Ayats Found (7)
Surah 2 : Ayat 39
وَٱلَّذِينَ كَفَرُواْ وَكَذَّبُواْ بِـَٔـايَـٰتِنَآ أُوْلَـٰٓئِكَ أَصْحَـٰبُ ٱلنَّارِۖ هُمْ فِيهَا خَـٰلِدُونَ
اور جو اس کو قبول کرنے سے انکار کریں گے اور ہماری آیات کو جھٹلائیں گے1، وہ آگ میں جانے والے لوگ ہیں، جہاں وہ ہمیشہ رہیں گے2"
2 | یہ نسلِ انسانی کے حق میں ابتدائے آفرینش سے قیامت تک کے لیے اللہ کا مستقل فرمان ہے اور اسی کو تیسرے رکوع میں اللہ کے ”عہد“سے تعبیر کیا گیا ہے۔ انسان کا کام خود راستہ تجویز کرنا نہیں ہے، بلکہ بندہ اور خلیفہ ہونے کی دو گو نہ حیثیتوں کے لحاظ سے وہ اس پر مامُور ہے کہ اُس راستے کی پیروی کرے جس اس کا ربّ اس کے لیے تجویز کرے۔ اور اس راستے کے معلوم ہونے کی دو ہی صورتیں ہیں : یا تو کسی انسان کے پاس براہِ راست اللہ کی طرف سے وحی آئے، یا پھر وہ اُس انسان کا اتباع کرے جس کے پاس وحی آئی ہو۔ کوئی تیسری صُورت یہ معلوم ہونے کی نہیں ہے کہ ربّ کی رضا کس راہ میں ہے۔ اِن دو صُورتوں کے ماسوا ہر صُورت غلط ہے، بلکہ غلط ہی نہیں، سراسر بغاوت بھی ہے، جس کی سزا جہنّم کے سوا اور کچھ نہیں۔ قرآن مجید میں آدم کی پیدائش اور نَوعِ انسانی کی ابتدا کا یہ قصّہ سات مقامات پر آیا ہے، جن میں سے پہلا مقام یہ ہے اور باقی مقامات حسبِ ذیل ہیں: الاعراف، رکوع ۲ ۔ بنی اسرائیل، رکوع ۷۔ الکہف، رکوع ۷، طٰہٰ، رکوع ۷۔ صٓ، رکوع ۵۔ بائیبل کی کتاب ِ پیدائش، باب اوّل، دوم و سوم میں بھی یہ قصّہ بیان ہوا ہے۔ لیکن دونوں کا مقابلہ کرنے سے ہر صاحبِ نظر انسان محسُوس کر سکتا ہے کہ دونوں کتابوں میں کیا فرق ہے۔ آدم علیہ السلام کی تخلیق کے وقت اللہ اور فرشتوں کی گفتگو کا ذکر تلمود میں بھی آیا ہے، مگر وہ بھی اس معنوی روح سے خالی ہے جو قرآن کے بیان کردہ قصہ میں پائی جاتی ہے بلکہ اس میں لطیفہ بھی پایا جاتا ہے کہ جب فرشتوں نے اللہ سے پوچھا ، انسانوں کو آخر کیوں پیدا کیا جا رہا ہے؟ ًتو اللہ تعالیٰ نے جواب دیا ۔ ً تاکہ ان میں نیک لوگ پیدا ہوں‘ بد لوگوں کا ذکر اللہ نے نہیں کیا ورنہ فرشتے انسان کی تخلیق کی منظوری نہ دیتے |
1 | آیات جمع ہے آیت کی۔ آیت کے اصل معنی اس نشانی یا علامت کے ہیں جو کسی چیز کی طرف رہنمائی کرے۔ قرآن میں یہ لفظ چار مختلف معنوں میں آیا ہے۔ کہیں اس سے مراد محض علامت یا نشانی ہی ہے۔ کہیں آثارِ کائنات کو اللہ کی آیات کہا گیا ہے، کیونکہ مظاہرِ قدرت میں سے ہر چیز اُس حقیقت کی طرف اشارہ کر رہی ہے جو اس ظاہری پردے کے پیچھے مستُور ہے۔ کہیں اُن معجزات کو آیات کہا گیا ہے جو انبیاء علیہم السّلام لے کر آتے تھے، کیونکہ یہ معجزے دراصل اس بات کی علامت ہوتے تھے کہ یہ لوگ فرمانروائے کائنات کے نمائندے ہیں۔ کہیں کتاب اللہ کے فقروں کو آیات کہا گیا ہے ، کیونکہ وہ نہ صرف حق اور صداقت کی طرف رہنمائی کرتے ہیں ، بلکہ فی الحقیقت اللہ کی طرف سے جو کتاب بھی آتی ہے، اس کے محض مضامین ہی میں نہیں ، اس کے الفاظ اور اندازِ بیان اور طرزِ عبادت تک میں اس کے جلیل القدر مُصنّف کی شخصیت کے آثار نمایاں طور پر محسُوس ہوتے ہیں۔۔۔۔ ہر جگہ عبارت کے سیاق و سباق سے بآسانی معلوم ہو جاتا ہے کہ کہاں”آیت“ کا لفظ کس معنی میں آیا ہے |
Surah 6 : Ayat 27
وَلَوْ تَرَىٰٓ إِذْ وُقِفُواْ عَلَى ٱلنَّارِ فَقَالُواْ يَـٰلَيْتَنَا نُرَدُّ وَلَا نُكَذِّبَ بِـَٔـايَـٰتِ رَبِّنَا وَنَكُونَ مِنَ ٱلْمُؤْمِنِينَ
کاش تم اس وقت ان کی حالت دیکھ سکتے جب وہ دوزخ کے کنارے کھڑے کیے جائیں گے اس وقت وہ کہیں گے کہ کاش کوئی صورت ایسی ہو کہ ہم دنیا میں پھر واپس بھیجے جائیں اور اپنے رب کی نشانیوں کو نہ جھٹلائیں اور ایمان لانے والوں میں شامل ہوں
Surah 7 : Ayat 36
وَٱلَّذِينَ كَذَّبُواْ بِـَٔـايَـٰتِنَا وَٱسْتَكْبَرُواْ عَنْهَآ أُوْلَـٰٓئِكَ أَصْحَـٰبُ ٱلنَّارِۖ هُمْ فِيهَا خَـٰلِدُونَ
اور جو لوگ ہماری آیات کو جھٹلائیں گے اور ان کے مقابلہ میں سرکشی برتیں گے وہی اہل دوزخ ہوں گے جہاں وہ ہمیشہ رہیں گے1
1 | یہ بات قرآن مجید میں ہر جگہ اُس موقع پر ارشاد فرمائی گئی ہےجہاں آدم وحوّاعلیہ السلام کے جنت سے اتارے جانے کا ذکر آیا ہے(ملاحظہ ہو سورہ بقرہ، آیات۳۸۔۳۹۔طٰہٰ۔ آیات ١۲۳۔١۲۴)لہٰذا یہاں بھی اس کو اسی موقع سے متعلق سمجھا جائےگا، یعنی نوعِ انسانی کی زندگی کا آغاز جب ہو رہا تھا اسی وقت یہ بات صاف طور پر سمجھا دی گئی تھی(ملاحظہ ہو سورہ آل عمران، حاشیہ ٦۹) |
Surah 23 : Ayat 104
تَلْفَحُ وُجُوهَهُمُ ٱلنَّارُ وَهُمْ فِيهَا كَـٰلِحُونَ
آگ ان کے چہروں کی کھال چاٹ جائے گی اور اُن کے جبڑے باہر نکل آئیں گے1
1 | اصل میں لفظ کَالِحُوْنَ استعمال کیا گیا ہے۔ کالح عربی زبان میں اس چہرے کو کہتے ہیں جس کی کھال الگ ہو گئی ہو اور دانت باہر آ گۓ ہوں جیسے بکرے کی بھنی ہوئی سری۔ عبد اللہ بن مسعودؓ سے کسی نے کالح کے معنی پوچھے تو انہوں نے کہا اَلَمْ تَرَ اِ لَی الرأس المشیط ؟ ’’ کیا تم نے بھنی ہوئی سری نہیں دیکھی |
Surah 23 : Ayat 105
أَلَمْ تَكُنْ ءَايَـٰتِى تُتْلَىٰ عَلَيْكُمْ فَكُنتُم بِهَا تُكَذِّبُونَ
"کیا تم وہی لوگ نہیں ہو کہ میری آیات تمہیں سنائی جاتی تھیں تو تم انہیں جھٹلاتے تھے؟"
Surah 92 : Ayat 14
فَأَنذَرْتُكُمْ نَارًا تَلَظَّىٰ
پس میں نے تم کو خبردار کر دیا ہے بھڑکتی ہوئی آگ سے
Surah 92 : Ayat 16
ٱلَّذِى كَذَّبَ وَتَوَلَّىٰ
جس نے جھٹلایا اور منہ پھیرا