Ayats Found (7)
Surah 2 : Ayat 168
يَـٰٓأَيُّهَا ٱلنَّاسُ كُلُواْ مِمَّا فِى ٱلْأَرْضِ حَلَـٰلاً طَيِّبًا وَلَا تَتَّبِعُواْ خُطُوَٲتِ ٱلشَّيْطَـٰنِۚ إِنَّهُۥ لَكُمْ عَدُوٌّ مُّبِينٌ
لوگو! زمین میں جو حلال اور پاک چیزیں ہیں انہیں کھاؤ اور شیطان کے بتائے ہوئے راستوں پر نہ چلو1 وہ تمہارا کھلا دشمن ہے
1 | یعنی کھانے پینے کے معاملے میں اُن تمام پابندیوں کو توڑ ڈالو جو توہمّات اور جاہلانہ رسموں کی بنا پر لگی ہوئی ہیں |
Surah 2 : Ayat 172
يَـٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُواْ كُلُواْ مِن طَيِّبَـٰتِ مَا رَزَقْنَـٰكُمْ وَٱشْكُرُواْ لِلَّهِ إِن كُنتُمْ إِيَّاهُ تَعْبُدُونَ
اے لوگو جو ایمان لائے ہو، اگر تم حقیقت میں اللہ کی بندگی کرنے والے ہو تو جو پاک چیزیں ہم نے تمہیں بخشی ہیں اُنہیں بے تکلف کھاؤ اور اللہ کا شکر ادا کرو1
1 | یعنی اگر تم ایمان لا کر صرف خدائی قانون کے پَیرو بن چکے ہو، جیسا کہ تمہارا دعویٰ ہے تو پھر وہ ساری چھُوت چھات، اور زمانہء جاہلیّت کی وہ ساری بندشیں اور پابندیاں توڑ ڈالو جو پنڈتوں اور پروہتوں نے ، ربّیوں اور پادریوں نے ، جوگیوں اور راہبوں نے اور تمہارے باپ دادا نے قائم کی تھیں۔ جو کچھ خدا نے حرام کیا ہے اس سے تو ضرور بچو، مگر جن چیزوں کو خدا نے حلال کیا ہے انہیں بغیر کسی کراہت اور رکاوٹ کے کھا ؤ پیو۔ اسی مضمون کی طرف نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وہ حدیث بھِ اشارہ کرتی ہے جس میں آپ ؐ نے فرمایا کہ مَنْ صَلّٰی صَلوٰ تَنَا و َ اسْتَقْبَلَ قِبْلَتَنَا وَاَکَلَ ذَبِیْحَتَنَا فَذٰلِکَ الْمُسْلِمُالخ یعنی جس نے وہی نماز پڑھی جو ہم پڑھتے ہیں اور اسی قبلے کی طرف رُخ کیا جس کی طرف ہم رُخ کر تے ہیں اور ہمارے ذبیحے کو کھایا وہ مسلمان ہے۔ مطلب یہ ہے کہ نماز پڑھنے اور قبلے کی طرف رُخ کرنے کے باوجود ایک شخص اس وقت تک اسلام میں پوری طرح جذب نہیں ہوتا جب تک کہ وہ کھانے پینے کے معاملے میں پچھلی جاہلیّت کی پابندیوں کو توڑ نہ دے اور اُن توہّمات کی بندشوں سے آزاد نہ ہو جائے جو اہلِ جاہلیّت نے قائم کر رکھی تھیں۔ کیونکہ اُس کا اُن پابندیوں پر قائم رہنا اِس بات کی علامت ہے کہ ابھی تک اُس کی رگ و پے میں جاہلیّت کا زہر موجود ہے |
Surah 5 : Ayat 5
