Ayats Found (14)
Surah 2 : Ayat 184
أَيَّامًا مَّعْدُودَٲتٍۚ فَمَن كَانَ مِنكُم مَّرِيضًا أَوْ عَلَىٰ سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِّنْ أَيَّامٍ أُخَرَۚ وَعَلَى ٱلَّذِينَ يُطِيقُونَهُۥ فِدْيَةٌ طَعَامُ مِسْكِينٍۖ فَمَن تَطَوَّعَ خَيْرًا فَهُوَ خَيْرٌ لَّهُۥۚ وَأَن تَصُومُواْ خَيْرٌ لَّكُمْۖ إِن كُنتُمْ تَعْلَمُونَ
چند مقرر دنوں کے روزے ہیں اگر تم میں سے کوئی بیمار ہو، یا سفر پر ہو تو دوسرے دنوں میں اتنی ہی تعداد پوری کر لے اور جو لوگ روزہ رکھنے کی قدرت رکھتے ہوں (پھر نہ رکھیں) تو وہ فدیہ دیں ایک روزے کا فدیہ ایک مسکین کو کھانا کھلانا ہے اور جو اپنی خوشی سے کچھ زیادہ بھلائی کرے1 تو یہ اسی کے لیے بہتر ہے لیکن اگر تم سمجھو، تو تمہارے حق میں اچھا یہی ہے کہ روزہ رکھو2
2 | یہاں تک وہ ابتدا ئی حکم ہے ، جو رمضان کے روزوں کے متعلق سن ۲ ہجری میں جنگ ِ بدر سے پہلے نازل ہوا تھا۔ اس کے بعد کی آیات اس کے ایک سال بعد نازل ہوئیں اور مناسبتِ مضمون کی وجہ سے اسی سلسلہء بیان میں شامل کر دی گئیں |
1 | یعنی ایک سے زیادہ آدمیوں کو کھانا کھلائے، یا یہ کہ روزہ بھی رکھے اور مسکین کو کھانا بھی کھلائے |
Surah 2 : Ayat 185
شَهْرُ رَمَضَانَ ٱلَّذِىٓ أُنزِلَ فِيهِ ٱلْقُرْءَانُ هُدًى لِّلنَّاسِ وَبَيِّنَـٰتٍ مِّنَ ٱلْهُدَىٰ وَٱلْفُرْقَانِۚ فَمَن شَهِدَ مِنكُمُ ٱلشَّهْرَ فَلْيَصُمْهُۖ وَمَن كَانَ مَرِيضًا أَوْ عَلَىٰ سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِّنْ أَيَّامٍ أُخَرَۗ يُرِيدُ ٱللَّهُ بِكُمُ ٱلْيُسْرَ وَلَا يُرِيدُ بِكُمُ ٱلْعُسْرَ وَلِتُكْمِلُواْ ٱلْعِدَّةَ وَلِتُكَبِّرُواْ ٱللَّهَ عَلَىٰ مَا هَدَٮٰكُمْ وَلَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ
رمضان وہ مہینہ ہے، جس میں قرآن نازل کیا گیا جو انسانوں کے لیے سراسر ہدایت ہے اور ایسی واضح تعلیمات پر مشتمل ہے، جو راہ راست دکھانے والی اور حق و باطل کا فرق کھول کر رکھ دینے والی ہیں لہٰذا اب سے جو شخص اس مہینے کو پائے، اُس کو لازم ہے کہ اِس پورے مہینے کے روزے رکھے اور جو کوئی مریض ہو یا سفر پر ہو، تو وہ دوسرے دنوں میں روزوں کی تعداد پوری کرے1 اللہ تمہارے ساتھ نرمی کرنا چاہتا ہے، سختی کرنا نہیں چاہتا اس لیے یہ طریقہ تمہیں بتایا جا رہا ہے تاکہ تم روزوں کی تعداد پوری کرسکو اور جس ہدایت سے اللہ نے تمہیں سرفراز کیا ہے، اُس پر اللہ کی کبریا ئی کا اظہار و اعتراف کرو اور شکر گزار بنو2
2 | یعنی اللہ نے صرف رمضان ہی کے دنوں کو روزوں کے لیےمخصُوص نہیں کر دیا ہے، بلکہ جو لوگ رمضان میں کسی عذرِ شرعی کی بنا پر روزے نہ رکھ سکیں، اُن کے لیے دُوسرے دنوں میں اُس کی قضا کر لینے کا راستہ بھی کھول دیا ہے تا کہ قرآن کی جو نعمت اُس نے تم کو دی ہے ، اس کا شکر ادا کرنے کے قیمتی موقع سے تم محرُوم نہ رہ جا ؤ ۔ یہاں یہ بات بھی سمجھ لینی چاہیے کہ رمضان کے روزوں کو صرف عبادت اور صرف تقویٰ کی تربیت ہی نہیں قرار دیا گیا ہے، بلکہ اُنھیں مزید براں اُس عظیم الشان نعمتِ ہدایت پر اللہ تعالٰی کا شکریہ بھی ٹھیرایا گیا ہے ، جو قرآن کی شکل میں اُس نے ہمیں عطا فرمائی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ایک دانشمند انسان کے لیے کسی نعمت کی شکر گزاری اور کسی احسان کے اعتراف کی بہترین صُورت اگر ہوسکتی ہے ، تو وہ صرف یہی ہے کہ وہ اپنے آپ کو اس مقصد کی تکمیل کے لیے زیادہ سے زیادہ تیار کرے، جس کے لیے عطا کرنے والے نے وہ نعمت عطا کی ہو۔ قرآن ہم کو اس لیے عطا فرمایا گیا ہے کہ ہم اللہ تعالٰی کی رضا کا راستہ جان کر خود اس پر چلیں اور دُنیا کو اس پر چلائیں۔ اس مقصد کے لیے ہم کو تیار کرنے کا بہترین ذریعہ روزہ ہے۔ لہٰذا نزُولِ قرآن کے مہینے میں ہماری روزہ داری صرف عبادت ہی نہیں ہے ، اور صرف اخلاقی تربیت بھی نہیں ہے، بلکہ اس کے ساتھ خود اِس نعمتِ قرآن کی بھی صحیح اور موزوں شکر گزاری ہے |
1 | “سفر کی حالت میں روزہ رکھنا یا نہ رکھنا آدمی کے اختیار ِ تمیزی پر چھوڑ دیا گیا ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جو صحابہ ؓ سفر میں جایا کرتے تھے ، اُن میں سے کوئی روزہ رکھتا تھا اور کوئی نہ رکھتا تھا اور دونوں گروہوں میں سے کوئی دُوسرے پر اعتراض نہ کرتا تھا۔ خود آنحضرت ؐ نے بھی کبھی سفر میں روزہ رکھا ہے اور کبھی نہیں رکھا ہے۔ ایک سفر کے موقع پر ایک شخص بد حال ہو کر گِر گیا اور اس کے گِرد لوگ جمع ہو گئے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ حال دیکھ کر دریافت فرمایا: کیا معاملہ ہے؟ عرض کیا گیا روزے سے ہے۔ فرمایا: یہ نیکی نہیں ہے۔ جنگ کے موقع پر تو آپ حکماً روزے سے روک دیا کرتے تھے تاکہ دشمن سے لڑنے میں کمزوری لاحق نہ ہو۔ حضرت عمر ؓ کی روایت ہے کہ ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ دو مرتبہ رمضان میں جنگ پر گئے۔ پہلی مرتبہ جنگِ بدر میں اور آخری مرتبہ فتح مکّہ کے موقی پر، اور دونوں مرتبہ ہم نے روزے چھوڑ دیے۔ ابنِ عمر ؓ کا بیان ہے کہ فتحِ مکّہ کے موقع پر حضُور ؐ نے فرما دیا تھا کہ انہ یوم قتال فا فطر و ا ۔ دُوسری روایات میں یہ الفاظ ہیں کہ انکم قد د نو تم من عد و کم فا فطر و ا ا قو ی لکم۔ یعنی دشمن سے مقابلہ درپیش ہے ، روزے چھوڑ دو تاکہ تمہیں لڑنے کی قوت حاصل ہو۔ عام سفر کے معاملے میں یہ بات کہ کتنی مسافت کے سفر پر روزہ چھوڑا جاسکتا ہے ، حضُور ؐ کے کسی ارشاد سے واضح نہیں ہوتی اور صحابہ ء کرام ؓ کا عمل اس باب میں مختلف ہے۔ صحیح یہ ہے کہ جس مسافت پر عرفِ عام میں سفر کا اطلاق ہوتا ہے اور جس میں مسافرانہ حالت انسان پر طاری ہوتی ہے، وہ افطار کے لیے کافی ہے۔ یہ امر مُتَّفَق علیہ ہے کہ جس روز آدمی سفر کی ابتدا کر رہا ہو، اُس دن کا روزہ افطار کر لینے کا اُس کو اختیار ہے۔ چاہے تو گھر سے کھانا کھا کر چلے، اور چاہے تو گھر سے نکلتے ہی کھا لے۔ دونوں عمل صحابہ ؓ سے ثابت ہیں۔ یہ امر کہ اگر کسی شہر پر دشمن کا حملہ ہو، تو کیا لوگ مقیم ہونے کے باوجُود جہاد کی خاطر روزہ چھوڑ سکتے ہیں، علما کے درمیان مختلف فیہ ہے۔ بعض علما اس کی اجازت نہیں دیتے۔ مگر علّامہ ابن تیمیّہ نے نہایت قوی دلائل کے ساتھ فتویٰ دیا تھا کہ ایسا کرنا بالکل جائز ہے |
