن کے لیے دین کی نوعیت رکھنے والا ایک ایسا طریقہ مقرر کر دیا ہے جس کا اللہ نے اِذن نہیں دیا؟1 اگر فیصلے کی بات پہلے طے نہ ہو گئی ہوتی تو ان کا قضیہ چکا دیا گیا ہوتا2 یقیناً اِن ظالموں کے لیے درد ناک عذاب ہے
2 | یعنی اللہ کے مقابلہ میں یہ ایسی سخت جسارت ہے کہ اگر فیصلہ قیامت پر نہ اٹھا رکھا گیا ہوتا تو دنیا ہی میں ہر اس شخص پر عذاب نازل کر دیا جاتا جس نے اللہ کا بندہ ہوتے ہوۓ، اللہ کی زمین پر خود اپنا دین جاری کیا، اور وہ سب لوگ بھی تباہ کر دیے جاتے جنہوں نے اللہ کے دین کو چھوڑ کر دوسروں کے بناۓ ہوۓ دین کو قبول کیا |
1 | اس آیت میں شُرَکَا ء سے مراد ، ظاہر بات ہے کہ وہ شریک نہیں ہیں جن سے لوگ دعائیں مانگتے ہیں ، یا جن کی نذر و نیا ز چڑھاتے ہیں ، یا جن کے آگ پوجا پاٹ کے مراسم ادا کرنے ہیں۔ بلکہ لامحالہ ان سے مراد وہ انسان ہیں جن کو لوگوں نے شریک فی الحکم ٹھیرا لیا ہے ، جن کے سکھاۓ ہوۓ افکار و عقائد اور نظریات اور ان فلسفوں پر لوگ ایمان لاتے ہیں ، جن کی دی ہوئی قدروں کو مانتے ہیں ، جن کے پیش کیے ہوۓ اخلاقی اصولوں اور تہذیب و ثقافت کے معیاروں کو قبول کرتے ہیں ، جن کے مقرر کیے ہوۓ قوانین اور طریقوں اور ضابطوں کو اپنے مذہبی مراسم اور عبادات میں ، اپنی شخصی زندگی میں ، اپنی معاشرت میں ، اپنے تمدن میں ، اپنے کاروبار اور لین دین میں ، اپنی عدالتوں میں ، اور اپنی سیاست اور حکومت میں ، اس طرح اختیار کرتے ہیں کہ گویا یہی وہ شریعت ہے جس کی پیروی ان کو کرنی چاہیے۔ یہ ایک پورا کا پورا دین ہے جو اللہ رب العالمیں کی تشریع کے خلاف، اور اس کے اذن (Sanction) کے بغیر ایجاد کرنے والوں نے ایجاد کیا اور ماننے والوں نے مان لیا۔ اور یہ ویسا ہی شرک ہے جیسا غیر اللہ کو سجدہ کرنا اور غیر اللہ سے دعائیں مانگنا شرک ہے۔ (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ،جلد اول البقر حواشی ۱۷۰۔۱۸۲ آل عمران حاشیہ ۵۷ النساء حاشیہ ۹ المائد حواشی ۱ تا ۴۔۱۔۵ اللانعام حواشی ۸۲۔۸۲ ۔۱۰۶۔۱۰۷ جلد دوم التوبہ حاشیہ ۳۱ یونس حواشی ۶۰۔۶۱ ابراہیم حواشی ۳۰ تا ۳۲ النحل حواشی ۱۱۴ تا ۱۱۲ جلد سوم الکف حواشی ۴۹۔۵۰ مریم حاشیہ ۲۷ القصص حاشیہ ۸۶ جلد چہارم سبا آیت ۴۱ حاشیہ ۴۳ یسٰ آیت ۴۰ حاشیہ ۵۳) |
Surah 43 : Ayat 21
أَمْ ءَاتَيْنَـٰهُمْ كِتَـٰبًا مِّن قَبْلِهِۦ فَهُم بِهِۦ مُسْتَمْسِكُونَ
کیا ہم نے اِس سے پہلے کوئی کتاب اِن کو دی تھی جس کی سند (اپنی اِس ملائکہ پرستی کے لیے) یہ اپنے پاس رکھتے ہوں؟1
1 | مطلب یہ ہے کہ یہ لوگ اپنی جہالت سے یہ سمجھتے ہیں کہ جو کچھ دنیا میں ہو رہا ہے وہ چونکہ اللہ کی مشیت کے تحت ہو رہا ہے ، اس لیے ضرور اس کو اللہ کی رضا بھی حاصل ہے ۔ حالانکہ اگر یہ استدلال صحیح ہو تو دنیا میں صرف ایک شرک ہی تو نہیں ہو رہا ہے ۔ چوری ، ڈاکہ ، قتل ، زنا ، رشوت ، بد عہدی، اور ایسے ہی دوسرے بے شمار جرائم بھی ہو رہے ہیں جنہیں کوئی شخص بھی نیکی اور بھلائی نہیں سمجھتا ۔ پھر کیا اسی طرز استدلال کی بنا پر یہ بھی کہا جاۓ گا کہ یہ تمام افعال حلال و طیب ہیں ، کیونکہ اللہ اپنی دنیا میں انہیں ہونے دے رہا ہے ، اور جب وہ انہیں ہونے دے رہا ہے ، تو ضرور وہ ان کو پسند بھی کرتا ہے ؟ اللہ کی پسند اور نا پسند معلوم ہونے کا ذریعہ وہ واقعات نہیں ہیں جو دنیا میں ہو رہے ہیں ، بلکہ اللہ کی کتاب ہے جو اس کے رسول کے ذریعہ سے آتی ہے اور جس میں للہ خود بتاتا ہے کہ اسے کونسے عقائد ، کون سے عمال ، اور کون سے اخلاق پسند ہیں اور کون سے نا پسند ۔ پس اگر قرآن سے پہلے آئی ہوئی کوئی کتاب ان لوگوں کے پاس ایسی موجود ہو جس میں اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا ہو کہ فرشتے بھی میرے ساتھ تمہارے معبود ہیں اور تم کو ان کی عبادت بھی کرنی چاہیے ، تو یہ لوگ اس کا حوالہ دیں۔ (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد اول ۷۱۔۷۹۔۸۰۔۱۱۰۔۱۲۴۔۱۲۵جلد دوم الاعرف حاشیہ ۱۲ یونس حاشیہ ۱۰۱ ہود حاشیہ ۱۱۲ الرعد حاشیہ ۴۹ النحل حواشی ۱۰۔۳۱۔۹۴ جلد چہارم، الزمر، حاشیہ 20۔ الشوریٰ، حاشیہ 11) |