Ayats Found (9)
Surah 4 : Ayat 77
أَلَمْ تَرَ إِلَى ٱلَّذِينَ قِيلَ لَهُمْ كُفُّوٓاْ أَيْدِيَكُمْ وَأَقِيمُواْ ٱلصَّلَوٲةَ وَءَاتُواْ ٱلزَّكَوٲةَ فَلَمَّا كُتِبَ عَلَيْهِمُ ٱلْقِتَالُ إِذَا فَرِيقٌ مِّنْهُمْ يَخْشَوْنَ ٱلنَّاسَ كَخَشْيَةِ ٱللَّهِ أَوْ أَشَدَّ خَشْيَةًۚ وَقَالُواْ رَبَّنَا لِمَ كَتَبْتَ عَلَيْنَا ٱلْقِتَالَ لَوْلَآ أَخَّرْتَنَآ إِلَىٰٓ أَجَلٍ قَرِيبٍۗ قُلْ مَتَـٰعُ ٱلدُّنْيَا قَلِيلٌ وَٱلْأَخِرَةُ خَيْرٌ لِّمَنِ ٱتَّقَىٰ وَلَا تُظْلَمُونَ فَتِيلاً
تم نے اُن لوگوں کو بھی دیکھا جن سے کہا گیا تھا کہ اپنے ہاتھ روکے رکھو اور نماز قائم کرو اور زکوٰۃ دو؟ اب جو انہیں لڑائی کا حکم دیا گیا تو ان میں سے ایک فریق کا حال یہ ہے کہ لوگوں سے ایسا ڈر رہے ہیں جیسا خدا سے ڈرنا چاہیے یا کچھ اس سے بھی بڑھ کر1 کہتے ہیں خدایا! یہ ہم پر لڑائی کا حکم کیوں لکھ دیا؟ کیوں نہ ہمیں ابھی کچھ اور مہلت دی؟ ان سے کہو، دنیا کا سرمایہ زندگی تھوڑا ہے، اور آخرت ایک خدا ترس انسان کے لیے زیادہ بہتر ہے، اور تم پر ظلم ایک شمہ برابر بھی نہ کیا جائے گا2
2 | یعنی اگر تم خدا کے دین کی خدمت بجا لاؤ اور اس کی راہ میں جانفشانی دکھاؤ تو یہ ممکن نہیں ہے کہ خدا کے ہاں تمہارا اجر ضائع ہو جائے |
1 | اس آیت کے تین مفہُوم ہیں اور تینوں اپنی اپنی جگہ صحیح ہیں: ایک مفہُوم یہ ہے کہ پہلے یہ لوگ خود جنگ کے لیے بے تاب تھے۔ بار بار کہتے تھے کہ صاحب ہم پر ظلم کیا جا رہا ہے، ہمیں ستایا جا تا ہے ، مارا جاتا ہے، گالیاں دی جاتی ہیں، آخر ہم کب تک صبر کریں، ہمیں مقابلہ کی اجازت دی جائے۔ اُس وقت ان سے کہا جاتا تھا کہ صبر کرو اور نماز و زکوٰۃ سے ابھی اپنے نفس کی اصلاح کرتے رہو، تو یہ صبر و برداشت کا حکم ان پر شاق گزرتا تھا ۔ مگر اب جو لڑائی کا حکم دے دیا گیا تو انہی تقاضا کرنے والوں میں سے ایک گروہ دشمنوں کا ہجوم اور جنگ کے خطرات دیکھ دیکھ کر سہما جا رہا ہے۔ دوسرا مفہُوم یہ ہے کہ جب تک مطالبہ نماز اور زکوٰۃ اور ایسے ہی بے خطر کاموں کا تھا اور جانیں لڑانے کا کوئی سوال درمیان میں نہ آیا تھا یہ لوگ پکّے دیندار تھے۔ مگر اب جو حق کی خاطر جان جوکھوں کا کام شروع ہوا تو ان پر لرزہ طاری ہونے لگا۔ تیسرا مفہُوم یہ ہے کہ پہلے تو لُوٹ کھسُوٹ اور نفسانی لڑائیوں کے لیے ان کی تلوار ہر وقت نیام سے نکلی پڑتی تھی اور رات دن کا مشغلہ ہی جنگ و پیکار تھا۔ اُس وقت انہیں خونریزی سے ہاتھ روکنے اور نماز و زکوٰۃ سے نفس کی اصلاح کرنے کے لیے کہا گیا تھا۔ اب جو خدا کے لیے تلوار اُٹھانے کا حکم دیا گیا تو وہ لوگ جو نفس کی خاطر لڑنے میں شیر دل تھے، خدا کی خاطر لڑنے میں بُزدل بنے جاتے ہیں۔ وہ دستِ شمشیر زن جو نفس اور شیطان کی راہ میں بڑی تیزی دکھاتا تھا اب خدا کی راہ میں شل ہوا جاتا ہے۔ یہ تینوں مفہُوم مختلف قسم کے لوگوں پر چسپاں ہوتے ہیں اور آیت کے الفاظ ایسے جامع ہیں کہ تینوں پر یکساں دلالت کرتے ہیں |
Surah 6 : Ayat 32
وَمَا ٱلْحَيَوٲةُ ٱلدُّنْيَآ إِلَّا لَعِبٌ وَلَهْوٌۖ وَلَلدَّارُ ٱلْأَخِرَةُ خَيْرٌ لِّلَّذِينَ يَتَّقُونَۗ أَفَلَا تَعْقِلُونَ
دنیا کی زندگی تو ایک کھیل اور ایک تماشا ہے1، حقیقت میں آخرت ہی کا مقام اُن لوگوں کے لیے بہتر ہے جو زیاں کاری سے بچنا چاہتے ہیں، پھر کیا تم لوگ عقل سے کام نہ لو گے؟
1 | (اس کا یہ مطلب نہیں کہ دنیا کی زندگی میں کوئی سنجیدگی نہیں ہے ارو یہ محض کھیل اور تماشے کے طور پر بنائی گئی ہے۔ دراصل اس کا مطلب یہ ہے کہ آخرت کی حقیقی اور پائیدار زندگی کی مقابلہ میں یہ زندگی ایسی ہے جیسے کوئی شخص کچھ دیر کھیل اور تفریح میں دل بہلائے اور پھر اصل سنجیدہ کاروبار کی طرف واپس ہو جائے۔ نیز اسے کھیل اور تماشے سے تشبیہ اس لیے بھی دی گئی ہے کہ یہاں حقیقت کے مخفی ہونے کی وجہ سے بے بصیرت اور ظاہر پرست انسانوں کے لیے غلط فہمیوں میں مبتلا ہونے کے بہت سے اسباب موجود ہیں اور ان غلط فہمیوں میں پھنس کر لوگ حقیقت نفس الامری کے خلاف ایسے ایسے عجیب طرزِ عمل اختیار کرتے ہیں جن کی بدولت ان کی زندگی محض ایک کھیل اور تماشا بن کر رہ جاتی ہے۔ مثلاً جو شخص یہاں بادشاہ بن کر بیٹھتا ہے اس کی حیثیت حقیقت میں تھیئٹر کے اس مصنوعی بادشاہ سے مختلف نہیں ہوتی جو تاج پہن کر جلوہ افروز ہوتا ہے اور اس طرح حکم چلاتا ہے گویا کہ وہ واقعی بادشا ہے۔ حالانکہ حقیقی بادشاہی کی اس کو ہوا تک نہیں لگی ہوتی۔ ڈائرکٹر کے ایک اشارے پر وہ معزول ہوجاتا ہے ، قید کیا جاتا ہے اور اس کےقتل تک کا فیصلہ صادر ہو جاتا ہے۔ ایسے ہی تماشے اس دُنیا میں ہر طرف ہو رہے ہیں۔ کہیں کسی ولی یا دیوی کے دربار سے حاجت روائیاں ہو رہی ہیں، حالاں کہ وہاں حاجت روائی کی طاقت کا نام و نشان تک موجود نہیں۔ کہیں کوئی غیب دانی کے کمالات کا مظاہرہ کر رہا ہے، حالاں کہ غیب کے عِلم کا وہاں شائبہ تک نہیں۔ کہیں کوئی لوگوں کا رزاق بنا ہوا ہے ، حالاں کہ بیچارہ خود اپنے رزق کے لیے کسی اَور کا محتاج ہے۔ کہیں کوئی اپنے آپ کو عزّت اور ذلّت دینے والا ، نفع اور نقصان پہنچانے والا سمجھے بیٹھا ہے اور یوں اپنی کبریائی کے ڈنکے بجا رہا ہے گویا کہ وہی گردو پیش کی ساری مخلوق کا خدا ہے، حالاں کہ بندگی کی ذلت کا داغ اس کی پیشانی پر لگا ہوا ہے اور قسمت کا ایک ذرا سا جھٹکا اسے کبریائی کے مقام سے گر ا کر انہی لوگوں کے قدموں میں پامال کرا سکتا ہے جن پر وہ کل تک خدائی کر رہا تھا۔ یہ سب کھیل جو دینا کی چند روزہ زندگی میں کھیلے جارہے ہیں ، موت کی ساعت آتے ہی یکلخت ختم ہو جائیں گے اور اس سرحد سے پار ہوتے ہی انسان اُس عالَم میں پہنچ جائے گا جہاں سب کچھ عین مطابقِ حقیقت ہو گا اور جہاں دُنیوی زندگی کی ساری غلط فہمیوں کے چھلکے اتار کر ہر انسان کو دکھا دیا جائے گا کہ وہ صداقت کا کتنا جوہر اپنے ساتھ لایا ہے جو میزانِ حق میں کسی وزن اور کسی قدر و قیمت کا حامل ہو سکتا ہو |
Surah 7 : Ayat 128
قَالَ مُوسَىٰ لِقَوْمِهِ ٱسْتَعِينُواْ بِٱللَّهِ وَٱصْبِرُوٓاْۖ إِنَّ ٱلْأَرْضَ لِلَّهِ يُورِثُهَا مَن يَشَآءُ مِنْ عِبَادِهِۦۖ وَٱلْعَـٰقِبَةُ لِلْمُتَّقِينَ
موسیٰؑ نے اپنی قوم سے کہا "اللہ سے مدد مانگو اور صبر کرو، زمین اللہ کی ہے، اپنے بندوں میں سے جس کو چاہتا ہے اس کا وارث بنا دیتا ہے، اور آخری کامیابی انہی کے لیے جو اس سے ڈرتے ہوئے کام کریں"
Surah 7 : Ayat 169
فَخَلَفَ مِنۢ بَعْدِهِمْ خَلْفٌ وَرِثُواْ ٱلْكِتَـٰبَ يَأْخُذُونَ عَرَضَ هَـٰذَا ٱلْأَدْنَىٰ وَيَقُولُونَ سَيُغْفَرُ لَنَا وَإِن يَأْتِهِمْ عَرَضٌ مِّثْلُهُۥ يَأْخُذُوهُۚ أَلَمْ يُؤْخَذْ عَلَيْهِم مِّيثَـٰقُ ٱلْكِتَـٰبِ أَن لَّا يَقُولُواْ عَلَى ٱللَّهِ إِلَّا ٱلْحَقَّ وَدَرَسُواْ مَا فِيهِۗ وَٱلدَّارُ ٱلْأَخِرَةُ خَيْرٌ لِّلَّذِينَ يَتَّقُونَۗ أَفَلَا تَعْقِلُونَ
پھر اگلی نسلوں کے بعد ایسے نا خلف لوگ ان کے جانشین ہوئے جو کتاب الٰہی کے وارث ہو کر اِسی دنیائے دنی کے فائدے سمیٹتے ہیں اور کہہ دیتے ہیں کہ توقع ہے ہمیں معاف کر دیا جائے گا، اور اگر وہی متاع دنیا پھر سامنے آتی ہے تو پھر لپک کر اسے لے لیتے ہیں1 کیا ان سے کتاب کا عہد نہیں لیا جا چکا ہے کہ اللہ کے نام پر وہی بات کہیں جو حق ہو؟ اور یہ خود پڑھ چکے ہیں جو کتاب میں لکھا ہے2 آخرت کی قیام گاہ تو خدا ترس لوگوں کے لیے ہی بہتر ہے3، کیا تم اتنی سی بات نہیں سمجھتے؟