Surah 2 : Ayat 196
وَأَتِمُّواْ ٱلْحَجَّ وَٱلْعُمْرَةَ لِلَّهِۚ فَإِنْ أُحْصِرْتُمْ فَمَا ٱسْتَيْسَرَ مِنَ ٱلْهَدْىِۖ وَلَا تَحْلِقُواْ رُءُوسَكُمْ حَتَّىٰ يَبْلُغَ ٱلْهَدْىُ مَحِلَّهُۥۚ فَمَن كَانَ مِنكُم مَّرِيضًا أَوْ بِهِۦٓ أَذًى مِّن رَّأْسِهِۦ فَفِدْيَةٌ مِّن صِيَامٍ أَوْ صَدَقَةٍ أَوْ نُسُكٍۚ فَإِذَآ أَمِنتُمْ فَمَن تَمَتَّعَ بِٱلْعُمْرَةِ إِلَى ٱلْحَجِّ فَمَا ٱسْتَيْسَرَ مِنَ ٱلْهَدْىِۚ فَمَن لَّمْ يَجِدْ فَصِيَامُ ثَلَـٰثَةِ أَيَّامٍ فِى ٱلْحَجِّ وَسَبْعَةٍ إِذَا رَجَعْتُمْۗ تِلْكَ عَشَرَةٌ كَامِلَةٌۗ ذَٲلِكَ لِمَن لَّمْ يَكُنْ أَهْلُهُۥ حَاضِرِى ٱلْمَسْجِدِ ٱلْحَرَامِۚ وَٱتَّقُواْ ٱللَّهَ وَٱعْلَمُوٓاْ أَنَّ ٱللَّهَ شَدِيدُ ٱلْعِقَابِ
اللہ کی خوشنودی کے لیے جب حج اور عمرے کی نیت کرو، تو اُسے پورا کرو اور اگر کہیں گھر جاؤ تو جو قربانی میسر آئے، اللہ کی جناب میں پیش کرو1 اور اپنے سر نہ مونڈو جب تک کہ قربانی اپنی جگہ نہ پہنچ جائے2 مگر جو شخص مریض ہو یا جس کے سر میں کوئی تکلیف ہو اور اس بنا پر اپنا سر منڈوا لے، تو اُسے چاہیے کہ فدیے کے طور پر روزے رکھے یا صدقہ دے یا قربانی کرے3 پھر اگر تمہیں امن نصیب ہو جائے4 (اور تم حج سے پہلے مکے پہنچ جاؤ)، تو جو شخص تم میں سے حج کا زمانہ آنے تک عمرے کا فائدہ اٹھائے، وہ حسب مقدور قربانی دے، اور ا گر قربانی میسر نہ ہو، تو تین روزے حج کے زمانے میں اور سات گھر پہنچ کر، اِس طرح پورے دس روزے رکھ لے یہ رعایت اُن لوگوں کے لیے ہے، جن کے گھر بار مسجد حرام کے قریب نہ ہوں5 اللہ کے اِن احکام کی خلاف ورزی سے بچو اور خوب جان لو کہ اللہ سخت سزا دینے والا ہے
5 | عرب جاہلیّت میں یہ خیال کیا جا تا تھا کہ ایک ہی سفر میں حج اور عُمرہ دونوں ادا کرنا گناہِ عظیم ہے۔ ان کی خود ساختہ شریعت میں عُمرے کے لیے الگ اور حج کےلیے الگ سفر کرنا ضروری تھا۔ اللہ تعالٰی نے اس قید کو اُڑا دیا اور باہر سے آنے والوں کے ساتھ یہ رعایت فرمائی کہ وہ ایک ہی سفر میں عُمرہ اور حج دونوں کر لیں۔ البتہ جو لوگ مکّہ کے آس پاس میقاتوں کی حُدود کے اندر رہتے ہوں انھیں اس رعایت سے مستثنٰی کر دیا کیونکہ ان کے لیے عُمرہ کا سفر الگ اور حج کا سفر الگ کرنا کچھ مشکل نہیں۔ حج کا زمانہ آنے تک عُمرے کا فائدہ اُٹھانے سے مُراد یہ ہے کہ آدمی عُمرہ کر کے اِحرام کھول لے اور اُن پابندیوں سے آزاد ہو جائے ، جو احرام کی حالت میں لگائی گئی ہیں۔ پھر جب حج کے دن آئیں، تو ازسرِ نو احرام باندھ لے |
4 | یعنی وہ سبب دُور ہو جائے ، جس کی وجہ سے مجبُوراً تمہیں راستے میں رُک جانا پڑا تھا۔ چونکہ اُس زمانے میں حج کا راستہ بند ہونے اور حاجیوں کے رُک جانے کی وجہ زیادہ تر دشمنِ اسلام قبیلوں کی مزاحمت ہی تھی، اس لیے اللہ تعالٰی نے اُوپر کی آیت میں ”گھِر جانے“ اور اس کے بالمقابل یہاں”امن نصیب ہوجانے“ کے الفاظ استعمال کیے ہیں۔ لیکن جس طرح”گھِر جانے“ کے مفہوم میں دشمن کی مزاحمت کے علاوہ دُوسرے تمام موانع شامل ہیں، اسی طرح ”امن نصیب ہو جانے“ کا مفہُوم بھی ہر مانع و مزاحم چیز کے دُور ہو جانے پر حاوی ہے |
3 | حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس صورت میں تین دن کے روزے رکھنے یا چھ مسکینوں کو کھانا کھلانے یا کم از کم ایک بکری ذبح کرنے کا حکم دیا ہے |
2 | اس امر میں اختلاف ہے کہ قربانی کے اپنی جگہ پہنچ جانے سے کیا مراد ہے۔ فقہائے حنفیہ کے نزدیک اس سے مراد حرم ہے، یعنی اگر آدمی راستہ میں رُک جانے پر مجبُور ہو، تو اپنی قربانی کا جانور یا اس کی قیمت بھیج دے تاکہ اس کی طرف سے حُدودِ حرم میں قربانی کی جائے۔ اور امام مالک اور شافعی رحمہما اللہ کے نزدیک جہاں آدمی گھِر گیا ہو، وہیں قربانی کردینا مراد ہے۔ سر مونڈنے سے مراد حجامت ہے۔ مطلب یہ ہے کہ جب تک قربانی نہ کر لو حجامت نہ کرا ؤ |
1 | یعنی اگر راستے میں کوئی ایسا سبب پیش آجائے ، جس کی وجہ سے آگے جانا غیر ممکن ہو اور مجبوراً رُک جانا پڑے، تو اُونٹ، گائے، بکری میں سے جو جانور بھی میسّر ہو، اللہ کے لیے قربان کر دو |
Surah 4 : Ayat 43
يَـٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُواْ لَا تَقْرَبُواْ ٱلصَّلَوٲةَ وَأَنتُمْ سُكَـٰرَىٰ حَتَّىٰ تَعْلَمُواْ مَا تَقُولُونَ وَلَا جُنُبًا إِلَّا عَابِرِى سَبِيلٍ حَتَّىٰ تَغْتَسِلُواْۚ وَإِن كُنتُم مَّرْضَىٰٓ أَوْ عَلَىٰ سَفَرٍ أَوْ جَآءَ أَحَدٌ مِّنكُم مِّنَ ٱلْغَآئِطِ أَوْ لَـٰمَسْتُمُ ٱلنِّسَآءَ فَلَمْ تَجِدُواْ مَآءً فَتَيَمَّمُواْ صَعِيدًا طَيِّبًا فَٱمْسَحُواْ بِوُجُوهِكُمْ وَأَيْدِيكُمْۗ إِنَّ ٱللَّهَ كَانَ عَفُوًّا غَفُورًا
