Ayats Found (4)
Surah 27 : Ayat 34
قَالَتْ إِنَّ ٱلْمُلُوكَ إِذَا دَخَلُواْ قَرْيَةً أَفْسَدُوهَا وَجَعَلُوٓاْ أَعِزَّةَ أَهْلِهَآ أَذِلَّةًۖ وَكَذَٲلِكَ يَفْعَلُونَ
ملکہ نے کہا کہ "بادشاہ جب کسی مُلک میں گھس آتے ہیں تو اسے خراب اور اس کے عزت والوں کو ذلیل کر دیتے ہیں1 یہی کچھ وہ کیا کرتے ہیں2
2 | اس فقرے میں دوبار کے احتمال ہیں۔ ایک یہ کہ یہ ملکہ سباہی کاقول ہوا اوراس نے اپنے پچھلے قول پر بطور تاکید اس کا اضافہ کیا ہو۔ دوسرے یہ کہ اللہ تعالیٰ کا قول ہو جو ملکہ کے قول کی تائید کےلیے جملہ معترضہ کے طور پرارشاد فرمایا گیا ہو۔ |
1 | اس ایک فقرے میں امپیریلزم اوراس کےاثرات ونتائج پرمکمل تبصرہ کردیا گیا ہے۔ بادشاہوں کی ملک گیری اورفاتح قوموں کی دوسری قوموں پردست درازی کبھی اصلاح اورخیرخواہی کےلیے نہیں ہوتی۔ اس کی غرض ہی یہ ہوتی ہے کہ دوسری قوم کو خدانے جورزق دیا ہے اورجو وسائل و زرائع عطاکیے ہیں ان سے وہ خود متمع اوراس قوم کو اتنا بے بس کردیں کہ وہ کبھی ان کے مقابلے میں سر اٹھا کراپنا حصہ نہ مانگ سکے۔ اس غرض کے لیے وہ اس کی خوشحالی اور طاقت اورعزت کے تمام زرائع ختم کردیتے ہیں، اس کے جن لوگ میں بھی اپنی خودی کا دم داعیہ ہوتا ہے انہیں کچل کررکھ دیتے ہیں، اس کے افراد میں غلامی، خوشامد، ایک دوسرے کی کاٹ، ایک دوسرے کی جاسوسی، فاتح کی نقالی، اپنی تہزیب کی تحقیر، فاتح تہزیب کی تعظیم اورایسے ہی دوسرے کمینہ اوصاف پیداکردیتے ہیں، اور انہیں بتدریج اس بات کا خوگر بنادیتے ہیں کہ وہ ااپنی کسی مقدس چیز کوبھی بیچ دینے میں تامل نہ کریں اوراجرت پر ہرزلیل خدمت انجام دینے کےلیے تیارہوجائیں۔ |
Surah 27 : Ayat 37
ٱرْجِعْ إِلَيْهِمْ فَلَنَأْتِيَنَّهُم بِجُنُودٍ لَّا قِبَلَ لَهُم بِهَا وَلَنُخْرِجَنَّهُم مِّنْهَآ أَذِلَّةً وَهُمْ صَـٰغِرُونَ
(اے سفیر) واپس جا اپنے بھیجنے والوں کی طرف ہم ان پر ایسے لشکر لے کر آئیں گے1 جن کا مقابلہ وہ نہ کر سکیں گے اور ہم انہیں ایسی ذلت کے ساتھ وہاں سے نکالیں گے کہ وہ خوار ہو کر رہ جائیں گے2"
2 | بیچ میں یہ قصہ چھوڑ دیا گیا ہے کہ سفارت ملکہ کا ہدیہ واپس لےکر پہنچی اورجو کچھ اس نے دیکھا اورسنا تھا وہ عرض کردیا۔ ملکہ نے اس سے حضرت سلیمانؑ کے جو حلات سنے ان کی بنا پر اس نے یہی مناسب سمجھا کہ خدود ان کی ملاقات کےلیے بیت امقدس جائے۔ چنانچہ وہ خدم وحشم اورشاہی سازوسامان کے ساتھ سبا سے فلسطین کی طرف روانہ ہوئی اوراس نے دربار سلیمانی میں اطلاع بھیج دی کہ میں آپ کہ دعوت خود آپ کی زبان سے سننے اور بالمشافہہ گفتگو کرنے کےلیے حاضر ہورہی ہوں۔ ان تفصیلات چھوڑ کر اب اُس وقت کا قصہ بیان کیا جارہا ہے جب ملکہ بیت المقدس کے قریب پہنچ گئی تھی اورایک دو ہی دن میں حاضر ہونے والی تھی۔ |
1 | پہلےفقرے اوراس فقرے کےدرمیان ایک لطیف خلا ہے جوکلام پرغور کرنے سے خود بخود سمجھ میں آجاتا ہے۔ یعنی پوری بات یوں ہے کہ: اے سفیر، یہ ہدیہ واپس لے جااپنے بھیجنے والوں کی طرف، انہیں یا تو پہلی بات ماننی پڑے گی کہ مسلم ہوکر ہمارے پاس حاضر ہوجائیں، ورنہ ہم ان پرلشکر لے کرآئیں گے۔ |
Surah 18 : Ayat 79
أَمَّا ٱلسَّفِينَةُ فَكَانَتْ لِمَسَـٰكِينَ يَعْمَلُونَ فِى ٱلْبَحْرِ فَأَرَدتُّ أَنْ أَعِيبَهَا وَكَانَ وَرَآءَهُم مَّلِكٌ يَأْخُذُ كُلَّ سَفِينَةٍ غَصْبًا
اُس کشتی کا معاملہ یہ ہے کہ وہ چند غریب آدمیوں کی تھی جو دریا میں محنت مزدوری کرتے تھے میں نے چاہا کہ اسے عیب دار کر دوں، کیونکہ آگے ایک ایسے بادشاہ کا علاقہ تھا جو ہر کشتی کو زبردستی چھین لیتا تھا
Surah 27 : Ayat 23
إِنِّى وَجَدتُّ ٱمْرَأَةً تَمْلِكُهُمْ وَأُوتِيَتْ مِن كُلِّ شَىْءٍ وَلَهَا عَرْشٌ عَظِيمٌ
میں نے وہاں ایک عورت دیکھی جو اس قوم کی حکمران ہے اُس کو ہر طرح کا ساز و سامان بخشا گیا ہے اور اس کا تخت بڑا عظیم الشان ہے