Ayats Found (6)
Surah 9 : Ayat 43
عَفَا ٱللَّهُ عَنكَ لِمَ أَذِنتَ لَهُمْ حَتَّىٰ يَتَبَيَّنَ لَكَ ٱلَّذِينَ صَدَقُواْ وَتَعْلَمَ ٱلْكَـٰذِبِينَ
اے نبیؐ، اللہ تمہیں معاف کرے، تم نے کیوں انہیں رخصت دے دی؟ (تمہیں چاہیے تھا کہ خود رخصت نہ دیتے) تاکہ تم پر کھل جاتا کہ کون لوگ سچے ہیں اور جھوٹوں کو بھی تم جان لیتے1
1 | بعض منافقین نے بناوٹی عذرات پیش کر کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے رخصت مانگی تھی ، اور حضور ؐ نے بھی اپنے طبعی حِلم کی بنا پر یہ جاننے کے باوجود کہ وہ محض بہانے کر رہے ہیں ان کو رخصت عطا فرمادی تھی۔ اس کو اللہ تعالیٰ نے پسند نہیں فرمایا اور آپ کو تنبیہ کی کہ ایسی نرمی مناسب نہیں ہے ۔ رخصت دے دینے کی وجہ سے ان منافقوں کو اپنے نفاق پر پردہ ڈالنے کا موقع مل گیا۔ اگر انہیں رخصت نہ دی جاتی اور پھر یہ گھر بیٹھے رہتے تو ان کا جھوٹا دعوٰئے ایمان بے نقاب ہو جاتا |
Surah 10 : Ayat 93
وَلَقَدْ بَوَّأْنَا بَنِىٓ إِسْرَٲٓءِيلَ مُبَوَّأَ صِدْقٍ وَرَزَقْنَـٰهُم مِّنَ ٱلطَّيِّبَـٰتِ فَمَا ٱخْتَلَفُواْ حَتَّىٰ جَآءَهُمُ ٱلْعِلْمُۚ إِنَّ رَبَّكَ يَقْضِى بَيْنَهُمْ يَوْمَ ٱلْقِيَـٰمَةِ فِيمَا كَانُواْ فِيهِ يَخْتَلِفُونَ
ہم نے بنی اسرائیل کو بہت اچھا ٹھکانا دیا اور نہایت عمدہ وسائل زندگی انہیں عطا کیے پھر انہوں نے باہم اختلاف نہیں کیا مگراُس وقت جبکہ علم اُن کے پاس آ چکا تھا یقیناً تیرا رب قیامت کے روز اُن کے درمیان اُس چیز کا فیصلہ کر دے گا جس میں وہ اختلاف کرتے رہے ہیں
Surah 17 : Ayat 80
وَقُل رَّبِّ أَدْخِلْنِى مُدْخَلَ صِدْقٍ وَأَخْرِجْنِى مُخْرَجَ صِدْقٍ وَٱجْعَل لِّى مِن لَّدُنكَ سُلْطَـٰنًا نَّصِيرًا
اور دعا کرو کہ پروردگار، مجھ کو جہاں بھی تو لے جا سچائی کے ساتھ لے جا اور جہاں سے بھی نکال سچائی کے ساتھ نکال1 اور اپنی طرف سے ایک اقتدار کو میرا مددگار بنا دے2
2 | یعنی یا تو مجھے خود اقتدار عطا کر، یا کسی حکومت کو میرا مدد گار بنا دے تاکہ اس کی حماقت سے میں دنیا کے اس بگاڑ کو درست کر سکوں، فواحش اور معاصی کے اس سیلاب کو روک سکوں، اور تیرے قانونِ عدل کو جاری کر سکوں۔ یہی تفسیر ہے اس آیت کی جو حسن بصری اور قتادہ نے کی ہے، اور اسی کو ابن جریر اور ابن کثیر جیسے جلیل القدر مفسرین نے اختیا ر کیا ہے، اور اسی کی تائید نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ حدیث کرتی ہے کہ اِنَّ اللہ َ لَیَزَعُ بِالسُّلطَانِ مَا لَا یَزَعُ بِالقُرْاٰنِ،یعنی”اللہ تعالٰی حکومت کی طاقت سے اُن چیزوں کا سد باب کر دیتا ہے جن کا سد باب قرآن سے نہیں کرتا“۔ اس سے معلوم ہوا کہ اسلام دنیا میں جو اصلاح چاہتا ہے وہ صرف وعظ و تذکیر سے نہیں ہو سکتی بلکہ اس کو عمل میں لانے کے لیے سیاسی طاقت بھی درکار ہے۔ پھر جبکہ یہ دعا اللہ تعالٰی نے اپنے نبی کو خود سکھائی ہے تو اس سے یہ بھی ثابت ہوا کہ اقامتِ دین اور نفاذِ شریعت اور اجرائے حدود اللہ کے لیے حکومت چاہنا اور اس کے حصول کی کوشش کرنا نہ صرف جائز بلکہ مطلوب و مندوب ہے اور وہ لوگ غلطی پر ہیں جو اسے دنیا پرستی یا دنیا طلبی سے تعبیر کرتے ہیں۔ دنیا پرستی اگر ہے تو یہ کہ کوئی شخص اپنے لیے حکومت کا طالب ہو۔ رہا خدا کے دین کے لیے حکومت کا طالب ہونا تو یہ دنیا پرستی نہیں بلکہ خدا پرستی ہی کا عین تقاضا ہے۔ اگر جہاد کے لیے تلوار کا طالب ہونا گناہ نہیں ہے تو اجرائے احکام شریعت کے لیے سیاسی اقتدار کا طالب ہونا آخر کیسے گناہ ہو جائے گا۔ |
1 | اس دعا کی تلقین سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ ہجرت کا وقت اب بالکل قریب آلگاتھا۔ اس لیے فرمایا کہ تمہاری دعا یہ ہونی چاہیے کہ صداقت کا دامن کسی حال میں تم سے نہ چھوٹے، جہاں سے بھی نکلو صداقت کی خاطر نکلو اور جہاں بھی جاؤ صداقت کے ساتھ جاؤ |
Surah 29 : Ayat 3
وَلَقَدْ فَتَنَّا ٱلَّذِينَ مِن قَبْلِهِمْۖ فَلَيَعْلَمَنَّ ٱللَّهُ ٱلَّذِينَ صَدَقُواْ وَلَيَعْلَمَنَّ ٱلْكَـٰذِبِينَ
حالاں کہ ہم اُن سب لوگوں کی آزمائش کر چکے ہیں جو اِن سے پہلے گزرے ہیں1 اللہ کو تو ضرور یہ دیکھنا ہے2 کہ سچّے کون ہیں اور جھوٹے کون
2 | اصل الفاظ میں فَلَیَعلَمَنَ اللہُ جن کا لفظی ترجمعہ ہوگا کہ ضرور ہے اللہ یہ معلوم کرے اس پر ایک شخص یہ سوال کر سکتا ہے کہ اللہ سچے کی سچائی اور جھوٹےکا جھوٹ خود معلوم ہے آزمائش کرکے اسے معلوم کرنے کی کیا ضرورت ہے اس کا جواب یہ ہے کہ جب تک ایک شخص کے اندر کسی صرف صلاحیت اور استعداد ہی ہوتی ہے عملا اس کا ظہور نہیں ہو جاتا، اس وقت تک ازروئے عدل و انصاف نہ تو وہ کسی جزاء کا مستحق ہو سکتا ہے نہ سزا کا۔ مثلا ایک آسمی میں امین ہونے کی صلاحیت ہے اور ایک دوسرے میں خائن ہونے کی صلاحیت۔ ان دونوں پر جب تک آزمائش نہ آئے اور ایک سے امانت داری کا اور دوسرے سے خیانت کا عملا ظہور نہ ہو جائے، یہ بات اللہ کے انصاف سے بعید ہے کہ وہ محض اپنے علم کی بنا پر ایک کو امانت داری کا انعام دے دے اور دوسرے کو خیانت کی سزا دے ڈالے۔ اس لیے وہ علم سابق جا اللہ کو لوگوں کے اچھے اور بُرے اعمال سے پہلے اُن کی صلاحیتوں کے بارے میں اور ان کے آنئدہ طرز عمل کے بارے میں حاصل ہے، انصاف کی اغراض کے لیے کافی نہیں ہے۔ اللہ کے ہاں انصاف اس علم کی بنیاد پر ہوتا ہے کہ اس شخص نے چوری کر ڈالی ہے۔ اسی طرح بخششیں اور انعامات بھی اس کے ہاں اس علم کی بنا پر نہیں دیے جاتے کہ فلاں شخص اعلی درجے کا مومن و مجاہد بن سکتا ہے یا بنے گا، بلکہ اس علم کی بنا پر دیے جاتے ہیں کہ فلاں شخص نے اپنے عمل سے اپنا صادق الایمان ہونا ثابت کر دیا ہے اور اللہ کی راہ میں جان لڑا کر دکھادی ہے۔ اسی لیے ہم نے آیت کے ان الفاظ کا ترھمعہ اللہ کو تو ضرور دیکھنا ہے کیا ہے۔ |
1 | یعنی یہ کوئی نیا معاملہ نہیں ہے جو تمہارے ساتھ ہی پیش آرہا ہو۔ تاریخ میں ہمیشہ یہی ہُوا ہے کہ جس نے بھی ایمان کا دعوی کیا ہے اسے آزمائشوں کی بھٹی میں ڈال کر ضرور تپایا گیا ہے۔ اور جب دوسروں کو امتحان کے بغیر کچھ نہیں دیا گیا تو تمہاری کیا خصوصیات ہے کہ تمہیں زبانی دعوے پر نواز دیا جائے۔ |
Surah 26 : Ayat 83
رَبِّ هَبْ لِى حُكْمًا وَأَلْحِقْنِى بِٱلصَّـٰلِحِينَ
(اِس کے بعد ابراہیمؑ نے دعا کی) 1"اے میرے رب، مجھے حکم عطا کر اور مجھ کو صالحوں کے ساتھ ملا2
2 | یعنی دنیا میں مجھے صالح سوسائٹی دے اور آخرت میں میرا حشر صالحوں کے ساتھ کر۔ جہاں تک آخرت کا تعلق ہے ، صالح لوگوں کے ساتھ کسی کا حشر ہونا اور اس کا نجات پانا گویا ہم معنی ہیں ، اس لیے یہ تو ہر اس انسان کی دعا ہونی ہی چاہیے جو حیات بعد الموت اور جزا وسزا پر یقین رکھتا ہو۔ لیکن دنیا میں بھی ایک پاکیزہ روح کی دلی تمنا یہی ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ سے ایک بد اخلاق فاسق و فاجر معاشرے میں زندگی بسر کرنے کی مصیبت سے نجات دے اور س کو نیک لوگوں کے ساتھ ملاۓ۔ معاشرے کا بگاڑ جہاں چاروں طرف محیط ہو وہاں ایک آدمی کے لیے صرف یہی چیز ہمہ وقت اذیت کی موجب نہیں ہوتی کہ وہ اپنے گردو پیش گندگی ہی گندگی پھیلی ہوئی دیکھتا ہے ، بلکہ اس کے لیے خود پاکیزہ رہنا اور اپنے آپ کو گندگی کی چھینٹوں سے بچا کر رکھنا بھی مشکل ہوتا ہے۔ اس لیے ایک صالح آدمی اس وقت تک بے چین ہی رہتا ہے جب تک یا تو اس کا اپنا معاشرہ پاکیزہ نہ ہو جائے ، یا پھر اس سے نکل کر وہ کوئی دوسری ایسی سوسائیٹی نہ پالے جو حق و صداقت کے اصولوں پر چلنے والی ہو |