اے لوگو جو ایمان لائے ہو، جب تم نشے کی حالت میں ہو تو نماز کے قریب نہ جاؤ1 نماز اُس وقت پڑھنی چاہیے، جب تم جانو کہ کیا کہہ رہے ہو2 اور اسی طرح جنابت کی حالت3 میں بھی نماز کے قریب نہ جاؤ جب تک کہ غسل نہ کر لو، الا یہ کہ راستہ سے گزرتے ہو4 اور اگر کبھی ایسا ہو کہ تم بیمار ہو، یا سفر میں ہو، یا تم میں سے کوئی شخص رفع حاجت کر کے آئے، یا تم نے عورتوں سے لمس کیا ہو5، اور پھر پانی نہ ملے تو پاک مٹی سے کام لو اور اس سے اپنے چہروں اور ہاتھوں پر مسح کر لو6، بے شک اللہ نرمی سے کام لینے والا اور بخشش فرمانے والا ہے
6 | حکم کی تفصیلی صُورت یہ ہے کہ اگر آدمی بے وضو ہے یا اُسے غسل کی حاجت ہے اور پانی نہیں ملتا تو تیمم کر کے نماز پڑھ سکتا ہے۔ اگر مریض ہے اور غسل یا وضو کرنے سے اس کو نقصان کا اندیشہ ہے تو پانی موجود ہونے کے باوجود تیمم کی اجازت سے فائدہ اُٹھا سکتا ہے۔ تیمم کے معنی قصد کرنے کے ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ جب پانی نہ ملے یا پانی ہو اور اس کا استعمال ممکن نہ ہو تو پاک مٹی کا قصد کرو۔ تیمم کے طریقے میں فقہا کے درمیان اختلاف ہے ۔ ایک گروہ کے نزدیک ا س کا طریقہ یہ ہے کہ ایک دفعہ مٹی پر ہاتھ مار کر مُنہ پر پھیر لیا جائے، پھر دُوسری دفعہ ہاتھ مار کر کُہنیوں تک ہاتھوں پر پھیر لیا جائے۔ امام ابو حنیفہ ، امام شافعی ، امام مالک اور اکثر فقہا ء کا یہی مذہب ہے ، اور صحابہ و تابعین میں سے حضرت علی، عبداللہ بن عمر، حَسَن بصری، شَعبِی اور سالم بن عبداللہ وغیرہم اس کے قائل تھے۔ دوسرے گروہ کے نزدیک صرف ایک دفعہ ہی ہاتھ مارنا کافی ہے۔ وہی ہاتھ منہ پر بھی پھیر لیا جائے اور اسی کو کلائی تک ہاتھوں پر بھی پھیر لیا جائے۔ کہنیوں تک مسح کرنے کی ضرورت نہیں۔ یہ عطاء اور مکحول اور اَوزاعی اور احمد ابن حنبل رحمہم اللہ کا مذہب ہے اور عموماً حضراتِ اہلِ حدیث اسی کے قائل ہیں۔ تیمم کے لیے ضروری نہیں کہ زمین ہی پر ہاتھ مار ا جائے۔ اس غرض کے لیے ہر گرد آلود چیز اور ہر وہ چیز جو خُشک اجزاء ارضی پر مشتمل ہو کافی ہے۔ بعض لوگ اعتراض کرتے ہیں کہ اس طرح مٹی پر ہاتھ مار کر مُنہ اور ہاتھوں پر پھیر لینے سے آخر طہارت کس طرح حاصل ہو سکتی ہے۔ لیکن درحقیقت یہ آدمی میں طہارت کی حِس اور نماز کا احترام قائم رکھنے کے لیے ایک اہم نفسیاتی تدبیر ہے۔ اس سے فائدہ یہ ہے کہ آدمی خواہ کتنی ہی مدّت تک پانی استعمال کرنے پر قادر نہ ہو، بہر حال اس کے اندر طہارت کا احساس برقرار رہے گا، پاکیزگی کے جو قوانین شریعت میں مقرر کر دیے گئے ہیں ان کی پابندی وہ برابر کرتا رہے گا، اور اس کے ذہن سے قابلِ نماز ہونے کی حالت اور قابلِ نماز نہ ہونے کی حالت کا فرق و امتیاز کبھی محو نہ ہو سکے گا |
5 | اس امر میں اختلاف ہے کہ لَمس یعنی چھُونے سے کیا مراد ہے۔ حضرت علی، ابن عباس ، ابو موسیٰ اشعری، اُبَی ابنِ کعب، سعید بن جُبَیر، حَسَن بصری اور متعدد ائمہ کی رائے ہے کہ اس سے مراد مباشرت ہے اور اسی رائے کو امام ابو حنیفہ اور ان کے اصحاب اور امام سُفیان ثوری نے اختیار کیا ہے۔ بخلاف اس کے حضرت عبداللہ بن مسعود اور عبداللہ ابن ِ عمر کی رائے ہے اور بعضی روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عمر ابنِ خطاب کی بھی یہی رائے ہے کہ اس سے مراد چھونا یا ہاتھ لگانا ہے اور اسی رائے کو امام شافعی ؒ نے اختیار کیا ہے۔ بعض آئمہ نے بیچ کا مسلک بھی اختیار کیا ہے ۔ مثلاً اما م مالک ؒ کی رائے ہے کہ اگر عورت یا مرد ایک دُوسرے کو جذبات شہوانی کے ساتھ ہاتھ لگائیں تو ان کا وضو ساقط ہو جائے گا اور نماز کے لیے انہیں نیا وضو کرنا ہوگا، لیکن اگر جذبات شہوانی کے بغیر ایک کا جسم دُوسرے سے مَس ہو جائے تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں |
4 | فقہاء اور مفسّرین میں سے ایک گروہ نے اس آیت کا مفہوم یہ سمجھا ہے کہ جنابت کی حالت میں مسجد میں نہ جانا چاہیے اِلّا یہ کہ کسی کام کے لیے مسجد میں سے گزرنا ہو۔ اسی رائے کو عبداللہ بن مسعود، انس بن مالک، حسن بصری اور ابراہیم نَخعَی وغیرہ حضرات نے اختیار کیا ہے۔ دُوسرا گروہ اس سے سفر مراد لیتا ہے۔ یعنی اگر آدمی حالتِ سفر میں ہو اور جنابت لاحق ہوجائے تو تیمم کیا جا سکتا ہے۔ رہا مسجد کا معاملہ ، تو اس گروہ کی رائے میں جُنُبی کے لیے وضو کر کے مسجدمیں بیٹھنا جائز ہے ۔ یہ رائے حضرت علی ؓ ، ابن عباس ؓ ، سعید بن جُبَیر اور بعض دوسرے حضرات نے اختیار فرمائی ہے۔ اگرچہ اس امر میں قریب قریب سب کا اتفاق ہے کہ اگر آدمی حالتِ سفر میں ہو اور جنابت لاحق ہو جائے اور نہانا ممکن نہ ہو تو تیمم کرکے نماز پڑھ سکتا ہے ۔ لیکن پہلا گروہ اِس مسئلہ کو حدیث سے اخذ کرتا ہے اور دُوسرا گروہ اس روایت کی بنیاد قرآن کی مندرجہٴ بالا آیت پر رکھتا ہے |
3 | جَنابت کے اصل معنی دُوری اور بیگانگی کے ہیں۔ اسی سے لفظ اجنبی نکلا ہے ۔ اصطلاحِ شرع میں جنابت سے مراد وہ نجاست ہے جو قضاء شہوت سے یا خواب میں ماٴدّہ خارج ہونے سے لاحق ہوتی ہے ، کیونکہ اس کی وجہ سے آدمی طہارت سے بیگانہ ہو جاتا ہے |
2 | اسی بنا پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہدایت فرمائی ہے کہ جب کسی شخص پر نیند کا غلبہ ہو رہا ہو اور وہ نماز پڑھنے میں بار بار اُونگھ جاتا ہو تو اُسے نماز چھوڑ کر سو جانا چاہیے۔ بعض لوگ اس آیت سے یہ استدلال کرتے ہیں کہ جو شخص نماز کی عربی عبارات کا مطلب نہیں سمجھتا اس کی نماز نہیں ہوتی۔ لیکن علاوہ اس کے کہ یہ ایک بے جا تشدّد ہے ، خود قرآن کے الفاط بھی اس کا ساتھ نہیں دیتے ۔ قرآن میں حتٰی تفقھو ا یا حتٰی تفھمُو ا ما تقولون بلکہ حتٰی تعلمو ا ماتقولون فرمایا ہے۔ یعنی نماز میں آدمی کو اتنا ہوش رہنا چاہیے کہ وہ یہ جانے کہ وہ کیا چیز اپنی زبان سے ادا کر رہا ہے۔ ایسا نہ ہو کہ وہ کھڑا تو ہو نماز پڑھنے اور شروع کر دے کوئی غسِل |
