Ayats Found (6)
Surah 24 : Ayat 12
لَّوْلَآ إِذْ سَمِعْتُمُوهُ ظَنَّ ٱلْمُؤْمِنُونَ وَٱلْمُؤْمِنَـٰتُ بِأَنفُسِهِمْ خَيْرًا وَقَالُواْ هَـٰذَآ إِفْكٌ مُّبِينٌ
جس وقت تم لوگوں نے اسے سنا تھا اُسی وقت کیوں نہ مومن مردوں اور مومن عورتوں نے اپنے آپ سے نیک گمان کیا1 اور کیوں نہ کہہ دیا کہ یہ صریح بہتان ہے2؟
2 | یعنی یہ بات تو قابل غور تک نہ تھی۔ اسے تو سنتے ہی ہر مسلمان کو سراسر جھوٹ اور کذب و افتراء کہہ دینا چاہیے تھا۔ ممکن ہے کوئی شخص یہاں یہ سوال کرے کہ جب یہ بات تھی تو خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اور حضرت ابو بکر صدیق نے اسے کیوں نہ اول روز ہی جھٹلا دیا اور کیوں انہوں نے اسے اتنی اہمیت دی ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ شوہر اور باپ کی پوزیشن عام آدمیوں سے بالکل مختلف ہوتی ہے۔ اگر چہ ایک شوہر سے بڑھ کر کوئی اپنی بیوی کو نہیں جان سکتا اور ایک شریف و صالح بیوی کے متعلق کوئی صحیح الدماغ شوہر لوگوں کے بہتانوں پر فی الواقع بد گمان نہیں ہو سکتا، لیکن اگر اس کی بیوی پر الزام لگا دیا جاۓ تو وہ اس مشکل میں پڑ جاتا ہے کہ اسے بہتان کہہ کر رد کر بھی دے تو کہنے والوں کی زبان نہ رکے گی، بلکہ وہ اس پر ایک اور ردّا یہ چڑھائیں گے کہ بیوی نے میاں صاحب کی عقل پر کیسا پردہ ڈال رکھا ہے ، سب کچھ کر رہی ہے اور میاں یہ سمجھتے ہیں کہ میری بیوی بڑی پاک دامن ہے۔ ایسی ہی مشکل ماں باپ کو پیش آتی ہے۔ وہ غریب اپنی بیٹی کی عصمت پر صریح جھوٹے الزام کی تردید میں اگر زبان کھولیں بھی تو بیٹی کی پوزیشن صاف نہیں ہوتی۔ کہنے والے یہ کہیں گے کہ ماں باپ ہیں ،اپنی بیٹی کی حمایت نہ کریں گے تو اور کیا کریں گے۔ یہ چیز تھی جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اور حضرت ابو بکر اور ام رومان کو اندر ہی اندر غم سے گھلاۓ دے رہی تھی۔ ورنہ حقیقت میں کوئی شک ان کو لاحق نہ تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے تو خطبے ہی میں صاف فرما دیا تھا کہ میں نے نہ اپنی بیوی میں کوئی برائی دیکھی ہے اور نہ اس شخص میں جس کے متعلق یہ الزام لگایا جا رہا ہے |
1 | دوسرا ترجمہ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اپنے لوگوں ،یا اپنی ملت اور اپنے معاشرے کے لوگوں سے بیک گمان کیوں نہ کیا۔ آیت کے الفاظ دونوں مفہوموں پر حاوی ہیں ، اور اس ذو معنی فقرے کے استعمال میں ایک لطیف نکتہ ہے جسے خوب سمجھ لینا چاہیے۔ جو صورت معاملہ حضرت عائشہ اور صفوان بن معطل کے ساتھ پیش آئی تھی وہ یہی تو تھی کہ قافلے کی ایک خاتون(قطع نظر اس سے کہ وہ رسول کی بیوی تھیں ) اتفاق سے پیچھے رہ گئی تھیں اور قافلے ہی کا ایک آدمی جو خود اتفاق سے پیچھے رہ گیا تھا، انہیں دیکھ کر اپنے اونٹ پر ان کو بٹھا لایا۔ اب اگر کوئی شخص یہ کہتا ہے کہ معاذ اللہ یہ دونوں تنہا ایک دوسرے کو پاکر گناہ میں مبتلا ہو گۓ تو اس کا یہ کہنا اپنے ظاہر الفاظ کے پیچھے دو اور مفروضے بھی رکھتا ہے۔ ایک یہ کہ قائل (خواہ وہ مرد ہو یا عورت) اگر خود اس جگہ ہوتا تو کبھی گناہ کیے بغیر نہ رہتا، کیونکہ وہ اگر گناہ سے رکا ہوا ہے تو صرف اس لیے کہ اسے صنف مقابل کا کوئی فرد اس طرح تنہائی میں ہاتھ نہ آگیا، ورنہ ایسے نادر موقع کو وہ چھوڑنے والا نہ تھا۔ دوسرے یہ کہ جس معاشرے سے وہ تعلق رکھتا ہے اس کی اخلاقی حالت کے متعلق اس کا گمان یہ ہے کہ یہاں کوئی عورت بھی ایسی نہیں ہے اور نہ کوئی مرد ایسا ہے جسے اس طرح کا کوئی موقع پیش آ جاۓ اور وہ گناہ سے باز رہ جاۓ۔ یہ تو اس عورت میں ہے جب کہ معاملہ محض ایک مرد اور ایک عورت کا ہو۔ اور بالفرض اگر وہ مرد اور عورت دونوں ایک ہی جگہ کے رہنے والے ہوں ، اور عورت جو اتفاقاً قافلے سے بچھڑ گئی تھی، اس مرد کے کسی دوست یا رشتہ دار یا ہمساۓ یا واقف کار کی بیوی بہن ، یا بیٹی ہو تو معاملہ اور بھی زیادہ سخت ہو جاتا ہے۔ اس کے معنی پھر یہ ہو جاتے ہیں کہ کہنے والا خود اپنی ذات کے متعلق بھی اور اپنے معاشرے کے متعلق بھی ایسا سخت گھناؤنا تصور رکھتے ہے جسے شرافت سے دور کا واسطہ بھی نہیں۔ کون بھلا آدمی یہ سوچ سکتا ہے کہ اس کے کسی دوست یا ہمساۓ یا واقف کار کے گھر کی کوئی عورت اگر اتفاق سے کہیں بھولی بھٹکی اسے راستے میں مل جاۓ تو وہ پہلا کام بس اس کی عزت پر ہاتھ ڈالنے ہی کا کرے گا، پھر کہیں اسے گھر پہنچانے کی تدبیر سوچے گا۔ لیکن یہاں تو معاملہ اس سے ہزار گنا زیادہ سخت تھا۔ خاتون کوئی اور نہ تھیں ، رسولؐ اللہ کی بیوی تھیں جنہیں ہر مسلمان اپنی ماں سے بڑھ کر احترام کے لائق سمجھتا تھا،جنہیں اللہ نے خود ہر مسلمان پر ماں کی طرح حرام قرار دیا تھا۔ مرد نہ صرف یہ کہ اسی قافلے کا ایک آدمی، اسی فوج کا ایک سپاہی اور اسی شہر کا ایک باشندہ تھا، بلکہ وہ مسلمان تھا، ان خاتون کے شوہر کو اللہ کا رسول اور اپنا ہادی و پیشوا مانتا تھا، اور ان کے فرمان پر جان قربان کرنے کے لیے جنگ بدر جیسے خطرناک معرکے میں شریک ہو چکا تھا۔ اس صورت حال میں تو اس قول کا ذہنی پس منظر گھناؤنے پن کی اس انتہا کو پہنچ جاتا ہے جس سے بڑھ کر کسی گندے تخیل کا تصور نہیں کیا جا سکتا۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ فرما رہا ہے کہ مسلم معاشرے کے جن افراد نے یہ بت زبان سے نکالی یا اسے کم از کم شک کے قابل خیال کیا انہوں نے خود اپنے نفس کا بھی بہت برا تصور قائم کیا اور اپنے معاشرے کے لوگوں کو بھی بڑے ذلیل اخلاق و کردار کا مالک سمجھا |
Surah 24 : Ayat 16
وَلَوْلَآ إِذْ سَمِعْتُمُوهُ قُلْتُم مَّا يَكُونُ لَنَآ أَن نَّتَكَلَّمَ بِهَـٰذَا سُبْحَـٰنَكَ هَـٰذَا بُهْتَـٰنٌ عَظِيمٌ
