Ayats Found (1)
Surah 33 : Ayat 33
وَقَرْنَ فِى بُيُوتِكُنَّ وَلَا تَبَرَّجْنَ تَبَرُّجَ ٱلْجَـٰهِلِيَّةِ ٱلْأُولَىٰۖ وَأَقِمْنَ ٱلصَّلَوٲةَ وَءَاتِينَ ٱلزَّكَوٲةَ وَأَطِعْنَ ٱللَّهَ وَرَسُولَهُۚۥٓ إِنَّمَا يُرِيدُ ٱللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنكُمُ ٱلرِّجْسَ أَهْلَ ٱلْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيرًا
اپنے گھروں میں ٹِک کر رہو1 اور سابق دور جاہلیت کی سی سج دھج نہ دکھاتی پھرو2 نماز قائم کرو، زکوٰۃ دو اور اللہ اور اُس کے رسولؐ کی اطاعت کرو اللہ تو یہ چاہتا ہے کہ اہلِ بیتِ نبیؐ سے گندگی کو دور کرے اور تمہیں پوری طرح پاک کر دے3
3 | جس سیاق و سباق میں یہ آیت وارد ہوئی ہے اس سے صاف ظاہر ہے کہ یہاں اہل البیت سے مُراد نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی بیویاں ہیں۔ کیونکہ خطاب کا آغاز ہی یَا نِساءالنبی کے الفاظ سے کیا گیا ہے اور ما قبل و ما بعد کی پوری تقریر میں وہی مخاطب ہیں۔ علاوہ بریں ’’اہل البیت‘‘ کا لفظ عربی زبان میں ٹھیک انہی معنوں میں استعمال ہوتا ہے جن میں ہم ’’گھر والوں‘‘ کا لفظ بولتے ہیں، اور اس کے مفہوم میں آدمی کی بیوی اور اس کے بچے، دونوں شامل ہوتے ہیں۔ بیوی کو مستثنٰی کر کے ’’اہل خانہ‘‘ کا لفظ کوئی نہیں بولتا۔ خود قرآن مجید میں بھی اس مقام کے سوا دو مزید مقامات پر یہ لفظ آیا ہے اور دونوں جگہ اس کے مفہوم میں بیوی شامل، بلکہ مقدم ہے۔ سورۂ ہود میں جب فرشتے حضرت ابراہیمؑ کو بیٹے کی پیدائش کی بشارت دیتے ہیں تو ان کی اہلیہ اسے سُن کر تعجب کا اظہار کرتی ہیں کہ بھلا اس بڑھاپے میں ہمارے ہاں بچہ کیسے ہو گا۔ اس پر فرشتے کہتے ہیں اَتَعْجَبِیْنَ مِنْ اَمْرِاللّٰہِ رِحْمَۃُ اللّٰہِ وَبَرَکَاتُہٗ عَلَیْکُمْ اَھْلَ الْبَیْتِ۔ کیا تم اللہ کے امر پر تعجب کرتی ہو؟اِس گھر کے لوگو، تم پر تو اللہ کی رحمت ہے اور اس کی برکتیں ہیں۔‘‘سُورۂ قصص میں جب حضرت موسیٰ ایک شیر خوار بچے کی حیثیت سے فرعون کے گھر میں پہنچتے ہیں اور فرعون کی بیوی کو کسی ایسی انّا کی تلاش ہوتی ہے جس کا دودھ بچہ پی لے تو حضرت موسیٰؑ کی بہن جا کر کہتی ہیں ھَلْ اَدُلُّکُمْ عَلیٰٓاَھْلِ بَیْتٍ یَّکْفُلُوْ نَہٗ لَکُمْ۔ ’’ کیا میں تمہیں ایسے گھر والوں کا پتہ دوں جو تمہارے لیے اس بچے کی پرورش کا ذمّہ لیں‘‘؟ پس محاورہ، اور قرآن کے استعمالات، اور خود اس آیت کا سیاق و سباق، ہر چیز اس بات پر قطعی دلالت کرتی ہے کہ بنی صلی اللہ و سلم کے اہلِ بیت میں آپ کی ازواج مطہرات بھی داخل ہیں اور آپ کی اولاد بھی۔ بلکہ زیادہ صحیح بات یہ ہے کہ آیت کا اصل خطاب ازواج سے ہے اور اولاد مفہوم لفظ سے اس میں شامل قرار پاتی ہے۔ اسی بنا پر ابن عباس اور عُروہ بن زبیر اور عکْرمہ کہتے ہیں کہ اس آیت میں اہل البیت سے مراد ازواج النبی صلی اللہ علیہ و سلم ہیں۔ لیکن اگر کوئی یہ کہے کہ ’’اہل البیت‘‘ کا لفظ صرف ازواج کے لیے استعمال ہوا ہے اور اس میں دوسرا کوئی داخل نہیں ہو سکتا، تو یہ بات بھی غلط ہو گی۔ صرف یہی نہیں کہ ’’گھر والوں‘‘ کے لفظ میں آدمی کے سب اہل و عیال شامل ہوتے ہیں، بلکہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے خود تصریح فرمائی ہے کہ وہ بھی شامل ہیں۔ ابن ابی حاتم کی روایت ہے کہ حضرت عائشہؓ سے ایک مرتبہ حضرت علیؓ کے متعلق پوچھا گیا تو انہوں نے فرمایا: تساءلنی عن رجل کان من احبّ الناس الی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم وکانت تحتہ ابنتۃ واحبّ الناس الیہ۔ ’’تم اس شخص کے متعلق پوچھتے ہو جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے محبوب ترین لوگوں میں سے تھا اور جس کی بیوی حضورؐ کی وہ بیٹی تھی جو آپؐ کو سب سے بڑھ کر محبوب تھی۔‘‘ اس کے بعد حضرت عائشہؓ نے یہ واقعہ سُنایا کہ حضورؐ نے حضرت علیؓ اور فاطمہؓاور حسن اور حسین رضی اللہ عنہم کو بلایا اور ان پر ایک کپڑا ڈال دیا اور دُعا فرمائی اللھمّ ھٰؤلاء اھلُ بیتی فاَذْھِبْ عنھُمالرّ جس و طھّر ھم تطھیراً۔خدایا یہ میرے اہل بیت ہیں، ان سے گندگی کو دور کردے۔‘‘ حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ میں نے عرض کیا، میں بھی تو آپ کے اہل بیت میں سے ہوں (یعنی مجھے بھی اس کپڑے میں داخل کر کے میرے حق میں دعا فرمائے)۔ حضورؐ نے فرمایا،’’ تم الگ رہو، تم تو ہو ہی۔‘‘اس سے ملتے جلتے مضمون کی بکثرت احادیث مسلم، ترمذی۔ احمد،ابن جَریر، حاکم، بیہقی وغیرہ محدّثین نے انو سعید خُدریؓ ، حضرت اَنَس ؓ، حضرت اُمِّ سلمہؓ، حضرت واثِلہ بن اَسْقَع اور بعض دوسرے صحابہ ؓسے نقل کی ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرت علیؓ و فاطمہؓ اور ان کے دونوں صاحبزادوں کو اپنا اہل البیت قرار دیا۔ لہٰذا اُن لوگوں کا خیال غلط ہے جو ان حضرات کو اس سے خارج ٹھہراتے ہیں۔ اِسی طرح ان لوگوں کی رائے بھی غلط ہے جو مذکورۂ بالا احادیث کی بنیاد پر ازواج مطہرات کو اہل البیت سے خارج ٹھیراتے ہیں۔ اول تو جو چیز صراحتہً قرآن سے ثابت ہو اس کو کسی حدیث کے بل پر رد نہیں کیا جا سکتا۔ دوسرے‘ خود ان احادیث کا مطلب بھی وہ نہیں ہے جو ان سے نکالا جا رہا ہے۔ ان میں سے بعض روایت میں جو یہ بات آئی یہ کہ حضرت عائشہ ؓ اور حضرت ا مّ سلمہ ؓ کو نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے اُس چادر کے نیچے نہیں لیا جس میں حضورؐ نے ان چاروں اصحابؓ کو لیا تھا‘ اُس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ حضورؐ نے ان کو اپنے ’’گھر والوں‘‘ سے خارج قرار دیا تھا۔ بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ بیویاں تو اہل بیت میں شامل تھیں ہی‘ کیونکہ قرآن نے انہی کو مخاطب کیا تھا‘ لیکن حضورؐ کو اندیشہ ہوا کہ ان دوسرے اصحاب کے متعلق ظاہر قرآن کے لحاظ سے کسی کو یہ غلط فہمی نہ ہو جائے کہ یہ اہل بیت سے خارج ہیں، اس لیے آپؐ نے تصریح کی ضرورت ان کے حق میں محسوس فرمائی نہ کہ ازواجِ مطہّرات کے حق میں۔ ایک گروہ نے اس آیت کی تفسیر میں صرف اتنا ہی ستم نہیں کیا ہے کہ ازواج مطہّرات کو ’’اہل البیت‘‘ سے خارج کر کے صرف حضرت علیؓ و فاطمہؓ اور ان کی اولاد کے لیے اس لفظ کو خاص کر دیا، بلکہ اس پر مزید ستم یہ بھی کیا ہے کہ اس کے الفاظ ’’اللہ تو یہ چاہتا ہے کہ تم سے گندگی کو دور کرے اور تمہیں پوری طرح پاک کر دے‘‘ سے یہ نتیجہ نکال لیا کہ حضرت علیؓ و فاطمہؓ اور ان کی اولاد انبیاء علیہم السلام کی طرح معصوم ہیں۔ ان کا کہنا یہ ہے کہ ’’گندگی‘‘ سے مراد خطا اور گناہ ہے اور ارشادِ اِلٰہی کی رو سے یہ اہل البیت اس سے پاک کر دیے گئے ہیں۔ حالانکہ آیت کے الفاظ یہ نہیں ہیں کہ تم سے گندگی دور کر دی گئی اور تم بالکل پاک کر دیے گئے۔ بلکہ الفاظ یہ ہیں کہ اللہ تم سے گندگی کو دُور کرنا اور تمہیں پاک کر دینا چاہتا ہے۔ سیاق و سباق بھی یہ نہیں بتاتا کہ یہاں مناقبِ اہل بیت بیان کرنے مقصود ہیں، بلکہ یہاں تو اہل بیت کو نصیحت کی گئی ہے کہ تم فلاں کام کرو اور فلاں کام نہ کرو، اس لیے کہ اللہ تمہیں پاک کرنا چاہتا ہے۔ بالفاظِ دیگر مطلب یہ ہے کہ تم فلاں رویہّ اختیار کرو گے تو پاکیزگی کی نعمت تمہیں نصیب ہو گی ورنہ نہیں۔ تاہم اگر یُرِیْدُ اللّٰہ ُ لِیُذْ ھِبَ عَنْکُمُ الرِّجْسَ .........وَیُطَھَّرَکُمْ تَطْھِیْراً کا مطلب یہ لیا جائے کہ اللہ نے ان کو معصوم کر دیا تو پھر کوئی وجہ نہیں کہ وضو اور غسل اور تیمم کرنے والے سب مسلمانوں کو معصوم نہ مان لیا جائے کیوں کہ ان کی متعلق بھی اللہ تعالٰی فرماتا ہے وَلٰکِنْ یُّرِیْدُ لِیُطَھِّرَ کُمْ وَلِیُتِمَّ نِعْمَتَہٗ عَلَیْکُمْ۔’’مگر اللہ چاہتا ہے کہ تم کو پاک کرے اور اپنی نعمت تم پرتمام کر دے‘‘ (المائدہ۔آیت ۶) |
