Ayats Found (3)
Surah 7 : Ayat 175
وَٱتْلُ عَلَيْهِمْ نَبَأَ ٱلَّذِىٓ ءَاتَيْنَـٰهُ ءَايَـٰتِنَا فَٱنسَلَخَ مِنْهَا فَأَتْبَعَهُ ٱلشَّيْطَـٰنُ فَكَانَ مِنَ ٱلْغَاوِينَ
اور اے محمدؐ، اِن کے سامنے اُس شخص کا حال بیان کرو جس کو ہم نے اپنی آیات کا علم عطا کیا تھا1 مگر وہ ان کی پابندی سے نکل بھاگا آخرکار شیطان اس کے پیچھے پڑ گیا یہاں تک کہ وہ بھٹکنے والوں میں شامل ہو کر رہا
1 | ان الفاظ سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ ضرور کوئی متعین شخص ہوگا جس کی طرف اشارہ فرما یا گیا ہے لیکن اللہ اور اس کے رسول کی یہ انتہائی اخلاقی بلندی ہے کہ وہ جب کبھی کسی کی برائی کو مثال میں پیش کرتے ہیں تو بالعموم اس کے نام کی تصریح نہیں کرتے بلکہ اس کی شخصیت پر پردہ ڈال کر صرف اس کی بُری مثال کا ذکر کردیتے ہیں تا کہ اس کی رسوائی کیے بغیر اصل مقصد حاصل ہو جائے۔ اسی لیے نہ قرآن میں بتایا گیا ہے اور نہ کسی صحیح حدیث میں کہ وہ شخص جس کی مثال یہاں پیش کی گئی ہے ، کون تھا۔ مفسرین نے عہد رسالت اور اس سے پہلے کی تاریخ کے مختلف اشخاص پر اس مثال کو چسپاں کیا ہے ۔ کوئی بلعم بن با عوراء کا نام لیتا ہے، کوئی اُمیّہ بن ابی الصَّلت کا، اور کوئی صَیفی ابن الراہب کا۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ وہ خاص شخص تو پردہ میں ہے جو اس تمثیل میں پیش نظر تھا، البتہ یہ تمثیل ہر اس شخص پر چسپاں پوتی ہے جس میں یہ صفت پائی جاتی ہو |
Surah 7 : Ayat 177
سَآءَ مَثَلاً ٱلْقَوْمُ ٱلَّذِينَ كَذَّبُواْ بِـَٔـايَـٰتِنَا وَأَنفُسَهُمْ كَانُواْ يَظْلِمُونَ
بڑی ہی بری مثال ہے ایسے لوگوں کی جنہوں نے ہماری آیات کو جھٹلایا، اور وہ آپ اپنے ہی اوپر ظلم کرتے رہے ہیں
Surah 62 : Ayat 5
مَثَلُ ٱلَّذِينَ حُمِّلُواْ ٱلتَّوْرَٮٰةَ ثُمَّ لَمْ يَحْمِلُوهَا كَمَثَلِ ٱلْحِمَارِ يَحْمِلُ أَسْفَارَۢاۚ بِئْسَ مَثَلُ ٱلْقَوْمِ ٱلَّذِينَ كَذَّبُواْ بِـَٔـايَـٰتِ ٱللَّهِۚ وَٱللَّهُ لَا يَهْدِى ٱلْقَوْمَ ٱلظَّـٰلِمِينَ
جن لوگوں کو توراۃ کا حامل بنایا گیا تھا مگر انہوں نے اس کا بار نہ اٹھا یا1، اُن کی مثال اُس گدھے2 کی سی ہے جس پر کتابیں لدی ہوئی ہوں اِس سے بھی زیادہ بری مثال ہے اُن لوگوں کی جنہوں نے اللہ کی آیات کو جھٹلا دیا ہے 3ایسے ظالموں کو اللہ ہدایت نہیں دیا کرتا
3 | یعنی ان کا حال گدھے سے بھی بد تر ہے۔ وہ تو سمجھ بوجھ نہیں رکھتا اس لیے مغرور ہے۔ مگر یہ سمجھ بوجھ رکھتے ہیں۔ توراۃ کو پڑھتے پڑھاتے ہیں۔ اس کے معنی سے ناواقف نہیں ہیں۔ پھر بھی یہ اس کی ہدایات سے دانستہ انحراف کر رہے ہیں، اور اس نبی کو ماننے سے قصداً انکار کر رہے ہیں جو توراۃ کی رو سے سراسر حق پر ہے۔ یہ نا فہمی کے قصور وار نہیں ہیں بلکہ جان بوجھ کر اللہ کی آیات کو جھٹلانے کے مجرم ہیں |
2 | یعنی جس طرح گدھے پر کتابیں لدی ہوں اور وہ نہیں جانتا کہ اس کی پیٹھ پر کیا ہے ، اسی طرح یہ توراۃ کو اپنے اوپر لادے ہوۓ ہیں اور نہیں جانتے کہ یہ کتاب کس لیے آئی ہے اور ان سے کیا چاہتی ہے |
1 | اس فقرے کے دو معنی ہیں۔ ایک عام اور دوسرا خاص۔ عام معنی یہ ہیں کہ جن لوگوں پر توراۃ کے علم و علم، اور اس کے مطابق دنیا کی ہدایت کا بار رکھا گیا تھا، مگر نہ انہوں نے اپنی اس ذمہ داری کو سمجھا اور نہ اس کا حق ادا کیا۔ خاص معنی یہ ہیں کہ حامل توراۃ گروہ ہونے کی حیثیت سے جن کا کام یہ تھا کہ سب سے پہلے آگے بڑھ کر اس رسول کا ساتھ دیتے جس کے آنے کی صاف صاف بشارت توراۃ میں دی گئی تھی، مگر انہوں نے سب سے بڑھ کر اس کی مخالف کی اور توراۃ کی تعلیم کے تقاضے کو پورا نہ کیا |