Ayats Found (9)
Surah 8 : Ayat 29
يَـٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُوٓاْ إِن تَتَّقُواْ ٱللَّهَ يَجْعَل لَّكُمْ فُرْقَانًا وَيُكَفِّرْ عَنكُمْ سَيِّـَٔـاتِكُمْ وَيَغْفِرْ لَكُمْۗ وَٱللَّهُ ذُو ٱلْفَضْلِ ٱلْعَظِيمِ
اے ایمان لانے والو، اگر تم خدا ترسی اختیار کرو گے تو اللہ تمہارے لیے کسوٹی بہم پہنچا دے گا 1اور تمہاری بُرائیوں کو تم سے دُور کر دے گا، اور تمہارے قصور معاف کر دے گا اللہ بڑا فضل فرمانے والا ہے
1 | کسوٹی اُس چیز کو کہتے ہیں جو کھرے اور کھوٹے کے امتیاز کو نمایاں کرتی ہے۔ یہی مفہوم”فرقان“کا بھی ہے اسی لیے ہم نے اس کا ترجمہ اس لفظ سے کیا ہے۔ ارشاد الہٰی کا منشا یہ ہے کہ اگر تم دنیا میں اللہ سے ڈرتے ہو ئے کام کرو تو تمہاری دلی خواہش یہ ہو کہ تم سے کوئی ایسی حرکت سرزد نہ ہونے پائے جو رضائے الہٰی کے خلاف ہو، تو اللہ تعالیٰ تمہارے اندر وہ قوت تمیز پیدا کردے گا جس سے قدم قدم پر تمہیں خود یہ معلوم ہوتا رہے گا کہ کونسا رویہ صحیح ہے اور کونسا غلط ، کس رویہ میں خدا کی رضا ہے اور کس میں اس کی ناراضی۔ زندگی کے ہر موڑ ، ہر دوراہے، ہر نشیب اور ہر فراز پر تمہاری اندرونی بصیرت تمہیں بتانے لگے گی کہ کدھر قدم اُٹھانا چاہے اور کدھر نہ اٹھانا چاہیے، کونسی راہ حق ہے اور خدا کی طرف جاتی ہے اور کونسی راہ باطل ہے اور شیطان سے ملاتی ہے |
Surah 33 : Ayat 70
يَـٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُواْ ٱتَّقُواْ ٱللَّهَ وَقُولُواْ قَوْلاً سَدِيدًا
اے ایمان لانے والو، اللہ سے ڈرو اور ٹھیک بات کیا کرو
Surah 33 : Ayat 71
يُصْلِحْ لَكُمْ أَعْمَـٰلَكُمْ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْۗ وَمَن يُطِعِ ٱللَّهَ وَرَسُولَهُۥ فَقَدْ فَازَ فَوْزًا عَظِيمًا
اللہ تمہارے اعمال درست کر دے گا اور تمہارے قصوروں سے درگزر فرمائے گا جو شخص اللہ اور اس کے رسولؐ کی اطاعت کرے اُس نے بڑی کامیابی حاصل کی
Surah 36 : Ayat 11
إِنَّمَا تُنذِرُ مَنِ ٱتَّبَعَ ٱلذِّكْرَ وَخَشِىَ ٱلرَّحْمَـٰنَ بِٱلْغَيْبِۖ فَبَشِّرْهُ بِمَغْفِرَةٍ وَأَجْرٍ كَرِيمٍ
تم تو اُسی شخص کو خبردار کر سکتے ہی جو نصیحت کی پیروی کرے اور بے دیکھے خدائے رحمان سے ڈرے اُسے مغفرت اور اجر کریم کی بشارت دے دو
Surah 39 : Ayat 33
وَٱلَّذِى جَآءَ بِٱلصِّدْقِ وَصَدَّقَ بِهِۦٓۙ أُوْلَـٰٓئِكَ هُمُ ٱلْمُتَّقُونَ
اور جو شخص سچائی لے کر آیا اور جنہوں نے اس کو سچ مانا، وہی عذاب سے بچنے والے ہیں1
1 | مطلب یہ ہے کہ قیامت کے روز اللہ تعالٰی کی عدالت میں جو مقدمہ ہونا ہے اس میں سزا پانے والے کون ہوں گے، یہ بات تم آج ہی سُن لو۔ سزا لازماً انہی ظالموں کو ملنی ہے جنہوں نے یہ جھوٹے عقیدے گھڑے کہ اللہ کے ساتھ اس کی ذات، صفات، اختیارات اور حقوق میں کچھ دوسری ہستیاں بھی شریک ہیں، اور اس سے بھی زیادہ بڑھ کر ان کا ظلم یہ ہے کہ جب ان کے سامنے سچائی پیش کی گئی تو انہوں نے اسے مان کر نہ دیا بلکہ اُلٹا اُسی کو جھوٹا قرار دیا جس نے سچائی پیش کی۔ رہا وہ شخص جو سچائی لایا اوروہ لوگ جنہوں نے اس کی تصدیق کی، تو ظاہر ہے کہ اللہ کی عدالت سے ان کے سزا پانے کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ |
Surah 39 : Ayat 34
لَهُم مَّا يَشَآءُونَ عِندَ رَبِّهِمْۚ ذَٲلِكَ جَزَآءُ ٱلْمُحْسِنِينَ
انہیں اپنے رب کے ہاں وہ سب کچھ ملے گا جس کی وہ خواہش کریں گے1 یہ ہے نیکی کرنے والوں کی جزا
1 | یہ بات ملحوظ رہے کہ یہاں فی ا لجنّۃ (جنّت میں)نہیں بلکہ عِنْدَ رَبِّھِمْ (ان کے رب کے ہاں) کے الفاظ ارشاد ہوئے ہیں۔ اور ظاہر ہے کہ اپنے رب کے ہاں تو بندہ مرنے کے بعد ہی پہنچ جاتا ہے۔ اس لیے آیت کا منشا یہ معلوم ہوتا ہے کہ جنت میں پہنچ کر ہی نہیں بلکہ مرنے کے وقت سے دخول جنت تک زمانے میں بھی مومن صالح کے ساتھ اللہ تعالٰی کا معاملہ یہی رہے گا۔ وہ عذاب برزخ سے، روز قیامت کی سختیوں سے، حساب کی سخت گیری سے، میدان حشر کی رسوائی سے، اپنی کوتاہیوں اور قصوروں پر مواخذہ سے لازماً بچنا چاہے گا اور اللہ جل شانہ اس کی یہ ساری خواہشات پوری فرمائے گا۔ |
Surah 39 : Ayat 35
لِيُكَفِّرَ ٱللَّهُ عَنْهُمْ أَسْوَأَ ٱلَّذِى عَمِلُواْ وَيَجْزِيَهُمْ أَجْرَهُم بِأَحْسَنِ ٱلَّذِى كَانُواْ يَعْمَلُونَ
تاکہ جو بد ترین اعمال انہوں نے کیے تھے انہیں اللہ ان کے حساب سے ساقط کر دے اور جو بہترین اعمال وہ کرتے رہے اُن کے لحاظ سے اُن کو اجر عطا فرمائے1
1 | نبی صلی اللہ علیہ و سلم پر جو لوگ ایمان لائے تھے، زمانہ جاہلیت میں ان سے اعتقادی اور اخلاقی دونوں ہی طرح کے بد ترین گناہ سرزد ہو چکے تھے۔ اور ایمان لانے کے بعد انہوں نے صرف یہی ایک نیکی نہ کی تھی کہ اُس جھوٹ کو چھوڑ دیا جسے وہ پہلے مان رہے تھے اور وہ سچائی قبول کر لی جسے حضورؐ نے پیش فرمایا تھا، بلکہ مزید براں انہوں نے اخلاق، عبادات اور معاملات میں بہترین اعمال صالحہ انجام دیے تھے۔ اللہ تعالٰی فرماتا ہے کہ ان کے وہ بدترین اعمال جو جاہلیت میں ان سے سرزد ہوئے تھے ان کے حساب سے محو کر دیے جائیں گے، اور ان کو انعام ان اعمال کے لحاظ سے دیا جائے گا جو ان کے نامہ اعمال میں سب سے بہتر ہوں گے۔ |
Surah 65 : Ayat 5
ذَٲلِكَ أَمْرُ ٱللَّهِ أَنزَلَهُۥٓ إِلَيْكُمْۚ وَمَن يَتَّقِ ٱللَّهَ يُكَفِّرْ عَنْهُ سَيِّـَٔـاتِهِۦ وَيُعْظِمْ لَهُۥٓ أَجْرًا
یہ اللہ کا حکم ہے جو اُس نے تمہاری طرف نازل کیا ہے جو اللہ سے ڈرے گا اللہ اس کی برائیوں کو اس سے دور کر دے گا اور اس کو بڑا اجر دے1 گا
1 | یہ اگر چہ ایک عمومی نصیحت ہے جس کا اطلاق انسانی زندگی کے تمام حالات پر ہوتا ہے ، لیکن اس خاص سیاق و سباق میں اسے ارشاد فرمانے کا مقصد مسلمانوں کو خبردار کرنا ہے کہ اوپر جو احکام بیان کیے گۓ ہیں، ان سے خواہ تمہارے اوپر کتنی ہی ذمہ داریوں کا بوجھ پڑتا ہو، بہر حال خدا سے ڈرتے ہوۓ ان کی پیروی کرو، اللہ تمہارے کام آسان کرے گا، تمہارے گناہ معاف کے گا اور تمہیں بڑا اجر دے گا۔ ظاہر ہے کہ جن مطلقہ عورتوں کی عدت تین مہینے مقرر کی گئی ہے ان کا زمانہ عدت ان عورتوں کی بہ نسبت طویل تر ہو گا جن کی عدت تین حیض مقرر کی گئی ہے ۔ اور حاملہ عورت کا زمانہ عدت تو اس سے بھی کئی مہینے زیادہ ہو سکتا ہے ۔ اس پورے زمانے میں عورت کی سکونت اور اس کے نفقہ کی ذمہ داری اٹھانا، جبکہ آدمی اسے چھوڑ دینے کا ارادہ کر چکا ہو، لوگوں کو ناقابل برداشت بار محسوس ہو گا۔ لیکن جو بار اللہ سے ڈرتے ہوۓ ، اللہ کے احکام کی پیروی میں اٹھایا جاۓ ، اللہ کا وعدہ ہے کہ اپنے فضل سے وہ اس کو ہلکا کر دے گا اور اس کی اتنی بھاری جزا دے گا جو دنیا میں اٹھاۓ ہوۓ اس تھوڑے سے بار کی بہ نسبت بہت زیادہ گراں قدر ہو گی |