کیوں نہ اُسے سنتے ہی تم نے کہہ دیا کہ "ہمیں ایسی بات زبان سے نکالنا زیب نہیں دیتا، سبحان اللہ، یہ تو ایک بہتان عظیم ہے"
Surah 24 : Ayat 51
إِنَّمَا كَانَ قَوْلَ ٱلْمُؤْمِنِينَ إِذَا دُعُوٓاْ إِلَى ٱللَّهِ وَرَسُولِهِۦ لِيَحْكُمَ بَيْنَهُمْ أَن يَقُولُواْ سَمِعْنَا وَأَطَعْنَاۚ وَأُوْلَـٰٓئِكَ هُمُ ٱلْمُفْلِحُونَ
ایمان لانے والوں کا کام تو یہ ہے کہ جب وہ اللہ اور رسول کی طرف بلا ئے جائیں تاکہ رسول ان کے مقدمے کا فیصلہ کرے تو وہ کہیں کہ ہم نے سنا اور اطاعت کی ایسے ہی لوگ فلاح پانے والے ہیں
Surah 24 : Ayat 62
إِنَّمَا ٱلْمُؤْمِنُونَ ٱلَّذِينَ ءَامَنُواْ بِٱللَّهِ وَرَسُولِهِۦ وَإِذَا كَانُواْ مَعَهُۥ عَلَىٰٓ أَمْرٍ جَامِعٍ لَّمْ يَذْهَبُواْ حَتَّىٰ يَسْتَــْٔذِنُوهُۚ إِنَّ ٱلَّذِينَ يَسْتَــْٔذِنُونَكَ أُوْلَـٰٓئِكَ ٱلَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِٱللَّهِ وَرَسُولِهِۦۚ فَإِذَا ٱسْتَــْٔذَنُوكَ لِبَعْضِ شَأْنِهِمْ فَأْذَن لِّمَن شِئْتَ مِنْهُمْ وَٱسْتَغْفِرْ لَهُمُ ٱللَّهَۚ إِنَّ ٱللَّهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ
مومن1 تو اصل میں وہی ہیں جو اللہ اور اُس کے رسول کو دل سے مانیں اور جب کسی اجتماعی کام کے موقع پر رسولؐ کے ساتھ ہوں تو اُس سے اجازت لیے بغیر نہ جائیں2 جو لوگ تم سے اجازت مانگتے ہیں وہی اللہ اور رسول کے ماننے والے ہیں، پس جب وہ اپنے کسی کام سے اجازت مانگیں تو جسے تم چاہو اجازت دے دیا کرو 3اور ایسے لوگوں کے حق میں اللہ سے دعائے مغفرت کیا کرو4، اللہ یقیناً غفور و رحیم ہے
4 | اس میں پھر تنبیہ ہے کہ اجازت طلب کرنے میں اگر ذرا سی بہانہ بازی کا بھی دخل ہو، یا اجتماعی ضروریات پر انفرادی ضروریات کو مقدم رکھنے کا جذبہ کار فرما ہو تو یہ ایک گناہ ہے۔ لہٰذا رسول اور اس کے جانشین کو صرف اجازت دینے ہی پر اکتفا نہ کرنا چاہیے بلکہ جسے بھی اجازت دے ، ساتھ کے ساتھ یہ بھی کہہ دے کہ خدا تمہیں معاف کرے۔ |
3 | یعنی ضرورت بیان کرنے پر بھی اجازت دینا یا نہ دینا رسول کی ، اور رسول کے بعد امیر جماعت کی مرضی پر موقوف ہے اگر وہ سمجھتا ہو کہ اجتماعی ضرورت اس شخص کی انفرادی ضرورت کی بہ نسبت زیادہ اہم ہے تو وہ پورا حق رکھتا ہے کہ اجازت نہ دے ، اور اس صورت میں ایک مومن کو اس سے کوئی شکایت نہیں ہونی چاہیے |
2 | اس میں یہ تنبیہ ہے کہ کسی واقعی ضرورت کے بغیر اجازت طلب کرنا تو سے سے ہی نا جائز ہے۔ جواز کا پہلو صرف اس صورت میں نکلتا ہے جبکہ جانے کے لیے کوئی حقیقی ضرورت لاحق ہو |
1 | یہی حکم نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے بعد آپ کے جانشینوں اور اسلامی نظام جماعت کے امراء کا بھی ہے۔ جب کسی اجتماعی مقصد کے لیے مسلمانوں کو جمع کیا جاۓ ، قطع نظر اس سے کہ جنگ کا موقع ہو یا حالت امن کا ، بہر حال ان کے لیے یہ جائز نہیں ہے کہ امیر کی اجازت کے بغیر واپس چلے جائیں یا منتشر ہو جائیں۔ |