ٱلْيَوْمَ أُحِلَّ لَكُمُ ٱلطَّيِّبَـٰتُۖ وَطَعَامُ ٱلَّذِينَ أُوتُواْ ٱلْكِتَـٰبَ حِلٌّ لَّكُمْ وَطَعَامُكُمْ حِلٌّ لَّهُمْۖ وَٱلْمُحْصَنَـٰتُ مِنَ ٱلْمُؤْمِنَـٰتِ وَٱلْمُحْصَنَـٰتُ مِنَ ٱلَّذِينَ أُوتُواْ ٱلْكِتَـٰبَ مِن قَبْلِكُمْ إِذَآ ءَاتَيْتُمُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ مُحْصِنِينَ غَيْرَ مُسَـٰفِحِينَ وَلَا مُتَّخِذِىٓ أَخْدَانٍۗ وَمَن يَكْفُرْ بِٱلْإِيمَـٰنِ فَقَدْ حَبِطَ عَمَلُهُۥ وَهُوَ فِى ٱلْأَخِرَةِ مِنَ ٱلْخَـٰسِرِينَ
آج تمہارے لیے ساری پاک چیزیں حلال کر دی گئی ہیں اہل کتاب کا کھانا تمہارے لیے حلال ہے اور تمہارا کھانا اُن کے لیے1 اور محفوظ عورتیں بھی تمہارے لیے حلال ہیں خواہ وہ اہل ایمان کے گروہ سے ہوں یا اُن قوموں میں سے جن کو تم سے پہلے کتاب دی گئی تھی2، بشر طیکہ تم اُن کے مہر ادا کر کے نکاح میں اُن کے محافظ بنو، نہ یہ کہ آزاد شہوت رانی کرنے لگو یا چوری چھپے آشنائیاں کرو اور جو کسی نے ایمان کی روش پر چلنے سے انکار کیا تو اس کا سارا کارنامہ زندگی ضائع ہو جائے گا اور وہ آخرت میں دیوالیہ ہوگا3
3 | اہلِ کتاب کی عورتوں سے نکاح کی اجازت دینے کے بعد یہ فقرہ اس لیے تنبیہ کے طور پر ارشاد فرمایا گیا ہے کہ جو شخص اِس اجازت سے فائد ہ اُٹھائے وہ اپنے ایمان و اخلاق سے ہوشیار رہے ۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ کافر بیوی کے عِشق میں مُبتلا ہو کر یا اس کے عقائد اور اعمال سے متاثر ہو کر وہ اپنے ایمان سے ہاتھ دھو بیٹھے، یا اخلاق و معاشرت میں ایسی روش پر چل پڑے جو ایمان کے منافی ہو |
2 | اِس سے مراد یہود و نصاریٰ ہیں۔ نکاح کی اجازت صرف انہی کی عورتوں سے دی گئی ہے اور اس کے ساتھ شرط یہ لگا دی گئی ہے کہ و ہ مُحصنَات (محفوظ عورتیں) ہوں۔ اس حکم کی تفصیلات میں فقہاء کے درمیان اختلاف ہوا ہے۔ ابنِ عباس ؓ کا خیال ہے کہ یہاں اہلِ کتاب سے مُراد وہ اہلِ کتاب ہیں جو اسلامی حکومت کی رعایا ہوں۔ رہے دار الحرب اور دارالکفر کے یہود و نصاریٰ ، توان کی عورتوں سے نکاح کرنا درست نہیں۔ حنفیّہ اس سے تھوڑا اختلاف کرتے ہیں۔ ان کے نزدیک بیرونی ممالک کے اہلِ کتاب کی عورتوں سے نکاح کرنا حرام تو نہیں ہے مگر مکرُوہ ضرور ہے۔ بخلاف اس کے سعید بن المُسَیِّب ؒ اور حَسَن بصری ؒ اس کے قائل ہیں کہ آیت اپنے حکم میں عام ہے لہٰذا ذمّی اور غیر ذمّی میں فرق کرنے کی ضرورت نہیں۔ پھر مُحصَنات کے مفہُوم میں بھی فقہاء کے درمیان اختلاف ہے۔ حضرت عمر ؓ کے نزدیک اس سے مراد پاک دامن ، عصمت مآب عورتیں ہیں اور اس بنا پر وہ اہلِ کتاب کی آزادمنش عورتوں کو اس اجازت سے خارج قرار دیتے ہیں۔ یہی رائے حسن ؒ، شَعبِیؒ اور ابراہیم نَخعَی ؒ کی ہے۔ اور حنفیہ نے بھی اسی کو پسند کیا ہے۔ بخلاف اس کے امام شافعی ؒ کی رائے یہ ہے کہ یہاں یہ لفظ لونڈیوں کے مقابلہ میں استعمال ہوا ہے، یعنی اس سے مراد اہلِ کتاب کی وہ عورتیں ہیں جو لونڈیاں نہ ہوں |
