Ayats Found (2)
Surah 29 : Ayat 8
وَوَصَّيْنَا ٱلْإِنسَـٰنَ بِوَٲلِدَيْهِ حُسْنًاۖ وَإِن جَـٰهَدَاكَ لِتُشْرِكَ بِى مَا لَيْسَ لَكَ بِهِۦ عِلْمٌ فَلَا تُطِعْهُمَآۚ إِلَىَّ مَرْجِعُكُمْ فَأُنَبِّئُكُم بِمَا كُنتُمْ تَعْمَلُونَ
ہم نے انسان کو ہدایت کی ہے کہ اپنے والدین کے ساتھ نیک سلوک کرے لیکن اگر وہ تجھ پر زور ڈالیں کہ تو میرے ساتھ کسی ایسے (معبُود) کو شریک ٹھیرائے جسے تو (میرے شریک کی حیثیت سے) نہیں جانتا تو ان کی اطاعت نہ کر1 میری ہی طرف تم سب کو پلٹ کر آنا ہے، پھر میں تم کو بتا دوں گا کہ تم کیا کرتے رہے ہو2
2 | یعنی یہ دینا کی رشتہ داریاں اور ان کے حقوق تو بس اسی دینا تک ہیں۔ آخر کار ماں پاب کو بھی اور اولاد کو بھی خالق کے حضور پٹ کر جانا ہے اور وہاں ہر ایک کی باز پرس اس کی شخصی ذمہ داری کی بنیاد پر ہوتی ہے۔ اگر ماں باپ نے اولاد کو گمراہ کیا ہے تو وہ پکڑسے جائیں گے۔ اگر اولاد نے ماں باپ کی خطر گمراہی ہی قبول کہ ہے تو اسے سزا ملے گی اور اگر اولاد نے راہ راست اختیار کی اور ماں باپ کے جائز حقوق ادا کرنے میں کوتا ہیئ نہ کی لیکن ماں باپ نے صرف اس قصور پر اسے ستایا کہ اس نے گمراہی میں ان کا ساتھ کیوں نہ دیا، تو وہ اللہ کے مواخذے سے نبچ نہ سکیں گے |
1 | اس آیت کے متعلق مسلم ترمذی، احمد ابوداؤد اور انسانی کی روایت ہے کہ یہ حضرت سعد بن ابی وقاض کے باے میں نازک ہوئی ہے وہ ۱۸۔۱۹ سال کے تھے جب انہوں نے اسلام قبول کیا۔ ان کی ماں حمنہ بنت سُفیان بن امیہ (ابوسفیان کی بھتیجی) وک جب معلام ہوا کہ بیٹا مسلمان ہو گیا تو اس نہ کہا کہ جب تک تو محمد ﷺ کا انکار نہ کرے گا میں نہ کھاؤں گی نہ پیوں گی نہ سائے میں بیٹھوں گی۔ ماں اک حق ادا کرنا تو اللہ کا حکم ہے تو میری بات نہ مانے گا تو اللہ کی نافرمانی کرے گا۔ حضرت سعد اس پر سخت پرشیان ہوئے اور رسولﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر ماجرا عرض کیا ؤ۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ ممکن ہے کہ ایسے حالات سے دوسرے وہ نوجوان بھی دو چار ہوئے ہوں جو مکہ معظمہ کے اتبدائی دور میں مسلمان ہوئے تھے۔ اسی طرح اس مضمون کو سورہ لقمان میں بھی پورے زور کے ساتھ دوہریا گیا تھا (ملاخطہ ہو آیت ۱۵)۔ آیت کا منشایہ ہے کہ اندسان پر مخلوقات میں کسی کا حق سب سے بڑھ کرہے تو وہ اس کے ماں باپ میں لیکن ماں باپ بھی اگر انسان کو شرک پر مجبور کریں تو ان کی بات قبول نہ کرنی چاہیے کجا کہ کسی اور کہے کہنے پر آدمی ایسا کرے پھر الفاظ یہ ہیں کہ وَان جَاھَدَاک۔ اگر وہ دنوں تجھے مجبور کرنے کے لیے اپنا پورا زور بھی لگا دیں۔ اس سے معلام ہوا مکہ تم تر درجے کا دباؤ یا ماں باپ میں کسی ایک کا زور دینا بدرجہ اولی رد کر دینے کے لائق ہے۔ اس کے ساتھ مَا لَیَیسَ لَکَ بَہ عَلم (جسے تو میرے شریک کی حثییت سے نہیں جانتا)کا فقرہ بھی قابل غور ہے۔ اس میں اُن کی بات نہ ماننے کے لیے ایک معقول دلیل دی گئی ہے۔ ماں باپ کا یہ حق تق بے شک ہے کہ اولاد ان کی خدمت کرے ان کا ادب و احترام کرے ان کی جائز باتوں میں ان کی اطاعت بھی کرے۔ لیکن یہ حق ان کو پنچتا کہ آدمی اپنے علم کے خلاف ان کی اندھی تقلید کرے۔ کوئی وجہ نہیں ہے کہ ایک بیٹا یا بیٹی صرف اس بنا پر ایک مذہب کی پیروی لیے جائے کہ یہ اس کے ماں باپ کا مذہب ہے۔ اگر اولاد کو یہ علم حاصل ہو جائے کہ والدین کا مذہب غلط ہے تو اسےاس مذہب کو چھوڑ کر صحیح مذہب اختیار کرنا چاہیے اور ان کے دباؤ ڈالنے پر بھی اس طریقے کی پیروی نہ کرنی چوہیے جس کی گمراہی اس پر کھل چکی ہوا۔ اور یہ معاملہ جب والدین کے ساتھ ہے تو پھر دنیا کے ہر شخص کے ساتھ بھی یہی ہونا چاہیے ۔ کسی شخص کی تقلید بھی جائز نہیں ہے جب تک آدمی یہ نہ جان لے کہ وہ شخص حق پر ہے |
Surah 31 : Ayat 15
وَإِن جَـٰهَدَاكَ عَلَىٰٓ أَن تُشْرِكَ بِى مَا لَيْسَ لَكَ بِهِۦ عِلْمٌ فَلَا تُطِعْهُمَاۖ وَصَاحِبْهُمَا فِى ٱلدُّنْيَا مَعْرُوفًاۖ وَٱتَّبِعْ سَبِيلَ مَنْ أَنَابَ إِلَىَّۚ ثُمَّ إِلَىَّ مَرْجِعُكُمْ فَأُنَبِّئُكُم بِمَا كُنتُمْ تَعْمَلُونَ
لیکن اگر وہ تجھ پر دباؤ ڈالیں کہ میرے ساتھ تو کسی ایسے کو شریک کرے جسے تو نہیں جانتا1 تو ان کی بات ہرگز نہ مان دُنیا میں ان کے ساتھ نیک برتاؤ کرتا رہ مگر پیروی اُس شخص کے راستے کی کر جس نے میری طرف رجوع کیا ہے پھر تم سب کو پلٹنا میری ہی طرف ہے2، اُس وقت میں تمہیں بتا دوں گا کہ تم کیسے عمل کرتے رہے ہو3
3 | تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، سورۂ عنکبوت، حواشی نمبر ۱۱۔۱۲ |
2 | یعنی اولاد اور والدین ، سب کو۔ |
1 | یعنی جو تیرے علم میں میرا شریک نہیں ہے۔ |