Surah 49 : Ayat 10
إِنَّمَا ٱلْمُؤْمِنُونَ إِخْوَةٌ فَأَصْلِحُواْ بَيْنَ أَخَوَيْكُمْۚ وَٱتَّقُواْ ٱللَّهَ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ
مومن تو ایک دوسرے کے بھائی ہیں، لہٰذا اپنے بھائیوں کے درمیان تعلقات کو درست کرو1 اور اللہ سے ڈرو، امید ہے کہ تم پر رحم کیا جائے گا2
2 | پچھلی دو آیتوں میں مسلمانوں کی باہمی لڑائی کے متعلق ضروری ہدایات دینے کے بعد اہل ایمان کو یہ احساس دلایا گیا تھا کہ دین کے مقدس ترین رشتے کی بنا پروہ ایک دوسرے کے بھائی ہیں اور ان کو خدا سے ڈرتے ہوۓ اپنے آپس کے تعلقات کو درست رکھنے کی کوشش کرنی چاہیے۔اب آگے کی دو آیتوں میں ان بڑی بڑی برائیوں کے سد باب کا حکم دیا جا رہا ہے جو بالعموم ایک معاشرے میں لوگوں کے باہمی تعلقات کو خراب کرتے ہیں۔ ایک دوسرے کی عزت پر حملہ،ایک دوسرے کی سل آزاری، ایک دوسرے سے بد گمانی، اور ایک دوسرے کے عیوب کا تجسس، در حقیقت یہی وہ اسباب ہیں جن سے آپس کی عداوتیں پیدا ہوتی ہیں اور پھر دوسرے اسباب کے ساتھ مل کر ان سے بڑے بڑے فتنے رو نما ہوتے ہیں۔ اس سلسلے میں جو احکام آگے کی آیتوں میں دیے گۓ ہیں اور ان کی جو تشریحات احادیث میں ملتی ہیں ان کی بنا پر ایک مفصل قانون ہتک عزت (Law of libel) مرتب کیا جا سکتا ہے۔ مغربی قوانین ہتک عزت اس معاملے میں اتنے ناقص ہیں کہ ایک شخص ان کے تحت دعویٰ کر کے اپنی عزت کچھ اور کھو آتا ہے۔ اسلامی قانون اس کے بر عکس ہر شخص کی ایک بنیادی عزت کا قائل ہے جس پر حملہ کرنے کا کسی کو حق نہیں ہے۔ قطع نظر اس سے کہ حملہ واقعیت پر مبنی ہویا نہ ہو، اور جس پر حملہ کیا گیا ہے اس کی کوئی ’’حیثیت عرفی‘‘ ہو یا نہ ہو۔ مجرد یہ بات کہ ایک آدمی نے دوسرے آدمی کی تذلیل کی ہے اسے مجرم بنا دینے کے لیے کافی ہے، الا یہ کہ اس تذلیل کا کوئی رعی جواز ثابت کر دیا جاۓ |
1 | یہ آیت دنیا کے تمام مسلمانوں کی ایک عالمگیر برادری قائم کرتی ہے اور یہ اسی کی برکت ہے کہ کسی دوسرے دین یا مسلک کے پیروؤں میں وہ اخوت نہیں پائی گئی ہے جو مسلمانوں کے درمیان پائی جاتی ہے۔ اس حکم کی اہمیت اور اس کے تقاضوں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنے بکثرت ارشادات میں بیان فرمایا ہے جن سے اس کی پوری روح سمجھ میں آسکتی ہے۔ حضرت جریر بن عبداللہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے مجھ سے تین باتوں پر بیعت لی تھی۔ ایک یہ کہ نماز قائم کروں گا۔ دوسرے یہ کہ زکوٰۃ دیتا رہوں گا۔تیسرے یہ کہ ہر مسلمان کا خیر خواہ رہوں گا (بخاری، کتابالایمان)۔ حضرت عبداللہ بن مسعسد کی رسایت ہے کہ حضور نے فرمایا مسلمان کو گالی دینا فسق ہے اس سے جنگ کرنا کفر(بخاری، کتاب الایمان۔ مسند احمد میں اسی مضمون کی روایت حضرت سعید بن مالک نے بھی اپنے والد سے نقل کی ہے )۔ حضرت ابو ہریرہؓ کی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ہر مسلمان پر دوسرے مسلمان کی جان، مال اور عزت حرام ہے ۔ (مسلم، کتاب البروالصلہ۔ ترمذی، ابواب البروالصِّلہ)۔ حضرت ابو سعید خذریؓ اور حضرت ابو ہریرہؓ کہتے ہیں کہ آپ نے فرمایا ’’مسلمان مسلمان کا بھائی ہے، وہ اس پر ظلم نہیں کرتا، اس کا ساتھ نہیں چھوڑتا اور اس کی تذلیل نہیں کرتا۔ ایک آدمی کے لیے یہی شر بہت ہے کہ وہ اپنے مسلمان بھائی کی تحقیر کرے (مسند احمد)۔ حضرت سہل بن سعد ساعدی آپؐ کا یہ ارشاد روایت کرتے ہیں کہ ’’ گروہ اہل ایمان کے ساتھ ایک مومن کا تعلق ویسا ہی ہے جیسا سر کے ساتھ جسم کا تعلق ہوتا ہے۔ وہ اہل ایمان کی ہر تکلیف کو اسی طرح محسوس کرتا ہے جس طرح سر جسم کے ہر حصے کا درد محسوس کرتا ہے۔ (مسند احمد)۔ اسی سے ملتا جلتا مضمون ایک اور حدیث میں ہے، جس میں آپؐ نے فرمایا ہے مومنوں کی مثال آپس کی محبت، وابستگی اور ایک دوسرے پر رحم و شفقت کے معاملہ میں ایسی ہے جیسے ایک جسم کی حالت ہوتی ہے کہ اس کے کسی عضو کو بھی تکلیف ہو تو سارا جسم اس پر بخار اور بے خوابی میں مبتلا ہو جاتا ہے(بخاری و مسلم)۔ ایک اور حدیث میں آپ کا یہ ارشاد منقول ہوا ہے کہ مومن ایک دوسرے کے لیے ایک دیوار کی اینٹوں کی طرح ہوتے ہیں کہ ہر ایک دوسرے سے تقویت پاتا ہے (بخاری، کتاب الادب، ترمذی، ابواب البروالصلہ) |
Surah 60 : Ayat 7
۞ عَسَى ٱللَّهُ أَن يَجْعَلَ بَيْنَكُمْ وَبَيْنَ ٱلَّذِينَ عَادَيْتُم مِّنْهُم مَّوَدَّةًۚ وَٱللَّهُ قَدِيرٌۚ وَٱللَّهُ غَفُورٌ رَّحِيمٌ
بعید نہیں کہ اللہ کبھی تمہارے اور اُن لوگوں کے درمیان محبت ڈال دے جن سے آج تم نے دشمنی مول لی ہے 1اللہ بڑی قدرت رکھتا ہے اور وہ غفور و رحیم ہے
1 | اوپر کی آیات میں مسلمانوں کو اپنے کافر رشتہ داروں سے قطع تعلق کی جو تلقین کی گئی تھی اس پر سچے اہل ایمان اگر چہ بڑے صبر کے ساتھ عمل کر رہے تھے، مگر اللہ کو معلوم تھا کہ اپنے ماں باپ، بھائی بہنوں اور قریب ترین عزیزوں سے تعلق توڑ لینا کیسا سخت کام ہے اور اس سے اہل ایمان کے دلوں پر کیا کچھ گزر رہی ہے۔ اس لیے اللہ تعالٰی نے ان کو تسلی دی کہ وہ وقت دور نہیں ہے جب تمہارے یہی رشتہ دار مسلمان ہو جائیں گے اور آج کی دشمنی کل پھر محبت میں تبدیل ہو جاۓ گی۔ جب یہ بات فرمائی گئی تھی اس وقت کوئی شخص بھی یہ نہیں سمجھ سکتا تھا کہ یہ نتیجہ کیسے رونما ہو گا۔ مگر ان آیات کے نزول پر چند ہی ہفتے گزرے تھے کہ مکہ فتح ہو گیا، قریش کے لوگ فوج در فوج اسلام میں داخل ہونے لگے اور مسلمانوں نے اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا کہ جس چیز کی انہیں امید دلائ گئی تھی وہ کیسے پوری ہوئی |