1 | اہلِ کتاب کے کھانے میں اُن کا ذبیحہ بھی شامل ہے ۔ ہمارے لیے اُن کا اور اُن کے لیے ہمارا کھانا حلال ہونے کا مطلب یہ ہے کہ ہمارے اور اُن کے درمیان کھانے پینے میں کوئی رکاوٹ اور کوئی چھُوت چھات نہیں ہے۔ ہم اُن کے ساتھ کھا سکتے ہیں اور وہ ہمارے ساتھ۔ لیکن یہ عام اجازت دینے سے پہلے اس فقرے کا اعادہ فرما دیا گیا ہے کہ ”تمہارے لیے پاک چیزیں حلال کر دی گئی ہیں“۔ اس سے معلوم ہوا کہ اہلِ کتاب اگر پاکی و طہارت کے اُن قوانین کی پابندی نہ کریں جو شریعت کے نقطۂ نظر سے ضروری ہیں، یا اگر اُن کے کھانے میں حرام چیزیں شامل ہوں تو اس سے پرہیز کرنا چاہیے۔ مثلاً اگر وہ خدا کا نام لیے بغیر کسی جانور کو ذبح کریں، یا اس پر خدا کے سوا کسی اَور کا نام لیں ، تو اُسے کھانا ہمارے لیے جائز نہیں۔ اِسی طرح اگر اُن کے دستر خوان پر شراب یا سُور یا کوئی اور حرام چیز ہو تو ہم ان کے ساتھ شریک نہیں ہو سکتے۔ اہلِ کتاب کے سوا دُوسرے غیر مسلموں کا بھی یہی حکم ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ ذبیحہ اہلِ کتاب ہی کا جائز ہے جبکہ اُنہوں نے خدا کا نام اس پر لیا ہو، رہے غیر اہلِ کتاب ، تو ان کے ہلاک کیے ہوئے جانور کو ہم نہیں کھا سکتے |
Surah 5 : Ayat 88
وَكُلُواْ مِمَّا رَزَقَكُمُ ٱللَّهُ حَلَـٰلاً طَيِّبًاۚ وَٱتَّقُواْ ٱللَّهَ ٱلَّذِىٓ أَنتُم بِهِۦ مُؤْمِنُونَ
جو کچھ حلال و طیب رزق اللہ نے تم کو دیا ہے اُسے کھا ؤ پیو اور اُس خدا کی نافرمانی سے بچتے رہو جس پر تم ایمان لائے ہو
Surah 8 : Ayat 69
فَكُلُواْ مِمَّا غَنِمْتُمْ حَلَـٰلاً طَيِّبًاۚ وَٱتَّقُواْ ٱللَّهَۚ إِنَّ ٱللَّهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ
پس جو کچھ تم نے مال حاصل کیا ہے اسے کھاؤ کہ وہ حلال اور پاک ہے اور اللہ سے ڈرتے رہو1 یقیناً اللہ درگزر کرنے والا اور رحم فرمانے والا ہے