1 | یہ شراب کے متعلق دُوسرا حکم ہے۔ پہلا حکم وہ تھا جو سُورہٴ بقرہ (آیت ۲١۹) میں گزرا۔ اُس میں صرف یہ ظاہر کر کے چھوڑ دیا گیا تھا کہ شراب بُری چیز ہے ، اللہ کو پسند نہیں۔ چنانچہ مسلمانوں میں سے ایک گروہ اس کے بعد ہی شراب سے پرہیز کر نے لگا تھا۔ مگر بہت سے لوگ اسے بدستور استعمال کرتے رہے تھے حتّٰی کہ بسااوقات نشے کی حالت ہی میں نماز پڑھنے کھڑے ہو جاتے تھے اور کچھ کا کچھ پڑھ جاتے تھے۔ غالباً ۴ہجری کی ابتدا میں یہ دُوسرا حکم آیا اور نشے میں نماز پڑھنے کی ممانعت کر دی گئی۔ اس کا اثر یہ ہوا کہ لوگوں نے اپنے شراب پینے کے اوقات بدل دیے اور ایسے اوقات میں شراب پینی چھوڑ دی جن میں یہ اندیشہ ہوتا کہ کہیں نشہ ہی کی حالت میں نماز کا وقت نہ آجائے۔ اس کے کچھ مدّت بعد شراب کی قطعی حُرمت کا وہ حکم آیا جو سُورہٴ مائدہ آیت ۹۰۔۹١ میں ہے۔ یہاں یہ بات بھی ذہن نشین کر لینی چاہیے کہ آیت میں سُکر یعنی نشہ کا لفظ ہے۔ اس لیے یہ حکم صرف شراب کے لیے خاص نہ تھا بلکہ ہر نشہ آور چیز کے لیے عام تھا۔ اور اب بھی اس کا حکم باقی ہے۔ اگرچہ نشہ آور اشیاء کا استعمال بجائے خود حرام ہے ، لیکن نشہ کی حالت میں نماز پڑھنا دوہرا عظیم تر گناہ ہے |
Surah 5 : Ayat 6
يَـٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُوٓاْ إِذَا قُمْتُمْ إِلَى ٱلصَّلَوٲةِ فَٱغْسِلُواْ وُجُوهَكُمْ وَأَيْدِيَكُمْ إِلَى ٱلْمَرَافِقِ وَٱمْسَحُواْ بِرُءُوسِكُمْ وَأَرْجُلَكُمْ إِلَى ٱلْكَعْبَيْنِۚ وَإِن كُنتُمْ جُنُبًا فَٱطَّهَّرُواْۚ وَإِن كُنتُم مَّرْضَىٰٓ أَوْ عَلَىٰ سَفَرٍ أَوْ جَآءَ أَحَدٌ مِّنكُم مِّنَ ٱلْغَآئِطِ أَوْ لَـٰمَسْتُمُ ٱلنِّسَآءَ فَلَمْ تَجِدُواْ مَآءً فَتَيَمَّمُواْ صَعِيدًا طَيِّبًا فَٱمْسَحُواْ بِوُجُوهِكُمْ وَأَيْدِيكُم مِّنْهُۚ مَا يُرِيدُ ٱللَّهُ لِيَجْعَلَ عَلَيْكُم مِّنْ حَرَجٍ وَلَـٰكِن يُرِيدُ لِيُطَهِّرَكُمْ وَلِيُتِمَّ نِعْمَتَهُۥ عَلَيْكُمْ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ
اے لوگو جو ایمان لائے ہو، جب تم نماز کے لیے اٹھو تو چاہیے کہ اپنے منہ اور ہاتھ کہنیوں تک دھو لو، سروں پر ہاتھ پھیر لو اور پاؤں ٹخنوں تک دھو لیا کرو1 اگر جنابت کی حالت میں ہو تو نہا کر پاک ہو جاؤ2 اگر بیمار ہو یا سفر کی حالت میں ہو یا تم میں سے کوئی شخص رفع حاجت کر کے آئے یا تم نے عورتوں کو ہاتھ لگایا ہو، اور پانی نہ ملے، تو پاک مٹی سے کام لو، بس اُس پر ہاتھ مار کر اپنے منہ اور ہاتھوں پر پھیر لیا کرو3 اللہ تم پر زندگی کو تنگ نہیں کرنا چاہتا، مگر وہ چاہتا ہے کہ تمہیں پاک کرے اور اپنی نعمت تم پر تمام کر دے4، شاید کہ تم شکر گزار بنو
4 | جس طرح پاکیزگی ِ نفس ایک نعمت ہے اسی طرح پاکیزگیِ جسم بھی ایک نعمت ہے ۔ انسان پر اللہ کی نعمت اسی وقت مکمل ہو سکتی ہے جبکہ نفس و جسم دونوں کی طہارت و پاکیزگی کے لے پُوری ہدایت اسے مِل جائے |
3 | تشریح کے لیے ملاحظہ ہو سُورہ ٔ نساء حاشیہ نمبر ۶۹ و ۷۰ |
2 | جَنابت خواہ مباشرت سے لاحق ہوئی ہو یا خواب میں مأدّہ منویہ خارج ہونے کی وجہ سے ، دونوں صُورتوں میں غُسل واجب ہے۔ اس حالت میں غُسل کے بغیر نماز پڑھنا یا قرآن کو ہاتھ لگانا جائز نہیں۔(مزید تفصیلات کے لیےملاحظہ ہو سُورۂ نساء ، حواشی نمبر ۶۷، ۶۸ و ۶۹) |
1 | نبی صلی اللہ علیہ وسلم اِس حکم کی جو تشریح فرمائی ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ مُنہ دھونے میں کُلّی کرنا اور ناک صاف کرنا بھی شامل ہے، بغیر اس کے مُنہ کے غسل کی تکمیل نہیں ہوتی۔ اور کان چونکہ سر کا ایک حصّہ ہیں اس لیے سر کے مسح میں کانوں کے اندرونی و بیرونی حصّوں کا مسح بھی شامل ہے۔ نیز وضو شروع کرنے سے پہلے ہاتھ دھو لینے چاہیییں تاکہ جن ہاتھوں سے آدمی وُضو کر رہا ہو وہ خود پہلے پاک ہو جائیں |
Surah 4 : Ayat 102
وَإِذَا كُنتَ فِيهِمْ فَأَقَمْتَ لَهُمُ ٱلصَّلَوٲةَ فَلْتَقُمْ طَآئِفَةٌ مِّنْهُم مَّعَكَ وَلْيَأْخُذُوٓاْ أَسْلِحَتَهُمْ فَإِذَا سَجَدُواْ فَلْيَكُونُواْ مِن وَرَآئِكُمْ وَلْتَأْتِ طَآئِفَةٌ أُخْرَىٰ لَمْ يُصَلُّواْ فَلْيُصَلُّواْ مَعَكَ وَلْيَأْخُذُواْ حِذْرَهُمْ وَأَسْلِحَتَهُمْۗ وَدَّ ٱلَّذِينَ كَفَرُواْ لَوْ تَغْفُلُونَ عَنْ أَسْلِحَتِكُمْ وَأَمْتِعَتِكُمْ فَيَمِيلُونَ عَلَيْكُم مَّيْلَةً وَٲحِدَةًۚ وَلَا جُنَاحَ عَلَيْكُمْ إِن كَانَ بِكُمْ أَذًى مِّن مَّطَرٍ أَوْ كُنتُم مَّرْضَىٰٓ أَن تَضَعُوٓاْ أَسْلِحَتَكُمْۖ وَخُذُواْ حِذْرَكُمْۗ إِنَّ ٱللَّهَ أَعَدَّ لِلْكَـٰفِرِينَ عَذَابًا مُّهِينًا
اور اے نبیؐ! جب تم مسلمانوں کے درمیان ہو اور (حالت جنگ میں) انہیں نماز پڑھانے کھڑے ہو1 تو چاہیے کہ ان میں2 سے ایک گروہ تمہارے ساتھ کھڑا ہو اور اسلحہ لیے رہے، پھر جب وہ سجدہ کر لے تو پیچھے چلا جائے اور دوسرا گروہ جس نے ابھی نماز نہیں پڑھی ہے آکر تمہارے ساتھ پڑھے اور وہ بھی چوکنا رہے اور اپنے اسلحہ لیے رہے3، کیوں کہ کفار اِس تاک میں ہیں کہ تم اپنے ہتھیاروں اور اپنے سامان کی طرف سے ذرا غافل ہو تو وہ تم پر یکبارگی ٹوٹ پڑیں البتہ اگر تم بارش کی وجہ سے تکلیف محسوس کرو یا بیمار ہو تو اسلحہ رکھ دینے میں کوئی مضائقہ نہیں، مگر پھر بھی چوکنے رہو یقین رکھو کہ اللہ نے کافروں کے لیے رسوا کن عذاب مہیا کر رکھا ہے4
