Ayats Found (2)
Surah 34 : Ayat 12
وَلِسُلَيْمَـٰنَ ٱلرِّيحَ غُدُوُّهَا شَهْرٌ وَرَوَاحُهَا شَهْرٌۖ وَأَسَلْنَا لَهُۥ عَيْنَ ٱلْقِطْرِۖ وَمِنَ ٱلْجِنِّ مَن يَعْمَلُ بَيْنَ يَدَيْهِ بِإِذْنِ رَبِّهِۖۦ وَمَن يَزِغْ مِنْهُمْ عَنْ أَمْرِنَا نُذِقْهُ مِنْ عَذَابِ ٱلسَّعِيرِ
اور سلیمانؑ کے لیے ہم نے ہوا کو مسخر کر دیا، صبح کے وقت اس کا چلنا ایک مہینے کی راہ تک اور شام کے وقت اس کا چلنا ایک مہینے کی راہ تک1 ہم نے اُس کے لیے پگھلے ہوئے تانبے کا چشمہ بہا دیا2 اور ایسے جن اس کے تابع کر دیے جو اپنے رب کے حکم سے اس کے آگے کام کرتے تھے3 اُن میں سے جو ہمارے حکم سے سرتابی کرتا اس کو ہم بھڑکتی ہوئی آگ کا مزہ چکھاتے
3 | یہ جن جو سلیمان علیہ السلام کے لیے مسخر کیے گیے تھے، آیا یہ دہقانی اور کوہستانی انسان تھے یا واقعی وہی جن تھے جو ایک پوشیدہ مخلوق کی حیثیت سے دنیا بھر میں معروف ہیں، اس مسئلے پر بھی سورہ انبیا اور سورہ نحل کی تفسیر میں ہم مفصل بحث کر چکے ہیں۔(ملا حظہ ہو تفہم القرآن،جلد سوم،الانبیاء،حاشیہ ۷۵،النمل،۲۳۔۴۵۔۵۲۔ |
2 | بعض قدیم مفسرین نے اس کا مطلب یہ لیا ہے کہ زمین سے ایک چشمہ حضرت سلیمانؑ کے لیے پھوٹ نکلا تھا جس میں سے پانی کے بجائے پگھلا ہوا تانبہ بہتا تھا۔ لیکن آیت کی دوسری تاویل یہ بھی ہو سکتی ہے کہ حضرت سلیمانؑ کے زمانے میں تانبے کو پگھلا نے اور اس سے طرح طرح کی چیزیں بنانے کا کام بڑے پیمانے پر کیا گیا کہ گویا وہاں تانبے کے چشمے بہ رہے تھے۔ (مزید تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد سوم، ص 176) |
1 | یہ مضمون بھی سورہ انبیا آیت 81 میں گزر چکا ہے اور اس کی تشریح وہاں کی جا چکی ہے (ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد سوم 176۔177) |
Surah 34 : Ayat 18
وَجَعَلْنَا بَيْنَهُمْ وَبَيْنَ ٱلْقُرَى ٱلَّتِى بَـٰرَكْنَا فِيهَا قُرًى ظَـٰهِرَةً وَقَدَّرْنَا فِيهَا ٱلسَّيْرَۖ سِيرُواْ فِيهَا لَيَالِىَ وَأَيَّامًا ءَامِنِينَ
اور ہم نے اُن کے اور اُن بستیوں کے درمیان، جن کو ہم نے برکت عطا کی تھی، نمایاں بستیاں بسا دی تھیں اور اُن میں سفر کی مسافتیں ایک اندازے پر رکھ دی تھیں1 چلو پھرو اِن راستوں میں رات دن پورے امن کے ساتھ
1 | ’’برکت والی بستیوں‘‘ سے مراد شام و فلسطین کا علاقہ ہے جسے قرآن مجید میں عموماً اسی لقب سے یاد کیا گیا ہے (مثال کے طور پر ملاحظہ ہو الاعراف، آیت 137۔ بنی اسرائیل، آیت 1۔ الانبیاء، آیات 71 و 81)’’نمایاں بستیوں سے مراد ایسی بستیاں جو شاہراہ عام پرواقع ہوں،گوشوں میں چھپی ہوئی نہ ہوں۔اور یہ مطلب بھی ہو سکتا ہے کہ وہ بستیاں بہت زیادہ فاصلے پرنہ تھیں بلکہ متصل تھیں۔ایک بستی کے آثار ختم ہونے کے بعد دوسری بستی کے آثار نظر آنے لگتے تھے۔سفر کی مسافتوں کو ایک انداز سے پررکھنے سے مراد یہ ہے کہ یمن سے شام تک کاپوراسفرمسلسل آباد علاقے میں طےہوتاتھا جس کی ہرمنزل سے دوسری منزل تک کی مسافت معلوم ومتعین تھی۔آباد علاقوں کے سفر اور غیرآباد صحرائی علاقوں کے سفرمیں یہی فرق ہوتا ہے۔صحراءمیں مسافر جب تک چاہتا ہے چلتا ہےاور جب تھک جاتا ہے تو کسی جگہ پڑاؤ کرلیتاہے۔بخلاف اس کے آباد علاقوں میں راستے کی ایک بستی سے دوسری بستی تک کی مسافت جانی بوجھی اورمتعین ہوتی ہے۔مسافر پہلے سے پروگرام بنا سکتا ہےکہ راستے کے کن کن مقامات پروہ ٹھیرتاہوا جائے گا،کہاں دوپہر گزارے گا اور کہاں رات بسر کرے گا۔ |