1 | اس آیت کی تفسیر میں اہل تاویل نے جو روایات بیان کی ہیں وہ یہ ہیں کہ جنگ بدر میں لشکر قریش کے جو لوگ گرفتار ہوئے تھے ان کے متعلق بعد میں مشورہ ہوا کہ ان کےساتھ کیا سلوک کیا جائے۔ حضرت ابو بکر ؓ نے رائے دی کہ فدیہ لےکر چھوڑ دیا جائے، اور حضرت عمر ؓ نے کہا کہ قتل کر دیا جائے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابو بکر ؓ کی رائے قبول کی اور فدیہ کا معاملہ طے کر لیا۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیات بطور عتاب نازل فرمائیں۔ مگر مفسریں آیت کے اس فقرے کی کوئی معقول تاویل نہیں کر سکے ہیں کہ ”اگر اللہ کا نوشتہ پہلے نہ لکھا جا چکا ہوتا۔“وہ کہتے ہیں کہ اس سے مراد تقدیر الہٰی ہے، یا یہ کہ اللہ تعالیٰ پہلے ہی یہ ارادہ فرماچکا تھا کہ مسلمانوں کے لیے غنائم کو حلال کر دے گا۔ لیکن یہ ظاہر ہےکہ جب تک دھی تشریعی کے ذریعہ سےکسی چیز کی اجازت نہ دی گئی ہو، اس کا لینا جائز نہیں ہو سکتا۔ پس نبی صلی اللہ علیہ وسلم سمیت پوری اسلامی جماعت اس تاویل کی رو سے گناہ گار قرار پاتی ہے اور ایسی تاویل کو اخبار احاد کے اعتماد پر قبول کر لینا ایک بڑی ہی سخت بات ہے۔ میرے نزدیک اس مقام کی صحیح تفسیر یہ ہے کہ جنگ بدر سے پہلے سورہ محمد میں جنگ کے متعلق جو ابتدائی ہدایات دی گئی تھیں، ان میں یہ ارشاد ہوا تھا کہ فَاِذَا لَقِیۡتُمُ الَّذیۡنَ کَفَرُوۡا فَضَرۡبَ الرِّقَابِ حَتّٰۤی اِذَ ۤااَثۡخَنۡتُمُوۡ ھُمۡ فَشُدُّوا الوَثَاقَ فَاِمَّا مَنًّا بَعۡدُ وَاِمَّا فِدَآءً حَتّٰی تَضَعَ الۡحَرۡبُ اَوۡزَارَھَا (آیت ۴) اس ارشاد میں جنگی قیدیوں سے فدیہ وصول کرنے کی اجازت تو دے دی گئی تھی لیکن اس کے ساتھ شرط یہ لگائی گئی تھی کہ پہلے دشمن کی طاقت کو اچھی طرح کچھ دیاجائے پھر قیدی پکڑنے کی فکر کی جائے۔ اس فرمان کی رو سے مسلمانوں نے بدر میں جو قیدی گرفتار کیے اور اس کے بعد ان سےجو فدیہ وصول کیا وہ تھا تو اجازت کے مطابق، مگر غلطی یہ ہوئی کہ ”دشمن کی طاقت کو کچھ دینے “کی جو شرط مقدم رکھی گئی تھی اسے پورا کرنے میں کوتا ہی کی گئی۔ جنگ میں جب قریش کی فوج بھاگ نکلی تو مسلمانوں کا یک بڑا گروہ غنیمت لوٹنے اور کفار کے آدمیوں کو پکڑ پکڑ کر باندھنے میں لگ گیا اور بہت کم آدمیوں نے دشمنوں کا کچھ دور تک تعاقب کیا۔ حالاں کہ اگر مسلمان پوری طاقت سے اُن کا تعاقب کرتے تو قریش کی طاقت کا اسی روز خاتمہ ہو گیاہوا۔ اسی پر اللہ تعالیٰ عاب فرمارہا ہے اور یہ عتاب بنی صلی اللہ علیہ وسلم پر نہیں ہے بلکہ مسلمانوںپر ہے۔ فرمان مبارک کا منشا یہ ہے کہ ”تم لوگ ابھی نبی کے مشن کو اچھی طرح نہیں سمجے ہو۔ نبی کا اصل کام یہ نہیں ہے کہ فدیے اور غنائم وصول کرکے خزانے بھرے، بلکہ اس کے نصب العین سے جو چیز براہ راست تعلق رکھتی ہے وہ صرف یہ ہے کہ کفر کی طاقت ٹوٹ جائے۔ مگر تم لوگوں پر بار بار دنیا کا لالچ غالب ہو جاتا ہے۔ پہلے دشمن کی اصل طاقت کے بجائے قافلے پر حملہ کرنا چاہا، پھر دشمن کا سر کچلنے کے بجائے غنیمت لوٹنے اوعر قیدی پکڑنے میں لگ گئے، پھر غنیمت پر جھگڑنے لگے۔ اگر ہم پلے فدیہ وصول کرنے کیا اجازت نہ دے چکے ہوتے تو اس پر تمہیں سخت سزا دیتے ۔ خیر اب جو کچھ تم نے لیا ہے وہ کھا لو، مگر آئندہ ایسی روش سے بچتے رہو جو خدا کے نزدیک نا پسندیدہ ہے“۔ اس رائے پر پہنچ چکا تھا کہ امام حبصاص کی کتاب احکام القرآن میں یہ دیکھ کر مجھے مزید اطمینان حاصل ہوا کہ امام موصوف بھی اس تاویل کو کم از کم قابل لحاظ ضرور قرار دیتے ہیں۔ پھر سیرت ابن ہشام میں یہ روایت نظر سے گزری کہ جس وقت مجاہدینِ اسلام مال غنیمت لوٹنے اور کفار کے آدمیوں کو پکڑ پکڑ کر باندھنے میں لگے ہوئے تھے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھا کہ حضرت سعد بن معاذ کے چہرے پر کچھ کراہت کے آثات ہیں۔ حضور نے ان سے دریافت فرمایا کہ”اے سعد، معلوم ہوتا ہے کہ لوگوں کی یہ کاروائی تمہیں پسند نہیں آرہی ہے“۔ انہوں نےعرض کیا”جی ہاں یا رسول اللہ، یہ پہلا معرکہ ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے اہل شرک کو شکست دلوائی ہے، اس موقع پر انہیں قیدی بنا کر ان کی جانیں بچا لینے سے زیادہ بہتر یہ تھا کہ ان کو خوب کچل ڈالا جاتا و جلد ۲۔ صفحہ ۲۸۔۲۸١ |
Surah 16 : Ayat 114
فَكُلُواْ مِمَّا رَزَقَكُمُ ٱللَّهُ حَلَـٰلاً طَيِّبًا وَٱشْكُرُواْ نِعْمَتَ ٱللَّهِ إِن كُنتُمْ إِيَّاهُ تَعْبُدُونَ
پس اے لوگو، اللہ نے جو کچھ حلال اور پاک رزق تم کو بخشا ہے اُسے کھاؤ اور اللہ کے احسان کا شکر ادا کرو 1اگر تم واقعی اُسی کی بندگی کرنے والے ہو2
2 | یعنی اگر واقعی تم اللہ کی بندگی کے قائل ہو، جیسا کہ تمہارا دعویٰ ہے، تو حرام و حلال کے خود مختار نہ بنو۔ جس رزق کو اللہ نے حلال و طیب قرار دیا ہے اسے کھاؤ اور شکر کرو۔ اور جو کچھ اللہ کے قانون میں حرام و خبیث ہے اس سے پرہیز کرو۔ |
1 | اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس سورے کے نزول کے وقت وہ قحط ختم ہو چکا تھا جس کی طرف اوپر اشارہ گزر چکا ہے |
Surah 23 : Ayat 51
يَـٰٓأَيُّهَا ٱلرُّسُلُ كُلُواْ مِنَ ٱلطَّيِّبَـٰتِ وَٱعْمَلُواْ صَـٰلِحًاۖ إِنِّى بِمَا تَعْمَلُونَ عَلِيمٌ
اے پیغمبرو1، کھاؤ پاک چیزیں اور عمل کرو صالح2، تم جو کچھ بھی کرتے ہو، میں اس کو خوب جانتا ہوں
