Ayats Found (17)
Surah 2 : Ayat 22
ٱلَّذِى جَعَلَ لَكُمُ ٱلْأَرْضَ فِرَٲشًا وَٱلسَّمَآءَ بِنَآءً وَأَنزَلَ مِنَ ٱلسَّمَآءِ مَآءً فَأَخْرَجَ بِهِۦ مِنَ ٱلثَّمَرَٲتِ رِزْقًا لَّكُمْۖ فَلَا تَجْعَلُواْ لِلَّهِ أَندَادًا وَأَنتُمْ تَعْلَمُونَ
وہی تو ہے جِس نے تمہارے لیے زمین کا فرش بچھایا، آسمان کی چھت بنائی، اوپر سے پانی برسایا اور اس کے ذریعے سے ہر طرح کی پیداوار نکال کر تمہارے لیے رزق بہم پہنچایا پس جب تم یہ جانتے ہو تو دوسروں کو اللہ کا مد مقابل نہ ٹھیراؤ1
1 | یعنی جب تم خود بھی اِس بات کے قائل ہو اور تمہیں معلوم ہے کہ یہ سارے کام اللہ ہی کے ہیں، تو پھر تمہاری بندگی اسی کے لیے خاص ہونی چاہیے، دُوسرا کون اس کا حق دار ہو سکتا ہے کہ تم اس کی بندگی بجا لاؤ ؟ دُوسروں کو اللہ کا مدِّ مقابل ٹھہرانے سے مُراد یہ ہے کہ بندگی و عبادت کی مختلف اقسام میں سے کسی قسم کا رویّہ خدا کے سوا دُوسروں کے ساتھ برتا جائے۔ آگے چل کر خود قرآن ہی سے تفصیل کے ساتھ معلوم ہو جائے گا کہ عبادت کی وہ اقسام کون کون سی ہیں جنہیں صِرف اللہ کے لیے مخصوص ہونا چاہیے اور جن میں دُوسروں کی شریک ٹھہرانا وہ ” شرک“ ہے ، جسے روکنے کے لیے قرآن آیا ہے |
Surah 4 : Ayat 36
۞ وَٱعْبُدُواْ ٱللَّهَ وَلَا تُشْرِكُواْ بِهِۦ شَيْــًٔاۖ وَبِٱلْوَٲلِدَيْنِ إِحْسَـٰنًا وَبِذِى ٱلْقُرْبَىٰ وَٱلْيَتَـٰمَىٰ وَٱلْمَسَـٰكِينِ وَٱلْجَارِ ذِى ٱلْقُرْبَىٰ وَٱلْجَارِ ٱلْجُنُبِ وَٱلصَّاحِبِ بِٱلْجَنۢبِ وَٱبْنِ ٱلسَّبِيلِ وَمَا مَلَكَتْ أَيْمَـٰنُكُمْۗ إِنَّ ٱللَّهَ لَا يُحِبُّ مَن كَانَ مُخْتَالاً فَخُورًا
اور تم سب اللہ کی بندگی کرو، اُس کے ساتھ کسی کو شریک نہ بناؤ، ماں باپ کے ساتھ نیک برتاؤ کرو، قرابت داروں اور یتیموں اور مسکینوں کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آؤ، اور پڑوسی رشتہ دار سے، اجنبی ہمسایہ سے، پہلو کے ساتھی1 اور مسافر سے، اور اُن لونڈی غلاموں سے جو تمہارے قبضہ میں ہوں، احسان کا معاملہ رکھو، یقین جانو اللہ کسی ایسے شخص کو پسند نہیں کرتا جو اپنے پندار میں مغرور ہو اور اپنی بڑائی پر فخر کر ے
1 | متن میں”الصا حب بالجنب“ فرمایا گیا ہے جس سے مراد ہم نشین دوست بھی ہےاور ایسا شخص بھی جس سے کہیں کسی وقت آدمی کا ساتھ ہو جائے۔ مثلاً آپ بازار میں جا رہے ہوں اور کوئی شخص آپ کے ساتھ راستہ چل رہا ہو، یا کسی دوکان پر آپ سودا خرید رہے ہوں اور کوئی دوسرا خریدا ر بھی آپ کے پاس بیٹھا ہو ، یاسفر کے دوران میں کوئی شخص آپ کا ہم سفر ہو۔ یہ عارضی ہمسائیگی بھی ہر مہذّب اور شریف انسان پر ایک حق عائد کرتی ہے جس کا تقاضا یہ ہے کہ وہ حتی الامکان اس کے ساتھ نیک برتا ؤ کرے اور اسے تکلیف دینے سے مجتنب رہے |