1 | ’’حکم‘‘ سے مراد ’’نبوت‘‘ یہاں درست نہیں ہے ، کیونکہ جس وقت کی یہ دعا ہے اس وقت حضرت ابراہیم علیہ السلام کو نبوت عطا ہو چکی تھی۔ اور اگر بالفرض یہ دعا اس سے پہلے کی بھی ہو تو نبوت کسی کی طلب پر اسے عطا نہیں کی جاتی بلکہ وہ ایک وہبی چیز ہے جو اللہ تعالیٰ خود ہی جسے چاہتا ہے دیتا ہے۔ اس لیے یہاں حکم سے مراد علم، حکمت، فہم صحیح اور قوت فیصلہ ہی لینا درست ہے ، اور حضرت ابراہیمؑ کی یہ دعا قریب قریب اسی معنی میں ہے جس میں نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے یہ دعا منقول ہے کہ :اَرِنَا الْاَ شْیَآءَ کَمَا ھِیَ یعنی ہم کو اس قابل بنا کہ ہم ہر چیز کو اسی نظر سے دیکھیں جیسی کہ وہ فی الواقع ہے اور ہر معاملہ میں وہی رائے قائم کریں جیسی کہ اس کی حقیقت کے لحاظ قائم کی جانی چاہیے |
Surah 26 : Ayat 84
وَٱجْعَل لِّى لِسَانَ صِدْقٍ فِى ٱلْأَخِرِينَ
اور بعد کے آنے والوں میں مجھ کو سچی ناموری عطا کر1
1 | یعنی بعد کی نسلیں مجھے خیر کے ساتھ یاد کریں۔ میں دنیا سے وہ کام کر کے نہ جاؤں کہ نسل انسانی میرے بعد میرا شمار ان ظالموں میں کرے جو خود بگڑے ہوئے تھے اور دنیا کو بگاڑ کر چلے گئے ، بلکہ مجھ سے وہ کارنامے انجام پائیں جن کی بدولت رہتی دنیا تک میری زندگی خلق خدا کے لیے روشنی کا مینار بنی رہے ور مجھے انسانیت کے محسنوں میں شمار کیا جائے۔ یہ محض شہرت و ناموری کا دعا نہیں ہے بلکہ سچی شہرت اور حقیقی ناموری کی دعا ہے جو لازماً ٹھوس خدمات اور بیش قیمت کارناموں ہی کے نتیجے میں حاصل ہوتی ہے۔ کسی شخص کو اس چیز کا حاصل ہونا اپنے اندر دو فائدے رکھتا ہے۔ دنیا میں اس کا فائدہ یہ ہے کہ انسانی نسلوں کو بُری مثالوں کے مقابلے میں ایک نیک مثال ملتی ہے جس سے وہ بھلائی کا سبق حاصل کرتی ہیں اور ہر سعید روح کو راہ راست پر چلنے میں اس سے مدد ملتی ہے۔ اور آخرت میں اس کا فائدہ یہ ہے کہ ایک آدمی کی چھوڑی ہوئی نیک مثال سے قیامت تک جتنے لوگوں کو بھی ہدایت نصیب ہوئی ہو ان کا ثواب اس شخص کو بھی ملے گا اور قیامت کے روز اس کے اپنے اعمال کے ساتھ کروڑوں بندگان خدا کی یہ گواہی بھی اس کے حق میں موجود ہو گی کہ وہ دنیا میں بھلائی کے چشمے رواں کر کے آیا ہے جن سے نسل پر نسل سیراب ہوتی رہی ہے |