Ayats Found (1)
Surah 31 : Ayat 13
وَإِذْ قَالَ لُقْمَـٰنُ لِٱبْنِهِۦ وَهُوَ يَعِظُهُۥ يَـٰبُنَىَّ لَا تُشْرِكْ بِٱللَّهِۖ إِنَّ ٱلشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ
یاد کرو جب لقمان اپنے بیٹے کو نصیحت کر رہا تھا تو اس نے کہا 1"بیٹا! خدا کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرنا، حق یہ ہے کہ شرک بہت بڑا ظلم ہے2"
2 | ظلم کے اصل معنی ہیں کسی کا حق مارنا اور انصاف کے خلاف کام کرنا۔ شرک اس وجہ سے ظلمِ عظیم ہے کہ آدمی اُن ہستیوں کو اپنے خالق اور رازق اور منعم کے برابر لا کھڑا کرتا ہے جن کا نہ اس کے پیدا کرنے میں کوئی حصہ،نہ اس کو رزق پہنچانے میں کوئی دخل، اور نہ اُن نعمتوں کے عطا کرنے میں کوئی شرکت جن سے آدمی اس دنیا میں متمتع ہو رہا ہے۔ یہ ایسی بے انصافی ہے جس سے بڑھ کر کسی بے انصافی کا تصوّر نہیں کیا جا سکتا۔ پھر آدمی پر اُس کے خالق کا حق ہے کہ وہ صرف اسی کی بندگی و پرستش کرے، مگر وہ دوسروں کی بندگی بجا لا کر اُس کا حق مارتا ہے۔ پھر اس بندگیٔ غیر کے سلسلے میں آدمی جو عمل بھی کرتا ہےا س میں وہ اپنے ذ ہن و جسم سے لے کر زمین و آسمان تک کی بہت سی چیزوں کو استعمال کرتا ہے، حالاں کہ یہ ساری چیزیں اللہ وحدہٗ لا شریک کی پیدا کردہ ہیں اور ان میں سے کسی چیز کو بھی اللہ کے سوا کسی دوسرے کی بندگی میں استعمال کرنے کا اسے حق نہیں ہے۔ پھر آدمی پر خود اس کے اپنے نفس کا یہ حق ہے کہ وہ اسے ذلّت اور عذاب میں مبتلا نہ کرے۔ مگر وہ خالق کو چھوڑ کر مخلوق کی بندگی کر کے اپنے آ پ کو ذلیل بھی کرتا ہے اور مستحقِ عذاب بھی بناتا ہے۔ اس طرح مشرک کی پوری زندگی ایک ہر جہتی اور ہمہ وقتی ظلم بن جاتی ہے جس کا کوئی سانس بھی ظلم سے خالی نہیں رہتا۔ |
1 | لقمان کی حکیمانہ باتوں میں سےاس خاص نصیحت کو دو مناسبتوں کی بنا پر یہاں نقل کیا گیا ہے۔ اوّل یہ کہ انہوں نے یہ نصیحت اپنے بیٹے کو کی تھی اور ظاہر بات ہے کہ آدمی دنیا میں سب سے بڑھ کر اگر کسی کے حق میں مخلص ہو سکتا ہے تو وہ اس کی اپنی اولاد ہی ہے۔ ایک شخص دوسروں کو دھوکا دے سکتا ہے، ان سے منافقانہ باتیں کر سکتا ہے، لیکن اپنی اولاد کو تو ایک بُرےسےبُرا آدمی بھی فریب دینے کی کوشش کبھی نہیں کرسکتا۔ اس لیے لقمان کا اپنے بیٹے کو یہ نصیحت کرنا اس بات کی صریح دلیل ہے کہ ان کے نزدیک شرک فی الواقع ایک بد ترین فعل تھا اور اسی بنا پر انہوں نے سب سے پہلی جس چیز کی اپنے لختِ جگر کو تلقین کی وہ یہ تھی کہ اس گمراہی سے اجتناب کرے۔ دوسری مناسبت اس حکایت کی یہ ہے کہ کفار مکہ میں سے بہت سے ماں باپ اس وقت اپنی اولاد کو دینِ شرک پر قائم رہنے اور محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی دعوتِ توحید سے منہ موڑ لینے پر مجبور کر رہے تھے، جیسا کہ آگے کی آیات بتا رہی ہیں۔ اس لئے ان نادانوں کو سنایا جا رہا ہے کہ تمہاری سرزمین کے مشہور حکیم نے تو اپنی اولاد کی خیر خواہی کا حق یوں ادا کیا تھا کہ اسے شرک سے پرہیز کرنے کی نصیحت کی۔ اب تم جو اپنی اولاد کو اسی شرک پر مجبور کر رہے ہو تو یہ ان کے ساتھ بد خواہی ہے یا خیرخواہی؟ |