Surah 13 : Ayat 36
وَٱلَّذِينَ ءَاتَيْنَـٰهُمُ ٱلْكِتَـٰبَ يَفْرَحُونَ بِمَآ أُنزِلَ إِلَيْكَۖ وَمِنَ ٱلْأَحْزَابِ مَن يُنكِرُ بَعْضَهُۥۚ قُلْ إِنَّمَآ أُمِرْتُ أَنْ أَعْبُدَ ٱللَّهَ وَلَآ أُشْرِكَ بِهِۦٓۚ إِلَيْهِ أَدْعُواْ وَإِلَيْهِ مَـَٔـابِ
اے نبیؐ، جن لوگوں کو ہم نے پہلے کتاب دی تھی وہ اِس کتاب سے جو ہم نے تم پر نازل کی ہے، خوش ہیں اور مختلف گروہوں میں کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو اس کی بعض باتوں کو نہیں مانتے تم صاف کہہ دو کہ 1"مجھے تو صرف اللہ کی بندگی کا حکم دیا گیا ہے اور اس سے منع کیا گیا ہے کہ کسی کو اس کے ساتھ شریک ٹھیراؤں لہٰذا میں اسی کی طرف دعوت دیتا ہوں اور اسی کی طرف میرا رجوع ہے"
1 | یہ ایک خاص بات کا جواب ہے جو اُس وقت مخالفین کی طرف سے کہی جا رہی تھی۔ وہ کہتے تھے کہ اگر صاحب واقعی وہی تعلیم لے کر آئے ہیں جو پچھلے انبیاء لائے تھے جیسا کہ اِن کا دعویٰ ہے ، تو آخر کیا بات ہے کہ یہود و نصاریٰ ، جو پچھلے انبیاء کے پیرو ہیں ، آگے بڑھ کر اِن کا استقبال نہیں کرتے۔ اِس پر فرمایا جارہا ہے کہ اُن میں سے بعض لوگ اِ س پر خوش ہیں اور بعض ناراض، مگر اے نبی، خواہ کوئی خوش ہو یا ناراض، تم صاف کہہ دو کہ مجھے تو خدا کی طرف سے یہ تعلیم دی گئی ہے اور میں بہر حال اِسی کی پیروی کروں گا |
Surah 18 : Ayat 110
قُلْ إِنَّمَآ أَنَا۟ بَشَرٌ مِّثْلُكُمْ يُوحَىٰٓ إِلَىَّ أَنَّمَآ إِلَـٰهُكُمْ إِلَـٰهٌ وَٲحِدٌۖ فَمَن كَانَ يَرْجُواْ لِقَآءَ رَبِّهِۦ فَلْيَعْمَلْ عَمَلاً صَـٰلِحًا وَلَا يُشْرِكْ بِعِبَادَةِ رَبِّهِۦٓ أَحَدَۢا
اے محمدؐ، کہو کہ میں تو ایک انسان ہوں تم ہی جیسا، میری طرف وحی کی جاتی ہے کہ تمہارا خدا بس ایک ہی خدا ہے، پس جو کوئی اپنے رب کی ملاقات کا امیدوار ہو اسے چاہیے کہ نیک عمل کرے اور بندگی میں اپنے رب کے ساتھ کسی اور کو شریک نہ کرے
Surah 22 : Ayat 26
وَإِذْ بَوَّأْنَا لِإِبْرَٲهِيمَ مَكَانَ ٱلْبَيْتِ أَن لَّا تُشْرِكْ بِى شَيْــًٔا وَطَهِّرْ بَيْتِىَ لِلطَّآئِفِينَ وَٱلْقَآئِمِينَ وَٱلرُّكَّعِ ٱلسُّجُودِ
یاد کرو وہ وقت جب ہم نے ابراہیمؑ کے لیے اِس گھر (خانہ کعبہ) کی جگہ تجویز کی تھی (اِس ہدایت کے ساتھ) کہ 1"میرے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ کرو، اور میرے گھر کو طواف کرنے والوں اور قیام و رکوع و سجود کرنے والوں کے لیے پاک رکھو