2 | پاک چیزوں سے مراد ایسی چیزیں ہیں جو بجائے خود بھی پاکیزہ ہوں ، اور پھر حلال طریقے سے بھی حاصل ہوں۔ طیبات کھانے کی ہدایت کر کے رہبانیت اور دنیا پرستی کے درمیان اسلام کی راہ اعتدال کی طرف اشارہ کر دیا گیا۔ مسلمان نہ تو راہب کی طرح اپنے آپ کو پاکیزہ رزق سے محروم کرتا ہے ، اور نہ دنیا پرست کی طرح حرام و حلال کی تمیز کے بغیر ہر چیز پر منہ مار دیتا ہے۔ عمل صالح سے پہلے طیبات کھانے کی ہدایت سے صاف اشارہ اس طرف نکلتا ہے کہ حرام خوری کے ساتھ عمل صالح کے کوئی معنی نہیں ہیں۔ صلاح کے لیے شرط اول یہ ہے کہ آدمی رزق حلال کھاۓ۔ حدیث میں آتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ ’’ لوگو ، اللہ خود پاک ہے اس لیے پاک ہی چیز کو پسند کرتا ہے ’’ پھر آپ نے یہ آیت تلاوت فرمائی اور اس کے بعد فرمایا لرجل یطیل السفر اشعث ا غبر و مطعمہ حرام و مشربہ حرام و ملبسہ حرام و غذی بالحرام یمدید یہ الی السماءیا رب یا رب فانی یستجاب الذالک۔ ’’ ایک شخص لمبا سفر کر کے غبار آلود و پراگندہ مُو آتا ہے اور آسمان کی طرف ہاتھ اٹھا کر دعائیں مانگتا ہے ، یارب یارب ، مگر حال یہ ہوتا ہے کہ روٹی اس کی حرام ، کپڑے اس کے حرام، اور جسم اس کا حرام کی روٹیوں سے پلا ہوا۔ اب کس طرح ایسے شخص کی دعا قبول ہو‘‘۔ (مسلم ، ترمذی، احمد من حدیث ابی ہر یرہؓ) |
1 | پچھلے دو رکوعوں میں انبیاء کا ذکر کرنے کے بعد اب یٰٓاَیُّھَا الُّرُسُل کہہ کر تمام پیغمبروں کو خطاب کرنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ کہیں یہ سارے پیغمبر یک جا موجود تھے اور ان سب کو خطاب کر کے یہ مضمون ارشاد فرمایا گیا۔ بلکہ اس سے یہ بتانا مقصود ہے کہ ہر زمانے میں مختلف قوموں اور مختلف ملکوں میں آنے والے انبیاء کویہی ہدایت کی گئی تھی اور سب کے سب اختلاف زمانہ مقام کے باوجود ایک ہی حکم کے مخاطب تھے۔ بعد کی آیت میں چونکہ تمام انبیاؑ کو ایک امت ، ایک جماعت ایک گروہ قرار دیا گیا ہے ، اس لیے طرز بیان یہاں ایسا اختیار کیا گیا کہ نگاہوں کے سامنے ان سب کے ایک گروہ ہونے کا نقشہ کھنچ جائے۔ گویا وہ سارے کے سارے ایک جگہ جمع ہیں اور سب کو ایک ہی ہدایت دی جا رہی ہے۔ مگر اس طرز کلام کی لطافت اس دور کے بعض کند ذہن لوگوں کی سمجھ میں نہ آ سکی اور وہ اس سے یہ نتیجہ نکال بیٹھے کہ یہ خطاب محمد صلی اللہ علیہ و سلم کے بعد آنے والے انبیاء کی طرف ہے اور اس سے حضورؐ کے بعد بھی سلسلہ نبوت کے جاری ہونے کا ثبوت ملتا ہے۔ تعجب ہے جو لوگ زبان و ادب کے ذوق لطیف سے اس قدر کورے ہیں وہ قرآن کی تفسیر کرنے کی جرأت کرتے ہیں |