3 | اس آیت کے دو ترجمے ہو سکتے ہیں ۔ ایک وہ جو ہم نے متن میں اختیار کیا ہے۔ دوسرا یہ کہ ”خدا ترس لوگوں کے لیے تو آخرت کی قیام گاہ ہی بہتر ہے“۔ پہلے ترجمہ کے لحاظ سے مطلب یہ ہو گا کہ مغفرت کسی کا ذاتی یا خاندانی اجارہ نہیں ہے، یہ کسی طرح ممکن نہیں ہے کہ تم کام تو وہ کرو جو سزا دینے کے لائق ہوں مگر تمہیں آخرت میں جگہ مل جائے اچھی محض اس لیے کہ تم یہودی یا اسرائیلی ہو۔ اگر تم میں کچھ بھی عقل موجود ہو تو تم خود سمجھ سکتے ہو کہ آخرت میں اچھا مقام صرف اُنہی لوگوں کو مل سکتا جو دنیا میں خدا ترسی کے ساتھ کام کریں۔ رہا دوسرا ترجمہ تو اس کے لحاظ سے مطلب یہ ہو گا کہ دنیا اور اس کے فائدوں کو آخرت پر ترجیح دینا تو صرف اُن لوگوں کا کام ہے جو نا خدا ترس ہوں، خدا ترس لوگ تو لازماً دنیا کی مصلحتوں پر آخرت کی مصلحت کو اور دنیا کے عیش پر آخرت کی بھلائی کو تر جیح دیتے ہیں |
2 | یعنی یہ خود جانتے ہیں کہ توراة میں کہیں بھی بنی اسرائیل کے لیے نجات کے غیر مشروط پروانے کا ذکر نہیں ہے۔ نہ خدا نے کبھی ان سے یہ کہا اور نہ ان کے پیغمبروں نے کبھی ان کو یہ اطمینان دلایا کہ تم جو چاہو کرتے پھرو بہر حال تمہاری مغفرت ضرور ہو گی ۔ پھر آخر انہیں کیا حق ہے کہ خدا کی طرف وہ بات منسوب کریں جو خود خدا نے کبھی نہیں کہی حالانکہ ان سے یہ عہد لیا گیا تھا کہ خدا کے نام سے کوئی بات خلاف ِ حق نہ کہیں گے |
1 | یعنی گناہ کرتے ہیں اور جانتے ہیں کہ گناہ ہے مگر اس بھروسے پر اس کا ارتکاب کرتے ہیں کہ ہماری تو کسی نہ کسی طرح بخشش ہو ہی جائے گی کیونکہ ہم خدا کے چہیتے ہیں اور خواہ ہم کچھ ہی کریں بہر حال ہماری مغفرت ہونی ضروری ہے۔ اسی غلط فہمی کا نتیجہ ہے کہ گناہ کرنے کے بعد وہ نہ شرمندہ ہوتے ہیں نہ توبہ کرتے ہیں بلکہ جب پھر ویسے ہی گناہ کا موقع سامنے آتا ہے تو پھر اس میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ بد نصیب لوگ ! اُس کتاب کے وارث ہوئے جو اُن کو دنیا کا امام بنانے والی تھی، مگر ان کی کم ظرفی اور پست خیالی نے اس نسخہ کیمیا کو لے کر دنیا کی متاعِ حقیر کمانے سے زیادہ بلند کسی چیز کا حوصلہ نہ کیا اور بجائے اس کے کہ دنیا میں عدل وراستی کے علمبردار اور خیر و صلاح کے رہنما بنتے ، محض دنیا کے کُتے بن کر رہ گئے |
Surah 11 : Ayat 49
تِلْكَ مِنْ أَنۢبَآءِ ٱلْغَيْبِ نُوحِيهَآ إِلَيْكَۖ مَا كُنتَ تَعْلَمُهَآ أَنتَ وَلَا قَوْمُكَ مِن قَبْلِ هَـٰذَاۖ فَٱصْبِرْۖ إِنَّ ٱلْعَـٰقِبَةَ لِلْمُتَّقِينَ