1 | بعض مفسرین نے ’’ پاک رکھو‘‘ پر اس فرمان کو ختم کر دیا ہے جو حضرت ابراہیم کو دیا گیا تھا ، اور ’’ حج کے لیے اذن عام دے دو‘‘ کا خطاب نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی طرف مانا ہے۔ لیکن انداز کلام صاف بتا رہا ہے کہ یہ خطاب بھی حضرت ابراہیم ہی کی طرف ہے اور اسی حکم کا ایک حصہ ہے جو ان کو خانہ کعبہ کی تعمیر کے وقت دیا گیا تھا۔ علاوہ بریں مقصود کلام بھی یہاں یہی بتانا ہے کہ اول روز ہی سے یہ گھر خدائے واحد کی بندگی کے لیے تعمیر کیا گیا تھا اور تمام خدا پرستوں کو یہاں حج کے لیے آنے کا اذن عام تھا |
Surah 22 : Ayat 30
ذَٲلِكَ وَمَن يُعَظِّمْ حُرُمَـٰتِ ٱللَّهِ فَهُوَ خَيْرٌ لَّهُۥ عِندَ رَبِّهِۦۗ وَأُحِلَّتْ لَكُمُ ٱلْأَنْعَـٰمُ إِلَّا مَا يُتْلَىٰ عَلَيْكُمْۖ فَٱجْتَنِبُواْ ٱلرِّجْسَ مِنَ ٱلْأَوْثَـٰنِ وَٱجْتَنِبُواْ قَوْلَ ٱلزُّورِ
یہ تھا (تعمیر کعبہ کا مقصد) اور جو کوئی اللہ کی قائم کردہ حرمتوں کا احترام کرے تو یہ اس کے رب کے نزدیک خود اسی کے لیے بہتر ہے1 اور تمہارے لیے مویشی جانور حلال کیے گئے2، ما سوا اُن چیزوں کے جو تمہیں بتائی جا چکی ہیں3 پس بتوں کی گندگی سے بچو4، جھوٹی باتوں سے پرہیز کرو5
5 | اگرچہ الفاظ عام ہیں ، اور ان سے ہر جھوٹ ، بہتان،اور جھوٹی شہادت کی حرمت ثابت ہوتی ہے ، مگر اس سلسلہ کلام میں خاص طور پر اشارہ ان باطل عقائد اور احکام اور رسوم اور اوہام کی طرف ہے جن پر کفروشرک کی بنیاد ہے۔ اللہ کے ساتھ دوسروں کو شریک ٹھیرانا اور اس کی ذات ، صفات، اختیارات اور حقوق میں اس کے بندوں کو حصہ دار بنانا وہ سب سے بڑا جھوٹ ہے جس سے یہاں منع کیا گیا ہے۔ اور پھر وہ جھوٹ بھی اس فرمان کی برہ راست زد میں آتا ہے جس کی بنا پر مشرکین عرب بحرہ اور سائبہ اور حام وغیرہ کو حرام قرار دیتے تھے ، جیسا کہ سورہ نحل میں فرمایا: وَلَا تَقُوْ ا لِمَا تصِفُ اَلْسِنَتُکُمُ الْکَذِبَ ھٰذَا حَلٰلٌ وَّ ھٰذَا حَرَامٌ لِّتَفْتَرُوْ ا عَلَ اللہِ الْکَذِبَ ، ’’ اور یہ جو تمہاری زبانی جھوٹے احکام لگایا کرتی ہیں کہ یہ حلال ہے اور وہ حرام، تو اس طرح کے حکم لگا کر اللہ پر جھوٹ نہ باندھا کرو‘‘ آیت 116۔ اس کے ساتھ جھوٹی قسم اور جھوٹی شہادت بھی اسی حکم کے تحت آتی ہے ، جیسا کہ صحیح احادیث میں نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے مروی ہے کہ آپ نے فرمایا : عُدِلت شھادۃ الزور بالا شراک باللہِ ، ’’ جھوٹی گواہی شرک باللہ کے برابر رکھی گئی ہے ‘‘ ، اور پھر آپ نے ثبوت میں یہی آیت پیش فرمائی۔ اسلامی قانون میں یہ جرم مستلزم تعزیر ہے۔ امام ابو یوسف اور امام محمد کا فتویٰ یہ ہے کہ جو شخص عدالت میں جھوٹا گواہ ثابت ہو جائے اس کی تشہیر کی جائے اور لمبی قید کی سزا دی جائے۔ یہی حضرت عمرؓ کا قول اور فعل بھی ہے۔ مَکْحول کی روایت ہے کہ حضرت عمر نے فرمایا: یُضْرب ظھرہ و یحلق رأسہ و یسخم و جھہ وہ یطال جلسہ، ’‘اس کی پیٹھ پر کوڑے مارے جائیں ، اس کا سر مونڈا جائے اور منہ کالا کیا جائے اور لمبی قید کی سزا دی جائے ‘‘۔ عبداللہ بن عمر اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت عمر کی عدالت میں ایک شخص کی گواہی جھوٹی ثابت ہو گئی تو انہوں نے اس کو ایک دن بر سر عام کھڑا رکھ کر اعلان کرایا کہ یہ فلاں بن فلاں جھوٹا گواہ ہے ، اسے پہچان لو، پھر اس کو قید کر دیا۔ موجودہ زمانے میں ایسے شخص کا نام اخبارات میں نکال دینا تدبیر کا مقصد پورا کر سکتا ہے |
4 | یعنی بتوں کی پرستش سے اس طرح بچو جیسے غلاظت سے آدمی گھن کھاتا ہے اور دور ہٹتا ہے۔ گویا کہ وہ نجاست سے بھرے ہوئے ہیں اور قریب جاتے ہیں آدمی ان سے نجس اور پلید ہو جائے گا |
3 | اشارہ ہے اس حکم کی طرف جو سورہ انعام اور سورہ نحل میں ارشاد ہوا ہے کہ ( اللہ نے جن چیزوں کو حرام کیا ہے وہ ہیں مردار اور خون اور سور کا گوشت اور وہ جانور جو اللہ کے سوا کسی اور کے نام پر ذبح کیا جائے‘‘۔ (الانعام، آیت 145۔ النحل، آیت 115) |
2 | اس موقع پر مویشی جانوروں کی حلت کا ذکر کرنے سے مقصود دو غلط فہمیوں کو رفع کرنا ہے۔ اول یہ کہ قریش اور مشرکین عرب بَھیِرہ اور سائبہ اور وصیلہ اور حام کو بھی اللہ کی قائم کی ہوئی حرمتوں میں شمار کرتے تھے۔ اس لیے فرمایا گیا کہ یہ اس کی قائم کردہ حرمتیں نہیں ہیں ، بلکہ اس نے تمام مویشی جانور حلال کیے ہیں۔ دوم یہ کہ حالت احرام میں جس طرح شکار حرام ہے اس طرح کہیں یہ نہ سمجھ لیا جائے کہ مویشی جانوروں کا ذبح کرنا اور ان کو کھانا بھی حرام ہے۔ اس لیے بتایا گیا کہ یہ اللہ کی قائم کی ہوئی حرمتوں میں سے نہیں ہے |
1 | بظاہر یہ ایک عام نصیحت ہے جو اللہ کی قائم کی ہوئی تمام حرمتوں کا احترام کرنے کے لیے فرمائی گئی ہے ، مگر اس سلسلہ کلام میں وہ حرمتیں بدرجہ اَولیٰ مراد ہیں جو مسجد حرام اور حج اور عمرے اور حرم مکہ کے باب میں قائم کی گئی ہیں۔ نیز اس میں ایک لطیف اشارہ اس طرف بھی ہے کہ قریش نے حرم سے مسلمانوں کو نکال کر اور ان پر حج کا راستہ بند کر کے اور مناسک حج میں مشرکانہ و جاہلانہ رسمیں شامل کر کے اور بیت اللہ کو شرک کی گندگی سے ملوث کر کے ان بہت سی حرمتوں کی ہتک کر ڈالی ہے جو ابراہیم علیہ السلام کے وقت سے قائم کر دی گئی تھیں |
Surah 22 : Ayat 31
حُنَفَآءَ لِلَّهِ غَيْرَ مُشْرِكِينَ بِهِۦۚ وَمَن يُشْرِكْ بِٱللَّهِ فَكَأَنَّمَا خَرَّ مِنَ ٱلسَّمَآءِ فَتَخْطَفُهُ ٱلطَّيْرُ أَوْ تَهْوِى بِهِ ٱلرِّيحُ فِى مَكَانٍ سَحِيقٍ
