Ayats Found (48)
Surah 3 : Ayat 6
هُوَ ٱلَّذِى يُصَوِّرُكُمْ فِى ٱلْأَرْحَامِ كَيْفَ يَشَآءُۚ لَآ إِلَـٰهَ إِلَّا هُوَ ٱلْعَزِيزُ ٱلْحَكِيمُ
وہی تو ہے جو تمہاری ماؤں کے پیٹ میں تمہاری صورتیں، جیسی چاہتا ہے، بناتا ہے1 اُس زبردست حکمت والے کے سوا کوئی اور خدا نہیں ہے
1 | اس میں دو اہم حقیقتوں کی طرف اشارہ ہے: ایک یہ کہ تمہاری فطرت کو جیسا وہ جانتا ہے، نہ کوئی دوسرا جان سکتا ہے، نہ تم خود جان سکتے ہو۔ لہٰذا اس کی رہنمائی پر اعتماد کیے بغیر تمہارے لیے کوئی چارہ نہیں ہے۔ دوسرے یہ کہ جس نے تمہارے استقرارِ حمل سے لے کر بعد کے مراحل تک ہر موقع پر تمہاری چھوٹی سے چھوٹی ضرورتوں تک کو پورا کرنے کا اہتمام کیا، کس طرح ممکن تھا کہ وہ دُنیا میں تمہاری ہدایت و رہنمائی کا انتظا م نہ کرتا، حالانکہ تم سب سے بڑھ کر اگر کسی چیز کے محتاج ہو، تو وہ یہی ہے |
Surah 4 : Ayat 1
يَـٰٓأَيُّهَا ٱلنَّاسُ ٱتَّقُواْ رَبَّكُمُ ٱلَّذِى خَلَقَكُم مِّن نَّفْسٍ وَٲحِدَةٍ وَخَلَقَ مِنْهَا زَوْجَهَا وَبَثَّ مِنْهُمَا رِجَالاً كَثِيرًا وَنِسَآءًۚ وَٱتَّقُواْ ٱللَّهَ ٱلَّذِى تَسَآءَلُونَ بِهِۦ وَٱلْأَرْحَامَۚ إِنَّ ٱللَّهَ كَانَ عَلَيْكُمْ رَقِيبًا
لوگو! اپنے رب سے ڈرو جس نے تم کو ایک جان سے پیدا کیا اور اُسی جان سے اس کا جوڑا بنایا اور ان دونوں سے بہت مرد و عورت دنیا میں پھیلا دیے1 اُس خدا سے ڈرو جس کا واسطہ دے کر تم ایک دوسرے سے اپنے حق مانگتے ہو، اور رشتہ و قرابت کے تعلقات کو بگاڑنے سے پرہیز کرو یقین جانو کہ اللہ تم پر نگرانی کر رہا ہے
1 | چونکہ آگے چل کر انسانوں کے باہمی حقوق بیان کرنے ہیں اور خصُوصیّت کے ساتھ خاندانی نظام کی بہتری و استواری کے لیے ضروری قوانین ارشاد فرمائے جانے والے ہیں، اس لیے تمہید اس طرح اُٹھائی گئی کہ ایک طرف اللہ سے ڈرنے اور اس کی ناراضی سے بچنے کی تاکید کی اور دُوسری طرف یہ بات ذہن نشین کرائی کہ تمام انسان ایک اصل سے ہیں اور ایک دُوسرے کا خون اور گوشت پوست ہیں۔ ” تم کو ایک جان سے پیدا کیا“ یعنی نوعِ انسانی کی تخلیق ابتداءً ایک فرد سے کی۔ دُوسری جگہ قرآن خود اس کی تشریح کرتا ہے کہ وہ پہلا انسان آدم تھا جس سے دنیا میں نسلِ انسانی پھیلی۔ ”اُسی جان سے اس کا جوڑا بنایا“، اس کی تفصیلی کیفیت ہمارے علم میں نہیں ہے۔ عام طور پر جو بات اہلِ تفسیر بیان کرتے ہیں اور جو بائیبل میں بھی بیان کی گئی ہے وہ یہ ہے کہ آدم کی پسلی سے حوّا کو پیدا کیا گیا ( تَلموُد میں اَور تفصیل کے ساتھ یہ بتایا گیا ہے کہ حضرت حوّا کو حضرت آدم علیہ السّلام کی دائیں جانب کی تیرھویں پسلی سے پیدا کیا گیا تھا)۔ لیکن کتاب اللہ اِس بارے میں خاموش ہے۔ اور جو حدیث اس کی تائید میں پیش کی جاتی ہے اس کا مفہُوم وہ نہیں ہے جو لوگوں نے سمجھا ہے ۔ لہٰذا بہتر ہے کہ بات کو اسی طرح مجمل رہنے دیا جائے جس طرح اللہ نے اسے مجمل رکھا ہے اور اس کی تفصیلی کیفیت متعیّن کرنے میں وقت نہ ضائع کیا جائے |
Surah 6 : Ayat 2
هُوَ ٱلَّذِى خَلَقَكُم مِّن طِينٍ ثُمَّ قَضَىٰٓ أَجَلاًۖ وَأَجَلٌ مُّسَمًّى عِندَهُۥۖ ثُمَّ أَنتُمْ تَمْتَرُونَ
وہی ہے جس نے تم کو مٹی سے پیدا کیا1، پھر تمہارے لیے زندگی کی ایک مدت مقرر کر دی، اور ایک دوسری مدت اور بھی ہے جواس کے ہاں طے شدہ ہے2 مگر تم لوگ ہو کہ شک میں پڑے ہوئے ہو
2 | یعنی قیامت کی گھڑی جب کہ تمام اگلے پچھلے انسان از سرِ نو زندہ کیے جائیں گے اور حساب دینے کے لیے اپنے ربّ کے سامنے حاضر ہوں گے |
1 | انسانی جسم کے تمام اجزاء زمین سے حاصل ہوتے ہیں، کوئی ایک ذرہ بھی اس میں غیر ارضی نہیں ہے، اس لیے فرمایا کہ تم کو مِٹی سے پیدا کیا گیا ہے |
Surah 6 : Ayat 98
وَهُوَ ٱلَّذِىٓ أَنشَأَكُم مِّن نَّفْسٍ وَٲحِدَةٍ فَمُسْتَقَرٌّ وَمُسْتَوْدَعٌۗ قَدْ فَصَّلْنَا ٱلْأَيَـٰتِ لِقَوْمٍ يَفْقَهُونَ
اور وہی ہے جس نے ایک متنفس سے تم کو پید ا کیا1 پھر ہر ایک کے لیے ایک جائے قرار ہے اور ایک اس کے سونپے جانے کی جگہ یہ نشانیاں ہم نے واضح کر دی ہیں اُن لوگوں کے لیے جو سمجھ بوجھ رکھتے ہیں2
2 | یعنی نوع انسانی کی تخلیق اور اس کے اندر مردو زن کی تفریق اور تناسل کے ذریعہ سے اس کی افزائش، اور رحم مادر میں انسانی بچہ کا نطفہ قرار پا جانے کے بعد سے زمین میں اس کے سونپے جانے تک اس کی زندگی کے مختلف اطوار پر اگر نظر ڈالی جائے تو اس میں بے شمار کھُلی کھُلی نشانیاں آدمی کے سامنے آئیں گی جن سے وہ اُس حقیقت کو پہچان سکتا ہے جو اُوپر بیان ہوئی ہے۔ مگر ان نشانیوں سے یہ معرفت حاصل کرنا انہی لوگوں کا کام ہے جو سمجھ بُوجھ سے کام لیں۔ جانوروں کی طرح زندگی بسر کرنے والے، جو صرف اپنی خواہشات سے اور انھیں پورا کرنے کی تدبیروں ہی سے غرض رکھتے ہیں، اِن نشانیوں میں کچھ بھی نہیں دیکھ سکتے |