Surah 67 : Ayat 12
إِنَّ ٱلَّذِينَ يَخْشَوْنَ رَبَّهُم بِٱلْغَيْبِ لَهُم مَّغْفِرَةٌ وَأَجْرٌ كَبِيرٌ
جو لوگ بے دیکھے اپنے رب سے ڈرتے ہیں1، یقیناً اُن کے لیے مغفرت ہے اور بڑا اجر2
2 | یعنی خدا سے بالغیب ڈرنے کے دو لازمی نتائج ہیں۔ ایک یہ کہ جو قصور بھی بشری کمزوریوں کی بنا پر آدمی سے سر زد ہو گئے ہوں وہ معاف کر دیے جائیں گے، بشرطیکہ ان کی تہ میں خدا سے بے خوفی کار فرما نہ ہو۔ دوسرے یہ کہ جو نیک اعمال بھی انسان اس عقیدے کے ساتھ انجام دے گا اس پر وہ بڑا اجر پائے گا |
1 | یہ دین میں اخلاق کی اصل جڑ ہے۔ کسی کا برائی اس لیے بچنا کہ اس کی ذاتی رائے میں وہ برائی ہے، یا دنیا اسے برا سمجھتی ہے، یا اس کے ا رتکاب سے دنیا میں کوئی نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے، یا اس پر کسی دنیوی طاقت کی گرفت کا خطرہ ہے، یہ اخلاق کے لیے ایک بہت ہی ناپائیدار بنیاد ہے۔ آدمی کی ذاتی رائے غلط بھی ہو سکتی ہے، وہ اپنے کسی فلسفے کی وجہ سے ایک ا چھی چیز کو برا اور ایک بری چیز کو اچھا سمجھ سکتا ہے۔ دنیا کے معیار خیر و شر اول تو یکساں نہیں ہیں، پھر وہ وقتاً فوقتا بدلتے بھی رہتے ہیں، کوئی عالمگیر اور ازلی و ابدی معیار دنیا کے اخلاقی فلسفوں میں نہ آج پایا جاتا ہے نہ کبھی پایا گیا ہے۔ دنیوی نقصان کا اندیشہ بھی اخلاق کے لیے کوئی مستقل بنیاد فراہم نہیں کرتا۔ جو شخص برائی سے اس لیے بچتا ہو کہ وہ دنیا میں اس کی ذات پر مترتب ہونے والے کسی نقصان سے ڈرتا ہے وہ ایسی حالت میں اس کے ارتکاب سے باز نہیں رہ سکتا جبکہ اس سے کوئی نقصان پہنچنے کا اندیشہ نہ ہو۔ اسی طرح کسی دنیوی طاقت کی گرفت کا خطرہ بھی وہ چیز نہیں ہے جو انسان کو ایک شریف انسان بنا سکتی ہو۔ ہر شخص جانتا ہے کہ کوئی دنیوی طاقت بھی عالم الغیب و الشہادہ نہیں ہے۔ بہت سے جرائم اس کی نگاہ سے بچ کر کیے جا سکتے ہیں۔ اور ہر دنیوی طاقت کی گرفت سے بچنے کے بے شمار تدبیریں ممکن ہیں۔ پھر کسی دنیوی طاقت کے قوانین بھی تمام برائیوں سے قبیح تر ہیں جن پر وہ گرفت کرتے ہیں۔ اس لیے دین حق نے اخلاق کی پوری عمارت اس بنیاد پر کھڑی کی ہے کہ اس ان دیکھے خدا سے ڈر کر برائی سے ا جتناب کیا جائے جو ہر حال میں انسان کو دیکھ رہا ہے، جس کی گرفت سے انسان بچ کر کہیں نہیں جا سکتا جس نے خیر و شر کا ایک ہمہ گیر، عالمگیر اور مستقل معیار انسان کو دیا ہے۔ اسی کے ڈر سے بدی کو چھوڑتا اور نیکی اختیار کرنا وہ اصل بھلائی ہے جو دین کی نگاہ میں قابل قدر ہے۔ اس کے سوا کسی دوسری وجہ سے اگر کوئی انسان بدی نہیں کرتا، یا اپنی ظاہری شکل کے اعتبار سے جو افعال نیکی میں شمار ہوتے ہیں ان کو اختیار کرتا ہے تو آخرت میں اس کے یہ اخلاق کسی قدر اور وزن کے مستحق نہ ہوں گے، کیونکہ ان کی مثال اس عمارت کی سی ہے جو ریت پر تعمیر ہوئی ہو |