4 | یعنی یہ احتیاط جس کا حکم تمہیں دیا جا رہا ہے ، محض دُنیوی تدابیر کے لحاظ سے ہے، ورنہ دراصل فتح و شکست کا مدار تمہاری تدابیر پر نہیں بلکہ اللہ کے فیصلہ پر ہے۔ اس لیے ان احتیاطی تدبیروں پر عمل کرتے ہوئے تمہیں اس امر کا یقین رکھنا چاہیے کہ جو لوگ اللہ کے نور کو اپنی پھونکوں سے بُجھانے کی کوشش کررہے ہیں ، اللہ انہیں رسوا کرے گا |
3 | صلوٰۃِ خوف کی ترکیب کا انحصار بڑی حد تک جنگی حالات پر ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مختلف حالات میں مختلف طریقوں سے نماز پڑھائی ہے اور امامِ وقت مجاز ہے کہ ان طریقوں میں سے جس طریقہ کی اجازت جنگی صورتِ حال دے اسی کو اختیار کرے۔ ایک طریقہ یہ ہے کہ فوج کا ایک حصّہ امام کے ساتھ نماز پڑھے اور دُوسرا حصّہ دشمن کے مقابلہ پر رہے۔ پھر جب ایک رکعت پوری ہو جائے تو پہلا حصّہ سلام پھیر کر چلا جائے اور دُوسرا حصّہ آکر دُوسری رکعت امام کے ساتھ پوری کرے۔ اس طرح امام کی دو رکعتیں ہوں گی اور فوج کی ایک ایک رکعت۔ دُوسرا طریقہ یہ ہے کہ ایک حصہ امام کے ساتھ ایک رکعت پڑھ کر چلا جائے ، پھر دُوسرا حصہ آکر ایک رکعت امام کے پیچھے پڑھے ، پھر دونوں حصے باری باری سے آکر اپنی چھوٹی ہوئی ایک ایک رکعت بطورِ خود ادا کر لیں۔ اس طرح دونوں حصوں کی ایک ایک رکعت امام کے پیچھے ادا ہو گی، اور ایک رکعت انفرادی طور پر۔ تیسرا طریقہ یہ ہے کہ امام کے پیچھے فوج کا ایک حصہ دو رکعتیں ادا کرے اور تشہد کے بعد سلام پھیر کر چلا جائے۔ پھر دُوسرا حصہ تیسری رکعت میں آکر شریک ہو اور امام کے ساتھ سلام پھیرے۔ اِس طرح امام کی چار اور فوج کی دو دو رکعتیں ہوں گی۔ چوتھا طریقہ یہ ہے کہ فوج کا ایک حصہ امام کے ساتھ ایک رکعت پڑھے اور جب امام دُوسری رکعت کے لیے کھڑا ہو تو مقتدی بطورِ خود ایک رکعت مع تشہد پڑھ کر سلام پھیر دیں۔ پھر دُوسرا حصہ آکر اس حال میں امام کے پیچھے کھڑا ہو کہ ابھی امام دُوسری ہی رکعت میں ہو اور یہ لوگ بقیہ نماز امام کے ساتھ ادا کرنے کے بعد ایک رکعت خود اُٹھ کر پڑھ لیں ۔ اس صورت میں اما م کو دُوسری رکعت میں طویل قیام کرنا ہو گا۔ پہلی صورت کو ابنِ عباس، جابر بن عبداللہ اور مجاھد نے روایت کیا ہے۔ دُوسرے طریقہ کو عبداللہ بن مسعود ؓ نے روایت کیا ہے اور حنفیہ اسی کو ترجیح دیتے ہیں۔ تیسرے طریقہ کو حسن بصری نے ابوبکرہ سے روایت کیا ہے۔ اور چوتھے طریقہ کو امام شافعی اور مالک نے تھوڑے اختلاف کے ساتھ ترجیح دی ہے اور اس کا ماخذ سہل بن ابی حَثْمَہ کی روایت ہے۔ اِن کے علاوہ صلوٰۃِ خوف کے اور بھی طریقے ہیں جن کی تفصیل مبسُوطات میں مِل سکتی ہے |
2 | صلوٰۃ ِ خوف کا یہ حکم اس صورت کے لیے ہے جب کہ دشمن کے حملہ کا خطرہ تو ہو مگر عملاً معرکۂ قتال گرم نہ ہو۔ رہی یہ صورت کہ عملاً جنگ ہو رہی ہو تو اس صورت میں حنفیہ کے نزدیک نماز مؤخر کر دی جائے گی۔ امام مالک ؒ اور امام ثَوری کے نزدیک اگر رکوع و سجود ممکن نہ ہو تو اشاروں سے پڑھ لی جائے۔ امام شافعی کے نزدیک نماز ہی کی حالت میں تھوڑی سی زد و خورد بھی کی جا سکتی ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے فعل سے ثابت ہے کہ آپ نے غزوۂ خندق کے موقع پر چار نمازیں نہیں پڑھیں اور پھر موقع پا کر علی الترتیب انہیں ادا کیا ، حالانکہ غزوۂ خندق سے پہلے صلوٰۃ ِ خوف کا حکم آچکا تھا |
1 | امام ابو یوسف اور حسن بن زیاد نے ان الفاظ سے یہ گمان کیا ہے کہ صلوٰۃِ خوف صرف نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ کے لیے مخصُوص تھی۔ لیکن قرآن میں اس کی مثالیں بکثرت موجود ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کر کے ایک حکم دیا گیا ہے اور وہی حکم آپ کے بعد آپ کے جانشینوں کے لیے بھی ہے۔ اس لیے صلوٰۃِ خوف کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مخصُوص کرنے کی کوئی وجہ نہیں۔ پھر بکثرت جلیل القدر صحابہ سے ثابت ہے کہ انہوں نے حضُور ؐ کے بعد بھی صلوٰۃ خوف پڑھی ہے اور اس باب میں کسی صحابی کا اختلاف مروی نہیں ہے |
Surah 9 : Ayat 91
لَّيْسَ عَلَى ٱلضُّعَفَآءِ وَلَا عَلَى ٱلْمَرْضَىٰ وَلَا عَلَى ٱلَّذِينَ لَا يَجِدُونَ مَا يُنفِقُونَ حَرَجٌ إِذَا نَصَحُواْ لِلَّهِ وَرَسُولِهِۦۚ مَا عَلَى ٱلْمُحْسِنِينَ مِن سَبِيلٍۚ وَٱللَّهُ غَفُورٌ رَّحِيمٌ
ضعیف اور بیمار لوگ اور وہ لوگ جو شرکت جہاد کے لیے راہ نہیں پاتے، اگر پیچھے رہ جائیں تو کوئی حرج نہیں جبکہ وہ خلوص دل کے ساتھ اللہ اور اس کے رسولؐ کے وفادار ہوں1 ایسے محسنین پر اعتراض کی کوئی گنجائش نہیں ہے اور اللہ درگزر کرنے والا اور رحم فرمانے والا ہے
1 | ”اس سے معلوم ہوا کہ جو لوگ بظاہر معذور ہوں ان کے لیے بھی مجرد ضعیفی و بیماری یا محض ناداری کافی وجہ معافی نہیں ہے بلکہ ان کی مجبوریاں صرف اُس صورت میں ان کے لیے وجہ معافی ہو سکتی ہیں جبکہ وہ اللہ اور اس کے رسول کے سچے وفادار ہوں۔ ورنہ اگر وفاداری موجود نہ ہو تو کوئی شخص صرف اس لیے معاف نہیں کیا جا سکتا کہ وہ ادائے فرض کے موقع پر بیمار یا نادار تھا۔ خدا صرف ظاہر کو نہیں دیکھتا ہے کہ ایسے سب لوگ جو بیماری کا طبی صداقت نامہ یا بڑھاپے اور جسمانی نقص کا عذر پیش کر دیں ، اُس کے ہاں یکساں معذور قرار دے دیے جائیں اور ان پر سے باز پرس ساقط ہو جائے۔ وہ تو ان میں سے ایک ایک شخص کے دل کا جائزہ لے گا، اور پورے مخی و بظاہر برتاؤ کو دیکھے گا ، اور یہ جانچے گا کہ اس کی معذوری ایک وفادار بندے کی سی معذرت تھی یا ایک غدار اور باغی کی سی۔ ایک شخص ہے کہ جب اُ س نے فرض کی پکار سُنی تو دل میں لاکھ لاکھ شکر ادا کیا کہ”بڑے اچھے موقعے پر میں بیمار ہو گیا ورنہ یہ بلا کسی طرح ٹالے نہ ٹلتی اور خواہ مخواہ مصیبت بھگتنی پڑتی“۔ دوسرے شخص نے یہی پُکار سُنی تو تِلمِلا اُٹھا کہ”ہائے، کیسے موقع پر اس کم بخت بیماری نے آن دبوچا ، جو وقت میدان میں نکل کر خدمت انجام دینے کا تھا وہ کس بُری طرح یہاں بستر پر ضائع ہو رہا ہے“۔ ایک نے اپنے لیے تو خدمت سے بچنے کا بہانہ پایا ہی تھا مگر اس کے ساتھ اس نے دوسروں کو بھی اس سے روکنے کی کوشش کی۔ دوسرا اگرچہ خود بسترِ علالت پر مجبور پڑا ہوا تھا مگر وہ برابر اپنے عزیزوں ، دوستوں اور بھائیوں کو جہاد کا جوش دلا تا رہا اور اپنے تیمار داروں سے بھی کہتا رہا کہ ” میرا اللہ مالک ہے، دوا دارو کا انتظام کسی نہ کسی طرح ہو ہی جائے گا، مجھ اکیلے انسان کے لیے تم قیمتی وقت کو ضائع نہ کرو جسے دین حق کی خدمت میں صرف ہونا چاہیے“۔ ایک نے بیماری کے عذر سے گھر بیٹھ کر سارا زمانۂ جنگ بد دلی پھیلانے، بری خبریں اڑانے ، جنگی مساعی کو خراب کرنے اور مجاہدین کے پیچھے ان کے گھر بگاڑنے میں صرف کیا۔ دوسرے نے یہ دیکھ کر کہ میدان میں جانے کے شرف سے وہ محروم رہ گیا ہے، اپنی حد تک پوری کوشش کی کہ گھر کے محاذ کو مضبوط رکھنے میں جو زیادہ سے زیادہ خدمت اس سے بن آئے اسے انجام دے۔ ظاہر کے اعتبار سے تو یہ دونوں ہی معذور ہیں۔ مگر خدا کی نگاہ میں یہ دو مختلف قسم کے معذور کسی طرح یکساں نہیں ہو سکتے۔ خدا کے ہاں معافی اگر ہے تو صرف دوسرے شخص کے لیے۔ رہا پہلا شخص تو ہو اپنی معذوری کے باوجود غداری و نا وفاداری کا مجرم ہے |
Surah 24 : Ayat 61
لَّيْسَ عَلَى ٱلْأَعْمَىٰ حَرَجٌ وَلَا عَلَى ٱلْأَعْرَجِ حَرَجٌ وَلَا عَلَى ٱلْمَرِيضِ حَرَجٌ وَلَا عَلَىٰٓ أَنفُسِكُمْ أَن تَأْكُلُواْ مِنۢ بُيُوتِكُمْ أَوْ بُيُوتِ ءَابَآئِكُمْ أَوْ بُيُوتِ أُمَّهَـٰتِكُمْ أَوْ بُيُوتِ إِخْوَٲنِكُمْ أَوْ بُيُوتِ أَخَوَٲتِكُمْ أَوْ بُيُوتِ أَعْمَـٰمِكُمْ أَوْ بُيُوتِ عَمَّـٰتِكُمْ أَوْ بُيُوتِ أَخْوَٲلِكُمْ أَوْ بُيُوتِ خَـٰلَـٰتِكُمْ أَوْ مَا مَلَكْتُم مَّفَاتِحَهُۥٓ أَوْ صَدِيقِكُمْۚ لَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ أَن تَأْكُلُواْ جَمِيعًا أَوْ أَشْتَاتًاۚ فَإِذَا دَخَلْتُم بُيُوتًا فَسَلِّمُواْ عَلَىٰٓ أَنفُسِكُمْ تَحِيَّةً مِّنْ عِندِ ٱللَّهِ مُبَـٰرَكَةً طَيِّبَةًۚ كَذَٲلِكَ يُبَيِّنُ ٱللَّهُ لَكُمُ ٱلْأَيَـٰتِ لَعَلَّكُمْ تَعْقِلُونَ
کوئی حرج نہیں اگر کوئی اندھا، یا لنگڑا، یا مریض (کسی کے گھر سے کھا لے) اور نہ تمہارے اوپر اِس میں کوئی مضائقہ ہے کہ اپنے گھروں سے کھاؤ یا اپنے باپ دادا کے گھروں سے، یا اپنی ماں نانی کے گھروں سے، یا اپنے بھائیوں کے گھروں سے، یا اپنی بہنوں کے گھروں سے، یا اپنے چچاؤں کے گھروں سے، یا اپنی پھوپھیوں کے گھروں سے، یا اپنے ماموؤں کے گھروں سے، یا اپنی خالاؤں کے گھروں سے، یا اُن گھروں سے جن کی کنجیاں تمہاری سپردگی میں ہوں، یا اپنے دوستوں کے گھروں سے1 اس میں بھی کوئی حرج نہیں کہ تم لوگ مل کر کھاؤ یا الگ الگ2 البتہ جب گھروں میں داخل ہوا کرو تو اپنے لوگوں کو سلام کیا کرو، دعا ئے خیر، اللہ کی طرف سے مقرر فر مائی ہوئی، بڑی بابرکت اور پاکیزہ اِس طرح اللہ تعالیٰ تمہارے سامنے آیات بیان کرتا ہے، توقع ہے کہ تم سمجھ بوجھ سے کام لو گے
2 | قدیم زمانے کے اہل عرب میں بعض قبیلوں کی تہذیب یہ تھی کہ ہر ایک الگ الگ کھانا لے کر بیٹھے اور کھاۓ۔ وہ مل کر ایک ہی جگہ کھانا برا سمجھتے تھے ، جیسا کہ ہندوؤں کے ہاں آج بھی برا سمجھا جاتا ہے۔ اس کے برعکس بعض قبیلے تنہا کھانے کو برا جانتے تھے ، حتیٰ کہ فاقہ کر جاتے تھے اگر کوئی ساتھ کھانے والا نہ ہو۔ یہ آیت اسی طرح کی پابندیوں کو ختم کرنے کے لیے ہے |
1 | اس آیت کو سمجھنے کے لیے تین باتوں کا سمجھ لینا ضروری ہے۔ اول یہ کہ آیت کے دو حصے ہیں۔ پہلا حصہ بیمار، لنگڑے ، اندھے اور اسی طرح دوسرے معذور لوگوں کے بارے میں ہے ، اور دوسرا عام لوگوں کے بارے میں۔ دوم یہ کہ قرآن کیاخلاقی تعلیمات سے اہل عرب کی ذہنیت میں جو زبردست انقلاب واقع ہوا تھا س کی وجہ سے حرام و حلال اور جائز و ناجائز کی تمیز کے معاملے میں ان کی حس انتہائی نازک ہو گئی تھی۔ ابن عباس کے بقول، اللہ تعالیٰ نے جب ان کو حکم دیا کہ لَا تَأ کُلُوْآ اَمْوَا لَکُمْ بَیْنَکُمْ بِالْبَاطِلِ (ایک دوسرے کے مال نا جائز طریقوں سے نہ کھاؤ) تو لوگ ایک دوسرے کے ہاں کھانا کھانے میں بھی سخت احتیاط برتنے لگے تھے ، حتیٰ کہ بالکل قانونی شرطوں کے مطابق صاحب خانہ کی دعوت و اجازت جب تک نہ ہو ، وہ سمجھتے تھے کہ کسی عزیز یا دوست کے ہاں کھانا بھی نا جائز ہے۔ سوم یہ کہ اس میں اپنے گھروں سے کھانے کا جو ذکر ہے وہ اجازت دینے کے لیے نہیں بلکہ یہ ذہن نشین کرنے کے لیے ہے کہ اپنے عزیزوں اور دوستوں کے ہاں کھانا بھی ایسا ہی ہے جیسے اپنے ہاں کھانا، اور نہ ظاہر ہے کہ اپنے گھر سے کھانے کے لیے کسی اجازت کی ضرورت نہ تھی۔ ان تین باتوں کو سمجھ لینے کے بعد آیت کا یہ مطلب واضح ہو جاتا ہے کہ جہاں تک معذور آدمی کا تعلق ہے ، وہ اپنی بھوک رفع کرنے کے لیے ہر گھر اور ہر جگہ سے کھا سکتا ہے ، اس کی معذوری بجاۓ خود سارے معاشرے پر اس کا حق قائم کر دیتی ہے۔ اس لیے جہاں سے بھی اس کو کھانے کے لیے ملے وہ اس کے لیے جائز ہے۔ رہے عام آدمی ، تو ان کے لیے ان کے اپنے گھر اور ان لوگوں کے گھر جن کا ذکر کیا گیا ہے ، یکساں ہیں۔ ان میں سے کسی کے ہاں کھانے کے لیے اس طرح کی شرطوں کی کوئی ضرورت نہیں ہے کہ صاحب خانہ باقاعدہ اجازت دے تو کھائیں ورنہ خیانت ہو گی۔ آدمی اگر ان میں سے کسی کے ہاں جاۓ اور گھر کا مالک موجود نہ ہو اور اس کے بیوی بچے کھانے کو کچھ پیش کریں تو بے تکلف کھا یا جا سکتا ہے۔ جن رشتہ داروں کے نام یہاں لیے گۓ ہیں ان میں اولاد کا ذکر اس لیے نہیں کیا گیا کہ آدمی کی اولاد کا گھر اس کا اپنا ہی گھر ہے۔ دوستوں کے معاملے میں یہ بات ملحوظ خاطر رہے کہ ان سے مراد بے تکلف اور جگری دوست ہیں جن کی غیر موجودگی میں اگر یار لوگ ان کا حلوا اُڑا جائیں تو نا گوار گزرنا تو درکنار انہیں اس پر الٹی خوشی ہو |