یکسُو ہو کر اللہ کے بندے بنو، اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو اور جو کوئی اللہ کے ساتھ شرک کرے تو گویا وہ آسمان سے گر گیا، اب یا تو اسے پرندے اُچک لے جائیں گے یا ہوا اُس کو ایسی جگہ لے جا کر پھینک دے گی جہاں اُس کے چیتھڑے اڑ جائیں گے1
1 | اس تمثیل میں آسمان سے مراد ہے انسان کی فطری حالت جس میں وہ ایک خدا کے سوا کسی کا بندہ نہیں ہوتا اور توحید کے سوا اس کی فطرت کسی اور مذہب کو نہیں جانتی۔ اگر انسان انبیاء کی دی ہوئی رہنمائی قبول کر لے تو وہ اسی فطری حالت پر علم اور بصیرت کے ساتھ قائم ہو جاتا ہے ، اور آگے اس کی پرواز مزید بلندیوں ہی کی طرف ہوتی ہے۔ نہ کہ پستیوں کی طرف۔ لیکن شرک (اور صرف شرک ہی نہیں بلکہ دہریت اور الحاد بھی) اختیار کرتے ہی وہ اپنی فطرت کے آسمان سے یکایک گر پڑتا ہے اور پھر اس کو دو صورتوں میں سے کوئی ایک صورت لازماً پیش آتی ہے۔ ایک یہ کہ شیاطین اورگمراہ کرنے والے انسان ، جن کو اس تمثیل میں شکاری پرندوں سے تشبیہ دی گئی ہے ، اس کی طرف جھپٹتے ہیں اور ہر ایک اسے اچک لے جانے کی کوشش کرتا ہے۔ دوسرے یہ کہ اس کی اپنی خواہشات نفس اور اس کے اپنے جذبات اور تخیلات ، جن کو ہوا سے تشبیہ دی گئی ہے ، اسے اڑائے اڑائے لیے پھرتے ہیں اور آخر کار اس کو کسی گہرے کھڈ میں لے جا کر پھینک دیتے ہیں۔ سَحیق کا لفظ سحق سے نکلا ہے جس کے اصل معنی پیسنے کے ہیں۔ کسی جگہ کو سحیق اس صورت میں کہیں گے جب کہ وہ اتنی گہری ہو کہ جو چیز اس میں گرے وہ پاش پاش ہو جائے۔ یہاں فکر و اخلاق کی پستی کو اس گہرے کھڈ سے تشبیہ دی گئی ہے جس میں گر کر آدمی کے پرزے اڑ جائیں |
Surah 6 : Ayat 14
قُلْ أَغَيْرَ ٱللَّهِ أَتَّخِذُ وَلِيًّا فَاطِرِ ٱلسَّمَـٰوَٲتِ وَٱلْأَرْضِ وَهُوَ يُطْعِمُ وَلَا يُطْعَمُۗ قُلْ إِنِّىٓ أُمِرْتُ أَنْ أَكُونَ أَوَّلَ مَنْ أَسْلَمَۖ وَلَا تَكُونَنَّ مِنَ ٱلْمُشْرِكِينَ
کہو، اللہ کو چھوڑ کر کیا میں کسی اور کو اپنا سر پرست بنا لوں؟ اُس خدا کو چھوڑ کر جو زمین و آسمان کا خالق ہے اور جو روزی دیتا ہے روزی لیتا نہیں ہے1؟ کہو، مجھے تو یہی حکم دیا گیا ہے کہ سب سے پہلے میں اُس کے آگے سر تسلیم خم کروں (اور تاکید کی گئی ہے کہ کوئی شرک کرتا ہے تو کرے) تو بہرحال مشرکوں میں شامل نہ ہو
