Ayats Found (11)
Surah 2 : Ayat 10
فِى قُلُوبِهِم مَّرَضٌ فَزَادَهُمُ ٱللَّهُ مَرَضًاۖ وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمُۢ بِمَا كَانُواْ يَكْذِبُونَ
ان کے دلوں میں ایک بیماری ہے جسے اللہ نے اور زیادہ بڑھا دیا1، اور جو جھوٹ وہ بولتے ہیں، اس کی پاداش میں ان کے لیے درد ناک سزا ہے
1 | بیماری سے مراد منافقت کی بیماری ہے۔ اور اللہ کے اس بیماری میں اضافہ کرنے کا مطلب یہ ہے کہ وہ منافقین کو ان کے نفاق کی سزا فوراً نہیں دیتا بلکہ انہیں ڈھیل دیتا ہے اور اس ڈھیل کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ منافق لوگ اپنی چالوں کو بظاہر کامیاب ہوتے دیکھ کر اور زیادہ مکمل منافق بنتے چلے جاتے ہیں |
Surah 5 : Ayat 52
فَتَرَى ٱلَّذِينَ فِى قُلُوبِهِم مَّرَضٌ يُسَـٰرِعُونَ فِيهِمْ يَقُولُونَ نَخْشَىٰٓ أَن تُصِيبَنَا دَآئِرَةٌۚ فَعَسَى ٱللَّهُ أَن يَأْتِىَ بِٱلْفَتْحِ أَوْ أَمْرٍ مِّنْ عِندِهِۦ فَيُصْبِحُواْ عَلَىٰ مَآ أَسَرُّواْ فِىٓ أَنفُسِهِمْ نَـٰدِمِينَ
تم دیکھتے ہو کہ جن کے دلوں میں نفاق کی بیماری ہے وہ اُنہی میں دوڑ دھوپ کرتے پھرتے ہیں کہتے ہیں 1"ہمیں ڈر لگتا ہے کہ کہیں ہم کسی مصیبت کے چکر میں نہ پھنس جائیں" مگر بعید نہیں کہ اللہ جب تمہیں فیصلہ کن فتح بخشے گا یا اپنی طرف سے کوئی اور بات ظاہر کرے گا2 تو یہ لوگ اپنے اِس نفاق پر جسے یہ دلوں میں چھپائے ہوئے ہیں نادم ہوں گے
2 | یعنی فیصلہ کُن فتح سے کم درجہ کی کوئی ایسی چیز جس سے عموماّ لوگوں کو یہ یقین ہو جائے کہ ہار جیت کا آخری فیصلہ اسلام ہی کے حق میں ہو گا |
1 | اُس وقت تک عرب میں کفر اور اسلام کی کشمکش کا فیصلہ نہیں ہوا تھا۔ اگرچہ اسلام اپنے پیرووں کی سرفروشیوں کے سبب سے ایک طاقت بن چکا تھا لیکن مقابل کی طاقتیں بھی زبر دست تھیں۔ اسلام کی فتح کا جیسا امکان تھا ویسا ہی کفر کی فتح کا بھی تھا۔ اس لیے مسلمانوں میں جو لوگ منافق تھے وہ اسلامی جماعت میں رہتے ہوئے یہُودیوں اور عیسائیوں کے ساتھ بھی ربط و ضبط رکھنا چاہتے تھے تاکہ یہ کشمکش اگر اسلام کی شکست پر ختم ہو تو ان کے لیے کوئی نہ کوئی جائے پناہ محفوظ رہے۔ علاوہ بریں اُس وقت عرب میں عیسائیوں اور یہودیوں کی معاشی قوت سب سے زیادہ تھی۔ ساہوکارہ بیشتر انہی کے ہاتھ میں تھا۔ عرب کے بہترین سرسبز و شاداب خطے ان کے قبضہ میں تھے۔ ان کی سُود خواری کا جال ہر طرف پھیلا ہوا تھا۔ لہٰذا معاشی اسباب کی بنا پر بھی یہ منافق لوگ ان کے ساتھ اپنے سابق تعلقات برقرار رکھنے کے خواہش مند تھے۔ ان کا گمان تھا کہ اگر اسلام و کفر کی اس کشمکش میں ہمہ تن منہمک ہو کر ہم نے ان سب قوموں سے اپنے تعلقات منقطع کر لیے جن کے ساتھ اسلام اس وقت بر سرِپیکار ہے تو یہ فعل سیاسی اور معاشی دونوں حیثیتوں سے ہمارے لیے خطر ناک ہو گا |