Surah 48 : Ayat 17
لَّيْسَ عَلَى ٱلْأَعْمَىٰ حَرَجٌ وَلَا عَلَى ٱلْأَعْرَجِ حَرَجٌ وَلَا عَلَى ٱلْمَرِيضِ حَرَجٌۗ وَمَن يُطِعِ ٱللَّهَ وَرَسُولَهُۥ يُدْخِلْهُ جَنَّـٰتٍ تَجْرِى مِن تَحْتِهَا ٱلْأَنْهَـٰرُۖ وَمَن يَتَوَلَّ يُعَذِّبْهُ عَذَابًا أَلِيمًا
اگر اندھا اور لنگڑا اور مریض جہاد کے لیے نہ آئے تو کوئی حرج نہیں1 جو کوئی اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرے گا اللہ اسے اُن جنتوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہوں گی، اور جو منہ پھیرے گا اسے وہ دردناک عذاب دے گا"
1 | یعنی جس آدمی کے لیے شریک جہاد ہونے میں واقعی کوئی صحیح عذر مانع ہو اس پر تو کوئی گرفت نہیں، مگر ہٹے کٹے لوگ اگر بہانے بنا کر بیٹھ رہیں تو ان کو اللہ اور اس کے دین کے معاملہ کیں مخلص نہیں مانا جا سکتا اور انہیں یہ موقع نہیں دیا جاسکتا کہ مسلم معاشرے میں شامل ہونے کے فوائد تو سمیٹتے رہیں ، مگر جب اسلام کے لیے قربانیاں دینے کو وقت آۓ تو اپنی جان و مال کی خیر منائیں۔ اس مقام پر یہ بات جان لینی چاہیے کہ شریعت میں جن لوگوں کو شریک جہاد ہونے سے معاف رکھا گیا ہے وہ دو قسم کے لوگ ہیں۔ ایک وہ جو جسمانی طور پر جنگ کے قابل نہ ہوں، مثلاً کم سن لڑکے، عورتیں، مجنون، اندھے ، ایسے مریض جو جنگی خدمات انجام نہ دے سکتے ہوں ، اور ایسے معذور جو ہاتھ یا پاؤں بیکار ہونے کی وجہ سےجنگ میں حصہ نہ لے سکیں ۔ دوسرے وہ لوگ جن کے لیے کچھ اور معقول اسباب سے شامل جہاد ہونا مشکل ہو، مثلاً غلام، یا وہ لوگ جو لڑنے کے لیے تو تیار ہوں مگر ان کے لیے آلات جنگ اور دوسرے ضروری وسائل فراہم نہ ہوسکیں، یا ایسے قرض دار جنہیں جلدی سے جلدی اپنا قرض ادا کرنا ہو اور قرض خواہ انہیں مہلت نہ دے رہا ہو، یا ایسے لوگ جن کے والدین یا ان میں سے کوئی ایک زندہ ہو اور وہ اس کا محتاج ہو کہ اولاد اس کی خبر گیری کرے۔ اس سلسلے میں یہ وضاحت بھی ضروری ہے کہ والدین اگر مسلمان ہوں تو اولاد کو ان کی اجازت کے بغیر جہاد پر نہ جانا چاہیے، لیکن اگر وہ کافر ہوں تو ان کے روکنے سے کسی شخص کا رک جانا جائز نہیں ہے |
Surah 73 : Ayat 20
۞ إِنَّ رَبَّكَ يَعْلَمُ أَنَّكَ تَقُومُ أَدْنَىٰ مِن ثُلُثَىِ ٱلَّيْلِ وَنِصْفَهُۥ وَثُلُثَهُۥ وَطَآئِفَةٌ مِّنَ ٱلَّذِينَ مَعَكَۚ وَٱللَّهُ يُقَدِّرُ ٱلَّيْلَ وَٱلنَّهَارَۚ عَلِمَ أَن لَّن تُحْصُوهُ فَتَابَ عَلَيْكُمْۖ فَٱقْرَءُواْ مَا تَيَسَّرَ مِنَ ٱلْقُرْءَانِۚ عَلِمَ أَن سَيَكُونُ مِنكُم مَّرْضَىٰۙ وَءَاخَرُونَ يَضْرِبُونَ فِى ٱلْأَرْضِ يَبْتَغُونَ مِن فَضْلِ ٱللَّهِۙ وَءَاخَرُونَ يُقَـٰتِلُونَ فِى سَبِيلِ ٱللَّهِۖ فَٱقْرَءُواْ مَا تَيَسَّرَ مِنْهُۚ وَأَقِيمُواْ ٱلصَّلَوٲةَ وَءَاتُواْ ٱلزَّكَوٲةَ وَأَقْرِضُواْ ٱللَّهَ قَرْضًا حَسَنًاۚ وَمَا تُقَدِّمُواْ لِأَنفُسِكُم مِّنْ خَيْرٍ تَجِدُوهُ عِندَ ٱللَّهِ هُوَ خَيْرًا وَأَعْظَمَ أَجْرًاۚ وَٱسْتَغْفِرُواْ ٱللَّهَۖ إِنَّ ٱللَّهَ غَفُورٌ رَّحِيمُۢ
اے نبیؐ1، تمہارا رب جانتا ہے کہ تم کبھی دو تہائی رات کے قریب اور کبھی آدھی رات اور کبھی ایک تہائی رات عبادت میں کھڑے رہتے ہو2، اور تمہارے ساتھیوں میں سے بھی ایک گروہ یہ عمل کرتا ہے3 اللہ ہی رات اور دن کے اوقات کا حساب رکھتا ہے، اُسے معلوم ہے کہ تم لوگ اوقات کا ٹھیک شمار نہیں کر سکتے، لہٰذا اس نے تم پر مہربانی فرمائی، اب جتنا قرآن آسانی سے پڑھ سکتے ہو پڑھ لیا کرو4 اُسے معلوم ہے کہ تم میں کچھ مریض ہونگے، کچھ دوسرے لوگ اللہ کے فضل کی تلاش میں سفر کرتے ہیں5، اور کچھ اور لوگ اللہ کی راہ میں جنگ کرتے ہیں6 پس جتنا قرآن بآسانی پڑھا جا سکے پڑھ لیا کرو، نماز قائم کرو، زکوٰۃ دو7 اور اللہ کو اچھا قرض دیتے رہو 8جو کچھ بھلائی تم اپنے لیے آگے بھیجو گے اسے اللہ کے ہاں موجود پاؤ گے، وہی زیادہ بہتر ہے اور اس کا اجر بہت بڑا ہے 9اللہ سے مغفرت مانگتے رہو، بے شک اللہ بڑا غفور و رحیم ہے
9 | مطلب یہ ہے کہ تم نے آگے اپنی آخرت کے لیے جو کچھ بھیج دیا وہ تمہارے لیے اس سے زیادہ نافع ہے جو تم نے دنیا میں روک رکھا اور کسی بھلائی کے کام میں اللہ کی رضا کی خاطر خرچ نہ کیا۔ حدیث میں حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کی روایت ہے کہ ایک مرتبہ رسول اللہ ﷺ نے پوچھا ایکم ما لہ احب الیہ من مال وارثہ؟ ’’تم میں سے کون ہے جس کو اپنا مال اپنے وارث کے مال سے زیادہ محبوب ہے‘‘؟ لوگوں نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ ہم میں سے کوئی بھی ایسا نہیں جسے اپنا مال اپنے وارث کے مال سے زیادہ محبوب نہ ہو۔ فرمایا اعلموا ما تقولون۔ ’’سوچ لو کہ تم کیا کہہ رہے ہو‘‘۔ لوگوں نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ ہمارا حال واقعی یہی ہے۔ اس پر حضورؐ نے فرمایا: انما مال احدکم ما قدم و مال وارثہ ما اخر۔ ’’ تمہارا اپنا مال تو وہ ہے جو تم نے اپنی آخرت کے لیے آگے بھیج دیا۔ اور جو کچھ تم نے روک کر رکھا وہ تو وارث کا مال ہے‘‘۔ (بخاری۔ نسائی۔ مسند ابو یعلیٰ) |