1 | اس میں ایک لطیف تعریض ہے۔ مشرکوں نے اللہ کے سوا جن جن کو اپنا خدا بنا رکھا ہے وہ سب اپنے ان بندوں کو رزق دینے کے بجائے اُلٹا ان سے رزق پانے کے محتاج ہیں۔ کوئی فرعون خدائی کے ٹھاٹھ نہیں جما سکتا جب تک اس کے بندے اسے ٹیکس اور نذرانے نہ دیں۔ کسی صاحبِ قبر کی شانِ معبُودیّت قائم نہیں ہو سکتی جب تک اس کے پرستار اس کا شاندار مقبرہ تعمیر نہ کریں۔ کسی دیوتا کا درباِ رِ خدا وندی سج نہیں سکتا جب تک اس کے پُجاری اس کا مجسّمہ بنا کر کسی عالی شان مندر میں نہ رکھیں اور اس کو تزئین و آرائش کے سامانوں سے آراستہ نہ کریں۔ سارے بناؤٹی خدا بیچا رے خود اپنے بندوں کے محتاج ہیں ۔ صرف ایک خداوندِ عالم ہی وہ حقیقی خدا ہے جس کی خدائی آپ اپنے بل بوتے پر قائم ہے اور جو کسی کی مدد کا محتاج نہیں بلکہ سب اسی کے محتاج ہیں |
Surah 10 : Ayat 105
وَأَنْ أَقِمْ وَجْهَكَ لِلدِّينِ حَنِيفًا وَلَا تَكُونَنَّ مِنَ ٱلْمُشْرِكِينَ
اور مجھ سے فرمایا گیا ہے کہ تو یکسو ہو کر اپنے آپ کو ٹھیک ٹھیک اِس دین پر قائم کر دے1، اور ہرگز ہرگز مشرکوں میں سے نہ ہو2
2 | یعنی ان لوگوں میں ہرگز شامل نہ ہو جو اللہ کی ذات میں،اس کی صفات میں،اس کے حقوق میں اوراس کے اختیارات میں کسی طور پرغیر اللہ کو شریک کرتے ہیں۔خواہ وہ غیر اللہ ان کا اپنا نفس ہو،یا کوئی دوسراانسان ہو،یا انسانوں کو کوئی مجموعہ ہو،یا کوئی روح ہو،جن ہو،فرشتہ ہو،یا کوئی مادی یا خیالی یا وہمی وجود ہو۔پس مطالبہ صرف اِس ایجابی صورت ہی میں نہیں ہے کہ توحیدِ خالص کا راستہ پوری استقامت کے ساتھ اختیار کر۔بلکہ اس سلبی صورت میں بھی ہے کہ اُن لوگوں سے الگ ہو جا جوکسی شکل اور ڈھنگ کا شرک کرتے ہوں۔عقیدے ہی میں نہیں عمل میں بھی،انفرادی طرزِزندگی ہی میں نہیں اجتماعی نظام حیات میں بھی،معبدوں اور پرستش گاہوں ہی میں نہیں درس گاہوں میں بھی،عدالت خانوں میں بھی،قانون سازی کی مجلسوں میں بھی،سیاست کے ایوانوں میں بھی،معیشت کے بازاروں میں بھی،غرض ہر جگہ اُن لوگوں کے طریقے سے اپنا طریقی الگ کرلے جنہوں نے اپنے افکارو اعمال کا پورا نظام خدا پرستی اور نا خداپرستی کی آمیزش پرقائم کر رکھا ہے۔توحید کا پیروزندگی کے کسی پہلو اور کسی شعبے میں بھی شرک کی راہ چلنے والوں کے ساتھ قدم سے قدم ملا کرنہیں چل سکتا،کجا کہ آگے وہ ہوں اور پیچھے یہ اور پھر بھی اس کی توحید پرستی کے تقاضے اطمینان سے پورے ہوتے رہیں!پھرمطالبہ شرک جلی ہی سے پرہیز کا نہیں ہے بلکہ شرک خفی سے بھی کامل اورسخت اجتناب کا ہے۔بلکہ شرک خفی زیادہ خوفناک ہے اور اس سے ہوشیار رہنے کی اور بھی زیادہ ضرورت ہے۔بعض نادان لوگ’’شرک خفی‘‘کو’’شرک خفیف‘‘سمجھتے ہیں اوران کا گمان یہ کہ اس کا معاملہ اتنا اہم نہیں ہے جتنا شرک جلی کا ہے۔حالاں کہ خفی کے معنی خفیف کے نہیں ہیں،پوشیدہ و مستور کے ہیں۔