2 | اس آیت میں دو اہم الفاظ استعمال کیے گئے ہیں جن کا سمجھنا آیت کے منشا کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے۔ ایکََتَبُّرج‘ دوسرے جاہلیت اولیٰ۔ تَبَرُّج کے معنی عربی زبان میں نمایاں ہونے‘ ابھرنے اور کھُل کر سامنے آنے کے ہیں۔ ہر ظاہر اور مرتفع چیز کے لیے عرب لفظ ’’بَرَ ج‘‘ استعمال کرتے ہیں ’’بُرج‘‘ کو ’’بُرج اس کے ظہور و ارتفاع کی بنا پر ہی کہا جاتا ہے۔ بادبانی کشتی کے لیے ’’بارجہ‘‘ کا لفظ اسی لیے بولا جاتا ہے کہ اس کے بادبان دور سے نمایاں ہوتے ہیں۔ عورت کے لیے جب لفظ تَبَرُّج استعمال کیا جائے تو اس کے تین مطلب ہونگے۔ ایک یہ کہ وہ اپنے چہرے اور جسم کا حُسن لوگوں کو دکھائے، دوسرے یہ کہ وہ اپنے لباس اور زیور کی شان دوسروں کے سامنے نمایاں کرے۔ تیسرے یہ کہ وہ اپنی چال ڈھال اور چَٹک مَٹک سے اپنے آپ کو نمایاں کرے۔ یہی تشریح اس لفظ کی اکابر اہلِ لُغت اور اکابر مفسرین نے کی ہے۔ مجاہد، قَتَادہ اور ابن انی نُجَیح کہتے ہیں : التبُّرج المشی بتبختُرو تکسر و تفنج ’’تبرُّج کے معنی ہیں نازو ادا کے ساتھ لچکے کھاتے اور اِٹھلاتے ہوئے چلنا‘‘ مُقاتل کہتے ہیں : ابد أ قلائد ھا و قرطھا و عنقھا ’’عورت کا اپنے ہار اور اپنے بُندے اور اپنا گلا نمایاں کرنا‘‘۔ المبّرد کا قول ہے : ان تبدی من محاسنھاما یجب علیھا سترہٗ ’’ یہ کہ عورت اپنے وہ محاسن ظاہر کر دے جن کو اسے چھپانا چاہیے۔‘‘ ابو عبیدہ کی تفسیر ہے : ان تُخرج من محا سنھا ما تستدھی بہٖ شہوۃ الرّجَال۔’’یہ کہ عورت اپنے جسم لباس کے حسب کو نمایاں کرے جس سے مردوں کو اس کی طرف رغبت ہو‘‘۔ جاہلیّت کا لفظ قرآن مجید میں اس مقام کے علاوہ تین جگہ اور استعمال ہوا ہے۔ ایک، آل عمران کی آیت ۱۵۴ میں، جہاں اللہ کی راہ میں لڑنے سے جی چُرانے والوں کے متعلق فرمایا گیا ہے کہ وہ ’’اللہ کے بارے میں حق کے خلاف جاہلیّت کے سے گمان رکھتے ہیں۔‘‘دوسرے سُورۂ مائدہ، آیت ۵۰ میں، جہاں خدا کے قانون کے بجائے کسی اور قانون کے مطابق اپنے مقدمات کا فیصلہ کرانے والوں کے متعلق فرمایا گیا ’’کیا وہ جاہلیت کا فیصلہ چاہتے ہیں۔‘‘ تیسرے سُورۂ فتح، آیت ۲۶ میں، جہاں کفّار مکہّ کے اِس فعل کو ’’حمیت جاہلیہ‘‘ کے لفظ سے تعبیر کیا گیا ہے کہ انہوں نے محض تعصّب کی بنا پر مسلمانوں کو عمرہ نہ کرنے دیا۔ حدیث میں آتا ہے کہ ایک مرتبہ حضرت ابو الدرداء نے کسی سے جھگڑا کرتے ہوئے اس کو ماں کی گالی دے دی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے سُنا تو فرمایا’’تم میں ابھی تک جاہلیت موجود ہے‘‘ ایک اور حدیث میں ہے کہ حضورؐ نے فرمایا ’’تین کام جاہلیّت کے ہیں۔ دوسروں کے نسب پر طعن کرنا، ستاروں کی گردش سے فال لینا، اور مُردوں پر نوحہ کرنا‘‘۔ ان تمام استعمالات سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ جا ہلیّت سے مُراد اسلام کی اصطلاح میں ہر وہ طرزِ عمل ہے جو اسلامی تہذیب و ثقافت اور اسلامی اخلاق و آداب اور اسلامی ذہنیت کے خلاف ہو۔ اور جاہلیّت اولیٰ کا مطلب وہ بُرائیاں ہیں جن میں اسلام سے پہلے عرب کے لوگ اور دنیا بھر کے دوسرے لوگ مبتلا تھے۔ اس تشریح سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ اللہ تعالٰی جس طرزِ عمل سے عورتوں کو روکنا چاہتا ہے وہ ان کا اپنے حسن کی نمائش کرتے ہوئے گھروں سے باہر نکلنا ہے۔ وہ ان کو ہدایت فرماتا ہے کہ اپنے گھروں میں ٹِک کر رہو، کیوں کہ تمہارا اصل کام گھر میں ہے نہ کہ اس سے باہر۔ لیکن اگر باہر نکلنے کی ضرورت پیش آئے تو اس شان کے ساتھ نہ نکلو جس کے ساتھ سابق دَورِ جاہلیت میں عورتیں نکلا کرتی تھیں۔ بن ٹھن کر نکلنا، چہرے اور جسم کے حُسن کو زیب و زینت اور چُست لباسوں یا عُریاں لباسوں سے نمایاں کرنا، اور ناز وادا سے چلنا ایک مسلم معاشرے کی عورتوں کا کام نہیں ہے۔ یہ جاہلیت کے طور طریقے ہیں جو اسلام میں نہیں چل سکتے۔ اب یہ بات ہر شخص خود دیکھ سکتا ہے کہ جو ثقافت ہمارے ہاں رائج کی جا رہی ہے وہ قرآن کی رو سے اسلام کی ثقافت ہے یا جاہلیت کی ثقافت۔ البتہ اگر کوئی اور قرآن ہمارے کار فرماؤں کے پاس آگیا ہے جس سے اسلام کی یہ نئی رُوح نِکال کر مسلمانوں میں پھیلائی جا رہی ہے تو بات دوسری ہے۔ |
1 | اصل میں لفظ قَرْنَ استعمال ہوا ہے۔ بعض اہلِ لغت نے اس کو ’’قرار‘‘ سے ماخوذ بتایا ہے اور بعض نے ’’وقار‘‘ سے۔ اگر اس کو قرار سے لیا جائے تو معنی ہوں گے ’’قرار پکڑو‘‘۔ ’’ ٹِک رہو‘‘۔اور اگر وقار سے لیا جائے تو مطلب ہو گا ’’سکون سے رہو‘‘، ’’ چین سے بیٹھو‘‘۔ دونوں صورتوں میں آیت کا منشا یہ ہے کہ عورت کا اصل دائرہ عمل اس کا گھر ہے، اُس کو اسی دائرے میں رہ کر اطمینان کے ساتھ اپنے فرائض انجام دینے چاہییں، اور گھر سے باہر صرف بضرورت ہی نکلنا چاہیے۔ یہ منشا خود آیت کے الفاظ سے بھی ظاہر ہے اور نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی احادیث اس کو اور زیادہ واضح کر دیتی ہیں۔ حافظ ابو بکر بَزّار حضرت انس ؓ سے روایت کرتے ہیں کہ عورتوں نے حضورؐ سے عرض کیا کہ ساری فضیلت تو مرد لُوٹ لے گئے، وہ جہاد کرتے ہیں اور خدا کی راہ میں بڑے بڑے کام کرتے ہیں۔ ہم کیا عمل کریں کہ ہمیں بھی مجاہدین کے برابر اجر مِل سکے؟ جواب میں فرمایا من قعدت منکن فی بیتھا فانھا تدرک عمل المجاھدین جو تم میں سے گھر میں بیٹھے گی وہ مجاہدین کے عمل کو پالے گی‘‘۔ مطلب یہ ہے کہ مجاہد دِل جمعی کے ساتھ اسی وقت تو خدا کی راہ میں لڑ سکتا ہے جبکہ اسے اپنے گھر کی طرف سے پورا اطمینان ہو، اس کے بیوی اس کے گھر اور بچوں کو سنبھالے بیٹھی ہو، اور اسے کوئی خطرہ اس امر کا نہ ہو کہ پیچھے وہ کوئی گُل کھِلا بیٹھے گی۔ یہ اطمینان جو عورت اسے فراہم کرے گی وہ گھر بیٹھے اس کے جہاد میں برابر کی حصّہ دار ہو گی۔ ایک اور روایت جو بزّار اور ترمذی نے حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے نقل کی ہے اس میں وہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کا یہ ارشاد بیان کرتے ہیں کہ انّ المرأۃ عورۃ فاذ اخرجت استشرفھا الشیطان و اقرب ما تکون بروحۃ ربھاوھی فی قعربیتھا۔’’عورت مستور رہنے کے قابل چیز ہے۔ جب وہ نِکلتی ہے تو شیطان اس کو تاکتا ہے۔اور اللہ کی رحمت سے قریب تر وہ اُس وقت ہوتی ہے جبکہ وہ اپنے گھر میں ہو‘‘۔ (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفسیر سُورۂ نور ، حاشیہ ۴۹) قرآن مجید کے اس صاف اور صریح حکم کی موجودگی میں اس بات کی آخر کیا گنجائش ہے کہ مسلمان عورتیں کونسلوں اور پارلیمنٹوں کی ممبر بنیں، بیرون خانہ کی سوشل سرگرمیوں میں دَوڑتی پھریں، سرکاری دفتروں میں مردوں کے ساتھ کام کریں، کالجوں میں لڑکوں کے ساتھ تعلیم پائیں، مردانہ ہسپتالوں میں نرسنگ کی خدمت انجام دیں، ہوائی جہازوں اور ریل کاروں میں ’’مسافرنوازی‘‘ کے لیے استعمال کی جائیں، اور تعلیم و تربیت کے لیے امریکہ و انگلستان بھیجی جائیں عورت کے بیرونِ خانہ سرگرمیوں کے جواز میں بڑی سے بڑی دلیل جو پیش کی جاتی ہے وہ یہ ہے کہ حضرت عائشہ ؓ نے جنگِ جَمَل میں حصّہ لیا تھا۔ لیکن یہ استدلال جو لوگ پیش کرتے ہیں انہیں شاید معلوم نہیں ہے کہ خود حضرت عائشہؓ کا اپنا خیال اس باب میں کیا تھا۔ عبداللہ بن احمد بن حنبل نے ز وائدالزھد میں، اور ابن المُنذِر، ابن ابی شَیْبَہ اور ابن سعد نے اپنی کتابوں میں مَسْروق کی روایت نقل کی ہے کہ حضرت عائشہؓ جب تلاوت قرآن کرتے ہوئے اِس آیت (وَقَرْنَ فِی بُیُوْتِکُنَّ)پر پہنچتی تھیں تو بے اختیار رو پڑتی تھیں یہاں تک کہ ان کا دوپٹّہ بھیگ جاتا تھا، کیونکہ اس پر انہیں اپنی وہ غلطی یاد آ جاتی تھی جو اُن سے جنگ جَمَل میں ہوئی تھی۔ |