8 | ابن زید کہتے ہیں کہ اس سے مراد زکوۃ کے علاوہ اپنا مال خدا کی راہ میں صرف کرنا ہے، خواہ وہ جہاد فی سبیل اللہ ہو، یا بندگان خدا کی مدد ہو، یا رفاہ عام ہو، یا دوسرے بھلائی کے کام۔ اللہ کو قرض دینے اور اچھا قرض دینے کے مطلب کی تشریح ہم اس سے پہلے متعدد مقامات پر کر چکے ہیں۔ ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد ا ول، البقرہ، حاشیہ 267 ۔ المائدہ، حاشیہ 33۔ جلد پنجم، الحدید، حاشیہ 16 |
7 | مفسرین کا اس پر اتفاق ہے کہ اس سے مراد پنجوقتہ فرض نماز اور فرض زکوۃ ادا کرنا ہے |
6 | یہاں اللہ تعالی نے پاک رزق کی تلاش اور جہاد فی سبیل اللہ کا ذکر جس طرح ایک ساتھ کیا ہے اور بیماری کی مجبوری کے علاوہ ان دونوں کاموں کو نماز تہجد سے معافی یا اس میں تخفیف کا سبب قرار دیا ہے، اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اسلام میں جائز طریقوں سے روزی کمانے کی کتنی بڑی فضیلت ہے۔ حدیث میں حضرت عبداللہ بن مسعود کی روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ما من جالب یجلب طعاماً الی بلد من بلد ان ان المسلمین فیبیعہ لسعر یومیہ الا کانت منزلتہ عند اللہ ثم قرا سول اللہ صلی علیہ وسلم و اخرون یضربون فی الارض ۔ ۔ ۔ ’’جو شخص مسلمانوں کے کسی شہر میں غلہ لے کر آیا اور اس روز کے بھاؤ پر اسے بیچ دیا اس کو اللہ کا قرب نصیب ہو گا، پھر رسول اللہ ﷺ نے یہی آیت پڑھی‘‘ (ابن مردویہ) حضرت عمرؓ نے ایک مرتبہ فرمایا ما من حال یا تینی علیہ الموت بعد الجھاد فی سبیل اللہ احب الی من ان یا تینی و انا بین شعبتی جبل التمس من فضل اللہ و قرا ھذہ الایۃ ’’جہاد فی سبیل اللہ کے بغد اگر کسی حالت م یں جان دینا مجھے سب سے زیادہ محبوب ہے تو وہ یہ حالت ہے کہ میں اللہ کا فضل تلاش کرتے ہوئے کسی پہاڑی درے سے گزر رہا ہوں اور وہاں مجھ کو موت آ جائے ، پھر انہوں نے یہی آیت پڑھی ‘‘ (بیہقی فی شعب الایمان) |
5 | جائز اور حلال طریقوں سے رزق کمانے کے لیے سفر کرنے کو قرآن مجید میں جگہ جگہ اللہ کا فضل تلاش کرنے سے تعبیر کیا گیا ہے |
4 | چونکہ نماز میں طول زیادہ تر قرآن کی طویل قرات ہی سے ہوتا ہے ، اس لیے فرمایا تہجد کی نماز میں جتنا قرآن بسہولت پڑھ سکو پڑھ لیا کرو، اس سے نماز کی طوالت میں آپ سے آپ تخفیف ہو جائے گی۔ اس ارشاد کے الفاظ اگرچہ بظاہر حکم کے ہیں، لیکن یہ امر متفق علیہ ہے کہ تہجد فرض نہیں ، بلکہ نفل ہے، حدیث میں بھی صراحت ہے کہ ایک شخص کے پوچھنے پر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ تم پر دن رات میں پانچ وقت کی نمازیں فرض ہیں۔ اس نے پوچھا ، کیا اس کے سوا بھی کوئی چیز مجھ پر لازم ہے؟ جواب میں ارشاد ہوا ’’نہیں ، الا کہ تم ا پنی خوشی سے کچھ پڑھو‘‘۔ (بخاری و مسلم) اس آشت سے ایک بات یہ بھی معلوم ہوئی کہ نماز میں جس طرح رکوع و سجود فرض ہے اسی طرح قرآن مجید کی قرات بھی فرض ہے ، کیونکہ اللہ تعالی نے جس طرح دوسرے مقامات پر رکوع یا سجود کے الفاظ استعمال کر کے نماز مراد لی ہے، اسی طرح یہاں قرآن کی قرات کا ذکر کیا ہے اور مراد اس سے نماز میں قرآن پڑھنا ہے۔ اس استنباط پر اگر کوئی شخص یہ اعتراض کرے کہ جب نماز تہجد خود نفل ہے تو اس میں قرآن پڑھنا کیسے فرض ہو سکتا ہے، تو اس کا جواب یہ ہے کہ نفل نماز بھی جب آدمی پڑھے تو اس میں نماز کی تمام شرائط پوری کرنا اور اس کے تمام ارکان و فرائض ادا کرنا لازم ہوتا ہے۔ کوئی شخص یہ نہیں کہہ سکتا کہ نفل نماز کے لیے کپڑوں کی طہارت، جسم کا پاک ہونا، وضو کرنا، اور ستر چھپانا واجب ن ہیں ہے اور اس میں قیام و قعود اور رکوع و سجود بھی نفل ہی ہیں |
3 | ابتدائی حکم میں صرف رسول اللہ ﷺ ہی کو خطاب کیا گیا تھا۔ اور آپ ہی کو قیام لیل کی ہدایت فرمائی گئی تھی، لیکن مسلمانوں میں اس وقت حضورؐ کے اتباع اور نیکیاں کمانے کا جو غیر معمولی جذبہ پایا جاتا تھا اس کی بنا پر ا کثر صحابہ کرام بھی اس نماز کا اہتمام کرتے تھے |
2 | اگرچہ ابتدائی حکم آدمی رات یا اس سے کچھ کم و بیش کھڑے رہنے کا تھا، لیکن چونکہ نماز کی محویت میں وقت کا اندازہ نہ رہتا تھا، اور گھڑیاں بھی موجود نہ تھیں کہ اوقات ٹھیک ٹھیک معلوم ہو سکیں۔ اس لیے کبھی دو تہائی رات تک عبادت میں گزر جاتی اور کبھی یہ مدت گھٹ کر ا یک تہائی رہ جاتی تھی |
1 | یہ آیت جس کے اندر نمازِ تہجد کے حکم میں تخفیف کی گئی ہے، اس کے بارے میں روایات مختلف ہیں، حضرت عائشہؓ سے مسند احمد، مسلم ا ور ابو داؤد میں یہ روایت منقول ہے کہ پہلے حکم کے بعد یہ دوسرا حکم ایک سال کے بعد نازل ہوا اور رات کا قیام فرض سے نفل کر دیا گیا۔ دوسری روایت حضرت عائشہؓ ہی سے ابن جریر اور ابن ابی حاتم نے یہ نقل کی ہے کہ یہ حکم پہلے حکم کے8 مہینہ بعد آیا تھا، اور ایک تیسری روایت جو ابن ابی حاتم نے انہی سے نقل کی ہے اس میں سولہ مہینے کی مدت نقل کی ہے۔ لیکن حضرت سعید بن جبیر کا بیان ہے کہ اس کا نزول دس سال بعد ہوا ہے (ابن جریر و ابن ابی حاتم) ہمارے نزدیک یہی قول زیادہ صحیح ہے، اس لیے کہ پہلے رکوع کا مضمون صاف بتا رہا ہے کہ وہ مکہ معظمہ میں نازل ہوا ہے اور وہاں بھی اس کا نزول ابتدائی دور میں ہوا ہے جبکہ حضورؐ کی نبوت کا آغاز ہونے پر زیادہ سے زیادہ چار سال گزرے ہوں گے۔ بخلاف اس کے یہ دوسرا رکوع اپنے مضامین کی صریح شہادت کے مطابق مدینہ کا نازل شدہ معلوم ہوتا ہے جب کفار سے جنگ کا سلسلہ شروع ہو چکا تھا اور زکوۃ کی فرضیت کا حکم بھی آ چکا تھا۔ اس بنا پر لا محالہ ان دونوں رکوعوں کے زمانہ نزول میں کم از کم دس سال کا فاصلہ ہی ہونا چاہیے |