1 | یعنی نسلِ انسانی کی ابتداء ایک متنفس سے کی |
Surah 7 : Ayat 189
۞ هُوَ ٱلَّذِى خَلَقَكُم مِّن نَّفْسٍ وَٲحِدَةٍ وَجَعَلَ مِنْهَا زَوْجَهَا لِيَسْكُنَ إِلَيْهَاۖ فَلَمَّا تَغَشَّـٰهَا حَمَلَتْ حَمْلاً خَفِيفًا فَمَرَّتْ بِهِۦۖ فَلَمَّآ أَثْقَلَت دَّعَوَا ٱللَّهَ رَبَّهُمَا لَئِنْ ءَاتَيْتَنَا صَـٰلِحًا لَّنَكُونَنَّ مِنَ ٱلشَّـٰكِرِينَ
وہ اللہ ہی ہے جس نے تمہیں ایک جان سے پیدا کیا اور اسی کی جنس سے اس کا جوڑا بنایا تاکہ اس کے پاس سکون حاصل کرے پھر جب مرد نے عورت کو ڈھانک لیا تو اسے ایک خفیف سا حمل رہ گیا جسے لیے لیے وہ چلتی پھرتی رہی پھر جب وہ بوجھل ہو گئی تو دونوں نے مل کر اللہ، اپنے رب سے دعا کی کہ اگر تو نے ہم کو اچھا سا بچہ دیا تو ہم تیرے شکر گزار ہوں گے
Surah 15 : Ayat 26
وَلَقَدْ خَلَقْنَا ٱلْإِنسَـٰنَ مِن صَلْصَـٰلٍ مِّنْ حَمَإٍ مَّسْنُونٍ
ہم نے انسان کو سٹری ہوئی مٹی کے سوکھے گارے سے بنایا1
1 | یہاں قرآن اِس امر کی صاف تصریح کرتا ہے کہ انسان حیوانی منازل سے ترقی کرتا ہوا بشریت کے حدود میں نہیں آیا ہے ، جیسا کہ نئے دَور کے ڈارونییت سے متاثر مفسرینِ قرآن ثابت کرنے کی کوشش کررہے ہیں، بلکہ اُس کی تخلیق کی ابتداء براہِ راست ارضی مادّوں سے ہوئی ہے کی کیفیت کو اللہ تعالیٰ نے صَلْصَالٍ مِّنْ حَمَأِ ٍ مَّسْنُوْنٍ کے الفاظ میں بیان فرمایا ہے۔ حَمأ عربی زبان میں ایسی سیاہ کیچڑ کو کہتے ہیں جس کے اندر بُو پیدا ہو چکی ہو ، یا بالفاظِ دیگر خمیر اُٹھ آیا ہو۔ مسنون کے دومعنی ہیں۔ ایک معنی ہیں متغیر، مُنتِن اور املس، یعنی ایسی سڑی ہوئی جس میں سڑنے کی وجہ سے چکنائی پیدا ہو گئی ہو۔ دوسرے معنی میں مصوَّر اور مصبوب ، یعنی قالب میں ڈھلی ہوئی جس کو ایک خاص صورت دے دی گئی ہو۔ صلصال اُس سوکھے گارے کو کہتے ہیں جو خشک ہو جانے کے بعد بجنے لگے۔ یہ الفاظ صاف ظاہر کرتے ہیں کہ خمیر اُٹھی ہوئی مٹی کا ایک پُتلا بنایا گیا تھا جو بننے کے بعد خشک ہوا اور پھر اس کے اندر رُوح پھونکی گئی |
Surah 15 : Ayat 27
وَٱلْجَآنَّ خَلَقْنَـٰهُ مِن قَبْلُ مِن نَّارِ ٱلسَّمُومِ
اور اُس سے پہلے جنوں کو ہم آگ کی لپٹ سے پیدا کر چکے تھے1