Surah 8 : Ayat 49
إِذْ يَقُولُ ٱلْمُنَـٰفِقُونَ وَٱلَّذِينَ فِى قُلُوبِهِم مَّرَضٌ غَرَّ هَـٰٓؤُلَآءِ دِينُهُمْۗ وَمَن يَتَوَكَّلْ عَلَى ٱللَّهِ فَإِنَّ ٱللَّهَ عَزِيزٌ حَكِيمٌ
جب کہ منافقین اور وہ سب لوگ جن کے دلوں کو روگ لگا ہوا ہے، کہہ رہے تھے کہ ان لوگوں کو تو اِن کے دین نے خبط میں مبتلا کر رکھا ہے1 حالانکہ اگر کوئی اللہ پر بھروسہ کرے تو یقیناً اللہ بڑا زبردست اور دانا ہے
1 | یعنی مدینہ کے منافقین اور وہ سب لوگ جو دنیا پر ستی اور خدا سے غفلت کے مرض میں گرفتار تھے، یہ دیکھ کر کہ مسلمانوں کی مٹھی بھر بے سروسامان جماعت قریش جیسی زبردست طاقت سے ٹکرا نے کے لیے جارہی ہے، آپس میں کہتے تھے کہ یہ لوگ اپنے دینی جوش میں دیوانے ہو گئے ہیں، اس معرکہ میں ان کی تباہی یقینی ہے، مگر اس نبی نے کچھ ایسا افسوں ان پر پھونک رکھا ہے کہ ان کی عقل خبط ہو گئی ہے اور آنکھوں دیکھے یہ موت کے منہ میں چلے جارہے ہیں |
Surah 9 : Ayat 125
وَأَمَّا ٱلَّذِينَ فِى قُلُوبِهِم مَّرَضٌ فَزَادَتْهُمْ رِجْسًا إِلَىٰ رِجْسِهِمْ وَمَاتُواْ وَهُمْ كَـٰفِرُونَ
البتہ جن لوگوں کے دلوں کو (نفاق کا) روگ لگا ہوا تھا اُن کی سابق نجاست پر (ہر نئی سورت نے) ایک اور نجاست کا اضافہ کر دیا1 اور وہ مرتے دم تک کفر ہی میں مبتلا رہے
1 | ایمان اور کفر اور نفاق میں کمی بیشی کا کیا مفہوم ہے، اس کی تشریح کے لیے ملاحظہ ہو سورۂ انفال ، حاشیہ نمبر ۲ |
Surah 24 : Ayat 50
أَفِى قُلُوبِهِم مَّرَضٌ أَمِ ٱرْتَابُوٓاْ أَمْ يَخَافُونَ أَن يَحِيفَ ٱللَّهُ عَلَيْهِمْ وَرَسُولُهُۥۚ بَلْ أُوْلَـٰٓئِكَ هُمُ ٱلظَّـٰلِمُونَ
کیا ان کے دلوں کو (منافقت کا) روگ لگا ہوا ہے؟ یا یہ شک میں پڑے ہوئے ہیں؟ یا ان کو یہ خوف ہے کہ اللہ اور اس کا رسول ان پر ظلم کرے گا؟ اصل بات یہ ہے کہ ظالم تو یہ لوگ خود ہیں1
1 | یعنی اس طرز عمل کی تین ہی وجہیں ممکن ہیں۔ ایک یہ کہ آدمی سرے سے ایمان ہی نہ لایا ہو اور منافقانہ طریقے پر محض دھوکا دینے اور مسلم معاشرے میں شرکت کا ناجائز فائدہ اٹھانے کے لیے مسلمان ہو گیا ہو۔ دوسرے یہ کہ ایمان لے آنے کے باوجود اسے اس امر میں ابھی تک شک ہو کہ رسول خدا کا رسول ہے یا نہیں ، اور قرآن خدا کی کتاب ہے یا نہیں ، آخرت واقعی آنے والی ہے بھی یا یہ محض ایک افسانہ تراشیدہ ہے ،بلکہ خدا بھی حقیقت میں موجود ہے یا یہ بھی ایک خیال ہے جو کسی مصلحت سے گھڑ لیا گیا ہے۔ تیسرے یہ کہ وہ خدا کو خدا اور رسول کو رسول مان کر بھی ان سے ظلم کا اندیشہ رکھتا ہو اور یہ سمجھتا ہو کہ خدا کی کتاب نے فلاں حکم دے کر تو ہمیں مصیبت میں ڈال دیا اور خدا کے رسول کا فلاں ارشاد یا فلاں طریقہ تو ہمارے لیے سخت نقصان دہ ہے۔ ان تینوں صورتوں میں سے جو صورت بھی ہو ایسے لوگوں کے ظالم ہونے میں کوئی شک نہیں۔ اس طرح کے خیالات رکھ کر جو شخص مسلمانوں میں شامل ہوتا ہے ، ایمان کا دعویٰ کرتا ہے ، اور مسلم معاشرے کا ایک رکن بن کر مختلف قسم کے ناجائز فائدے اس معاشرے سے حاصل کرتا ہے ، وہ بہت بڑا دغا باز ، خائن اور جعل ساز ہے۔ وہ اپنے نفس پر بھی ظلم کرتا ہے کہ اسے شب و روز کے جھوٹ سے ذلیل ترین خصائل کا پیکر بناتا چلا جاتا ہے۔ اور ان مسلمانوں پر بھی ظلم کرتا ہے جو اس کے ظاہری کلمہ شہادت پر اعتماد کر کے اسے اپنی ملت کا ایک جز مان لیتے ہیں اور پھر اس کے ساتھ طرح طرح کے معاشرتی، تمدنی، سیاسی اور اخلاقی تعلقات قائم کر لیتے ہیں |
Surah 33 : Ayat 12
وَإِذْ يَقُولُ ٱلْمُنَـٰفِقُونَ وَٱلَّذِينَ فِى قُلُوبِهِم مَّرَضٌ مَّا وَعَدَنَا ٱللَّهُ وَرَسُولُهُۥٓ إِلَّا غُرُورًا
یاد کرو وہ وقت جب منافقین اور وہ سب لوگ جن کے دلوں میں روگ تھا صاف صاف کہہ رہے تھے کہ اللہ اور اُس کے رسولؐ نے جو وعدے ہم سے کیے تھے1 وہ فریب کے سوا کچھ نہ تھے
1 | یعنی اس امر کے وعدے کہ اہلِ ایمان کو اللہ کی تائید و نصرت حاصل ہو گی اور آخر کار غلبہ انہی کو بخشا جائے گا |
Surah 33 : Ayat 32
يَـٰنِسَآءَ ٱلنَّبِىِّ لَسْتُنَّ كَأَحَدٍ مِّنَ ٱلنِّسَآءِۚ إِنِ ٱتَّقَيْتُنَّ فَلَا تَخْضَعْنَ بِٱلْقَوْلِ فَيَطْمَعَ ٱلَّذِى فِى قَلْبِهِۦ مَرَضٌ وَقُلْنَ قَوْلاً مَّعْرُوفًا
نبیؐ کی بیویو، تم عام عورتوں کی طرح نہیں ہو1 اگر تم اللہ سے ڈرنے والی ہو تو دبی زبان سے بات نہ کیا کرو کہ دل کی خرابی کا مُبتلا کوئی شخص لالچ میں پڑ جائے، بلکہ صاف سیدھی بات کرو2
2 | یعنی ضرورت پیش آنے پر کسی مرد سے بات کرنے میں مضائقہ نہیں ہے، لیکن ایسے مواقع پر عورت کا لہجہ اور اندازِ گفتگو ایسا ہونا چاہیے جس سے بات کرنے والے مرد کے دِل میں کبھی یہ خیال تک نہ گزر سکے کہ اس عورت سے کوئی اور توقع بھی قائم کی جا سکتی ہے۔ اُس کے لہجے میں کوئی لوچ نہ ہو، اُس کی باتوں میں کوئی لگاوٹ نہ ہو، اُس کی آواز میں دانستہ کوئی شیرینی گھُلی ہوئی نہ ہو جو سننے والے مرد کے جذبات میں انگیخت پیدا کر دے اور اسے آگے قدم بڑھانے کی ہمّت دلائے۔ اس طرزِ گفتگو کے متعلق اللہ تعالٰی؟صاف فرماتا ہے کہ یہ کسی ایسی عورت کو زیب نہیں دیتا جس کے دِل میں خدا کا خوف اور بدی سے پرہیز کا جذبہ ہو۔ دوسرے الفاظ میں یہ فاسقات و فاجرات کا طرز کلام ہے نہ کہ مومناتِ متّقیات کا۔ اس کے ساتھ اگر سُورۂ نور کی وہ آیت بھی دیکھی جائے جس میں اللہ تعالٰی فرماتا ہے ولَا یَضْرِبْنَ بِاَرْجُلِھِنَّ لِیُعْلَمَ مَا یُخْفِیْنَ مِنْ زِیْنَتِھِنَّ (اور زمین پر اس طرح پاؤں مارتی ہوئی نہ چلیں کہ جو زینت انہوں نے چھپا رکھی ہے اس کا علم لوگوں کو ہو) تو ربّ العٰلمین کا صاف منشا یہ معلوم ہوتا ہے کہ عورتیں خواہ مخواہ اپنی آواز یا اپنے زیوروں کی جھنکار غیر مردوں کو نہ سنائیں اور اگر بضرورت اجنبیوں سے بولنا پڑ جائے تو پوری احتیاط کے ساتھ بات کریں۔ اسی بنا پر عورت کے لیے اذان دینا ممنوع ہے۔ نیز اگر نماز با جماعت میں کوئی عورت موجود ہو اور امام کوئی غلطی کرے تو مرد کی طرح سبحان اللہ کہنے کی اُسے اجازت نہیں ہے بلکہ اس کو صرف ہاتھ پر ہاتھ مار کر آواز پیدا کرنی چاہیے تاکہ امام متنبّہ ہو جائے۔ اب یہ ذرا سوچنے کی بات ہے کہ جو دین عورت کو غیر مرد سے بات کرتے ہوئے بھی لوچ دار اندازِ گفتگو اختیار کرنے کی اجازت نہیں دیتا اور اسے مردوں کے سامنے بلا ضرورت آواز نکالنے سے بھی روکتا ہے، کیا وہ کبھی اس کو پسند کر سکتا ہے کہ عورت اسٹیج پرآ کر گائے ناچے، تھرکے ،بھاؤ بتائے اور ناز و نخرے دکھائے ؟ کیا وہ اس کی اجازت دے سکتا ہے کہ ریڈیو پر عورت عاشقانہ گیت گائے اور سریلے نغموں کے ساتھ فحش مضامین سُنا سُنا کر لوگوں کے جذبات میں آگ لگائے؟ کیا وہ اسے جائز رکھ سکتا ہے کہ عورتیں ڈراموں میں کبھی کسی کی بیوی اور کبھی کسی کی معشوقہ کا پارٹ ادا کریں؟ یا ہوائی میزبان (Air-hostess)بنائی جائیں اور انھیں خاص طور پر مسافروں کا دِل لُبھانے کی تربیت دے جائے؟ یا کلبوں اور اجتماعی تقریبات اور مخلوط مجالس میں بن ٹھن کر آئیں اور مردوں سے خوب گھُل مِل کر بات چیت اور ہنسی مذاق کریں؟ یہ کلچر آخر کس قرآن سے برآمد کی گئی ہے؟ خدا کا نازل کردہ قرآن تو سب کے سامنے ہے۔ اس میں کہیں اس کلچر کی گنجائش نظر آتی ہو تو اس مقام کی نشان دہی کر دی جائے۔ |
1 | یہاں سے آخر پیراگراف تک کی آیات وہ ہیں جن سے اسلام میں پردے کے احکام کا آغاز ہوا ہے۔ اِن آیات میں خطاب نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی بیویوں سے کیا گیا ہے مگر مقصود تمام مسلمان گھروں میں اِن اصلاحات کو نافذ کرنا ہے۔ ازواجِ مطہّرات کو مخاطب کرنے کی غرض صرف یہ ہے کہ جب نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے گھر سے اس پاکیزہ طرز زندگی کی ابتدا ہو گی تو باقی سارے مسلمان گھرانوں کی خواتین خود اس کی تقلید کریں گی، کیونکہ یہی گھر اُن کے لیے نمونہ کی حیثیت رکھتا تھا۔ بعض لوگ صرف اس بنیاد پر کہ ان آیات کا خطاب نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی ازواجِ مطہّرات سے ہے، یہ دعویٰ کر بیٹھے ہیں کہ یہ احکام انہی کے لیے خاص ہیں۔ لیکن آگے ان آیات میں جو کچھ فرمایا گیا ہے اسے پڑھ کر دیکھ لیجئے۔ کونسی بات ایسی ہے جوحضورؐ کی ازواج کے لیے خاص ہو اور باقی مسلمان عورتوں کے لیے مطلوب نہ ہو؟ کیا اللہ تعالٰی کا منشا یہی ہو سکتا تھا کہ صرف ازواجِ مطہّرات ہی گندگی سے پاک ہوں، اور وہی اللہ و رسولؐ کی اطاعت کریں، اور وہی نمازیں پڑھیں اور زکوٰۃ دیں؟ اگر یہ منشا نہیں ہو سکتا تو پھر گھروں میں چین سے بیٹھے اور تبرُّج جاہلیت سے پرہیز کرنے اور غیر مردوں کے ساتھ دبی زبان سے بات نہ کرنے کا حکم ان کے لیے کیسے خاص ہو سکتا ہے اور باقی مسلمان عورتیں اس سے مستثنیٰ کیسے ہو سکتی ہیں؟ کیا کوئی معقول دلیل ایسی ہے جس کی بنا پر ایک ہی سلسلۂ کلام کے مجموعی احکام میں سے بعض کو عام اور بعض کو خاص قرار دیا جائے؟ رہا یہ فقرہ کہ ’’تم عام عورتوں کی طرح نہیں ہو‘‘ تو اس سے بھی یہ مطلب نہیں عام عورتوں کو تو بن ٹھن کر نکلنا چاہے اور غیر مردوں سے خوب لگاوٹ کی باتیں کرنی چاہییں‘ البتہ تم ایسا طرزِ عمل اختیار نہ کرو۔ بلکہ اس کے برعکس یہ طرزِ کلام کچھ اس طرح کا ہی جیسے ایک شریف آدمی اپنے بچے سے کہتا ہے کہ’’تمہیں گالی نہ بَکنی چاہیے۔‘‘ اس سے کوئی عقلمند آدمی بھی کہنے والے کا یہ مدّعا اخذ نہ کرے گا کہ وہ صرف اپنے بچے کے لیے گالیاں بَکنے کو بُرا سمجھتا ہے، دوسرے بچوں میں یہ عیب موجود رہے تو اسے اس پر کوئی اعتراض نہیں ہے۔ |
Surah 33 : Ayat 60
۞ لَّئِن لَّمْ يَنتَهِ ٱلْمُنَـٰفِقُونَ وَٱلَّذِينَ فِى قُلُوبِهِم مَّرَضٌ وَٱلْمُرْجِفُونَ فِى ٱلْمَدِينَةِ لَنُغْرِيَنَّكَ بِهِمْ ثُمَّ لَا يُجَاوِرُونَكَ فِيهَآ إِلَّا قَلِيلاً
اگر منافقین، اور وہ لوگ جن کے دلوں میں خرابی ہے1، اور وہ جو مدینہ میں ہیجان انگیز افواہیں پھیلانے والے ہیں2، اپنی حرکتوں سے باز نہ آئے تو ہم ان کے خلاف کاروائی کرنے کے لیے تمہیں اُٹھا کھڑا کریں گے، پھر وہ اس شہر میں مشکل ہی سے تمہارے ساتھ رہ سکیں گے
2 | اس سے مُراد وہ لوگ ہیں جو مسلمانوں میں گھبراہٹ پھیلانے اور ان کے حوصلے پست کرنے کے لیے آئے دن مدینے میں اس طرح کی خبریں اُڑایا کرتے تھے کہ فلاں جگہ مسلمانوں کو بڑی زک پہنچی ہے اور فلاں جگہ مسلمانوں کے خلاف بڑی طاقت جمع ہو رہی ہے اور عنقریب مدینہ پر اچانک حملہ ہونے والا ہے۔ اس کے ساتھ اُن کا ایک مشغلہ یہ بھی تھا کہ وہ خاندان نبوت اور شرفائے مسلمین کی خانگی زندگی کے متعلق طرح طرح کے افسانے گھڑتے اور پھیلاتے تھے تاکہ اس سے عوام میں بدگمانیاں پیدا ہوں اور مسلمانوں کے اخلاقی اثر کو نقصان پہنچے۔ |
1 | دِل کی خرابی‘‘ سے مراد یہاں دو قسم کی خرابیاں ہیں۔ ایک یہ کہ آدمی اپنے آپ کو مسلمانوں میں شمار کرنے کے باوجود اسلام اور مسلمانوں کا بدخواہ ہو۔ دوسرے یہ کہ آدمی بدنیتی، آوارگی اور مجرمانہ ذہنیت میں مبتلا ہو اور اس کے ناپاک رجحانات اس کی حرکات و سکنات سے پھُوٹے پڑتے ہوں۔ |