اے محمدؐ، یہ غیب کی خبریں ہیں جو ہم تمہاری طرف وحی کر رہے ہیں اس سے پہلے نہ تم ان کو جانتے تھے اور نہ تمہاری قوم، پس صبر کرو، ا نجام کار متقیوں ہی کے حق میں ہے1
1 | یعنی جس طرح نوح اور ان کے ساتھیوں ہی کا آخر کار بول بالا ہوا، اسی طرح تمہارا ااور تمہارے ساتھیوں کا بھی ہو گا۔ خدا کا قانون یہی ہے کہ ابتداءِ کار میں دشمنانِ حق خواہ کتنے ہی کامیاب ہوں مگر آخری کامیابی صرف ان لوگوں کا حصہ ہوتی ہے جو خدا سے ڈر کر فکر و عمل کی غلط راہوں سے بچتے ہوئے مقصدِ حق کے لیے کام کرتے ہیں۔ لہٰذا اِس وقت جو مصائب و شدائد تم پر گزر رہے ہیں جن مشکلات سے تم دوچار ہو رہے ہو اور تمہاری دعوت کو دبانے میں تمہارے مخالفوں کو بظاہر جو کامیابی ہوتی نظر آرہی ہے اس پر بد دل نہ ہو بلکہ ہمت اور صبر کے ساتھ اپنا کام کیے چلے جاؤ |
Surah 12 : Ayat 109
وَمَآ أَرْسَلْنَا مِن قَبْلِكَ إِلَّا رِجَالاً نُّوحِىٓ إِلَيْهِم مِّنْ أَهْلِ ٱلْقُرَىٰٓۗ أَفَلَمْ يَسِيرُواْ فِى ٱلْأَرْضِ فَيَنظُرُواْ كَيْفَ كَانَ عَـٰقِبَةُ ٱلَّذِينَ مِن قَبْلِهِمْۗ وَلَدَارُ ٱلْأَخِرَةِ خَيْرٌ لِّلَّذِينَ ٱتَّقَوْاْۗ أَفَلَا تَعْقِلُونَ
اے محمدؐ، تم سے پہلے ہم نے جو پیغمبر بھیجے تھے وہ سب بھی انسان ہی تھے، اور انہی بستیوں کے رہنے والوں میں سے تھے، اور اُنہی کی طرف ہم وحی بھیجتے رہے ہیں پھر کیا یہ لوگ زمین میں چلے پھرے نہیں ہیں کہ اُن قوموں کا انجام انہیں نظر نہ آیا جو ان سے پہلے گزر چکی ہیں؟ یقیناً آخرت کا گھر اُن لوگوں کے لیے اور زیادہ بہتر ہے جنہوں نے (پیغمبروں کی بات مان کر) تقویٰ کی روش اختیار کی کیا اب بھی تم لوگ نہ سمجھو گے؟
Surah 20 : Ayat 132
وَأْمُرْ أَهْلَكَ بِٱلصَّلَوٲةِ وَٱصْطَبِرْ عَلَيْهَاۖ لَا نَسْــَٔلُكَ رِزْقًاۖ نَّحْنُ نَرْزُقُكَۗ وَٱلْعَـٰقِبَةُ لِلتَّقْوَىٰ
اپنے اہل و عیال کو نماز کی تلقین کرو1 اور خود بھی اس کے پابند رہو ہم تم سے کوئی رزق نہیں چاہتے، رزق تو ہم ہی تمہیں دے رہے ہیں اور انجام کی بھلائی تقویٰ ہی کے لیے ہے2
2 | یعنی ہم نماز پڑھنے کے لیے تم سے اس لیے نہیں کہتے ہیں کہ اس سے ہمارا کوئی فائدہ ہے۔ فائدہ تمہارا اپنا ہی ہے، اور وہ یہ ہے کہ تم میں تقویٰ پیدا ہو گا جو دنیا اور آخرت دونوں ہیں میں آخری اور مستقل کامیابی کا وسیلہ ہے۔ |