1 | سَموم گرم ہوا کو کہتے ہیں ، اور نار کو سموم کی طرف نسبت دینے کی صورت میں اُس کے معنی آگ کے بجائے تیز حرارت کے ہوجاتے ہیں۔ اِس سے اُن مقامات کی تشریح ہو جاتی ہے جہاں قرآن مجید میں یہ فرمایا گیا ہے کہ جن ّ آگے سے پیدا کیے گئے ہیں۔ (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو ، الرحمٰن ، حواشی ۱۴ تا ۱۶) |
Surah 16 : Ayat 4
خَلَقَ ٱلْإِنسَـٰنَ مِن نُّطْفَةٍ فَإِذَا هُوَ خَصِيمٌ مُّبِينٌ
اُس نے انسان کو ایک ذرا سی بوند سے پیدا کیا اور دیکھتے دیکھتے صریحاً وہ ایک جھگڑالو ہستی بن گیا1
1 | اس کےدو معنی ہو سکتے ہیں اور غالبًا دونوں ہی مراد ہیں۔ ایک یہ کہ اللہ نے نطفے کی حقیر سی بوند سے وہ انسان پیدا کیا جو بحث واستدلال کی قابلیت رکھتا ہے اور اپنے مدّعا کے لیے حجتیں پیش کر سکتا ہے۔ دوسرے یہ کہ جس انسان کو خدا نے نطفے جیسی حقیر چیز سے پیدا کیا ہے، اس کی خودی کا طغیان تو دیکھو کہ وہ خود خدا ہی کے مقابلہ میں جھگڑنے پراُتر آیا ہے۔ پہلے مطلب کے لحاظ سے یہ آیت اُسی استدلال کی ایک کڑی ہے جو آگے مسلسل کئی آیتوں میں پیش کیا گیا ہے(جس کی تشریح ہم اس سلسلۂ بیان کےآخر میں کریں گے)۔ اور دوسرے مطلب کے لحاظ سے یہ آیت انسان کو متنبہ کرتی ہے کہ بڑھ بڑھ کر باتیں کرنے سے پہلے ذرا اپنی ہستی کو دیکھ۔ کس شکل میں تو کہاں سے نکل کر کہاں پہنچا، کس جگہ تو نے ابتداء ًپرورش پائی، پھر کس راستے سے تو برآمد ہو کر دنیا میں آیا، پھر کن مرحلوں سے گزرتا ہوا تُو جوانی کی عمر کو پہنچا اور اب اپنے آپ کو بھول کر تُو کس کے منہ آرہا ہے۔ |
Surah 16 : Ayat 70
وَٱللَّهُ خَلَقَكُمْ ثُمَّ يَتَوَفَّـٰكُمْۚ وَمِنكُم مَّن يُرَدُّ إِلَىٰٓ أَرْذَلِ ٱلْعُمُرِ لِكَىْ لَا يَعْلَمَ بَعْدَ عِلْمٍ شَيْــًٔاۚ إِنَّ ٱللَّهَ عَلِيمٌ قَدِيرٌ
اور دیکھو، اللہ نے تم کو پیدا کیا، پھر وہ تم کو موت دیتا ہے1، اور تم میں سے کوئی بد ترین عمر کو پہنچا دیا جاتا ہے تاکہ سب کچھ جاننے کے بعد پھر کچھ نہ جانے2 حق یہ ہے کہ اللہ ہی علم میں بھی کامل ہے اور قدرت میں بھی
2 | یعنی یہ علم جس پر تم ناز کرتے ہو اور جس کی بدولت ہی زمین کی دوسری مخلوقات پر تم کو شرف حاصل ہے، یہ بھی خدا کا بخشا ہوا ہے۔ تم اپنی آنکھوں سے یہ عبرت ناک منظر دیکھتے رہتے ہو کہ جب کسی انسان کو اللہ تعالٰی بہت زیادہ لمبی عمر دے دیتا ہے تو وہی شخص جو کبھی جوانی میں دوسروں کو عقل سکھاتا تھا، کس طرح گوشت کا ایک لوتھڑا بن کر رہ جاتا ہے جسے اپنے تن بدن کا بھی ہوش نہیں رہتا۔ |