Surah 47 : Ayat 20
وَيَقُولُ ٱلَّذِينَ ءَامَنُواْ لَوْلَا نُزِّلَتْ سُورَةٌۖ فَإِذَآ أُنزِلَتْ سُورَةٌ مُّحْكَمَةٌ وَذُكِرَ فِيهَا ٱلْقِتَالُۙ رَأَيْتَ ٱلَّذِينَ فِى قُلُوبِهِم مَّرَضٌ يَنظُرُونَ إِلَيْكَ نَظَرَ ٱلْمَغْشِىِّ عَلَيْهِ مِنَ ٱلْمَوْتِۖ فَأَوْلَىٰ لَهُمْ
جو لوگ ایمان لائے ہیں وہ کہہ رہے تھے کہ کوئی سورت کیوں نہیں نازل کی جاتی (جس میں جنگ کا حکم دیا جائے) مگر جب ایک محکم سورت نازل کر دی گئی جس میں جنگ کا ذکر تھا تو تم نے دیکھا کہ جن کے دلوں میں بیماری تھی وہ تمہاری طرف اس طرح دیکھ رہے ہیں جیسے کسی پر موت چھا گئی ہو1 افسوس اُن کے حال پر
1 | مطلب یہ ہے کہ جن حالات سے اس وقت مسلمان گزر رہے تھے اور کفار کا جو رویہ اس وقت اسلام اور مسلمانوں کے ساتھ تھا، اس کی بنا پر جنگ کا حکم آنے سے پہلے ہی اہل ایمان کی عام راۓ یہ تھی کہ اب ہمیں جنگ کی اجازت مل جانی چاہیے۔ بلکہ وہ بے چینی کے ساتھ اللہ کے فرمان کا انتظار کر رہے تھے اور بار بار پوچھتے تھے کہ ہمیں ان ظالموں سے لڑنے کا حکم کیوں نہیں دیا جاتا؟ مگر جو لوگ منافقت کے ساتھ مسلمانوں کے گروہ میں شامل ہو گۓ تھے ان کا حال مومنوں کے حال سے بالکل مختلف تھا۔ وہ اپنی جان و مال کو خدا اور اس کے دین سے عزیز تر رکھتے تھے اور اس کے لیے کوئی خطرہ مول لینے کو تیار نہ تھے۔ جنگ کے حکم نے آتے ہی ان کو اور سچے اہل ایمان کو ایک دوسرے سے چھانٹ کر الگ کر دیا۔ جب تک یہ حکم نہ آیا تھا، ان میں اور عام اہل ایمان میں بظاہر کوئی فرق و امتیاز نہ پایا جاتا تھا۔ نماز وہ بھی پڑھتے تھے اور یہ بھی۔ روزے رکھنے میں بھی انہیں تامل نہ تھا۔ ٹھنڈا ٹھنڈا اسلام انہیں قبول تھا۔ مگر جب اسلام کے لیے جان کی بازی لگانے کا وقت آیا تو ان کے نفاق کا حال کھل گیا اور نمائشی ایمان کا وہ لبادہ اتر گیا جو انہوں نے اوپر سے اوڑھ رکھا تھا۔ سورہ نساء میں ان کی اس کیفیت کو یوں بیان کی گیا ہے: ’’تم نے دیکھا ان لوگوں کو جن سے کہا گیا تھا کہ اپنے ہاتھ روکے رکھو اور نماز قائم کرو اور زکوٰۃ دو؟ اب جو انہیں لڑائی کا حکم دیا گیا تو ان میں سے ایک گروہ کا حال یہ ہے کہ انسانوں سے اس طرح ڈر رہے ہیں جیسے خد اسے ڈرنا چاہیے۔ بلکہ کچھ اس سے بھی زیادہ۔ کہتے ہیں، خدایا، یہ لڑائی کا حکم ہمیں کیوں دے دیا؟ ہمیں ابھی اور کچھ مہلت کیوں نہ دی؟(آیت 77) |
Surah 47 : Ayat 29
أَمْ حَسِبَ ٱلَّذِينَ فِى قُلُوبِهِم مَّرَضٌ أَن لَّن يُخْرِجَ ٱللَّهُ أَضْغَـٰنَهُمْ
کیا وہ لوگ جن کے دلوں میں بیماری ہے یہ سمجھے بیٹھے ہیں کہ اللہ ان کے دلوں کے کھوٹ ظاہر نہیں کرے گا؟