اب یہ سوچنے کی بات ہے کہ جو دشمن منہ کھول کردن دہاڑے سامنے آجائے وہ زیادہ خطرناک ہے یا وہ جوآستین میں چھپا ہُوا ہو یا دوست کے لباس میں معانقہ کررہا ہو؟ بیماری وہ زیادہ مہلک ہے جس کی علامات بالکل نمایاں ہوں یا وہ جو مدتوں تک تندرستی کے دھوکے میں رکھ کراندر ہی اندر صحت کی جڑ کھوکھلی کرتی رہے؟جس شرک کو ہر شخص بیک نظر دیکھ کر کہ دے کہ یہ شرک ہے،اُس سے تو دینِ توحید کا تصادم بالکل کھلا ہُوا ہے۔مگر جس شرک کو سمجھنے کے لیے گہری نگاہ اور مقتضیاتِ توحید کا عمیق فہم درکار ہےوہ اپنی غیر مرئی جڑیں دین کے نظام میں اس طرح پھیلاتا ہے کہ عام اہل توحید کوان کی خبر تک نہیں ہوتی اور رفتہ رفتہ ایسے غیرمحسوس طریقے سےدین کے مغزکوکھا جاتاہے کہ کہیں خطرے کا الارم بجنے کی نوبت ہی نہیں آتی۔ |
1 | اس مطالبے کی شدت قابل غور ہے۔بات اِن الفاظ میں بھی ادا ہوسکتی تھی کہ تو’’اِس دین کو اختیارکرلے‘‘یا’’اس دین پر چل‘‘یا’’اس دین کا پیروبن جا‘‘۔مگراللہ تعالٰی کو بیان کے یہ سب پیرایے ڈھیلے ڈھالے نظر آئے۔اس دین کی جیسی سخت اور ٹھکی اور کسی ہوئی پیروی مطلوب ہے اس کا اظہار ان کمزورالفاظ سے نہ ہو سکتا تھا۔لہذا اپنا مطالبہ ان الفاظ میں پیش فرمایاکہ’’اَقِم وَجھق لِلّدِینِ حَنِیفًا‘‘۔ اقم وجھق کے لفظی معنی ہیں’’اپنا چہراجمادے‘‘۔اس کامفہوم یہ ہے کہ تیرارُخ ایک ہی طرف قائم ہو۔ڈگمگاتااور ہِلتاڈُلتا نہ ہو۔کبھی پیچھے اور کبھی آگے اور کبھی دائیں اور کبھی بائیں نہ مڑتا رہے۔بالکل ناک کی سیدھ اُسی راستے پر نظر جمائے ہوئے چل جو تجھے دکھا دیا گیا ہے۔یہ نبدش بجائے خود بہت چُست تھی،مگراس پربھی اکتفا نہ کیا گیا۔اس پرایک اور قید حنیفا کی بڑھائی گئی۔حنیف اس کو کہتے ہیں جو سب طرف سے مڑ کرایک طرف کا ہورہا ہو۔پس مطالبہ یہ ہے کہ اس دین کو،اِس بندگی خدا کے طریقے کو،اس طرزِزندگی کو کہ پرستش،بندگی،غلامی،اطاعت،فرمانبرداری سب کچھ صرف اللہ رب العالمین ہی کی کی جائے،ایسی یکسوئی کے ساتھ اختیار کرکہ کِسی دوسرے طریقے کی طرف ذرہ برابر میلان ورحجان بھی نہ ہو،اس راہ پرآکر اُن غلط راہوں سے کچھ بھی لگاؤ باقی نہ رہے جنہیں تو چھوڑ کر آیا ہے اور اُن ٹیڑھے راستوں پر ایک غلط انداز نگاہ بھی نہ پڑے جن پردنیا چلی جا رہی ہے۔ |
Surah 28 : Ayat 87
وَلَا يَصُدُّنَّكَ عَنْ ءَايَـٰتِ ٱللَّهِ بَعْدَ إِذْ أُنزِلَتْ إِلَيْكَۖ وَٱدْعُ إِلَىٰ رَبِّكَۖ وَلَا تَكُونَنَّ مِنَ ٱلْمُشْرِكِينَ
اور ایسا کبھی نہ ہونے پائے کہ اللہ کی آیات جب تم پر نازل ہوں تو کفّار تمہیں اُن سے باز رکھیں1 اپنے رب کی طرف دعوت دو اور ہرگز مشرکوں میں شامل نہ ہو
1 | یعنی اُن کی تبلیغ واشاعت سے اوران کےمطابق عمل کرنےسے۔ |