1 | یعنی حقیقت صرف اتنی ہی نہیں ہے کہ تمہاری پرورش اور رزق رسانی کا سارا انتظام اللہ کے ہاتھ میں ہے بلکہ حقیقت یہ بھی ہے کہ تمہاری زندگی اور موت دونوں اللہ کے قبضۂ قدرت میں ہیں۔ کوئی دوسرا نہ زندگی بخشنے کا اختیار رکھتا ہے نہ موت دینے کا۔ |
Surah 16 : Ayat 71
وَٱللَّهُ فَضَّلَ بَعْضَكُمْ عَلَىٰ بَعْضٍ فِى ٱلرِّزْقِۚ فَمَا ٱلَّذِينَ فُضِّلُواْ بِرَآدِّى رِزْقِهِمْ عَلَىٰ مَا مَلَكَتْ أَيْمَـٰنُهُمْ فَهُمْ فِيهِ سَوَآءٌۚ أَفَبِنِعْمَةِ ٱللَّهِ يَجْحَدُونَ
اور دیکھو، اللہ نے تم میں سے بعض کو بعض پر رزق میں فضیلت عطا کی ہے پھر جن لوگوں کو یہ فضیلت دی گئی ہے وہ ایسے نہیں ہیں کہ اپنا رزق اپنے غلاموں کی طرف پھیر دیا کرتے ہوں تاکہ دونوں اس رزق میں برابر کے حصہ دار بن جائیں تو کیا اللہ ہی کا احسان ماننے سے اِن لوگوں کو انکار ہے؟
1 | زمانہ ٔحال میں اس آیت سے جو عجیب وغریب معنی نکالے گئے ہیں وہ اس امر کی بدترین مثال ہیں کہ قرآن کی آیات کو ان کے سیاق و سباق سے الگ کر کے ایک ایک آیت کے الگ معنی لینے سے کیسی کیسی لا طائل تاویلوں کا دروازہ کھل جاتا ہے۔ لوگوں نے اس آیت کو اسلام کے فلسفہ ٔمعیشت کی اصل اور قانون معیشت کی ایک اہم دفعہ ٹھیرایا ہے۔ ان کے نزدیک آیت کا منشا یہ ہے کہ جن لوگوں کو اللہ نے رزق میں فضیلت عطا کی ہو انہیں اپنا رزق اپنے نوکروں اورغلاموں کی طرف ضرور لوٹا دینا چاہیے، اگر نہ لوٹائیں گے تو اللہ کی نعمت کے منکر قرار پائیں گے۔ حالانکہ اس پورے سلسلۂ کلام میں قانونِ معیشت کے بیان کا سرے سے کوئی موقع ہی نہیں ہے۔ اوپر سے تمام تقریر شرک کے ابطال اور توحید کے اثبات میں ہوتی چلی آ رہی ہے اور آگے بھی مسلسل یہی مضمون چل رہا ہے۔ اس گفتگو کے بیچ میں یکایک قانون معیشت کی ایک دفعہ بیان کر دینے کے بعد آخر کونسا تُک ہے؟ آیت کو اس کے سیاق و سباق میں رکھ کر دیکھا جائے تو صاف معلوم ہوتا ہے کہ یہاں اسکے بالکل برعکس مضمون بیان ہو رہا ہے۔ یہاں استدلال یہ کیا گیا ہے کہ تم خود اپنے مال میں اپنے غلاموں اور نوکروں کو جب برابر کا درجہ نہیں دیتے۔۔۔۔۔۔ حالانکہ یہ مال خدا کا دیا ہوا ہے۔۔۔۔۔۔ تو آخر کس طرح یہ بات تم صحیح سمجھتے ہو کہ جو احسانات اللہ نے تم پر کیے ہیں ان کے شکریے میں اللہ کے ساتھ اس کے بے اختیار غلاموں کو بھی شریک کرلو اور اپنی جگہ یہ سمجھ بیٹھو کہ اختیارات اور حقوق میں اللہ کے یہ غلام بھی اس کے ساتھ برابر کے حصہ دار ہیں؟ ٹھیک یہی استدلال، اسی مضمون سے سورۂ روم، آیت نمبر ۲۸ میں کیا گیا ہے۔ وہاں اس کے الفاظ یہ ہیں: ضَرَبَ لَکُمْ مَّثَلًا مِّنْ اَنْفُسِکُمْ ھَلْ لَّکُمْ مِّنْ مَّا مَلَکَتْ اَیْمَانُکُمْ مِّنْ شُرَکَآ ءَ فِیْ مَا رَزَقْنٰکُمْ فَاَنْتُمْ فِیْہِ سَوَ آ ءٌ تَخَا فُوْ نَھُمْ کَخِیْفَتِکُمْ اَنْفُسَکُمْ کَذٰلِکَ نُفَصِّلُ الْاٰیٰتِ لِقَوْمٍ یَّعْقِلُونَ۔ اللہ تمہارے سامنے ایک مثال خود تمہاری اپنی ذات سے پیش کرتا ہے۔ کیا تمہارے اُس رزق میں جو ہم نے تمہیں دے رکھا ہے تمہارےغلام تمہارے شریک ہیں حتیٰ کہ تم اور وہ اس میں برابر ہوں؟ اور تم ان سے اسی طرح ڈرتے ہو جس طرح اپنے برابر والوں سے ڈرا کرتے ہو؟ اس طرح اللہ کھول کھول کر نشانیاں پیش کرتا ہے ان لوگوں کے لیے جو عقل سے کام لیتے ہیں“۔ دونوں آیتوں کا تقابل کرنے سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ دونوں میں ایک ہی مقصد کے لیے ایک ہی مثال سے استدلال کیا گیا ہے۔ اوران میں سے ہرایک دوسری کی تفسیر کر رہی ہے۔ شاید لوگوں کو غلط فہمی اَفَبِنِعْمَۃِ اللہِ یَجْحَدُوْنَ کے الفاظ سے ہوئی ہے۔ انہوں نے تمثیل کے بعد متصلًا یہ فقرہ دیکھ کر خیال کیا کہ ہو نہ ہو اس کا مطلب یہی ہوگا کہ اپنے زیردستوں کی طرف رزق نہ پھیر دینا ہی اللہ کی نعمت کا انکا ر ہے حالانکہ جو شخص قرآن میں کچھ بھی نظررکھتا ہے وہ اس بات کو جانتا ہے کہ اللہ کی نعمتوں کا شکریہ غیراللہ کو ادا کرنا اس کتاب کی نگاہ میں اللہ کی نعمتوں کا انکار ہے۔ یہ مضمون اس کثرت سے قرآن میں دُہرایا گیا ہے کہ تلاوت و تدبُّر کی عادت رکھنے والوں کو تو اس میں اشتباہ پیش نہیں آسکتا، البتہ انڈکسوں کی مدد سے اپنے مطلب کی آیات نکال کر مضامین تیار کرنے والے حضرات اس سے ناواقف ہو سکتے ہیں۔ نعمتِ الہٰی کے انکار کا یہ مفہوم سمجھ لینے کے بعد اس فقرے کا یہ مطلب صاف سمجھ میں آجاتا ہے کہ جب یہ لوگ مالک اور مملوک کا فرق خوب جانتے ہیں، اور خود اپنی زندگی میں ہر وقت اس فرق کو ملحوظ رکھتے ہیں، تو کیا پھر ایک اللہ ہی کے معاملہ میں انہیں اس بات پر اصرار ہے کہ اُس کے بندوں کو اس کا شریک و وہیم ٹھیرائیں اور جو نعمتیں انہوں نے اُس سے پائی ہیں اُن کا شکریہ اُس کے بندوں کو ادا کریں؟ |