1 | یعنی تمہارے بال بچے بھی اپنی تنگ دستی و خستہ حالی کے مقابلہ میں ان حرام خوروں کے عیش و عشرت کو دیکھ کر دل شکستہ نہ ہوں۔ ان کو تلقین کرو کہ نماز پڑھیں۔ یہ چیز ان کے زاویۂ نظر کو بدل دے گی۔ ان کے معیار قدر کو بدل دے گی۔ ان کی تو جہالت کا مرکز بدل دے گی۔ وہ پاک رزق پر صابر و قانع ہو جائیں گے اور اس بھلائی کو جو ایمان و تقویٰ سے حاصل ہوتی ہے اس عیش پر ترجیح دینے لگیں گے جو فسق و فجور اور دنیا پرستی سے حاصل ہوتا ہے |
Surah 28 : Ayat 83
تِلْكَ ٱلدَّارُ ٱلْأَخِرَةُ نَجْعَلُهَا لِلَّذِينَ لَا يُرِيدُونَ عُلُوًّا فِى ٱلْأَرْضِ وَلَا فَسَادًاۚ وَٱلْعَـٰقِبَةُ لِلْمُتَّقِينَ
وہ آخرت کا گھر1 تو ہم اُن لوگوں کے لیے مخصوص کر دیں گے جو زمین میں اپنی بڑائی نہیں چاہتے2 اور نہ فساد کرنا چاہتے ہیں3 اور انجام کی بھَلائی متقین ہی کے لیے ہے4
4 | یعنی ان لوگوں کےلیے جوخدا سےڈرتے ہیں اوراس کی نافرمانی سے پرہیز کرتےہیں۔ |
3 | فساد سےمرد انسانی زندگی کےنظام کاوہ بگاڑ ہےجوحق سےتجاوز کرنے کےنتیجے میں لازمََا رونما ہے۔ خداکی بندگی اوراس کےقوانین کی اطاعت سےنکل کرآدمی جوکچھ بھی کرتا ہےوہ سراسر فساد ہی فساد ہے۔ اسی کاایک جُزوہ فسادبھی ہےجوحرام طریقوں سےدولت سمیٹنے اورحرام راستون میںخرچ کرنے سے برپا ہوتا ہے۔ |
2 | یعنی جوخدا کی زمین میں اپنی بڑائی قائم کرنے کےخواہاں نہیں ہیں۔ جوسرکش وجبار اورمتکبر بن کرنہیں رہتے بلکہ بندے بن کررہتے ہیں اورخدا کےبندوں کواپنا بندہ بناکررکھنے کی کوشش نہیں کرے۔ |
1 | مراد ہے جنت جوحقیقی فلاح کامقام ہے۔ |
Surah 43 : Ayat 35
وَزُخْرُفًاۚ وَإِن كُلُّ ذَٲلِكَ لَمَّا مَتَـٰعُ ٱلْحَيَوٲةِ ٱلدُّنْيَاۚ وَٱلْأَخِرَةُ عِندَ رَبِّكَ لِلْمُتَّقِينَ
سب چاندی اور سونے کے بنوا دیتے1 یہ تو محض حیات دنیا کی متاع ہے، اور آخرت تیرے رب کے ہا ں صرف متقین کے لیے ہے
1 | یعنی یہ سیم و زر، جس کا کسی کو مل جانا تمہاری نگاہ میں نعمت کی انتہا اور قدر و قیمت کی معراج ہے ، اللہ کی نگاہ میں اتنی حقیر چیز ہے کہ اگر تمام انسانوں کے کفر کی طرف ڈھلک پڑنے کا خطرہ نہ ہوتا تو وہ ہر کافر کا کھر سونے چاندی کا بنا دیا جاتا۔ اس جنس فرومایہ کی فراوانی آخر کب سے انسان کی شرافت اور پاکیزگی نفس اور طہارت روح کی دلیل بن گئی ؟ یہ مال تو ان خبیث ترین انسانوں کے پاس بھی پایا جاتا ہے جن کے گھناؤنے کردار کی سڑاند سے سارا معاشرہ متعفن ہو کر رہ جاتا ہے ۔ اسے تم نے آدمی کی بڑائی کا معیار بنا رکھا ہے |